جب وہ پیدا ہوئی تو جس نے بھی اسے دیکھا دیکھتا رہ گیا۔ جب بچّے دُنیا میں آتے ہیں تو نہایت خوب صورت، معصوم اور بڑے پیارے لگتے ہیں۔ چاہے ان کی رنگت اور ناک نقشہ کیسا ہی ہو لیکن وہ غیرمعمولی حسین اور چاند کا ٹکڑا تھی۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے بنانے والے نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنا کر دُنیا میں بھیجا ہے۔
جس نے بھی اسے دیکھا اس کی بلائیں لیں، نظر اُتاری اور اس کے ماں باپ کو مشورہ دیا۔ ’’اس کا نام چاندنی رکھ دو… یہ اس قدر حسین ہے کہ چودھویں کا چاند بھی شرما جائے۔‘‘
پھر اس کا نام چاندنی رکھ دیا گیا اور وہ چاندنی کے نام سے پکاری جانے لگی۔
لوگ اس کے ماں باپ پر رشک کرتے تھے، لیکن اس کی ماں کہتی تھی۔ ’’کاش! اس کی بیٹی اتنی حسین نہ ہوتی۔‘‘
لوگ اس کی ماں کی بات سن کر حیرت اور تعجب سے پوچھتے۔ ’’یہ تم ناشکری کی بات کیوں کرتی ہو۔‘‘
’’اس لیے کہ ایک تو ہم لوگ بہت غریب ہیں… غریب کی بیٹی جاڑے کی چاندنی ہو تی ہے۔ اس کے نصیب اچھے نہیں ہوتے۔ چاہے لاکھ حسین ہو، اس کی شادی کسی ڈرائیور، کنڈیکٹر، چوکیدار اور ایک عام سے ملازم سے ہوگی اور پھر اسے شادی کے بعد کسی گھر میں گزر اوقات کے لیے ملازمہ کا کام کرنا ہوگا۔ یہ حسن کی دولت کسی کام کی نہیں۔‘‘
اس کی ماں کا خیال تھا کہ بچّے جب بڑے ہوتے ہیں تو ان کا حسن پھیکا پڑتا جاتا ہے۔ دل کشی ماند پڑ جاتی ہے اور پھر غریب کی بیٹی کے لیے جہیز کی ضرورت ہوتی ہے… لڑکی لاکھ حسین ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ لڑکے والے جہیز مانگتے ہیں۔ کوئی بھی بغیر جہیز کے بہو بنا کر نہیں لے جاتا۔
غریبوں کی جانے کتنی بیٹیاں گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں اور گھروں میں نوکرانیوں کا کام کرتی ہیں۔ ان کی شادی ہو بھی جاتی ہے تو اس کا شوہر اور ساس نندیں، اسے گھروں میں کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ کاش! اس کی جگہ لڑکا پیدا ہوتا۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ ماں کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ چاندنی کا حسن وقت کے ساتھ ماند پڑتا جائے گا۔ اس لیے کہ دو وقت پیٹ بھر کے کھانے کو میسر نہیں۔ جہاں آسودگی اور فراغت ہوتی ہے وہاں لڑکیاں حسن کا نمونہ بن جاتی ہیں۔
چاندنی وقت کے ساتھ ساتھ حسین اور پرکشش رہی۔ وہ ماں کے ساتھ گھروں میں جا کر اس کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ ان گھروں کی نوجوان لڑکیاں اس پر رشک کرتی تھیں۔
’’چاندنی، تیرا جسم کتنا متناسب، چھریرا اور پرکشش ہے۔ کیا تو ورزش کرتی ہے؟‘‘ وہ حیران ہو کر پوچھتیں۔
’’نہیں بی بی، میں کوئی ورزش نہیں کرتی… میرا کام کسی ورزش سے کم نہیں ہوتا، جھاڑو دینا، صفائی ستھرائی، پونچھا لگانا، کپڑے اور برتن دھونا… بچا کھچا کھانا، روکھی سوکھی اور پیدل آنا جانا۔‘‘
چاندنی کو اس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ یہ جوان لڑکیاں جو شادی کے بعد موٹی بھدّی ہو جاتی تھیں اور اپنا حسن قائم رکھنے کے لیے بیوٹی پارلر جاتی تھیں، ان سے بڑا بے وقوف کوئی اور نہیں۔ یہ بیوٹی پارلر والے دونوں ہاتھوں سے انہیں لوٹتے ہیں۔ وہ دل ہی دل میں ان پر ہنستی تھی۔
کبھی کوئی لڑکی اس کے حسن سے متاثر ہو کر مشورہ دیتی۔ ’’چاندنی تو شو بزنس کی دُنیا میں جا کر قسمت آزمائی کیوں نہیں کرتی؟‘‘
’’یہ کیا ہوتی ہے؟ اس سے کیا حاصل ہوگا؟‘‘
’’فلم اور ٹی وی کی دُنیا۔ اس میں عزت شہرت کے علاوہ دولت بھی خوب ملتی ہے چوں کہ تو نہایت حسین اور پرکشش ہے تجھے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کمرشل میں کام کرے گی تو تیرا ہر جگہ چرچا ہو جائے گا۔ تیرا مستقبل بن جائے گا۔ تیرے پاس بنگلہ اور گاڑی ہوگی۔ پھر تجھے گھروں میں جا کر کام کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘‘
’’باجی… یہ بات آنٹی نے بھی ماں سے کہی تھی۔ ویسے کئی کام کرنے والی لڑکیوں کے ہاں ٹی وی ہے، لیکن ہمارے ہاں ریڈیو تک نہیں ہے۔ ماں نے مجھے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ چاندنی فلمی دُنیا ایک گندا تالاب ہے۔ اس میں جو بھی نہاتا ہے وہ گندا ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس دُنیا میں دولت، شہرت اور عزت اپنا سب کچھ کھو دینے سے ملتی ہے۔ ہمارے لیے عزت ہی سب کچھ ہے۔ تم ان کی باتوں میں نہ آنا۔ اگر تو نے اس دُنیا میں جانے کا سوچا تو تیرا باپ ہی نہیں میں خود تیرا گلا گھونٹ دوں گی۔ دیکھ… عزت سے بڑھ کر عورت کے لیے کوئی اور دولت نہیں۔‘‘
