Thursday, October 10, 2024

Aajzi Ka Kamal

کہتے ہیں کہ دعا سے زیادہ بد دعا جلد اثر پذیر ہوتی ہے، کیوں کہ بد د عاد کھے دل کی آہ ہوتی ہے جو سیدھی آسمانوں کا سفر طے کرتی ہوئی عرش بریں پر خالق حقیقی کے سامنے پیش ہو جاتی ہے۔جب میں نے پھٹے حالوں گرد ہے اٹے ہوئے پیروں والی افلاس زدہ ماسی ممو کو دیکھا تو مجھ کو بے اختیار ماضی کی ممتاز یاد آ گئی جس کا باپ ایک کامیاب ٹھیکے دار تھا۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے کہ جب میں نویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ ہماری کلاس میں ایک بے حد غریب بیوہ کی لڑکی نور جہاں اور دولت مند ٹھیکیدار کی بیٹی ممتاز پڑھا کرتی تھی۔ اسکول کے زمانے کی دوستیاں معصومیت پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان میں چھل کپت ، ضرورت کی دوستی اور اپنے کام نکلوانے والے تعلق قطعی نہیں ہوتے۔ اس لیے ہماری دوستیاں بھی پُر خلوص تھیں۔ نور جہاں بہت ذہین اور کلاس میں اول آنے والی لڑکی تھی۔ اس کے بر عکس ممتاز پھسڈی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ، ہر وقت اپنے باپ کی دولت اپنی چمچماتی گاڑی کا ذکر کرنے کی وجہ سے لڑکیاں اس سے دور دور رہتی تھیں اور وہ خود لڑکیوں کے ہر گروپ میں گھنسے اور اپنی جگہ بنانے کی ناکام کوشش کرتی۔ خاص طور سے ہمارے ساتھ رہنے کی ہر وقت اس کی کوشش ہوتی تھی۔ کیوں کہ ہمارے گروپ میں نور جہاں اپنی نرم طبیعت، محبت اور خلوص کی عادت کی وجہ سے بہت ہر دل عزیز تھی۔ اس میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اگر کسی کی سمجھ میں کوئی سبق نہ آتا تو وہ اس کو آدھی چھٹی میں با قاعدہ پڑھایا کرتی تھی۔ اس کی ہر دل عزیز عادت ممتاز کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ وہ ہمیشہ کوشش میں ہوتی کہ اس کی بے عزتی کرے۔ اپنی حاسد مزاجی کی وجہ سے اس کو نور جہاں میں صرف ایک کمزوری نظر آتی کہ وہ غریب بیوہ ماں کی لڑکی ہے۔ ہمارے گروپ کی کوئی لڑکی نہیں چاہتی تھی کہ وہ ہمارے ساتھ اٹھے بیٹھے مگر آدھی چھٹی ہوتے ہی وہ ہم سب کی طرف لپکتی اور درمیان میں آکر بیٹھ جاتی۔ بات بے بات مذاق اڑاتی ، طنز کرتی۔ اس کا نشانہ عام طور پر نور جہاں ہوتی جو اپنی از لی خاموش فطرت کی وجہ سے کبھی اس کو جواب نہ دیتی۔

