Monday, March 17, 2025

Aaj Chaand Raat Hai

آج کل عنایہ بے چاری کچھ گھبرائی کچھ بوکھلائی اور تھوڑا بہت شرمائی بھی پھر رہی تھی کیونکہ اس کا رشتہ طے ہونے جا رہا تھا اور گھر میں ہر وقت ہی موضوع زیر بحث رہتا تھا۔ کہاں تو سال بھر سے کوئی ڈھنگ کا رشتہ ہی نہیں آ رہا تھا۔ اماں ہر وقت آہیں بھرتی رہتی تھیں اور کہاں اب اچانک سے اکٹھے چار رشتے آ ٹپکے تھے اور گھر والے شش و پنج میں تھے کہ کسے منتخب کریں اور کسے نہ کریں۔ اماں نے صلاح مشورے کے واسطے بڑی آپا کو بھی بلوا رکھا تھا۔ یوں تو اس کی بھی رائے لی گئی مگر وہ کیا کہتی۔ اجنبی انجان لوگ، غیر خاندان، پرانے زمانے کی فلمی ہیروئن کی طرح دانتوں تلے دوپٹا مروڑتے ہوئے فقط یہی کہا۔ جیسے آپ لوگوں کی مرضی۔ یوں باہمی رضا مندی سے قرعہ فال جس موصوف کے نام نکلا وہ مکینکل انجینئر تھے۔ شکل وصورت بھی اچھی تھیں۔ خاندان مختصر تھا۔ دونوں بڑی بہنیں شادی شدہ تھیں۔ ماں باپ حیات تھے اور چک نمبر 403 میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی ایک وسیع و عریض آبائی حویلی تھی جہاں وہ شریک برادری سمیت مقیم تھے۔ والدین کی صحت نہایت شان دارتھی اور وہ اپنا گھر بار بخوبی چلا رہے تھے۔ جبکہ موصوف خود چونکہ شہر میں نوکری کرتے تھے ، اس لیے مستقل طور پر وہیں رہنے کا ارادہ رکھتے تھے اور عنقریب ایک گھر بھی خرید رہے تھے۔ رشتہ بے حد معقول تھا۔ سب ہی خوش تھے۔ ان کے ہاں منگنی صرف زبانی کلامی ہی طے ہوئی تھی کوئی روایتی فنکشن وغیرہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کی بھی ساس بات پکی ہونے پر اس کی تھیلی پر کئی ہزار روپے اور انگلی میں وزنی طلائی انگھوٹی پہنا گئی تھیں۔ چونکہ رمضان میں بات طے ہوئی تھی اور اب عید آ رہی گی تو اسے یہ سوچ سوچ کر ہی گدگدی ہو رہی تھی کہ سسرال سے عیدی ضرور آئے گی۔

