Wednesday, February 19, 2025

Aaj ki Akbari Asghari

گھر والوں کے بعد اب مکھیوں کے ناشتے کی باری تھی۔ میز پر اب تک ناشتے کے آثار موجود تھے۔ مکھن میں لتھڑی ہوئی چھری میز پر پڑی اپنی قسمت کو رورہی تھی۔ بچوں کے چھوڑے ہوئے دودھ کے گلاسوں اور چائے کی جھوٹی پیالیوں پر اب مکھیا ں ناشتہ کر رہی تھیں۔ماہین ان سب چیزوں سے بے خبر سر جھاڑ کر منہ پہاڑ، نظریں ٹی وی پر جمائے مارننگ شو دیکھنے میں مشغول تھا۔ اتنے میں اندر سے ایاز کی بھی آواز آئی، ماہین، میری نیلی ٹائی کہاں ہے؟ مل ہی نہیں رہی! ماہین نے غصّے سے منہ کمرے کی طرف کر کے کہا، دراز کے نیچے والے خانے کی اوپر والی سائیڈ میں دیکھو۔ اور میرا مارننگ شو خراب نہ کرو، اپنی چیزیں خود سنبھال کر رکھا کرو۔ ایاز خاموش ہو گیا اور جلدی جلدی سیاہ ٹائی لگا کر کمرے سے باہر آیا۔

میں نے کالی ٹائی لگا لی ہے اور سوری۔ الماری اور کمرہ ذرا الٹ گیا ہے جلدی میں۔ میں آ کر ٹھیک کر دوں گا۔تو بہ ہے، میں گھر دیکھوں، بچے دیکھوں یا ان حضرت کے کپڑے جوتے؟ حد ہوتی ہے۔ ماہین غصے میں بولی، نہیں نہیں، تم صرف ٹی وی دیکھو، باقی چیزیں میں دیکھ لوں گی جب تم واپس آؤ گے۔

ایاز کو صبح صبح دھماکوں اور گولہ باری سے ڈر لگتا تھا، اس لیے وہ خاموشی سے نکل گیا۔ حقیقت یہ تھی کہ ماہین کو ٹی وی دیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ باقی کسی چیز کو دیکھنے کے لیے ٹائم ہی نہیں ملتا تھا۔ گھر کے کونے کونے میں جالوں کی شان دار نمائش جاری تھی۔ بستروں پر پھٹی چادریں بچھی تھیں، اور ادھر ادھر چیتھڑے پڑے ہوئے تھے۔ میز اور کرسیوں پر دھول مٹی سے خوبصورت نقاشی کی گئی تھی۔ کھانا زیادہ تر بازار سے آتا تھا۔ آرڈر کیا جاتا، جب مہینہ ختم ہونے لگتا اور پیسے کم پڑ جاتے تو نکڑ کے ہوٹل سے سستی دال اور روٹی منگوا کر گزارا کیا جاتا۔ چکن میں برتن اوندھے پڑے رہتے اور مختلف طرح کے بازاری کھانوں کے ڈبے جگہ جگہ بکھرے دکھائی دیتے۔ کوئی بھی جو ان کے گھر چند لمحوں کے لیے آتا، بڑی آسانی سے جان سکتا تھا کہ گزشتہ ہفتے کن کن جگہوں سے کھانا منگوا کر کھایا گیا ہے۔

