Friday, March 21, 2025

Ab Mera Koi Nahi | اب میرا کوئی نہیں

میں سروس کرتی تھی، اسی لئے شہزاد سے ملنا میرے لئے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ ہم رفتہ رفتہ ایک دوسرے سے مانوس ہوتے گئے۔ اس کی دکان پر اکثر میں ضرورت کی اشیاء خریدنے جایا کرتی تھی۔ یہ بات اس نے مجھ پر بہت بعد میں ظاہر کی کہ وہ شادی شدہ ہے۔ اب کیا ہو سکتا تھا؟ ہم دونوں اس قدر آگے بڑھ چکے تھے کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔

شہزاد نہ صرف ایک بیوی کا شوہر تھا بلکہ پانچ بچوں کا باپ بھی تھا۔ مگر میں اس کی محبت میں اس قدر اندھی ہو چکی تھی کہ مجھے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ میں نے اب اس بات کی پرواہ کرنا چھوڑ دی تھی کہ میں کتنی رسوا ہو رہی ہوں۔ جب رسوائی کے افسانے زبان زدِ عام ہو چکے، تب میں نے محسوس کیا کہ عزت سے جینے کے لئے شادی کی بات کرنی ہی ہو گی۔ اس نے تو اس معاملے میں بالکل خاموشی اختیار کر لی تھی۔ میں نے شہزاد کو مجبور کرنا شروع کر دیا کہ مجھ سے نکاح کر لو، ورنہ لوگ ہمیں جینے نہیں دیں گے۔ وہ کہتا کہ میرا کوئی بڑا کاروبار نہیں ہے، یہی ایک چھوٹی سی دکان ہے اور بس۔ اس معمولی دکان سے میں دو گھروں کا خرچ کیسے چلا پاؤں گا؟

میں نے اسے سمجھایا کہ اس کا حل یہ ہے کہ تم کوئی دوسرا ذریعہ معاش تلاش کرو تاکہ حالات بہتر ہوں۔ پھر ہم یہ جگہ چھوڑ دیں گے، اور لوگوں کی زبانیں بھی بند ہو جائیں گی۔

میں نے کچھ رقم پس انداز کی ہوئی تھی۔ یہ سرمایہ شہزاد کے حوالے کیا، اور شہزاد نے دکانداری چھوڑ کر بزنس شروع کیا۔ قسمت کا ستارہ عروج پر تھا کہ اس کا یہ دوسرا کام دنوں میں چل نکلا۔ پھر تو جیسے دولت نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اوپر ہی اوپر لے جانے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہزاد امیر آدمی ہو گیا۔

حالات سازگار ہو گئے تو میں نے اسے یاد دلایا کہ شہزاد، یہ سب تم نے مجھ کو اپنانے کی خاطر کیا تھا۔ اب تم ایک کامیاب بزنس مین بن چکے ہو، تو مجھ سے نکاح کر لو کیونکہ میں تمہارے سوا کسی اور سے شادی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔

بے شک وہ قسمت کا دھنی تھا کہ اس کا بزنس دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا گیا، لیکن مصروفیت کے بہانے مجھ کو آج کل پر ٹالتا رہا۔ یہاں تک کہ آٹھ سال اسی سوچ میں گزر گئے کہ وہ مجھ سے شادی کرے یا نہ کرے۔ اس کے باوجود، میرے پائے استقلال کو داد ہے کہ میں نے یہ عرصہ بھی صبر سے گزار دیا، مگر کسی اور سے شادی کا بندھن باندھنے کا خیال بھی نہ آیا۔ بہرحال، ایک طویل مدت کے انتظار کا کرب سہنے کے بعد میرا اس کے ساتھ نکاح ہو ہی گیا۔

میں شہزاد کو پا کر بہت خوش تھی، کیوں نہ ہوتی؟ اتنے عرصے کی ریاضت کے بعد میری تمنا پوری ہو گئی تھی۔ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین عورت سمجھنے لگی تھی۔ شہزاد کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ اپنا گھر تھا، گاڑی تھی، اور معاشرے میں عزت کے ساتھ ایک پہچان بھی تھی، لیکن اس کے ساتھ نکاح کے باوجود، میرا اپنا کوئی گھر نہیں تھا۔