اس کی یہ بات سن کر لڑکیاں اپنا سر پیٹ لیتیں اور کہتیں۔ ’’تیری ماں پاگل ہے۔ دُنیا کہاں جا رہی ہے، اسے کچھ خبر ہی نہیں۔ وہ تیرا حسن، جوانی اور مستقبل تباہ کر رہی ہے۔‘‘
چاندنی ان کی باتوں سے زیادہ اپنی ماں کی باتوں کو اہمیت دیتی تھی۔ اسے ایک عورت نے جس کے گھر میں سب کچھ تھا لیکن ٹی وی نہیں تھا اس سے وہی بات کہتی جو اس کی ماں کہتی تھی کہ تو اس دُنیا میں جانے کا بھولے سے بھی نہیں سوچنا۔ اس سے بری دُنیا کوئی اور نہیں۔ یہ زندگی، یہ دُنیا چار دن کی ہے۔ اس دُنیا میں بھیڑیا صفت مرد بھرے ہوئے ہیں۔
چاندنی جب کسی کام سے باہر نکلتی، اکیلی ہوتی یا ماں ساتھ ہوتی تو ایک بات محسوس کرتی کہ اوباش قسم کے مرد اسے میلی نظروں سے دیکھتے ہیں، جیسے وہ بے حجاب چلی جا رہی ہو۔ اسے ان میلی نظروں سے بڑا خوف آتا۔ بڑا ڈر لگتا تھا۔ لیکن وہ کیا کرتی۔ ان گھروں کے مرد بھی اُسے گھورا کرتے تھے جہاں وہ کام کرتی تھی۔ تب وہ سوچتی کہ کاش اتنی حسین اور پرکشش نہ ہوتی، بلکہ کالی اور بدصورت ہوتی جیسے بھکارنیں ہوتی ہیں۔ اس طرح وہ ان غلیظ نظروں سے محفوظ رہتی۔
لیکن اس میں ایک ایسی عادت اور کمزوری تھی، جس سے اپنے آپ کو باز نہیں رکھ سکتی تھی۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور اس کی یہ عادت اور کمزوری پختہ ہوتی جا رہی تھی۔
اس نے بہت کوشش کی تھی اس سے اپنی جان چھڑا لے۔ وہ حیران، پریشان تھی کہ اس کے پاس ریڈیو ہے اور نہ ٹی وی، اس کے باوجود وہ اس لت کا شکار ہوگئی تھی۔ ہیروئن کے نشے کی طرح…!
جب کسی گھر میں کام کرنے جاتی تو وہاں ٹی وی چل رہا ہوتا۔ وہ فلم اور ڈرامے نہیں دیکھتی تھی۔ اسے کوئی دلچسپی تھی اور نہ اس کے پاس اتنا وقت ہوتا کہ کام کاج چھوڑ کر دیکھنے بیٹھ جائے۔
لیکن جب ٹی وی پر کوئی گلوکارہ کوئی گیت گا رہی ہوتی تو وہ اُسے دیکھے اور سنے بغیر نہیں رہتی تھی۔ وہ بڑے شوق اور دلچسپی سے سنتی اور اس کا ایک ایک لفظ یاد کر لیتی۔ وہ گانے کا بڑا اچھا، نفیس اور اعلیٰ ذوق رکھتی تھی۔ کبھی وہ غلط بول زبان سے نہیں نکالتی تھی، ادائیگی اور تلفظ کا بڑا خیال رکھتی حالاں کہ وہ پڑھی لکھی نہیں تھی۔ اس نے اُستانی سے قاعدہ پڑھا تھا اور لکھنا سیکھا تھا۔
چاندنی کام کرتے ہوئے سارے وقت کچھ نہ کچھ گنگناتی رہتی۔
اسے فلم کے مشہور و مقبول گیت، اَزبر تھے۔ وہ پورا گانا آخر تک سنا سکتی تھی۔ ایسا نہ تھا کہ کوئی ایک بول درمیان میں رہ جائے۔ وہ یہ بھی بتا سکتی تھی یہ کس فلم کا ہے اور اُسے کس گلوکار نے گایا ہے۔ حالاں کہ اس نے کوئی فلم نہیں دیکھی تھی۔ ماں باپ نے کبھی اسے سینما ہال میں کوئی فلم نہیں دکھائی تھی۔
آج کون سا گھر ایسا تھا جو ٹی وی کی وجہ سے سینما ہال بنا ہوا نہیں تھا۔ ہر سائز کے چھوٹے اور بڑے اسکرین کے دیوار گیر ٹی وی سیٹ تھے۔ لوگ سینما ہال جانے کی بجائے گھر میں ڈراموں اور فلموں کا لطف اُٹھاتے تھے۔ اس کے لیے یہ بات نہ صرف تعجب خیز بلکہ شرمناک تھی کہ جوان لڑکیاں، بہن بھائی، بہو بیٹیاں اور ماں باپ ساتھ بیٹھ کر چینلز پر ایسی فلمیں دیکھتے تھے کہ اس کی پیشانی عرق آلود ہو جاتی لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ وہ اس طرح سے لطف اُٹھاتے اور دیکھتے جیسے کوئی معمول کی بات ہو۔ وہ یہ بھی دیکھتی ان کے ملبوسات اور فیشن انہیں بے حجابی کی طرف لے جا رہے تھے۔
جب وہ اپنی اُستانی سے کہتی تو اُستانی اس سے ناصحانہ انداز میں کہتی۔ ’’چاندنی۔ یہ بے حجابی، بے شرمی اس لیے بڑھ گئی ہے کہ گھروں میں حرام کی کمائی آ گئی ہے۔ حرام کی کمائی کے بیج سے جو درخت اُگتا ہے تو اس کی شاخیں برائیوں سے لدی ہوتی ہیں۔ کسی بات کی کوئی تفریق نہیں رہتی۔ آنکھوں کا پانی مر جاتا ہے۔ گھروں کا چین و سکون غارت ہو جاتا ہے۔ گھر میں خیر و برکت نہیں رہتی۔ سن! تو گھروں میں کام کرنے جاتی ہے تو اپنے کام سے کام رکھ۔ کام ختم کرکے وہاں ایک منٹ بھی ٹھہر اور نہ ٹی وی دیکھنا۔‘‘