بچے حنان اور حریم، ماہین اور ایاز کے دو بچے تھے۔ حنان کو ایسی بیماری تھی کہ ہر وقت ناک بہتی رہتی۔ حریم کے بال ہمیشہ الجھے رہتے کیونکہ اس کی ماں کے پاس اس کے لیے بالوں کو سلجھانے کا وقت کم ہی ہوتا تھا۔ حریم اور حنان بھی ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کوئی بھی چیز استعمال کرنے کے بعد اسے اس کی جگہ پر واپس رکھنا جرم سمجھتے تھے۔ اس لیے اسکول کی کاپیاں اکثر صوفوں کے نیچے اور ربر فریج کے اوپر آرام کرتے پائے جاتے۔ ایاز بھی کبھی کبھار کچھ کہہ دیتا تو ماہین چیخ چیخ کر چیزیں توڑنے اور پھینکنے لگتی۔ ساتھ ہی بچے اپنی ماں کے گھر چلے جانے کی دھمکی دیتی، جو ایاز کے لیے ایک کارگر حربہ تھا، کیونکہ وہ لمحے بھر کے لیے بھی ان کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ ماہین کو ریڈی میڈ کپڑوں اور کھانوں کا بھی بڑا شوق تھا۔ جیسے ہی ایاز کسی بات پر جھنجھلا کر کوئی سخت بات کہتا، ماہین فوراً بڑی بڑی آنکھوں کے بٹن دبا کر گویا خودکار آنسو نکال لاتی، اور ایاز کو ہار ماننے پر مجبور کر دیتی۔ بنیادی طور پر ایاز ایک بزدل اور کمزور آدمی تھا۔ ماہین، ایاز کے جانے کے بعد اطمینان سے بکھری چیزوں کے بیچ بیٹھ کر ٹی وی پر مارننگ شو دیکھنے لگی۔
☆☆☆
بوتلوں میں لٹکی ہوئی منی پلانٹ سے لے کر سلیقے سے بنے ہوئے ڈوریوں والے تولیہ اسٹینڈ تک، ہر چیز اس کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ بے داغ سفید تو لیے، صاف ستھری چادر ہیں، کمروں میں مختصر لیکن صاف ستھرا اور سلیقے سے سجا ہوا فرنیچر ۔ رضیہ بیگم نے چھوٹی بہو کے گھر میں قدم رکھتے ہی سو بار نظر دوڑائی لیکن پچھلے ایک گھنٹے سے کوئی ایک بات بھی تو ایسی نظر نہ آئی تھی کہ جس پہ وہ کوئی جملہ کسی سکتیں ۔ زبان میں بری طرح کھجلی ہو رہی تھی ۔ یہ کیا بات ہوئی ؟ زمانوں بعد ساس بہو کے گھر آئے اور اسے کچھ جلی کٹی کہہ کے اپنا ساس ہونے کا حق بھی نہ لے پائے؟

سویرا ان کی چھوٹی بہو تھی۔ جو ان کو شربت کا گلاس دینے کے بعد تخت یہ اخبار دے کے پنکھا چلا کے اب کچن میں گھسی ہوئی تھی۔ گھر بھر میں قیمہ بھوننے کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ رضیہ بیگم نے اخبار ایک طرف سر کا دیا۔ ان کو قومی اور بین الاقوامی خبروں سے زیادہ بہو کی خبر لینے میں دلچسپی تھی۔ بہو ۔ یہ ہمارے بچے کب تک واپس آجاتے ہیں اسکول سے ؟ سویرا کچن سے باہر آکے پسینہ پونچھتے ہوئےبولی بس آتے ہی ہوں گے امی ۔ اس لیے جلدی جلدی کھانا تیار کر رہی تھی کہ جب تک بچے کپڑے تبدیل کریں، میں کھانا گرم گرم میز پہ لگا دوں ۔ قیمہ مٹر تو بھون لیا ہے۔ تھوڑے سے چاول ابال لیے ہیں اور رات کی دال ہے وہ گرم کر لی ہے۔ آپ کو کچھ خاص کھانا ہو توبتائیے امی؟اے خدا کو مان بہو ۔ یہ کس جانور کا قیمہ بھوننے بیٹھ گئی ہو؟ یہاں کراچی میں تو سنا ہے کہ گائے بھینس کا تو گوشت اب ملتا ہی نہیں ہے۔ اب تو جانے کن کن جانوروں کا گوشت کاٹتے بیچتے پھرتے ہیں یہ موئے قصائی ۔ اف توبہ ۔ تب ہی تو کہوں، میرا بچہ دانیال اور پوتے سوکھ کے کا نٹا ہوئے جارہے ہیں؟ الا بلا کھلاتی ہو ان سب کو؟ ارے امی۔ آپ نے بہت دنوں سے دانیال کو دیکھا نہیں ۔ وہ تو ایک ذاتی توند کے مالک بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر نے اُن کو وزن کم کرنے کامشورہ دیا ہے۔ رہ گئے آپ کے دونوں پوتے تو شایان اور آیان کو میں ہر چھ مہینے بعد چیک اپ کرانے لے جاتی ہوں ۔ دونوں بچوں کا وزن ان کی عمر کے حساب سے بالکل مناسب ہے۔ آپ فکر نہ کیجیے امی ۔سویرا نرمی سے ہنس کے بولی اور رضیہ بیگم کو مزید غصہ آ گیا۔ ارے حد ہو گئی۔ تمہیں تو کوئی فکر ہی نہیں ہے اب اپنے بیٹے ، پوتوں کی فکر میں بھی چھوڑ دوں کیا؟ اور ہاں بہو۔ یہ الگنی پر بچوں کے یونی فارم سوکھ رہے ہیں۔ یہ کیا چکر ہے؟ ضرور اپنے پھوہرپن میں تم نے یونی فارم دیر سے دھوئے اور آج میرے معصوم پوتے بغیر یونی فارم کے اسکول گئے ہوں گے ہائے وہ معصوم اسکول میں مار کھا رہے ہوں گے – ۔ رضیہ بیگم کو بالآخر اعتراض کا ایک موقع مل ہی گیا۔ارے نہیں نہیں امی ۔ بچے یونی فارم پہین کے گئے ہیں۔ میں بچوں کے دو دو یونی فارم منگواتی ہوں تاکہ بچے ایک یونی فارم پہن کے جائیں ، دوسرا دھلتا سوکھتا رہے۔ اس طرح بچے روز سفید چمکتا یونیفارم پہن کے جاتے ہیں۔ سویرا محبت سے بچوں کی سفید شرٹوں پہ ہاتھ پھیر کے بولی۔ رضیہ بیگم منہ پر ہاتھ مار کے بولیں۔ اف میرے اللہ ۔ اس قدر فضول خرچی۔ اتنے چھٹانک بھر کے بچوں کے دو دو یونی فارم۔ میرے بچے کی جیب کا کباڑا کر دیتی ہوگی تم تو ۔رضیہ بیگم کی زبان کو چابی مل چکی تھی ۔ ابھی کچھ اور بھی کہتیں کہ و ین کا ہارن سنائی دیا۔ اور سویرا دروازہ کھولنے لپکی۔ لال ٹماٹر چہرے لیے صاف ستھرے دو بچے اندر داخل ہوئے ۔ سویرا نے ان دونوں کا ہاتھ تھام کے ان کو رضیہ بیگم کے سامنے کیا۔ شایان اور آیان بیٹا! دادی اماں آئی ہیں۔سلام کرو۔ شاباش شایان اور آیان نے سلام کیا تو رضیہ بیگم نے  رضیہ بیگم کی زبان کو چابی مل چکی تھی ۔ ابھی کچھ اور بھی کہتیں کہ و ین کا ہارن سنائی دیا۔ اور سویرا دروازہ کھولنے لپکی۔ لال ٹماٹر چہرے لیے صاف ستھرے دو بچے اندر داخل ہوئے ۔ سویرا نے ان دونوں کا ہاتھ تھام کے ان کو رضیہ بیگم کے سامنے کیا۔ شایان اور آیان بیٹا! دادی اماں آئی ہیں۔سلام کرو۔ شاباش شایان اور آیان نے سلام کیا تو رضیہ بیگم نے دونوں کو سینے سے لگا لیا۔ پھر بچوں کا سر سے پیر تک جائزہ لیا۔ بچے صاف ستھرے یونیفارم اور چمکتے سیاہ جوتوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ انہوں نے مایوس ہو کے گردن ہلا دی۔ کیونکہ انہیں پوتوں کے حلیے میں کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہ لگی جس پہ بہو کی کلاس لے سکتیں ۔

