Friday, March 21, 2025

Aala Zarf Dost

والد صاحب کو گردوں میں تکلیف رہنے لگی تو فیکٹری سے جواب مل گیا، تبھی گھر کی سبھی عورتیں گڑیاں بنا کر آمدنی میں اضافہ کرنے کی کوشش میں لگ گئیں۔ تب میں تیرہ، چودہ برس کی تھی۔ مجھے گھر کے معاملات سے کوئی سروکار نہ تھا۔ مجبوراً یہ کام کرنا پڑا تو ہر وقت جھنجھلائی، جھنجھلائی رہنے لگی۔ بہن بھائیوں میں ، میں ہی بڑی تھی۔ سب سے زیادہ کام بھی مجھے ہی کرنا پڑتا تھا۔ انتھک محنت کے باوجود پیٹ بھر کھانے کونہ ملتا، اوپر سے ماں، دادی اور اکثر پھپھو کی ڈانٹ ڈپٹ کے باعث میں بغاوت پر اتر آئی۔ اب میں گھر کو ایک دوزخ سمجھنے لگی۔ ہر وقت یہی سوچتی کہ کیسے اس گھر اور حالات کے عذابوں سے چھٹکارا ملے۔ نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ جب بھی افسردگی کا دورہ پڑتا کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوتی اور گلی میں جھانکنے لگتی۔ اس طرح مجھ کو سکون ملتا۔ یہ کھڑکی گویا میری سہیلی تھی۔ یہاں کھڑے ہو کر میں خود سے باتیں کرتی دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا اور میں نارمل ہو جاتی اور افسردگی کی کیفیت سے نکل آتی، گویا یہ جگہ میرے لئے گوشہ عافیت تھی۔ یہ کھڑکی سینما کا پردہ تھی۔ جہاں سے میں گلی میں رواں دواں رہنے والی زندگی کو ایک فلم کی چلتی ہوئی ریل کی طرح د لچسپی اور محویت سے دیکھتی ، تھکا دینے والی سوچوں کا سفر چند لمحوں کے لئے راحت میں بدل جاتا اور میں باغی خیالات کے بوجھ کو دماغ سے ہٹا کر ہلکی پھلکی ہو جاتی۔ ماں کو میرے اس مشغلے سے چڑ تھی۔ وہ جب بھی مجھے کھڑکی میں کھڑے دیکھتیں، بے نقط سناتیں، اور آبا کی پشتوں کو کوستیں۔ آماں کی عادت تھی کہ وہ روز دوپہر کے کھانے کے بعد گھنٹہ دو گھنٹہ سو جاتی تھیں۔ بس یہی وقت میری زندگی کا حاصل تھا۔ میں پورے دو گھنٹے کھڑکی سے باہر گلی میں جھانکتے گزار دیتی۔ کبھی لڑکے آپس میں کھیلتے اور جھگڑتے نظر آتے اور مختلف قسم کے پھیری والے دلچسپ آوازیں لگاتے ہوئے گزرتے۔ متحرک زندگی اور اس کا شور، اس محویت میں یہ خیال کبھی نہ آیا کہ کوئی اور بھی اتنی محویت سے مجھے دیکھتا ہو گا۔ کبھی دوپہر سُنسان ہو جاتی تھی، جب مئی جون کی کڑکتی گرمی پڑتی۔ ایسے میں بس ایک شخص ہی گلی میں ادھر سے اُدھر ٹہلتا دکھائی دیتا۔ چند بار غور کرنے پر یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہو گئی کہ یہ شخص وہی ہے جو اپنی دوپہر ، میرے تصور میں، گلی میں ٹہلتے ہوئے گزارتا ہے، تبھی میں نے بھی اس کو توجہ سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد اس کی نظروں میں شکایتیں ہونے لگیں، جن کو میں نظر انداز کر دیتی۔ جب رات کو سب صحن میں سو جاتے ، میں کمرے میں جا کر کھڑکی کے پاس کھڑی ہو کر باہر جھانکنے لگتی۔ تب بھی وہ شخص مجھ کو گلی میں ٹہلتا ہوا ہی ملتا۔ یوں دو دلوں کی حکایتیں ، لوہے کے جنگلے کے اندر سے کہی اور سنی جانے لگیں۔ یہ گلی ایک طرف سے بند تھی اور رات کو آمدورفت تقریبا ختم ہو جاتی تھی۔ گلی چھوٹی تھی لہذا اس میں گنتی کے چند گھر تھے ، تبھی رات کو میں سنسان گلی میں دروازے سے بھی جھانکنے لگی، کیونکہ جھانکنا میری عادت تھی ورنہ بے چینی ہوتی۔ کھڑکی میں لوہے کی سلاخیں لگی تھیں۔ اس میں سے جھانکنے سے مجھے یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے گھر جیل ہے اور میں ایک قیدی ہوں، جو سلاخوں سے جھانکنے پر مجبور ہے۔ ایک روز آماں نے ڈانٹا کہ اگر اب تجھے کھڑکی سے باہر جھانکتے پایا تو تیرے آبا سے شکایت کر دوں گی۔ سارا دن گلی میں جھانک کر وقت ضائع کرتی رہتی ہے، تبھی کام پڑا ہوتا ہے۔ جی بڑا گھبرایا اور میں نے گڑیا بنانے سے انکار کر دیا۔ تمام دن روتی رہی۔ اُس روز بادل چھائے ہوئے تھے۔ ماندگی ہو گئی ، سب سو گئے تو میں نے آہستہ سے در کی کنڈی کھولی اور باہر نکل گئی۔ تمام گلی سُنسان تھی ، کوئی ذی روح نہ تھا۔ نوید بھی نہیں کہ جو روز گلی میں مارچ کیا کرتا تھا۔ وہ بھی آج اپنے گھر میں دبک گیا تھا۔ میں اس طرح گلی میں چلتی چلی گئی، جیسے کوئی غیر مرئی طاقت مجھے کو بلارہی ہو ، اتنے میں بارش شروع ہو گئی۔ جب تمام ہی بھیگ گئی تو احساس ہوا کہ میں تو گھر سے کافی آگے نکل آئی ہوں۔ تبھی پلٹی اور گھر کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ اتنے میں ایک کھڑکی سے آتی روشنی مجھ پر پڑی، کوئی اپنی کھلی کھڑکی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ یہ نوید تھا۔ جب اس نے مجھے بارش میں تنہا جاتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ میں اُسی کی تلاش میں نکلی ہوں۔ وہ فوراً دروازہ کھول باہر آیا اور مجھے کو ہولے سے پکارا۔ صدف، روکو ، کہاں جارہی ہو ؟ اس کی آواز سُن کر میں ٹھہر گئی۔ دل نے گواہی دی کہ ہاں تو اسی کی آواز سُننے کی خاطر گھر سے نکلی تھی۔ اس کی آواز سُن کر لگا جیسے اندھیرے میں چراغ جل گیا ہو۔ وہ میرے قریب آیا اور مجھ کو سرتاپا برسات میں شرابور دیکھ کر اپنے گھر کی بیٹھک میں لے گیا۔ بس اس ملاقات کے بعد میرے دل سے کسی اجنبی سے ملنے کا خوف دور ہو گیا کیونکہ نوید اب میرے لئے آجنبی نہ رہا تھا۔ اس کے بعد تو جب جی گھبراتا، آدھی رات کو بے دھڑک اس سے ملنے چلی جاتی۔

اب میں اپنی ہر مشکل پر الجھن دُکھ اور مصیبت کا تذکرہ اس سے کرنے لگی کیونکہ میں اسی کو نجات دہندہ سمجھتی تھی۔ اس کے ساتھ دُکھ سکھ بانٹنے سے جی ہلکا ہو جاتا تھا۔ میں اس کو اپنی فگارانگلیاں دکھاتی کہ دیکھو، گڑیاں بناتے ہوئے کتنی بار سوئی میری انگلیوں میں کھب جاتی ہے۔ اس سے کہتی مجھ سے شادی کر لو ، ورنہ میں گھٹ گھٹ کر مر جائوں گی۔ وہ تسلی دیتا کہ خاطر جمع رکھو، تم میری ہو۔ تم ہی کو اپنا بنائوں گا۔ ذراسی مہلت چاہئے ، تھوڑا سا صبر کر لو اور مناسب وقت آنے دو۔ بس ایسے ہی تسلیوں کی چھتری تلے اور مناسب وقت کے انتظار میں ، میں اس کی بیٹھک میں اُس کی ہو گئی۔ اسی طرح میں روز اپنے دُکھوں کے ساتھ خود کو اس کے حوالے کرتی رہی لیکن ایک دن جب اپنے سامنے خطرہ محسوس کیا تو اصرار کیا کہ رشتے کے لئے اپنی آماں کو بھیجو۔ اس کے بعد وہ ایسا غائب ہوا کہ پھر دکھائی نہ دیا۔ وہ اپنے دادا اور دادی کے پاس گائوں چلا گیا۔ اس نے مجھے اپنی صورت ہی نہ دکھائی۔ میری بچپن کی ایک سہیلی شازیہ تھی، جس کی شادی ہو گئی تھی۔ پہلے وہ ہمارے گھر کے قریب رہتی تھی لیکن پھر شادی ہو کر شہر چلی گئی تھی۔ ایک روز وہ میرے پاس آئی۔ مجھے پریشان دیکھ کر وجہ پوچھی تو میں اپنا دُکھ ضبط نہ کر سکی اور رونے لگی۔ اس نے گلے لگایا، تسلی دی اور بھروسہ دلایا تو ساری بات اس کو بتادی۔ اس نے امی سے، مجھے اپنے ساتھ دو تین دن کے لئے گھر لے جانے کی اجازت لی اور مجھے شہر لے آئی۔ اس کے گھر آکر میری جان میں جان آئی۔ اس نے آتے ہی میرے دُکھ کا مداوا کیا کیونکہ اس کی بڑی نند ڈاکٹر تھی۔ اس طرح اس نے مجھے ہر اندیشے سے نجات دلوادی۔ میں نے سکھ کا سانس لیا اور چار روز بعد وہ مجھے اپنی کار پر میرے گھر چھوڑ گئی۔ اس بات کا علم۔ سوائے، شازیہ کی نند کے ، کسی کو نہ تھا۔ دو ماہ بعد شازیہ مجھ سے ملنے دوبارہ ہمارے گھر آئی۔ وہ اپنے میکے ملنے آئی تھی کیونکہ وہ اور اس کا شوہر ملک سے باہر جارہے تھے۔ میکے میں دو دن رہ کر وہ واپس چلی گئی۔ نوید کی بے وفائی سے میں کافی افسردہ رہنے لگی تھی۔ ایک سال گزر گیا۔ اس کے بارے سُنا کہ دبئی نکل گیا ہے۔ بہر حال میں نے تو صبر کر لیا۔ امی اب مجھ کو مسلسل افسردگی میں ڈوبا دیکھ کر کڑھتی تھیں۔ میری عمر سولہ سال ہو چکی تھی، والدین کو میری شادی کی فکر بھی ستانے لگی تھی۔ اتفاق سے ایک روز شازیہ کی امی میری ماں سے ملنے آئیں تو ان کی نظر انتخاب مجھ پر پڑ گئی۔ ان دنوں وہ اپنے بیٹے کے لئے رشتہ ڈھونڈ رہی تھیں۔ انہوں نے امی جان سے میر ارشتہ مانگ لیا۔ یہ خوشحال لوگ اور پرانے ہمسایے تھے، بھلا امی ابو کیوں انکار کرتے۔ یوں میری منگنی شازیہ کے بھائی جلیس سے ہو گئی ، تاہم شازیہ کو خبر نہ ہو سکی کہ میں اس کی بھابھی بنے جارہی ہوں۔ اُسے صرف اس قدر معلوم ہو سکا کہ اس کے بھائی کی منگنی کر دی گئی ہے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری شادی شازیہ کے بھائی سے ہو کیونکہ وہ میرے ہر راز سے واقف تھی۔ سوچتی تھی اگر وہ یہاں ہوتی تو شاید کبھی میرا رشتہ اپنے بھائی سے نہ ہونے دیتی۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ اسے لندن میں علم ہو چکا ہو گا کہ اس کے بھائی کی شادی مجھ سے ہونے جارہی ہے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کیوں اس کے والدین نے میر انام اس کو نہیں بتایا یا وہ نام سُن کر بھی نہ سمجھ سکی کہ یہ میں ہوں، اس کی بچپن کی سہیلی۔ بہر حال جو بھی ہوا ، وہ اپنے بھائی کی شادی پر نہ پہنچ سکی تھی۔ ان دنوں موبائل فون نہیں تھے ، سادہ فون ہوا کرتے تھے۔ منگنی کے دوماہ بعد شادی ہو گئی اور اس سلسلے میں میری کچھ شنوائی نہ ہوئی۔ حالانکہ میں نے امی کو منع بھی کیا تھا۔ انہوں نے ڈپٹ دیا کہا کہ جلیس اچھا لڑکا ہے، تمہاری سہیلی کا بھائی ہے۔ آخر اس میں کیا خرابی ہے؟ میں مسلسل انکار کرتی رہی لیکن یہ نہ بتا سکی کہ خرابی جلیس میں نہیں، مجھ میں ہے۔ پریشان تھی کہ جب شازیہ کو علم ہو گا کہ میں اس کی بھابی بن رہی ہوں تو اس کا ردعمل کیا ہو گا؟ ڈر یہ بھی تھا کہ شاید وہ اس حقیقت کو برداشت نہ کر سکے۔ کوئی بہن بھی یقیناً ایسا نہ چاہے گی کہ ایک ایسی لڑکی جس کے دامن پر دھبہ لگ چکا ہو اس کے بھائی کی دلہن بنے۔ خواہ وہ اس کی کتنی ہی پیاری سہیلی کیوں نہ رہی ہو۔ خیر شادی ہو گئی۔ گھر میں مسرت کے پھول بکھرے ہوئے تھے۔ میں بھی جلیس کو پاکر خوش تھی کہ وہ نوید سے ہزار درجہ بہتر اور پیار کرنے والے شوہر تھے ، تاہم یہ خوف مجھے اندر اندر کھائے جاتا تھا کہ شازیہ چاہے کتنی فراخ دل کیوں نہ سہی، وہ میری لغزش کو نہ بھلا پائی ہو گی۔ جلیس کو اپنا گرویدہ دیکھ کر اب سوچتی تھی کہ میں نے کتنا برا کیا جو شادی سے پہلے ہی نوید سے شناسائی کر لی بھلا ! اس عارضی خوشی کا کیا صلہ ملا، ہمیشہ کا پچھتاوا اور خوف؟

ایک روز شازیہ کا لندن سے فون آیا۔ جلیس سے بات کی اور کہا کہ بھابھی کی مجھ سے بات کر وائو ۔ اب میں تھی کہ سُن بیٹھی تھی۔ میرا خون ہی جیسے خشک ہو گیا تھا۔ جلیس نے میری صورت دیکھی تو پوچھا۔ کیا ہوا ہے ؟ تم کیوں ایسی زرد ہو گئی ہو ؟ میں نے اشارے سے کہا کہ چکر آگیا ہے ، طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح میں نے شازیہ سے بات نہ کی ۔ جلیس نے اسے کہہ دیا کہ تمہاری بھابی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، پھر کسی دن بات کروا دوں گا۔ اب، جب کبھی شازیہ کا فون آتا میں بہانے بناتی ، آنا کانی کرتی اور اس کے ساتھ فون پر بات کرنے سے گریز کرتی۔ شازیہ جان چکی تھی کہ میں وہ ہی صدف ہوں۔ یہ بھی خوب سمجھتی تھی کہ داغ دار دامن کی وجہ سے میں اس سے بات کرنے سے کتراتی ہوں، لہذا اس نے جلیس سے کہنا ترک کر دیا، تاہم میری ساس اور خود جلیس بھی حیران تھے کہ میں اتنی گہری اور بچپن کی سہیلی سے کیوں بات نہیں کرتی؟ میں دل ہی دل میں دُعا کرتی کہ خدا کرے شازیہ لندن سے کبھی نہ آئے ، ہمیشہ کے لئے وہاں ہی رہ جائے یا پھر خدا اسے اتنا بڑا ظرف عطا کر دے کہ میرے ماضی کی خطا بھلا کر وہ مجھے گلے لگالے اور میرا پردہ رکھ لے۔ اب تو میں مر کر بھی جلیس سے جدا نہ ہونا چاہتی تھی۔ نوید کے ساتھ چند روزہ پیار کے دھوکے میں گزارے دن مجھ کو ایک بھیانک خواب جیسے لگتے تھے۔ میری اور جلیس کی شادی کے دو برس بعد بالآخر وہ خوفزدہ کر دینے والا دن بھی آ گیا، جب شازیہ کا فون آیا کہ وہ اور اس کے شوہر پاکستان آرہے ہیں۔ دُعا کر رہی تھی کہ وہ مجھ سے خندہ پیشانی سے ملے خفگی کا اظہار نہ کرے۔ خود کو سمجھاتی کہ میری سہیلی ایک نیک دل اور رحم دل انسان ہے ، پھر وہ یورپ سے آرہی ہے یقینا میرے بارے تنگ دلی سے نہ سوچے گی مگر میرا خیال غلط تھا۔ اس نے آتے ہی اپنے والدین سے جھگڑا شروع کر دیا کہ اسے رشتہ طے کرتے وقت اہمیت کیوں نہ دی گئی ۔ کیوں نہ بتایا کہ وہ جلیس کی شادی کس لڑکی سے کر رہے ہیں۔ وہ کہ رہی تھی میں جلیس کی بہن اور آپ کی بڑی بیٹی تھی۔ رشتہ کرتے وقت مجھ سے تو مشورہ کر لیا ہوتا۔ بے شک صدف میری گہری سہیلی تھی، بچپن کی دوست تھی لیکن کچھ معاملات اتنے اہم ہوتے ہیں کہ اپنوں سے صلاح مشورہ ضروری ہوتا ہے۔ میری ساس بیچاری پریشان ہو گئیں کہ یہ شازیہ کو کیا ہو گیا؟ آتے ہی موڈ خراب کر لیا اور جھگڑنے بیٹھ گئی، حالانکہ ہم نے اس کی پیاری سہیلی کو اس کی بھابھی بنایا اور صلاح مشورہ بھی اس وجہ سے نہ کیا کہ وہ تو اس رشتے پر قطعی اعتراض نہ کرے گی بلکہ خوش ہو گی۔ جلیس نے شازیہ سے کہا۔ آپا اب تم ناراضی کو جانے بھی دو۔ میری شادی کو دو سال گزر گے۔ بات پرانی ہو گئی ہے اور نہیں تو اپنی سہیلی کا ہی خیال کر لو۔ دیکھو تو صدف بچاری کیسی سہم گئی ہے۔ تم ایسی تو نہ تھیں ، یورپ جا کر تمہارے مزاج کو کیا ہو گیا ہے مگر وہ تو اتنی غصے میں تھی کہ آسمان سر پر اٹھالیا تھا۔ اس کے شوہر نے بھی سمجھایا مگر اس کا غصہ کم ہونے میں نہ آرہا تھا۔ بس ایک ہی وجہ بتا کر باتیں سنائے جاتی تھی کہ تم لوگوں نے مجھے سے مشورہ کیوں نہ کیا۔ اس بات کے سوا اس نے کوئی دوسری بات منہ سے نہ نکالی مگر میں خوب سمجھ رہی تھی کہ وہ کیوں غصہ کر رہی ہے ؟ دراصل وہ اپنے گھر والوں پر نہیں بلکہ مجھ ہی پر درپردہ خفا ہورہی تھی۔ میں چپ ، مہر بہ لب، منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی تھی۔ سوچ رہی تھی اس کا غصہ بجا ہے۔ تنہائی ملے تو اس سے کچھ کہوں، معافی مانگوں، بتائوں کہ میں نے تو ماں سے احتجاج کیا تھا۔ ایک دو دن اس کا موڈ خراب رہا، جیسے بناوٹی غصہ تھا، پھر خود ہی نارمل ہو گئی اور موڈ مزاج ٹھیک کر لیا۔ میں نے تب بھی سکون کا سانس نہ لیا لیکن باقی گھر والے پر سکون ہو گئے۔ کچھ دن میکے رہ کر وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ سسرال چلی گئی۔ وہاں دوماہ قیام کیا، یہاں تک کہ لندن واپس جانے کا وقت آگیا۔ اسے میکے دوبارہ آنا تھا مگر وہ نہیں آئی البتہ فون پر اپنے گھر والوں کو خدا حافظ کہا۔ مجھ سے بھی سرسری بات کی ، کوئی گلہ شکوہ نہ کیا اور نہ مجھے معافی تلافی کا موقع دیا بس اسی قدر بولی کہ جو تقدیر میں تھا ہو گیا، میں نے اپنے بھائی کا تم سے والہانہ پیار دیکھا ہے۔ دُعا کرتی ہوں تم لوگوں کا گھر سدا آباد رہے اور میرے بھائی جلیس کا دل ہمیشہ شاد رہے۔ اسے میں کسی قسم کا دکھ نہیں پہنچانا چاہتی۔ تم بھی میرے بھائی کا خیال رکھنا اور اس کو کبھی کوئی صدمہ نہ پہنچانا، ہمیشہ وفادار رہنا۔ شازیہ کا فون سُن کر مجھے یوں لگا جیسے منوں بوجھ میرے دل سے اتر گیا۔ خوف دور ہوا تو سکھ کا سانس لیا۔ مجھ کو لگا جیسے آج ہی میری شادی جلیس کے ساتھ ہوئی ہے، مجھ کونئی زندگی ملی ہے۔ اس کے بعد شازیہ آٹھ سال تک وطن واپس نہیں آئی، اس دوران میرے چار بچے ہو گئے۔ جب میری ساس اور سسر بیمار پڑے، تب وہ آئی تو ہم دونوں ادھیڑ عمر ہو چکی تھیں۔ وہ مجھ سے پہلے کی طرح ملی۔ میرے بچوں کو لپٹا لیا۔ ان سے بہت پیار کا اظہار کیا اور بولی۔ صدف مجھے معاف کر دو۔ پہلی بار جب آئی تھی تو دل میں غصہ لے کر آئی تھی۔ شاید وہ میرا فطرتی ردعمل تھا مگر اب میرے دل میں غصہ نہیں ہے کیونکہ میں نے دین کی تعلیم سے یہ سبق لیا ہے کہ احسان کر کے جتلانا نہیں چاہئے اور شادی تقدیر سے ہوتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ میں اب تمہاری اور اپنے بھائی اور تم دونوں کے بچوں کی خوشیوں اور سلامتی کی دعا کرتی ہوں۔ پردیس میں بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں وہاں کی زندگی آسان نہیں ہے، البتہ وہاں رہ کر میں نے یہی سیکھا ہے کہ جیو اور جینے دو۔ میں اس کی باتیں سُن کر آب دیدہ ہو گئی۔ میں نے کہا۔ صدف تم واقعی اعلیٰ ظرف ہو۔ تم نے اس ایک بات کو سوچا اور سمجھا کہ خطا انسان سے ہو جاتی ہے، تم نے میرا پردہ رکھ لیا۔ تم نے یہ دوسرا بڑا احسان مجھ پر کیا ہے ، جس کو میں عمر بھر نہ بھلا سکوں گی۔

Latest Posts

Related POSTS