ہمارے یہاں ایک لڑکی سکھاں نامی آیا کرتی تھی۔ اس کی ماں گھروں کا کام کرتی تھی۔ سکھاں ماں کے ساتھ آتی اور کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹاتی۔ سکھاں بہت خوبصورت تھی۔ وہ میری ہم عمر تھی۔ ہنس مکھ تھی، اس کے ساتھ باتوں میں مزا آتا۔ میں گھر سے باہر نہیں جاسکتی تھی اور وہ باہر آزادی سے گھومتی تھی۔ اس کے پاس روز کوئی نئی خبر ہوتی اور وہ یہ خبر مجھے سنانے کے لیے بے تاب رہتی۔
والد صاحب اور تایا کی زمین مشترکہ تھی۔ آبائی گھر میں ہم اکٹھے ہی قیام پذیر تھے۔ سکھاں کی ماں، تائی کا بھی کام نمٹا دیتی جس کی اسے الگ سے تنخواہ ملتی۔جب وہ تائی کا کام کررہی ہوتی تو سکھاں میرے پاس آکر بیٹھ جاتی۔ مزے لے لے کر گائوں کی لڑکیوں کے قصے سنانے لگتی۔ اس کے دلچسپ انداز گفتگو نے میرا دل موہ لیا تھا۔ جس روز وہ نہ آتی، میں مضطرب ہوجاتی۔ آسیہ خاتون سے پوچھتی۔ آسو خالہ آج تم اپنی بیٹی کو کیوں نہیں لائیں۔
اسے بخار تھا بیٹا… تبھی نہیں آئی… گھر پر رضائی اوڑھے لیٹی ہے۔
بخار کی دوا نہیں لی تم نے… شام کو کام سے نمٹ جائوں گی تو حکیم جی کو دکھا دوں گی۔
ڈاکٹر کے پاس لے جائو نا… ڈاکٹر کے لیے شہر جانا پڑتا ہے، سواری کہاں ملتی ہے۔ حکیم جی بہت قابل ہیں، نبض پر ہاتھ رکھتے ہی مرض پہچان لیتے ہیں۔ دو روپے کی پڑیا سے ایک دن میں آرام آجاتا ہے تو پھر ڈاکٹر کو دکھانے کیوں جاؤں۔ کاہے اتنا کشٹ اٹھائوں۔
ٹھیک ہے خالہ تمہاری مرضی لیکن… سکھاں کو جلدی ٹھیک ہوجانا چاہیے ورنہ بابا سے کہہ کر تمہیں اور اس کو گاڑی میں شہر بھجوا دوں گی۔
اچھا بی بی… وہ مسکر ادیتی۔
حیرت کی بات تھی کہ کبھی اس کی نوبت نہ آئی۔ حکیم کی دی ہوئی دوا سکھاں پر جادو کا اثر کرتی تھی اور وہ ایک دن میں بھلی چنگی ہو کر ہمارے گھر آپہنچتی۔ میں شکایت بھری نظروں سے اسے دیکھ کر کہتی۔ کیوں بیمار پڑ جاتی ہو۔ تم نہیں آتیں تو سارا دن بور گزرتا ہے۔ تم نہیں جانتیں تمہارا آنا میرے لیے کتنا ضروری ہوگیا ہے۔ نت نئی خبریں سننے کی عادت جو پڑ گئی ہے۔ کچھ دنوں سے وہ چپ چپ رہنے لگی تھی۔ میں نے محسوس کیا جیسے اس کا دھیان ہر وقت کہیں اور لگا رہتا ہو۔
کوئی پریشانی ہے تو بتائو… کوئی پریشانی نہیں ہے۔ کوئی نئی خبر گائوں کی بھی نہیں سناتی ہو آجکل۔ کوئی خبر ہو تو سنائوں۔
ایک روز میرے تایا زاد نے اسے میرے پاس بیٹھے دیکھ لیا۔ جب وہ چلی گئی تو شہزاد نے کہا۔ روبی… تم جانتی ہو یہ لڑکی جو اتنی معصوم اور مسکین نظر آتی ہے، کتنی چلتی پرزہ ہے۔ شہزاد… کیا کہہ رہے ہو وہ بے چاری غریب سارا دن ہمارے گھر رہتی ہے، ایسا کیا دیکھ لیا ہے تم نے جو شکایت کرنے آ بیٹھے ہو۔ گائوں کے سارے لڑکے اس کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ لڑکے شہر کے ہوں یا گائوں کے، وہ لڑکیوں کے بارے میں باتیں کرتے ہی ہیں، اس میں سکھاں کا کیا قصور؟