☆☆☆

اف، ڈیڑھ بجنے والا ہے۔ بچے میرے سر پہ نازل ہونے والے ہوں گے اور میں پروگرام میں ایسی کھوئی کہ ٹائم کا پتا ہی نہیں چلا۔ آتے ہی آدم بو کی طرح بھوک بھوک کا نعرہ لگا دیں گے۔ٹی وی ڈرامے میں گم، ماہین اچانک چونکی اور ہڑبڑا کے ادھر اُدھر ہاتھ مارا۔ پکایا تو کچھ نہیں ہے۔ پیزا آرڈر کرتی ہوں۔ ارے، موبائل کہاں گیا؟ وہ صوفے کے کشن ادھر ادھر پھینک کر موبائل تلاش کرنے لگی کہ گھنٹی بجی اور بچے اسکول سے آگئے۔ مما! کیا پکایا ہے؟ بھوک لگی ہے! حریم نے آتے ہی سلام دعا کیے بغیر پوچھا۔ارے، پکایا تو KFC یا پیزا ہٹ والوں نے ہوگا۔ مما تو صرف آرڈر کرتی ہیں۔ یہ پوچھو، آج کیا آرڈر کیا ہے؟ حنان نے بدتمیزی سے کہا اور جوتے موزے ادھر اُدھر پھینک کر اپنا ٹیبلٹ کھول کر صوفے پر بیٹھ گیا۔

ارے حنان! جوتے موزے ادھر ادھر کیوں پھینک دیے؟ اسکول کی چھٹی ہوگئی کیا؟ کل پھر اسکول جانا ہے کہ نہیں؟ صبح صبح ڈھونڈتی پھرو گی ان موزے جوتوں کو۔ مجھ سے مت کہنا تلاش کرنے کو، ماہین غصے سے بولی اور ساتھ ساتھ ہاتھ مار کر موبائل تلاش کرنے لگی۔ مما! جب حنان کے جوتے موزے رکھنے اندر کمرے میں جائیں ناں تو میرے جوتے موزے بھی رکھ دیجیے گا، اور کھانا جلدی منگوائیں، بھوک لگی ہے۔ حریم جوتے اچھالتی صوفے پر اوندھی لیٹ گئی۔

ارے، دم تو لو۔ موبائل پتا نہیں کہاں چلا گیا۔ ملے گا تو آرڈر کروں گی ناں۔ ماہین اب جھنجھلاہٹ میں چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکنے لگی۔ بچوں کو بھی یہ کھیل دلچسپ لگا، تو انہوں نے باقی کشن اور چیزیں اچھال کر پھینک دیں۔ اتنے میں حنان پانی پینے کے لیے کچن میں گیا اور مکھن میں لتھڑا ہوا موبائل لیے باہر نکلا۔ مما، یہ صبح سے کچن میں پڑا ہے۔ جب آپ ناشتے کے لیے تو اس پر مکھن لگا رہی تھیں، تب سے یہ وہیں پڑا ہے۔ ماہین نے جھٹ سے موبائل بچے کے ہاتھ سے لیا۔ اس کی اسکرین مکھن سے گندی ہو رہی تھی۔ ماہین نے جلدی سے صوفے پر پڑی حنان کی اسکول کی ٹائی سے موبائل کی اسکرین صاف کی، تو حریم قہقہہ مار کے ہنس پڑی۔ ہا ہا ہا! مما، آپ نے حنان کی ٹائی پر مکھن لگا دیا۔ اب اسے کل اسکول میں ڈانٹ پڑے گی۔ماہین غصے سے بولی۔ چپ کروید تمیز ۔ مجھے آرڈر کرنے دو، اب تو مجھے بھی بھوک لگنے لگی ہے اور آرڈر لانے میں وہ گھنٹہ لگا دے گا ۔ ماہین جلدی جلدی نمبر ملانے لگی۔

☆☆☆
گرما گرم ، نرم پھولی پتلی چپاتیاں ، گرم گرم سرخ بھنا ہوا قیمہ جس میں ہرے ہرے مٹر بہار دکھا رہے تھے۔ ساتھ میں بھاپ اڑاتے سفید ابلے چاولوں کی ڈش اور ارہر کی ڈال ، پیاز کے تازہ بگھار کے ساتھ دال۔ رضیہ بیگم نے دستر خوان پر تنقیدی نگاہ ڈالی۔ پھر کہا: قیمہ بھونا ہے۔ ساتھ کوئی سبزی بھی بنا لیتیں۔ سبزی سے دستر خوان پہ ہریالی آتی ہے اور بچوں کو بھی سبزی کھانے کی عادت پڑتی ہے ۔جی امی۔ اصل میں دو پہر کے کھانے پر صرف میں اور بچے ہی ہوتے ہیں تو زیادہ اہتمام نہیں کرتی ۔ رات کی بچی ہوئی وال سالن گرم کر کے تازه چاول ابال لیتی ہوں۔ یہ تو آپ کے لیے میں نے قیمہ بھونا ہے۔ بچوں کے لیے رات کی دال بگھار سے تازہ کر دی ہے۔ سویرا نے نرمی سے کہا۔ ارے تو بہ کرو۔ میرے معصوم پوتوں کو  باسی دال  کھلا کے بیمار کرنا چاہتی ہو؟ بچت تو بہو رانی ! نکل جائے گی تاک کے راستے اگر ۔ میرے منہ میں خاک میرے پوتوں کو کچھ ہو جائے ۔ لعنت ہو ایسی بچت پہ۔ رضیہ بیگم عادت سے مجبور ہو کے بھڑک اچھی تھیں ۔ سویرا شرمندہ سی ہو کے اپنی پلیٹ پر جھک گئی۔

☆☆☆

امی ، تھوڑے دن اور رک جاتیں ناں؟ دانیال نے لاڈ سے ماں کا کندھا تھاما۔ارے نہیں بیٹا تمہاری بیوی نے تو بچتوں کا حال سنا سنا کے مارڈالا۔ لگتا ہے فاقے کاٹ رہے ہو تم میاں بیوی۔ ایسے میں بوڑھی مہمان ماں تو بوجھ ہی ہوئی ناں؟ دانیال نے سویرا کو غصے سے گھورا۔سویرا ۔ ایسا کیا ہوا ہے؟ امی کے کھانے پینے میں کوئی کمی ہوئی ہے ؟ دانیال نے سوالیہ نگاہوں سے بیوی کو دیکھا نہیں تو دانیال امی جتنے بھی دن یہاں رہیں، میں نے تو اپنی پوری کوشش کی۔ امی کے لیے اچھے سے اچھا کھانا پکانے کھلانے کی۔ البتہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پہ میرا کوئی کنٹرول نہیں کہ ہمارے ہاں اے سی نہیں ہے۔ جیزیٹر بھی نہیں۔ لائٹ پانچ پانچ گھنٹے کے لیے چلی جاتی ہے تو امی جی کا بی پی ہائی ہو جاتا ہے ۔ سویرا سر جھکا کے آہستہ سے بولی۔ تو دانیال بھی شرمندہ ہو کے بولا۔امی ! واقعی آپ کو میرے گھر تکلیف ہی ہو رہی ہوگی۔ میں نے تو اپنی محبت میں سوچا ہی نہیں کہ ہمارا گھر کتنا تنگ ہے اور جزیٹر اور اے سی جیسی سہولتیں بھی نہیں۔ آپ بزرگ اور بیمار ہیں۔ شان بھائی کے گھر ان سب سہولتوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ ٹھیک ہے، میں آپ کو شان بھائی کے گھر واپس لے چلتا ہوں۔ارے، شان تو مجھ سے تنگ آ بیٹھا ہے۔ میں اب ذرا ایاز کے گھر جانا چاہتی ہوں۔ ایاز اور ماہین بہو کے ساتھ کچھ دن گزار لوں گی۔ کسی کے سر پر زیادہ دن سوار رہنا مجھے بھی پسند نہیں ہے۔ مجھے ایاز بیٹے کے گھر لے چلو، یا پھر اسے فون کرکے بلا لو کہ آ کر اپنی بوڑھی ماں کو لے جائے۔ ایاز کے پاس اچھی جاب ہے، بڑا گھر ہے، سکون سے رہوں گی۔ بچت اسکیم کا حصہ بن کے تو نہیں رہ جاؤں گی ناں؟ رضیہ بیگم بے زاری سے بولیں۔ دانیال اور سویرا ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے۔

☆☆☆

ایاز گاڑی چلا رہا تھا اور چہرے پر کافی گھبراہٹ تھی۔ برابر میں رضیہ بیگم اطمینان سے بیٹھی تھیں اور ڈگی میں اُن کا سامان تھا۔ رضیہ بیگم نے پوچھا ارے، تمہاری نوکری تو ٹھیک جا رہی ہے نا ایاز؟ دانیال بے چارے کو تو تین مہینے بعد ایک تنخواہ ملتی ہے۔ ایاز سر ہلا کر بولا: جی، جی امی، ماشاءاللہ نوکری بالکل ٹھیک چل رہی ہے اور تنخواہ بھی باقاعدگی سے وقت پر ملتی ہے۔  رضیہ بیگم سکون بھرا سانس لے کے بولیں ۔ چلو شکر ہے۔ ورنہ سویرا بہو کے گھر تو بچت کی تکرار سن کے لگتا تھا کہ میں کوئی مصیبت بن کے بچت کے ماروں پہ نازل ہوگئی ہوں ۔ اب تمہارے گھر ا میں سکون اور خوشحالی مل سکے گی۔ ایاز گڑ بڑا کے بولا ۔ خوش حالی تو ضرور ہے مگر ساتھ ساتھ خشک مزاجی بھی ملے گی۔ سکون کا وعدہ نہیں کر سکتا۔ دراصل ماہین کا مزاج سویرا بھابی سے مختلف ہے۔ سویرا بھابی جتنے ٹھنڈے مزاج کی ہیں۔ ما بین اتنی ہی گرم مزاج کی ہے۔ ایاز کے لہجے میں شرمندگی تھی۔رضیہ بیگم جلدی سے بولیں، اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ مجھے لگتا ہے، ماہین کو تم سے کچھ شکایتیں ہوں گی، ورنہ مجھ سے تو ہمیشہ اچھی طرح ملی ہے۔ ایاز آہ بھر کے بولا، یہ ہمیشہ صرف تین بار کا ہے، امی۔ آپ پہلی بار اس سے رشتہ طے ہونے والے دن ملیں، دوسری بار نکاح والے دن، اور تیسری بار اس کے علیحدہ گھر کی تقریب میں۔ ان تین مواقعوں پر وہ خوش تھی۔ آج تک آپ کی اس سے نارمل موڈ میں ملاقات نہیں ہوئی۔

اتنے میں وہ گھر پہنچ گئے۔ رضیہ بیگم اور ایاز گاڑی سے اتر کر گیٹ کھول کر اندر داخل ہوئے۔ رضیہ بیگم نے کہا، تم کچھ بھی کہو، مجھے تو بڑی بہو میں کوئی برائی نظر… رضیہ بیگم کا جملہ ادھورا رہ گیا۔ لکڑی کے کھلے دروازے سے ایک اڑتی ہوئی خالی پلیٹ آکر رضیہ بیگم کے پیر پر لگی۔ وہ تکلیف سے بلبلا اٹھیں۔ ایاز بری طرح شرمندہ ہوا۔

پلیٹ کے تعاقب میں ماہین کی چیختی ہوئی آواز بھی آ رہی تھی: اتنی دیر سے آئے ہو! کہا بھی تھا جلدی آنا! امی کے گھر جاتے ہو تو تمہیں ساری دنیا کے کام یاد آ جاتے ہیں تاکہ میں لیٹ ہو جاؤں! ماہین کی ایسی گفتگو سن کر رضیہ بیگم حیران رہ گئیں اور ایاز بری طرح شرمندہ تھا۔ اس نے جھک کر ماں کے پیر کے پاس پڑی اسٹیل کی خالی پلیٹ اٹھائی اور بلند آواز میں کہا، ماہین، باہر آ کر دیکھو تو سہی کہ دیر کیوں ہوئی اور میں کس کو ساتھ لایا ہوں؟ وہ بری طرح غصے میں تھا۔ماہین کی اندر سے ہی غراہٹ سنائی دی۔ اف یعنی میں امی کے گھر جانے کی تیاری کیے بیٹھی ہوں اور تم کسی مفت خورے کو لے کے نازل ہو گئے ہو؟ حد کر دی۔ اب خود ہی بیٹھ کے کھلاؤ اسے۔ میں تو چلی کیب منگا کے امی کے گھر ۔ ڈیپ فریزر میں پرانے تاریخوں کے ڈبہ بند کٹلس پڑے ہیں۔ وہی خود کو اور اپنے مفت خورے دوست کو کھلا دو۔ میں تو ہرگز کچن میں نہیں جانے کی۔ ایاز مزید بوکھلا گیا اور بولا، تم باہر تو آ کر دیکھو نا۔ اتنے میں ہکا بکا رضیہ بیگم سنجیدگی سے اندر قدم بڑھا چکی تھیں۔ ٹی وی لاؤنج میں یہاں سے وہاں تک کشن بھرے ہوئے تھے۔ بچوں کے یونیفارم، جوتے، موزے، اور ماہین کے کپڑے زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔ کچن اوپن تھا، جس کی وجہ سے گندگی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ کچن کے سلیب پر پیاز اور آلو کے چھلکے اور گندے برتنوں کے ڈھیر صوفے پر بیٹھے بیٹھے دیکھے جا سکتے تھے۔ رضیہ بیگم نے ایک ساس کی عقابی نگاہ سے سب کچھ دیکھ لیا اور غصے سے لال ہو کر بول اٹھیں، بڑی بہو، یہ گھر کا کیا حال کر رکھا ہے؟ ماہین اُن کا سخت لہجہ سن کر بجائے شرمندہ ہونے کے بھڑک اٹھی اور تلخ لہجے میں بولی، مجھے کچھ کہنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آپ بغیر اطلاع دیے آئی ہیں۔ کسی وقت گھر کا حال کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اب گھر پھیلا ہوا ملا ہے تو آپ کا اپنا قصور ہے، گھر والوں کا نہیں۔ ماہین کا گستاخ لہجہ سن کر رضیہ بیگم سکتے میں رہ گئیں۔ ایاز، ماں کا سفید چہرہ دیکھ کر جلدی سے آگے بڑھ کر بولا، آئیے امی۔ میں آپ کو اندر کمرے میں لے چلتا ہوں۔ آرام کیجیے۔ پھر کھانا لگے گا تو آپ کو بلا لوں گا۔ جب تک بچے بھی ٹیوشن پڑھ کر واپس آ جائیں گے، اُن سے بھی ملاقات کر لیجیے گا۔ رضیہ بیگم ایاز کے ساتھ چل دیں۔ ماہین کے چہرے پر شدید غصہ تھا۔ ایاز جب واپس لوٹا تو وہ شیر کی طرح دھاڑی ۔ ملک کی تمام موبائل کمپنیوں نے اپنی سروس بند کر دی ہے کیا؟ اپنی امی کو ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی؟ صبح شام اپنے دکھڑے رو تو لیتےہو فون پر- ایاز گھبرا کر بولا، دو چار دن کے لیے آئی ہیں۔ پھر واپس دانیال کے گھر چلی جائیں گی۔ ویسے تو تمہارا سلوک ایسا ہے کہ دو چار دن بھی رہنا مشکل ہوگا اُن بے چاری کا۔

