یہ اس دِن کی بات ہے جب موسم بہت خوشگوار تھا۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، سردی میں اضافہ ہوگیا تھا، بارش کی آمد آمد تھی اور ایسے موسم میں دل چاہتا تھا گرم پکوڑوں کی پلیٹ ہو، ساتھ چٹنی ہو اور دُھواں چھوڑتی چائے مگ کے کناروں تک بھری ہو۔ یہ کوئی اور نہیں بلکہ اپنے نازک ہاتھوں سے بیوی ٹرے میں رکھے، لبوں پر مسکراہٹ سجائے لے کر آئے تو موسم کا ہی نہیں پکوڑوں اور چائے کا بھی لطف دوبالا ہو جائے۔
جب بھی موسم خوبصورت ہوتا تو مجھے ایسا خیال اکثر آجاتا۔ ویسے بھی میرے خیالوں میں ایک لڑکی بسی ہوئی تھی۔ جس کا قد میرے نکلتے ہوئے قد کے برابر تھا جس کے بال گھنے اور آنکھیں غزالی، جس کے ہونٹوں پر پرُکشش مسکراہٹ دکھائی دیتی تھی، جس کا خوبصورت چہرہ چاند کی طرح چمکتا تھا۔ جس کی چال میں ایسا سحر تھا کہ ہر اُٹھتے قدم کے ساتھ ایک گھائو سا دل پر محسوس ہوتا تھا۔ یہی لڑکی مجھے اکثر وپیشتر خواب میں نظر آتی تھی اور اب میرے خیالوں میں بس گئی تھی۔
یہ لڑکی جب بھی میرے خواب میں آتی تو میری طرف مسکرا کر دیکھتی اور مجھے اپنی غزالی آنکھوں سے کوئی اشارہ کر کے چلی جاتی۔ خواب میں کبھی اس نے مجھ سے کوئی بات کی اور نہ ہی میں کبھی اس کے اشارے کو سمجھ پایا۔
ایک بار میں ایک بابا جی کے پاس گیا تھا اور اسے اپنے اس اکثر و پیشتر آنے والے خواب کے بارے میں بتایا تو اس نے میرا خواب سن کر مجھے یوں دیکھا جیسے میں نے اسے اپنا خواب نہیں سنایا، بلکہ اس کے گھر والوں کی شکایتیں کی ہوں۔
وہ بابا کیونکہ پیسہ کمانے کے لئے بیٹھا تھا اس لئے ممکن نہیں تھا کہ وہ مجھے کوئی اچھی بات بتاتا، جب اس نے منہ کھولا تو اس کے منہ سے نکلا۔ ’’لڑکی کی صورت میں مجھے وہ سحر دکھائی دے رہا ہے جو تجھ پر کیا گیا ہے۔‘‘
میں باباجی کی بات سن کر مسکرا کر بولا۔ ’’پھر تو بڑا خوبصورت سحر کیا گیا ہے۔‘‘
’’تم اس بات کو مذاق میں مت لو۔ تم پر شدید قسم کی بندش کی گئی ہے، تمہاری شادی کبھی نہیں ہوگی اور تم بیوی کے خواب ہی دیکھتےرہ جائو گے۔‘‘ باباجی نے اپنی بھاری آواز میں مجھے خبردار کیا۔
اس بات نے مجھے پریشان کر دیا۔ اب کون ایسا ہے جو شادی نہیں کرنا چاہتا اور کون ہے جو یہ نا چاہتا ہو کہ اس کی بیوی ہو۔ پھر مجھے تو موسم کے تغیر اور آسمان سے برستے پانی کے ساتھ بیوی یوں یاد آتی جیسے بیوی نہ ہو، دو کا پہاڑا ہو۔
’’بابا جی کچھ کریں۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’خرچہ کرنا پڑے گا۔‘‘ بابا جی بولے۔
’’گھر کا سارا خرچہ تو ابا جی کرتے ہیں۔ میں صرف بجلی اور گیس کا بل جمع کرانے جاتا ہوں ان جمع شدہ بلوں کی رسیدیں جب تک میں ابّا کے سامنے نہ رکھ دوں وہ چین سے نہیں بیٹھتے۔‘‘ میں نے صاف گوئی سے کام لیا۔
بابا جی نے فوراً علاج تجویز کر دیا۔ ’’سونے سے پہلے چورن کھا لیا کر۔ تیرا معدہ ٹھیک نہیں ہے اس لیے ایسے خواب آتے ہیں۔‘‘
’’اور وہ جادو جو ابھی آپ بتا رہے تھے؟‘‘ میں حیران ہو کر بولا۔
’’سات دن چورن کھا کے آئو پھر علاج کروں گا۔‘‘ بابا جی نے اتنا کہہ کر منہ دُوسری طرف پھیر لیا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ پیسہ نہ دینے کی وجہ سے مجھ سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔ میں اُٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔
ابّا کیونکہ مجھے مخصوص خرچہ دیتے تھے جس سے میں چورن نہیں خرید سکتا تھا، اس لئے میں نے سات دن چورن کھایا اور نہ ہی اپنے اوپر کئے جادو کا توڑ کروانے باباجی کے پاس گیا۔ نتیجے میں وہ خواب مجھے مسلسل دکھائی دیتا رہا۔
تیز ہوا سے اَدھ کھلی کھڑکی جب زور سے ٹکرائی تو میں چونک کر خیالوں سے نکل آیا۔ میں نے کھڑکی کے پاس جا کر باہر جھانکا ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی تھی اور ہوا میں تیزی آ گئی تھی۔ میں نے کھڑکی بند کر کے چٹخنی لگا دی۔
میں نے سوچا کہ کمرے سے باہر جا کر فرمائش کروں کہ اس سہانے موسم میں پکوڑے ہو جائیں تو کیا بات ہے۔ پھر سوچا کہ کس ’امی‘ سے یہ فرمائش کروں؟
میرے ابّا حضور کا نام بشیر احمد ہے۔ وہ بڑی سدابہار شخصیت کے مالک ہیں۔ وراثت میں ان کو کئی ایکڑ زمینیں ملی تھیں جن پر وہ راج کررہے ہیں۔ ابّا صحت مند اور ہر طرح کی فکر سے عاری ’نوجوان‘ ہیں۔ میں ان کو نوجوان اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ انہوں نے کبھی اپنے سر کے سفید بالوں کو سر اُٹھانے کی جرأت نہیں کرنے دی تھی، وہ باقاعدہ ہر ہفتے اپنے بالوں پر خضاب ضرور لگاتے تھے۔ ان کی مونچھیں بھی سیاہ دکھائی دیتی تھیں اور چہرہ اس طرح رگڑ کے صاف کراتے تھے کہ ایک بال بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ اچھی خوراک کھاتے تھے اور کسی نہ کسی کی تاک میں رہتے تھے۔ تاک کے بارے میں میں آگے بتائوں گا۔