قصور ہے نہیں تو ہوجائے گا۔ اس لڑکی کا چکر میرے دوست مختار کے دوست ظفر سے چل رہا ہے۔ ظفر، مختار کو بتاتا ہے تو وہ مجھے ہر بات بتا دیتا ہے۔ دیکھ لینا یہ لڑکی ایک دن کوئی گل کھلائے گی ضرور۔
یہ کوئی اچھی بات تو نہ ہوئی۔ تم اپنے دوست کو منع کرو کہ وہ اپنے دوست کی باتیں یوں نہ اُڑایا کرے، یہ دوست سے خیانت ہے۔
جب شہزاد کی حوصلہ شکنی کی تو وہ منہ لٹکا کر چلا گیا۔ سکھاں سے باتوں باتوں میں پوچھا۔ کیا تم ظفر کو جانتی ہو؟ ہاں… اس نے اقرارکیا۔ جانتی ہوں وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ شہزاد کا دوست ہے وہ… کیا یہ بھی جانتی ہو۔ نہیں لیکن شہزاد اچھا لڑکا نہیں ہے جب موقع ملتا ہے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر میں بات نہیں کرتی۔ معاملہ سمجھ میں آگیا۔ شہزاد سکھاں کو پسند کرتا تھا اور وہ اس کو خاطر میں نہ لاتی تھی، نظرانداز کرتی تھی۔ اسی وجہ سے شہزاد اس کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ وہ مجھ سے ہی نہیں، اپنے ہم عمروں سے اس کے بارے میں الٹے سیدھے فسانے گھڑ کر سناتا اور اسے بدنام کرتا تھا۔ رقابت کی آگ پھیلنے لگی اور سکھاں بدنام ہوگئی۔
وہ ایک مفلس کی بیٹی تھی اور شہزاد کے دادا اور والد علاقے کے بڑے زمیندار تھے۔ وہ بے چاری اس کا کیا بگاڑ سکتی تھی۔ تبھی اسے چپ لگ گئی۔ وہ اب میرے ساتھ گھل مل کر باتیں کرنے سے بھی گریز کرنے لگی تھی۔ ہمیشہ
پُرسکون رہنے والی لڑکی کو بے سکون کرکے نہ جانے شہزاد کو کیا ملا، اس کے بارے میں غلط باتیں کرنے کی وجہ سے کچھ آوارہ لڑکے اس کے پیچھے لگ گئے تھے۔ سکھاں اب پریشان رہنے لگی تھی لیکن کئی دنوں تک اس نے مجھے اپنی پریشانی نہ بتائی۔
ایک روز میں نے قسم دی تو بولی۔ یہ سب شہزاد کا کیا دھرا ہے، میں تمہارے کزن کے ساتھ دوستی کیوں کروں۔ وہ بڑے آدمی کا بیٹا، میں ایک غریب لڑکی ہوں۔ ہمارا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ اور ظفر کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟
ہاں میں اسے پسند کرتی ہوں۔ اس کا باپ ہمارا رشتے دار ہے۔ وہ پہلے ہمارے جیسے غریب تھے لیکن اب خوشحال ہوگئے ہیں۔ اس کے دو بڑے بھائی سعودی عربیہ گئے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے دن پھر گئے ہیں۔
شہزاد کی سکھاں سے دلچسپی کو تائی نے بھانپ لیا تو وہ بیٹے کو سمجھانے کی بجائے اس لڑکی پر ناک بھوں چڑھانے لگیں ان کو… ملازمہ زادی کا میرے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا کھلنے لگا۔ تاہم ہمارے یہاں کی خاندانی عورتوں میں لحاظ ہوتا تھا، اسی لیے تائی اسے کچھ نہ کہتی تھیں۔
میرے بڑے بھائی ممتاز ان دنوں مقابلے کے امتحان کی تیاری کررہے تھے۔ جلد ہی امتحان پاس کرنے کے بعد ان کو حسب منشا عہدہ مل گیا اور وہ پولیس آفیسر ہوگئے۔ اس خوشی میں والد صاحب نے پورے گائوں کی دعوت کی۔