میں مجبوراً والدین کے گھر میں رو رہی تھی۔ کب تک آخر میں ماں باپ کے در پر پڑی رہتی؟ حالانکہ شہزاد معاشی طور پر اتنا مستحکم تھا کہ مجھے علیحدہ گھر میں رکھ سکتا تھا۔ جب میں نے بار بار اسے یہ بات یاد دلائی تو اس نے مسئلے کا یہ حل نکالا کہ فی الحال میں ان کے ایک دوست کے مکان میں رہوں جو خالی پڑا تھا۔ تھوڑے سے سامان کے ساتھ اس نے مجھے اس مکان میں شفٹ کر دیا۔

اصل زندگی کا باب تو اب کھلا۔ میں گھر میں اکیلی پڑی رہتی اور وہ کئی کئی دن میری طرف نہ آ پاتا تھا۔ والدین کے گھر میں تو تنہائی نہیں تھی، یہاں تنہائی نے جی بھر کر میرا شکار کیا۔ مجھے وحشتوں کے سمندر میں ڈبو دیا۔ بار بار شکوہ کرنے پر وہ یہی کہتا کہ بزنس کی مصروفیت اور بال بچوں کی ذمہ داریاں لمحہ بھر کو بھی فارغ نہیں ہونے دیتیں۔ کیا کروں؟ بڑی مشکل سے وقت نکالتا ہوں تو تم تک پہنچتا ہوں۔

مجھے دکھ ہوتا کہ وہ اپنے بزنس اور پہلی بیوی بچوں کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ مجھے بہت غیر اہم سمجھتے ہوئے میرے لئے وقت نہیں نکال سکتے۔ آتے تو کھنچے کھنچے سے رہتے۔ بات بات پر دل شکنی کرتے۔ کوئی بات کرتی تو اس طرح تڑخ کر جواب دیتے کہ بس منہ تکتی رہ جاتی۔ ہفتوں میری طرف نہ آتے، لیکن مجھے تو ہر حال میں ان کے ساتھ نباہ کرنا تھا۔ والدین کو ناراض کر کے ان سے شادی کی تھی۔

اکثر وہ مجھ کو طفل تسلیاں بھی دیا کرتے کہ “شب و روز تیرے لئے گھر بنانے کی فکر رہتی ہے۔ سوچتا ہوں کب تک دوست کا احسان اٹھاؤں گا اور تم کب تک غیر کے گھر میں پڑی رہو گی۔ تھوڑا سا اور صبر کر لو، تم ہی نے تو مجھے نئے خواب دکھائے تھے۔ ایک سودا اور ہو جانے دو، وہ ہو جائے تو اتنی رقم آجائے گی کہ تمہارے لئے ایک شاندار مکان شروع کرادوں گا۔”میری دُعا قبول کر لی اور وہ سودا ہو گیا۔ شہزاد کو اس سودے میں منافع بھی خوب ہوا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اس شہزاد میرے ارمانوں کا بھی سودا کر دے گا، اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔

دولت آتے ہی اس کی نیت بدل گئی۔ ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے چھپ کر ایک کوٹھی تعمیر کروا رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ وہ یہ کوٹھی میرے لئے ہی بنوا رہا ہے، اور شاید سرپرائز دینے کی وجہ سے نہیں بتا رہا تاکہ مجھے زیادہ خوشی ہو۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ یہ گھر وہ میرے لئے نہیں، اپنی پہلی بیوی اور بچوں کے لئے بنوا رہا ہے، اور ان کی فیملی وقتاً فوقتاً اس زیرِ تعمیر کوٹھی کو دیکھنے بھی جاتی رہتی ہے۔ یہ بات ان کے ڈرائیور نے مجھے بتائی۔ یہ جان کر میرے دل پر گہرا صدمہ ہوا۔ میں ہر برے وقت میں ان کے ساتھ ساتھ رہی، اپنی جوانی کے قیمتی دس سال ان کے انتظار میں کاٹ دیئے۔ اور اب جبکہ سکھ پانے کی باری آئی تو شہزاد کو فوراً اپنی پہلی بیوی اور بچوں کو نئی کوٹھی میں بسانے کا خیال آ گیا۔