اس نے اُستانی کی باتوں کو گرہ میں باندھا ہوا تھا۔ اس کی ماں بھی اس سے کہا کرتی تھی کہ پہلے لوگ حلال رزق کماتے اور کھاتے تھے۔ جب سے حرام کی کمائی آ گئی ہے۔ شادی بیاہ پر لاکھوں آنکھیں بند کر کے خرچ کر دیتے ہیں، کسی ضرورت مند اور محتاجوں اور بیماروں کو سو روپے دیتے ہوئے ان کی ماں مرتی ہے۔ اس لیے دیکھ… جیسی شادیاں ہو رہی ہیں ویسی طلاقیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ گھروں کا سکون بھی غارت ہوتا جارہا ہے تو ابھی ان باتوں کے بارے میں سوچا نہ کر۔
اس لیے چاندنی نے اپنی ذات کو گانوں کا محور بنا لیا تھا، وہ کسی سیارے کی طرح ان کے گرد پرواز کرتی۔ یہ اس کی اپنی دُنیا تھی، جس میں اسے بڑا سکون محسوس ہوتا۔ وہ ایک اَنجانی اور بے پایاں خوشی اور سرشاری محسوس کرتی۔ دُنیا کہاں جا رہی ہے اسے اس کی کوئی فکر اور پروا نہیں رہی تھی۔ وہ محض اپنے کام سے غرض رکھتی تھی۔
وہ برتن مانجھتے وقت گاتی اور برتن دھوتے وقت انہیں برتنوں سے ٹکراتی اور چمچوں سے اس طرح ہلکے ہلکے بجاتی جیسے کوئی موسیقی اور سُر پیدا کر رہی ہو۔
وہ پوتڑے دھوتے وقت بھی گاتی جیسے ان کی بو کو دُور کر رہی ہو اور اس طرح اسے کوئی کراہت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اس کی توجہ گانے کی طرف مبذول ہو جاتی تھی۔
صفائی کرتے وقت ایسا کوئی گیت گنگنانے لگتی جو اسے تھکن کا احساس نہ ہونے دے۔ یہ گیت اسے تندہی سے مصروف کر دیتا جس سے گھر آئینے کی طرح چمک اُٹھتا تھا۔
صرف اس پر بس نہیں کرتی تھی، بلکہ ایک جگہ سے دُوسری جگہ کرسی رکھتے وقت بھی نغمہ سرا ہو جاتی، جیسے کسی ڈرامے میں اپنی عکس بندی کروا رہی ہو۔ وہ تساہلی سے کام بالکل نہیں لیتی تھی۔
کتنا ہی کام ہوتا اس کی پیشانی پر بل پڑتا اور نہ وہ کسی قسم کی ناگواری ظاہر ہونے دیتی۔ اُلٹا سیدھا اور ناتمام کام کرکے اپنی جان چھڑانا اس کا مقصد نہ تھا۔ وہ اس طرح کام سرانجام دیتی، جیسے یہ کام نہیں کوئی فرض ہو جو اسے ہر حالت میں انجام دینا ہے۔ بس وہ گنگناتی جاتی اور کام میں کھو جاتی۔ اگر اسے یہ گنگنانے کی عادت کسی منشیات کے نشے کی طرح نہ
ہوتی اور اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو اتنا کام انجام دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔
اسے گانے سے باز رکھا جاتا اور ٹوکا جاتا کہ یہ کیا ہر وقت ٹیپ ریکارڈر کی طرح بجتی رہتی ہو تو وہ اک دم گونگی ہو جاتی، لیکن کام ضرور کرتی رہتی مگر اس طرح سے بے جان ہو جاتی، جیسے اس کے جسم سے رُوح کھینچ لی گئی ہو اور اس کی بڑی بڑی گہری سیاہ آنکھوں میں نمی آ جاتی۔ وہ جذباتی ہو جاتی لیکن احتجاج نہیں کرتی تھی، اور نہ ہی دبی زبان سے کہتی کہ گنگنانے میں کیا حرج ہے؟ میں کوئی گلا پھاڑ کے تو نہیں گا رہی تھی۔ میری گنگناہٹ کوئی گرم گرم سیسہ تو ہے نہیں جو کانوں کو پھاڑتا جائے۔
اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس سے کسی کام کے لیے کہا گیا ہو اور اس نے صاف انکار کر دیا ہو۔
’’چاندنی… وہ دیکھو، غسل خانے میں چوہا مرا پڑا ہے۔ مہتر نظر نہیں آ رہا اور اب وہ صبح ہی آئے گا، تم ایسا کرو کہ اسے باہر گلی میں پھینک دو۔ غسل خانے میں جانا مشکل ہے۔‘‘
وہ اسے اس طرح اُٹھا کر پھینک دیتی جیسے وہ مرا ہوا چوہا نہ ہو بلکہ کسی بسکٹ کا خالی ڈبا ہو اور پھر وہاں فنائل چھڑک کر پونچھا لگا دیتی۔
کسی تلخ اور تیز و تند سوال کا جواب دینا ہو تو اس کی شیریں زبان سے پہلا لفظ ’’جی‘‘ ہی نکلتا۔ ایسا لگتا کہ اسے غصہ آتا ہے اور نہ برا لگتا ہے۔
لیکن جب کبھی اس کا دو برس کا لڑکا کاشف اس کے ساتھ ہوتا اور اس کی دل جوئی نہ کی جاتی تو چاندنی منہ سے کچھ نہ کہتی مگر دل برداشتہ ہو جاتی۔ وہ سوچتی کہ بچّے تو بچّے ہی ہوتے ہیں۔ لوگ بلیوں اور مرغیوں کے چوزوں اور بکریوں کے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ یہ تو انسان کا اور میرا اپنا بچہ ہے۔
تب اس کا گانا خود بخود اس طرح بند ہو جاتا جیسے ٹیپ ریکارڈر کا بٹن دبا کر کیسٹ کو آف کر دیا گیا ہو۔ وہ اسے گود میں اُٹھا کر اس کے گالوں کو چومتی اور تھوڑی دیر تک سینے سے لگائے رکھتی۔ وہ جو گریبان میں ٹافی رکھ لاتی تھی وہ اپنے بیٹے کے منہ میں ڈال دیتی تھی۔
