امی ابو نے جب سے مہرو کو بہو بنانے کا فیصلہ کیا گھر میں ایک عجیب سا ماحول پیدا ہو گیا تھا اگرچہ انہوں نے یہ فیصلہ اپنی اور فرحان بھائی کی مرضی سے کیا تھا لیکن تائی جان سے یہ کڑوی گولی ہضم نہیں ہورہی تھی وہ آئے روز مہرو کے لیے عجیب و غیر یب رشتے ڈھونڈ لاتی تھیں کبھی کسی رنڈوے کا تو کبھی بد مزاج ادھیڑ عمر کنوارے کا کبھی اولاد کے لیے دوسری شادی کرنے والے کا تو کبھی ہر سال نئی شادی رچانے والے کسی رنگین مزاج زمیندار کا، امی ابو کو جلد اس فیصلے تک پہنچانے میں بھی تائی جان کا کردار بہت اہم رہا تھا۔ وہ اور ان کی بیٹی اریبہ اوپر والے پورشن میں رہتی تھیں لیکن ان کا زیادہ وقت نیچے امی جان کے پاس مہرو کے خلاف کان بھرنے اور چلتے پھرتے مہرو پر طنز کے تیر چلانے میں گزرتا تھا اب بھی وہ امی کو کئی بار خطرے کا اشارہ دے چکی تھیں کہ فرحان اور مہرو دونوں جوان ہو چکے ہیں اور جوانی منہ زور گھوڑے کی طرح ہوتی ہے لہذا بہتر ہے کہ میرے بتائے ہوئے رشتوں میں سے ایک پسند کرو اور مہرو کو رخصت کر کے اس سے جان چھڑا لو۔ امی تائی جان جیسی شاطر ذہنیت کی حامل نہ تھیں ورنہ وہ بھی کہ سکتی تھیں کہ تم اپنی بیٹی کے لیے رشتے کیوں نہیں دیکھتیں، وہ بھی تو جوان ہو چکی ہے لیکن امی ان کے دل کا مرض جانتی تھیں کہ ان کی نظر فرحان بھائی پر ہیں تایا جی کی وفات کے بعد ابو نے تائی جان اور اریبہ کی تمام تر ذمہ داری اٹھائی تھی وہ ہر ماہ انہیں باقاعدگی سے خرچ کیے لیے رقم دیتے تھے پھر تایا جی کی دو دکانیں بھی کرائے پر تھیں ان سے بھی اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی اب تائی جان سمجھتی تھیں کہ فرحان بھائی پر بھی انہی کا حق ہے لیکن امی ابو کے بھائی کی رضا مندی اور صلاح مشورے کے بعد اس فیصلے پر پہنچنا کوئی حیران کن بات نہ تھی کیونکہ اس کے پس پردہ مہرو کی کم گو شخصیت اس کی خدمت گزاری اور صبر و استقامت جیسے پہلو تھے۔ مہرو ہماری زندگی میں اچانک آئی ورنہ درحقیقت اس کی نہ ہماری زندگی میں کوئی گنجائش تھی نہ اس کی آمد کے پس پردہ ہماری خواہش شامل تھی بس قدرت نے اسے ہماری زندگی کا حصہ بنا دیا تھا۔ مہرو کے والد میرے ابو کے ساتھ کاروبار کرتے تھے جبکہ امی اس کی پیدائش کے فوراً بعد وفات پا گئی تھیں۔ مہرو کے ابو نے اس کی پرورش دل و جان سے کی لیکن ایک روز ان پر انکشاف ہوا کہ وہ بلڈ کینسر کا شکار ہو چکے ہیں ساری جمع پونچی علاج پر لگا دی لیکن افاقہ نہ ہوا اور ایک روز میرے ابو کو بلوایا اور انہیں کہا۔ میرا اس دنیا میں مہرو کے علاوہ کوئی نہیں اور میں سکون سے جب مروں گا اگر تم میری بیٹی کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری لیتے ہو کیونکہ مجھے یہ امانت سونپنے کے لیے دنیا میں تم سے زیادہ بہتر کوئی انسان نظر نہیں آتا۔ انہوں نے میرے والد کا ہاتھ پکڑ کر مہرو کے سر پر رکھ دیا – ان کی وفات کے بعد ابو مہرو کو گھر لے آئے تو امی نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ان کا اعتراض بھی بجا تھا کیونکہ ابھی وہ صرف دس سال کی تھی یعنی میری ہم عمر اور فرحان بھائی تیرہ سال کے تھے کل انہیں جوان بھی ہونا تھا وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ ایک گھر میں ایک غیرلڑکی کوکیسے رکھ سکی تھیں لیکن ابو نے انہیں سمجھایا کہ یہ بچی بہت سمجھ دار اور معصوم ہے تم اس کی جوحدود مقرر کروگی یہ اس میں رہے گی اور پھر ایسے ہی ہوا۔ وہ میرے ساتھ اسکول جاتی اور واپسی پر میرے اور اپنے مشترکہ کمرے تک محدود رہتی لیکن اس کے اور میرے مزاج میں بہت فرق تھا میں پڑھائی سے قدرے بے پروا اور باتونی تھی میری طبیعت میں شوخی تھی لیکن وہ بہت کم گو بلکہ ضرورتاً بولتی تھی، اس کی دوستی بھی صرف کتابوں سے تھی یا پھر کسی حد تک مجھ سے۔ اس میں قصور اس کا نہ تھا حالات نے ہی اس سے اس عمر میں ایسے کھیل کھیلے کہ سنجیدگی اس کی فطرت بن گئی تھی، چھٹی کے دن میں دوپہر تک سوتی رہتی لیکن وہ جلدی اٹھ جاتی اور کچن میں امی کی مدد کروانا شروع کر دیتی ۔ آہستہ آہستہ میری امی کا دل اس کی طرف سے نرم ہوتا گیا وہ اکثر مجھے ڈانٹتی تو اس کی مثال دیتی تھیں کہ وہ بھی تو تمہاری ہم عمر ہے اور کتنی سلیقہ مند اور تابعدار ہے۔ مہرو کا فرحان سے سامنا کم ہی ہوتا تھا فرحان صبح اسکول چھٹی کے بعد ٹیوشن اور پھر مغرب تک باہر گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلنے چلا جاتا تھا۔ وہ اور میں رات کا کھانا اکٹھے کھاتی تھیں جب فرحان گھر پر ہوتا تو وہ کمرے سے کم ہی نکلتی تھی اب اس نے ایک اور نئی عادت اپنالی تھی وہ یہ کہ رات کو سونے سے پہلے امی کی ٹانگیں دبانا جب میں نیند کے مزے لے رہی ہوتی تھی تو وہ امی کی دن بھر کی روداد سنے کے ساتھ ان کی ٹانگیں دبا رہی ہوتی تھی۔ اسی دوران تایا جی کی وفات کے بعد ابو تائی جان اور اریبہ کو گھر لے آئے اور اوپروالا پورشن رہنے کے لیے انہیں دے دیا۔ کچھ ہی دن بعد تائی جان نے پر پھیلا نے شروع کر دیئے اور بہانے بہانے سے امی کو سنانے لگیں کہ آنے والے دنوں کے لیے مہرو خطرے کی گھنٹی ہے لیکن امی کو بظاہر ایسے آثار نظر نہیں آرہے تھے اس لیے وہ خاموش ہو جاتیں۔ اربیبہ حد سے زیادہ مغرور تھی وہ مہرہ تو در کنار ہم سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کرتی تھی۔ حد سے زیادہ فیشن ایبل اور بے ڈھنگے کپڑے پہننا اس کا معمول تھا بس فرحان بھائی کے آگے پیچھے پھرتی رہتی امی کو اس کی یہ عادت بالکل پسند نہ تھی جب مہرو نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو وہ ہے انتہا خوب صورت ہوگئی اور حد سے زیادہ سگھڑ، اس نے بی اے تک پہنچتے پہنچتے کڑھائی سلائی اور بہترین کھانا پکانے میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ بی اے کے امتحانات کے فوراً بعد میری شادی ہوگئی ابو نے مہرو کو بھی مزید پڑھانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ وہ اس کی ذمہ داری سے بھی جلد از جلد فارغ ہونا چاہتے تھے۔ تائی جان بھی لوہا گرم دیکھ کرضرب لگانے سے باز نہ آتیں۔ دیکھو شگفتہ جتنی جلدی ہو سکے اس لڑکی کے بوجھ کو اتار پھینکو دیکھ تو بچا کچھا کھا کر کیسے بھرپور جوانی اس پر آئی ہے رنگ دیکھو جیسے انار کے پانی سے منہ دھوتی ہو اس نے کل کو اگر فرحان کو اپنے حسن کے جال میں جکڑ لیا اور خدانخواستہ کچھ غلط کر بیٹھے تو انعام اللہ بھائی کی عزت اور مان تو جا تا رہے گا۔ تائی جان کے گلے میں وہ کباب میں ہڈی کی طرح پھنسی ہوئی تھی۔ ٹھیک ہے آپا مگر کچھ وقت تو لگے گا ناں ۔ امی الجھ کرکہتیں تو وہ اچھل پڑتیں۔ ارے وقت لگنے والی کون سی بات ہے کل میں نے جو رشتہ بتایا تھا اس پر راضی ہو جاؤ تین بچوں کا باپ اور رنڈوا ہے تو کیا ہوا تمہارا فرض تو ادا ہو جائے گا ناں۔ کیسی بات کر رہی ہیں آپا، میں نے مہرہ کو ہمیشہ فرحانہ کی طرح سمجھا ہے آنکھوں دیکھے اسے کنویں میں کیسے دھکیل سکتی ہوں۔ یہ سن کر تائی جان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ کمال ہے آج کے دور میں بھلے کی بات کرنا ہی جرم ہے، انہوں نے ہاتھ ہلا کر کہا اور زور زور سے پاؤں زمین پر مارتی وہاں سے چلی گئیں۔ امی کو اگرچہ مہرہ اور فرحان بھائی پر پورا بھروسہ تھا مہرو نے تو کبھی فرحان بھائی سے کھل کر بات بھی نہ کی تھی اس نے پورے کچن کا نظام سنبھالا ہوا تھا مگر فرحان بھائی کو کوئی چیز دینی ہوتی تو وہ امی کے ذریعے بھجواتی۔ ہمیشہ نظریں نچی رکھتی لیکن پھر بھی اس کی ذمہ داری کو تو ادا کرنا تھا ناں۔ ایک روز امی نے ابو اور فرحان کے آگے اس کے لیے کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈنے کا ذکر کیا تو ابو ایک لمحے کو سوچے بنا بولے۔ بھئی رشتہ ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے گھر کی بچی ہے دیکھی بھالی نیک اور شریف خدمت گزار بھی ہے فرحان اگر راضی ہے تو میرا خیال ہے ہمیں بھی اعتراض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ابو کی بات سن کر امی نے حیرت سے دونوں کو دیکھا فرحان بھائی سر جھکائے خاموش بیٹھے رہنے امی ان کی بات کافی حد تک سمجھ چکی تھیں لیکن آج وہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا چاہتی تھیں۔ میں آپ کی بات نہیں سمجھی فرحان راضی ہے تو ۔ کیا مطلب؟ بھئی اتنی ناسمجھ تو تم ہو نہیں ۔ ابو مسکرائے۔ میرا مطلب ہے فرحان نے مہرو کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار کیا ہے مجھ سے اور میں بھی اس خواہش پر خوش ہوں۔ ابو کی بات سن کر امی نے حیرت اور خوشی سے ملا جلا قہقہہ لگایا۔ جب آپ دونوں راضی ہیں تو بھلا مجھے اور فرحانہ کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے اچھا ہے میں رشتے دیکھنے کے جھنجٹ سے بچ جاؤں گی۔ مگر شگفتہ مہرو سے بھی پوچھ لینا اس نے تو پہلے بھی کبھی ہمارے کسی فیصلے سے انکار نہیں کیا مگراسے یہ احساس نہ ہو کہ ہم نے اس سے پوچھنا ہی ضروری نہیں سمجھا۔ جی جی کیوں نہیں۔ جب امی نے مہرو سے پوچھا تو اس کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہنا شروع ہو گئے امی گھبرا گئیں۔ بیٹا تمہیں کوئی اعتراض ہے تو ہمیں صاف بتا دو ہم زبردستی نہیں کریں گے۔ نہیں امی بھلا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے آپ لوگوں کی محبت تو میرے لیے اللہ تعالیٰ کی کسی بڑی نعمت سے کم نہیں یہ تو خوشی کے آنسو ہیں کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔ اس نے ہتھیلیوں سے رگڑ کر آنکھیں صاف کیں تو امی نے پیار سے گلے لگایا۔ جب یہ خبر تائی جان کے کانوں میں گئی تو وہ اریبہ پر برس پڑیں۔ دیکھ لو خون سفید ہو گیا ان کا ایک غیرلڑکی کو تم پر ترجیح دی وہ فرحان کو تم سے چھین کر لے گئی اور تم انڈین ڈرامے دیکھتی رہ گئیں ۔ تائی جان نے ٹی وی اسکرین پر نگاہیں گاڑھے اریبہ کے ہاتھ سے ریمورٹ لے کر ٹی وی بند کر دیا۔ تو امی اب میں کیا کروں چیخ و پکار کروں ان کے قدموں میں گر جاؤں کیا کروں اب میں۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی تائی جان اس کے پاس بیٹھ گئیں۔ اریبہ میں تمہیں کہا کرتی تھی کہ ان کو مٹھی میں رکھو ان کے آگے پیچھے پھرا کرو تا کہ تم ان کی نظروں میں رہو مگر تمہاری تو اپنی ہی دنیا تھی سارا دن سونا، ٹی وی دیکھنا یا پھر ماڈل گرلز کی طرح بن سنور کر ہر وقت نخرہ ناک پر بٹھائے رکھنا۔ تائی جان اب بری طرح سے پچھتا رہی تھیں۔ امی آپ کے کہنے پر ہی میں فرحان کی سو طرح سے خوشامد کرتی تھی اس کے من پسند امور پر باتیں کرتی، جب وہ ہی مہرو کو اپنانے پر راضی ہو گیا ہے تو میں کیا کروں اور باقی گھر والوں سے تو مجھے ہمیشہ سے چڑ رہی ہے ان کے ہمراہ تو کبھی میرا مزاج ملا ہی نہیں ۔ اس نے منہ بنا کر کہا اور انگلیاں بالوں میں پھیرنے لگی۔ خیر میرا نام بھی نفیسہ بیگم ہے فرحان اس لڑکی سے شادی کر بھی لے مگر میں بھی ضد کی پکی ہوں، سکون سے نہیں بسنے دوں گی اس مہرو نام کی چڑیل کو، اسے ہر لمحہ اس کی کے اوقات یاد دلاتی رہوں گی ۔ تائی جان مسلسل دانت پیس رہی تھیں۔
فرحان بھائی اور مہرو کی شادی دھوم دھام سے ہوگئی شادی کے بعد مہرو نے ہلکا میک اپ کرنا شروع کر دیا۔ وہ امی اور ابو کے تمام کام بھاگ بھاگ کے کرتی تھی ان کے من پسند کھانے پکانا ملازمہ ہونے کے باوجود ان کے کپڑے اپنے ہاتھ سے دھونے استری کرنے، میں جب بھی میکے آتی تو وہ مجھے کہتی۔ فرحانہ مجھے دلی خوشی ہوتی ہے جب میں امی ابو کے کام اپنے ہاتھ سے کرتی ہوں۔ مگر مہرو کچھ وقت خود کو بھی دیا کروناں۔ کیا مطلب فری؟ وہ سبزی کاٹتے ہوئے میری طرف دیکھنے لگی میں نے باسکٹ سے ایک گاجر اٹھا کر کھانی شروع کردی۔ مطلب بنا سنورا کر ٹی وی دیکھا کرو وغیرہ وغیرہ۔ جس دن فرحان کی چھٹی ہوتی ہے تو میں ان کی پسند کا لباس پہنتی ہوں اور مہندی چوڑیاں بھی یہ سب انہیں پسند ہیں۔ یہ کہتے ہوئے مہرو کے چہرے پر خوشی اور مسرت کا ایک رنگ آرہا تھا اور دوسرا جا رہا تھا۔ مہرہ بہت بڑے دل کی مالک تھی یہ اسی کی فطرت معصومیت اور ہر ایک کا خیال رکھنے کی عادت تھی کہ امی فوراً ایسے اکلوتے اور لاڈلے بیٹے کی دلہن بنانے پر راضی ہوگئی تھیں ۔ اسے تائی جان کی تلخ اور طنزیہ باتیں کتنی ہی نا گوار کیوں نہ گزرتیں اس نے کبھی چہرے سے ناپسندیدگی کا کوئی تاثر دینے کی کوشش نہ کی تھی۔ تائی جان ایک روز نیچے آئیں تو انہیں مہرو پر بھر پور طریقے سے طنز کرنے کا موقع مل گیا کیونکہ امی اور ابو دودنوں ایک شادی کی تقریب میں گئے ہوئے تھے۔ میں اپنے گھر جانے کی تیاری میں لگی ہوئی تھی اور وہ لاوُنج میں آکر میرے پاس بٹھ گیں، جہاں کچن سے کام کرتی مہرہ صاف نظر آ رہی تھی۔ کس وقت سرگودھا واپسی ہے بیٹا ؟ جی کل صبح جانا ہے۔ میں نے کپڑوں کو تہہ لگاتے جواب دیا۔ چلو پھر اللہ خیر کرے اریبہ کی کسی اچھے گھر میں بات پکی ہو جائے پھر تمہیں بلواؤں گی شادی کی خریداری اس کے ساتھ تم نے مکمل کروانی ہے۔ تائی جان کی آنکھوں میں چمک تھی جو من پسند باتیں کرتے ان کی آنکھوں میں آ جاتی تھی- جی ضرور کیوں نہیں۔ اللہ کرے میری بیٹی کو کوئی اچھا خاندان ملئے بے نسلے لوگ نہ ہوں کہ جن کا آگے پیچھے بھی کوئی نہ ہو تائی جان کا واضح اشارہ مہرو کی طرف تھا جو کچن میں یہ سب سن رہی تھی- تائی جان … آج کے دور میں خاندان نسل ذات کو کون دیکھتا ہے شریف اور پڑھے لکھے لوگ ہونا ہی کافی ہے- نہیں نہیں بیٹا یہ سب کیوں نہیں دیکھا جاتا بھئی میں تمہیں اس کی ایک مثال دیتی ہوں، دیکھو اللہ سلامت رکھے فرحان کو کل کو اس کی اولاد ہوگی تو لوگ ان کے نھنیال کا تو پوچھیں گے ناں کہ کیسے لوگ تھے کردار کیسا تھا اب یہ تو ہم کہنے سے رہے کہ فرحان کے بچوں کا ننھیال ان کی ماں سے شروع ہوتا ہے، بھئی مہرو بے چاری کا آگے پچھے تو کوئی ہے نہیں۔ یہ کہتے ہوئے تائی جان نے آنکھیں مٹکا کر مہرو کی طرف دیکھا۔ تائی جان مہرو کے پیچھے کوئی ہے یا نہیں اس سے ہمیں غرض نہیں لیکن ہم سب بھی تو اب اس کے اپنے ہیں ناں۔ میں نے یہ سب نرمی سے کہا لیکن تائی جان کو اچھا نہیں لگا کیونکہ مہرو کے حق میں کوئی بات کرنا انہیں انگاروں پر بٹھانے کے برابر تھا۔ ٹھیک ہے بیٹا ٹھیک ہے تم سب جس کے اپنے بن بیٹھے ہو دیکھتے ہیں وہ کہاں تک تم لوگوں کے ساتھ چلتی ہے دیکھ لینا ایک دن یہ اپنا اصل رنگ دکھائے گئی ارے جو خاموش طبع اور معصوم بنی پھرتی ہے ناں یہ صرف اچھے وقتوں کی ساتھی ہے آزمائش میں یہ جا اور وہ جا والی بات ہوتی ہے ان کی میرا تجربہ ہے دنیا دیکھی ہے میں نے، تائی جان کی بات سن کر مجھے شدید غصہ آرہا تھا لیکن پھر بھی میں نے ضبط کر لیا کیونکہ ابو نے واضح کہا تھا کہ وہ جو کہیں صبر سے سن لینا کیونکہ اول تو گھر میں بے سکونی کا ماحول انہیں سخت نا پسند تھا۔ دوسرا لوگ یہ نہ کہیں کہ بیوہ بھابی اور بھتیجی سے شاید ہم لوگ تنگ آگئے ہیں تبھی گھر میں لڑائی جھگڑے والے حالات پیدا کر رہے ہیں، سو میں برابری کی بنیاد پر ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھی میں نے انہیں منہ بنا کر جاتے دیکھ کر صرف اتنا کہا۔ تائی جان یہ تو وقت بتائے گا۔ اگلے روز میں سرگودھا اپنے گھر چلی گئی کیونکہ میرے اکلوتے بیٹے عبداللہ کے دادا دادی بار بار کال کر رہے تھے کہ عبداللہ کے بغیر ان کا دل بہت اداس ہے۔ مہرو کی شادی کو تین ماہ گزر چکے تھے کہ ابو کو ایک روز اچانک فالج کا اٹیک ہوا انہیں فوراً ہسپتال لے جایا گیا امی اور بھائی ابو کے ہمراہ تھے پیچھے مہرہ اکیلی تھی۔ تائی جان اور اریبہ فرضی آنسو بہاتے اوپر نیچے کے چکر کاٹنے لگیں پڑوس سے کوئی خیریت پوچھنے آتا تو اس کے سامنے رونا شروع کر دیتیں۔ ہائے میرے اللہ یہ ہمارے گھر میں کیسی نحوست پھیلی ہوئی ہے کبھی شگفتہ بہن کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے تو بھی مجھے جوڑوں کا درد سر نہیں اٹھانے دیتا اور اب بھائی صاحب کو فالج جیسے مرض نے آلیا۔ اس گھر میں کوئی صحت مند ہے تو بس مہرو مجھے تو لگتا ہے اس نے سب پر جادو منتر کروا دیئے ہیں ہم نے کیا برا کیا اس کے ساتھ ۔ وہ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو رگڑ کر مہرو پر چوٹ کر رہی تھیں جو خاموش بغیر کوئی تاثر ظاہر کیے سن رہی تھی۔ جب ابو کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو انہیں گھر لایا گیا۔ اتنے دن مہرو نے تائی جان کے جو طعنے اور طنزیہ تیر اپنے جسم و روح میں پیوست کیے تھے آج ابو کے گلے لگ کر آنسوؤں کی صورت میں انہیں بہا دیا ۔ اس نے ابو کے ہاتھوں کا بوسہ لیا- ابو آپ میری زندگی کا وہ انمول اثاثہ ہیں کہ اگر آپ کے کردار کو میری زندگی سے نکال دیا جائے تو میرے پاس تا عمر کی سیاہ رات کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا، آپ ایسے وقت میں میرا سہارا بنے جب میرے لیے اللہ کے سوا کوئی نہ تھا ابو میری ہر ہر سانس آپ کی احسان مند ہے۔ یہ کہہ کر وہ سسکنے لگی تو ابو نے لرزتے ہوئے ہاتھ کو شفقت سے اس کے سر پر رکھا۔ بیٹا والدین کا بیٹیوں پر کوئی … احسان نہیں ہوتا اگرچہ ابو کی حالت پہلے سے بہت بہتر تھی لیکن اطمینان بخش بات یہ تھی کہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ وہ فزیو تھراپی سے تیزی سے بہتر ہو جائیں گے۔ میں صرف ایک دن کے لیے آئی تھی کیونکہ میرے سسر بھی بیمار تھے میرا مزید ایک دن رہنے کا ارادہ بنا بھی لیکن امی نے کہا ہے کہ ہم تمہیں فون پر خیریت دیتے رہیں گئے مناسب ہے کہ اب تم واپس چلی جاؤ جب تمہارے سسر صحت یاب ہو جائیں تو آ جانا سو مجبوراً مجھے واپس جانا پڑا۔ ابو کی عیادت کے لیے آنے والوں کی وجہ سے مہرو پر کام کا بہت بوجھ بڑھ گیا تھا جبکہ ملازمہ بھی بیٹی کی بیماری کا بہانہ کر کے تائی جان سے چھٹی لے کر چلی گئی تھی ۔ پنڈی سے بڑی پھوپو اپنے دو بچوں کے ہمراہ کوئی مہینہ بھر رہیں، چھوٹی پھوپھو بچوں کے امتحانات کی وجہ سے ابا کی خیریت پوچھنے نہ آسکی تھیں وہ جب آئیں تو بچوں کے ہمراہ یہاں آٹھ دس دن گزار گئیں۔ باقی دور کے تمام رشتہ دار بھی تین تین چار چاردن گزارتے رہے- مہرو یہ کیا تم کام میں لگی ہو؟ مہرو کی بچپن کی دوست رمشا کی آواز پر ساتھ والے کمرے میں موجود امی کے کان میں کھڑے ہو گئے۔ ہاں تو ، مہرو نے مختصر کہا- مگر مہرو اب مجھے شاید بات دہرانے کی ضرورت تو نہیں یار میں آنٹی سے بات کرتی ہوں۔ نہیں نہیں مہرو کی آواز آہستہ تھی٠ نہیں تم ہرگز کچھ نہیں کہو گی میں آج اس مشکل اور ضرورت کے وقت آرام کرنے بیٹھ جاؤں تو میرا اس گھر میں ہونے کا کیا فائدہ مجھے کام میں ہی سکون مل رہا ہے آؤ کچن میں میں چائے بناتی ہوں۔ وہ دونوں کچن میں چلی گئیں مہرو پر کام کا بوجھ واقعی بڑھ گیا تھا امی اس کی ہمت پرٹھنڈی سانس لے کے رہ گئیں۔
دن پر دن گزرتے گئے اور ابو کی حالت کافی بہتر ہوگئی وہ بغیر کسی سہارے کے ہلکا پھلکا چلنے بھی لگے تھے، ایک روز ابو کو یخنی کا باؤل دے کر واپس جانے لگی تو ابو نے بغور اس کی طرف دیکھا۔ شگفتہ میں کچھ دن سے دیکھ رہا ہوں کہ مہرو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس کا چہرہ کتنا زرد ہو رہا ہے ، آنکھیں اندر کو دھنس چکی ہیں اور دن بدن ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوتی جارہی ہے تم ساس ہو اس سے پوچھتی کیوں نہیں کیا ہوا ہے اسے؟ ہاں نوٹ تو میں بھی کر رہی ہوں گر کام کا بوجھ تھوڑا رہا ہے اس پر ایک لمحے کو تو بیٹھنے کی فرصت نہیں ملی اسے کمزور تو ہونا تھا۔ ایک تو کم بخت بانو نے پھر پلٹ کر خبر نہیں لی دو مرتبہ آپا گئیں بھی ہیں اس کے گھر مگر آج کل کے نوکروں کے تو نخرے ہی بہت بڑھ گئے ہیں۔ امی بانو کوکوسنے لگیں۔ بہر حال مجھے مہرو کی حالت بہتر نہیں لگ رہی فرحان ان کا رویہ بھی ٹھیک ہے اس کے ساتھ خیر تم پوری تسلی کرو کہ اسے کیا پریشانی ہے؟ یہ کہہ کر ابو نے ریموٹ سے ٹی وی ت آن کیا اور امی جی اچھا کہہ کر وہاں سے اٹھا گئیں۔ مہرو کا طبیعت کی خرابی سے برا حال تھا لیکن وہ خاموش رہی کیونکہ امی اور بھائی ابو کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جارہے تھے انہیں رخصت کر کے وہ بستر پر آ کر لیٹ گئی۔ وہ درد سے کراہ رہی تھی کہ تائی جان کی آواز آئی۔ مہرو ذرا اوپر آنا ایک کام ہے تم سے ۔ اس نے ان کی آوازسن لی تھی لیکن اٹھنے کی ہمت نہیں تھی سوخاموش لیٹی رہی۔ تھوڑی دیر بعد تائی جان اس کے پاس آکھڑی ہوئیں۔ دیکھ مہرو میں تجھے اریبہ جیسا سمجتھی ہوں اس لیے کام کہہ دیتی ہوں اب میں نے کتنی آوازیں لگائی ہیں اور تو نے جواب نہیں دیا ۔ نہیں تائی جان میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے وہ بری طرح پسینے میں شرابور ہورہی تھی۔ اب یہ بہانہ بھی گھڑ لیا تا کہ میں تجھے کام نہ کہوں خیر تیری مرضی، تائی جان اوپر جانے لگیں تو وہ اٹھے کر لڑکھڑاتے ہوئے ان کے پیچھے چل دی۔ جی بتائیں کیا کام ہے میں کر دیتی ہوں۔ ہاں آجا شاباش اوپر وہ اریبہ اپنے کمرے کی سیٹنگ تبدیل کرنا چاہتی تھی ذرا اس کے ساتھ صوفہ اور بیڈ دوسری جگہ پر رکھوانے ہیں۔ یہ سن کر وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ایک دم سے رک گئی لمحہ بھر کو کرنے یا نہ کرنے میں الجھنے کے بعد وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اوپر چلی گئی۔ اریبہ نے الماری، صوفہ سیٹ اور بیڈ اس کے ہمراہ اٹھوا کر رکھا۔ فارغ ہو کر جب وہ نیچے آئی تو درد کی کچھ شدید ٹیسیں چھری کی طرح اس کے جسم کو چیرنے لگیں۔ وہ بے حال ہو کر بستر پر گر پڑی کئی مرتبہ تائی جان اور اریبہ کو پکارا لیکن وہ اپنا کام نکال کر مطمئن ہو چکی تھیں جب ابوامی اور فرحان بھائی گھر پہنچے تو مہر و بے حال پڑی و نیم بے ہوش تھی اسے فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا۔دو گھنٹے تک آئی سی یو میں رکھا گیا سب کی آنکھیں نم تھی مہرو کا چار ماہ کا حمل ضائع ہو گیا تھا لیکن سب کو یہ اطمینان تھا کہ مہرو کی زندگی بچ گئی۔ امی کوسمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ عورت ہو کر مہرو میں ہونے والی اس تبدیلی سے انجان کیسے ہوئیں۔ مہرو نے خود سی کو بھنک بھی نہ پڑنے دی تھی وہ پوری پھرتی اور لگن سے گھر کے تمام امور سر انجام دیتی رہی۔ ابو کی عیادت کے لیے آنے والے مہمانوں کے لیے ہمہ وقت میزبانی کے لیے تیارتھی۔ ڈاکٹر نے اس کی تفصیلی رپورٹ فراہم کرنے کے لیے دو دن کا وقت مانگا- ہمارے گھر میں اگر اس نقصان پر مطمئن تھیں تو تائی جان اور اریبہ، دودن بعد امی مہرو کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گئیں تو ڈاکٹر نے دل دہلا دینے والی خبر سنائی کہ اب مہرو کبھی ماں نہیں بن سکے گی کیونکہ اس کا اندرونی نظام مسلسل بے احتیاطی اور وزنی کام کرنے کی وجہ سے شدید متاثر ہوا ہے، یہ سن کرمہرو پتھر کی بنی بیٹھی رہی صرف اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں ٹوٹ ٹوٹ کر گود میں گرتی رہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ ہمیں مکمل طور پر تو ناامید مت کریں میرا ایک ہی بیٹا ہے بھلا اس کا خالی آنگن میں کیسے برداشت کرسکتی ہوں۔ دیکھیں بی بی جب یہ اپنی ایک دوست کے ہمراہ شروع میں میرے پاس آئی تھیں تو میں نے صاف کہا تھا کہ آپ کو آرام اور سکون کی ضرورت ہے لیکن انہوں نے تو بے احتیاطی کی حد ہی کر دی بہر حال آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ ڈاکٹر بینیش نے تو اپنی بات ختم کر دی لیکن مہرو اور امی بہت ٹوٹ چکی تھیں جب گھر واپس آئیں تو امی نے ابو کو بتایا تو وہ بھی بہت زیادہ پریشان ہو گئے۔ مہرو نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا اور ہر وقت پتھر کی بنی بیٹھی رہتی تھی بھائی ایک ضروری کام سے اسلام آباد گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے فون پر امی سے مہرو کی رپورٹ کے بارے میں پوچھا تو امی نے ٹھیک ہے کہہ کر انہیں مطمئن کر دیا۔ وہ مہرو سے بات کرانے کا کہتے تو امی انہیں ٹال دیتی تھیں۔ دیکھو مہرو بیٹا یہ صرف تمہارا اکیلی کا دکھ نہیں ہے ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں اگر دکھ درد میں تم نے ہماری ڈھارس بندھائی ہے تو اب ہم بھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے ۔ امی نے الجھے بالوں کو اس کے چہرے سے ہٹایا اس کی آنکھیں رو رو کر سرخ ہو چکی تھیں اور چہرہ پیلا زرد تھا اس کی حالت دیکھ کر امی کا دل مزید بجھ گیا۔ مہرو بیٹا اگر ڈاکٹر نے ہمارے لیے تکلیف دہ بات کی ہے تو وہ بھی تو ہماری طرح کی انسان ہے اور اس نے انسانی سوچ کے پیمانے پر ایسی بات کی ہے مگر بیٹا ایک عظیم ذات اللہ تعالیٰ کی بھی ہے اگر وہ کیڑے کو پتھر میں روزی دے سکتا ہے تو تمہارے دامن میں کوئی پھول کیسے نہیں کھلا سکتا ، مایوسی کو تو ویسے بھی کفر قرار دیا گیا ہے۔ مہر و نے نظریں اٹھا کر امی کی طرف دیکھا کہ جیسے امی کے الفاظ نے اس کو امید کا ایک نیا در دکھایا جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ امی واقعی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مجھے اپنے اللہ سے بھر پور یقین کے ساتھ مانگنا چاہیے۔ اس نے محبت سے امی کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ امی میں اپنے اللہ سے رو رو کر مانگوں گی میں اسے ہر اس ہستی اس مقام اس چیز کا واسطہ دوں گی جو اسے بہت عزیز ہے۔ میں اس دن کا واسطہ دوں گی جب اپنے ابو کی وفات کے بعد میں بے یارو مددگار رہ گئی تھی میرے تمام رشتہ دار اپنے اپنے گھروں میں پلٹنے کی تیاری کر رہے تھے جب وہ آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے کہ لڑکی ذات ہے جس نے ذمہ داری کی کل کو جہیز بھی دینا پڑے گا سب نہ رکھ سکنے کے جواز پیش کر رہے تھے کوئی گھر چھوٹا ہونے کا تو کوئی کم آمدنی کا میں نوعمر اس فیصلے کے انتظار میں گم سم بیٹھی تھی کہ کون میرا طوق اپنے گلے میں ڈالے گا کہ ابو میرے لیے رحمت کا فرشتہ بن کر آئے میں ایک دم سے تپتی دھوپ سے گھنے سائے میں آگئی یہ بھی تو اللہ تعالی نے مجھ پر مہربانی کی تھی ناں۔ امی شاید میں بدل گئی ہوں حالات و واقعات بدل گئے ہیں مگر میرا اللہ تو وہی ہے ناں۔ کیوں نہیں بیٹا وہ تمہاری دعا ضرور سنے گا اچھا اٹھو اب منہ ہاتھ دھولو میں کھانا لے کر تمہارے ابو کے پاس چارہی ہوں وہیں مل کر کھائیں گے ۔ وہ بھی تمہاری حالت دیکھ کر بہت دکھی ہیں اب خوش ہو جائیں گے ۔ امی یہ کہہ کر کچن کی سمت چل دیں اور وہ واش روم میں چلی گئی۔ زندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہوگئی ابا کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہو گئی تھی زبان کی تھوڑی سی لکنت باقی تھی ورنہ وہ بغیر کسی سہارے کے چل پھر سکتے تھے۔ وہ دوبارہ سے اپنا کاروبار کرنا چاہتے تھے لیکن بھائی نہ مانے کیونکہ بھائی کا شمار شہر کے اچھے وکیلوں میں ہونے لگا تھا اس لیے آمدنی بھی اچھی خاصی تھی ۔ مہرو نے خود کو گھر کے کاموں میں مصروف کر لیا جو فارغ وقت بچتا تھا تو وہ عبادت میں گزار دیتی تھی امی ابو بھی دل سے اس کے لیے دعا گو رہتے تھے فرحان بھائی بھی اسے حوصلہ دیتے تا کہ وہ نا امید نہ ہو۔ اسی دوران اریبہ کے لیے کئی اچھے رشتے آئے لیکن تائی جان نے کوئی نہ کوئی خامی نکال کر لوٹا دیئے۔ ابو تائی جان کی اس عادت سے بیزار رہنے لگے تھے وہ چاہتے تھے کہ مناسب جگہ دیکھ کر رشتہ کر دیا جائے لیکن تائی جان کی نظریں آج بھی شاید فرحان بھائی پر تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ کسی روز امی ابو حالات کے آگے تھک جائیں گے تو مجبوراً اریبہ کا فرحان بھائی کے لیے انتخاب کریں گے۔ فرحان کو وہ بچپن سے ہی اپنا داماد کہتی تھیں اور اگر مہرو ہماری زندگی کا حصہ نہ بنتی اور اریبہ میں کچھ سعادت مندی کا عنصر موجود ہوتا تو ابو تائی جان کی عادت کو نظر انداز کر کے اریبہ کو اپنی بہوبنا لیتے، مگر تائی جان ایسا نہ ہونے کا سارا الزام مہرو پر لگاتی تھیں پھر اریبہ کے دل میں بھی فرحان بھائی کے لیے جگہ موجود تھی۔
