Friday, September 20, 2024

Aapa

دونوں ہتھیلیاں ٹھوڑی کے نیچے جمائے چوکڑی مارے وہ صوفے پر بیٹھی تھی ۔ گاہے بہ گاہے اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے احمر پر بھی نگاہیں ڈال لیتی تھی ۔ احمر کی نظریں ٹی وی اسکرین پر مرکوز تھیں۔ اور اس کا امنہاک قابل دید تھا۔ گویا پلک جھپکنا بھی کوئی گناہ عظیم ہو۔ جبکہ سونیا کا موڈ قدرے خراب ہو چلا تھا۔ کیونکہ وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے اپنے فیورٹ ٹی وی شوکود یکھنے کے لیے مچل رہی تھی۔ مگر احمر تھا کہ وہ خبریں سننے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بالآخروہ زچ ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ ارے کہاں جارہی ہو، کچن میں جا رہی ہو تو میرے لیے ایک کپ چائے تو بنا دو۔ سر میں درد سا ہے۔ احمر نے کنپٹیوں کو ہاتھ سے دباتے ہوئے آنکھیں میچ کر اس سے ملتجی انداز میں کہا تھا مگر سونیا کو اس کی منت سماجت اور ملتجیانہ انداز ۔ ہرگز متاثر نہ کر سکا تھا۔ کمال ہے سر میں درد ہے مگر مجال ہے ٹی وی کی آواز کم کی ہو یا نظریں ہٹائی ہوں ۔ وہ خفگی سے بولی تھی۔ ابھی اس بحث و مباحثہ کولمبا ہونا تھا کہ احمر کے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ احمر نے اسکرین پر آپا کا جگمگاتا ہوا نام دیکھ لیا تھا۔ عقب سے سونیا نے بھی دیکھ لیا تھا اور اس کا موڈ مزید خراب ہو چکا تھا۔ آپا کے فون کے بعد اکثر گھر میں سانحات رونما ہوا کرتے تھے اور سونیا تو بانگ دہل اعلان کیا کرتی تھی کہ ان سب کے پیچھے آپا کا ہاتھ ہے- جی آپا۔ وہ بے حد مودب ہو کر سنبھل کر بیٹھ گیا تھا۔ دوسری جانب سے احکامات صادر کیے جا رہے تھے۔ تبھی احمر اثبات میں سرہلاتا چلا جا رہا تھا- آپا بالکل فکر نہ کریں۔ میں آرہا ہوں ابھی ۔ احمر کے چہرے کے سنجیدہ تاثرات بتا رہے تھے کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ سونیا بھی کان لگا کر بات سننے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی ۔ احمر نے فون بند کرتے ہی سب سے پہلے ٹی وی آف کیا تھا۔ اس کے بعد اپنے ہاتھوں سے اپنے بال سنوارتا ہوا کار کی چابی اٹھا کر باہر کی جانب نکلنے لگا تھا۔ سونیا کو یہ انداز پسند نہ تھا۔ نہ کچھ بتانا اور نہ کچھ پوچھنا۔ آپ کدھر جا رہے ہیں رات کے اس وقت؟ وہ متعجب ہو کر پوچھ رہی تھی۔ آپا کی لڑائی ہوگئی ہے عثمان بھائی نے ان پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ کیا میں رات اور دن دیکھتا رہوں؟ احمر نے اپنی ساری کھولن اس پر نکالی تھی ۔ مگر اس طرح جانا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس طرح بات مزید بڑھ جائے گی۔ سونیا کے تو یہ سوچ کر ہی چودہ طبق روشن ہو گئے تھے کہ دور سے زندگی کی خوشیوں میں زہر گھولنے والی اپا یہیں آ کر رہنے والی تھی۔ وہ حواس باختہ سی کھڑی سوچ رہی تھی کہ بیٹھے بٹھائے یہ کیا آفت آن پڑی۔ احمر آپ امی کو تو پتا دیتے ؟ وہ روہانسی ہوئی ، کوئی ترکیب سوچنے لگی تھی۔ پاگل ہو دور پردیس اماں کو کیا پریشان کرنا۔ اور پھر وہ کیا کریں گی ۔ ناحق پریشان ہوں گی۔ تم بھی نہ بتانا میں آتا ہوں۔ وہ مزید بحث کے موڈ میں ہرگز نہ تھا۔ اس لیے کار پر روانہ ہو گیا تھا۔ آپا کا گھر یہاں سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اب وہ تیز رفتار ڈرائیو کریں گے ۔ وہ دل ہی دل میں سلامتی کی دعائیں کرنے لگ گئی تھی ۔ احمر کی واپسی پورے دو گھنٹے بعد ہوئی تھی۔ وہ تو وہیں سولی پر لٹکی بیٹھی رہی تھی ۔ بے حد دبدبے سے اندر داخل ہوتی وہ سحرش آپا تھیں۔ انہوں نے اس کے لپک کر گلے لگانے کو بھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا تھا اور پرے جھٹکا تھا۔ اوبی بی۔ یہ خالی خولی کی ہمدردی سنبھال کر رکھو۔ مجھے نہیں ضرورت تھکی ہوئی ہوں، مجھے بھوک لگی ہے۔ جلدی کھانا لگا دو اور بعد میں گرین ٹی کی عادت ہے مجھے ۔آپا نے حکمیہ انداز میں کہا تھا۔ سونیا اپنی جگہ جزبز ہو کر رہ گئی تھی۔ لیکن مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق سیدھا اس نے کچن کا رخ کیا تھا۔ آج اس نے کڑھی بنائی تھی۔ اور روٹیاں تازہ تازہ بنا کر ہاٹ پاٹ میں رکھی تھیں۔ جب وہ کھانا ٹیبل پر لگا رہی تھی ۔ آپا اور احمر نجانے سرگوشیوں میں کیا بات کر رہے تھے۔ اس کی بد زبانی سے میں تنگ آچکی ہوں اور آج تو حد ہوگئی ، اس نے مجھے پر ہاتھ اٹھا لیا- سحرش آپا نے نادیدہ آنسوؤں کو آنکھوں سے صاف کیا تھا۔ آپا! پریشان نہ ہوں۔ یہ آپ کا اپنا گھر ہے۔ آپ جب تک چاہیں، یہاں رہ سکتی ہیں۔ اگر اماں اور بھیا پاکستان میں نہیں تو کیا ہوا ؟ یہ آپ کا میکہ ہے۔ آپ آرام سے رہیں ۔ احمر نے سعادت مندی سے کہا تھا۔ سحرش نے جتاتی ہوئی نگاہ سونیا پر ڈالی تھی ۔ سونیا کو ان کا انداز سمجھ میں نہ آسکا تھا۔ اپنے دکھ میں بھی ان کو یہ سب کرنا یاد تھا۔ کیا وہ واقعی دکھی تھیں یا دکھی ہونے کا ڈراما کر رہی تھیں- بہرحال وہ تو چب بیٹھی تھی۔ ارے کڑھی ۔ مجھے بہت پسند ہے۔ مگر یہ کیا؟ بھئی ، ہماری اماں نے تو ہمیشہ کڑھی کے ساتھ چاول بنائے۔ یہ رواج تو پہلی بار دیکھا ہے۔ پہلا اعتراض، سونیا تو ان اعتراضات کی عادی تھی ۔ پہلا لقمہ سحرش آپا نے ضد میں لیا تھا اور پھر ناک بھوں چڑھائی تھی اور مارے باندھے دوسرا لقمہ توڑا تھا۔ ان کے تاثرات بھی ایسے تھے کہ احمر چپ نہ رہ سکا۔ کیا بات ہے آپا!۔ پسند نہیں تو کچھ اور بنوا دیتا ہوں۔ احمر نے خجالت سے کہا تھا۔ نگاہیں سونیا کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ ارے جانے دو پھر تمہاری بیوی کہے گی کہ میں وبال جان بن گئی ہوں۔ دراصل ہم تو کڑھی کو خوب پکاتے ہیں۔ اس میں کچے بیسن کا مزا ہے۔ بہر حال جانے دو۔ اسے معلوم تو تھا ہی کہ میں نے آنا ہے۔ کچھ اور بنا لیتی ، دو گھنٹے بہت ہوتے ہیں۔ سحرش آپا نے اس پر طنز کیا تھا۔سونیا سے بولے بنا رہا نہ گیا تھا۔ دراصل مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ اتنے غم میں بھی کھانے کا خیال رکھیں گی ۔ دھیمے انداز میں اس کا کہا جملہ تو گویا قیامت سے کم نہ تھا۔ دیکھا احمر ! تمہاری بیوی نے تو آتے ہی طعنے دینا شروع کر دیے۔ کیا میں بھوکی مرجاؤں۔ ابھی تو پہلا لقمہ لیا کہ اس نے گز بھرلمبی زبان کھول دی۔ نہ بابا نہ میں چلتی ہوں یہاں سے۔ میں نہیں یہاں رہنے کی۔ سحرش آپا نے تیز لہجہ میں کہا تھا۔ سونیا ! تم ہوش میں تو ہو۔ یہ کیسا انداز تخاطب ہے۔ ابھی کے ابھی آپا سے معافی مانگو۔ اور جاکر کچھ اور بنا لو۔ ٹھیک تو کہہ رہی ہیں ۔ تم کو تو سارا دن ٹی وی ڈراموں سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ خرافات ان ہی ڈراموں کی بدولت ہے۔ جو تمہارے دماغ میں پل رہی ہے۔ احمر نجانے کیا بولتا رہا۔ مگروہ مزید وہاں کھڑی نہ رہ سکی۔ جی تو چاہا صاف کہہ دے۔ میرے دیکھے ڈرامے آپ کی آپا کی چلتر بازیوں سے کم ہی ہویتے ہیں- یہ تو خود بنی بنائی فلم ہیں۔ مگر چپ رہنا مجبوری تھی۔ سو مجبوراً اپنے آنسوؤں کے پھندے کو گلے میں اتارکر بولی تھی- سوری آپا! میں کچھ اور بنا لاتی ہوں۔ آپا نے فاتحانہ نگاہوں سے دیکھا تھا۔ وہ دل ہی دل میں آپا کو کوستے ہوئے سوچنے لگی کہ اب رات کے اس وقت کیا بنا کر پیش کرے ۔ فریج میں وہ کباب فریز کر کے رکھتی تھی۔ اس نے وہی کباب تل کر ساتھ رائتہ بنا لیا تھا۔ اور وہیں ڈائننگ ٹیبل پر لے آئی تھی۔ ارے اب اس کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے تو مجبوراً کھا بھی لیا کھانا۔ وہ منہ بنا کر بولیں اور ٹی وی پر اس وقت رپیٹ ٹیلی کاسٹ میں اس کا ہی من پسند ڈرامہ لگا ہوا تھا۔ سوچ رہی تھی کہ کہے کہ آپ کی آپا بھی تو ان ڈراموں کو دیکھ رہی ہیں ۔ اب ہے کوئی جواب ۔ مگر وہ لبوں پر قفل لگائے کھڑی تھی۔ اچھا ایسا کرو، کباب کی پلیٹ رکھ دو۔ میں کھا لیتی ہوں تم کو برا نہ لگے اس لیے۔ آپا نے گویا اس پر احسان عظیم کیا تھا اور پھر آرام سے کباب سے انصاف کرنے لگیں- وہ دوبارہ بچن میں گھس گئی تھی۔ اس نے احمر کے لیے چائے بنائی۔ جبکہ آپا کے لیے گرین ٹی۔ اسے معلوم تھا کہ احمر کھانے کے بعد چائے لازمی پیتے ہیں۔

عدنان، سحرش اور احمر تین بہن بھائی تھے۔ عدنان کی والدہ اور عدنان بیرون ملک مقیم تھے۔ سحرش یہیں پاکستان میں اور احمر کے گھر کے پاس ہی اس کا گھر تھا۔ اکثر ویک اینڈ پر آجایا کرتی تھیں ۔ سحرش آپا کے شوہر عثمان ایک بے حد سوبر سے انسان تھے۔ سونیا کی تو ابھی تک یہی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ اس قدر لمبی اعتراضات اور الزامات کی فہرست میں عثمان بھائی کہاں فٹ بیٹھتے ہیں۔ کیونکہ وہ تو جب بھی عثمان بھائی سے ملی ، ان کو بے حد دھیمے مزاج کا پایا۔ خندہ پیشانی سے سحرش آپا کے تمام انداز سہہ جایا کرتے تھے۔ رات کو تو احمر کا موڈ آف ہی تھا۔ البتہ صبح سویرے آفس جانے سے قبل اس نے دل میں ٹھان لی تھی کہ احمر سے اصل بات ضرور پوچھے گی۔ احمر! کیا آپ کی عثمان بھائی سے ملاقات ہوئی تھی؟ یہ سوال کل سے اس کے اندر ہلچل مچا رہا تھا۔ نہیں، میری ملاقات نہیں ہوسکی۔ دراصل میں تو سیدھا آپا کے گھر ہی گیا تھا۔ مگر وہاں آپا کی ساس اور نند آئی ہوئی تھیں، میں نے گیٹ سے ہی کہا کہ آپا کو بھیج دیں۔ کہنے لگیں کہ وہ تو نجانے شام سے کہیں گئی ہوئی ہے۔ پھر میں نے آپا کو کال کی۔ تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی ایک دوست کے گھرہیں ۔ وہاں سے سیدھا پھر میں گھر لے آیا۔ اس لیے تو اتنی دیر لگی تھی ۔ احمر نے اسے تفصیل سے ساری بات بتائی تھی۔ لیکن احمر! آپ کو سب سے پہلے عثمان بھائی سے بات کرنی چاہیے تھی۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ وہ کتنے متحمل مزاج ہیں، وہ کس طرح آپا پر ہاتھ اٹھا سکتے ہیں۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا ہے۔ وہ واقعی حیران تھی۔ تو تم کیا کہنا چاہتی ہو کہ میری آپا جھوٹ بول رہی ہیں ۔ اب کے احمر بگڑ کر بولا تھا۔ نہیں، قطعا نہیں لیکن ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ صادر کرنا درست نہیں ہے۔ ہمیشہ دونوں فریقین کی بات کو سننا اور پھر فیصلہ کرنا ہی دانش مندی ہے۔ وہ بڑے سبھاؤ سے احمر کو قائل کر رہی تھی ۔ اس کی بات اب احمر کی سمجھ میں آگئی تھی ۔ تب ہی مطمئن سا ہو گیا تھا۔ اچھا ٹھیک ہے پھر بتاؤ کیا کرنا چاہیے؟ ابھی ان کی بات درمیان میں ہی تھی کہ آپا نے ایک دم زوردار دھکے سے دروازہ کھولا ۔ اور تالیاں بجانے لگیں۔ واہ واہ آفرین ہے۔ کیسے باتوں میں الجھا لیتی ہو۔ تمہارے صرف بال ہی لچھے دار نہیں ہیں۔ باتوں میں بھی خوب الجھاؤ ہیں۔ آپا نے اس کے گھنگھریالے بالوں پہ چوٹ کی تھی ۔ وہ تو ان کی بنا دستک کمرے میں اس انٹری پر ہی دم بخود تھی ۔ نجانے کب سے دروازے سے کان لگائے ان کی باتیں سن رہی تھیں ۔ کس قدر معیوب حرکت تھی۔ مگر اب یہ تو خود احمر کا فرض تھا کہ وہ کہتا، وہ تو پہلے ہی بری بن گئی تھی۔ سو خاموشی میں ہی عافیت تھی۔ آپا ! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ بھی آپ کے لیے فکرمند ہے۔ احمر نے اپنی دانست میں وضاحت پیش کرنا چاہتی تھی۔ جانے دو، دیکھ رہی ہوں کہ کل سے تمہاری بیگم کے مزاج ہی نہیں مل رہے۔ میں کہتی ہوں کہ اگر عثمان کو کال کی یا ملاقات کے لیے گئے ۔ تو میں ساری عمر کے لیے تم سے تعلق توڑ دوں گی۔ مجھے دارالامان چھوڑ آؤ اگر اس قدر بوجھ ہوں۔ آپا نے سختی سے کہا تو احمر نے منت سماجت کر کے آپا کا موڈ ٹھیک کیا اور دفتر جانے سے پہلے اسے خاص طور پر نصیحت کی کہ کوئی ایسا کام نہ کرے۔ جس سے آپا کی دل شکنی ہو۔ یا ان کو رنج پہنچے۔ وہ گہری سانس لے کر رہ گئی تھی۔

پھر اس نے خاموشی اختیار کر لی تھی سارا دن گھن چکر بنی رہتی۔ کچھ دنوں سے مسلسل اس کی طبیعت میں گرانی رہنے لگی تھی۔ آپا کی نگاہیں تو اسے اپنی پشت پر بھی چھبتی تھیں، نجانے آپا کو اس سے اس قدر نفرت کیوں تھی؟ کبھی کبھار سوچتی کہ اس نے آپا کا کیا بگاڑا ہے۔ صرف یہی کہ وہ احمر کی پسند تھی۔ ان کے بھائی کی محبت تھی۔ شادی پر سب سے زیادہ اعتراض بھی سحرش آپا کو ہی تھا۔ تم نے کیا دیکھ کر اس سے شادی کا فیصلہ کیا ہے؟ میں کہتی ہوں کہ ایک سے بڑھ کر ایک رشتہ موجود ہے۔ ایک دو تو میں نے بھی اپنے بھیا کے لیے پسند کر رکھی تھیں ۔ سحرش آپا کے منہ سے اہ نکلی۔ ایک یا دو آپا ! پہلے یہ فیصلہ کرلیں ۔ احمر نے شوخ ہو کر کہا تھا۔ تم مذاق میں مت مان،و لبنیٰ اچھی لڑکی ہے۔ دیکھی بھالی ہے۔ تم نے دیکھا، کس قدر محبت سے تمہارا خیال رکھتی ہے۔ احمرہنس دیا تھا۔ یہ سچ تھا کہ اماں کے جانے کے بعد فلیٹ میں کام والی رہی تھی تھی مگر گھر والے نےنہ ہوں تو کام والیاں بھی ڈھیلی پڑ جاتی ہیں ۔ سو لبنیٰ آ جایا کرتی تھی جب احمر جاب پر ہوا کرتا تھا۔ واشنگ مشین لگا کر ہفتے بھر کے گندے کپڑوں کا انبار اپنی نگرانی میں دھلواتی تھی۔ سارے گھر کا فرش کام والی ماسی سے رگڑ رگڑ کر دھلواتی تھی۔ جب تک احمر گھر آتا الماری میں اس کے سارے کپڑے دھلے دھلائے استری کیے ملتے تھے۔ اشتہا انگیز خوشبوؤں سے گھر بھرا ہوتا تھا۔ اس کے من پسند کھانے تیار ملتے۔ مگر یہ جو دل ہوتا ہے ناں اس کے فیصلے بھی عجب ہوا کرتے ہیں۔ احمر کو اپنی کولیگ سونیا بھا گئی تھی اور پورے دو سال خاموش محبت کے بعد اس نے سونیا کو پروپوز کر دیا تھا۔ اور اب وہی محبت جب احمر کومل گئی تھی۔ اب اسے گھر کی مرغی دال برابر لگنے لگی تھی ۔ سونیا نے اس کی خاطر سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ جاب چھوڑ دی تھی۔ گھر گرہستی کی ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ گھر گرہستی میں طاق نہ تھی۔ مگر رفتہ رفتہ احمر کی خاطر اس نے گھرداری سیکھ لی تھی اور گھر پر توجہ دینے لگی تھی۔ شاید زندگی حسین بھی ہو جاتی اگر سحرش آپا اس کے خلاف محاذ نہ کھول لیتیں۔ پہلے پہل تو سونیا کو یہ اپنا وہم لگتا تھا۔ کہ ہرگھر میں ہر خاندان میں نند بھابھی کی روایتی چپقلش تو چلتی ہی ہے۔ مگر یہ اس سے بھی ہٹ کر کچھ تھا۔ احمر جو کہتے نہ تھکتا تھا- سونیا میرا بس چلے تو میں دنیا کی ہر نعمت، ہر آسائش تمہاری ایک مسکان پر ڈھیر کر دوں۔ تم میرے لیے سب سے اہم ہو، تمہارے بنا تو جینے کا تصور ہی نہیں ۔ تمہاری ان جھیل آنکھوں میں اداسی ڈیرے جماتی ہے۔ تو مجھے اپنی دنیا اندھیر لگنے لگتی ہے۔ احمر کی وارفتیاں دیکھنے والی ہوتی تھیں۔ کبھی کبھار وہ ان کا اظہار آپا کے سامنے بھی کر بیٹھتا تھا۔ اور آپا سخت برا مان جایا کرتی تھیں۔ سونیا احمر کے خوابوں کا مرکز ومحور تھی۔ اس کا پہلا پہلا خواب تھی ۔ وہ اپنے مقدر پر نازاں تھی۔ مگر احمر کی آپا کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ جب لبنیٰ ہوا کرتی تھی۔ تو گھر کیسا جگمگ کرتا تھا۔ ارے اب تو بہورانی آچکی۔ مگر ہر شے مٹی میں اٹی ہو جیسے- سحرش آپا کی بات سن کر سونیا نئے سرے سے سب جتن کرتی ۔ مگر سحرش آپا نے بھی قسم اٹھا رکھی تھی کہ اس کے ہر ہر فعل پر تنقید کرنی ہے۔ کسی حالت میں اس سے خوش نہیں ہونا ۔ آپا کی دل جوئی میں اکثر احمر اس کے دل کو شدید ٹھیس بھی پہنچا دیا کرتا تھا۔ بعد میں اکثر تنہائی میں معافی بھی مانگ لیا کرتا تھا۔ مگر سونیا خود سے یہ سوال پوچھا کرتی تھی کیا اس طرح اس کی عزت نفس کی اڑی دھجیاں اور دل کے ٹکڑے جڑ سکتے ہیں؟

ناشتہ تیار ہو گیا کیا؟ وہ کچن میں اس کے پاس کھڑا پوچھ رہا تھا۔ وہ بہت دن سے چپ چپ سی تھی۔ احمر کے دل کو کچھ ہوا تھا- ہوں۔ وہ سنک میں ہاتھ دھونے لگا تھا۔ احمر نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ اس کے گلابی چہرے پر ڈالی تھی ۔ متورم چہرہ، ملگجا سا حلیہ۔ تم روئی ہو؟” وہ دفعتا چونک کر اس کی طرف پلٹا تھا۔ ہاں۔ وہ جھوٹ کیوں بولتی۔ اس نے بھی اسے جتانا ضروری خیال کیا تھا۔ اسے بھی تو معلوم ہوا کہ دل میں چھید کیسے ہوتے ہیں۔ وجہ ؟ وہ اس سے نظر چرا گئی تھی ۔ پراٹھے بن چکے تھے ۔ آملیٹ بنا رہی تھی۔ بےدھیانی میں ہاتھ توے سے جالگا تھا۔ وہ سی کر کے رہ گئی ۔ کیا ہوا ہا تھ جلا لیا دھیان کدھر ہے؟” وہ اسے سرزنش کر رہا تھا۔ وہ کیسے بتاتی کہ سارے دھیان تو اسی کی جانب مرکوز ہو چکے ہیں۔ خصوص جب سے آپا نے باتوں باتوں میں اسے بتایا تھا کہ سب لبنیٰ کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ مگر لبنیٰ ہے کہ کسی رشتے پر ہاں ہی نہیں کر کے دے رہی ہے۔ صاف ظاہر تھا کہ آپا کو اب بھی اپنی نند کا رشتہ احمر سے کروانا مقصود تھا۔ اب جبکہ احمر کا گھر بس بھی چکا تھا۔ مگر نجانے کیوں ان کے دل میں احمر کی بیوی کے لیے جو خاکہ لبنیٰ کے حوالے سے بن چکا تھا۔ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی سونیا اس پر پورا نہ اتر سکی تھی۔ رکو، میں برنال لاتا ہوں ۔ اس نے اس کا ہاتھ تھمانا چاہا تھا۔ مگر وہ ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا گئی تھی۔ نگاہوں کا لمحہ بھر کا تصادم ہوا تھا اور اس کی سرخ انگارہ آنکھیں اسے بہت کچھ باورکرا گئی تھیں ۔ جو کھولن میرے اندر ہے۔ اس کے سامنے تو یہ جلن کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ جتا کر ہاٹ پاٹ اٹھائے باہر نکل گئی تھی۔ اور احمر گہرا سانس لے کر رہ گیا تھا۔

احمر چکی کے دو پاٹوں میں پیس رہا تھا۔ ایک طرف محبت تھی دوسری طرف صلہ رحمی تھی۔ چھٹی کے دن اچانک ہی عثمان آگئے ان کے ساتھ لبنیٰ بھی تھی۔ آپ تو عید کا چاند ہی ہو گئے ہیں اب دکھائی ہی نہیں دیتے ہیں ۔ لبنیٰ نے احمر سے شکوہ کیا تھا۔ سونیا کا دل جل کر راکھ ہو گیا۔ احمد بھی جوابی مسکراہٹ کے ساتھ بھر پور پرتپاک استقبال کر رہا تھا۔ بھئی سونیا۔ دیکھو تو کون آیا ہے۔ احمر نے اسے صدا لگائی تھی۔ وہ اپنے چہرے پر سپاٹ تاثرات لیے نمودار ہوئی۔ اس نے دیکھا کہ آپا اپنی نند کو گلے لگائے اس کی بلائیں لیتے واری صدقے جارہی تھیں۔ اور عثمان بھائی سے بھی مسکرا کر بات کر رہی تھیں۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ ان کے درمیان ہلکی سی بھی خفگی رہی ہو۔ اور سنائیں عثمان بھائی ! بیگم کے بنا اداس تو ہو گئے ہوں گے۔ سونیا نے کریدنے کے لیے پوچھا تھا۔ ایسی ویسی اداسی ؟ ارے بھئی ، ہمارے تو گھر کی ملکہ ہیں یہ ۔ ان کا ہی تو حکم چلتا ہے گھر پر اب ان کی مرضی تھی کہ چند دن احمر کی طرف رکنا چاہتی ہیں۔ میں نے بھی انکار نہیں کیا۔ جیسا چاہیں۔ عثمان نے سادگی سے کہا۔ احمر حیرت سے آپا کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ کہ خود آپا اس وقت خجالت محسوس رہی تھیں ۔ ہاں تو احمر! کیا میں چند دن رہنے نہیں آسکتی تمہارے گھر ؟ کیا اس کے لیے مجھے اجازت کی ضرورت ہوگی ؟ آپا کو باتیں بنانا خوب آتا تھا۔ احمر نے سختی سے دانت پر دانت جمائے۔ اگرچہ وہ حد ادب میں کچھ کہتا نہیں تھا۔ مگر اب ایسا بھی نہیں تھا کہ اسے آپا کی غلط بیانی اور دروغ گوئی کا احساس نہیں ہوا تھا۔ دراصل یہ کہہ رہی تھیں کہ میں کچھ دن میکے جا کر لبنیٰ کے لیے رشتہ ڈھونڈ مہم شروع کرنے جارہی ہوں لبنیٰ میں تو گویا ان کی جان بسی ہے۔ عثمان نے مسکرا کر کہا تھا۔ اب کے سونیا نے احمر کو گھور کر دیکھا تھا۔ اور وہ سٹپٹا کررہ گیا۔ سونیا نے دوپہر کا پر تکلف سا کھانا تیار کیا تھا۔ لبنیٰ کا ایک بے حد اچھا رشتہ آیا ہے لڑکا اچھا کماتا ہے اور فیملی بھی بے حد اچھی ہے۔ میں آج اس لیے آیا ہوں کہ یہ بھی دیکھ کر اوکے کر دیں۔ ہم سب نے تو پسند کر لیا ہے۔ عثمان صاحب کے کہتے ہی سونیا کو لگا، اس کے کندھوں سے منوں بوجھ سرک گیا ہو۔ وہ اب دل سے مسکرا مسکرا کر باتیں کرنے لگی تھی ۔ جبکہ آپا سوچ رہی تھیں کہ میرے جانے کا سوچ کر ہی سونیا کا موڈ اچھا ہو گیا ہے۔ عثمان اور لبنی کھانے کے بعد رخصت چاہتے باہر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اس وقت لاؤنج میں تین نفوس تھے اور سب کے اندر الگ الگ کشمکش جاری تھی۔ آپا اس قدر غلط بیانی کا مقصد کیا تھا؟ آپ تو میری آپا ہیں۔ آپ جب چاہیں آئیں۔ کیا آپ کو کبھی روکا ہے۔ احمر کے لہجے میں گہرا تاسف گھلا ہوا تھا۔ ہاں، تم نے روکنا تو نہیں تھا۔ مگر میں کیا کرتی تم جانتے ہو پورے آٹھ سال ہورہے ہیں۔ ابھی تک میں عثمان کو اولاد کی خوشی نہیں دے سکی ۔ مگر تم نے دیکھا کہ وہ مجھ پر کس قدر جان چھڑکتے ہیں۔ میری کہی کوئی بھی بات نہیں ٹالتے ہیں۔ میں نے سوچا لبنیٰ سے تمہاری شادی ہو جاتی ہے۔ تو پھر تم بھی آسودہ حال رہو گے اور پھر لبنیٰ بھی تو تمہں چاہتی ہے۔ آپا سے اب کوئی تاویل کوئی جواز بن ہی نہیں پا رہا تھا۔ بس کر دیں آپا۔ بس کر دیں، بہت ہو گئی ۔ وہ غصیلے لہجے میں بولا۔ اس کے انداز میں برہمی اور آنکھوں میں بے چینی تھی۔ مجھے سونیا کہتی رہی۔ مگر میں نے اس کی ایک نہ سنی۔ وہ کہتی رہی کہ عثمان بھائی بہت نرم مزاج ہیں۔ مگر میں ہی تھا۔ جو آپ کی ہر بات پر من وعن یقین کرتا چلا گیا۔ لبنیٰ مجھے پسند کرے یا نہ کرے۔ میں اب ایک شادی شدہ مرد ہوں۔ میرے لیے سب سے اہم میری بیوی ہے۔ آپ نے دراصل لبنیٰ کا نہیں اپنا سوچا۔ اگر یہ وٹہ سٹہ ہو جاتا ہے تو آپ پر کوئی حرف نہیں اٹھا سکے گا کہ آپ نے اولاد نہیں دی۔ کیا آپ نے میرے بارے میں اور سونیا کے بارے میں ایک بار بھی سوچا ؟ سونیا میری محبت ہے اور وہی میری بیوی رہے گی۔ آپ بھی اس سچ کو جتنا جلدی قبول کر لیں اتنا ہی اچھا ہوگا ۔ اگر میں بظاہر آپ کے ہر حکم کو بلا چوں چراں مانتا ہوں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مجھے آپ کی باتوں میں جھوٹ دکھائی نہیں دیتا۔ دراصل آپا میں آپ کی شخصیت کا بھرم نہیں تو ڑنا چاہتا۔ احمر نے تاسف سے کہا۔ اس وقت باہر عثمان نے ہارن بجاد یا تھا۔ وہ سحرش کو بلا رہا تھا۔ اب جائیں۔ اور قدر کریں کہ اتنا محبت کرنے والا مخلص شوہر ملا ہے۔ اس پر اس قدر گھناؤنے الزامات لگاتے ہوئے ہی سوچ لیتیں- احمر نے دکھ سے کہا تھا۔ آپا کچھ کہنا چاہتی تھیں ۔ مگر اب وہ سمجھ چکی تھیں کہ وہ بازی کو مکمل طور پر ہار چکی ہیں۔ ایک ندامت بھری نگاہ انہوں نے احمر اور اس کے بعد سونیا پرڈالی تھی۔ بعض مراتب تقدیر عطا کرتی ہے۔ مگر انسان اپنی بدنیتی اور بد زبانی سے اس مرتبے کو مٹی میں رول دیتا ہے۔ ایسا ہی سحرش آپا کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ ان سب کے جانے کے بعد پورے دس منٹ تک گہری خاموشی چھائی رہی تھی ۔ تب احمر نے اچانک اٹھ کر اس کا من پسند ڈرامہ ٹی وی پر لگا دیا تھا۔ یار! جلدی سے چائے بنا دو۔ سر میں درد ہو رہا ہے۔ وہ شوخ ہوا تھا۔ مگر مجھے تو ڈاکٹر نے بیڈ ریسٹ کا کہا ہے۔ اس نے گویا بم پھوڑا تھا، کیا کہا ؟ مطلب؟ احمر وہی سننا چاہتا تھا۔ جو اس کو سنانا تھا۔ سونیا شرما گئی تھی۔ اس دن جب میری طبیعت زیادہ بگڑی تو میں ڈاکٹر کے پاس گئی تھی ۔ تب معلوم ہوا مگر آپ کو میری یا بچے کی کیا پروا۔ وہ آخری جملہ ادا کرتے ہوئے ناراضی سے بولی۔ پگلی تم ہی تو میری کل کائنات ہو۔ لیکن کیا کروں۔ بندہ بشر ہوں غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ معاف کر دو۔ اس نے باقاعدہ کانوں کو چھوا تھا۔ سونیا کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔ طمانیت بخش ہنسی۔ زندگی کتنی مکمل ہو گئی تھی۔

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS