’’مجھے امی کے گھر چھوڑ آئیں۔‘‘ چاندنی نے تیسرا حل بیان کیا۔
’’تم مجھے بے وقوف سمجھتی ہو؟ چار گھنٹے کا سفر طے کر کے تمہارے ماں، باپ کے گھر چھوڑ کر آئوں اور تم وہاں سے فرار ہوجائو۔ اس سے اچھا حل تو میرے پاس ہے۔‘‘ ادریس نے کہا۔
’’آپ کے پاس بھی کوئی حل ہے؟‘‘
’’بہترین حل یہ ہے کہ میں تمہیں اس کمرے میں بند کردوں اور باہر سے تالا لگا دوں۔‘‘ ادریس نے حل بیان کیا تو مجھے نہیں معلوم کہ چاندنی کے چہرے پر کیسے تاثرات آئے ہوں گے لیکن میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا کیونکہ اگر ادریس نے چاندنی کو کمرے میں بند کردیا تو میرے لیے مضبوط دروازہ توڑنا بہت مشکل ہوگا۔
مجھے چاندنی کی آواز سنائی۔ ’’خدا کے لیے ایسا نہ کریں، میرا دم گھٹ جائے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ بجلی بھی چلی جاتی ہے۔‘‘
’’میں چوکیدار سے کہہ دوں گا کہ جب بجلی چلی جائے تو وہ جنریٹر چلا دے۔ تمہیں میں جانے سے پہلے کمرے میں بند کرکے جائوں گا۔‘‘ ادریس نے دوٹوک انداز میں کہا۔
’’میں وعدہ کرتی ہوں کہ اس کے کمرے میں نہیں جائوں گی۔ پھر میں آپ کے کہنے پر اس کے کمرے میں گئی تھی۔ مجھے اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اس طوطے کی شکل والے کے پاس میرا ویسے بھی جانے کو دل نہیں چاہتا لیکن خدا کے لیے آپ مجھے کمرے میں قید کرکے مت جائیں۔‘‘ چاندنی کی منت سماجت جاری تھی اور میں متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں آئینہ تلاش کررہا تھا۔ میں فی الفور اپنی شکل آئینے میں دیکھنا چاہتا تھا اور یہ جاننا چاہتا تھا کہ میری شکل واقعی طوطے سے ملتی ہے؟
’’تم ابھی کچن میں جائو، کھانا تیار کرو۔ اپنا کھانا اس کمرے میں رکھو۔ اس کا کھانا میں اس کے کمرے میں پہنچا دوں گا۔ تب تک میں کچن کے دروازے کے پاس بیٹھا ہوں۔‘‘ ادریس بولا۔
’’خدا کے لیے میری بات مان لیں۔‘‘
’’خبردار! جو تم نے اب کوئی بات کی۔ چلو کمرے سے باہر نکلو اور کچن میں جائو۔ جلدی کرو۔‘‘ ادریس غرایا۔ چاندنی کی آواز بند ہوگئی۔ میں دروازے سے کان لگائے کھڑا تھا۔ مجھے پتا نہیں چلا کہ کب چاندنی نے دروازہ کھول دیا تھا۔ میں ساکت اسی طرح کھڑا تھا کہ میرے پیر پر کسی کا پیر پڑا تو میں نے چونک کر دیکھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ شکر یہ تھا کہ چاندنی نے دروازہ پورا نہیں کھولا تھا۔ ادریس مجھے نہیں دیکھ سکا تھا۔
میں جلدی سے بھاگ کر ستون کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ چاندنی باہر نکلی تو اس کے پیچھے ادریس بھی تھا۔ دونوں شاید کچن کی طرف چلے گئے تھے۔ میں بھاگ کر اپنے کمرے میں آگیا۔ میری سانس پھولی ہوئی تھی اور میں سوچ رہا تھا اگر اس نے چاندنی کو کمرے میں قید کردیا تو ہمارا فرار ہونا مشکل ہوجائے گا۔
٭…٭…٭
سوچتے سوچتے میرے دماغ میں اچانک ایک بات آئی۔ اس وقت گھر میں چاندنی اور ادریس ہیں۔ چوکیدار باہر گیٹ کے پاس ہے۔ اگر میں ادریس کو پکڑ کر باندھ دوں اور اس کے بعد چوکیدار پر قابو پا لیں تو ہم اس جگہ سے آسانی کے ساتھ فرار ہوسکتے ہیں۔
یہ خیال آتے ہی میں کچھ بے چین سا ہوگیا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں اپنے اس خیال پر عمل کرنے سے قبل ایک بار چاندنی کی بھی رائے لے لوں کہ ایسا کرنا مناسب ہے یا نہیں؟
چاندنی سے رائے لینا مشکل تھا۔ وہ یقیناً اس وقت کچن میں ہوگی۔ وسیع اور کشادہ گھر میں مجھے نہیں معلوم تھا کہ کچن کہاں ہے اور کچن کے باہر ادریس بھی موجود ہوگا اور اگر میں اپنی سوچ پر عمل کرلوں تو میرا نہیں خیال کہ اس میں کوئی حرج ہے۔ ہمارا مقصد اس جگہ سے نکلنا ہے۔ ادریس کے جانے کے بعد نکلیں یا اسے باندھ کر بھاگیں…ایک ہی بات ہے۔
میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے منصوبے پر عمل کروں گا۔ چنانچہ میں نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ میں بےفکری سے ادھر ادھر پھرنے لگا۔ مجھے کچن کی تلاش تھی۔ میں نے سوچا کہ اگر میرا سامنا ادریس سے ہوگیا تو میں صاف کہہ دوں گا کہ آپ نے کہا تھا اس گھر میں جہاں چاہو گھومو پھرو۔ کمرے میں بور ہورہا تھا اس لیے باہر آگیا۔
میں ابھی آگے بڑھا ہی تھا کہ مجھے چاندنی ایک کمرے سے باہر آتی دکھائی دی۔ اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا۔ چاندنی نے مجھے دائیں جانب اشارہ کیا۔ میں سمجھا وہ مجھے اس طرف آنے کا کہہ رہی ہے۔ میں ابھی اس طرف جانے ہی والا تھا کہ اس نے مجھے پھر اشارہ کیا اور بتایا کہ اس طرف ادریس بیٹھا ہوا ہے۔ میں وہیں رک گیا اور آہستہ سے بولا۔ ’’میں تم سے ایک مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
ہم دونوں کے درمیان کئی فٹ کا فاصلہ تھا۔ اتنے فاصلے سے میری آہستہ سے کہی ہوئی بات کیا خاک سنائی دیتی۔ چاندنی نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟
’’تم سے ایک مشورہ کرنا ہے۔‘‘ میں پھر اسی انداز میں بولا۔
اس نے ہاتھ ہلایا کہ اس کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آرہی۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا اور تیزی سے اس کے پاس پہنچ کر بولا۔ ’’میں تم سے ایک مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیا مشورہ کرنا ہے؟‘‘
’’میں اگر ادریس کے بچے کو قابو کرکے باندھ دوں تو…؟‘‘
’’تمہیں کسی نے غلط بتایا ہے، ادریس کا کوئی بچہ نہیں ہے۔‘‘ میری بات سن کر چاندنی بولی۔
’’میں ادریس کی بات کررہا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ تم ادریس پر قابو پا کر…‘‘ ابھی چاندنی نے اتنا ہی کہا تھا کہ ادریس کی تیز آواز آئی۔
’’کہاں رک گئی ہو… تمہاری ہنڈیا جلنے لگی ہے۔ جلدی آئو۔‘‘
ادریس کی بات سن کر چاندنی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ میری بات کا جواب دے یا پھر کچن کی طرف دوڑ لگا دے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی فیصلہ کرتی، ایک بار پھر ادریس کی آواز آئی۔ ’’کہاں ہو… جلدی آئو۔‘‘
چاندنی نے مجھے اشارہ کیا کہ میں یہیں رکوں اور وہ کچن کی طرف بھاگی۔ میں کچھ آگے جاکر ایک ستون کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔
’’کہاں چلی گئی تھیں۔‘‘
’’آہی رہی تھی۔‘‘
’’تم کب آرہی تھیں۔ میں نے تمہیں آوازیں دے کر بلایا ہے۔‘‘ ادریس غصے میں بولا۔
’’اب میرے پیروں میں انجن تو فٹ نہیں ہے کہ اڑتی ہوئی آجائوں۔‘‘
’’تمہیں کچھ زیادہ ہی باتیں بنانا آگئی ہیں۔‘‘
اس کے بعد چاندنی کی آواز نہیں آئی۔ وہ شاید کچن میں داخل ہوگئی تھی۔ میں وہیں کھڑا رہا۔ مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔ میں آہستہ سے آگے بڑھا تو مجھے کچن کے دروازے کے پاس ادریس کھڑا دکھائی دیا۔ اس کا چہرہ دوسری طرف تھا اور میں اسے آسانی سے قابو میں کرسکتا تھا۔ میں نے دائیں بائیں دیکھ کر تسلی کی کہ کوئی مجھے دیکھ تو نہیں رہا۔ پھر دھیرے دھیرے ایسے ادریس کی طرف بڑھا جیسے بلی بے خبر چوہے کی طرف بڑھتی ہے۔
اچانک وہ بولا۔ ’’سوچ رہا ہوں پرسوں تم سے شادی کرلوں۔ ان لوگوں کے تو کام ختم نہیں ہوں گے۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے سالن میں نمک زیادہ پڑ گیا ہے۔‘‘ چاندنی کی پریشان سی آواز آئی۔
’’بھاڑ میں جائو… نمک زیادہ ہو یا کم، مجھے کیا… میں نے یہ کھانا نہیں کھانا۔ تم دونوں نے کھانا ہے۔‘‘ ادریس نے بگڑ کر کہا۔
’’زیادہ نمک والا کھانا مجھ سے کھایا نہیں جائے گا۔ میرا بلڈپریشر بڑھ سکتا ہے۔ آپ میرے لیے بازار سے کھانا لے آئیں۔‘‘ چاندنی کے کہنے کا انداز بڑا رومانٹک تھا۔ ایسا لہجہ سن کر ادریس کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔
اس نے چاندنی کی طرف پیار بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم مجھ سے پیار سے بات کرو گی تو آسمان سے تارے توڑ کر تمہارے قدموں میں ڈال دوں گا۔‘‘
’’میرے لیے ایک بریانی کی پلیٹ لے آئیں۔‘‘ چاندنی نے
کہا۔
ادریس کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اس نے نادانستہ پیچھے مڑ کر دیکھ لیا۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی وہ اچھل کر پیچھے ہوتے ہوئے بولا۔ ’’تم یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘
’’ایسے ہی ٹہل رہا تھا۔‘‘
’’یہ ٹہلنے کی جگہ ہے۔‘‘
’’کمرے میں بور ہورہا تھا تو باہر آگیا۔‘‘
’’تم فوراً کمرے میں جائو ورنہ۔‘‘ اس سے پہلے کہ ادریس اپنا جملہ مکمل کرتا، میرا ہاتھ گھوما اور اس کے منہ پر اس قوت سے پڑا کہ وہ حواس باختہ ہوکر دیوار سے ٹکرایا اور پھر فرش پر گر گیا۔ وہ بے ہوش ہوچکا تھا۔ چاندنی پریشانی کے عالم میں باہر نکلی۔ اس نے ایک نظر بے ہوش ادریس کی طرف دیکھا اور مجھ سے پوچھا۔ ’’یہ کیا کیا تم نے؟‘‘
’’میں نے اس کے منہ پر مکا مارا ہے۔‘‘
’’تم نے اسے کیوں مارا ہے؟‘‘
’’اب یہ بے ہوش ہوچکا ہے۔ میں اس کے ہاتھ، پیر باندھ دوں گا۔ اسے کمرے میں بند کرکے ہم فرار ہوجائیں گے۔‘‘ میں نے اسے بے ہوش کرنے کا مقصد بیان کیا۔
میری بات سن کر چاندنی نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور پریشانی کے عالم میں بولی۔ ’’یہ تم نے کیا کردیا… تم نے بہت غلط کردیا ہے۔‘‘
’’میں نے کیا غلط کردیا ہے بلکہ اچھا کیا ہے۔ اب ہم آسانی سے فرار ہوجائیں گے۔ بس چوکیدار کو قابو کرنا ہوگا۔‘‘
’’تم نے غلط کیا ہے۔ ابھی اسے لینے کے لیے عاجز بھائیوں کی گاڑی آجائے گی۔ جب ان کی گاڑی لینے آئے گی تو چوکیدار بلائے گا۔ جب یہ کوئی جواب نہیں دے گا تو چوکیدار اندر آجائے گا۔ وہ جانتا ہے کہ اس گھر میں ہم تین ہیں۔ جب چوکیدار کو یہ نہیں ملے گا تو وہ مجھ سے پوچھے گا۔ جب ہم سے کوئی جواب نہیں بنے گا تو وہ ان آدمیوں کو اندر بلا لے گا۔ وہ نہیں جانتے کہ میں یہاں رہتی ہوں۔ میں ان کی نظر میں آجائوں گی اور اس سے بھی بڑی آفت میں پھنس جائوں گی۔‘‘
’’جب چوکیدار اندر آئے گا تو میں اسے بھی بے ہوش کردوں گا۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’تم چوکیدار کو بے ہوش کردو گے۔ جب چوکیدار باہرنہیں جائے گا تو وہ لوگ اندر آجائیں گے۔ اس کے بعد کیا ہوگا…؟ وہ مجھے لے جائیں گے۔ میری جان ادریس سے چھوٹ جائے گی اور ان مگرمچھوں میں پھنس جائے گی۔‘‘