میرے ابّا مصلحت پسند تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جو ڈر جائے اسے مزید ڈرا دو اور جو نہ ڈرے اس سے دو قدم پیچھے ہٹ کے مصلحت کی زبان بولنا شروع کر دو۔ میری امّاں کے دُنیا سے جانے کے بعد وہ مجھ سے غافل نہیں ہوئے تھے۔ وہ میرا خیال رکھتے تھے لیکن جیب خرچ یوں دیتے تھے جیسے کوئی حکیم، مریض کی ہتھیلی پر چورن رکھ دیتا ہے۔
اب میں بتاتا ہوں کہ تاک سے کیا مراد ہے۔ ان کی پہلی شادی میری امّاں سے ہوئی جو اس وقت دُنیا سے چلی گئیں جب میں بارہ برس کا تھا۔ ابّا نے دُوسری کو تاک رکھا تھا۔ اس لئے جلد ہی انہوں نے دُوسری شادی کرلی۔ ان سے ابّا کے تین بچّے تھے۔ چوتھے بچّے کی پیدائش کے لئے جب ان کی دُوسری بیوی اپنے میکے گئیں تو ابّا نے ان کی غیرموجودگی کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے جو تیسری تاک رکھی تھی اس سے نکاح کرلیا۔
دُوسری امّاں جن کا نام ثریا تھا، جب انہیں ابّا حضور کی اس بے باکی کا پتلا چلا تو وہ اسی حالت میں گھر واپس آ گئیں اور اس سے پہلے کہ وہ تند و تیز جملوںکےگو لے برساتیں، ان کی نگاہ ابّا کی تیسری بیوی جن کا نام ذہین بانو تھا، پر پڑی اور وہ ابّا کو بھول کر سیدھی اس کے پاس چلی گئیں اور حیران ہو کر پوچھا۔ ’’بانو… تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘
ذہین بانو کی آنکھوں میں میری دُوسری امّاں جی سے بھی زیادہ حیرت تھی۔ انہوں نے جواب دینے کی بجائے سوال کردیا۔ ’’ثریا… تم یہاں؟‘‘
اب ابّا ایک طرف کھڑے ان کو دیکھ رہے تھے اور میں ان سب کو دیکھ رہا تھا۔ میری دونوں سوتیلی مائیں ایک دوسرے سے لپٹ گئیں۔ پھر انہوں نے رونا شروع کر دیا، پھر وہ دونوں ایک دوسرے کو چپ کرانے لگیں، اپنے اپنے دوپٹے سے ایک دُوسرے کے آنسو صاف کرنے لگیں۔ ابّا کا چہرہ حیرت کی تصویر بنا ہوا تھا اور ان کی نگاہیں مسلسل ان دونوں پر تھیں۔
پھر وہ دونوں صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گئیں اور ایک دُوسرے کے گھر والوں کے بارے میں دریافت کرنے لگیں۔ جب بھی دونوں ایک دوسرے کو بتاتیں کہ ان کا فلاں فوت ہوگیا ہے تو دونوں ہی تاسف سے منہ ایسا بنا لیتیں کہ مجھے بھی ان پر ترس آنے لگتا تھا۔
جب دونوں نے خوب باتیں کرلیں اور ایک دُوسرے کے بارے میں پوچھ لیا تو میری دُوسری امّاں نے سوال کیا۔ ’’تم یہاں کیسے آئی ہو؟‘‘
’’یہ مجھے بیاہ کر لائے ہیں۔‘‘ میری تیسری امّاں نے شرما کر بتایا۔
اس انکشاف نے میری دُوسری امّاں کو حیرت زدہ کر دیا اور انہوں نے ابّا کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’جانتی ہو میں ان کی دُوسری بیوی ہوں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میری تیسری امّاں کے منہ سے انتہائی حیران کن ’کیا‘ نکلا۔ ’’یہ تو کہہ رہے تھے کہ ان کے گھر میں ان کے ایک بیٹے کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور اس بچّے کی ماں مر چکی ہے۔‘‘
’’میں نے جھوٹ نہیں بولا تھا۔ بالکل سچ کہا تھا۔ یہ اپنے بچوں کو لے کر اپنے میکے گئی ہوئی تھیں اور اس وقت میرا یہ
بیٹا ہی گھر میں تھا اور اس کی ماں مر چکی ہے۔‘‘ ابّا نے سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
دونوں بیویوں نے بیک وقت ابّا کی طرف یوں دیکھا جیسے اب وہ ابّا کو سبق سکھا کر ہی دم لیں گی۔
ابّا کی دُوسری بیوی بولیں۔ ’’دیکھ بانو تو میری پرانی سہیلی ہے اور پرانی ہمسائی بھی ہے۔ سات سال پہلے تم لوگ ہمارا محلّہ چھوڑ کر دُوسرے محلے میں چلے گئے تھے۔ اور اب اچانک تم مجھے ملی ہو تو میری سوکن کے رُوپ میں۔ اب اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ یہ تیرا میاں ہے تو یقین کرو مجھ سے برا کوئی نہ ہوتا۔‘‘
ابّا کی تیسری بیوی نے کہا۔ ’’میں بھی کچھ ایسا ہی سوچ رہی ہوں۔ تم میری سہیلی ہو۔ اب میں تم سے کیا لڑوں۔‘‘
’’اب بہتر ہے کہ ہم اتفاق سے اس گھر میں رہیں۔ تم میرے شوہر اور میں تمہارے شوہر سے لڑتی اچھی نہیں لگتی۔ پرانی دوستی اور محلے داری خراب ہو جائے گی۔‘‘ دُوسری امّاں نے منطق بیان کی۔
’’بس ہم نے اب اپنی دوستی اور پرانے محلے داری کو بچانا ہے۔‘‘ تیسری امّاں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور یوں اس گھر میں ایک بڑی جنگ جنم لیتے لیتے رہ گئی۔
اس کے بعد میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ان دونوں کے درمیان کبھی لڑائی ہوئی ہو۔ دونوں ہی ایک دُوسرے کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ سارا گھر ہنسی خوشی رہ رہا تھا۔ ابّا کی تیسری بیوی سے بھی دو بچّے ہوئے تھے۔ چھ بچوں کی موجودگی میں میری حیثیت بارہویں کھلاڑی جیسی تھی۔ میں نے بی اے کر لیا تھا۔ میں ایک خوبصورت نوجوان تھا۔ بجلی اور گیس کا بل جمع کرانے کے علاوہ دال اور سبزی بھی میں ہی لے کر آتا تھا۔ جب بھی میں کوئی سودا لاتا تو مجھ سے ایک ایک چیز کا حساب یوں لیا جاتا جیسے میں بینک کا ملازم ہوں اور ایک پیسے پر بھی میرا کوئی حق نہیں ہے۔