بعض لوگ کام کو دلچسپ بنانے اور اسے اچھی طرح سے انجام دینے کے لیے اکثر گاتے ہیں۔ جس سے انہیں ایک طرح سے توانائی ملتی۔ اس طرح چاندنی بھی آہستہ مگر دل کش انداز سے گاتی تھی۔ اسے یہ گانا کسی ٹانک کی طرح تازہ دم اور فرحت بخش کر دیتا تھا۔
٭…٭…٭
چودھری شوکت کی پہلی بیوی کا انتقال طویل علالت کے بعد ہوگیا تھا۔
چاندنی ان کی ملازمہ تھی اور گھر کا تمام کام کاج اُسی کو کرنا پڑتا تھا۔ چودھری شوکت نے اس کے ساتھ بے تکلف ہونے اور درمیانی فاصلہ کم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایسی کوئی تدبیر کرے کہ چاندنی غیرمحسوس انداز سے اس کی طرف مائل ہونے لگے۔ گو اس نے ایک شکاری کی طرح جال بچھانے کا آغاز کیا تھا، لیکن بات زیادہ بڑھ نہ سکی۔ کیوں کہ نئی چودھرائن آ گئی تھی۔
نئی چودھرائن حسین تھی۔ اسے جو پیچیدہ امراض لاحق تھے ڈاکٹروں نے سختی سے اسے بدپرہیزی سے منع کیا تھا لیکن اس نے اس کان سے سنا دُوسرے سے نکال دیا تھا۔ بدپرہیزی نے اسے دیمک کی طرح چاٹ لیا۔ پھر وہ دو برس کا لڑکا چھوڑ کر مر گئی۔ چودھری شوکت کی زندگی میں خلا پیدا ہوگیا۔
چاندنی بدستور ملازمت کرتی رہی۔ چھٹی کے روز معمول سے زیادہ کام ہوتا تھا۔ اس نے کبھی کام سے جی نہیں چرایا تھا اور اس گھر کو اپنا ہی گھر سمجھا تھا۔ پہلی اور دُوسری چودھرائن بھی اس سے بڑی محبت سے پیش آیا کرتیں۔ اس گھر کی خاطر اس نے کئی گھروں میں کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
جن گھروں سے پرانے ملبوسات ملتے وہ اسے نمایاں اور بے حجاب کر دیتے تھے۔ ڈھیلے ڈھالے لباس میں بھی وہ شعلہ مجسم دکھائی دیتی تھی۔ وہ کیا کرتی۔ لباس پہننا اس کی مجبوری تھی۔ لباس خریدنا تو درکنار اس کی سلائی کی اُجرت اتنی تھی کہ وہ دینے سے قاصر تھی۔ اس کے سوا چارہ نہیں تھا کہ پرانے ملبوسات استعمال کرے۔ وہ مردوں کی نظروں سے حددرجہ خائف اور سراسیمہ ہو کر نظریں نیچی کر کے چلتی تھی۔
انہی دِنوں اس کا شوہر چل بسا اور دو برس کا لڑکا کاشف یتیم ہوگیا۔ یہ بڑا جان لیوا صدمہ تھا۔ صبر اور رونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ مگر اس کی وضع داری میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جیسے تیسے کرکے عدت کے دن کاٹے۔ اس بھری دُنیا میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اسے سہارا دیتا۔ یہ پہاڑ سی زندگی اسے ہر صورت کاٹنا تھی اور اپنے جگر کے ٹکڑے کی پرورش کرنی تھی۔
کاشف ایک نوکرانی کا بیٹا تھا لہٰذا اس کی حیثیت ہی کیا تھی۔
چودھری شوکت کو یہ بات قطعی پسند نہیں تھی کہ وہ ان کے لڑکے کے ساتھ کھیلے۔ اگرچہ اس دُنیا میں اب چاندنی بھی تنہا تھی اور وہ خود بھی تنہا تھے۔
حکام قانون صرف رعایا کے لیے بناتے ہیں اور اپنے لیے راستہ کھلا رکھتے ہیں۔ اس طرح بڑے آدمی چھوٹے آدمیوں کے لیے قانون بناتے ہیں اور خود کو ہر طرح کے احتساب سے بری الذمہ خیال کرتے ہیں اور سر اُٹھا کر بڑے غرور و تکبر سے چلتے ہیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور اَزل سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے اور اَبد تک قائم رہے گا… عورت کو جب کبھی کسی مرد کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اپنے عشوئوں اور دل فریب ادائوں سے مرد کو لبھا سکتی ہے۔ یہ ہتھیار ایسے مہلک ہوتے ہیں کہ مرد ان سے کسی قیمت پر بچ نہیں پاتا اور زیر ہو کر رہ جاتا ہے۔
مرد کو اگر عورت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ فیاضی کا ثبوت دیتا ہے، لہٰذا چودھری شوکت کے اس اعتراض میں رفتہ رفتہ کمی آنے لگی کہ ان کا لڑکا کاشف کے ساتھ نہ کھیلے۔ کمی آتے آتے غیرمحسوس انداز سے اعتراض جاتا رہا۔ وہ بڑی احتیاط سے چال چل رہے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ چاندنی کو اس بات کا شک ہو کہ وہ کسی جواری کی طرح بازی کھیل رہے ہیں اور انہیں اپنی جیت کا یقین ہے۔
پھر کیا تھا کہ عنایات کی بارش ہونے لگی۔ پہلی مرتبہ انہوں نے کہا۔ ’’چاندنی یہ لے کاشف کو دے دے، اسے ٹافی بہت پسند ہے نا؟‘‘