کئی دنوں سے سکھاں اور اس کی ماں ہمارے گھر کام کرنے نہیں آرہی تھیں۔ امی جان کو تشویش ہوئی کیونکہ خالہ آسو کبھی چھٹی نہ کرتی تھی۔ ضروری کام ہوتا یا بیمار پڑ جاتی تو بھی سکھاں کو بھیج دیتی یا کہلوا دیتی کہ آج نہیں آسکتی۔ اب جبکہ دونوں بغیر اطلاع غائب تھیں، تشویش تو ہونی تھی۔ امی نے تائی سے کہا… پتا کرانا چاہیے، جانے ان پر کیا افتاد پڑ گئی ہے۔ ہفتہ ہونے کو آیا ہے لیکن دونوں ماں بیٹی آنے کا نام نہیں لے رہیں۔
ممتاز بھائی تیار ہوکر کمرے سے نکلے۔ وہ آفس جارہے تھے۔ امی کی بات سن کر بولے۔ سکھاں اور اس کی ماں کو جیل ہوگئی ہے۔ وہ اب نہیں آئیں گی۔ آپ اب کسی اور ملازمہ کا انتظام کرلیں۔
جیل ہوگئی ہے سکھاں اور آسیہ کو؟ کیسی بات کررہے ہو… کیا جرم کیا ہے انہوں نے؟ تائی اور امی یک زبان ہوکر بولیں۔ جیسے انہونی بات ہوگئی۔
انہونی ہی ہوگئی تھی۔ بھائی کو آفس جانے کی جلدی تھی۔ بولے بتادوں گا۔ ابھی جلدی میں ہوں، جانا ہے۔ وہ تو یہ کہہ کر چلے گئے، گھر کی خواتین ہکا بکا بیٹھی رہ گئیں۔
ظفر کی بہن کبھی کبھی میرے پاس انگریزی پڑھنے آتی تھی۔ جب اسے کلاس میں مضمون لکھنے کو دیا جاتا، میں اس کی مدد کردیا کرتی تھی۔ وہ میٹرک میں تھی اور انگریزی میں کمزور تھی۔
اتفاق سے اس روز وہ آگئی تو میں نے اس سے پوچھا… کیا تمہیں سکھاں کے بارے میں کچھ معلوم ہے۔ ہاں اس کے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔ کیا ہوا ہے اس کے ساتھ… مجھے کچھ بتائو تو؟ کہنے لگی زبان نہیں کھلتی… کیسے بتائوں… بغیر شادی شدہ کو دھبہ لگ گیا۔
وہ تو اچھی لڑکی تھی۔ ہاں اب بھی یہی کہوں گی کہ وہ بہت اچھی لڑکی ہے، اس کا کوئی قصور نہیں ہے، پہلے اسے بدنام کیا گیا اور اب مفت میں ایک غلط الزام لگا کر اسے پکڑوا دیا گیا ہے۔
کچھ کھل کر تو بتائو۔ آخر قصہ کیا ہوا ہے؟ میرے بہت اصرار پر آخر اس نے زبان کھولی۔ روبی باجی… آپ نجمہ آپا کو جانتی ہیں نا۔ وہی جو آپ کے گھر کے پچھواڑے رہتی ہیں۔ انکل زبیر کی بیٹی۔ ہاں تو کیا ہوا ہے انہیں؟
نجمہ کی امی اکثر وقت خالہ آسو کو بلوالیا کرتی تھیں۔ گھر کے کام کاج کے لیے خاص طور پر جب ان کے مہمان آتے یا پھر انہیں گندم صاف کروانی ہوتی۔ رضائی گدے کھلوانے یا سلوانے ہوتے تو آپ کے گھر سے فراغت پاتے ہی وہ وہاں چلی جاتی تھیں۔ آپا نجمہ سے سکھاں، کپڑوں کی کٹنگ بھی سیکھ رہی تھی۔ نجمہ آپا کی دوستی ایک لڑکے سے تھی اور یہ چوری چھپے ملتے تھے۔ ارشد خوبصورت تھا۔ نجمہ جب باڑے کے دروازے سے اس کے ہاتھ سے دودھ کی بالٹی لیتی تو دونوں کی ملاقات ہوتی… رفتہ رفتہ نگاہوں نے دل کو گھیرا اور یہ دونوں محبت کے جال میں پھنس گئے۔ چوری چھپے نجمہ آپا، ارشد سے ملنے آدھی رات کو باڑے میں جانے لگیں۔ ایک روز ان سے لغزش ہوگئی تو نجمہ کے لیے ایک بڑی مصیبت کا در کھل گیا جبکہ وہ شادی شدہ نہ تھی اور ارشد سے شادی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا کہ وہ ان کے در کا دربان اور بھینسوں کا رکھوالا تھا۔