وقت پوری پھرتی کے ساتھ بغیر کسی رعایت کے ساتھ گزر رہا تھا فرحان بھائی کی شادی کو چھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ امی نے مہرو کے لیے کوئی ڈاکٹر نہ چھوڑا کہ جس سے علاج نہ کروایا ہو۔ کئی درگاہوں اور مزاروں کے چکر لگائے گھریلوٹوٹکے آزمائے۔ کہتے ہیں غرض مند دیوانہ ہوتا ہے جس نے جدھر کی راہ دکھائی جہاں امید کا ہلکا سا جگنوٹمٹماتا نظر آیا ادھر کو چل دوڑے لیکن ہاتھ کچھ نہ آیا۔ گھر میں ہر نعمت موجود تھی لیکن ایک کسک باقی تھی جس کی شدت میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا تھا۔ امی اپنے اکلوتے بیٹے کی زندگی کا یہ ادھورا پن محسوس کر کے دن رات اداس رہنے لگی تھیں، دل بے شک آمادہ نہ ہوتا لیکن اب انہوں نے تصویر کے دوسرے رخ پر سوچنا شروع کر دیا تھا اور وہ اریبہ کو خصوصی توجہ دینے لگی تھیں ایک روز انہوں نے کال کر کے مجھ سے رائے لی تمام بات مکمل کرنے کے بعد وہ ٹھہر کر بولیں۔ تمہاری کیا رائے ہے؟ میں امی کے اندر واقع ہونے والی اس تبدیلی پر حیران نہ تھی کیوں کہ اب اس کے علاوہ دوسری کوئی صورت بظاہر نظر بھی نہیں آتی تھی۔ کیا مہرو اور فرحان بھائی اس بات پر راضی ہو جائیں گے؟ فرحان سے میں نے بات کی ہے لیکن اس نے صاف انکار کر دیا ہے کہ مہرو کو دکھ نہیں دے سکتا مگر مجھے یقین ہے اگر مہرو کو اس نے قائل کرنے کی کوشش کی تو وہ ہمیشہ کی طرح اس بات پر بھی راضی ہو جائے گی اور فرمان کو بھی منا لے گی۔ امی نے یہ بات بہت آسانی سے کہہ دی تھی انہوں نے شاید پہلی مرتبہ مہرو کی ساس بن کر اس کے بارے میں یہ رائے دی تھی۔ شاید مہرو پیدا ہی قربانی دینے کے لیے ہوئی تھی اریبہ اور امی کے مزاج میں اگرچہ بہت فرق تھا مگر اس بات کی تسلی تھی کہ گھر کی بات گھر میں ہی رہے گی اور رشتہ طے ہو جائے گا پھر تائی جان کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی پھر وہی ہوا امی نے جب مہرو سے بات کی تو اس پر جو بھی گزری مگر وہ راضی ہوگئی اور بھائی کی طرف سے بھی رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ امی نے تائی جان کے کانوں میں بھی یہ بات ڈال دی تھی اور تائی جان نے بھی رضا مندی کا اظہار کر دیا تھا مگر اریبہ نے لوہا گرم دیکھ کر ضرب لگادی کہ وہ بھائی کے ہمراہ شادی پر تب راضی ہوگی اگر وہ مہرو کو چھوڑیں گے وہ سمجھتی تھی کہ مہرو کی حیثیت اب ہمارے گھر کے لیے محض نوکرانی سی رہ گئی ہے جس کا بچپن سے لے کر اب تک کام سب کی خدمت کرنا اور انہیں راضی رکھنا ہے۔ تائی جان بھی اریبہ کی اس سوچ سے متفق نہیں تھیں امی نے تائی جان کو اریبہ کو سمجھانے کے لیے کہا۔ تم فکر نہ کرو یہ اس کی وقتی ضد ہے ورنہ وہ فرحان کو بچپن سے چاہتی ہے میں اسے سمجھاؤں گی تو وہ مان جائے گی- ہاں آپ اسے سمجھائیے گا کہ مہرو کے وجود سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچی وہ اب بھی اربیہ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنے گی۔ وہ بہت بڑے دل کی مالک ہے۔ تائی جان بھی امی کی بات سے پوری طرح متفق تھیں کیونکہ ابو اور بھائی دونوں نے اریبہ کی خواہش کو رد کر دیا تھا۔ آخرکار اریبہ نے نیم رضامندی کا اظہار کر دیا ایک روزامی انگوٹی کا ناپ لینے اوپر گئیں تو بیڈ روم سے تائی جان اور اریبہ کی آواز میں ان کی سماعت سے ٹکرا ئیں۔ ارے میری بچی ایک مرتبہ تمہاری فرحان سے شادی ہو جائے اور تمہاری گود بھر جائے پھر دیکھنا کیسے میں سب سے گن گن کر بدلے لیتی ہوں سب مطلب پرست اور کمینے لوگ ہیں، انہیں پہلے تم نظرنہیں آرہی تھیں کہ اس مہرو نام کی کسی کمین خاندان کی لڑکی کو بہو بنالیا اب تم فرحان کو مٹھی میں رکھنا اور میرے کہے پر عمل کرنا پورے گھر کی مالکن پھر تم بن جاؤ گی اور تمہاری ساس اور مہرو کو ان کی اوقات میں رکھنے کے گر میں تمہیں سکھاؤں گی۔ امی میں مہرو کو دل سے اپنی سوتن برداشت نہیں کر رہی یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتی ہوں کہ تمام عمر کے لیے ایک نوکرانی مل جائے گی جو کم سے کم بوڑھے ساس اور سر کو تو سنبھال لے گی ناں آپ کو تو پتا ہے میں اپنی مرضی سے آزادانہ زندگی گزارنے والے لوگوں میں سے ہوں ہاں مگر فرحان پر اپنی گرفت ضرور قائم رکھوں گی تبھی باقیوں سے میں بدلے لے سکتی ہوں۔ یہ کہہ کر اریبہ جونہی کمرے سے باہر آئی تو سامنے امی کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ امی پر دونوں ماں بیٹی کا یہ روپ پہلی مرتبہ ظاہر ہوا تھا امی سمجھتی تھیں کہ تائی جان زبان کی تلخ ہیں لیکن دل کی بری نہیں مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ نکلا۔ امی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں وہ نیچے ائیں تو شدید دکھ کی کیفیت میں تھیں۔ وہ مہرو کو پڑوس میں جانے کا کہہ کر خالہ فاخرہ کے گھر چلی گئیں جو ہمارے گھر سے تین گھر چھوڑ کر رہتی تھیں امی سے اچھی خاصی دوستی تھیں اور کافی سمجھدار خاتون تھیں امی نے جب ساری بات انہیں بتائی تو انہوں نے نیا انکشاف کیا کہ انہیں ایک تقریب میں کوئی سال بھر پہلے ہماری پرانی ملازمہ رضیہ بانو ملی تھیں اور فرداً فرداً خالہ فاخرہ سے سب کا حال احوال پوچھا اور ساتھ اس دکھ کا بھی اظہار کیا کہ تائی جان نے زبردستی اسے گھر سے نکال دیا تھا کہ اس پر انہیں کوئی اعتبار نہیں ہے اور آئندہ اپنی شکل کبھی نہ دکھانے کا کہا تھا اور دیگر بھی کئی نا قابل برداشت الزامات لگائے تھے۔ امی ان کی بات سن کر حیران رہ گئیں جبکہ تائی جان نے کہا تھا کہ ملازمہ بیٹی کے بیمار ہو جانے کی وجہ سے چلی گئی ہے اور جب وہ بلانے گئیں تو اس نے ہمارے گھر میں مزید کام کرنے سے انکار کر دیا کے اپ کسی اور کا انتظام کرلیں۔ اسے بیٹی کی دیکھ بھال اور علاج سے فرصت نہیں ہے امی کا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا تو کیا آپا کو مہرو میں واقع ہونے والی اس تبدیلی کا علم تھا اسی وجہ سے انہوں نے ملازمہ کو بھی بہانے سے فارغ کر دیا تھا۔ امی نے پرشکوہ نگاہوں سے فاخرہ خالہ کو دیکھا۔ تو آپ یہ بات آج مجھے بتارہی ہیں ؟ دیکھو شگفتہ میں نے اس لیے تمہیں نہیں بتایا کہ اس سے تمہارے درمیان فاصلے پیدا نہ ہو جائیں آج تم نے ان ماں بیٹی کی ذہنیت کا اظہار میرے سامنے کیا ہے تو میں نے یہ تمہیں بتادیا کہ یہ کبھی بھی تمہاری ہمدرد نہ تھی اور نہ کبھی ہوں گی۔ امی جب گھر واپس آئیں تو پھٹی آنکھوں سے اپنی فرشتہ صفت اور خدمت گزار بہو کو دیکھتی رہیں جس نے اس گھر سے اس کے رشتوں سے وفاداری کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ امی کے پاس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک بکس تھا اس نے وہ امی کی طرف بڑھایا۔ یہ کیا ہے بیٹا ؟ امی جان یہ وہ کڑے ہیں سونے کے جو آپ نے مجھے پہنائے تھے اب یہ آپ نئی دلہن کو دے دیجیے گا۔ یہ کہتے ہوئے آواز اس کے حلق میں پھنس سی گئی اور اس نے آنکھیں جھکالیں۔ مگر بیٹا یہ تو تمہارے ہیں تم پہنا کرو انہیں ۔ امی اس کی ہمت پر حیران ہوئی۔ نہیں امی آپ کو تو پتا ہے کہ مجھے زیادہ زیور پہنے کا شوق نہیں ہے میرے پاس ایسے ہی رکھے ہیں آپ رکھ لیں پلیز پھر اور زیور میرا پڑا تو ہے ناں کبھی دل کیا تو وہ پہن لوں گی۔ یہ کہ کر وہ اندر چلی گئی اور امی سوچوں کے سمندرمیں غوطہ زن انہیں ہاتھوں میں لیے گھماتی رہ گئیں۔ جب سے تائی جان اور اریبہ کی اصلیت امی پر ظاہر ہوئی تھی تب سے انہوں نے نیچے آنا کم کر دیا تھا امی نے ان کے رویے کومہرواور بھائی سے چھپائے رکھا صرف ابو کو بتایا، ان کے سامنے صرف یہی کہا کہ اریبہ راضی نہیں ہے اور ساتھ واضح اعلان بھی کر دیا کہ اب وہ بھائی کے لیے نئی دلہن دیکھنے کی تلاش شروع کر چکی ہیں۔ امی نے مہرو کو ہر طرح سے تحفظ کا یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس کے حقوق پر کوئی حرف نہیں آئے گا اور وہ یہ قدم انتہائی مجبوری میں اٹھا رہی ہیں۔ وہ بے شک دلی طور پر بہت افسردہ تھی مگر سب کی خوشی میں بظاہر پوری طرح شریک تھی۔ امی روز خالہ فاخرہ کے ہمراہ رشتے دیکھنے جاتی تھیں وہ من پسند رشتے کی تلاش میں تھیں آخر ایک روز انہوں نے خوش خبری سنا دی کہ خالہ فاخرہ کے قریبی رشتہ داروں میں انہیں ایک لڑکی پسند آ گئی ہے دو روز بعد وہ ہمارا گھر دیکھنے آئیں گے فوری طور پر سرگودھا سے مجھے بھی بلالیا گیا۔ پہلے دن گھر میں صفائی ستھرائی کا کام مکمل کیا گیا اس شام کو میں امی اور خالہ فاخرہ بازار گیں، اور ان کی دعوت کے سلسلے میں پھل، مٹھائیاں آئس کریم وغیرہ خرید لائیں۔ ساتھ امی نے گھر کی سجاوٹ بڑھانے کی لیے کچھ ڈیکوریشن پیسر خریدے اور بھائی کے نکاح بلکہ بات پکی ہونے سے پہلے ہی تائی جان اور اریبہ سمیت گھر کے ہر فرد کے لیے قیمتی سوٹ خریدے۔ ایک عدد سوٹ خالہ فاخرہ کے لیے بھی بطور تحفہ دینے کو خریدا۔ رات کافی دیر ہو چکی تھی جب ہم گھر واپس آئے سوتن کے آنے کا دکھ مہرو کے چہرے پر واضح تھا اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں جیسے ہمارے جانے کے بعد جی بھر کر روئی ہو لیکن ہمارے سامنے پھر سے مدھم انداز سے مسکرانے والی مہرو بن چکی تھی اس نے خریدی گئی ہر چیز کو دیکھا اور تعریف کی۔ امی نے ایک بہت خوب صورت بوتیک کے کام والا سوٹ اسے مہمانوں کی آمد پر پہننے کو دیا۔ تائی جان صرف اس بات پر خوش تھیں کہ مہرو پر سوتن کا طوق آنے والا ہے تبھی اس روز امی کے کانوں میں سب کچھ پڑنے کے بعد وہ پہلی مرتبہ نیچے آئیں ورنہ بھائی سے اریبہ کا رشتہ نہ ہونے کے دکھ سے انہیں اپنی سوچ کے امی کے آگے عیاں ہونے کی شرمندگی زیادہ تھی۔ اگلے روز مہمانوں نے شام آٹھ بجے آنا تھا سات بجے ہم سب تیار ہو گئے ان کے لیے اعلی قسم کے کھانے بھی تیار کر لیے گئے تھے۔ مہرو جب تیار ہو کر آئی تو اسے سجا سنورا دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں وہ بے انتہا خوب صورت لگ رہی تھی۔ کاش مہرو میں یہ ایک کمی بھی نہ ہوتی تو یہ کتنی مکمل ہوتی مگر مکمل ذات تو صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ناں تکمیل انسان کو چھو کر نہیں گزری جو انسان ہے وہ مکمل نہیں ہو سکتا اور جو مکمل ہو وہ انسان نہیں ہوسکتا۔ میں اپنے ہاتھوں پر لگی مہندی کے ڈیزائن پرانگلی پھیرتے ہوئے نجانے کیوں ایسا سوچنے لگی تھی۔ مہمانوں کی آمد میں ابھی کچھ دیر باقی تھی کہ امی کو خیال آیا کہ وہ مٹھائی کی سجاوٹی ٹوکری جس کا کل آرڈر دے آئی تھیں آج اٹھانا بھول گئی ہیں۔ امی نے بھائی سے کہا کہ وہ جا کر لے آئیں گھر واپس جاتے ہوئے وہ مہمانوں کو بطور تحفہ پیش کرنی ہے مگر بھائی نے جانے سے انکار کر دیا اور ساتھ اپنے ملازم کو بھیج دیا جس سے وہ ڈرائیور کا کام بھی لیتے تھے۔ ابواور خالہ فاخرہ بھی ساتھ چلے گئے اور ساتھ میں وہ کہہ گئے کہ وہ جلدی آجائیں گے اگر مہمان آجائیں تو انہیں پورے احترام سے بٹھانا ان کے جانے کے بعد مہرو نے فرحان کی طرف اشارہ کیا کہ میں ہی اسے حلیہ بدلنے کا کہہ دوں باقی تو اس نے کسی کی نہیں مانی۔ میں نے جب اسے ہنس کر کہا کہ اپنا حلیہ بدل لو پورے مجنوں لگ رہے ہو تو میری بات سن کر وہ چیخ پڑا۔ کیا فری تمہیں نہیں لگتا کہ مہرو کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے اس پر کیے گئے احسانات کا بدلہ اتارنے کے لیے اس سے کتنی بڑی قربانی لی جارہی ہے کیا ضروری ہے کہ میری دوسری شادی ہو؟ بے ترتیب بالوں اور بڑی ہوئی شیو کے ساتھ فرحان بھائی واقعی افسردہ لگ رہے تھے میں پیچھے ہٹ گئی شاید ہم سب امی ابو کی مرضی اور خواہش کے آگے بے بس تھے۔ بھائی یہ کہہ کر اندر چلے گئے مہرو کونے میں سر جھکائے خاموش کھڑی تھی اس نے انگلیوں سے آنسو صاف کیے۔ کافی ٹائم گزر چکا تھا میں نے ابو کا نمبر ملایا کہ وہ کہاں ہیں تو وہ بند تھا۔ فاخرہ خالہ اپنا سیل فون گھر رکھ گئی تھیں نہ مہمان آئے اور نہ ہی امی ابو مجھے اور مہرو کو شدید پریشانی لاحق ہونے لگی۔ تائی جان ہمارے پاس نہ تھیں ورنہ وہ اپنی کڑوی کسیلی باتوں سے جلتی پر تیل کا کام ضرور کرتیں۔ فرحان بھائی بھی اپنے کمرے میں چلے گئے تھے وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ جب دس بجنے والے تھے تو میرے ضبط کا بند ٹوٹ گیا مہرو پہلے ہی آنسو بہا رہی تھی میں فوراً فرحان بھائی کے کمرے میں گئی وہ لیٹے ہوئے تھے میں نے انہیں جھنجوڑا اور تقریباً چلاتے ہوئے بولی۔ بھائی اللہ کے لیے امی ابو کا پتا کریں تھوڑی دیر میں آنے کا کہہ گئے تھے اور تین گھنٹے ہونے کو آئے ہیں ۔ آپ کے ملازم کو گاڑی ٹھیک سے چلانی آتی ہے ناں؟ میرے اندر شکوک وشہبات جنم لینے لگے۔ الٹے سیدھے وہم نہ پالو جب امی اور فاخرہ خالہ ساتھ ہوں تو انہیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ کیسی بات کر رہے ہیں آپ فرمان امی تو ایسی ہیں ہی نہیں کہ اس صورت حال میں کہ جب مہمانوں نے بھی آنا تھا وہ گھر سے باہر رہتیں ان کے نمبرز بھی بند ہیں کم سے کم وہ فون کر کے یہ تو پوچھ سکتے تھے کہ مہمان آئے کہ نہیں، فرحان میرا دل ڈوب رہا ہے اللہ کرے وہ خیریت سے ہوں۔ یہ کہہ کر مہرو دوپٹہ منہ پر رکھ کر رونے لگی۔ تم فکر نہ کرو میں جاتا ہوں ان کے پیچھے اگر وہ گھر واپس آیں تو میرے نمبر پر کال کر کے مجھے بتا دینا۔ جب ہم لاؤنج میں بھائی کے پیچھے پہنچیں تو تائی جان آئی بیٹھی تھیں شاید وہ ہمارا تماشہ دیکھنے آئی تھیں۔ ہم دونوں جو کچھ دیر پہلے مکمل تیار تھیں اب بے حال کھڑی تھیں۔ بھائی ابھی گیٹ کی طرف بڑھنے ہی لگے تھے کہ باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی وہ سوالیہ نظروں سے ہمیں دیکھنے لگے۔ ابو اور فاخرہ خالہ گاڑی سے نکلے تو مبارک باد دیتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ہم پتھر کے بنے کھڑے تھے کچھ دیر بعد امی باہر آئیں تو ان کے بازوؤں میں ایک ننھا سا بچہ موجود تھا وہ انہوں نے آگے بڑھ کر مہرو کی طرف بڑھایا۔ آج سے میری مہرو اس بچے کو پانے کے بعد مکمل ہوگئی ہے۔ مہرو نے اسے گود میں لیا تو فرحان بھائی آگے بڑھے۔ امی یہ سب کیا ہے یہ بچہ کس کا ہے؟ فرحان یہ تمہارا بچہ ہے ہمارا بچہ ہے جس طرح کبھی مہرو کا دنیا میں کوئی نہیں رہا تھا اس بچے کا بھی کوئی نہیں ہے ۔ شاید یہ ہمارے لیے ہی دنیا میں آیا ہے یہ مہرو کی گود میں پرورش پائے گا۔ تائی جان بھی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہی ہیں۔ اور وہ رشتہ دیکھنے کو آنے والے مہمان، میں نے دوسرے رخ پر سوچنا شروع کر دیا۔ بیٹا سرپرائز ایسے ہی تو دیے جاتے ہیں اور یہ مہمان کسی سے کم ہے جس کی آمد نے کھڑے کھڑے تجھے پھوپو بنا دیا اور اس کے آنے کے بعد میرا نہیں خیال کہ فرحان کو اب دوسری شادی کی ضرورت رہے گی ۔ فاخرہ خالہ کی اس بات پر سب ہنس دیے۔ مہرو اپنے ہونٹوں سے اس ننھے پھول کو مسلسل بوسے دے رہی تھی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ ابو امی میں آپ لوگوں کا ایک بھی احسان اتارنے کے قابل نہیں ہوں اور اس احسان کو جو آپ نے آج مجھ پر کیا ہے اگر مجھے اتارنے کی طاقت مل بھی جائے تو میں بھی نہ اتار سکوں گی ۔ مہرو برستی آنکھوں کے ساتھ خوشی سے مسکرا بھی رہی تھی یہ خوشی کے آنسو تھے انمول خوشی کے۔ مہرو بیٹا تم نے ہر مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا اگر تمہیں اس گھر میں لانے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے حق میں بہتر ثابت کیا تھا تو ان شاء اللہ یہ ننھا وجود بھی و ہمارے لیے باعث رحمت و مغفرت ثابت ہوگا اور خاص بات یہ کہ یہ بچہ تمہاری گود میں پرورش پائے گا۔ ابو نے یہ کہہ کر محبت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا فرحان بھائی آگے بڑھ کر ابو کے گلے لگ گئے۔ تائی جان حسرت بھری آنکھوں سے ہمارے مکمل خاندان کو دیکھ رہی تھیں جنہوں نے آزمائش میں بھی کبھی ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑا۔ ان کے چہرے پر میں نے پہلی مرتبہ اتنی مایوسی اور پریشانی دیکھی تھی وہ آگے بڑھیں سب کو مبارک باددی اور پھر ابو سے مخاطب ہوئیں۔ بھائی صاحب مجھے پر بھی ایک مہربانی کریں۔ سب سوالیہ آنکھوں سے دیکھنے لگے۔ اریبہ کی عمر نکلتی جارہی ہے اس کے لیے کوئی مناسب سا رشتہ دیکھیں جو آپ کو اس کے لیے بہتر لگے مجھے منظور ہوگا ۔ تائی جان کی اس بات پر سب کھلکھلا کر ہنس دیے- بھئی پھر تو آج کا دن اس لحاظ سے بھی مبارک ثابت ہوا۔ اس کے بعد پھر ہر طرف خوشی کے قہقہے گونجنے لگے تھے اور امی آگے بڑھ کر سب میں تحائف تقسیم کر رہی تھیں-