در اصل ان پانچ لڑکیوں کا گروپ تھا۔ پہلے تو اس کے علاوہ وہ سب منگنی شدہ ہیں ۔ صرف وہی اس اعزاز سے محروم تھی۔ ہر سال ان چاروں کے سسرال سے خوب دھوم دھڑکے کے ساتھ عیدی آتی تھی، جو آتے ہی اسٹیٹس پر بھی لگ جاتی۔ خوب تبصرے ہوتے اور وہ دل مسوس کر رہ جاتی۔ یہ بات نہیں تھی کہ اسے کوئی عیدی ویدی ملتی نہیں تھی۔ عیدی تو بہت ملتی تھی۔ ماموں، پھوپھو ، تایا، خالہ، نانی سب ہی کی طرف سے، مگر سسرال سے آنے والی عیدی کا تو چارم ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اور پھر لڑکیاں اس معاملے میں بہت حساس اور جذباتی بھی ہوتی ہیں۔ کیونکہ عیدی کے سامان میں انہیں اپنے ہونے والے “ان” کے جذبات کی جھلک نظر آتی ہے۔ بعض کو تو خاص طور پر ان کی طرف سے علیحدہ پیکٹ بھی ملتا تھا۔ پچھلے سال فاریہ کے اسٹیٹس نے خوب داد سمیٹی تھی۔ نہ صرف اس کی ساس نندوں نے دیدہ زیب جوڑے اور جوتے بھجوائے تھے بلکہ اس کے “ان” نے بھی الگ سے کچھ خاص تحائف بھیجے تھے۔ اور اس سے پچھلے سال دانیہ کی عیدی نمبرون رہی تھی۔ اس کی نند نے نجانے کہاں سے چن چن کر لپ اسٹک کے ایسے شیڈ گفٹ کیے تھے ، جو انہوں نے پہلے کبھی مارکیٹ میں نہیں دیکھے تھے۔
یوں ہر سال ہی سسرال عیدی پر رنگ برنگے تبصرے ہوتے۔ اور اس کے سوئے ہوئے ارمان انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتے مگر اس بار اس کی بھی عیدی آنی تھی۔ اور وہ ابھی سے ڈھیر سارے خواب سجائے بیٹھی تھی۔ آخر اچھے خاصے خوش حال اور با ذوق لوگ تھے۔ عیدی بھی یقینا عمدہ اور بڑھیا ہی آنے والی تھی۔ یوں انتظار کرتے کراتے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو گیا۔ اور آخر ایک شام اس کی ساس گاڑی میں سامان سے لدی پھندی آپہنچیں۔ اس کی تو باچھیں کھل گئیں۔ گاؤں کی سوغات گر، چاول، دیسی گھی، ساگ اور کینوں کے ٹوکروں کے ہمراہ ایک بھاری بھر کم سا شاپنگ بیگ بھی تھا۔ وہ تو خاطر تواضع میں مصروف تھی ورنہ اسی وقت کھول کردیکھ لیتی۔ افطاری کے بعد وہ رخصت ہوئیں تو اس نے تو نے جھٹ بیگ اٹھایا اور اپنے کمرے کی راہ لی۔ دروازہ بند کر کے جلدی سے سارا بیگ بیڈ پر الٹ دیا مگریہ کیا۔ سامان دیکھ کر اس کے جوش و خروش پر اوس پڑ گئی۔ بڑے بڑے پھولوں والے تیز رنگوں کے چار جوڑے جو شاید خاصے قیمتی تو تھے مگر رنگ اور ڈیزائن اف توبه… تین منزلہ جھمکوں کی دو جوڑیاں۔ لیدر کے دو عجیب سی ساخت کے پرس اور موتی ستاروں سے مزین ایڑی والی تین جوڑی جوتیاں اور ایک شیشوں والا پراندہ اف توبه کیا یہ سب لگاؤں اسٹیٹس پر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ کتنا مذاق بنے گا۔ بھابھی اسے ڈھونڈتے ہوئے اندر آئیں تو وہ بیڈ پر لٹی پٹی سی بیٹھی تھی۔ عید کے سامان پر نظر پڑی تو وہ سب سمجھ گئیں۔ گڑیا ! دل برا نہ کرو۔ دراصل تمہاری ساس کا ٹیسٹ تھوڑا پرانے زمانے کا ہے۔ پھر شاپنگ بھی انہوں نے اکیلے ہی کی۔ تمہاری ایک نند تو چھلے میں تھی اور دوسری کے میاں کی طبیعت ناساز تھی۔ اگر وہ ساتھ ہوتیں تو شاید … آخر میں فاریہ وغیرہ کو کیا منہ دکھاؤں گی۔ کتنا مذاق اڑے گا میرا گروپ میں۔ تو چندا تمہارے پاس چیزوں کی کوئی کمی تھوڑی ہے۔ تم کچھ اور لگا دینا اسٹیٹس پر۔ لوجی ! اب کیا میں رمضان میں روزے کے ساتھ جھوٹ بولوں۔ اور پھر جھوٹے اسٹیٹس کا مزہ بھی تو نہیں آتا۔ انسان خود سے ہی شرمندہ شرمندہ سا رہتا ہے۔ وہ رو دینے کو تھی۔ بھابھی اسے تسلی دلاسا دیتے ہوئے چلی گئیں تو اس نے بے دلی سے سامان سمیٹا اور الماری کے سب سے نچلے خانے میں ڈال دیا۔
☆☆☆