بات ایسی تھی
چھپائی نہ جاسکتی تھی اور جلد شادی کا ہونا بھی محال تھا۔جب اس کی والدہ کو حقیقت حال کا علم ہوا، انہوں نے کوئی حل نہ پاکر بیٹی کو بہن کے گھر بھجوا دیا جو بیوہ تھی اور اپنی نابینا ساس کے ہمراہ رہتی تھی۔اسی خالہ کے یہاں نجمہ نے ایک بچے کو جنم دیا۔ بچہ مردہ پیدا ہوا تھا لیکن اب گناہ کی اس نشانی کو ٹھکانے لگانا بیوہ خالہ کے لیے ایک مسئلہ تھا۔
اس نے نجمہ کی ماں کو بلایا اور مسئلہ حل کرنے کو کہا۔ انکل زبیر کی بیوی تبھی سکھاں اور اس کی ماں کو اپنی بیوہ بہن کے گھر لے گئی تھی۔
جب سکھاں وہاں جارہی تھی تو جانے سے پہلے ظفر سے مل کر اس کو بتایا تھا کہ کسی کام سے زبیر کی بیوی ہمیں اپنی بہن کے گھر لے جارہی ہے۔ کس کام سے؟ یہ اس بے چاری لڑکی کو بھی معلوم نہ تھا۔ اسے تو ماں کی مدد کے لیے ساتھ جانا پڑتا تھا۔
جب نجمہ کی خالہ کے گھر یہ دونوں ماں بیٹیاں آپہنچیں تو پتا چلا کہ ان کو کیا کرنا ہے۔ ایک بے جان ننھے کو مٹی میں دبانا تھا اور وہ بھی رات کی تاریکی میں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔
غربت میں بیس ہزار کی رقم ان کے لیے بڑی تھی اور لالچ بری بلا ہے۔ یہ بھی کسی نے سچ کہا ہے۔ کچھ لالچ اور کچھ لحاظ میں آسیہ خالہ انکار نہ کرسکی۔ رات کو اکیلے قبرستان جانا اس کے لئے مسئلہ تھا۔ تبھی سکھاں کو ساتھ لے گئی کیونکہ دن میں ایک ننھا سا گڑھا دیکھ آئی تھی جہاں قریب ہی مٹی کا ڈھیر بھی پڑا تھا۔ سوچا کہ کام آسانی سے ہوجائے گا، زیادہ وقت نہ لگے گا۔
سکھاں کو ٹارچ تھما دی اور ماں نے معصوم جسد خاکی کو اپنی چادر کے اندر لپیٹ کر چھپا لیا۔ قبرستان جانے کی ہمت نہ تھی۔ قریبی ویران میدان میں چلی گئیں جہاں دن کو خالہ آسیہ نے گڑھا دیکھا تھا۔ رات کے وقت جب وہ اس ناگوار کام کو پایہ تکمیل پہنچا رہی تھی، کتوں نے ان کو گھیر لیا۔ویرانے میں غالباً بو پاکر کتوں کا یہ غول ادھر آگیا تھا۔ ان کی خوفناک آوازوں پر دیہاتی دوڑے یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا ہوا ہے۔
دو عورتوں کو کتوں میں گھرا دیکھ کر وہ ان کی مدد کو لپکے اور ڈنڈے مار کر ان عفریتوں کو بھگانے لگے، تبھی انہوں نے ٹارچوں کی روشنیوں میں جو بھیانک منظر دیکھا تو دونوں عورتوں کو پکڑ لیا۔ کسی نے قریبی تھانے اطلاع کردی اور معاملہ پولیس کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ یوں بے چاری سکھاں ناکردہ جرم کی سزا میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلی گئی۔
ماں بیٹی نے زبیر کے ڈر سے نجمہ کا نام نہ لیا اور خاموشی سے الزام اپنے سر لے لیا۔ نام لیتیں بھی تو کیا بنتا کہ انکل زبیر نے تجوری کا منہ کھول دیا تھا۔ پولیس والے بھی کہہ رہے تھے یہ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہیں۔ ابو سکھاں کے والد کے ساتھ جیل میں ملنے خالہ آسیہ کے پاس گئے تھے۔ انہوں نے کہا۔ ہماری بدنامی تو ہوگئی ہے۔ اب نجمہ کا نام لے کر زبیر خان کی عزت کو نہ اچھالنا چاہیے۔ بدلے میں وہ چھ بیگھے زمین ہمارے نام کرنے پر تیار ہیں۔ یہ ہماری غربت دور کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ غریب کے لیے عزت بعد میں اور روٹی پہلے اہمیت رکھتی ہے۔
پولیس کو بھی انکل زبیر نے کچھ تدبیروں سے خاموش کرا دیا اور جسے شہزاد نے مفت میں بدنام کیا تھا، وہ زمین کے بدلے میں بدنامی کے گڑھے میں گر گئی تھی۔
مجھے آسیہ خالہ کی عقل پر ماتم کرنے کی ضرورت نہیں، افسوس سکھاں کا تھا، جسے بے گناہ ہوتے ہوئے اپنے والدین نے خاموش رہ کر گناہ گار بنا دیا۔ لیکن ظفر جانتا تھا کہ وہ بے گناہ ہے، اس نے سکھاں کا انتظار کیا، یہاں تک کہ اس کی سزا پوری ہوگئی اور جب اسے جیل سے رہائی نصیب ہوئی تو وہ اپنے والدین کو لے کر سکھاں کے گھر گیا اس کے والدین سے رشتہ مانگنے… وہ بھلا کیوں انکار کرتے۔ یہ دور کے رشتے دار بھی تھے اور خوشحال بھی۔ وہ ان کی بیٹی کو سب کچھ جانتے ہوئے اپنا رہے تھے۔ انہوں نے فوراً ہاں کہہ دی اور اس کی شادی ظفر سے ہوگئی۔ شادی کے بعد ظفر اسے لے کر اپنے بڑے بھائی کے پاس سعودی عربیہ چلا گیا اور کچھ عرصے بعد وہ دبئی رہائش پذیر ہوگئے۔ ان کے والدین نے گائوں چھوڑ دیا اور شہر میں رہائش اختیار کرلی کہ گائوں کے لوگ اس کہانی کو بھولتے نہ تھے۔ جب موقع ملتا وہ سکھاں پر جو بیتی، اسے بطور قصہ دہرانے لگتے تھے۔
جب تایا زاد سے میری شادی ہوگئی تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں، سوائے اس ایک بات کے کہ تم نے سکھاں کے بارے میں غلط
پھیلا کر اس بے چاری کو بدنام کیا جبکہ وہ بے قصور تھی۔ میرے سرتاج نے جواب دیا۔ شاید نادانی کے باعث کہ اس عمرمیں لڑکے ایسی بے سروپا باتیں کر گزرتے ہیں جو ان کو لڑکیوں کے بارے میں نہیں کرنی چاہئیں لیکن یہ مرد کی فطرت ہے جب کوئی لڑکی اسے اچھی لگتی ہو اور وہ کسی اور کی طرف مائل ہو تو وہ اس بات کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ میں بھی ظفر سے حسد کرنے لگا تھا حالانکہ مجھے سکھاں سے کچھ لینا دینا نہ تھا، وہ ہمارے پائے کے لوگ نہ تھے۔ میں شادی کا سوچ بھی نہ سکتا تھا لیکن بس اچھی لگتی تھی تو تفریح کی خاطر ایسی کہانیاں گھڑ کر لڑکوں کو سناتا تھا۔ اللہ مجھے معاف کرے… صد شکر وہ اپنے جیون ساتھی کے ہمراہ اچھی زندگی گزار رہی ہے جبکہ میں آج تک شرمندہ ہوں۔ (ک۔ر … سیالکوٹ)