Sunday, April 27, 2025

Aandhi Mein Chiragh

رضیہ کا گھر جھگی نما تھا۔ گھر کا دروازہ بھی نہ تھا، بس ایک ٹاٹ کا پردہ جھول رہا تھا جو پھٹا ہوا اور میلا بھی تھا۔ رضیہ چھدرے کپڑے کے پردے سے نظر آ رہی تھی۔ میں نے اجازت بھی نہ لی اور گھر کے اندر چلی گئی۔ اُس نے سراسیمگی اور کرختگی سے مجھے دیکھا اور بے دلی سے بیٹھ جانے کو کہا۔ کہنے لگی، مگر بیٹھو گی کہاں؟ ہمارے ہاں تمہارے بٹھانے کو کچھ بھی تو نہیں۔ میں نے جواب دیا، کوئی بات نہیں، نیچے زمین پر ہی بیٹھ جاتی ہوں۔

میں اُس کے پاس بیٹھ گئی اور اُس کی خوبصورت شکل اور بچوں کی خوبصورت فوج کو دیکھا جو بھوک سے مریل ہو رہے تھے۔ میں نے اندازہ کر لیا کہ یہ عورت بہت دکھی ہے۔میں نے رضیہ سے ہمدردی سے بات شروع کی۔ ہمدردی پا کر وہ پھٹ پڑی۔ کہنے لگی،باجی، میں بہت دکھی ہوں۔ میری والدہ سوتیلی تھیں۔ ان پڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہت جابر قسم کی عورت تھیں۔ ابھی میں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی کہ ماں نے یہ ورد شروع کر دیا کہ اتنی بڑی ہو گئی ہے، اب اسے اسکول نہیں جانا چاہیے۔ابا جان کا بھی امی نے ناک میں دم کر رکھا تھا، اس لیے وہ اُن سے کچھ لا تعلق سے رہتے تھے۔ وہ گھر کے کسی معاملے میں دخل نہ دیتے تھے، نہ دلچسپی لیتے تھے۔ ان کا کام بس یہ تھا کہ کما کر لا دیں اور گھر جیسا بھی چلتا ہے، چلنے دیں۔امی نے جلد ہی مجھے اسکول سے اٹھا لیا۔ میں ہمیشہ ملازم کے ساتھ اسکول جاتی تھی، وہی مجھے اسکول سے واپس لاتا تھا۔ جس روز میں آخری مرتبہ اسکول سے گھر واپس آ رہی تھی، میں راستے میں روتی آ رہی تھی۔ ملازم مجھے تسلیاں دیتا آ رہا تھا کہ تم چپ ہو جاؤ، میں تمہاری امی سے کہوں گا کہ بی بی کو پڑھنے کا بہت شوق ہے، اس کو پڑھنے دیں۔گھر پہنچی تو میری آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ملازم نے امی جان سے کہا، بیگم صاحبہ! سب افسروں کی بیٹیاں پڑھ رہی ہیں، آپ رضیہ بی بی کو بھی پڑھنے دیں۔بس، اس کا اتنا ہی کہنا تھا کہ امی پھٹ پڑیں اور ارباب سے کہنے لگیں، اب پتہ چلا رضیہ اسکول کے لیے کیوں روتی تھی! تم کیوں آج اس کی سفارش کر رہے ہو؟ وہ تمہارے لیے روتی تھی؟ تم اسکول نہیں لے جاتے، پتہ نہیں کہاں کہاں لے جاتے ہو گے، نجانے تم لوگ کیا کیا گل کھلاتے پھرتے ہو۔ اپنی خیریت چاہتے ہو تو پھر سامنے نہ آنا!پھر اُنہوں نے مجھے پکڑ لیا اور خوب مارا پیٹا۔ والد صاحب کو الگ بہکایا۔ اُنہوں نے ملازم کو تبدیل کر لیا۔اب جو دوسرا ملازم آیا، اتفاق سے وہ پہلے ملازم کا دوست بھی تھا اور رشتہ دار بھی۔ اس کا نام رشید تھا۔ پہلے والے نے تمام باتیں اُس کو بتا دیں اور کہا کہ، بیگم صاحبہ نے مجھ کو بے عزت کیا ہے، تم بھی ان لوگوں کو بے عزت کر دو۔اب رشید تاک میں رہنے لگا۔ جب موقع ملتا، مجھے بڑے خلوص اور پیار سے ملتا۔میں سوتیلی ماں کے ظلم کی ستائی اور پیار کو ترسی ہوئی روح تھی۔ میں بھی اُس سے باتیں کر کے سکون محسوس کرتی تھی، مگر یہ باتیں صرف امی جان کے ظلم سے متعلق ہوتیں، یا دکھ سکھ کے بارے میں، یا پھر پڑھائی کے بارے میں۔ کوئی اخلاق سے گری ہوئی بات نہ ہوتی تھی۔وہ اکثر کہتا تھا، تمہاری ماں نجانے کیسی سنگدل عورت ہے۔ تم پڑھنا چاہتی ہو تو میرے پاس پڑھ لیا کرو، میں تمہیں پڑھا دیا کروں گا۔ تھوڑا تھوڑا گھر میں پڑھتی رہو گی تو ایک دن میٹرک کا امتحان دینے کے قابل ہو جاؤ گی۔میں اُس کی باتوں میں آ گئی۔ اُس نے اپنی جیب سے کتابیں خریدیں اور میں نے چوری چوری پڑھنا شروع کر دیا۔میرے علاوہ سب بہنیں پڑھتی تھیں، مگر امی انہیں کچھ بھی نہ کہتی تھیں۔جب امی روز دوپہر کو اپنا کمرہ بند کر کے سو جاتیں تو میں رشید سے پڑھتی۔ روز کبھی ایک گھنٹہ تو کبھی ڈیڑھ گھنٹہ۔ایک دن اچانک دوپہر کو امی کی آنکھ کھل گئی۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھی رشید سے پڑھ رہی تھی کہ میری بہن نے امی کو بتا دیا کہ باجی اپنے کمرے میں ہے۔دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ہم کوئی بُرا کام نہیں کر رہے تھے۔میں کرسی پر بیٹھی تھی، سامنے میز پر کتابیں رکھی تھیں اور رشید چارپائی پر بیٹھا تھا۔ میں اُس سے پڑھ رہی تھی۔اسی منظر میں امی کمرے میں داخل ہو گئیں۔ آتے ہی انہوں نے مجھے بالوں سے پکڑ لیا اور مارنے لگیں۔