کئی بار اس کی بد تمیزی کے بارے میں ٹیچر سے شکایت کی گئی۔ اس کو ڈانٹ بھی پڑی مگر اس نے کوئی اثر نہ لیا۔ ایک دفعہ اس نے نور جہاں کی پیوند لگی شلوار کو دیکھ کر کہا۔ اس کے پاس بہت پرانی شلواریں ہیں ، وہ جمعدارنی کو دینے کی بجائے کل اس کو لا کر دے دے گی۔ ہم سب نے غور سے نور جہاں کی ٹانگوں کی طرف دیکھا۔ پائنچے کے پاس ایک پیوند نظر آیا جو شاید اس کی سلائی کرنے والی ماں نے بڑی مشاقی سے پرانی شلوار میں لگادیا تھا۔ اتنی بڑی توہین بھی اس صابر لڑکی پر اثر انداز نہ ہوئی۔ اس نے ممتاز کا شکریہ ادا کیا کہ وہ اپنے پیوند لگے کپڑوں میں خوش ہے۔ کلاس کی بیشتر لڑکیوں کا خیال تھا کہ ممتاز کسی نودولتیے خاندان کی فرد ہے۔ جو جا بجا اپنے ٹھیکیدار باپ کے پیسے کا ذکر کرتی رہتی ہے۔ اسی زمانے میں پتا چلا کہ نور جہاں کی شادی اس کے کزن سے ہو رہی ہے جو کینیڈا سے آیا ہے۔ ہیڈ مسٹریس اور دوسری ٹیچر ز نے اس کی والدہ کو سمجھایا کہ نور جہاں بہت ذہین ہے، اس کو تعلیم مکمل کرنے دی جائے مگر سلائی کرنے والی بیوہ غریب ماں کا جواب تھا کہ اس کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے اور سارا خاندان اس شادی کے حق میں ہے یہ وہ زمانہ جب غریب رشتے داروں سے ملنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اور خاندان کے فرد ایسے گھرانے کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔شادی کے دن ہم سب سہیلیاں اس کی پھوپھی کے بڑے سے گھر پہنچ گئیں۔ وہاں کی خواتین دیکھ کر اندازہ ہوا کہ نور جہاں کا خاندان سوائے اس کے خاصا متمول ہے۔گھر میں شادی کا ہنگامہ تھا۔ ابھی نور جہاں دلہن نہیں بنی تھی ، وہ مایوں کے پیلے کپڑوں میں ایک کونے میں بیٹھی تھی،ہم سہیلیوں کو دیکھتے ہی خوشی سے اٹھ کر ہم لوگوں سے چمٹ گئی۔ بارات کے آنے کا غلغلہ ہوا اور اس کے چچا ایجاب و قبول کے لیے کمرے میں آگئے جہاں نور جہاں کے مایوں کے سوٹ پر کسی سہاگن کا سرخ دوپٹہ اوڑھا کر ایجاب و قبول کر لیا گیا۔ اس کی امی ایک طرف کھڑی خاموشی سے آنسو بہا رہی تھیں اور سب ان کو نکاح کی مبارک باد دے رہے تھے۔ ابھی نکاح کا ہنگامہ ختم نہیں ہوا تھا کہ خواتین کو چیرتی ہوئی ممتاز کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈی تھی۔ سب خواتین کی موجودگی میں اس نے بہت زور سے کہنا شروع کیا کہ نور جہاں تم نے مجھے اپنی شادی میں نہیں بلایا۔ مگر میں تم کو یہ پیسے دینے آئی ہوں۔ یہ صدقے کے پیسے ہیں، میرے والد نے بھیجے ہیں کہ یتیم لڑکی کی شادی میں کام آئیں گے۔ اس نے شاید جان بوجھ کر ایک روپے کے نوٹوں کی گڈی دی تھی تا کہ دیکھنے میں رقم زیادہ لگے۔ اس سے پہلے کہ نور جہاں یا اس کی امی کوئی جواب دیتیں ، نور جہاں کی پھو پھی آگے بڑھیں اور پرس میں سے سو کانوٹ نکال کر نور جہاں پر سے وار کر ممتاز کی طرف بڑھا دیا کہ لو یہ سو روپے بھی صدقہ ہے، ہماری طرف سے۔ تم سب پیسے اپنے ابا کو دے دینا، تمہارے کام آئیں گے اور اب یہاں سے چلی جائو ، اس سے پہلے کہ میں نوک دھکے دے کر نکال دیں۔