کھانے کی میز پر بازار کی تیز مرچ کی گہرے سرخ رنگ کی روغن بھری نہاری ایک بڑی ڈش میں لبالب بھری رکھی تھی اور ساتھ میں تندور کی سخت اور چمڑے جیسی لمبوتری روٹیاں ایک بڑے پیالے میں اوندھی سیدھی پڑی تھیں۔ بچے نہاری الٹے چمچے سے نکال رہے تھے اور نہاری کی بوندیں میز، بچوں کے کپڑوں، اور فرش پر گر رہی تھیں۔ رضیہ بیگم یہ سب کچھ دیکھ کر سکتے کی سی کیفیت میں تھیں۔ ارے امی، کھائیے ناں۔ بڑے مزے کی نہاری ہے۔ شوکت کی نہاری یہاں بڑی مشہور ہے۔ رضیہ بیگم بیزاری سے بولیں۔ محلے کے ڈاکٹر نے مشہور کرائی ہوگی۔ اس کے پاس پیٹ درد کے مریض بھیجنے کا مشن ہوگا ناں نہاری والے سے۔ ایاز گھبرا کر بولا، کیا مطلب امی؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔ وہ تو خیر کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے ماہین سے تمہاری شادی ہوئی ہے، اُس کے بعد سے تم کچھ بھی نہیں سمجھے۔ ایاز نے بوکھلا کر ماہین کو دیکھا، جس کا چہرہ نہاری کے رنگ سے ملتا جلتا سرخ ہو چکا تھا۔ جانے نہاری تیز تھی یا ساس؟رات رضیہ بیگم بات بدلتے ہوئے بولیں، نہیں بیٹا، بس کھا لیا۔ ایک تو تیز مرچ مسالہ کھانے سے مجھے السر کی شکایت ہو جاتی ہے۔ ساری رات پیٹ کے درد سے کروٹیں بدلتے گزرتی ہیں اور پھر روٹیاں آٹے کے بجائے شاید ربڑ کی بنی ہوئی ہیں۔ نہ پیچی جاتی ہیں، نہ توڑی جاتی ہیں، نہ چبائی جاتی ہیں۔

رضیہ بیگم کے لہجے میں طنز کے بجائے اب بے بسی تھی۔ انسان کی ماہین غصے میں چبا چبا کر بولی، جب انسان کی عمر ایسی ہو جائے کہ دانت اور پیٹ جواب دے جائیں تو اسے اپنے گھر میں ہی رہنا چاہیے، نہ کہ نت نئی جگہوں پر جا کر دوسروں کے کھانے سے اپنا پیٹ اور دوسروں کا موڈ خراب کرنا چاہیے۔ایاز نے غصہ کرنے کی ہمت کی اور دبی دبی آواز میں بولا، ماہین! وہ تو تنبیہ سن کر اور بھڑک اٹھی۔ پلیٹ پھینک کر کھڑی ہو گئی اور پٹخ سے بولی، میں کل ہی بچوں کے ساتھ اپنی امی کے گھر رہنے جا رہی ہوں۔ تم رہو اپنی امی کے ساتھ جنہیں ہر بات میں تنقید کرنے کی عادت ہے۔ ماہین زور زور سے بول رہی تھی۔ رضیہ بیگم اپنی عزت اپنے ہاتھ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے کچھ دیر خاموش بیٹھی بیٹے کو دیکھتی رہیں پھر کہا۔ بیٹا۔ کل اُسے نہیں۔ مجھے چھوڑ آنا دانیال کے گھر۔ ایاز خوش ہو کے بولا ۔ ٹھیک ہے امی۔ ویسے رک جائیں تو اچھا تھا۔ وہ کچھ گڑ بڑا گیا۔ رضیه بیگم اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اٹھ کھڑی ہوئیں اور طنیز یہ کہا۔ ساری زندگی یونہی گڑ بڑاتے ہوئے رہنا- پھر اپنے کمرے کی طرف بڑھیں اور بستر پہ جا لیٹیں۔ نیند آتی تو کیسے ؟ بڑی بہو کے ہاتھوں زبر دست بے عزتی ہوئی تھی کہ دماغ میں چبھ رہی تھی اور تیز لال مرچ سے بھر پور نہاری کے دونوالے پیٹ میں ادھم مچائے دے رہے تھے۔ اٹھ کے ٹہلنے لگیں۔ پھر کچھ خیال آیا تو دھیان بٹانے کو اپنے سفری بیگ میں سے اپنا من پسند ناول مراۃ العروس نکال لیا اور تکیے سے ٹیک لگا کے پڑھنے لگیں ۔ سو بار کا پڑھا ناول ہمیشہ ہی اچھا لگتا تھا۔ کم پڑھی لکھی تھیں ۔ لیکن بچپن میں ہی ڈپٹی نذیر احمد کے ناول اپنی خالہ کی الماری سے نکال نکال کے پڑھ لیا کرتی ہیں اور چونکہ بے ضرر اور معاشرتی سدھار کے ناول تھے اس لیے ماں، خالہ، نانی کسی نے ان ناولوں کے پڑھنے پہ روک روک ٹوک بھی نہ کی تھی ۔ یہ ناول گو یا ان کی بچپن کی یاد، میکے کی خوشبو ، سسرال میں تنہائی کا سہارا اور بڑھاپے میں وقت گزاری کا مشغلہ تھا۔ لیکن جانے کیوں آج ناول میں بھی دل نہ لگا۔ انہوں نے ناول ایک طرف ڈال کے موبائل بیگ سے نکالا اور لاہور میں اپنے تیسرے بیٹے کے پاس موجود اپنے شوہر احمد علی کو کال کر کے دل کا غبار نکالا ۔ احمد علی غور سے سنتے رہے اور رضیہ بیگم کہتی گئیں۔
ار نے آپ تو پچھلے مہینے ہو کے گئے ہیں کراچی میں دونوں بیٹا بہوؤں کے پاس ۔ مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ؟ کہ بڑی بہو مرچ کی طرح تیز ہے اور ہر وقت بلی کی طرح پنجے نکالے شیر کی طرح غراتی ہے۔ نہ حسن ہے نہ سلیقہ ۔ جانے ہمارا ایاز کس بات پہ گرویدہ ہے؟ وہ دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے بولیں ۔ احمد علی جو دونوں بیٹا بہوؤں سے ایک مہینہ پہلے ہی مل چکے تھے۔ سکون سے بولے۔بھئی ما ہین میں کوئی تو گن ہو گا کہ تم مسلسل بیس منٹ سے اُسی کی بات کر رہی ہو۔ چھوٹی بہو سویرا کے گھر بھی گئی تھیں۔ تم نے ایک بار بھی اس کے سلیقے ، سادگی ، سکھڑاپے ، کفایت شعاری اور فرماں برداری کا ذکر نہیں کیا ۔

ارے بس دل جلا ہوا تھا اس لیے ماہین کی بات کرنے لگی ۔ رضیہ بیگم شرمندہ ہو کے بولیں۔ در اصل ایاز اپنی بیوی کی زبان سے ڈرتا ہے اور ماہین اپنی عادت سے مجبور ہے۔ کچھ قصور اس میں ہمارے دبے دبائے بیٹے حضور کا بھی ہے بلکہ تمہارا بھی۔ واہ بھئی ۔ یہ میرا قصور کہاں سے نکال لائے آپ ؟ ” رضیہ بیگم غصّے سے بولیں۔ احمد علی نے سنجیدگی سے کہا۔ بڑا اور پہلا پہلا بیٹا ہونے کے ناتے تم نے اس کو بہت لاڈ میں پالا اور کوئی فیصلہ خود اس کو نہ کرنے دیا۔ ہاتھ کا چھالا بنا کے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دبی دہائی شخصیت بن کے نکلا۔ اور ایسی شخصیت ماہین جیسی تیز طرار لڑکیوں کے لیے آئیڈیل شوہر ثابت ہوتی ہے ۔ سو ایاز آئیڈیل شوہر بن چکا ہے۔ فرماں بردار بیٹا بننا اب شاید اس کے لیے ممکن ہی نہیں ۔ اچھا سب چھوڑو۔ موڈ ٹھیک کرو اور یہ بتاؤ کیا کر رہی تھیں اس وقت ؟کرتی کیا؟ وقت کاٹنے کو ایک ہی سہارا تو ہے میرا ۔ وہی ہزار بار کا پڑھا ہوا ڈپٹی نذیر احمد کا ناول مراة العروس پڑھ رہی تھی۔ جانے کیوں آج دل کچھ ایسا جلا ہے۔ کہ اس میں بھی دل نہیں لگ رہا۔ ہوں ویسے تم نے کبھی سوچا ہے کہ کیا اکبری اور اصغری آج کل کے زمانے میں بھی ہوتی ہیں؟ کیا مطلب؟ وہ کچھ الجھ ہی گئیں۔ مطلب یہ کہ اکبری اصغری آج کل کے دور میں بھی موجود ہیں۔ بس فرق اتنا ہے ۔ کہ آج کل کسی میں اکبری کو ٹوکنے کی ہمت ہے نہ اصغری کی تعریف کا حوصلہ –

احمد علی کی بات سن کے رضیہ بیگم لمحے بھر کو سناٹے میں رہ گئیں۔ پھر خدا حافظ کہہ کے فون بند کر دیا۔ اور بستر پہ جا لیٹیں ، اور سوچا۔ کل میں دانیال کے گھر جاتے ہوئے سویرا کے لیے لان کا سوٹ خرید کے لیتی جاؤں گی۔ بری تو اپنی برائی منوا لیتی ہے۔ اچھی کی اچھائی مانتا اصل بات ہے۔ بد زبان اور پھوہڑ بہو کو سدھارنا میرے بس میں نہیں لیکن اچھی بہو کی قدر کرنا تو میرے اختیار میں ہے ناں؟

☆☆☆

Latest Posts

Related POSTS