ہوتے ہوتے چودھری صاحب بالکل ریشہ خطمی ہوگئے۔ پھر مختلف انداز سے محبت کی پینگ بڑھانے لگے۔ انہیں معلوم تھا کہ چاندنی ہمیشہ گاتی ہے۔ گنگناتی رہتی ہے… مگر وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ آج کل وہ کچھ زیادہ ہی گانے لگی ہے۔ انہوں نے گانوں کے بول پر غور کیا تو پتا چلا کہ چاندنی کا گانا کاشف کے لیے ہے یا پھر وہ اپنے لیے گاتی ہے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ وہ ان کی خاطر گاتی ہے وہ غلط نکلا تھا۔ یہ خیال آتے ہی ان کا حوصلہ پست ہوگیا، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔
ایک دن وہ چاندنی سے گرفتہ لہجے میں بولے۔ ’’چاندنی… اب میں کیا کروں۔ میں جس سے شادی کرتا ہوں وہ مر جاتی ہے۔‘‘
چاندنی جواب دیئے بغیر کھڑی ہنستی رہی۔ اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب تھا تو وہ یہ تھا کہ انہیں یہ بات اس سے کہنے کی بجائے اُوپر والے سے کہنا چاہئے۔ کیوں کہ زندگی اور موت اُوپر والے کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس نے یہ بات نہیں کہی۔
چودھری نے چند لمحوں تک اس کے جواب کا انتظار کیا۔ پھر بولے۔ ’’چاندنی۔ دھیان سے سن۔ تو بیوہ اور میں رنڈوا ہوگیا ہوں۔ یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے؟‘‘
چاندنی نے ہنسنا بند کر دیا۔ اس کی نظر چودھری کے چہرے سے ہوتی ہوئی کاشف پر جا کر ٹھہری۔ وہ عورت تھی۔ وہ چودھری کا انداز تاڑ گئی۔ اس چھیڑ چھاڑ کا مطلب اس کی سمجھ میں آ گیا تھا۔
چودھری چند لمحوں تک اسے تکتے رہے اور ایک گہرا سانس لے کر کہنے لگے۔ ’’تو بولتی کیوں نہیں ہے چاندنی…! کیا تجھے پہلی چودھرائن کا زمانہ یاد آ رہا ہے؟‘‘
پہلی چودھرائن کے زمانے میں چاندنی نے جوانی کی دہلیز پار کرکے شباب کی حدود میں قدم رکھا۔ اسے چودھری کی اس وقت کی خوش فعلیاں یاد آ گئی تھیں۔ اس کا چہرہ تمتما اُٹھا۔ چودھری نے بھی یہ بات محسوس کرلی۔ انہوں نے فوراً ہی برفی کا ٹکڑا چاندنی کی طرف بڑھایا۔ ’’یہ لے چاندنی…! یہ برفی خاص طور پر آرڈر دے کر بنوائی ہے۔ کاشف کو دے دے۔‘‘
چاندنی نے برفی کا ٹکڑا اس طرح لیا جیسے شکاری کی آہٹ پا کر ہرن چوکنے ہو جاتے ہیں۔ چودھری کی بدلی ہوئی نظر سے اسے احساس ہوا کہ جس جگہ ملازمت میں اتنا عرصہ گزارہ ہے اب وہاں کی زمین پائوں کے نیچے سے نکلی جا رہی ہے۔ وہ مستقبل کے خیال سے کانپ اُٹھی۔ سینے میں دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
چاندنی جن حالات سے گزر رہی تھی، ان سے گزرنے والا انسان بسا اوقات اخلاقی جرأت کا مالک بن جاتا ہے۔ اس میں قوت ارادی پیدا ہو جاتی ہے۔ چودھری اس کی قربت کے لیے کوشاں تھے۔ کبھی نادانستگی میں کوئی ناشائستہ حرکت سرزد ہو جاتی، کبھی دانستہ اس کی مرمریں کلائی پکڑ لی تو چاندنی خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتی، لیکن اس سے آگے بات بڑھی تو اس میں اپنی حفاظت اور آنے والے واقعات کی نزاکت کا احساس پیدا ہوگیا اور اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اُسے دُوراندیشی سے کام لینا تھا۔
وہ مردوں کے ساتھ کام کرنے والی مزدور پیشہ عورتوں کی طرح ہنس مکھ اور ملنسار بن گئی تھی۔
ایسی عورتوں کو مردوں کے ساتھ آزادی سے ہنسنے بولنے، خود کو محفوظ رکھنے، حد سے تجاوز نہ کرنے اور حسن تدبیر سے کام لے کر مردوں کو بے وقوف بنانے میں مہارت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ عورت کا فن ہوتا ہے، چاندنی کو اس فن میں مہارت حاصل ہو گئی تھی مگر چودھری نے اس کا یہ فن اور مہارت رضامندی پر محمول کیا اور جب چاندنی کا بیاہ ہوا تو چودھری بے حد خوش ہوئے۔
یہ خوشی اس لیے نہیں تھی کہ اب چاندنی کو چین کی زندگی نصیب ہوگئی ہے۔ اسے اچھا بَر مل گیا ہے۔ چودھری کی یہ خوشی فریب کارانہ اور خودغرضانہ تھی۔ مبادا سیاہ کاری کا کوئی خراب نتیجہ رُونما ہو تو فکر نہیں، چاندنی اب شادی شدہ ہے۔ چودھری کی نیک نامی پر حرف نہیں آئے گا۔ دُنیا انگشت نمائی نہ کر سکے گی۔ سماج میں رہ کر وہ باعزت طریقے سے چاندنی کے ساتھ خفیہ تعلقات قائم رکھ سکیں گے۔ یہ شادی ان کی سیاہ کاری کی پردہ پوشی کرے گی۔ لیکن ان کی یہ خوشی بے سود ثابت ہوئی۔ کیوں کہ چاندنی نے انہیں کبھی بھولے سے بھی حد سے تجاوز نہ کرنے دیا۔