جب ان کی چھوٹی سی دکان تھی تو انہوں نے محبت کے وہ رنگ دکھائے کہ میں اندھی ہو کر ان کی انگلی پکڑ کر ساتھ ساتھ چلتی گئی۔ اور جب خدا نے انہیں اچھے دن دکھائے، تو انہوں نے میرے نصیب پر کالک مل دی۔ میرا حق بھی دوسری عورت کی جھولی میں ڈال دیا، جس کی جھولی تو پہلے سے ہی بھری ہوئی تھی۔

غلطی میری ہی تھی۔ میں نے ایک شادی شدہ آدمی کے ساتھ تعلق کیوں بڑھایا؟ اور یوں جو کچھ بھی اس نے مجھے دینا تھا، وہ یہ کہہ کر اپنی پہلی بیوی کی نذر کر دیا کہ پہلا حق تو اس کا ہے کیونکہ وہ بچوں کی ماں ہے۔ کس سے فریاد کرتی؟ یہ سب کچھ جو ہوا، میرے اپنے ہی فیصلوں کا نتیجہ تھا۔

صدمے سے بیمار ہو گئی۔ میری بیماری بھی شہزاد کے لئے مجھ سے دوری کا سبب بن گئی۔ انہوں نے کہا، “تم بیمار ہو، اکیلی کیسے رہو گی؟ چلو میں تمہیں تمہارے میکے لے چلتا ہوں، وہاں تمہارا خیال رکھنے والا تو کوئی ہو گا۔ چند دن بعد جب طبیعت سنبھل جائے گی تو تمہیں لینے آ جاؤں گا۔” اس بات کو ماننے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ جو عارضی پناہ گاہ مجھے دے رکھی تھی، اس سے بھی محروم ہو گئی۔ میکے آنے کے بعد میں شہزاد کے لوٹ آنے کا انتظار کرتی رہی۔ دن پر دن گزرتے رہے مگر وہ مجھے لینے نہ آئے۔ کوئی لڑائی جھگڑا نہ تھا، نہ کوئی رنجش، پھر یہ جدائی کیسی؟ سمجھ نہیں آتا تھا کہ میرا قصور کیا تھا؟

شہزاد آفس میں میرے کال کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک دن مجبور ہو کر فون کر ہی دیا۔ پوچھا، “آخر تم مجھے کس جرم کی سزا دے رہے ہو؟ کیا بیمار ہو جانا بھی کوئی قصور تھا؟ تم خود آتے ہو نہ بلاتے ہو، کوئی جواب تو دو۔” تب انہوں نے بس اتنا کہا، “آج شام تمہیں جواب مل جائے گا۔” اور شام کو مجھے جواب مل گیا۔ ایسا جواب کہ میں لاجواب ہو گئی۔

انہوں نے لکھ کر بھیجا، “اگر تم اپنے والدین کے گھر تاحیات رہ سکتی ہو، تو میرے نکاح میں رہو گی۔ ورنہ میری طرف سے آزاد ہو۔ میں طلاق کے کاغذات بھجوا دوں گا۔ اپنے والد سے مشورہ کر لو، کیونکہ میں تمہیں علیحدہ گھر نہیں دے سکتا اور نہ اکیلی کو کسی اور جگہ رکھ سکتا ہوں۔ میرے بچے اب بڑے ہو رہے ہیں، اور وہ تمہارا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں، اور میں انہیں کھونا نہیں چاہتا۔”

یہ خط والد صاحب کو دکھانا ضروری ہو گیا کیونکہ وہ روز پوچھتے تھے کہ تمہارا شوہر تمہیں لینے کیوں نہیں آتا؟ جب والد صاحب نے یہ خط پڑھا تو ایک لمحہ سوچے بغیر انہوں نے مردانہ انداز سے فیصلہ کر دیا کہ جو مرد اپنی بیوی کو نہیں رکھ سکتا، اس کے ساتھ جڑے رہنے میں نہ تو تمہاری کوئی عزت ہو گی، نہ سکھ ملے گا، اور نہ ہماری کوئی عزت ہو گی۔