رشید نے کہا کہ بیگم صاحبہ، میں تو بی بی کو پڑھا رہا تھا، مگر امی مجھے مارتی رہیں۔امی بولیں، میں خوب جانتی ہوں کیا پڑھتی ہے۔ اگر یہ ایسی ہی تم کو پسند ہے تو اس بدکردار کو اپنے گھر لے جاؤ۔ میں نہیں چاہتی کہ یہ برے رستے پر چلے۔جب میں نے یہ الفاظ سنے تو بے ہوش ہو گئی۔ میرا سر میز کے کونے سے ٹکرا گیا اور زخم آ گیا، مگر ماں نے کوئی پروا نہ کی۔تبھی ابا جان بھی آ گئے۔ انہوں نے پوچھا، کیا بات ہے؟امی نے بتایا کہ سرونٹ کوارٹر میں رشید کے ساتھ میں نے تمہاری بیٹی کو ایسی حالت میں پکڑا ہے کہ کیا کہوں۔ یہ لڑکیاں گواہ ہیں۔بتاؤ، اگر اس کے یہ کرتوت ہیں تو ان معصوم بچیوں پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ بھی اس کی دیکھا دیکھی خراب ہو جائیں گی۔

بہتر ہے کہ تم اس کی اسی رشید سے شادی کر دو، جسے یہ چاہتی ہے۔ہمارا کیا ہے، برا بھلا اپنا کیا خود بھگتے گی۔
اب یہ کسی شریف گھرانے کی بہو بننے کے قابل تو رہی نہیں۔ابا جان غصے میں دیوانے ہو گئے۔ انہوں نے رشید کو بلایا اور بغیر سوچے سمجھے کہ رشید اور ہم میں کتنا فرق ہے، میرا نکاح اُس سے کر دیا۔رشید حیران بھی تھا اور خوش بھی۔ وہ مجھے چاہتا بھی تھا۔اس کے بعد ابا جان نے رشید کو نوکری سے برطرف کر دیا اور مجھے گھر سے نکال دیا۔امی نے سب لوگوں سے یہ کہہ دیا کہ ہم نے ترس کھا کر ایک یتیم لڑکی پالی تھی۔ اُسے اپنی بیٹی کہتے تھے، مگر لڑکی اچھی نہ نکلی۔میں نے اپنی بچیوں کی وجہ سے، کہ کہیں اُن پر بھی اس کی ہوا نہ لگ جائے، اس مصیبت کو گھر سے بیاہ کر رخصت کر دیا۔وہ ہمارے ہی ملازم کے ساتھ خراب ہو گئی تھی۔یہ باتیں وہ چپکے چپکے افسروں کی بیویوں سے کہتی تھیں۔ابا جان کو کچھ خبر نہ تھی۔ انہیں مجھ سے دلچسپی بھی کیا تھی؟انہوں نے تو مجھے مرا ہوا سمجھ لیا تھا۔رشید مجھے اپنے گاؤں لے آیا، مگر وہ پہلے سے شادی شدہ تھا۔اس کی پہلی بیوی نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔میں نے اس کے پاؤں پکڑے، معافی مانگی، اُس گناہ کی جسے میں نے کیا ہی نہیں تھا۔خیر، گاؤں کے لوگ تو بہت اچھے ہوتے ہیں۔ انہوں نے میرے آنسو پونچھے۔اس کی بیوی کو بھی سمجھایا، بجھایا، اگرچہ اس کا دل صاف نہ ہو سکا۔اب تو شادی کو آٹھ سال ہو گئے ہیں، اور چھ بچے ہیں۔میری سوتن الگ مکان میں رہتی ہے۔ اس کے بھائی رشید پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ مجھے طلاق دے یا میرا خرچہ بند کر دے۔رشید کہتا ہے کہ صرف رضیہ کا سوال ہوتا تو ٹھیک تھا، مگر اب تو چھ بچے ہیں، ان کا کیا کروں؟میری سوتن سات بھائیوں کی بہن ہے۔انہوں نے رشید پر اتنا دباؤ ڈالا کہ وہ مجبوراً اپنی پہلی بیوی کو لے کر بیرونِ ملک چلا گیا، اور میں یہاں تنہا ان بچوں کے دکھ سمیٹنے کو باقی رہ گئی ہوں،جو بھوک، بیماری اور غربت کے ہاتھوں زندگی کی خوشیوں کو ترستے ہیں۔جب میری سوتن کے بھائیوں کو ان بچوں کی سسکیوں پر رحم آتا ہے، تو وہ ان کے لیے خرچہ دے دیتے ہیں۔اور میں صبر شکر کر کے لے لیتی ہوں۔رضیہ کی کہانی سن کر میں رو پڑی اور دیر تک سوچتی رہی۔کیا عورتیں سوتیلی ماں بن کر سچ مچ ڈائن بن جاتی ہیں؟کیا ایسے باپ بھی دنیا میں ہیں جو اولاد کو جیتے جی جلنے کے لیے اپنے ہی ہاتھوں دوزخ میں پھینک دیتے ہیں؟

Latest Posts

Related POSTS