عید بے حد قریب آچکی تھی۔ عیدی کے اسٹیٹس لگنا شروع ہو چکے تھے مگر اس کی جانب سے خاموشی تھی۔ دوستوں نے پوچھا تو اس نے ٹال دیا کہ ابھی عیدی ہی نہیں آئی۔ ایک دن وہ افسردہ سی لان میں بیٹھی تھی جب بیل بجی۔ اس کا بھتیجا قریب ہی کھیل رہا تھا۔ بھاگا ہوا گیا۔ پھوپھو! کوریئر والا یہ دے کر گیا ہے۔ وہ ہاتھ میں پکڑا ایک گفٹ پیک لہرا رہا تھا۔ اس نے لے کر دیکھا اس کا نام لکھا تھا۔ اس نے حیرت سے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر احتیاط سے کھولا۔ ایک مخملیں ڈبیا برآمد ہوئی۔ اس پر چٹ لگی تھی۔ ڈیر عنایہ کے نام۔ امید ہے کہ آپ کو اماں کے گفٹ بالکل پسند نہیں آئے ہوں گے۔ ان کے لیے معذرت مگر یہ ضرور پسند آئے گا۔ نیچے اس کے منگیتر کا نام لکھا تھا۔ وہ شرم وحیا یسے گل و گلزار ہوگئی۔ ڈبیا کے اندر بے حد نازک اور نفیس سا گولڈ کا بریسلیٹ جگمگا رہا تھا۔ اس کے ارد گرد جڑے ننھے ننھے نگینے اس کی آنکھوں میں پنہاں خوابوں کی ماند دمک رہے تھے۔ اس نے ڈبیا کو کسی قیمتی متاع کی مانند آنچل میں چھپایا اور اپنے کمرے کا رخ کیا۔ آج چاند رات تھی۔ فضا میں خوش گوارسی نمی اور ٹھنڈک گھلی تھی۔ ابھی ابھی تمام گھر والے چاند دیکھ کر نیچے اترے تھے مگر وہ اپنا فون تھامے ابھی وہاں کھڑی تھی۔ ایک اہم کام جو رہتا تھا اس نے وہی نمٹانا تھا۔ وہ منڈیر کے قریب آئی۔ یہاں روشنی زیادہ تھی۔ دایاں بازو سامنے کیا۔ آستین ہٹائی۔ کلائی میں خوب صورت بریسلیٹ اپنی چھب دکھلا رہا تھا۔ مرمریں کلائی پر گولڈ کا بریسلیٹ … اس نے موبائل کا رخ سیدھا کیا اور کھٹ سے تصویر کھینچ لی۔ عنایہ کیا کر رہی ہو؟ پیچھے سے بھابھی کی آواز آئی وہ چائے کا کپ اس کی جانب بڑھا رہی تھیں۔ وہ بھابھی ! یہ ان کے گفٹ کا اسٹیٹس لگا رہی تھی۔ یہ ضروری ہے کیا ؟ ان کا لہجہ اور سوال دونوں عجیب سے تھے۔ کیا مطلب ہے آپ کا؟ وہ چونکی۔ دیکھو چندا! یہ کچھ مناسب نہیں ۔ محبتوں اور نعمتوں کی تشہیر نہیں کرتے۔ ان کو چھپا کر رکھنا چاہیے۔ کہیں محروم لوگوں کی حسرت انہیں نظر نہ لگا دے۔ اب بھلا ہر لڑکی کو عیدی میں اتنا قیمتی تحفہ تو نہیں ملتا ہوگا۔ پھر بھلا ہم کیوں خواہ مخواہ دوسروں کو حسرت اور احساس کمتری میں مبتلا کریں۔ وہ دھیرے دھیرے سمجھا رہی تھیں اور بات اسے سمجھ میں آہی گئی۔ وہ بھی تو فاریہ وغیرہ کا اسٹیٹس دیکھ کر کم مائیگی کا شکار ہوتی تھی اور اب پھر وہ خود کسی اور کو کیوں کرے۔ وہ چپ چاپ بھابھی کے ساتھ نیچے سیڑھیاں اترتی چلی آئی۔ رات گئے اس کے موبائل کی اسکرین روشن ہوئی اور دوستوں کے گروپ میں اس کا خوب صورت اسٹیٹس ان الفاظ کے ساتھ جگمگا رہا تھا۔ دوستو ! آج چاند رات ہے۔ اور شکر ہے اس رب تعالیٰ کی عظیم ذات کا جس کی عطا کر وہ تمام نعمتیں میرے ساتھ ہیں۔ وہ ان نعمتوں، ان محبتوں کو سلامت رکھے۔ آؤ اس حسین چاند رات کو ہم سب شکر گزار ہوں۔ اس عظیم ہستی کے جس نے ہمیں ایک اورعید کی خوشیاں دیکھنا نصیب کیں۔

Latest Posts

Related POSTS