Thursday, April 18, 2024

Neelum Aapa

بڑا سا گھونگھٹ نکالے، ماتھے پہ ٹیکا لگاہے ، ہاتھوں پر مہندی سجائے ۔ وہ حسینہ اس کے ساتھ بیٹھی ہی اور وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہا تھا۔ خوشی سے مسکرا تا وہ ماضی میں کھو گیا۔ نیلم ادھر آؤ۔ تائی اماں نے اسے بلایا اور وہ بوتل کے جن کی طرح حاضر ۔ نیلم آپا اس گھر کی جگ آپا تھی ۔ایک کنال کے اس بڑے سے گھر میں تین بھائی رہائش پذیر تھے۔ بڑے بھائی کے دو بچے تھے بازل اور شامل ۔ دوسرے بھائی کے تین بچے تھے۔ نیلم ، عامر اور عادل۔ تیسرے بھائی کے بھی دو ہی بیٹے تھے ہاشم اور حاتم۔ اب اتفاق سے نیلم اس گھر کی واحد لڑ کی تھی اور ان سب لڑکوں میں سب سے بڑی بھی ۔ بازل اس سے صرف دودن چھوٹا تھا اور ہاشم آٹھ ماہ چھوٹا۔ باقی سب لڑ کے نیلم سے چار پانچ سال چھوٹے تھے تبھی سارے بچپن سے ہی اسے نیلم آیا بولتے بولتے سب کے منہ پہ نیلم آپاہی چڑھ گیا تھا۔ نیلم کو بھی اس نام کا ایسا اثر آیا تھا کہ آپا کا کردار نبھا رہی تھی ۔ بارہ تیرہ سالہ نیلم ہر کام میں طاق تھی۔سارا دن کام کر کر کے گھن چکر بنی ہوتی بھی تایا کے گھر سے نیلم کی پکار ہوتی تو بھی چچا کے گھر سے گھر کی واحد لڑکی نے بہت احسن طریقے سے سب ذمہ داری اٹھائی ہوئی تھی ۔ بازل اور ہاشم ساتھ ساتھ ہی رہتے ۔ بازل کی تو نیلم سے ہر وقت نوک جھوک چلتی وہ تو جان کرا سے آپا آپا کہتا اور وہ چڑ جاتی۔ وقت گزرتا رہاوہ کالج آئی اور پھر یونیورسٹی۔ بازل، نیلم اور ہاشم یونیورسٹی میں بھی اکٹھے پڑھے بس ڈیپارٹمنٹ الگ تھے۔ یونیورسٹی سے ہوسٹل جاتے اکثر نیلم اور ہاشم کی ملاقات ہوتی ۔۔ نہ جانے کب آنکھوں کا زاویہ بدلا وہ نیلم آپا سے نیلم جی ہوگئی۔ دل کا حال بدلتا ہے تو آنکھوں سے بھی دکھتا ہے۔ وہ نیلم جی کہنے لگا تو اسے عجیب سا لگا تھا وہ اس کی کلاس لینے لگی۔ تین انچ چھوٹا قد ہے آپ کا مجھ سے اب – یو نیورسٹی میں آپ کی دوستوں کے سامنے آپ کو آپا بولتا اچھا لگوں گا ؟ آنٹی سمجھیں گی وہ آپ کو ” اس نے دلیل دی تو وہ سمجھ گئی ۔ واقعی سب کے سامنے کہتا تو کتنی سبکی ہوتی ۔ کتنا مذاق اڑائیں گی لڑکیاں۔ یو نیورسٹی کے دن بھی پر لگا کراڑ گئے تھے۔ ہاشم تو اپنے دل کی بات بول ہی نہ پایا تھا۔ یونیورسٹی کے بعد جیسے ہی بازل کی جابلگی تائی اماں کو فورا نیلم کے رشتے کا خیال آیا۔ بازل کے بارے میں تو وہ کب سے سوچے بیٹھی تھیں ۔مگر بازل سے بات کی تو وہ ہتھے سے ہی اکھڑ گیا۔ پورے زمانے میں آپا ہی رہ گئی ہے شادی کرنے کے لیے؟ وہ جھلایا تھا۔سمجھ میں نہیں آیا عذر کیا پیش کرے۔ ارے دو دن کا فرق بھی کوئی فرق ہے؟ دو دن پہلے پیدا ہوگئی تو کیا کریں؟ اتنی اچھی لڑکی باہر کیوں دیں تایا ابا بھی مصر تھے۔ سارا گھر اکیلے ہی دیکھتی تھی۔ بھلا اپنی بچی سے اچھی کون لگتی۔ گھر کی لڑکی کو گھر میں رکھنے کے لیے مجھے قربانی کا بکرا بنائیں گے ۔“ نہیں پسند تو بول دو کہ کوئی اورلڑ کی دیکھیں ۔ تائی اماں خفاہ تھیں ۔ گھر کی لڑکی کی بے عزتی منظور نہ تھی ۔ شادی کر لی۔ وہ جھجکا۔ نہیں ۔۔ لوگ کیا کہیں گے ؟ دو دن بڑی لڑکی سےشادی کر لی -وہ جھجکا۔ نہیں ۔۔ بھاڑ میں گئے لوگ ۔ پاگل ہوا ہے کیا؟ تائی اماں کو غصّہ آ گیا۔ اماں نہیں ہوگا مجھ سے، سب باتیں کر یں گے۔ وہ آپا ہے آپا ہی رہے گی۔ ابھی بھی کہہ رہی ہوں مان جا۔ کوئی آ پا نہیں ہے تو نے ہی اس بچی کو بول بول کر آ پا بنادیا ہے۔اگر انکار ہے تو باہر دیکھیں گے۔“ بازل چاہتے ہوۓ بھی ہاں نہ کر سکا۔ نیلم کے رشتے کی بات اڑتی ہوئی باشم تکپہنچی تو وہ بھی میدان میں اتر آیا۔ ایا مجھے نیلم جی سے شادی کرنی ہے ۔ وہ سینہ تانے کھڑا تھا بے خوف۔۔ چٹا خ ….. ایک زور دارتھپٹر اس کے منہ پہ پڑا تھا۔ شرم نہیں آتی تجھے آٹھ ماہ بڑی ہے تجھ سے۔ آپا ہے آپا ۔ حیانہ آئی ایسی بات کہتے ۔ اباگرجے ۔ نہیں ہے کوئی آپا واپا۔ مجھے بس اس سے شادی کرنی ہے ۔ وہ بھی ضد پر اڑ گیا ۔ دماغ تو نہیں خراب تیرا؟ مار کھا کر بھی کہہ رہا ہے ادھر شادی کروں گا۔ ناک کٹواۓ گا برادری میں لوگ کیا کہیں گے؟ اتنی بڑی لڑکی سے بیاہ دیا۔ ابا سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔ ہمارے نبی نے بھی تو کی تھی بڑی عورت سے شادی کوئی گناہ تھوڑی ہے۔ اس نے دلیل دی۔ دین کو درمیان میں نہ لانا – ابا جی نے حکم دیا پر میں بھی میں تھا بولا کیوں نہ لاؤں شادی کروں گا تو صرف نیلم جی سے – بیشک مار دیں ین گھر سے نکال دیں میرا فیصلہ اٹل ہے – دو دن سے گھر کا ماحول کھچا کھچ تھا۔ ہاشم نے دودن تک بھوک ہڑتال کیے رکھی ۔ یہ اور بات کہ اس کے چھوٹے کزن کونوں کھدروں سے اسے کچھ نہ کچھ پکڑا جاتے کبھی ٹافی ، کبھی چیپس، کبھی جوس کا ڈبا تو کبھی کیک ۔ بس کھانے کو ہاتھ نہ لگایا تھا۔ بالآخر بڑوں کو ہار مانی پڑی تھی ۔نیلم خودا لگ پریشان تھی ۔ اس نے بھی ہاشم کو اس نظر سے نہ دیکھا تھا مگر اب دیکھ لینے میں کوئی حرج بھی نہ تھا۔ جب لڑکی کی کہیں بات پکی ہو جاۓ تو ذہن بناتے دیر بھی نہیں لگتی ۔اس نے بھی بڑوں کے فیصلے پر سر جھکا دیا تھا۔ نیلم دلہن بنی شرمائی سی ہاشم کے پہلو میں بیٹھی تھی اس پر روپ بھی ٹوٹ کر آیا تھا۔ وہ تو ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔ بازل نے بھیگی آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھا۔ وہ اسی سوچ میں پڑار ہالوگ کیا کہیں گے اور ہاشم نے لوگوں کی پروانہ کی اور اپنی محبت جیت لی۔ اس کی کمزور محبت نیلم کے دل کا دروازہ پار نہ کر سکی تھی بس دہلیز پر ہی سسک سسک کر مرگی تھی۔ اس نے آنسو پونچھے اور ہاشم نے چمکتی ہیرے کی انگوٹھی نیلم کے نازک حنائی ہاتھ میں پہنا دی وہ دونوں ہی مسکرا اٹھے تھے۔

Latest Posts

Related POSTS