چاندنی کا منگیتر ایک غریب آدمی تھا۔ اس نے اپنے بڑے بھائی یعنی چاندنی کے جیٹھ سے رقم لے کر شادی کی تھی۔ قرض اس شرط پر ملا تھا کہ جب تک یہ رقم ادا نہ ہو جائے چاندنی اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہے گی بلکہ جیٹھ کے ہاں رہے گی، گویا قرض کی ادائیگی کے بغیر چاندنی کی رُخصتی نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ مجبوری تھی اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
اس
شرط کے باعث دونوں میاں بیوی شادی کے باوجود محض خیالوں میں جی رہے تھے۔ چاندنی سوچتی اور دل میں خود سے کہتی کہ غربت و افلاس بھی کیسی بری شے ہے۔ کیا غریبوں کے ہاں ایسی شادیاں ہوتی ہیں؟
چاندنی اور اس کا شوہر جب کبھی آپس میں ملتے تو شوہر کہتا۔ ’’میرا جی ہر وقت تجھ میں لگا رہتا ہے اور کون سی گھڑی اوررات ہوتی ہے جو تو میرے خیال اور تصور میں بسی ہوئی نہیں ہوتی۔ تو تو چودھویں رات کے چاند سے کہیں خوب صورت ہے اور چاند تجھے دیکھ دیکھ کر شرما جاتا ہوگا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ زمین کا چاند آسمان کے چاند سے کہیں خوب صورت ہے۔ تیرے باپ نے تیرا نام چاندنی صحیح رکھا ہے تو ہر لحاظ سے چاندنی ہے۔‘‘
چاندنی کھلکھلا کر ہنس پڑتی اور ہنس کے کہتی۔ ’’یہ تو جدائی میں شاعری کرنے لگا ہے۔ تو تو شاعر ہوگیا ہے۔‘‘
’’تو اتنی حسین ہے کہ جو تجھے دیکھتا ہے وہ شاعر ہو جاتا ہوگا۔ ‘‘وہ جواب دیتا۔
’’تو نہیں جانتا کہ یہ جدائی مجھ پر کتنی شاق گزرتی ہے؟‘‘ چاندنی بجھے ہوئے لہجے میں کہتی۔ ’’اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا تو دو برس پیشتر ہی محنت مزدوری کرکے پیسہ پیسہ جوڑ کے اتنی رقم جمع کر لیتا مگر اب ہم دونوں مل کر محنت کریں گے اور قرض کے بوجھ سے نکل جائیں گے۔ تو دل برداشتہ نہ ہو میری چاندنی! ایک دن ایسا ضرور آئے گا ہم ایک ساتھ رہیں گے اور سکھ چین کی زندگی بسر کریں گے۔‘‘
’’یہ خواب اللہ جلد سے جلد پورا کر دے۔‘‘ چاندنی اس کی آنکھوں میں ڈُوب کر کہتی۔
چاندنی، چودھری شوکت کے گھر ایسی لگن سے کام کرتی جیسے کسی عظیم مقصد کے لیے جدوجہد کر رہی ہو۔ کسی بلند و بالا پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہو۔ اُسے یہ قرض ہمالیہ کی چوٹی کی طرح لگتا تھا جسے سر کرنا مشکل دکھائی دیتا لیکن اس نے ہمت ہاری تھی اور نہ ہی حوصلہ۔
ایک لگن تھی اپنے مجازی خدا کے حصول کے لیے۔ قرض راستے میں بنی ہوئی دیوار چین لگتا تھا۔ لیکن وہ جانتی تھی کہ عزم و حوصلے کے سامنے ایسی کئی دیواریں پاش پاش ہو جائیں گی۔ جب عورت کسی بات کا تہیہ یا فیصلہ کر لیتی ہے تو اس کے جذبے کے آگے کوئی رُکاوٹ نہیں رہتی۔
وہ گاتے اور گنگناتے ہوئے کام کرتی۔ ہر لمحہ وصال کے خوش آئند لمحے سے نزدیک تر ہوتا جاتا۔ وہ بڑی اُمنگ اور حوصلے کے جذبے سے کام کرتی مگر چودھری کے سائے تک سے بچتی۔ وہ پائی پائی کا حساب رکھتی مگر نظر عنایت کا پیسہ واپس کر دیتی۔ ہر کام میں وہ مستعدی دکھاتی مگر اپنی حفاظت کے لیے اس نے گویا چاروں طرف پہرے بٹھا دیئے تھے۔ وہ روز بہ روز سخت محتاط ہوتی جا رہی تھی۔
چودھری شوکت کی ساری اُمیدیں اور خواب خاک میں مل گئے۔ شادی سے پہلے چودھری کے مذاق برداشت کرنے والی چاندنی آج بھی ویسی ہی ہنس مکھ اور زندہ دل تھی، مگر اب وہ اپنی اس قدر حفاظت کرتی تھی کہ انہیں جرأت ہی نہ ہوسکی۔
چاندنی کے شوہر نے رات دن ایک کرکے پیسے جمع کئے۔ ایک دن بھی چین و سکون سے نہیں بیٹھا، وہ چاہتا تھا کہ چاندنی سے اپنی زندگی اور گھر میں اُجالا کر دے۔ وہ ایسی حسین بیوی سے دُور رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
چاندنی نے جیٹھ اور جٹھانی کے دل موہنے کے ساتھ ساتھ جس قدر ہوسکا کام کاج کیا۔ اس طرح دونوں نے دو برس میں قرض کی پائی پائی ادا کر دی، مگر اتنی مشقت کے بعد چاندنی کا سہاگ مشکل سے تین برس قائم رہا۔ اس کا شوہر سدا کے لیے دُنیا سے رُخصت ہوگیا۔ چاندنی تنہا رہ گئی اور دو سالہ بچّے کی حفاظت کا بار اس کے سر پر آ پڑا۔
چاندنی کام کاج کے علاوہ اس بات کی کوشش کرتی کہ محفوظ طریقے سے ملازمت قائم رکھے۔
اسے چودھری سے بچنا تھا اور اس کے ہاں کام بھی کرنا تھا۔ اس نے صرف اس گھر پر اس لیے اکتفا کرلیا تھا کہ دُوسرے گھروں میں لڑکوں کی غلط نگاہیں اور نوٹوں کی جھلک اُسے بہکاتی تھیں۔ تب وہ سوچتی کہ کاش اتنی حسین نہ ہوتی۔ وہ سوچتی اور حیران ہوتی کہ احساس محرومی کے باوجود وہ روز بہ روز حسین اور جوان کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ اس اثنا میں چودھری کی دُوسری بیوی دو برس کا ایک بچہ چھوڑ کر دُنیا سے منہ موڑ گئی۔ گھر میں رنڈوا چودھری، بیوہ چاندنی اور دو چھوٹے چھوٹے بچّے۔ جملہ چار افراد رہ گئے تھے۔