چاندنی کی بات سن کر میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ ایسا کرنے کی وجہ سے مزید الجھن بڑھ گئی ہے۔ اس طرح چاندنی کی زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
’’تم ایسا کرو ایک جگ پانی کا لے کر آئو۔‘‘ میں سوچتے ہوئے بولا۔
’’مجھے معلوم تھا کہ میری بات سن کر تمہارا گلا خشک ہوجائے گا۔‘‘ چاندنی نے کہا۔
’’میں پانی پینے کے لیے نہیں مانگ رہا۔‘‘
’’تو پھر کیوں مانگ رہے ہو؟‘‘ چاندنی نے میری طرف حیرت سےدیکھا، جیسے اسے شک ہو کہ میں نادم ہوکر بھرے جگ پانی میں ڈوب جانا چاہتا ہوں۔
’’میں پانی سے بھرا جگ اس کے منہ پر انڈیل کر اسے ہوش میں لائوں گا اور اس سے اپنے کئے کی معافی مانگ لوں گا اور اس کے بعد ہم اس منصوبے پر عمل کریں گے جو تم نے مجھے بتایا تھا یعنی جب سب لوگ چلے جائیں گے تو ہم رات کو فرار ہوجائیں گے۔‘‘ میں نے اسے بتایا۔
میری بات سن کر چاندنی نے میری طرف ایسی مشکوک نظروں سے دیکھا جیسے وہ اندازہ لگا رہی ہو کہ میں ذہنی طور پر نارمل ہوں یا بہک گیا ہوں۔ وہ بولی۔ ’’جب تم اسے ہوش میں لائو گے اور اس سے معافی مانگو گے تو یہ تمہیں معاف کردے گا؟‘‘
’’اسے معاف کردینا چاہئے۔‘‘
’’مجھے تم عقل سے پیدل لگتے ہو۔ ہوش میں آتے ہی یہ تمہارا تو گلا پکڑے گا ہی مجھے بھی سولی پر لٹکا دے گا۔‘‘ چاندنی نے تیز لہجے میں کہا۔
’’اب تم ہی کہو میں کیا کروں؟ بے ہوش کیا تو تم نے ایسی باتیں کیں کہ میں اسے بے ہوش کرکے پریشان ہوگیا۔ ہوش میں لانے کی بات کی تو تم کہہ رہی ہو کہ میں عقل سے پیدل ہوں۔‘‘ میں زچ ہوکر بولا۔
’’تم کچھ مت کرو، ایک طرف بیٹھ جائو۔ تم نے اسے بے ہوش کرکے میرے لیے مصیبت کھڑی کردی ہے۔ ابھی وہ لوگ آتے ہوں گے۔ وہ مجھے ڈھونڈ نکالیں گے اور اپنے ساتھ لے جائیں گے۔‘‘ چاندنی پریشان تھی۔
میں بیچ میں پھنس گیا تھا۔ ایک طرف کھڑا ہوکر سوچنے لگا۔ ادریس ایسے بے ہوش پڑا تھا جیسے مزے کی نیند لے رہا ہو۔ میں نے ایک نظر پریشان چاندنی کی طرف دیکھا اور اس کے پاس جاکر بولا۔ ’’چاندنی تم فکر مت کرو، میں تمہارا اپنی جان پر کھیل کر تحفظ کروں گا۔ تمہیں میرے ہوتے ہوئے کوئی فکر نہیں کرنی چاہئے۔‘‘
میرے لہجے میں ایسی مضبوطی تھی کہ چاندنی میری طرف دیکھنے پر مجبور ہوگئی۔ اس نے پوچھا۔ ’’تم کیا کرو گے؟‘‘
’’میں تمہیں اس جگہ سے فرار کرا کے ہی دم لوں گا۔‘‘ میں نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی۔
چاندنی سوچنے لگی۔ میں اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ وہ واقعی سخت پریشان ہوگئی تھی۔ اس کی بات سچ تھی، ادریس نے ان لوگوں سے چاندنی کو چھپایا ہوا تھا۔ اب اچانک وہ ان کے سامنے آجاتی تو وہ جانے اس کا کیا حشر کرتے۔ جو کچھ بھی ہوا تھا، میری وجہ سے ہوا تھا اور اب مجھے ہی معاملہ ٹھیک کرنا تھا۔
چاندنی نے ایک دم کہا۔ ’’اسے ٹانگ سے پکڑ کر کھینچو اور اس سامنے والے کمرے میں لے جائو۔‘‘
میں نے ادریس کی ٹانگ پکڑی اور اسے کھینچتا ہوا سامنے والے کمرے میں لے گیا۔ میرے ساتھ چاندنی بھی تھی۔ وہ ایک کشادہ کمرا تھا۔ اس کمرے میں ایک بیڈ تھا اور کچھ ضرورت کا دوسرا سامان قرینے سے رکھا ہوا تھا۔
چاندنی نے الماری کھول کر اندر سے درجن بھر ٹائیاں نکال کر بیڈ پر رکھیں اور مجھ سے بولی۔ ’’اسے ان ٹائیوں سے باندھ دو۔‘‘
میں نے ٹائیوں سے ادریس کے ہاتھ، پیر اچھی طرح باندھ دیئے۔ چاندنی نے ادریس کا منہ کپڑے سے باندھ دیا۔ اب وہ ہوش میں آنے کے بعد چیخ چلا نہیں سکتا تھا۔
’’تم یہیں رکو، میں ابھی باہر کا جائزہ لے کر آتی ہوں۔‘‘
’’جلدی آنا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تمہیں ڈر لگ رہا ہے؟‘‘ چاندنی نے مجھے گھورا۔
’’میرا مطلب ہے کہ تم اگر دیر سے آئیں تو مجھے پریشانی ہوگی۔‘‘ میں نے اپنی بات کی وضاحت کی۔
’’تم اس کمرے سے باہر نہیں آئو گے، یہ بات یاد رکھنا۔‘‘ چاندنی نے مجھے تاکید کی، بالکل ایسے جیسے اس کے سامنے کوئی پانچ سال کا بچہ کھڑا ہو۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
چاندنی نے دروازہ کھول کر پہلے باہر جھانکا اور اس کے بعد وہ باہر نکل گئی۔ باہر جاتے ہی اس نے دروازہ بند کردیا۔ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ ادریس کے جسم میں حرکت ہونے لگی۔ میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر اس کا جسم ہلتا رہا اور پھر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ آنکھیں کھول کر اس نے دائیں بائیں دیکھا اور جونہی اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو اسے احساس ہوگیا کہ اس کے ہاتھ، پیر بندھے ہیں۔ پھر کچھ کہنے کے لیے اس نے زور لگایا لیکن اس کے منہ سے کوئی آواز نہیں نکلی۔ اچانک اس کی نظر مجھ پر پڑی وہ حیرت سے دیکھنے لگا۔
میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے پاس چلا گیا۔ وہ اپنے جسم کو تیزی سے حرکت دینے لگا۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور بولا۔ ’’میں ایسا کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن مجبوری تھی۔ مجھےایسا کرنا پڑا۔ تم نے بھی تو مجھے دھوکا دیا تھا۔ تم عاجز برادران کے خاص آدمی ہو اور مجھے ایک جھوٹی کہانی سنا کر ڈراتے رہے۔‘‘
