نجیب مسعود پورے محلے میں بدنام تھا۔ وہ سارا دن غنڈه گردی اور آوارہ گردی کرتا تھا۔ وہ اس محلے میں کیسےآیا آج تک آپ کسی کو معلوم نہ تھا۔ لیکن سننے میں یہ آیا تھا کہ وہ مسعود یاور صاحب کا بیٹا ہے جووکیل تھے اور کافی عرصہ پہلے وفات پا چکے تھے۔ وہ اپنے بیٹے نجیب کو اپنے جیسا بنانا چاہتے تھے لیکن شاید ایسا ان کی قسمت میں نہیں تھا۔ محلے کے تقریبا سب لوگ نجیب مسعود کو نصیحت کرتے کرتے تھک چکے تھے اور نصیحتوں سے اس کے سر پر جوں تک نہ رینگتی۔ یہیں وجہ تھی کہ وحید چاچا کے علاوہ سب لوگوں نے اسے نصیحت کرنا چھوڑ دیا تھا۔۔ وحید چاچا اکثر نجیب کو سمجھاتے مگر وہ ان کو بری طرح جھڑک دیتا تھا۔ایک دن عصر کی نماز پڑھ کر کافی افراد مسجد سے باہر نکل رہے تھے اور آپس میں گفتگو کر رہے تھے، گفتگو کا موضوع نجیب ہی تھا۔ سب اپنی حیرت کا اظہار کر رہے تھے کہ نجیب بھی آج نماز پڑھنے آیا تھا۔ ” حیرت کی بات ہے کہ نجیب نماز پڑھنے آیا ہے۔ ایک صاحب نے حیرت بھرے لہجے میں کیا۔ شاید اسے عقل آ گئی ہے۔ ” دوسرے صاحب نے کہا۔ ایک صاحب ہوئے پھر بھی یہ کایا پلٹ ہوئی کیسے ؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ ایک صاحب نے کچھ سوچ کر کہا کہ میرا خیال ہے یہ بات نجیب سے پو چھنی چاہیے۔ اتنے میں نجیب بھی مسجد سے باہر نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ آتے ہی اس نے پہلے سلام کیا پھر سب سے مصافحہ کیا۔ سب لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ مصافحہ کے بعد ایک صاحب نے اس سے پو چھا کہ نجیب میاں کیا بات ہے تمہارے رنگ ڈھنگ میں تبدیلی آگئی ہے ہمیں اس بات کی بہت خوشی ہے لیکن ہم اس تبدیلی کی وجہ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ نجیب نے جواب دیا کہ میں تو اللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں سیدھے راستے پر آ گیا۔ اور اس تبدیلی کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں ہے۔” جب نجیب آوارہ گردی کرتا تھا اس کا ہم عمر دوست منصور اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا لیکن جب نجیب میں تبدیلی آ گئی تو منصور نجیب کا دوبارہ دوست بن گیا۔ نجیب اور منصور پارک میں بیٹھے تھے۔ منصور نے نجیب سے پوچھو رہا تھا کہ وہ اچانک بدل کیسے گیا؟ ” اچھا اچھا بتاتا ہوں، نجیب نے بار ماننے والے انداز میں کیا۔
تو تم جانتے ہی ہو کہ وحید چاچا مجھے نصیحت کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ جیرہ بدمعاش سے میری لڑائی ہوتی رہتی تھی۔ پرسوں اس نے مجھے لڑنے کی دعوت دی اور میں اس کی دعوت پر اس کے اڈے پر جا رہا تھا لیکن جب مال روڈ پار کر رہا تھا کہ وحید چاچا جانے کہاں سے آگئے۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکر کرمجھے جیرہ کے اڈے پر جانے سے منع کیا۔ میں سمجھا کہ یہ پھر وہی نصیحت شروع کر دیں گے۔ اس لئے میں نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا۔ بڑھاپے کی وجہ سے دونوں سڑک پر گر گئے۔ میں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ اتنے میں ایک تیز رفتار گاڑی نے وحید چا چا کو کچل دیا۔ میں نے کربناک چیخ کی آواز سنی تو پلٹ آیا – دیکھا تو وحید چاچا خون میں لت پت زمین پر پڑے تھے۔ تھوڑی دیر میں ہی وہاں ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ میں فورا چاچا کے پاس پہنچا۔ ان کی حالت خراب تھی کچھ دیر کے مہمان تھے۔ میں انہیں ہسپتال لے جانے کے لئے کھڑا ہوا لیکن انہوں نے اشارے سے منع کر دیا اور کہا کہ زندگی میں آخری بار تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ برے کام چھوڑ دو۔ اس کے بعد ان کی گردن ڈھلک گئی میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور اس وقت کو کوسنے لگا جب میں نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے نجیب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ منصور کی آنکھوں میں بھی آنسو رواں تھے۔
آخر وہ تم کو جیرہ کے اڈے پر جانے سے کیوں روک رہے تھے ؟” منصور نے گھمبیر آواز میں پوچھا ۔ نجیب نے جواب دیا کہ میں دراصل یہ سمجھ رہا تھا کہ وحید چا چا محض اپنی نصیحتوں کے لئے مجھے روک رہے ہیں لیکن اصل بات مجھے بعد میں پتا چلی کہ جیرہ بدمعاش نے دھوکہ دیا تھا وہ محلے میں اپنا رعب جمانے کے لئے مجھے راستے سے ہٹانا چاہتا تھا اس نے اپنے اڈے پر نا جائز اسلحہ رکھوا دیا تھا اور خود غائب ہو کر پولیس کو فون کر دیا کہ اڈے پر اسلحہ فروخت ہو رہا ہے اور اگر میں وہان چلا جاتا تو پولیس مجھےناجائز اسلحہ کی خرید و فروخت کے جرم میں گرفتار کر لیتی اور جیرہ بدمعاش گواہی بھی دے دیتا لیکن اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وحید چاچا کی آخری نصیحت کام آ گئی اور میں وہاں نہ جا سکا۔ تفصیل بتاتے ہوئے نجیب کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آج کل نجیب ہر جمعرات کو وحید چاچا کی قبر جاتا ہے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا مانگتا ہے محلے کے سب لوگ اس کی بہت عزت کرتے ہیں۔