چاندنی نے بھانپ لیا تھا کہ چودھری کی آنکھوں میں وہ میلاپن پھر سے اُبھر آیا ہے جو بیویوں کی زندگی میں دبا ہوا تھا۔ عورت مرد کے دل کے ارادوں کو لمحوں میں پڑھ لیتی ہے۔
اگر یہ بات صرف نگاہوں تک محدود رہتی تو وہ پریشان ہوتی اور نہ فکرمند۔ لیکن یہ بات تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ اپنی خواہش کے حصول میں جرأت مند ہوتا جا رہا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ وہ گھات میں ہے اور کسی بھی وقت موقع پا کر ڈس سکتا ہے۔ مرد اور ناگ کا کوئی بھروسا نہیں ہوتا۔
چاندنی کو ملازمت، لڑکے کی پرورش اور اپنی حفاظت۔ اسے یہ تینوں کام انجام دینے تھے۔ نیز چودھری کے لڑکے کے لیے بھی اس کے دل میں مامتا کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا۔ ایک عورت اور ماں ہونے کے ناتے وہ ہر بچّے سے محبت کرتی تھی۔
اس نے بہت سوچ بچار اور کئی پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرکے اس نے اطمینان تو حاصل کرلیا کہ وہ چودھری کے ہاں مستقل کام کرتی رہے گی مگر وہ جہاں ایک قدیم ملازمہ کی حیثیت سے اپنی عصمت سلامت رکھنے کی اُمید رکھتی تھی۔ وہاں ایک ناگ فطرت کے آدمی کو دیکھ کر اس کا دل کانپ اُٹھتا تھا۔ مگر اس نے کئی ایسی تدبیریں سوچی تھیں۔ عورت کوشش کرے تو اپنے آپ کو ہر آنچ سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ وہ اتنی تنگ دست اور ضرورت مند نہیں کہ اپنے حسن و جوانی سے فائدہ اُٹھائے۔ اس نے کبھی اپنی کسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے پستی میں نہیں گرایا تھا۔ ورنہ اس کے قدردانوں کی کمی نہیں تھی۔ اس نے اس لیے اپنے آپ کو صرف اس گھر تک محدود کر لیا تھا اور پاپڑ بیلتی رہی تھی۔
یہ پاک دامنی اس نے اپنے دل کے استحکام سے حاصل کی تھی۔
جب وہ اور اس کا شوہر شرط کی رُو سے الگ الگ رہنے پر مجبور تھے اور ان کے پیروں میں جیسے زنجیریں ڈال دی گئی تھیں۔ اس وقت اس کا شوہر ہفتے عشرے میں ایک بار اپنے بڑے بھائی کے گھر پہنچتا مگر چاندنی سے ملنے میں آزادی سے کام نہ لیتا۔ نظریں نیچے کئے بیٹھا رہتا اور پیسے ادا کرکے چلا جاتا جب کہ اس کمرے میں ان دونوں کے سوا کوئی نہ ہوتا۔ دُوسرا ہفتہ آتا تو دُوسری قسط ادا کر جاتا اور تیسرے ہفتے تیسری قسط دے جاتا۔
شوہر کے شریفانہ انداز اور محبت پرستی نے چاندنی کو قرض جلد ادا کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ دونوں صدق دل اور انتھک محنت سے کمانے میں منہمک رہے۔ رقم ادا کرنے سے پہلے دونوں نے اپنے جذبات پر قابو پانے میں تعریف کے لائق کامیابی حاصل کرلی تھی۔ محنت و مشقت میں وقتی جذبات سرد ہوگئے۔ اس طرح وہ انتظار کی گھڑیاں بے کیف انداز میں گزارتے رہے۔ چاندنی اس کسوٹی پر کھری ثابت ہوئی۔ اس کی زندگی خالص سونے کی مانند ہوگئی۔ چودھری شوکت کا مسخرا پن اسے نہایت ناگوار معلوم ہونے لگا۔ اس کا سبب محض یہ تھا کہ اس کے خانۂ دِل میں شوہر کے سوا کسی دُوسرے کی محبت کی گنجائش ہی نہ تھی۔
چاندنی کبھی کبھی جھلا کے سوچتی کہ ملازمت چھوڑ دے مگر یہ خیال بے کار تھا۔ کیا پتا دُوسری جگہ بھی چودھری شوکت جیسا ہی مالک ملے۔ وہ یہاں سے ہٹی تو کاشف کی پرورش کا آسرا کوئی نہ رہے گا۔ یہاں تو کاشف چودھری کے لڑکے کے ساتھ کھیلتا ہے اور مزے سے کھاتا پیتا تھا۔ نیزچودھری کا لڑکا بھی چاندنی سے ہل گیا تھا۔ انہی وجوہ سے اس جگہ کو چھوڑنے کے خیال سے چاندنی کا دل کانپ اُٹھتا تھا۔ وہ بڑی سنجیدگی اور فکرمندی سے سوچتی تھی اسے کیا کرنا چاہئے؟ اس نے دل ہی دل میں ایک فیصلہ کرلیا۔
٭…٭…٭
کچھ دنوں بعد ایک عجیب اور المناک حادثہ پیش آیا۔ جس کسی نے بھی سنا وہ انگشت بداں ہوگیا لیکن یہ ایسی کوئی انوکھی بات اور واردات نہ تھی۔ ایسا ہوتا رہا تھا۔ چودھری کو اس لیے صدمہ ہوا تھا کہ یہ حادثہ کسی اور عورت کے ساتھ نہیں بلکہ چاندنی کے ساتھ پیش آیا تھا۔