میرے علم میں یہ بات بھی تھی کہ ابّا اب چوتھی بیوی کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ چوتھی بیوی کب اس گھرمیںوارد ہوتی، یہ میں کیا ابّا کی دونوں بیویاں بھی نہیں جانتی تھیں۔ یہ بات پتھر پر لکیر تھی کہ چوتھی بیوی کی آمد اس گھر میں ضرور ہوگی۔ یہ بات مجھے ابّا کی باتوں سے پتا چل رہی تھی کیونکہ وہ اپنی باتوں میں دونوں بیویوں کےسامنے زمین ہموار کر رہے تھے۔
اس سہانے موسم میں اب میں سوچ رہا تھا کہ کس امی سے کہوں کہ وہ پکوڑے بنائیں۔ میرے منہ سے نکلی ہوئی بات کم ہی پوری ہوتی تھی، اپنی ماں، ماں ہوتی ہے جو منہ سے الفاظ نکلنے سے قبل جان جاتی ہے کہ میرے لعل کو کیا چاہئے۔
پھربھی میں کمرے سے باہر نکلا اور اپنی دُوسری امّاں کی طرف بڑھا اور بولا۔ ’’موسم کتنا اچھا ہوگیا ہے۔‘‘
’’گلی میں جا کے نہا لے۔‘‘ میری دُوسری امّاں نے مجھے اچھے موسم کا فائدہ اُٹھانے کا فوراً مشورہ دے دیا۔
’’میں سوچ رہا تھا کہ اس موسم میں گرم گرم پکوڑے ہونے چاہئیں۔‘‘ میں نے اپنے دل کی بات کہی۔
’’میں بھی یہی سوچ رہی تھی۔‘‘ دُوسری امّاں خوش ہو کر بولیں۔
’’امّاں پھر پکوڑے بنائو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’مجھے پکوڑے بنانے نہیں آتے۔ میں نے کبھی پکوڑے نہیں بنائے۔‘‘ میری دُوسری امّاں نے صاف اپنا دامن بچا لیا۔ ’’تم ایسا کرو بانو سے کہو۔‘‘
’’بانو کے سر میں درد ہے۔‘‘ تیسری امّاں نے سنتے ہی کمرے سے آواز دی۔ میں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ مجھے صاف انکار کردیا گیا ہے۔ میں پکوڑے نہیں کھا سکتا۔ اس وقت مجھے شدت سے اپنی وہ بیوی یاد آئی جو میرے خیالوں میں آ جاتی تھی۔ اس وقت اگر وہ یہاںہوتی تو میرے کہنے سے پہلے ابّا حضور کی دونوں بیویاں اسے پکوڑے بنانے کا حکم دے چکی ہوتیں۔
میں چپ چاپ باہر نکل گیا۔ بارش بوندا باندی کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ میرا دل اُداس سا ہوگیا تھا۔ میں دھیمے دھیمے قدم اُٹھاتا ایک طرف چل پڑا۔ چلتے چلتے میں محلے کے اس پارک کے پاس چلا گیا جس کی چاردیواری آدھی سے زیادہ غائب ہو چکی تھی اور اس پارک کی زمین پر کہیں گھاس دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میں ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ میرے پیچھے چھوٹی سی دیوار کھڑی تھی، اس دیوار کا خاصا حصہ گر چکا تھا۔ دیوار سے تین، چار انچ کے سریئے باہر جھانک رہے تھے۔
میں اُداس اس جگہ کھڑا تھا کہ اسی اثنا میں دو موٹرسائیکلیں اس طرف آ گئیں۔ دونوں موٹر سائیکلوں پر چار نوجوان بیٹھے تھے۔ ان کو میں جانتا تھا۔وہ ریاض دندی کے بندے تھے۔ ریاض دندی ہمارے علاقے کا بدمعاش تھا۔ بات بات پر لڑ پڑتا اور اسلحہ نکال لیتا تھا۔ اسے ریاض دندی اس لئے کہتے تھے کہ ایک بار ایک لڑکے سے لڑتے ہوئے اس نے اس کے بازو پر بری طرح کاٹ لیا تھا۔ منہ سے کاٹنے والے کو پنجابی میں ’دندی‘ کہتےہیں۔ اس لئے اس کا نام ہی ریاض دندی پڑ گیا تھا۔ اس کے بعد وہ جب بھی کسی کے ساتھ لڑتا اسے کاٹتا ضرور تھا۔ اس کے نوکیلے دانت کسی درندے جیسے تھے۔ محلے کے لوگ اب اتنا کسی کتّے سے نہیں ڈرتے تھے جتنا وہ ریاض دندی سے ڈرتے تھے۔
ان نوجوانوں نے تین چار چکر لگائے۔ اچانک ایک کی موٹرسائیکل سلپ ہوگئی اور دونوں گر گئے۔ ان کے ساتھیوں نے ان کو اُٹھایا تو گرنے والوں نے میری طرف یوں دیکھا جیسے ان کی موٹرسائیکل میں چلا رہا تھا اور مجھ سے وہ سلپ ہوئی تھی۔
’’اس کے دیکھنے کی وجہ سے ہم گرے ہیں۔‘‘ ایک نوجوان نے میری طرف اشارہ کیا۔
میں واقعی ان کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن میری نظر اتنی بھی بری نہیں تھی کہ میرے دیکھنے سے کوئی اس طرح سے گر جائے۔ ان کو لڑنے کا بہانہ چاہئے تھا۔ جہاں وہ کسی کو اکیلا دیکھتے، کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر لڑائی شروع کر دیتے۔ ان کی مار کٹائی سے علاقے میں دہشت پھیل جاتی تھی اور لوگ ان سے مزید ڈرنے لگتے تھے۔
’’تم نے کیوں دیکھا ہماری طرف۔‘‘ ایک نوجوان تیزی سے میری طرف بڑھا۔
میں نے اَنجان بنتے ہوئے پوچھا۔ ’’آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’تیرے سوا اور یہاں کون کھڑاہے۔‘‘ اس کا لہجہ کرخت ہوگیا تھا۔
’’میں تو آپ کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تو پھر کس کی طرف دیکھ رہے تھے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں تو سامنے دیکھ رہا تھا۔‘‘ میں نے دُور اشارہ کرتے ہوئے کہا تا کہ ان کو یقین ہو جائے کہ میری نگاہ کہیں نزدیک تھی ہی نہیں۔
’’جھوٹ بولتے ہو۔ تم ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔‘‘ دُوسرا نوجوان بھی میرے پاس آ گیا اور قہر آلود لہجے میں بولا۔
’’آپ میرا یقین کریں میں اُدھر دُور دیکھ رہا تھا۔‘‘ میں نے اُنگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا جبکہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہاں کیا ہے، اور مجھے اتنا دُور دیکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔
’’کیا دیکھ رہے تھے وہاں۔ بتائو۔‘‘ اس نوجوان نے پوچھا۔