میری بات سن کر ادریس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ میرے منہ سے حقیقت سن کر اسے حیرت ہونے لگی۔ ممکن ہے کہ وہ یہ سوچ رہا ہو کہ مجھے اس حقیقت کا کیسے پتا چلا؟
’’اب میں یہاں سے فرار ہونا چاہتا ہوں۔ اس لیے تم کو بے ہوش کرنا پڑا۔ تمہیں ہوش آگیا تو بتا دیا تاکہ تمہارے دل میں کوئی کسک نہ رہے۔‘‘ میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
اسی اثنا میں دروازہ کھلا، چاندنی کا چہرہ نمودار ہوا اور اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔ ’’چوکیدار اندر ہے، باہر مت
وہ اتنا کہہ کر واپس چلی گئی۔ ظاہر ہے یہ بات ادریس نے بھی سن لی تھی لیکن وہ محض دیکھنے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتا تھا۔
مجھے تجسس ہورہا تھا۔ میں نے چاندنی کی تاکید کو ایک طرف رکھا اور دروازے کے پاس چلا گیا۔ میں نے کچھ سننے کی کوشش کی اور پھر ذرا سا دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔ سامنے چوکیدار اور چاندنی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔ چوکیدار کہہ رہا تھا۔ ’’باہر وہ انتظار کررہے ہیں۔‘‘
’’اب اتنا بڑا گھر ہے، مجھے کیا پتا ہے کہ وہ کس کمرے میں ہیں۔ میں تو کچن میں تھی۔‘‘ چاندنی بولی۔
’’اب میں انہیں کیا جواب دوں؟‘‘
’’ہوسکتا ہے کہ وہ ڈیرے کی طرف اکیلے ہی چلے گئے ہوں۔‘‘ چاندنی نے کہا۔
اچانک چوکیدار کی نظر عین اس طرف اُٹھی جہاں میں ذرا سا دروازہ کھولے انہیں دیکھ رہا تھا۔ میں نے ایک دم دروازہ بند کردیا اور خود دروازے کے بالکل پیچھے کھڑا ہوگیا۔
مجھے چوکیدار کی آواز سنائی دی۔ ’’اس کمرے میں کون ہے؟‘‘
’’کون ہے اس کمرے میں؟‘‘ چاندنی نے جواب دینے کی بجائے سوال کیا۔
’’کوئی ہے ضرور۔ ابھی اس نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے دروازہ بند کیا ہے۔‘‘
’’اس کمرے میں کوئی نہیں ہے، تم کو غلط فہمی ہوئی ہوگی۔‘‘
’’چالیس سال سے اس پیشے میں ہوں، میری نظر عقاب سے زیادہ تیز ہے۔ اس کمرے میں کوئی ہے جو دروازے میں کھڑا ہماری باتیں سن رہا تھا۔‘‘
مجھ سے ایک بار پھر غلطی ہوگئی تھی۔ چاندنی مجھے تاکید کرکے گئی تھی لیکن میں اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر دروازے پر جا کھڑا ہوا تھا اور اس کی تیز نظروں نے مجھے دیکھ لیا تھا۔
مجھے یقین تھا کہ چوکیدار اس کمرے میں ضرور آئے گا اور اگر کسی طرح چاندنی اسے روکنے میں کامیاب ہوگئی تو پھر شاید وہ اندر نہ آئے۔ میں نے جلدی سے ادریس کو کھینچ کر بیڈ کے پیچھے کردیا۔ اب کوئی دروازے میں کھڑا ہوکر کم ازکم ادریس کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔
میں نے پتھر کا گلدان اٹھایا اور دروازے کے پیچھے کھڑا ہوگیا تاکہ بوقت ضرورت اپنے بچائو کے لیے اس گلدان سے اس کے سر پر چوٹ لگا کر اپنا تحفظ کرسکوں۔
میں دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا اور میرے ہاتھ میں گلدان تھا۔ میں کسی بھی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ دروازہ کھلا اور ساتھ ہی مجھے چاندنی کی آواز سنائی دی۔
’’میں اسی کمرے سے نکل کر آئی تھی، اس کمرے میں میرے سوا کوئی نہیں تھا۔‘‘
’’دیکھوں گا تو دل کو تسلی ہوگی۔‘‘ اتنا کہہ کر چوکیدار اندر آگیا اور متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ چاندنی بھی اس کے پیچھے سے نکل کر کمرے میں آگئی۔ چاندنی نے پہلے فرش کی طرف دیکھا جہاں ادریس لیٹا ہوا تھا پھر اس کی نگاہ مجھ پر پڑی تو اس نے مجھے گھور کر دیکھا جس کا مطلب تھا کہ وہ جان گئی تھی کہ میں دروازے میں کھڑا تھا اور میرے کھڑا ہونے کی وجہ سے وہ کمرے تک آگیا۔ اب اگر کچھ ہوا تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی۔
’’میں نے کہا تھا کہ کمرے میں کوئی نہیں ہے۔‘‘
’’کوئی تھا جو اس دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ جونہی میری نظر پڑی تو اس نے دروازہ بند کردیا تھا۔‘‘
’’تمہارا وہم ہوگا۔‘‘
’’مجھے کبھی وہم نہیں ہوا۔‘‘ اس نے ایک بار پھر کمرے میں اپنی نظر گھمائی۔ اچانک ’’غوں غوں‘‘ کی آواز شروع ہوگئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کمرے میں کوئی جانور گھس آیا ہو لیکن یہ آواز ادریس کی تھی جس کے منہ میں کپڑا ٹھنسا تھا۔ وہ کپڑے کے ہوتے ہوئے بھی ’’غوں غوؒں‘‘ کی آواز نکالنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ میرے ساتھ ساتھ چاندنی بھی چونک گئی۔
چوکیدار نے حیرت سے آواز کی سمت دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کیسی آواز ہے؟‘‘
اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے قدم آگے بڑھائے اور جونہی اس نے ادریس کو فرش پر بندھا ہوا دیکھا تو وہ حیرت زدہ لہجے میں بولا۔ ’’انہیں کس نے باندھا ہے؟‘‘
’’کس کو کس نے باندھا ہے؟‘‘ چاندنی انجان بنتی ہوئی آگے بڑھی اور پھر ادریس کو بندھے دیکھ کر یوں چونکی جیسے واقعی اس کے علم میں ابھی یہ بات آئی ہو۔ اس نے پوچھا۔ ’’انہیں کس نے باندھا ہے؟‘‘