ہوا یہ کہ ایک صبح چاندنی کی ناک کٹی ہوئی پائی گئی، جس نے نہ صرف اس علاقے میں سنسنی پھیلا دی تھی بلکہ ساتھ دہشت بھی۔ معلوم ہوا کہ رات کو کسی رشتے دار نے دُشمنی کی وجہ سے اس کی سبک ناک کاٹ ڈالی۔ ناک کے ساتھ ساتھ چاندنی کی خوب صورتی بھی رُخصت ہوگئی۔ اس کی صورت ایسی ہوگئی کہ کسی کا دل اس کی طرف دیکھنے کو نہیں چاہتا تھا۔ اس بدصورتی نے نہ صرف اس کے حسن بلکہ اس کے جسم کی دل کشی کو بھی متاثر کیا تھا۔
نتیجتاً چودھری کی گفتگو میں مزاح کی چاشنی نہ رہی لیکن چاندنی کے لیے یہ حادثہ مبارک ثابت ہوا اور چودھری کے التفات سے جان چھوٹ گئی۔ بعد میں جب کبھی اس واقعے کا ذکر کرتی تو مزے لے لے کر کہتی کہ اُس نے منہ میں کپڑا ٹھونس کر کھیرے کی طرح ناک کاٹ لی۔
چودھری شوکت سن کر ہنستے۔ وہ چاندنی کو پرانی خادمہ سمجھ کر نباہتے رہے مگر اب انہوں نے کاشف کو مٹھائی دینا موقوف کر دیا اور اپنے لڑکے کو اس کے ساتھ کھیلتا ہوا دیکھ کر اسے اشارے سے منع کر دیتے۔ چاندنی یہ سب باتیں دیکھی اَن دیکھی کر دیتی اور گنگناتی ہوئی اپنے کام میں مستعدی سے محو رہتی۔ گانا اور کام کرنا اس کے یہی دو مشغلے رہ گئے تھے۔ اگرچہ اب اس کا گانا اگلے گانے کو منہ چڑاتا تھا مگر دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہوتا کہ اس عورت پر کبھی کوئی مصیبت نازل ہی نہیں ہوئی۔ کوئی حادثہ پیش ہی نہیں آیا۔ اس طرح چاندنی نے برسوں گزار دیئے جوانی بھی رُخصت ہوگئی۔
٭…٭…٭
کاشف کی شادی ہوگئی، بہو گھر میں کیا آئی فساد کی بنیاد پڑگئی۔
کاشف کی بیوی میں کوئی عیب نہیں تھا، مگر وہ سخت چڑچڑی تھی۔ نکٹی ساس کو دیکھ کر خوب ناک بھوں چڑھاتی۔ یہ امر اسے اپنی توہین معلوم ہوتا کہ جس نے ناک کٹوائی ہو وہ اس پر حکم چلائے۔ اس نے دوچار بار اس سے دو بدو کہہ بھی دیا کہ بہو…! میں جیسی ہوں سو ہوں مگر میں نے ناک نہیں کٹوائی… میں عزت دار ہوں۔
چاندنی کو یہ طعنہ نہایت ناگوار گزرتا، مگر کیا کرتی۔ کاشف سے کہتی تو ممکن تھا کہ وہ غصے میں آ کر بہو کو مار بیٹھتا۔ اس لیے چاندنی صبر اور خاموشی سے یہ سب برداشت کرلیتی۔ جب وہ زیادہ تنگ کرتی تو گاتی ہوئی کام پر چلی جاتی۔ مصیبتیں سیکڑوں تھیں مگر لاعلاج تھیں، لہٰذا ایک ہی پرانا اور تیر بہدف علاج تھا، یعنی جب حد سے زیادہ دُکھ پہنچتا تو وہ گاتی ہوئی کام میں مشغول
جاتی۔
٭…٭…٭
ایک روز کاشف اچانک گھر آ گیا۔ اس کی بیوی نے گھر کو پانی پت کا میدان بنا رکھا تھا۔ چاندنی خاموش کھڑی تھی۔ اس کی نظریں ساکن تھیں اور آنکھوں سے سیل اشک رواں تھا۔ چاندنی نے گھر چھوڑ دینے کے لیے اپنی گٹھری باندھ کر تیار رکھی تھی، مگر کاشف کو دیکھ کر مامتا کی وجہ سے دل پگھل گیا۔ جسے بچپن سے جان کی طرح سنبھال کر جوان کیا ہے اسے آج خود رنج پہنچا رہی ہے۔ یہ خیال آتے ہی چاندنی بے بس ہوگئی۔ اس نے کاشف سے کہا۔ ’’بیٹا، میری دُعائے خیر تیرے ساتھ رہے گی۔ تو خوش و خرّم رہ اور مجھے جانے دے۔‘‘
’’دفعان ہو کمینی…! تجھے روکتا کون ہے؟‘‘ کاشف کی بیوی بول اُٹھی۔
کاشف نے بیوی کی پٹائی کے لیے چھڑی اُٹھائی لیکن چاندنی نے بیچ بچائو کرایا۔ کاشف کی بیوی رونے پیٹنے اور چیخنے چلانے لگی۔ ’’ہاں مار ڈال ماں کے غلام… اور تجھ سے ہو ہی کیا سکتا ہے؟‘‘
٭…٭…٭
دُوسرے روز صبح سویرے کاشف کانپتا ہوا چودھری شوکت کے ہاں پہنچا۔ ’’میری اماں یہاں آئی ہیں؟‘‘
’’یہاں تو نہیں آئیں۔‘‘
’’تو گئیں کہاں؟ رات کو میری بیوی نے کچھ زبان درازی کی تھی۔ صبح دیکھتا ہوں کہ کٹیا خالی تھی اور اماں غائب۔‘‘
’’ہیں۔‘‘ چودھری شوکت نے حیرت سے کہا۔ ’’کوئی نشان…؟ کوئی سراغ…؟‘‘
’’اور تو کچھ نہیں… صرف کاغذ کا یہ پرزہ رکھ گئی ہیں۔‘‘
چودھری شوکت نے پرزہ ہاتھ میں لے کے پڑھا۔
پیارے کاشف!
بہو تجھے طعنہ دے گی کہ تیری ماں نے کوئی خراب کام کیا ہوگا اس لیے کسی عزیز نے ناک کاٹ لی۔ مگر یہ بات نہیں ہے بیٹا…! اپنی جوانی اور تیرے بچپن، دونوں کی ایک ساتھ حفاظت کے لیے میں نے خود اپنے ہاتھوں سے یہ کام کیا تھا۔
چودھری شوکت نے کوشش کی کاغذ پر لکھی تحریر کاشف کو معلوم نہ ہو سکے۔ ان کے ہاتھ سے کاغذ کا پرزہ زمین پر گر گیا۔ تھوڑی دیر کچھ سوچتے رہے۔ پھر بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا۔ ’’بیٹے! تیری ماں کہاں گئی؟ چاندنی کہاں ہے؟‘‘
کاشف اشک بار آنکھوں سے کاغذ کی طرف دیکھنے لگا۔
(ختم شد)