والد صاحب متوسط طبقے میں شمار ہوتے تھے ۔ اس طبقے کا آدمی جن مسائل کا شکار ہوتا ہے، سب ہی اس سے واقف ہیں۔ ہم آٹھ بہن بھائی تھے، پھر بھی خوشحال زندگی گزار رہے کیونکہ ان دنوں وطن پر بیرونی قرضوں کا بوجھ اس قدرنہ تھا اور مہنگائی میں بھی ہم گھر کے سب ہی افراد کو دو وقت کی روکھی سوکھی پیٹ بھر نصیب ہوجاتی تھی کیونکہ ابو اپنی حیثیت کےباوجود کنبے کا بوجھ بڑی کفایت شعاری سے اٹھا رہے تھے ۔ ان کی کوشش تھی کہ اولاد بہترین تعلیم حاصل کرلے۔ اس جدو جہد میں تمام عمر خود بھی معمولی کھایا پہنا اور ہمیں بھی معمولی کھلایا، پہنایا وہ ہم بچوں کو ہمیشہ سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتے رہتے۔ ہم سب ہی اسکول میں پڑھ رہے تھے ، صرف بڑے بھائی آیان کالج جاتے تھے۔ ابو کو بڑے بیٹے سے امید تھی کہ پڑھ لکھ کر اچھی نوکری پر لگ جائے گا تو ان کا بوجھ بانٹ لے گا۔ وہ خود ریلوے کے محکمے میں ملازم تھے۔ آیان بھائی تعلیم سے فارغ ہوئے تو پتا چلا کہ تعلیم کا کچھ فائدہ ذاتی طور پر ہے مگر حصول نوکری کے لیے تعلیم بے کار ہے ، بنا رشوت اور سفارش کے۔ بھائی نے نوکری کے لیے بڑے دھکے کھائے، دفتروں میں مارے مارے پھرے مگر ہر جگہ مایوسی ملی۔ تب دل چاہتا تھا کہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ خاندان کے کچھ لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز تو تھے مگر وہ امیر تھے اور انہوں نے ہم جیسے غریب رشتہ داروں سے رشتہ داری ختم کردی تھی۔ وہ نہ تو ہماری خوشی میں شریک ہوتے اور نہ غم میں پوچھنے آتے تھے۔ یہ شدید گرمی کا موسم تھا ایک روز جب دن بھرآیان بھائی ملازمت کی تلاش میں دو تین امیر رشتہ داروں کا در کھٹکھٹا کر مایوس لوٹے ، تو ان کو بخار ہو گیا۔ آتے ہی دھوپ اور گرمی سے بے حال تھنڈا پانی پی لیا اور بستر پر دراز ہو گئے ۔ ذرا دیر میں بدن تپنے لگا شاید ان کو سن سٹروک ہوگیا تھا۔ والد ڈیوٹی سے لوٹے تو بیٹے کی حالت دیکھ کر گھبرا گئے اور اسپتال لے گئے۔ انہوں نے چھٹی کی درخواست بھی دے دی لیکن ان کی چھٹی منسوخ کردی گئی کیونکہ ایک روز بعد بقرعید تھی ۔ ابو ، بھائی کو آخری بار غنوندگی کی میں دیکھ کر بھی ٹرین پر چڑھ گئے تین روز بعد جب وہ ٹرین لائے تو بیٹے کو آخری آرام گاہ لے جانے کا انتظام ہو چکا تھا۔ انہوں نے وردی اتاری اور بیٹے کو کندھا دے کر اس کو قبر تک پہنچایا۔ بیٹے کی جوان موت کا غم ان کو لے بیٹھا اور وہ بیمار پڑ گئے۔ اس حالت میں بھی ڈیوٹی پر جاتے۔ جب ہلکاہلکا بخار مستقل رہنے لگا تو پتا چلا کہ ان کو کینسر ہے۔ وہ بیماری سے دست و گریبان رہے لیکن کب تک ایک وقت آیا کہ جب گارڈ کی وردی اتارتے تھے تو وہ خون سے تر ہوتی تھی۔ آخر وہ دن آ پہنچا جس کو ٹالنے کے لیے امی اور ہم سب دعائیں مانگتے تھے۔ والد صاحب ہم کو روتا چھوڑ کر دوسرے جہان کو چلے گئے، یوں میں اپنے والد اور بھائی کے بعد گھر میں بدنصیب، بے آسرا کنبے کی بڑی ٹھہری۔ ان دنوں مجھ سے بعد والی بہن جس نے انٹر کرلیا تھا، ملازمت کی تلاش سائٹ ایریا محلے کی ایک عورت کے ساتھ گئی اور واپس نہ لوٹی ۔ ہم بہت پریشان تھے۔ اس نئی محلے دار کے گھر گئے تو پتا چلا کہ وہ جوخود کو دواؤں کی ایک بڑی کمپنی میں انچارج بتاتی تھی، کرایے کا مکان چھوڑ کر جاچکی تھی۔ میری بہن زرتاشہ بہت خوب صورت تھی، وہ اسے کمپنی میں ملازمت کا جھانسا دے کر نہ جانے کہاں لے گئی تھی۔ ہم روتے ہی رہ گئے۔ پڑوسن کا پتا چلا اور نہ زرتاشہ کا۔ ماں اس کے غم میں نیم پاگل ہورہی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بالآخر ان کو صبر آتا گیا مگر دل سے اس کا غم بھولتا نہ تھا۔ اماں کی صحت گرتی گئی ان دنوں میرا رزلٹ آ گیا اور میں نے بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرلیا۔ بی ایڈ کرنا چاہتی تھی مگر وقت نے اس کی مہلت نہ دی اور کنبے کی کفالت کی خاطر ماں سے ملازمت کے لیے اجازت مانگی اماں تو اس قدر ڈری ہوئی تھیں کہ مجھے سروس کی تلاش میں جانے نہ دیتی تھیں اور میں گھر کے معاشی حالات کو دیکھ کر پریشان تھی۔
چھوٹی بہنیں پڑھ رہی تھیں، جن پر رشتہ دار باتیں بنانے لگے تھے۔ ان باتوں کی وجہ سے ماں نے بہن کو کالج میں داخلہ لینے سے روک دیا۔ دقیانوسی خیالات رکھنے والے رشتہ دار جو ہمارے لیے تعلیم کو برائی سمجھتے تھے، وہ اپنی بیٹیوں کو پڑھا رہے تھے مگر ہماری ماں کو صلاح دیتے کہ تمہاری بچیوں کے سر پر باپ کا سایہ ہے اور نہ بھائی کا، تم ان کو برقعہ پہنا دو ، جبکہ ابھی میری بہنوں کی عمریں تیرہ، چودہ سال تھیں۔ یہ رشتہ دار ، آوارہ لڑکوں کے رشتے ہمارے گھر لاتے تھے۔ ماں ان بے کار کے تنگ آگئی چچا سے جاکر فریاد کی کہ آپ نے ہم سے تغافل برت رکھا ہے۔ ادھر میرے میکے والے، ہر روز بے کار رشتے لے آتے ہیں۔ میری بچیوں کے سر پر باتھ رکھ لیجیے تاکہ مجھ کو ایسی پریشانیوں سے تو نجات ملے چچا کے لیے خود آٹھ بچوں کی کفالت عذاب بنی ہوئی تھی، ان کا بڑا بیٹا ابھی میٹرک میں تھا۔ وہ آگے پڑھنا چاہتا تھا مگر چچا اسے کالج کی تعلیم نہیں دلا سکتے تھے۔ انہوں نے کہا ۔ بھابھی میری ملازمت ایسی ہے کہ ایک دن گھر تو دو دن بابر رہنا پڑتا ہے ۔ میں آپ کے کنبے کی دیکھ بھال نہیں کرسکتا۔ میرا لڑکا جلیل، آپ کا ہی بیٹا ہے، اس کو اپنے ساتھ لے جائیے اور اپنا بیٹا بنا کر اپنے ساتھ رکھ لیجئے۔ میں بھی کبھی کبھار آتا جاتا رہوں گا تو آپ کے رشتہ دار آپ کو تنگ نہ کریں گے۔ یوں چچازاد جلیل ہمارے گھر آگیا اور ماں نے اسے اپنے مرحوم بیٹے مبارک بھائی کا نعم البدل بنا لیا۔ ان دنوں جلیل ہمارے مسائل میں دلچسپی لیتا تھا، ہمدردی بھی کرتا تھا۔ ماں کا وہ خاص خیال کرتا، ان کو تائی کی جگہ امی جان بلاتا۔ والدہ نے اسے کالج میں داخل کرا دیا۔ جلیل کے ہمارے گھرپر رہنے سے ہمارے رشتے کے ماموں، خالو وغیرہ نے آئے دن آناجانا بند کردیا۔ چچازاد کی وجہ سے ان کی یلغار تھم گئی۔ گویا جلیل کا قیام ہمارے لیے سکون کا باعث بنا۔ امی پرسکون ہوگئیں۔ ایک تو چھوٹے چھوٹے گھریلو مسائل، بجلی، گیس وغیرہ کا بل بھرنا، سودا سلف لانا، دوسرے غلط قسم کے محلے دار لڑکوں کا ہماری دکان کے سامنے سے بلاوجہ گزرنا اور چوکڑی بناکر بیٹھنا بھی بند ہوگیا کیونکہ بھائی جيسا نوجوان دن رات ہمارے گھر میں قیام رکھتا تھا، سب ہی کو معلوم تھا کہ یہ ہمارا چچازاد ہے۔ ان بی دنوں خوش قسمتی سے میری ملازمت ہوگئی اور میں قریبی اسکول میں پڑھانے لگی۔ گزربسر بہتر ہوگئی تو ماں کو اور سکون ملا۔ جلیل کی تعلیم کا خرچہ میں ٹیوشن پڑھا کر پورا کرنے لگی۔ دو سال بعد اس نے امی سے کہا کہ وہ میری منگنی اس کے ساتھ کردیں، والدہ بولیں۔ بیٹے تم پہلے تعلیم مکمل کرلو اور نوکری پر لگ جائو تو میں تمہاری منگنی منورہ سے کردوں گی۔ چھ سال تک جلیل ہمارے ساتھ رہا۔ وہ پڑھتا رہا اور میں اس کی تعلیم کا خرچہ اٹھاتی رہی۔ اس عرصے میں اس نے بھی ہم لوگوں کا بہت خیال رکھا امی کو سکھ دیا۔ میری والدہ بھی اس کے لاڈ ایک ماں کی طرح اٹھاتی رہیں۔ سب سے کہتیں میرا بیٹا مرا نہیں، جلیل کی صورت میں پھر سے زندہ ہو گیا ہے۔جلیل بھی قسمیں کھاتا تھا کہ منورہ میری امانت ہے۔ نوکری ملتے ہی اس کو اپنا لوں گا اور آپ لوگوں سے کبھی جدا نہ رہوں گا کیونکہ آپ اکیلے ہیں اور آپ کو میری ضرورت ہے۔ امی نے اپنے زیور بھی جلیل کی بھاری فیسوں کی نذر کر دئیے مگر ہم نے ملال نہ کیا ۔ امی کی تھوڑی بہت زمین تھی، بیچ کر وہ بھی جلیل پر لگا دی کہ یہ میرا بیٹا ہے – اس کو میرے گھر کا انتظام سنبھالنا ہے اور آگے میری بچیوں کی شادیاں بھی اسی نے کرنی ہیں۔ لڑکیوں کا کیا ہے یہ تو پرایا دھن ہیں۔ زمین کے بعد اب مکان کی باری آ گئی۔ جلیل نے بزنس کا جھانسا دے کر امی کو اپنا ہم خیال بنایا اور مکان بکوا کر دکان اپنے نام خرید لی کہ اس میں وہ اپنا جنرل اسٹور کھولے گا۔ دکان اپنی ہوگی تو جنرل اسٹور کو ادھر سے ادھر شفٹ نہ کرنا پڑے گا۔ ایک جگہ کاروبار جما رہے گا۔ میں تو اس آس پر خاموش تھی کہ کچھ دنوں میں میری جلیل سے شادی ہوجائے گی۔ مجھ سے چھوٹی دونوں بہنیں البتہ خفا ہوئی تھیں مگر میں نے اور امی نے ان کو چپ کرا دیا تھا۔ تب لگتا تھا کہ جلیل تو ہم پر جان دینے کو تیار ہے اور ہم اس کے بارے میں غلط سوچ رہے ہیں۔ ایک روز ایسا بھی آیا کہ پھر ہمارا انسانیت پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ جلیل نے میری بہن کو بدنامی کا داغ لگا دیا۔ امی گھر پر نہ تھیں اور میں سروس پر تھی۔ چھوٹی دو بہنیں اسکول گئی ہوئی تھیں ۔ صرف شاہدہ گھر پر تھی کیونکہ اس کی طبیعت خراب تھی۔ جب میں اسکول پڑھا کر گھر لوٹی تو اس نے، اس افسوس ناک واقعے کے بارے بتایا۔ وہ رو رہی تھی۔ مجھے بے حد صدمہ ہوا ، سر گھوم گیا۔ سوچاکہ امی کو پتا چلا تو شاید وہ یہ کہ برداشت نہ کر سکیں ۔ بہتر ہے ان کو نہ بتایا جائے۔ بہتر ہوگا کہ اس بہن سے ہی جلیل کی شادی کردیتی ہوں، امی کو بھی سمجھادوں گی۔ بہن کو میں نے منع کردیا کہ امی کو اس بارے مت بتانا۔ کاش میں اس وقت خاموشی اختیار نہ کرتی تو کچھ تو بچ ربتا. امی نے کچھ زیور میری شادی کے لیے بچا رکھے تھے۔ وہ جلیل کے حوالے کیے کہ تم اپنی طرف سے میری بیٹی کو چڑھانا، انہوں نے جہیز کے جوڑوں کے ساتھ بری کے جوڑے بھی بنائے کہ یہ بھی دولہا کی طرف سے ہوں گے مگر میں نے کہہ دیا کہ مجھے جلیل سے شادی منظور نہیں کیونکہ یہ عمر میں مجھ سے تین چار سال چھوٹا ہے، یہ شاہدہ کے لیے موزوں رہے گا۔ آپ پہلے اس کی شادی کردیں۔ میری اس کے بعد دیکھی جائے گی ۔ میری ملازمت ہے، مجھے رشتہ مل جائے گا۔ شاہدہ میٹرک پاس تھی، اس کا رشتہ جلد نہ ملے گا جہیز کے ساتھ بری کا انتظام امی کو کرنا تھا، سو انہوں نے کیا۔ شادی کی تیاریاں ہونے لگیں، میں اندر ہی اندر گھٹنے لگی۔ کیسے ماں کو اصل صورت حال سے آگاہ کروں۔ چند دن اسی میں گزر گئے۔ خود کوتسلی دیتی کہ تیری ایک بہن شادی شدہ ہونے جارہی ہے، ایک بوجھ کندھوں سے بلکا ہورہا ہے، حوصلہ رکھ، مگر اس کی نوبت ہی نہ آئی۔
جلیل صاحب زیور، بری، نقدی سب ہی کچھ لے کر چلتے بنے کچھ دنوں تک اس کا کچھ پتا نہ ملا کہ کہاں غائب ہیں۔ آخر کسی رشتہ دار سے معلوم ہوا کہ اس نے چپکے سے اس لڑکی سے شادی کرلی ہے ، جو اس کے سات کالج میں پڑھتی تھی۔ اس کے بعد وہ اس لڑکے کے والدین کا گھر داماد بن گیا اور انہوں نے دونوں کو مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھجوا دیا ۔ دنیا سے ایسا اعتبار اٹھا کہ مجھے شادی کے نام سے نفرت ہوگئی، ماں بیمار پڑ کر چارپائی سے جا لگیں۔ میری بہنیں جس جلیل کو بھائی سمجھتی تھیں، وہ دیوار سے جا لگیں۔ اب میں روتی کہ جلیل بھائی نہ تھا، آستین کا سانپ تھا۔ کاش اپنا بھائی زندہ ہوتا تو آج ہمیں اس سانپ کا سہارا نہ لینا پڑتا۔ ماں نے جس کو بیٹا سمجھا وہ تو ایسا ناگ نکلا جو ہمارے ہی گھر میں ہمارے خون پر پلتا رہا۔ ہماری خوشیوں اور عزت و ناموس کو ڈس کر ہمیں کنگال کرگیا۔ اس نے مجھے سیڑھی بنایا اور بلندی پر چلا گیا۔ برطانیہ سے فارغ التحصیل ہوا اور وہاں ہی آج بھی اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے۔ وہ وہاں اپنے مکان میں رہتا ہے اور ہم کرایے کے گھر میں۔ ماں ٹھنڈی آہیں بھر کر اس کو یاد کرتی ہیں کہ بیٹا کہا تھا ، تب ہی بددعا نہیں دے سکتی مگر میں جانتی ہوں کہ یہ ٹھنڈی آہیں بھی ماں کی گونگی بددعائیں ہی ہیں جو کبھی نہ کبھی جلیل کو ضرور لگیں گی۔ میری عمر اب چالیس برس سے اوپر ہے۔ سب بہنوں کی شادیاں کردی ہیں مگر اپنی نہیں کی کیونکہ بوژهی ماں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی ۔ وہ بہت ضعیف ہوچکی ہیں، ان کو ہمہ وقت میری ضرورت رہتی ہے۔ میں ان سے ایک لمحے کو غافل نہیں ہوسکتی۔ شاید الله تعالی نے مجھے ان کی خدمت کے لیے بنایا تھا ، اس سعادت سے مجھ ہی کو سرفراز کرنا میری قسمت میں لکھ دیا تھا۔ میں خوش ہوں کہ ماں کی خدمت سے بڑھ کر کوئی بڑی سعادت نہیں ہوتی اور یہ دولت میرے حصے میں آئی۔