بارات میں آئی ہوئی خواتین جو نکاح کے وقت دلہن کے کمرے میں موجود تھیں، حیرت سے اس بد تمیز لڑکی کو دیکھ رہی تھیں۔ مگر بات اس لیے نہ بڑھی کہ وہ سب آپس میں رشتہ دار تھیں۔ نور جہاں جو گٹھڑی بنی ہوئی تھی، بیٹھی لرز رہی تھی۔ اے اللہ ! ایک دن اس پر ایسا آئے کہ یہ خود صدقہ مانگے۔ مجھے روتی ہوئی نور جہاں کی آواز سنائی دی۔ نور جہاں شادی کے بعد کینیڈا چلی گئی۔ ہم لوگ تعلیم اور اس کے بعد اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے۔ سالہا سال گزر گئے۔ پھر ایک دن میری دوست شہناز نے اپنے بیٹے کی شادی کا بلاوا دیا۔ بارات کو کینیڈا کے شہر مونٹریال جانا تھا – شہناز بہو بیاہ کر لائی۔ تیکھے نقوش والی معصوم سی نازک لڑکی ولیمہ کے استقبالیہ میں جھکی جھکی پلکوں کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھی تھی۔ میں اس کو منہ دکھائی دینے اسٹیج پر گئی اور جب پلٹی تو دلہن کے پاس بیٹھی اس کی ماں ایک دم کھڑے ہو کر مجھے غور سے دیکھتے ہوئے لپٹ گئی – تم نے مجھے پہچانا نہیں، میں نور جہاں ہوں۔ یہ سن کر میں نے اس کو دوبارہ گلے لگایا۔ ساری محفل میں وہ میرے ساتھ ایک میز پر بیٹھی پرانی باتیں کرتی رہی۔ میں نے اس کو بتایا کہ اگلے ہفتے میں کراچی جارہی ہوں، صرف اس ولیمہ کی وجہ سے رک گئی تھی۔ یہ سن کر اس نے اپنے پرس میں ہاتھ ڈالا۔ قمقموں کی روشنی میں اس کے ہاتھ میں پہنی ہوئی ہیرے اور زمرد کی انگوٹھیاں جگمگ جگمگ کر رہی تھیں۔ اس نے مجھے دو سوڈالر دیئے کہ یہ دلہن کا صدقہ ہے اور میں کراچی جا کر کسی غریب لڑکی کو دے دوں۔ میں کراچی میں اپنی بہن کے ساتھ کچن میں بیٹھی باتیں کر رہی تھی کہ اس کی ملازمہ نے اطلاع دی کہ ماسی ممو آئی ہے۔ بہن نے اس کو باورچی خانے میں ہی بلا لیا۔ کپڑے جن پر جابجا پیوند لگے تھے۔ ٹوٹی ہوئی چپل، بال ایسے جیسے عرصہ سے ان میں کنگھی نہ کی گئی تھی۔ کھانستی ہوئی ایک عورت آکر زمین پر بیٹھ گئی۔ میں نے اس کی طرف دھیان نہ دیا۔ پرانے کپڑوں کی گٹھڑی اور بچے ہوئے کھانے لینے کے بعد اس نے جھک کر سلام کیا۔ میں نے جب نور جہاں کے دیئے ہوئے دو سو ڈالر اس کے ہاتھ میں تھمائے تو اس کے چہرے پر نظر پڑی اور غور سے دیکھنے کے بعد حیرت سے میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ وہ ممتاز تھی- ممتاز ، یہ تم کو کیا ہو گیا۔ اپنا اصل نام سن کر وہ چونکی۔ لوگوں کے کمروں میں جھاڑو بر تن کرنے والی ماسی ممو کو کوئی اس کے اصلی نام سے پہچان لے۔ یہ اس کے لیے بڑی بات تھی۔ مجھے پہچان کر وہ بلک بلک کر رو دی۔ اس نے بتایا کہ اس کی پہلی شادی والدین نے ایک امیر آدمی سے کر دی تھی مگر وہ بے حد عیاش تھا۔ اس کا سارا جہیز اور زیور ، شراب، جوئے اور غلط عورتوں پر خرچ کر کے تہی دامن ہو گیا۔ ماں باپ ، اس کی مدد کرتے رہے مگر دو بیٹیوں کی پیدائش کے بعد اس کو اندازہ ہو گیا کہ یہ گھر وہ نہیں بسا پائے گی۔ اس کے اپنے مزاج میں بچپن سے خود سری تھی۔

ماں باپ کے گھر آکر اس نے باپ سے ضد کی کہ اس کے شوہر پر نان نفقہ اور خلع کا مقدمہ کرے۔ شوہر بھی ایک پیسے والے کا بیٹا تھا۔ بہت عرصہ نان نفقہ کا مقدمہ چلا۔ اس کے باپ کا کاروبار بھی گھاٹے میں جارہا تھا۔ نان نفقہ تو اس کو کیا ملتا۔ ہاں خلع ضرور مل گیا۔ اس عرصے میں بھائیوں کی شادی ہو گئی۔ ممتاز ماں باپ کے گھر اپنی لڑکیوں کے ساتھ ٹھاٹھ سے رہتی تھی۔ مگر پھر بھائی کے بچوں اور اس کی بیٹیوں کے درمیان لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے۔ بھائیوں کے دل میں اس کے خلاف نفرت پیدا ہونے لگی کیوں کہ ماں باپ ممتاز کا ساتھ دیتے تھے۔ والدین کے مرنے کے بعد بھائیوں نے ہر کام میں دخل دینے اور بچوں کے جھگڑنے کی وجہ سے اس کو صاف کہہ دیا کہ وہ اب اپنا انتظام کرے۔ماں باپ نے اس کی مقد مے بازی پر بہت پیسہ خرچ کیا تھا۔ بھائیوں نے مزید پیسہ دینے سے انکار کر دیا کہ اب اس کو اپنی کفالت خود کرنی ہو گی۔ وہ تھوڑے دن اپنے ایک رشتہ دار کے گھر رہی مگر وہ لوگ اس کو دو بیٹیوں کے ساتھ اپنے گھر ہمیشہ کے لیے رکھنے کو تیار نہ تھے۔ اس کی جاننے والی ایک عورت نے اس کا دوسرا نکاح ایک غریب آدمی سے کر دیا۔ اس سے اس کے ہاں ایک اور لڑکی پیدا ہوئی۔ وہ مل مز دور ایک دن مشین پر کام کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے محروم ہو گیا۔ گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی تو اس نے گھر سے باہر نکل کر نوکری ڈھونڈی اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے خاطر خواہ نوکری نہ ملی۔ اب وہ لوگوں کے گھر روٹی پکانے کی نوکری کرنے لگی اور ان کے گھروں کے بچے ہوئے کھانے پر اس کا گزارہ تھا۔ دو سو ڈالر ہاتھ میں پکڑ کر اس نے ان دیکھی خاتون کو دعائیں دیں جس نے اپنی بیٹی کا صدقہ اس کو بھیجا تھا۔ اس کو نہیں معلوم تھا کہ یہ وہی عورت ہے جس کی شادی کے دن وہ بڑی رعونت سے اس کو صدقہ کے پیسے دینے کے بہانے بھری بارات میں بے عزتی کر کے اپنی انا کو تسکین دینے آئی تھی اور جس نے اس کو بد دعادی تھی کہ خدا کرے کہ تم لوگوں کے دیئے ہوئے صدقے پر گزر بسر کرو۔ مجھ کو وہ دن یاد آ گیا لیکن پھر میری ہمت نہ ہوئی کہ اس کو یہ سب یاد دلاتی۔ سچ ہے بڑا بول انسان کے سامنے کبھی نہ کبھی آجاتا ہے۔ اس لیے گھمنڈ اور غرور سے بچنا چاہیے اور اس سے بھی زیادہ کسی دکھی کی بد دعا سے بچنا چاہیے کیوں کہ کسی کا دل دکھانا بہت بڑا گناہ ہے۔

Latest Posts

Related POSTS