میری ماں اچھی عادات کی مالک تھیں لیکن ان کی ایک عادت انوکھی تھی۔ کوئی خیال دماغ میں بٹھا لیتیں تو اس بات کی رٹ لگا دیتی تھیں۔ ان کی اس عادت سے ہم سب گھر والے پریشان رہتے تھے ۔ والدہ میری بڑی بہن قدسیہ سے بہت پیار کرتی تھیں کہ وہ ان کی پہلوٹی کی اولاد تھیں۔ جب وہ سولہ برس کی ہو ئیں ، والد صاحب نے ایک اچھا رشتہ دیکھ کر ان کو بیاہ دیا۔ قدسیہ دوسرے شہر بیاہی گئی تھیں جو ہمارے گائوں سے دس میل دور تھا۔ میری ماں پہلے تو آپا کو وقت سے بیاہنے کی فکر میں گھلتی تھیں، جب بیاہ دیا تو ان کی جدائی میں گھلنے لگیں۔ بیٹھے بیٹھے چونک کر کہتیں۔ میری قدسیہ کی طبیعت ٹھیک ہو ، جانے کیوں میرا دل گھبرا رہا ہے ؟ وہ ضرور بیمار پڑی ہے۔ کوئی اسے جا کر دیکھے تو۔ اس کے بعد یہ وہم ان کے دل سے نہ نکلتا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسی وہم کو زبان پر لاتیں اور پھر اس بات کی رٹ لگا دیتیں۔ والد صاحب سے کہتیں۔ قدسیہ کو جا کے دیکھ آئو نا ! کہیں وہ بیمار تو نہیں ؟ میرے دل کو قرار نہیں آرہا۔ بابا جان تسلی دیتے کہ خاطر جمع رکھو۔ اگر ہماری بیٹی بیمار ہوتی تو ضرور فون کر دیتی یا اس کے سسرال سے پیغام آ جاتا۔ کیوں و ہم کرتی ہو۔ اللہ سے خیر کی طالب رہا کرو۔ وہم کا علاج تو حیکم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ بہت ٹالنے پر بھی جب ان کا وہم نہ جاتا مجبور با با جان کو پشاورجانا پڑتا۔ آپا وہاں اپنے گھر میں ٹھیک ٹھاک ہو تیں، امی کی تسلی کی خاطر کبھی خط لکھ کر بھجوا دیتیں کہ میں ٹھیک ہوں اور کبھی دو چار روز کے لئے خود بابا جان کے ہمراہ آجاتیں۔ تب کہیں جا کر میری ماں کو قرار آتا مگر یہ قرارعارضی ہوتا۔ پندرہ دن مشکل گزرتے کہ ان کو پھر سے کوئی ایسا و ہم ستانے لگتا۔ پھر وہی رٹ لگ جاتی اور سارا گھر پریشان ہو جاتا۔ ہم سب تو امی کی اس عادت سے زچ تھے مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ میر ابھائی احسان تنگ نہ پڑتا بلکہ ان کا ہر حکم بلا چون و چراں مان لیتا تھا۔ میرے بھائی کی فرمانبرداری کا یہ عالم تھا کہ اگر امی اسے دُھوپ میں کھڑا رہنے کو کہتیں تو وہ گھنٹوں کھڑا رہ سکتا تھا۔ وہ امی سے اس قدر محبت کرتا تھا کہ ان کی کوئی بات نہ ٹالتا تھا۔ میں ان دنوں باشعور تھی، مجھے امی جان کے وہم فضول لگتے اور ناگوار گزرتے۔ دل ہی دل میں جھنجھلاتی، احسان پر بھی غصہ آتا کہ اتنا سمجھ دار ہو کر بھی یہ کیوں ماں کی فضول وہم والی ضدیں بھی مان لیتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ امی کے وہم کرنے والی بیماری بھی بڑھنے لگی یوں ہمارے گھر کا سکون غارت ہو تا چلا گیا۔ قدسیہ آپیا ماه دوماہ بعد چکر لگا جاتی تھیں۔ ان کے شوہر اچھے انسان تھے ، وہ بھی بہت خیال رکھتے تھے مگر امی کی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ قدسیہ آپا اپنے شوہر کے ساتھ سسرال میں ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہی تھیں اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک اتنا بڑا حادثہ ہو جائے گا۔ ہوا یوں کہ ایک دن بیٹھے بیٹھے میری ماں کے جی میں جانے کیا خیال آیا کہ صبح اٹھتے ہی بابا جان کے سر ہو گئیں ، جا کرکسی پی سی او سے فون کرو اور داماد سے کہو کہ وہ قدسیہ کو لے کر آج ہمارے گھر آجائے۔ والد صاحب نے سمجھایا کہ نیک بخت ابھی ایک ماہ قبل ہی وہ ہم سے مل کر گئے ہیں، داماد کو کچھ کام دھندہ بھی کرنا ہے کہ ہر وقت جب تمہارا حکم جائے وہ بیوی کو لائے ۔ اس وقت وہ اپنے کام میں ہو گا، یوں اس کو تنگ کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ تم مناسب سمجھو کہ نہیں، بس میراجی گھبرارہا ہے، میر اکلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ خدا خیر کرے میری بیٹی کو نہ کچھ ہو گیا ہو۔ تم ان کو فون کرو۔ بتاتی چلوں کہ ان دنوں ہمارے گائوں میں فون کی سہولت موجود نہ تھی۔ والد صاحب کو کافی دور جا کر پی سی او سے کال کرنا پڑتی تھی۔ جب امی نے بہت اصرار کیا تو وہ غصے سے بولے۔ ہاجرہ بی بی دیکھ لینا، کسی دن کوئی عادت مصیبت لا کر رہے گی۔ قدسیہ کو کچھ نہ بھی ہو گا تو ہو جائے گا۔ کیوں خواہ مخواہ سے بیٹھے بٹھائے سفر کراتی ہو ؟ہفتہ بھر رک جائو ، میں خود اسے دیکھنے پشاور چلا جائوں گا۔ اس وقت تو اماں خاموش ہو گئیں لیکن چند گھنٹوں کے صبر کے بعد ان کا دم گھٹنے لگا پھر سے وہی رٹ لگادی۔ جب بابا جان نے ترش لہجے میں منع کیا تو ان کا رنگ زرد پڑ گیا اور کمرے میں جا کر پلنگ پر لیٹ گئیں، لحاف اوڑھ کر منہ چھپالیا ۔ دیر تک اسی حالت میں پڑی رہیں۔ مجھے فکر ہوئی، جا کر دیکھا کہ اٹھ کیوں نہیں رہیں۔ منہ سے لحاف ہٹایا تو چہرہ آنسوئوں سے بھیگا ہوا تھا، وہ رورہی تھیں۔ جانتی تھی کہ وہ اکثر غلط باتیں دل میں بٹھا لیتی تھیں جو خود ان کے لئے اذیت کا باعث ہو تیں۔ ناچار ان کی بات ماننا پڑی۔ بابا جان اسی وقت اگلے گائوں گئے جہاں پی سی او تھا۔ وہاں سے انہوں نے آپا قدسیہ کو فون کیا اور ساری صورت حال بتائی۔ وہ اور ان کا شوہر بچارے سارے کام چھوڑ کر ہماری طرف نکل کھڑے ہوئے۔
کسی کو وہم و گمان نہ تھا کہ یہ کنبہ جوہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا ، اچانک اتنے بڑے سانحے کا شکار ہو جائے گا۔ راستے میں ان کی کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور آپا موقع پر جاں بحق ہو گئیں۔ آپا کو ایسی چوٹیں آئی تھیں کہ سسرال والوں نے تا دیرمیت کو رکھنا مناسب خیال نہ کیا کیونکہ والدین بھی ایسی حالت میں دیدار کی تاب نہیں لا سکتے لہذا انہوں نے اپنے آبائی قبرستان میں آپا کی تدفین کر دی۔ تدفین میں میرے بھائی اور والد نے شرکت کی جبکہ والدہ غم کی وجہ سے جانے کے لائق نہ تھیں۔ ان سے یہی کہا گیا کہ ہم تمہاری بیٹی کو یہیں اپنے گائوں کے قبرستان میں دفن کریں گے۔ والد صاحب آپا کی تدفین کے بعد واپس آئے تو امی بے ہوش تھیں۔ وہ انتظار کر رہی تھیں کہ ان کی بیٹی آرہی ہے ، یہ بڑا صدمہ تھا۔ سب سمجھ رہے تھے کہ ماں کے لئے اس صدمے کو برداشت کرنا ممکن نہ ہو گا لیکن سوائے صبر کوئی چارہ نہ تھا۔ آپا کا آخری دیدار کرنے کی خواہش میری ماں کے دل کی چنگاری بن گئی۔ اچانک ہی ان کی طبیعت بگڑ گئی اور پھر وہی ایک ہی رٹ کہ تم قدسیہ کو کیوں نہیں لائے ، جائو لے کر آئو ، میں نے اس کا آخری دیدار کرنا ہے ورنہ مجھے کیو نکر صبر آئے گا۔ جب والد صاحب سے کہہ کہہ کر تھک گئیں اور کچھ نہ بناتو پھر بھائیاحسان کے پیچھے پڑ گئیں کہ تم میرے بیٹے ہو، میرا حکم بجالا کو، بہن کو پشاور سے لا کر یہاں دفنائو کہ میں اس کی قبر پرفاتحہ تو پڑھ سکوں۔ بھائی بچارے کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ ادھر ماں بلک بلک کر یہی سوال کرتی، فریاد کرتی ، روتی تھی۔ ان کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ مجھے بھی امی جان پر ترس آتا تھا لیکن ہم اپنی دفنائی ہوئی بہن کو کہاں سے لاتے ۔ اب ماں یہی رٹ لگا کر بے ہوش ہو جاتیں کہ مجھے اپنی پیاری بیٹی کا آخری دیدار کرنا ہے۔ بابا جان ان کو سمجھاتے کہ یہ ممکن نہیں ہے ، اس خیال کو دل سے نکال دو۔ اب تم آخری دیدار نہیں کر سکتیں، یہ ایک ناممکن بات ہے۔ وہ کہتیں۔ کیوں ناممکن ہے ؟ میت کو تکلیف ہو گی اگر ہم اسے دوبارہ دفنانے کو قبر کشائی کریں گے ۔ تم سمجھتی کیوں نہیں ہو۔ لاکھ بابا جان نے سمجھایا، تسلیاں دیں مگر میری امی جان کو قرار تھا ہی نہیں۔ مولوی حضرات سے پوچھا۔ سب یہی کہتے کہ صبر کرو، اب قبر سے میت نکالنے کی غلطی مت کرنا مگرامی جان کہاں صبر کر سکتی تھیں۔ ان کے دماغ میں تو بس ایک ہی بات بیٹھ گئی تھی۔ آخر کار احسان نے ارادہ کر لیا کہ وہ ماں کی یہ خواہش ہر حال میں پوری کرے گا ورنہ یہ روتے روتے پاگل ہو جائیں گی۔ ان کی وجہ سے سارے گھر کا چین سکون غارت تھا۔ اُن دنوں سفر کی ایسی سہولتیں نہ تھیں۔ احسان نے اپنے ٹریکٹر سے ٹرالی لگائی اور سفر پر روانہ ہو گیا۔ وہ رات کے اندھیرے میں اس قبرستان گیا کہ جہاں آپا کی قبر تھی۔ وہ قبر کھودنے کے لئے پھاوڑا بھی لے گیا اور ساتھ ہمارا پرانا نوکر بھی تھا۔ جب وہ آپا کی قبر کھودنے لگا تو نوکر نے منع کیا۔ خان صاحب ابھی وقت ہے سوچ لو۔ ایسی غلطی نہ کرو لیکن احسان کو تو ماں کے دل کو راحت دینی مقصود تھی۔ اس نے بابا اجمل کی نہ سنی ۔ کہا کہ تم کس بات سے ڈرتے ہو، میں تو نہیں ڈرتا۔ حالانکہ دل تو بھائی کا بھی کانپ رہا تھا لیکن ماں کی خاطر قبر کھود لی اور میت کو ٹرالی میں رکھ کر خود بھی سوار ہو کر گھر کو روانہ ہو گئے۔ پہلے تو ٹریکٹر اسٹارٹ نہ ہوا۔ اللہ اللہ کر کے اسٹارٹ ہوا تو یہ اس کو سڑک پر لے آئے۔ آخر کار وہ رستے پر ہو لیا اور یہ اس کو گائوں لے آئے ، جب احسان بہن کی میت کو گائوں لا یا کسی کو یقین نہ آتا تھا۔ نوکر کو آتے ہی بخار چڑھ گیا۔ وہ اپنے کوارٹر میں جا کر لیٹ گیا۔ سبھی نے کہا کہ اسے قبرستان کی دہشت سے بخار ہو گیا ہے۔ مولوی صاحب کو بلایا۔ انہوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ یہ تم لوگوں نے کیا غضب کر دیا ہے ؟ بہت بُرا کیا ہے ، اب جلد از جلد اس میت کو دفنائو ، اس کی روح اذیت میں ہو گی۔ غرض گائوں کے مولوی صاحب نے وعظ و نصیحت کی اور جلد از جلد میت کو دفنا دیا گیا۔ سب کی جان پر بنی تھی مگر میری امی جان کو جیسے سکون آگیا۔ کہتیں۔ میری بیٹی میرے پاس آگئی۔ گھر کے پچھواڑے قبر بنوائی۔ اب صبح شام بیٹی کی قبر پر بیٹھ کر تلاوت کرتیں اور فاتحہ پڑھتیں اور پھر آکر کہتیں۔ مجھے ایسا سکون آجاتا ہے جیسے میں قدسیہ سے مل آئی ہوں۔ وہ اب روز میرے خواب میں بھی آنے لگی ہے، تم لوگ اس کو میرے نزدیک جو لے آئے ہو۔ ماں کی خواہش پوری ہو گئی لیکن اس کے بعد میر ابھائی ٹھیک نہ رہا۔ وہ روز بہ روز زرد ہوتا گیا۔ کسی پچھتاوے کی زد میں آکر اندر ہی اندر گھلنے لگا، جیسے کوئی گھن لگ گیا ہو یا کوئی بُری چیز اس سے چمٹ گئی ہو ۔ وہ اب بیٹھے بیٹھے جھرجھریاں لینے لگتا تھا۔ سب آپا کی قبر پر جاتے ، فاتحہ پڑھتے لیکن احسان ان کی قبر پر جانے سے ڈرتا تھا۔ احسان کی حالت وقت کے ساتھ سنبھلنے کی بجائے غیر ہونے لگی، رفتہ رفتہ کھانا پینا ترک کیا۔ وہ جیسے اندر ہی اندر گٹھنے لگا۔ نماز چھوڑ دی۔ نہانے اور ہاتھ منہ دھونے سے پر ہیز کرنے لگا۔ کپڑے بدلنے کے لئے تو والد صاحب کو اس کے ساتھ کشتی کرنا پڑتی۔ پندرہ دن گزر جاتے تو بھی وہ لباس تبدیل نہیں کرتا تھا۔ ایک دن ایسا آیا کہ ہم بھائی سے خوف کھانے لگے۔ میرا اتنا اچھا بھائی اب دیوانہ سا لگنے لگا تھا۔ داڑھی کے بال بڑھے ہوئے ، حجامت بنوانے سے خوف زدہ، ناخن بڑھ گئے کسی کو کاٹنے نہ دیتا۔ جو ہمیشہ نظریں نیچی کر کے تابعداری سے بات کرتا تھا وہ اب بات کرتے تو جھپٹ پڑتا اور جانور کی مانند غرانے لگتا۔ ابو اسے دیکھ کر روتے تھے، امی جان پریشان تھیں۔ احسان ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس سے ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ وہ بی اے کا طالب علم تھا، اچھا پڑھ رہا تھا۔ پڑھائی لکھائی درکنار اب تو اس کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔ جب وہ پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگا تو بابا جان گھبراگئے۔ موقع ملتے ہی گھر سے نکل جاتا پھر وہ سڑکوں پر آوارہ پھرنے لگا، سب کہتے کہ اس کا دماغ الٹ گیا ہے۔ سڑکوں پر بھاگنے سے پاگل لگتا، بچے آوازے کستے کوئی لڑکا پتھر دے مارتا۔ ایک دن پولیس میرے بھائی کو پکڑلے گئی اور حوالات میں بند کر دیا۔ والد صاحب کو خبر ملی بھاگ دوڑ کر کے اسے حوالات سے لے آئے اور دماغی امراض کے اسپتال لے گئے۔ انہوں نے بجلی کے جھٹکے دیئے۔ وہاں سے علاج معالجے کے بعد احسان کو گھر لائے۔ کچھ دن ادویات دی جاتی رہیں تب وہ زیادہ تر سوتارہتا۔ یہ کیفیت بھی تو عارضی رہی جب ادویات بند کرادی گئیں وہ پھر پہلے جیسا ہو گیا۔ وہ پہلے سے زیادہ ڈرنے لگا۔ اپنے گلے کے گرد بازو لپیٹ لیتا جیسے خود کو بچانے کی کوشش کر رہا ہو پھر اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتا، آنکھیں تن جاتیں، وہ بے سدھ ہو
کے گر پڑتا اور بے ہوش ہو جاتا۔ میں اس کی یہ حالت دیکھ کر ڈر جاتی، اپنے کمرے میں جا کر چھپ جاتی۔ کبھی تو مجھے اتنار و نا آتا کہ سکیاں ہچکیوں میں بدل جاتیں۔ میں اس وقت کو یاد کرتی تھی جب میرا بھائی بھلا چنگا تھا، وہ کس قدر اجلا اور صاف ستھرارہتا تھا۔ مجھ سے اور ماں سے اُسے والہانہ محبت تھی۔ مجھے پڑھنے کی تلقین کرتا۔ جب میں پڑھنے بیٹھ جاتی خوش ہو کر میرے پاس آ بیٹھتا، عید پر میرے لئے چوڑیاں اور تحفے لاتا۔ امی جان کا تو بہت زیادہ خیال کرتا تھا۔ ان کی ذراسی تکلیف پر تڑپ جاتا تھا۔ وہ ماں کو رنجیدہ نہ دیکھ سکتا تھا۔ پہلے میرے والدین کو جواں سال بیٹی کی موت کا غم کھا رہا تھا پھر ان کو یہ غم بھی بھول گیا کیو نکہ احسان کا غم اس سے بھی زیادہ تھا۔ سچ ہے مرنے والوں کا غم بھلایا جا سکتا ہے لیکن زندوں کا غم نہیں بھلایا جا سکتا۔ میرے والدین اب دن رات بیٹے کی دیکھ بھال میں لگے رهتے تھے۔ اپنے آپ کو بھی بھول گئے تھے۔ بھائی سخت بیمار تھا، کھانا نہ کھانے کی وجہ سے بے حد کمزور ہو گیا تھا۔ بالآخر بستر سے جالگا۔ زبردستی کھانا منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے تو منہ نہ کھولتا باہر نکل جانے کے خوف سے بابا جان اس کو کمرے میں بند کر کے تالا لگا کر رکھتے تھے۔ کچھ عرصہ اسی حالت میں رہنے کے بعد آخر کار وہ اللہ کو پیار ہو گیا۔ بابا جان اور امی اس کی جدائی میں روتے رہ گئے لیکن اسے جانے سے روک نہیں سکے ۔ خُدا جانے میرے بھائی کے ساتھ کیا ہوا تھا، اس کو کیا نظر آتا تھا، جو ہم کو دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یہ ہم لوگ کبھی نہ جان سکے۔ وہ خلائوں میں گھورتا تھا۔ ہم اس سے پوچھتے تھے مگر کچھ بھی بتانے کی طاقت اس میں نہیں تھی۔ جانے قبرستان میں جانے سے وہ خوف زدہ ہو گیا تھا یا قبر کشائی کا کوئی نفسیاتی اثر اس پر ہوا تھا، یہ تو خدا جانتا تھا یا احسان۔ یہ ضرور ہم جانتے تھے کہ وہ بیمار اُسی دن سے ہوا تھا جس دن سے اس نے آپا کی قبر کھودی تھی۔ باباجان نے اس کے علاج کی خاطر کیا کیا جتن نہیں کئے، مگر وہ ٹھیک نہ ہو سکا۔ پانچ سال کی اذیت سہنے کے بعد یہ دنیا چھوڑ دی اور ہم نے یہ پانچ برس جیسے کاٹے وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ امی جان رورو کر ادھ موئی ہو گئیں۔ اب تو انہوں نے اپنی ضد کی عادت بھی ختم کر دی۔ بابا جان کہتے اے کاش ! تم پہلے اس عادت کو چھوڑ دیتیں تو ہمارا بیٹا اس طرح دیوانہ ہو کر نہ مرتا۔ بتائو ہاجرہ بی بی ! مردہ بیٹی کا آخری دیدار کر کے تمہیں کیا ملا۔ تب امی جان رو تیں اور ہاتھ ملنے لگتی تھیں ۔ بے شک وہ ماں باپ خوش قسمت ہوتے ہیں جن کی اولاد فرمانبردارہوتی ہے لیکن والدین کو بھی چاہئے کہ وہ ایسی فرمائشیں نہ کریں جن کو پورا کرنا اولاد کے لئے نقصان دہ ہو یا اللہ تعالی کی ناراضی آتی ہو۔احسان بھائی کو آپا کی قبر کے پہلو میں دفنایا گیا۔ اب والدہ ایک قبر پر نہیں، گھر کے پچھواڑے دو قبروں پر فاتحہ خوانی کرتی تھیں۔ آج اس واقعہ کو بہت عرصہ بیت گیا ہے۔ بابا جان اور امی جان دونوں وفات پاچکے ہیں۔ آج جب میں اپنے بچوں کو یہ قصہ بتاتی ہوں تو وہ یقین نہیں کرتے ، سننے والے بھی دم بخود رہ جاتے ہیں۔ احسان بھائی کے بارے سوچتے ہیں کہ کیا وہ نادان تھے جو ایسا قدم اٹھالیا تھا۔ کیا کوئی اولاد اتنی بھی ماں کی فرمانبردار ہو سکتی ہے کہ اسے اللہ تعالی کی رضا کا بھی خیال نہ رہے !