لوگ کہتے ہیں خوشیاں نعمتیں ہوتی ہیں مگر اب جب وقت کفن کی طرح عمر کے آخری حصے کو لپیٹتا جا رہا ہے ، میں نے جانا ہے کہ غم بھی نعمت ہے ۔ اگر غم نہ ہوتے تو انسان، انسان کو نگل جاتے۔ آج جبکہ میری عمر اسی سال ہے، میں اس راہ گزر پر چلتے چلتے تھک کر بیٹھ گئی ہوں کہ میرے پیر اب چلنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ عرصہ دراز تک تنہائی کے ساتھ ساتھ میں نے سر پر پریشانیوں کا اک بوجھ گراں بھی اٹھایا ہے لیکن آج پچھتاوے کی بجائے طمانیت کیوں ہے ؟ آیئے میں آپ کو بتاتی ہوں۔ بہت سے ممالک کی طرح ہمارا ملک عرصہ دیر تک غلامی اور استبدادی قوتوں کی لپیٹ میں رہا، جس کا نتیجہ عوام کی غربت کی صورت میں نکلا۔ ہم جیسے ملکوں کے لوگوں کو آپ غربت کا پروردہ کہہ سکتے ہیں، میں بھی پیدائش سے ہی مفلسی سے مانوس تھی۔ جس دن میں پیدا ہوئی، میری ماں چار دن کے فاقے سے تھی لیکن حوصلہ اور صبر میری ماں کی میراث تھا۔ اس نے اُف تک نہ کی اور رب کی رضا پر صبر کیا۔ میں اس دنیا میں بے شک اپنا نصیب ساتھ لے کر آئی تھی لہذا کچھ دنوں کی کوشش کے بعد میرے بے روزگار ابا کو بڑی مشکل سے ایک ہندو کی دکان پر نوکری مل گئی۔ ان دنوں میں دو سال کی تھی کہ فسادات کی آگ بھڑک اٹھی اور ایک رات دکان پر بیٹھے سیٹھ کے ساتھ میرے والد کو بھی ایک گولی لگ گئی اور وہ جان کی بازی ہار گئے۔ تعصب کے بارود سے بھرے کارتوس یہ کب دیکھ پاتے ہیں کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان ، ان کا کام تو بس بے گناہ انسانوں کی جان لینا ہوتا ہے ، سو فسادات نے ایک ہم ہی کو نہیں اور بھی لاکھوں گھروں کو اجاڑا۔ بڑی مشکل سے گھر کی جو دال روٹی چل رہی تھی ، وہ نہ رہی۔ فاقوں نے پھر سے ہمارا گھر دیکھ لیا اور مختلف پریشانیوں نے ماں کو مریض بنا دیا۔ میں ان دنوں بہت ہی نادان تھی۔ سارا دن کھیل کود میں گزر جاتا تھا۔ جہاں سے بھی بن پاتا، میری ماں میری ضرورتیں پوری کرتیں۔ رزق کا اللہ وارث ہے، سو تلاش کرنے پر ننھی منی کمزور سی چڑیا کو بھی دانا دنکا تو مل ہی جاتا ہے۔ پانچ سال کی ہوئی تو ماں نے مجھے اسکول میں داخل کرا دیا۔ وہ سمجھتی تھیں کہ جب پڑھ لکھ جائوں گی تو ہمارے دکھ دور ہو جائیں گے۔ میں اوائل عمر سے ہی اپنے حالات کو سمجھنے لگی تھی۔ جان چکی تھی کہ ہم غریب ہیں ، اسی لئے ہمارے گھر میں بہت کم چیزیں ہیں۔ اسکول جاتے ہوئے بھی میں بہت کم مطالبات کرتی، صرف کتابیں اور بستہ لے جاتی۔ میری ماں بڑی مشکل سے مجھے پڑھا رہی تھیں۔ وہ فاقہ کر کے بھی میرے اخراجات پورے کرتیں۔ میں نے ان کے شوق کی لاج رکھی ، بہت محنت اور لگن سے پڑھتی رہی اور کلاس میں ہمیشہ اوّل نمبر پر رہی۔ پیسوں کی کمی کی وجہ سے کبھی پڑھائی چھوڑ دیتی اور کبھی پھر سے پڑھنے لگتی۔ اللہ پاک کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔ میں نے بھی آخر کار سولہ سال کی عمر میں فرسٹ پوزیشن میں میٹرک پاس کر لیا۔ امی مجھ سے بہت خوش تھیں، ماموں بھی خوش تھے۔ اگرچہ وہ خوانچہ فروش تھے پھر بھی ہماری کچھ نہ کچھ مالی مدد کر دیا کرتے تھے تاہم وہ مجھ کو اعلیٰ تعلیم نہ دلوا سکے۔ فخر کے باوجود کچھ تنگ نظری اور کچھ حالات کی تنگی کی وجہ سے انہوں نے مجھے مزید تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا۔ ماموں کے خیال میں لڑکیوں کا اتنا پڑھنا کافی تھا۔ یوں بنا احتجاج میں اپنے حق سے دستبردار ہو گئی۔ امی اور ماموں نے میرے رشتے ڈھونڈنے شروع کر دے ۔
غریب کی بیٹی کے لئے اچھا رشتہ ملنا بھی تو مشکل ہوتا ہے۔ رشتہ جو بھی آتا، کسی آن پڑھ یا بیروزگار یا پھر نوجوان کا، جس کو کوئی بیٹی دینے پر رضامند نہ ہوتا۔ تاہم وہ دن امی اور ماموں کے لئے انتہائی خوشی اور ساتھ ہی کرب کا ہوتا جب کوئی میرے رشتے کے لئے آتا، امی، ماموں خوش دکھائی دینے لگتے جیسے مدت بعد عید کا سماں ہو۔ گھر کی ہر شے کی جھاڑو پونچھ ہوتی، سامان کو نئے سرے سے اور آنے والوں کے ذوق کے مطابق آراستہ کیا جاتا۔ کچھ چیزیں ادھر اُدھر سے مانگ کر گھر کی زینت بڑھائی جاتی۔ آنے والوں کا ایسے انتظار کیا جاتا جیسے مقدر گھر کی دہلیز پر قدم رکھ رہا ہو۔ امی کے چہرے پر امید کی خوشی دیکھتی تو مجھے بھی خوشی ہوتی لیکن جب رشتہ طے نہ ہو پاتا تو ماموں اور امی کے چہرے پر پھیلے ہوئے ماتمی احساسات مجھے بھی افسردہ کر دیتے تھے۔ اب یہ آئے دن ہونے لگا۔ کوئی نہ کوئی بےتکا رشتہ میرے لئے آ جاتا جس کو ماموں ٹھکرا دیتے کیونکہ ان کو میرے مستقبل کی فکر تھی لیکن ماں بہت دکھی ہو جاتی۔ ایک دن ٹینشن اور ڈپریشن کی وجہ سے امی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ اب یہ سارا ڈراما میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ آئندہ آنے والا رشتہ میں قبول کر لوں گی۔ اب آنے والا ر شتہ نعمت خان کا تھا۔ وہ ایک فیکٹری میں منیجر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔
روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ خوش شکل تھے اور پڑھے لکھے بھی، لیکن عمر میں مجھے سے دگنے اور شادی شدہ تھے- بیوی وفات پاچکی تھی، تین بچے تھے۔ چونکہ وہ اچھے آدمی تھے ، ماموں نے ان سے سوچنے کے لئے وقت مانگا۔ ماموں اور امی رات کو اس بارے مشورہ کر رہے تھے کہ میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی، تبھی وہ بات کرتے کرتے چپ ہو گئے۔ مجھے اداس اور بے چین دیکھ کر ماموں نے کہا۔ بیٹی ! اگر تم کو یہ رشتہ پسند نہیں تو ہم اس کو رد کر دیتے ہیں۔ میں نے کہا۔ آپ کو صحیح لگ رہا ہے تو مجھے بھی انکار نہیں ہے ، آپ ہاں کہہ دیجئے۔ امی اور ماموں نے حیرت کا اظہار نہ کیا۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ جتنا بھی انتظار کر لیں، اس سے بہتر رشتہ نہیں مل سکتا۔ میرے ہاں کہہ دینے پر وہ مطمئن ہو گئے۔ یوں میری شادی نعمت خان سے ہو گئی۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ پہلے تو بچے مجھ سے دور دور رہے لیکن میں نے بہت جلد ان کو اپنے پاس کر لیا۔ بڑی رافعہ اپنے بھائیوں سے کہتی۔ انہیں آنٹی کیوں کہتے ہو، یہ ہماری ماں ہیں ، دیکھتے نہیں ہم سے کتنا پیار کرتی ہیں، ہمارا خیال رکھتی ہیں۔ ایسی ہی تو ہوتی ہے ماں۔ اس طرح اس بچی نے باقی بچوں اور نعمت خان کے گھر سے میرے رشتے کو مضبوط کیا اور خوبصورت بنایا۔ سب سے چھوٹا لڑکا جس کا نام کاظم تھا، وہ ابھی اسکول نہیں جاتا تھا۔ مجھے روئی کے گالوں جیسا معصوم سا بچہ گھر میں اُڑتا پھرتا بہت اچھا لگتا تھا۔ میں نے میکے کے گھر میں اکیلی عمر بتائی تھی، کوئی چھوٹا بہن بھائی نہ تھا۔ اس رشتے کی حسرت تھی۔ مجھ کو شوہر کے بچوں میں رہنا اچھا لگا۔ ان کی پیاری پیاری باتیں اور شرارتیں مجھے خوش کرتی تھیں۔ میں بڑی دلچسپی سے ان کی ہر بات سنتی اور ان کا ہر کام کرتی۔
نعمت خان ایک نیک دل اور ہنس مکھ انسان تھے۔ میری زندگی میں اچانک بہار آگئی تھی۔ بڑی عمر کے ہونے کے سبب بہت سمجھدار تھے۔ ہر بات پر تحمل سے کام لیتے ، غصہ آتا بھی تو پی جاتے ، ہر بات پیار سے سمجھاتے۔ بچوں کو سمجھاتے اپنی شرارتوں سے ماں کو پریشان نہ کیا کرو لیکن مجھے تو ان بچوں کی پیاری پیاری شرارتیں خوش کرتی تھیں۔ بڑی دلچسپی سے ان کی ہر بات سنتی اور ان کے کام کرتی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ میری زندگی میں اچانک اتنا سکون آ جائے گا۔ اتنی مصروف ہو جائوں گی کہ فضول باتیں سوچنے کا وقت ہی نہ ملے گا۔ غربت سے نکل کر خوشحال گھر کے پر رونق ماحول میں آئی تو روح پر برسوں کی افسردگی کا میل کچیل خود بخود دھل گیا۔ نعمت خان، میری ماں اور ماموں کو بہت عزت دیتے۔ وہ جب مجھ سے ملنے آتے ، یہ ان کی بہت خاطر مدارات کرتے ۔ ماموں کو انہوں نے ایک مل میں چوکیدار رکھوا دیا۔ وقت کے ساتھ اب ہمارے بچے بڑے ہو رہے تھے۔ میری شادی کو سات برس گزر گئے۔ رافعہ اور سلیمان جوان ہو گئے لیکن خدا نے مجھے اولاد کی نعمت سے نہ نوازا۔ کئی بار چیک آپ کرایا، ڈاکٹر نے کہ دیا کہ آپ کو اولاد نہ ہو گی لہذا مزید علاج نہ کروائیں۔ شاید مجھے قلق ہوتا یہ حقیقت جان کر لیکن قدرت بھی انسان کی قسمت کے فیصلے سوچ سمجھ کر کرتی ہے۔ اللہ تعالی جانتا تھا کہ پیدائشی بانجھ ہوں لہذا مجھے ایسے شخص کی بیوی بنایا جس کے بچے تھے اور پھر یہ بچے ہی میری پیاسی ممتا کی تسکین بننے والے تھے۔ میں نے تو روز اول سے ہی نعمت خان کے بچے کو اپنے بچے سمجھا، ان کو ماں کا پیار دیا لہذا بے اولادی کا غم مجھے دیمک کی طرح نہ لگا اور میں بھربھری ہو کر گرنے مرنے سے محفوظ رہی۔ وہ بھی ایک پل میرے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ مجھے اپنی ماں ہی جانتے تھے ، اپنی مرحوم ماں کا پیار بھول گئے۔ ایک رات نعمت خان کے پہلو میں درد اٹھا۔ ان کو فوراً اسپتال لے گئے لیکن قسمت نے یاوری نہ کی۔ میں گھر پر تھی کہ اسپتال سے سلیمان کا فون آگیا کہ بابا جان فوت ہو گئے ہیں۔ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد دنیا تہ و بالا ہو گئی۔ میرا مان، میری شان، میرا سکون سبھی کچھ ختم ہو گیا۔ نعمت خان ہی تو میرے محافظ اور اپنے بچوں کے واحد کفیل تھے۔ جمع پونجی جتنی بھی ہو ، بس ایک عرصے تک ہی چلتی ہے۔ چند دن کی چاندنی دیکھنے کے بعد میری اندھیری زندگی میں پھر سے رات آگئی۔ اب میں اکیلی جان نہ تھی، تین بچوں کا ساتھ تھا اور ایک بوڑھی ساس بھی تھی۔ ایک بار میں نے نعمت خان سے کہا تھا، بچے بڑے ہو گئے ہیں۔ میں کہیں اسکول میں پڑھالوں ؟ بولے۔ کیا ضرورت ہے نوکری کرنے کی، اللہ کا دیا سبھی کچھ تو ہے۔ اب مجھے ضرورت تھی۔ ٹیچنگ کی نوکری تو نہ ملی، ایک اسپتال میں نرس کی ملازمت مل گئی۔ تنخواہ کم تھی پھر بھی خدا کا شکر تھا کہ بچوں کو کھانے کو مل جاتا تھا۔ انہی دنوں ساس کا انتقال ہو گیا تو ان کا پورشن خالی ہو گیا۔ میں نے گھر کا وہ حصہ کرائے پر اٹھا دیا، اس طرح آمدنی میں اضافہ ہوا تو بچوں کی پڑھائی کو جاری رکھنا ممکن ہو سکا۔ میں اپنی ذات سے زیادہ بچوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتی تھی۔ اپنے مرحوم شوہر کی روح سے ہرگز شرمندہ نہ ہونا چاہتی تھی کہ جب وہ زندہ تھے ، میرا اتنا خیال رکھتے تھے جیسے مالی کیاری میں نازک پھولوں کا خیال رکھتا ہے لہذا اتنی تنگ دستی میں بھی میں نے بچوں کو اپنی پریشانیوں کا احساس نہ ہونے دیا۔ ان کو ماں اور باپ کی کمی بھی محسوس نہیں ہونے دی، ان کو تعلیم دلوائی۔ وہ بھی محنت سے پڑھتے تھے لہذا ان کو تعلیمی اداروں سے وظیفہ بھی ملتا تھا۔ ان کی کامیابیاں مجھے حوصلہ دیتی تھیں۔ میرا بڑا بیٹا یونیورسٹی تک پہنچ گیا۔ میرا یہ ذہین بچے کم وسائل کے باوجود ٹاپ کرتے۔ ان کی کامیابی پر میں خوش ہوتی تھی تو پاس پڑوس کے لوگ کہتے، تم اتنی جان لگا رہی ہو ان پر ، دیکھ لینا یہ آخر میں تم سے وفا نہ کریں گے۔ یہ تمہارے کوکھ جائے نہیں ہیں ، یہ سوتیلے ہیں۔
آخر میرے نصیب کا سورج طلوع ہو گیا۔ میرے بڑے بیٹے نے ایم ایس سی میں فرسٹ پوزیشن لے کر گولڈ میڈل لیا، سو اسے نوکری نہیں تلاش کرنا پڑی بلکہ اسے ایک بہترین کمپنی میں نوکری کی آفر ہو گئی۔ میرے دن پھرنے لگے۔ رافعہ نے گریجویشن کر لیا تو اس کے لئے اس کے خالہ زاد کا رشتہ آ گیا۔ لڑکا بیرون ملک ملازمت کر رہا تھا اور اعلی تعلیم یافتہ تھا۔ وہ رافعہ کی حقیقی والدہ کی کزن کا بیٹا تھا۔ خدا کا شکر کہ وہ اپنے گھر عزت سے سدھار گئی اور بعد میں شوہر کے ساتھ امریکا جابسی۔ اب چھوٹے لڑکے کی باری تھی۔ اس نے بھی تعلیم مکمل کرلی اور انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔ اس کی تعلیم کا خرچ بڑے بیٹے نے اٹھایا، وہ بھی اپنی منزل کو پہنچ گیا۔ اب سبھی مجھے شاباش کہتے مگر مجھے کسی کی شاباشی کی ضرورت نہ تھی، میں تو چاہتی تھی کہ بس میرے بچے مجھ کو سراہیں اور میرا خیال رکھیں۔ خدا ان کی مدد ضرور کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کا ارادہ کر لیں۔ میرے بچوں نے بھی میرا ساتھ دیا تھا اور تنگ دستی میں ہمت نہ چھوڑی تھی۔ اب اس کا صلہ ملنے کا وقت آچکا تھا۔ میری بچی اپنے گھر میں خوش تھی، کاظم کو غیر ملک سے وظیفہ مل گیا، وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکا چلا گیا لیکن میرے بڑے لڑکے سلیمان نے مجھے اکیلے چھوڑ کر بیرون ملک جانا پسند نہ کیا۔ اس نے کہا۔ ماں ! اب آپ کا بڑھاپا ہے اور آپ کو میری ضرورت ہے۔ میں اس عمر میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہ جائوں گا۔ آپ کی خدمت میں ہی میرے لئے سکھ اور خوشی ہے۔ اس نے جیسا کہا، ویسا کر دکھایا۔ میں نے اس کی شادی کر دی۔ بیوی کو بھی سلیمان نے سمجھایا کہ تمہیں میری ماں کی عزت اور قدر کرنا ہو گی۔ اس کے بعد جو چاہو گی، میں تم کو دوں گا۔ دونوں میرا اس طرح خیال رکھتے ہیں جیسے میں نازک پھول ہوں یا کوئی مقدس شے ہوں۔ ان کے لئے صبر وشکر کہ وہ میرے لئے اتنا کچھ کر کے بھی احسان نہیں جتاتے بلکہ پیار سے خدمت کرتے ہیں۔ رافعہ اور کاظم بھی جب باہر سے آتے ہیں، مجھ پر واری صدقے ہوتے ہیں، تحفے لاتے ہیں اور لپٹ لپٹ جاتے ہیں۔ ایک ماں کو بڑھاپے میں اور کیا چاہیے کہ اس کی اولاد فرمانبردار اور اس کا خیال کرنے والی ہو۔ میری زندگی ایک مشکلات کا پہاڑ نہیں بلکہ ایک سبق ہے ، ان مائوں کے لئے جو چھوٹی چھوٹی پریشانیوں سے گھبرا کر غربت اور مشکلات کو پہاڑ سمجھتی ہیں اور آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں۔ اپنے شوہروں کو بھی پریشان رکھتی ہیں۔ یقین جانیے ! نیکی دل کو خوشی ضرور دیتی ہے اور اچھائی کا صلہ انسان کو آدمی نہیں بلکہ خدا دیتا ہے ، اس لئے کسی کے ساتھ بھی نیکی کر کے اس کا صلہ اپنے رب سے مانگنا چاہئے۔