’’ایک منٹ میں ان کا منہ کھولتا ہوں۔ تبھی یہ کچھ بتا سکیں گے۔‘‘ چوکیدار جونہی منہ کھولنے کے لیے جھکا، میرے پاس اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں چوکیدار کو بے ہوش کرکے ادریس کی طرح باندھ دوں ورنہ اس جگہ جو ہنگامہ ہونا تھا، وہ تو ہونا ہی تھا ساتھ ہماری زندگی بھی اجیرن ہوجاتی۔
میں نے گلدان والا ہاتھ بلند کیا اور پوری قوت سے چوکیدار کے سر پر مارا۔ چوکیدار کے منہ سے ایک عجیب سی آواز نکلی اور وہ بے ہوش ہوکر ادریس کے اوپر گر گیا۔
’’تم میرے لیے ہر لمحہ نئی مصیبت کھڑی کررہے ہو اور یہ تم ایسے کررہے ہو جیسے کوئی نیکی کا کام کررہے ہو۔‘‘ چوکیدار کے بے ہوش ہوتے چاندنی پھٹ پڑی۔
’’اب میں کیا کروں، حالات ہی ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ مجھے انہیں بے ہوش کرنا پڑتا ہے۔‘‘ میں بولا۔
’’جب میں تمہیں تاکید کرکے گئی تھی کہ باہر مت نکلنا تو تم کیوں دروازے تک آئے؟‘‘ چاندنی نے کہا۔
’’میں کمرے سے باہر نہیں نکلا تھا۔ میں صرف دروازے میں کھڑا تم دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔‘‘
’’تمہاری اس حرکت سے اسے شک ہوگیا۔ اب یہ بے ہوش ہوگیا ہے۔ باہر جو دو آدمی آئے ہوئے ہیں، ان کے پاس جب چوکیدار نہیں جائے گا تو پھر جانتے ہو کیا ہوگا؟‘‘ چاندنی بولی۔
’’کیا ہوگا؟‘‘ میں نے معصومیت سے پوچھا۔
’’انہیں شک ہوگا تو وہ مزید آدمیوں کو بلا کر اس گھر میں اس طرح داخل ہوں گے جیسے یہاں دہشت گرد چھپے ہوں۔ اس کے بعد وہ ہم دونوں کو تلاش کرلیں گے پھر میری زندگی جس طرح برباد ہوگی، اس کا تمہیں اندازہ نہیں ہے۔‘‘
’’میں نے تم سے وعدہ کیا ہے کہ تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ میں نے اسے ایک بار پھر تسلی دینے کی کوشش کی۔
’’تم کیا کرسکتے ہو…؟ جب ان کے آدمی ہمارے ساتھ ادریس اور چوکیدار کو بھی تلاش کرلیں گے اور پھر جب ادریس منہ کھولے گا تو بہت برا ہوگا۔‘‘ چاندنی کہتی ہوئی ناچار ایک طرف بیٹھ گئی۔ پھر ایک دم اسے کچھ یاد آیا اور وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔ ’’تم چوکیدار کو بھی اسی طرح باندھ دو اور میں جاکر دیکھتی ہوں کہ باہر کھڑے لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے تم جائو، میں اسے باندھ دیتا ہوں۔‘‘ میں ٹائیوں کی طرف بڑھا۔ ابھی چاندنی نے دروازہ کھولا ہی تھا، میں نے پوچھا۔ ’’اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ اسے باندھ کر میں باہر آسکتا ہوں یا کمرے میں ہی رہوں۔‘‘
’’جب تک میں نہ آئوں، تم یہیں رہنا۔‘‘
’’جلدی آجانا۔‘‘
’’تم نے مجھ سے کہانی سننی ہے۔‘‘ چاندنی زچ ہوگئی۔ میں چپ رہا اور وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
میں نے چوکیدار کو ٹائیوں کے ذریعے اچھی طرح باندھا اور اسے فرش پر ایک طرف ڈال کر کرسی پر بیٹھ کر اپنی سانس درست کرنے لگا۔ میں سوچنے لگا کہ ہم دونوں چاہتے تھے کہ کام صحیح ہو لیکن ہمارا ہر کام غلط ہورہا تھا۔ ہم نے اس گھر سے فرار ہونے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے برعکس ہم ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل میں پھنس رہے تھے اور اب آگے کیا ہونے والا تھا، اس بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔
میں چاندنی کا انتظار کررہا تھا۔ اس کے آنے سے ہی باہر کی صورتحال کا پتا چل سکتا تھا۔ میرے اندر کی بے چینی یکدم دوچند ہوگئی تھی۔ پتا نہیں کیا وجہ تھی کہ میں زیادہ انتظار نہیں کرسکتا تھا۔ اب جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا، میری مضطرب کیفیت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
جب کافی دیر تک چاندنی نہیں آئی تو میں نے اٹھ کر آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر جھانکا۔ باہر ایسا سناٹا تھا جیسے اس گھر میں میرے سوا کوئی اور نہ ہو۔ میں نے متلاشی
نگاہوں سے چاندنی کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ کہیں دکھائی نہیں دی۔ مجھے تشویش ہونے لگی کہ چاندنی کہاں چلی گئی۔ کہیں وہ لوگ اندر تو نہیں آگئے تھے اور چاندنی کو اپنے ساتھ لے گئے ہوں۔
میں آہستہ آہستہ باہر نکل کر آگے بڑھنے لگا۔ میں اسے آواز بھی نہیں دے سکتا تھا۔ اچانک چاندنی ایک طرف سے بھاگتی ہوئی میری طرف بڑھی اور جونہی اس نے مجھے دیکھا، میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچتی ہوئی ایک طرف لے گئی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
وہ اپنی پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بولی۔ ’’میں ابھی گیٹ کے ساتھ کان لگا کر ان کی باتیں سن کر آرہی ہوں۔‘‘
’’کن کی باتیں سن کر آرہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ دو آدمی ہیں جو ادریس کو لینے آئے تھے۔ چوکیدار کے واپس نہ آنے پر دونوں پریشان تھے۔ انہوں نے بار بار بیل دی، اس کے بعد انہوں نے فون کرکے ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور پھر وہ آپس میں باتیں کرنے لگے۔‘‘
’’کیا باتیں کرنے لگے؟‘‘
’’جس نے فون کیا تھا، وہ دوسرے کو بتا رہا تھا کچھ اور آدمی آرہے ہیں۔ پھر ہم دیوار کود کر اندر جائیں گے اور دیکھیں گے معاملہ کیا ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ اندر آنے والے ہیں۔ اب ہم کیا کریں؟‘‘ میں پریشان ہوکر بولا۔
’’اس سے پہلے کہ وہ لوگ اس گھر کے اندر داخل ہوں، ہمیں یہاں سے جانا ہوگا ورنہ بہت برا ہوگا۔‘‘ چاندنی نے پریشان ہوکر کہا۔
’’یہاں سے باہر نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’واحد راستہ گیٹ ہی ہے۔ اگر ہم دیوار پھلانگ کر بھی جانا چاہیں گے تو اسی طرف سے جائیں گے کیونکہ اس گھر کی دائیں بائیں اور پیچھے کی دیواریں دوسرے مکانوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔‘‘ چاندنی کے لہجے میں اداسی آگئی تھی۔
میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ میں اسے کچھ نہیں ہونے دوں گا لیکن اب اس گھر سے فرار کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔ میں دائیں بائیں دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیا کروں۔ چاندنی ایک طرف اداس کھڑی تھی جیسے اس انتظار میں ہو کہ وہ لوگ آئیں اور اسے اپنے ساتھ لے جائیں۔ شاید وہ مایوس ہوگئی تھی۔
اچانک میں نے دیکھا باہر سے ایک سیڑھی اندر کی طرف آئی۔
سیڑھی کو دیکھ کر میں ایک دم گھبرا گیا۔ صاف ظاہر تھا کہ باہر کھڑے لوگ اندر آنے کے لیے اپنے ساتھ سیڑھی لے کر آئے تھے۔ میں نے چاندنی کی توجہ اس جانب کراتے ہوئے کہا۔ ’’وہ لوگ اندر آرہے ہیں۔‘‘
چاندنی نے دیکھا تو وہ مجھ سے زیادہ پریشان ہوگئی۔ وہ بولی۔ ’’اوہ خدایا… اس سے پہلے کہ وہ اندر آکر مجھے دیکھیں، اس جگہ سے نکلنے کا سوچو۔‘‘
’’مجھے کیا پتا کہ ہم یہاں سے کیسے باہر نکل سکتے ہیں۔ تم مجھ سے پہلے کی یہاں رہ رہی ہو، تمہیں کوئی راستہ معلوم ہوگا۔‘‘ میں نے کہا۔
چاندنی مضطرب ہوکر سوچنے لگی اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف تیزی سے قدم اٹھاتی بولی۔ ’’جلدی میرے ساتھ آئو۔‘‘
میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ وہ راہداری سے گزر کر ایک برآمدے میں گئی۔ وہاں سے سیڑھی اوپر کی طرف جاتی تھی۔ اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا تھا اور برق رفتاری سے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ وہ سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی اوپر جارہی تھی۔ میں اس کے پیچھے چھت پر پہنچ گیا۔ کشادہ چھت تھی۔ چاندنی اوپر آکر رکی نہیں تھی۔ اس نے بھاگتے ہوئے ایک جست لگائی اور سامنے کی دیوار پر چڑھ گئی۔ اس کے پیچھے مجھے بھی ویسی ہی پھرتی کا مظاہرہ کرنا پڑا اور جونہی وہ ساتھ والے گھر کی چھت پر کودی، میں نے بھی ایسا ہی کیا۔
اس گھر کی چھت سے ہم تیسرے مکان کی چھت پر پہنچ گئے۔ وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھی اور پھر ہم سیڑھیاں اترنے لگے۔ میں سوچ رہا تھا اس گھر کے مکین اگر ہمیں سیڑھیاں اترتے ہوئے دیکھ لیں گے تو ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ نیچے جاکر مجھے پتا چلا کہ وہ مکان خالی ہے۔
چاندنی نے ایک کمرے میں پہنچ کر باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کو تھوڑا سا کھولا اور باہر جھانکنے لگی۔ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئی۔ وہ بولی۔ ’’باہر ایک کار کھڑی ہے اور اس کے پاس کوئی نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ سب اندر چلے گئے ہیں۔ اب تم نے پھرتی دکھانی ہے اور بھاگ کر اس کار میں سوار ہونا ہے اور اس کار میں بیٹھ کر ہمیں فرار ہونا ہے۔‘‘
’’ہم کار میں ایک ہی صورت میں فرار ہوسکیں گے اگر کار کی چابی اندر لگی ہوئی ہوگی۔‘‘ میں بولا۔
’’مجھے نوے فیصد یقین ہے کہ کار کی چابی اندر لگی ہوئی ہوگی۔‘‘
’’تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو؟‘‘
’’ٹاک شو کرنے کی بجائے جو میں نے کہا ہے وہ کرو۔ وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں ہے اور ہاں میری بات یاد رکھنا اگر اس کے اندر چابی نہ ہوئی تو ہم اسی تیزی سے پلٹ کر واپس بھاگیں گے۔ کار کی طرف جانے کا رسک اس لیے لے رہی ہوں کہ اس میں فرار ہونا ہمارے لیے آسان ہوگا ورنہ نجانے ان کا کوئی آدمی کس طرف سے نکل آئے۔‘‘ اتنا کہہ کر چاندنی نے دروازہ کھولا اور باہر کا جائزہ لیا۔ پھر مجھے اشارے سے بتایا کہ گلی میں کوئی نہیں ہے اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔
چاندنی آگے تھی اور میں پیچھے۔ وہ بھاگتی ہوئی ڈرائیور کی ساتھ والی سیٹ کے دروازے کی طرف بڑھی اور میں ڈرائیونگ سیٹ کی طرف… جونہی ہم کار کے پاس پہنچے، دونوں ہی چونک پڑے کیونکہ ڈرائیونگ سیٹ پر ایک آدمی بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ اس آدمی نے اچانک میری طرف دیکھا اور میں نے اس کی طرف دیکھ کر سوالیہ نگاہیں چاندنی کی طرف مرکوز کردیں۔ میں اس سے پوچھ رہا تھا کہ اب کیا کروں؟
چاندنی نے اپنی سیٹ سنبھالتے ہوئے کہا۔ ’’اسے باہر نکال پھینکو۔‘‘
میں نے حکم سنتے ہی کسی روبوٹ کی طرح دروازہ کھولا اور اس آدمی کو گریبان سے پکڑ کر باہر کھینچا اور پوری قوت سے ایک طرف دھکا دے دیا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا دور جاگرا۔ میں نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی، گاڑی اسٹارٹ کی اور اسے تیزی سے آگے بڑھا کر موڑی اور تیزی سے آگے بڑھا دی۔
گلیوں میں گاڑی چلانا مشکل تھا لیکن میں اسے سڑک تک لے آیا۔ اب ہماری گاڑی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ چاندنی بار بار گردن گھما کر عقب میں دیکھ رہی تھی۔ وہ بولی۔ ’’گاڑی تیز رفتاری مگر دھیان سے چلاتے رہو۔‘‘
میری توجہ گاڑی چلانے پر تھی۔ چاندنی بولی۔ ’’مجھے لگتا ہے ایک سرخ کار ہمارے پیچھے آرہی ہے۔ جب تم نے چوک پر گاڑی ایک طرف موڑی تھی تو وہ سرخ کار وہاں کھڑی تھی۔‘‘
’’اب کیا کریں؟‘‘
’’تم گاڑی چلاتے رہو۔ میں دیکھتی ہوں کہ واقعی وہ گاڑی ہمارے تعاقب میں ہے۔‘‘ چاندنی نے مجھے ہدایت کی اور پھر اپنی نگاہیں پیچھے مرکوز کردیں۔
میں گاڑی سڑک پر دوڑا رہا تھا۔ کئی گاڑیوں کو مجھے اوورٹیک کرنا پڑا تھا۔ چاندنی نے کہا۔ ’’میرا شک درست ہے۔ وہ کار ہمارے تعاقب میں ہے۔ جس طرح بھی ممکن ہو، اس سے پیچھا چھڑائو ورنہ ہم پکڑے جائیں گے۔‘‘
’’مجھے بتائو جانا کہاں ہے؟‘‘
’’فی الحال تم گاڑی دوڑاتے رہو اور اس سے پیچھا چھڑائو۔‘‘ چاندنی بولی۔ وہ مسلسل پیچھے دیکھ رہی تھی۔
میں نے بھی بیک مرر سے پیچھے دیکھا۔ واقعی سرخ کار ہمارا تعاقب کررہی تھی۔ میں گاڑی کو مختلف سڑکوں پر دوڑاتا رہا۔ وہ سرخ کار مستقل ہمارے پیچھے تھی۔ میں نے گاڑی اچانک ایک ذیلی سڑک کی طرف موڑ دی۔
وہ کشادہ سڑک تھی۔ اس سڑک کے ایک طرف میرج ہال تھا، باہر گاڑیوں کی قطار تھی۔ اس قطار میں مجھے ایک جگہ خالی نظر آئی تو میں نے گاڑی وہاں کھڑی کردی۔ عین اس وقت ایک جیپ آکر ہماری گاڑی کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔ میں نے دیکھا کہ وہ سرخ کار اس جگہ سے آگے گزر گئی تھی۔
’’وہ آگے نکل گئے ہیں، اب گاڑی جلدی سے نکال کر واپس لے چلو۔‘‘ چاندنی نے مجھے فوراً ہدایت کی۔
ہماری گاڑی کے پیچھے جیپ کھڑی تھی۔ وہ تب تک ہمیں اچھی لگی
سرخ کار اس جگہ سے گزر نہیں گئی کیونکہ وہ جیپ ہماری گاڑی کے آگے ڈھال بن گئی تھی اور اب ہمیں وہ زہر لگ رہی تھی کیونکہ ہمیں فوری طور پر یہاں سے نکلنا تھا۔ میں نے پہلے تو ہارن دیا۔ جب اس جیپ والے نے اس پر توجہ نہیں دی تو مجھے مجبوراً گاڑی سے باہر نکل کر جیپ کی طرف جانا پڑا۔ جیپ خالی تھی۔ میں نے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا حالانکہ میرا اس طرح دیکھنا بالکل فضول تھا کیونکہ میں یہ جانتا ہی نہیں تھا کہ جیپ کس کی تھی۔ مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ عاجز برادران کے لوگ مجھے دیکھ نہ لیں، ان کی کار واپس نہ آجائے۔ اس دوران مجھے ایک آدمی جیپ کی طرف آتا دکھائی دیا جو کون آئسکریم کھاتا چلا آرہا تھا۔
میں اسے دیکھتے ہی بولا۔ ’’یہ جیپ آپ کی ہے؟‘‘
’’ہاں میری ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’اسے ہٹائو، میں نے اپنی کار نکالنی ہے، جلدی کرو۔‘‘ میرا لہجہ نادانستہ تحکمانہ ہوگیا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور منہ بنا کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ مجھے لگا جیسے اسے میرا لہجہ پسند نہیں آیا تھا۔ میں مضطرب تھا اور میری نگاہیں بار بار اس طرف اٹھ رہی تھیں جدھر وہ سرخ کار گئی تھی۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں وہ کار واپس نہ آجائے۔ اس چٹورے آدمی نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر کون آئسکریم کو تھوڑا تھوڑا کرکے کھانا شروع کردیا۔
مجھے غصہ آگیا اور میں بے چینی کے عالم میں بولا۔ ’’تمہاری کون آئسکریم میں دور پھینک دوں گا۔ اپنی جیپ ہٹائو اس جگہ سے، مجھے گاڑی نکالنی ہے۔‘‘
اس نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا اور انجن اسٹارٹ کرنے کے لیے چابی گھمائی اور پھر کئی بار گھمائی لیکن جیپ اسٹارٹ نہیں ہوئی۔
’’دھکا لگانا پڑے گا۔ اکثر ضد کرجاتی ہے۔‘‘ اس نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
میرا دل چاہا کہ میں اس کے ہاتھ سے کون آئسکریم چھین کر اس کے نتھنوں میں ڈال دوں لیکن ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ میں نے بے بسی سے دائیں بائیں دیکھا۔ مہمان شادی ہال میں جارہے تھے۔ میں کسی کو دھکا لگانے کے لیے آواز نہیں دے سکتا تھا۔ طوعاً وکرہاً میں جیپ کو دھکا لگانے لگا۔ میں پوری قوت سے دھکا لگا رہا تھا۔ اتنا زور میں نے زندگی میں کبھی نہیں لگایا تھا جتنا جیپ کو دھکیلنے کے لیے لگا دیا تھا لیکن مجال ہے کہ جیپ ایک انچ بھی آگے ہوئی ہو۔ میں نے کئی بار کوشش کی اور ہر بار کوشش میں پہلے سے زیادہ زور لگایا تھا۔ میری سانس بری طرح پھول گئی۔
میں پھر اس آدمی کے پاس پہنچا تو وہ مزے سے کون آئسکریم کھا رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے کون آئسکریم منہ کے قریب سے ہٹائی اور بولا۔ ’’آپ دھکا لگائیں گے تو یہ ہٹے گی۔‘‘
’’میں دھکا ہی لگا رہا تھا… ایک انچ بھی آگے نہیں گئی۔‘‘ میں نے کہتے ہوئے اچانک اس کے پیر کی طرف دیکھا تو میرا تن بدن غصے سے سرخ ہوگیا۔ اس نے اپنا پیر بریک پر رکھا ہوا تھا اور بریک کو اس نے اس طرح دبایا ہوا تھا جیسے بریک نے اس سے سود پر پیسے لیے ہوں۔
’’تم نے بریک دبایا ہوا ہے؟‘‘ میں نے جونہی قہر آلود انداز میں کہا، وہ ایک دم گھبرا گیا اور اس نے جیپ کا سوئچ دبایا۔ ایک لمحے میں جیپ اسٹارٹ کی اور جیپ نکال کر لے گیا۔ میں محض تلملانے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکا۔
’’جلدی آئو۔‘‘ چاندنی گاڑی سے باہر نکل آئی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں گاڑی کی طرف جاتا، اچانک وہ سرخ کار ہمارے قریب آگئی۔ اسی وقت کچھ مہمان شادی ہال کی طرف جانے کے لیے ہمارے پاس سے گزر رہے تھے۔ ہمارے پاس گاڑی میں بیٹھنے کا وقت نہیں تھا۔ میں نے چاندنی کا ہاتھ پکڑا اور ان مہمانوں کے ساتھ چلنے لگا اور ہم شادی ہال کے اندر پہنچ گئے۔
’’بن بلائے مہمان بن گئے ہیں۔ کسی نے پکڑ لیا تو بے عزتی کرکے باہر نکال دیں گے۔‘‘ چاندنی میرے ساتھ چلتی ہوئی بولی۔
’’تھوڑی دیر کی بات ہے۔ باہر نکل کر دیکھوں گا، سرخ کار جا چکی ہوگی تو ہم بھی گاڑی میں سوار ہوجائیں گے۔‘‘ میں بولا۔
’’اگر انہوں نے گاڑی دیکھ لی تو ان کو پتا چل جائے گا ہم شادی ہال میں ہیں۔‘‘ چاندنی نے کہا۔
’’میرا نہیں خیال کہ ان کا اس طرف دھیان جائے گا۔‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔ چلتے چلتے ہال میں پہنچ گئے تھے۔ ہال میں رنگ برنگے ملبوسات میں مہمان جابجا دکھائی دے رہے تھے۔ ہلکی موسیقی کے ساتھ مہمانوں کے ہنسنے کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔
’’اب اندر تک آگئے ہیں تو کھانا کھا کر ہی جائیں گے۔‘‘ میں نے چاندنی سے سرگوشی کی۔
’’ابھی ہمیں کوئی پہچان لے گا تو پھر وہ ہمیں کان سے پکڑ کر باہر نکال کر دم لے گا۔‘‘ چاندنی نے منہ بنایا۔
’’وہ بعد کی بات ہے۔ کھانا کھانے کا چانس ہمیں نہیں گنوانا چاہئے۔‘‘ میں دیکھ رہا تھا کہ ویٹر کھانا لگا رہےتھے۔
’’مجھے یہاں سے نکلنے کی جلدی ہے اور تمہیں کھانا کھانے کی پڑی ہے۔‘‘ چاندنی نے مجھے گھورا۔ ’’باہر جاکر دیکھ کے آئو وہ سرخ گاڑی چلی گئی ہے کہ ابھی اسی جگہ کھڑی ہے۔‘‘ چاندنی نے کہہ کر منہ دوسری طرف کرلیا۔
اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے کسی کا منہ میرے کان کے پاس آیا ہے اور پھر مجھے کسی کی سانس اپنی گردن پر ٹکراتی محسوس بھی ہوئی اور اس کے بعد جس بات نے مجھے بری طرح چونکا دیا۔ یہ وہ آواز تھی جو سرگوشی کے انداز میں میری سماعت میں پڑی تھی۔ کوئی کہہ رہا تھا۔ ’’مجھے یقین تھا تم زیادہ دیر عاجز برادران کی قید میں نہیں رہ سکو گے۔ تمہیں یہاں دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہیں ہے۔‘‘
میں نے بات سنتے ہی تیزی سے گھوم کر اپنے عقب میں دیکھا۔ میری نگاہیں اسی جگہ منجمد ہوگئیں۔ میرے سامنے مسکین بھائی کا مسکراتا ہوا چہرہ تھا۔ ان کی آنکھوں میں مکارانہ چمک عیاں تھی اور میں حیران پریشان تھا کہ وہ یہاں کیا کررہے ہیں۔
’’آ آ آپ مسکین بھائی۔‘‘ میرے منہ سے بمشکل نکلا۔
’’تمہیں دیکھا تو مجھے لگا جیسے میں ہوا میں اڑنے لگا ہوں۔ میرا دل چاہا کہ میں ناچنا شروع کردوں۔ جیسے کسی کی گمشدہ چیز اچانک اسے مل جائے، اس وقت میری ایسی ہی حالت ہے۔‘‘ مسکین بھائی اپنے دل کی کیفیت بیان کرنے لگے۔
’’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ میرا خیال تھا کہ یہ سوال مناسب نہیں تھا لیکن پھر بھی میرے منہ سے پھسل گیا۔
’’یہ سوال پوچھنے کا مجھے حق ہے۔ میری جیب میں اس شادی میں شرکت کے لیے شادی کارڈ موجود ہے۔ تمہارے پاس شادی کارڈ ہے؟‘‘ مسکین بھائی نے کہہ کر میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ بولے۔ ’’تم بن بلائے مہمان ہو لیکن میری ویران دنیا کو تم نے یہاں آکر آباد کردیا ہے۔‘‘ مسکین بھائی نے کچھ اس طرح کہا جیسے ان کے سامنے میں نہیں بلکہ ان کی محبوبہ کھڑی ہو۔ ایک لمحے کے لیے تو میں شرما سا گیا۔
اس سے پہلے کہ مسکین بھائی کچھ اور کہتے، چاندنی نے ایک دم گھوم کر میری طرف دیکھا اور متحیر انداز میں بولی۔ ’’تم ابھی گئے نہیں؟‘‘
’’اس نے کہاں جانا ہے؟‘‘ مجھ سے پہلے مسکین بھائی نے چاندنی سے سوال کرلیا۔
’’آپ کون ہیں؟‘‘ چاندنی نے مسکین بھائی سے پوچھا۔
’’میں فیروز کا چچا ہوں۔‘‘ مسکین بھائی نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنا تعارف کرایا تو چاندنی کے چہرے پر کالی گھٹا کی طرح حیرت چھاگئی۔
’’آپ اس کے چچا ہیں…؟ اس شادی ہال میں اچانک تمہارے چچا پیدا ہوگئے؟‘‘
’’ان کا تعارف نہیں کرائو گے تم؟‘‘ مسکین بھائی نے میری طرف دیکھا۔
’’یہ چاندنی ہیں۔‘‘ میں نے مختصر بتایا۔
’’یہ تمہارے ساتھ کیا کر رہی ہیں؟‘‘
’’میرے ساتھ کھڑی ہیں۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’یہ تمہارے ساتھ کیوں کھڑی ہیں؟‘‘ مسکین بھائی نے مزید وضاحت چاہی۔ (جاری ہے)