اب میں کیا جواب دیتا۔ مجھے کچھ دکھائی دیا ہوتا تو میں کچھ کہتا۔ میں نے بات گھمائی۔ ’’میں دُور دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ میری دُور کی نظر کمزور ہے۔ میں چیک کر رہا تھا کہ واقعی ڈاکٹر ٹھیک کہتا ہے۔‘‘
’’ہمیں پاگل سمجھا ہے تم نے؟‘‘ تیسرے نوجوان نے یوں پوچھا جیسے وہ تصدیق چاہتا ہو۔
’’آپ تو بہت اچھے ہیں بھائی۔‘‘ میں نے اس کی تعریف کی اور ساتھ مسکرایا بھی۔
’’ابھی تمہیں بتاتا ہوں کہ ہماری طرف دیکھنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔‘‘ پہلے نوجوان نے کہہ کر پوری قوت سے مُکّا میرے منہ پر مارنا چاہا۔ میرے اندر ایک صلاحیت ہے کہ میں اپنے جسم کو بڑی پھرتی سے کسی طرف بھی حرکت دے سکتا ہوں۔ اس وقت بھی میں اتنی تیزی سے نیچے جھکا کہ اس نوجوان کا مُکّا میرے پیچھے دیوار سے نکلے ہوئے چھوٹے سے سرے میں گھس گیا۔
اس کا مُکّا جونہی سریے پر لگا تو وہ زخمی ہی نہیں ہوا بلکہ اس کی اُنگلیوں کی ہڈّیاں بھی ٹوٹ گئیں۔ اس کے منہ سے چیخ نکلی۔ میں نے دیکھا کہ اس کا ہاتھ خون سے بھر گیا تھا اور وہ شدید تکلیف میں مبتلا ہو
ایک طرف بیٹھ گیا تھا۔
اس کے ایک ساتھی نے فوراً اسے تھام لیا جبکہ دُوسرے نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ وہ مجھے ٹکر مارنا چاہتا تھا۔ میں پھر جھک گیا۔ اس کی ٹکر اس سریا پر تو نہیں لگی البتہ دیوار سے اس کا سر یوں ٹکرایا کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور اسے یہ بھی ہوش نہ رہا کہ وہ کہاں ہے۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا ایک طرف بیٹھ گیا اور اپنا سر تھام لیا۔
تیسرے نے مجھ پر اپنی ٹانگ سے حملہ کرنا چاہا اور اس کی خواہش تھی کہ اس کے پیر کی ٹھوکر میرے پیٹ پر یوں لگے کہ میرا کھایا پیا باہر نکل آئے۔ اس بار بھی میں ایک طرف ہوگیا اور اس کا پیر پوری قوت سے دیوار سے ٹکرایا اور جس قوت سے ٹکرایا تھا اسی قوت سے اس کی ٹانگ کو جانے کیا ہوا کہ وہ چیخ کر اپنی ٹانگ پکڑ کر زمین پر لوٹ پوٹ ہوگیا۔ مجھے محسوس ہوا جس قوت سے اس کی ٹانگ دیوار سے لگی ہے، اس کی ٹانگ کی ہڈّی کو کچھ ہوا ضرور تھا۔
اب چوتھے نے مجھ پر جست لگائی، اس کی دانست میں تھا کہ وہ جست لگا کر مجھے لیتا ہوا زمین پر آ جائے گا اور پھر خوب میری دُھلائی کرے گا۔ لیکن اس بار میں ایک طرف ہٹا تو وہ دیوار کے ساتھ ٹکرا کر دُوسری طرف جا گرا۔ دُوسری طرف زمین پر دیوار کی اینٹیں پڑی ہوئی تھیں اور وہ ان پر ایسا گرا کہ مزید لہولہان ہوگیا۔ اسے سخت چوٹیں آئیں اور اس کے جسم سے جگہ جگہ سے خون رِسنے لگا تھا۔ وہ اینٹوں پر پڑا تڑپنے لگا۔
میں نے دیکھا کہ چاروں کو میں نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا مگر وہ چاروں زخمی ہو چکے تھے اور کراہ بھی رہے تھے۔ میں نے محض اپنا بچائو کیا تھا اور اس بچائو میں وہ خود بخود زخمی ہوگئے تھے۔ میں نے ان کو کچھ نہیں کہا تھا۔ ان پر ہاتھ تو دُور کی بات اُنگلی بھی نہیں اُٹھائی تھی۔
میں ایک طرف کھڑا ان کو دیکھ رہا تھا۔ کچھ لوگ آس پاس جمع ہوگئے تھے۔ اسی وقت ایک موٹرسائیکل ہمارے پاس آکر رُکی۔ اس پر ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ اس نے متحیر نگاہوں سے ان چاروں کو زخمی حالت میں دیکھا اور پھر ہم سب کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ ’’ان کو کس نے مارا ہے؟‘‘
اس کے سوال پر آس پاس کھڑے لوگوں نے میری طرف یوں اُنگلی اُٹھائی جیسے وہ سب ایمپائر ہوں اور مجھے بیک وقت آئوٹ قرار دے رہے ہوں۔ میں ان کی اُنگلیوں کو اپنی طرف دیکھ کر گھبرا گیا۔ سچ یہ تھا کہ میں نے ان چاروں میں سے کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔
’’میں نے ان کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔‘‘ میں نے اپنی صفائی پیش کی۔
’’تم نے انہیں ہاتھ لگایا یا نہیں اب تمہیں جو ہاتھ لگیں گے وہ سارا محلّہ دیکھے گا۔‘‘ نوجوان نے کہا اور بائیک کو ہوا میں اُڑاتا ہوا چلا گیا۔
میں ابھی کھڑا دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور اپنا منہ میرے کان کے پاس لایا۔ مجھے لگا جیسے وہ مجھے کاٹنے والا ہے۔ میں نے پیچھے ہونا چاہا تووہ میرا بازو پکڑ کر بولا۔‘‘ ’’تم شاید جانتے نہیں کہ یہ سارے ریاض دندی کے لڑکے ہیں۔ تم بھاگ جائو۔‘‘
’’کہاں بھاگ جائوں؟‘‘ میں نے اس کا چہرہ دیکھا۔
’’جہاں بھاگ سکتے ہو بھاگ جائو۔ وہ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ اس سے جان بچائو۔‘‘ اس نے مجھے خبردار کیا۔
’’میں نے تو انہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ میرا کیا قصور ہے؟‘‘ میں نے ایک بار پھر اپنی صفائی پیش کی۔
میری بات سن کر اس آدمی نے میری طرف یوں دیکھا جیسے اسے میری ذہنی کیفیت پر شک ہو۔ یا وہ یہ سمجھ رہا ہو کہ مجھے جلدی بھول جانے کی عادت ہے، میں نے جو کیا ہے وہ بھول چکا ہوں۔
’’میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا ہے۔ تم ان سے بچنا نہیں چاہتے تو تمہاری مرضی۔‘‘ وہ آدمی کہہ کر ایک طرف چلا گیا۔
میں نے ان چاروں کی طرف دیکھا وہ شدید زخمی ہو کر کراہ رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ بے شک میں نے انہیں ہاتھ نہیں لگایا لیکن ریاض دندی یا کوئی اور یہ ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔ اس لئے بہتر ہے کہ میں یہاں سے کھسک جائوں۔ جانے سے قبل میں نے وہاں کھڑے لوگوں کی طرف دیکھا۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جسے میں جانتا تھا، اس لئے مجھے یقین ہوگیا کہ ان میں سے کوئی بھی مجھے نہیں جانتا ہوگا اور نہ ہی انہیں میرے گھر کا پتا ہوگا۔ چنانچہ میں وہاں سے فوراً تیزی سے نکل گیا۔
میں تیز تیز قدم اُٹھاتا اپنے گھر کی طرف چلا جا رہا تھا۔ میرے دل میں خوف بھی پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے۔ گھر پہنچ کر میں سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میں ایک طرف بیٹھ گیا اور خود ہی اندازے قائم کرنے لگا۔ میں نے سوچا کہ وہاں کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اس لئے سوال پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی انہیں میرے گھر کے دروازے تک لے آئے۔ پھر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی جانتا ہو اور وہ ریاض دندی کو یہاں تک لے آئے۔ اگر وہ یہاں آ گیا تو میں کیا کروں گا؟
اس سوال کا جواب مجھے نہیں مل رہا تھا۔ میں مضطرب ہو کر سوچے جا رہا تھا۔ مجھے یہ ڈر بھی تھا کہ اگر ریاض دندی نے مجھے پکڑ کر کاٹ لیا تو مجھے کتنے اور کہاں ٹیکے لگیں گے؟ اس خیال نے مجھے مزید بے چین کر دیا۔ مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ میں کبھی اس آدمی سے کیوں نہیں ملا جسے ریاض دندی نے کاٹا تھا،اگر اس سے ملا ہوتا تو میرے علم میں یہ بات آ جاتی کہ اس کے کاٹنے پر کوئی ٹیکا بھی لگتا ہے یا نہیں؟
میں کمرے میں مضطرب ایک جگہ سے اُٹھ کر دُوسری جگہ بیٹھ رہا تھا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں کمرے کا فرش کھود کر اس میں سما جائوں۔ میں نے کیا بھی کچھ نہیں تھا اور پریشان بھی بہت تھا۔ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا۔ دروازے میں ابّا جی کھڑے تھے۔ وہ میری طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں۔وہ میرے پاس آ کر بولے۔ ’’کیا کر کے آئے ہو؟‘‘
’’میں نے کیا کرنا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔‘‘ میں اپنی گھبراہٹ کو دباتے ہوئے بولا۔
’’تم اکیلے نے ریاض دندی کے چار لوگوں کو مار مار کے زخمی کر دیا؟‘‘ ابّا پتا نہیں اس بات پر حیران تھے یا میری بہادری کو انجوائے کر رہے تھے، میں ان کی کیفیت سمجھ نہیں سکا تھا۔
’’میں ایک کے ساتھ نہیں لڑ سکتا، آپ چار کی بات کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ بات کس نے بتائی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مجھے یہ بات میرے ایک جاننے والے نے بتائی ہے۔ وہ وہاں موجود تھا۔ اس نے مجھے تاکید کی ہے کہ میں تمہیں چھپا دوں۔ ورنہ ریاض دندی چھوڑے گا نہیں۔ مجھے یہ بتائو ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر لڑ بھی پڑےتھے تو کم از کم ان کی پٹائی اس طرح کرتے کہ وہ زخمی نہ ہوتے۔ تم نے کسی کا ہاتھ توڑ دیا، کسی کی ٹانگ اور کسی کو ایسا زخمی کیا کہ وہ ہلنے کے قابل نہیں رہا۔‘‘ ابّا ایک سانس میں بالکل ایسے بول رہے تھے جیسے وہ کسی سبق کا رٹّا لگا کے آئے ہوں۔
’’ابّا جی آپ یقین کریں میں نے انہیں کچھ بھی نہیں کہا۔‘‘ میں نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’اتنا کچھ کر کے بھی کہتے ہو کہ کچھ نہیں کیا۔ تم نے مجھے فکرمند کر دیا ہے۔ اب میں تمہیں ریاض دندی سے کیسے بچائوں… وہ تو کاٹتا بھی بہت بُرا ہے۔‘‘ ابّا جی پریشان ہو کر سوچنے لگے پھر ایک دم بولے۔ ’’جس آدمی نے مجھے یہ بتایا ہے کہ تم نے ان کو پیٹا ہے، وہ پیٹ کا بڑا ہلکا ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ ریاض دندی کو ہمارے گھر کے دروازے تک لے آئے گا۔‘‘
’’پھر ہم ایک کام کرتے ہیں۔ میں کہیں نہیں چھپتا، بلکہ آپ کے اس جاننے والےکو کہیں چھپا دیتے ہیں تا کہ وہ ریاض دندی کے کسی آدمی سے نہ ملے اور انہیں ہمارے گھر کا پتا نہ بتائے۔‘‘ میں نے تجویز پیش کی۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ اب اس کے اغوا کے لیے کسی کو رقم دے دوں؟ تمہاری سوچ پر مجھے حیرت ہے۔‘‘ ابّا جی نے مجھے گھورا۔
’’میں نے تو ایسےہی ایک بات کی تھی۔‘‘ میں مرے ہوئے سے لہجے میں بولا۔
اس اثناء میں میرے ابّا کی دُوسری
بیوی آگئیں اور گھبرائی ہوئی آواز میں بولیں۔ ’’باہر پندرہ بیس آدمی آئے ہیں۔‘‘
’’الیکشن کا تو موسم نہیں۔ پھر وہ کیا کرنے آئے ہیں؟‘‘ ابّاجی نے بے خیالی میں کہا۔
’’کوئی ریاض دندی آیا ہے، کہتا ہے کہ اسے باہر نکالو جس نے میرے لوگوں کو مارا ہے۔‘‘ ابّا کی دُوسری بیوی نے بتایا میری جان نکل گئی جبکہ ابّاجی کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
اسی وقت ابّا کی تیسری بیوی بھی آ گئیں اور آتےہی بولیں۔ ’’باہر کچھ لوگ ہمارا دروازہ پیٹ رہے ہیں۔‘‘
’’ہوا کیا ہے…؟ وہ کون لوگ ہیں۔‘‘ ابّا کی دُوسری بیوی نے پوچھا۔
ابّاجی نے دونوں کو بڑی تفصیل سے بتایا کہ میں نے اس علاقے کے بدمعاش ریاض دندی کے بندوں کو اتنا پیٹا ہے کہ بری طرح زخمی ہوگئے ہیں اور اب وہ اس سے بدلہ لینے آیا ہے۔
ابّا کی دونوں بیویوں نے سنا تو وہ پریشان ہوگئیں۔ دونوں نے میری طرف یوں دیکھا جیسے ان پر انکشاف ہوا ہو کہ میں پارٹ ٹائم میں خواتین کے پرس بھی چھین کر بھاگ جاتاہوں۔
’’اب کیا ہوگا بشیر جی۔‘‘ ابّا کی تیسری بیوی نے تشویش سے پوچھا۔
’’جو ہوگا وہ تو ہوگا ہی… میں پوچھتی ہوں کہ فیروز کو ضرورت کیا تھی کہ وہ شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالتا۔‘‘ ابّاجی کی دوسری بیگم صاحبہ نے ابّاجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ کس نے بتایا ہے کہ میں نے شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا ہے؟ یہ تو مجھ پر ایک اور الزام ہے۔‘‘ میں نے معصومیت سے کہا۔
’’مجھے لگتا ہے تم ہوش میں نہیں ہو۔‘‘ ابّا کی دُوسری بیوی نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
’’اس بارے میں بعد میں بات کریں گے، سب سے پہلے ضروری ہے کہ میں ریاض دندی کو کسی طرح سے ٹھنڈا کر کے آئوں تا کہ معاملہ رفع دفع ہو سکے۔‘‘ مصالحت پسند ابّاجی کچھ سوچتے ہوئے بولے۔
’’آپ باہر نہیں جائیں گے وہ آپ کو پکڑ لے گا۔ جس نے کیا ہے اسی کو باہر بھیجیں۔‘‘ ابّا کی تیسری بیوی نے اپنی طرف سے حکم صادر کیا۔
’’یہ معاملہ میں ہی حل کر سکتا ہوں۔‘‘ ابّاجی بولے۔
باہر ہمارے دروازے کو کوئی بری طرح پیٹ رہا تھا۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میرے جسم کے کسی حصے میں دانت پیوست ہونے والے ہیں۔
ابّاجی کمرے سے باہر نکلے تو ان کے پیچھے ان کی دونوں بیویاں بھی چلی گئیں۔ اب میرا اس کمرے میں رُکنا مشکل تھا، میں بھی باہر نکل آیا۔ ہمارا دروازہ کوئی بُری طرح پیٹ رہا تھا۔
ابّا کچن میں گئے اور وہاں سے سبزی کاٹنے والی اکلوتی چھری اُٹھا لائے۔ میں نے دیکھا تو گھبرا گیا اور سوچنے لگا کہ ابّا کیا ان کو ختم کر کے واپس آئیں گے۔ ابّا کی دونوں بیویوں نے ان کے ہاتھ میں چھری دیکھی تو دونوں ان کے آگے کھڑی ہوگئیں۔
ابّا کی دُوسری بیوی بولیں۔ ’’یہ آپ کیا کرنے لگے ہیں؟ آپ اس بدمعاش سے لڑیں گے؟‘‘
’’میں آپ کو ان سے لڑنے نہیںدوں گی۔‘‘ ابّا کی تیسری بیوی نے زور دے کر کہا۔
’’اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو ہم کس کے سہارے زندگی گزاریں گے؟ ہماری تو دُنیا ہی ختم ہو جائے گی۔‘‘ ابّا کی دُوسری بیوی کو مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی۔
’’میں نے آپ کو کبھی لڑتے نہیں دیکھا۔ آپ اپنی اس ناخلف اولاد کے لئے آج ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ نہیں میں آپ کو لڑنے نہیں دوں گی۔‘‘ ابّاجی کی تیسری بیوی نے میری طرف اشارہ کیا اس کا مطلب تھا کہ وہ ناخلف مجھے کہہ رہی تھیں۔ اس اشارے نے میرے اندر کسی ابہام کو جنم نہیں لینے دیا۔
ابّاجی دونوں کی باتوں سے اجیرن ہوگئے تھے۔ وہ انہیں ایک طرف کرتے ہوئے بولے۔ ’’میں ہلاکو خان کے ساتھ کھڑا ہو کر لڑتا نہیں رہا ہوں اور نہ میں نے ہلاکو خان کے دُشمنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا ہے۔ میں یہ چھری اس لئے باہر لے کر جا رہا ہوں تا کہ یہ ریاض دندی کے پیروں میں رکھ کر کہہ سکوں کہ ہمارے گھر میں یہ اکلوتا ہتھیار ہے اور ہم امن پسند لوگ ہیں۔ لہٰذا بیٹھ کے بات کر لیتے ہیں۔‘‘
ابّاجی وضاحت کر کے تیزی سے باہر نکلے۔ دروازہ بُری طرح سے پیٹا جا رہا تھا اور ریاض دندی ساتھ للکار بھی رہا تھا۔ ’’باہر نکلو۔‘‘
ابّاجی دروازے کے پاس جا کر رُکے اور اپنی دونوں بیویوں کو پیار بھری نگاہوں سے یوں دیکھا جیسے وہ محاذ پر جا رہے ہوں، ویسے تھا تو وہ محاذ ہی۔ ابّا نے جونہی ان کی طرف دیکھا ان کی دونوں بیویوں نے ایک ساتھ ہاتھ ہلا دیئے، وہ انہیں رُخصت کر رہی تھیں۔
ابّا کی دُوسری بیوی ان کی طرف لپکیں اور پوچھا۔ ’’اپنی الماری کی چابی مجھے دیتے جائیں۔‘‘
’’میں چاند پر جا رہا ہوں۔‘‘ ابّا نے انہیں گھورا تو وہ اُلٹے پیروں واپس آ گئیں۔ پھر ابّا نے مجھے تاکید کی۔ ’’کچھ بھی ہو جائے تم باہر قدم نہیں رکھو گے۔‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
ابّا دروازے کی طرف گھومے اور جونہی دروازہ کھول کر باہر نکلے، میں بھاگ کر ڈرائنگ رُوم میں چلا گیا اور اس کھڑکی کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا جو باہر کی طرف کھلتی تھی۔ یہاں سے میں باہر کا منظر دیکھ سکتا تھا۔ ریاض دندی ہاتھ میں بندوق لئے کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے ساتھی بھی تھے۔ اور محلّے کے لوگ بھی جمع تھے۔
میں نے دیکھا کہ ابّاجی جونہی باہر نکلے ان کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر ریاض دندی نے اپنی بندوق سیدھی کرلی اسی وقت ابّاجی نے وہ چھری اس کے پیروں کی طرف پھینکتے ہوئے جلدی سے کہا۔ ’’میرے گھر میں یہی ایک اکلوتا ہتھیار ہے جو میں نے آپ کے قدموں میں ڈال دیا ہے۔ میں لڑنے نہیں بلکہ آپ سے بات کرنے آیا ہوں۔ آپ بھی امن سے میری بات سنیں آپ کو مزہ آئے گا۔‘‘ ابّا شاید گھبراہٹ میں ایسا بول گئے تھے۔ اب بتائیں کہ لڑائی کے موقعے پر بات کرتے ہوئے کسی کو کیا مزہ آ سکتا ہے۔
’’میں یہاں مزے لینے نہیں آیا۔ مجھے وہ لڑکا چاہئے جس نے میرے آدمیوں کو مارا ہے۔‘‘ ریاض دندی نے ابّا کی بات سنتے ہی آگ بگولہ ہو کر کہا۔ اس کی غراتی ہوئی آواز خوف پیدا کر رہی تھی۔ جب اس نے یہ کہا کہ میں نے اس کے آدمیوں کی پٹائی کی ہے تو اس وقت جو لوگ اس جگہ کھڑے تھے وہ ایک بار حیران ضرور ہوئے تھے۔ اب یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ کوئی بندہ ریاض دندی کے آدمیوں کی پٹائی کرے۔ میں نے تو ان کو اُنگلی بھی نہیں لگائی تھی۔
’’میری بچّے سے بات ہوئی ہے۔ اس نے مجھے بتایا ہے کہ اس نے ان سے لڑائی نہیں کی۔‘‘ ابّاجی کہتے ہوئے ریاض دندی کے پاس چلے گئے۔ ابّاجی کا لہجہ بہت شیریں اور اپنائیت سے بھرا ہوا تھا۔ ساتھ ہی ابّا نے پوچھ لیا۔ ’’چائے پیئیں گے؟‘‘
’’چاچا میں چائے پینے نہیں آیا۔ اپنے بچّے کو باہر نکالو میں اس کا قیمہ کر کے جائوں گا۔‘‘ ریاض دندی غرّایا۔
’’میں نے بتایا تو ہے کہ وہ بے قصور ہے۔‘‘ ابّا نے پھر سمجھانے کی کوشش کی۔
’’میرے آدمیوں کو کوئی ہوائی چیز زخمی کر گئی ہے؟ اپنے بچّے کی صفائیاں پیش نہ کرو اور اسے فوراً باہر نکالو۔‘‘ اس بار ریاض دندی نے پہلے سے زیادہ درشت لہجے میں کہا۔
ابّاجی ایسے معاملات کوبہت اچھی طرح حل کرنے کا فن جانتے تھے۔ وہ مزید رس گھلے لہجے میں بولے۔ ’’میرے بچّے نے تو کبھی چڑیا کو بھی نہیں مارا، وہ کسی انسان کو کیا ہاتھ لگائے گا… تمہاری چاچی نے کھیر بڑی مزے کی بنائی ہے میں کہتا ہوں کہ دو دو چمچ ہو جائیں…‘‘ ابّا نے ایک بار پھر میری صفائی پیش کرنے کے بعد کھیر کی پیشکش کر دی۔ حالانکہ ابّا کی دونوں بیویوں میں سے کسی نے کھیر نہیں بنائی تھی۔ انہیں کھیر بنانا آتا ہی نہیں تھا۔
’’چاچا میں تیری عمرکا لحاظ کر رہاہوں ورنہ اتنی دیر میں، میں بندے کو اُوپر پہنچا دیا کرتا ہوں۔‘‘ ریاض دندی کا لہجہ بلند تھا اور وہ ابّاجی کو یوں گھور رہا تھا جیسے وہ ان کا گلا دبا دے گا۔
’’میں
ہی گھر میں بات کر رہا تھا کہ ریاض صاحب دل کے بہت اچھے ہیں وہ بزرگوں کا احترام ہی نہیں کرتے بلکہ ان کی بات بھی مان لیتے ہیں۔ اب آپ غصّہ تھوک دیں، بچہ آئے گا تو میں اسے سمجھائوں گا اور وہ آپ سے معافی مانگنے بھی آئے گا۔‘‘ ابّاجی نے مصلحت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ بات سے بات نکال کر اسے کسی طرح ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
لیکن وہ بھی ریاض دندی تھا۔ وہ اسی لہجے میں بولا۔ ’’اب معافی سے کام نہیں چلے گا۔ جب تک اس کی ہڈّی پسلی توڑ نہیں دوں گا چین سے نہیں بیٹھوں گا۔‘‘
’’لڑائی میں کیا رکھا ہے!‘‘ ابّا نے کہنا چاہا۔
اس نے بات کاٹ دی۔ ’’یہ بات اپنے پتّر کو سمجھانی تھی کہ لڑائی میں کچھ نہیں رکھا، اور اس لڑائی میں سراسر نقصان ہے جوریاض دندی یا اس کے آدمیوں کے ساتھ لڑی جائے۔‘‘
’’بات تو آپ کی سولہ آنے صحیح ہے۔ آپ سے لڑ کر بھلا کوئی بچا ہے؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، اس بازار کے باہر دہی بڑے لگتے ہیں۔ ارے کیا کمال کے دہی بڑے بناتا ہے، آ جائو سب مل کے کھاتے ہیں، میں کہتا ہوں سب کو لطف آ جائے گا۔‘‘ ابّا نے ایک بار پھر بات گھما کر اسے یہاں سے کسی طرح ہٹ جانے کی بات کی۔
ابّا کی بات سن کر ریاض دندی نے ان کی طرف دیکھا اور اپنا لہجہ ذرا دھیما کرتے ہوئے بولا۔ ’’بزرگو! ایک بات تو بتائیں۔ آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے، میں یہاں بدلہ لینے کی بات کر رہا ہوں، اس کی ہڈّی پسلی توڑنے کا کہہ رہا ہوں اور آپ مجھے کبھی چائے، کبھی کھیر اور کبھی دہی بڑوں کی آفر کر رہے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ میں یہ سب کھا پی کر چلا جائوں گا؟ ایسا بالکل نہیں ہوگا۔ جب تک اس کی ہڈّی نہیں توڑوں گا اس کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
ابّا نے اس کی بات سنی توبھانپ گئے کہ ریاض دندی اتنی آسانی سے جانے والا نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا۔ ’’دیکھو ریاض دندی صاحب… مجھے نہیں معلوم لڑائی کیسے اور کیوں ہوئی، تمہارے آدمی کیسے زخمی ہوئے۔ میں ایک شریف آدمی ہوں۔ میں اس معاملے میں نہیں پڑتا۔ ابھی تک وہ آوارہ اور ناخلف گھر نہیں آیا۔ وہ جہاں ملے تم جوچاہو اس کے ساتھ سلوک کرو اب میں بھی اسے اس گھر میں گھسنے نہیں دوں گا۔ مجھے ایسی اولاد کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ بھاڑ میں جائے وہ۔‘‘ ابّا اتنا کہہ کر دُکھی سا منہ بنا کر گھر کے دروازے کی طرف بڑھے۔
عقب سے ریاض دندی کی آواز آئی۔ ’’چاچا تیری بات کا اعتبار کر کے جا رہا ہوں۔ اب جہاں ملے گا، اسی جگہ اس کی ہڈّی پسلی ایک کر دوں گا… یہ ریاض دندی کی زبان ہے اور ریاض دندی کبھی اپنی زبان سے مکرتا نہیں ہے۔ چاہے جو ہو جائے، مہینہ لگ جائے، یا پھر ایک سال… وہ میرے ہاتھوں نہیں بچے گا اور میں زبان دیتا ہوں کہ میں اس سے انتقام لئے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا۔‘‘ اس نے کہا اور اپنے آدمیوں کو لے کر چلا گیا۔
ابّا نے اندر آتے ہی مسکراتے ہوئے دروازہ بند کیا اور میں بھی کمرے سے نکل کر ان کے سامنے آگیا۔
’’دیکھا کتنا ہنگامہ ہوگیا ہے۔ میں اگر غصّہ کرتا تو بات بگڑ جاتی۔ پتا نہیں تجھے کس نے مت دی تھی کہ اس کے بندوں کے ساتھ لڑو۔‘‘
’’ابّاجی میں ان کے ساتھ نہیں لڑا۔‘‘ میں بولا۔
’’میرے بچّے میرے سامنے تو مان جا، میں کون سا ریاض دندی کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا ہوں، جو اسے بتا دوں گا۔‘‘ ابّا نے جھنجھلا کر کہا۔
اب میں کیا صفائی پیش کرتا۔ میری بات کو ماننے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں تھا، میں نے اس کے آدمیوں کو اُنگلی تک نہیں لگائی، یہ ایسی بات تھی کہ کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے۔ اس لئے میں نے بہتر سمجھا کہ چپ ہو جائوں۔
ابّا کی تیسری بیوی نے ہمدردی سے ابّاجی کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ ’’جب آپ اس بدمعاش سے بات کر رہے تھے تو میرا دل مسلسل زور سے دھڑک رہا تھا اور مجھے لگتا تھا جیسے مجھے کچھ ہو جائے گا۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے کہ تم دونوں کو میری بہت فکر رہتی ہے لیکن اس کو میری ذرا بھی فکر نہیں۔ یہ مجھے دُکھ دینے پر تلا ہوا ہے۔‘‘ ابّا نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے نرم لہجے میں بات کی جب ان کی نگاہیں میری طرف گھومیں تو لہجے میں تغیر آ گیا اور الفاظ کے ساتھ شعلے بھی نکلنے لگے۔ میں گردن جھکا کر ان کے سامنے چپ چاپ کھڑا رہا۔
’’بشیر جی… وہ تو اسے چھوڑے گا نہیں…اب اس کا کیا بنے گا۔‘‘ ابّاجی کی دُوسری بیوی نے دریافت کیا۔
ابّا سوچنے لگے۔ پھر بولے۔ ’’جیسا بھی ہے، ہے تو میری اولاد… اسے کوئی تکلیف پہنچے گی تو مجھے کب چین آئے گا۔‘‘
’’یہ گھر میں تو قید نہیں رہ سکتا۔ باہر جائے گا اور جب اس کے بندوں کی نظر اس پر پڑے گی تو وہ اسے اُٹھا کر لے جائیں گے۔‘‘ ابّا کی دُوسری بیوی نے بات آگے بڑھائی۔
ابّاجی کے ساتھ ساتھ میں بھی پریشان ہوگیا۔ یہ بات اٹل تھی کہ ریاض دندی اپنی کہی ہوئی بات ضرور پوری کرتا تھا۔ سارا محلّہ جانتا تھا کہ چار سال قبل اس نے اسی طرح ایک کو للکار کر کہا تھا اورجیسے ہی وہ چار سال کے بعد اسے دکھائی دیاتواس نے اسے پکڑ کر اپنا انتقام لیاتھا۔ میرا دل دھڑکنے لگا تھا۔ میں اور بھی خوفزدہ ہوگیا تھا۔
’’اب کیا کرنا ہے؟‘‘ ابّاجی کی تیسری بیوی نے ایک بار پھر دریافت کیا۔
’’کس کا کیا کرنا ہے؟‘‘ ابّاجی نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔
’’فیروز کا کیا کرنا ہے؟ ریاض دندی سے اسے کیسے بچانا ہے۔‘‘ ابّا کی تیسری بیوی نے اپنی بات کی وضاحت کی۔
’’میری بات مانیں اور اسے ابھی اس کے پاس لے جائیں، یہ اس کے پیروں میں گر کر معافی مانگ لے۔‘‘ ابّا کی دُوسری بیوی نے مجھے بچانے کی تجویز پیش کی تھی یا پکا پھنسانے کی بات کی تھی، یہ سمجھ نہیں سکا تھا۔
ابّاجی نے فوراً نفی میں گردن ہلائی۔ ’’بالکل نہیں… بالکل نہیں… اس کی کتاب میں معافی نہیں ہے۔‘‘
’’اس نے کوئی کتاب لکھی ہے؟‘‘ ابّا کی تیسری بیوی نے متحیر ہو کر فوراً سوال کیا۔
ابّاجی نے ان کی طرف مشکوک سی نگاہوں سے دیکھا اور بولے۔ ’’اب فیروز کو اس سے بچانا ہوگا۔ یہ اس کے سامنے نہیں جائے گا ورنہ وہ اسے نقصان پہنچائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔‘‘
’’کیسے بچائیں گے اسے۔ یہ لڑکی تو ہے نہیں کہ گھر میں بند رہے گا، یہ لڑکا ہے، دن میں ساٹھ، ستّر بار باہر نہ جائے تو اسے چین نہیں آتا اور آپ کہتے ہیں کہ اسے کسی طرح سے بچانا ہے۔‘‘ ابّاجی کی دُوسری بیوی نے غالباً میری شکایت کی تھی حالانکہ میں اتنا باہر جاتا نہیں تھا۔
’’تم سب جائو اور مجھے سوچنے دو۔‘‘ ابّاجی نے سوچتے ہوئے ہم سب کو جانے کا اشارہ کیا۔
’’کرتا کوئی ہے اور سوچتا میرا میاں ہے۔‘‘ ابّاجی کی تیسری بیوی نے مجھ پر جملہ کسا۔
’’سوچ سوچ کے ان کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی۔‘‘ ابّاجی کی دُوسری بیوی نے بھی ہمدردی کے بول بولے۔
’’میں پہلے کون سا پہلوان تھا۔ میری کون سی شہر بھر میں کشتیاں مشہور تھیں۔ میں شروع سے ہی ایسا تھا۔‘‘ ابّاجی نے جلدی سے کہا۔ ان کی دونوں بیویاں اپنے اپنے کمروںاور میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔
(جاری ہے)