میں نے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا۔ کچھ دنوں بعد شہزاد نے اپنے ملازم کے ہاتھ میری موت کا پروانہ بھیج دیا۔ گویا کہ اسے بھی ایک بہانہ چاہیے تھا۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں رحم نہ آیا۔ یہ خیال نہ آیا کہ جس عورت نے اپنی جوانی کے دس سال اس کا انتظار کیا، اب وہ یہ داغ لے کر کہاں جائے گی؟ کس سے فریاد کرے گی؟ کس سے اپنا جرم پوچھے گی؟ مگر یہ سوچنا شاید اس مرد کا کام نہیں ہوتا جس کی پہلے سے ایک بیوی اور پانچ بچے موجود ہوں۔ سو، اس نے بڑی شاطرانہ چال سے اپنا دامن چھڑا لیا۔

آج اس واقعے کو بیس برس ہو چکے ہیں، لیکن لگتا ہے جیسے یہ زخم ابھی ابھی لگا ہے۔ میں نے دنیا والوں سے آج تک یہ بات چھپائی ہے کہ میں والدین کی دہلیز پر کیوں بیٹھی ہوں۔ یہی کہتی ہوں کہ وہ بیرونِ ملک ہوتے ہیں، دو سال بعد چند دن کے لئے آتے ہیں، اور ان کی چھٹی کم ہوتی ہے۔

سمجھنے والے تو سمجھ ہی لیتے ہیں کہ کبھی شہزاد کو کسی نے آتے جاتے نہیں دیکھا، پھر بھی بھرم رکھنے میں حرج ہی کیا ہے؟ یہ خود فریبی ہی سہی، کبھی کبھی دل کو تسلی دینے کے لئے خود فریبی سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ دل پر جو گزرتی ہے، وہ جانتا ہے لیکن کسی کو بتاتی نہیں۔ شہزاد نے مجھے ایک میلی قمیض جان کر کب کا اُتار پھینکا ہے۔ پھر بھی انہوں نے مجھے طلاق یافتہ نہیں کہا، شاید مجھ پر ترس کھایا۔ میرے والدین کے رشتے دار مجھ پر فقرے کستے ہیں کہ دیکھ لیا دوسری عورت کے شوہر سے شادی کرنے کا انجام؟ یہ داغ اور جگ ہنسائی کے ڈر سے کسی کو کچھ بتا نہیں سکتی۔

ورنہ تو جی چاہتا ہے چیخ چیخ کر سب کو بتا دوں، ہاں وہ بے وفا ہے، میں طلاق یافتہ ہوں اور کوئی میرا نہیں۔ کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتی کہ میرے ارمانوں کا گلشن تو مدت سے برباد ہے۔ مجھے تو خود پتا نہیں کہ میں کس جرم کی سزا کاٹ رہی ہوں۔ ہاں، مگر یہ بھی ایک خود فریبی ہے۔ میں خوب جانتی ہوں کہ یہ سزا اس لیے کاٹ رہی ہوں کہ میں نے اپنے جیسی ایک عورت کے حق پر ڈاکا ڈالا تھا۔ جانتی تھی کہ وہ عورت غمزدہ ہو گی، سوکن کا دکھ جھیلے گی، اور اس نے سوکن کا دکھ جھیل بھی لیا، مگر اس کا گھر آباد رہا۔ بالآخر میں ہی سب کچھ کھو کر خانماں برباد ہو گئی۔

سوچتی ہوں کہ جب انہیں بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری عورت سے عشق ہو جاتا ہے، اس وقت انہیں پہلی بیوی اور بچوں کا خیال کیوں نہیں آتا؟ گلاب تر و تازہ ہوتا ہے تو دل سے لگا لیتے ہیں، اور جب مرجھانے لگتا ہے تو پرے پھینک دیتے ہیں۔ جرم تو دونوں کا برابر ہوتا ہے، مگر سزا ایک کو ملتی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS