Ache Niyyat Ka Samar | Teen Auratien Teen Kahaniyan
کبھی کبھی مال و متاع ہونے کے باوجود حالات کے ہاتھوں انسان تنگدست بلکہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو جاتا ہے۔ یہی حال والد صاحب کا تھا۔ بدقسمتی سے وہ دادا جان کی پہلی بیوی کے بیٹے تھے۔ جوانی میں جب بابا کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ صرف پانچ سال کے تھے۔ ان کی پرورش کیلئے ایک ماں کا ہونا ناگزیر تھا تب ہی دادا کی بہن نے دادا کی دوسری شادی کروا دی۔
شروع میں یہ عورت ڈری سہمی رہی اور اپنے شوہر کے لخت جگر کا خیال رکھا لیکن بعد میں وہ شیر ہوتی گئی کیونکہ اس کے اپنے بچّے ہو گئے تھے۔ ہماری یہ دوسری دادی بہت خوبصورت تھیں، دادا ان پر فریفتہ تھے۔ وہ ان کی ہر بات مانتے تھے۔ نئی بیوی کی محبت نے ان کو اپنی پہلی بیوی کی اکلوتی اولاد سے غافل کر دیا تھا۔
والد صاحب صرف ساتویں جماعت تک پڑھ سکے۔ وہ بیمار رہنے لگے تھے۔ مجبوراً اسکول کو خیرباد کہنا پڑا۔ دادا ان سے بدظن ہو گئے۔ سوتیلی ماں انہیں نکمّا کہتی اور بالکل توجّہ نہ دیتی، نتیجے میں وہ بے حد کمزور ہو گئے۔ کوئی بچّہ اپنے گھر میں اجنبی ہوجائے اور اپنوں کی حقارت کے وار سہنے پر مجبور ہو تو اس کا ذہن بھی متاثر ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ میرے والد کی صحت نے جواب دے دیا۔ وہ احساس کمتری کا شکار ہو گئے۔ کسی سے صحیح طریقے سے بات نہ کر سکتے تھے۔ کمزوری کی وجہ سے محنت کا بھی کوئی کام نہ کر پاتے تھے۔
سوتیلی ماں کو ان کی یہ بات سخت ناگوار گزرتی تھی۔ والد کی خالہ ان دنوں زندہ تھیں، وہ اکثر بھانجے کو اپنے گھر لے جاتیں۔ ان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ نام صاحب خاتون تھا۔ بھانجے کی گرتی صحت اور دادا کی ناانصافیوں کے سبب انہوں نے میرے والد کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ان سے اپنی بیٹی کی شادی کردی اور گھر داماد بنا لیا۔
جب تک نانی زندہ رہیں ہم لوگ انہی کے پاس رہے۔ ان کے بھائی اپنی زمینوں کا اناج دیا کرتے تھے اور کچھ زمین جو نانی کی ملکیت تھی اس کی سالانہ پیداوار کا حصّہ آتا۔ فصل کے موقع پر ان کے حصّے کا معاوضہ رقم کی صورت میں ان کو پہنچا دیا جاتا تھا۔
نانی کی وفات کے بعد ان کے بھائیوں نے ہاتھ روک لیا۔ انہوں نے میری والدہ کو ماں کی وراثت سے کچھ نہ دیا۔ نتیجے میں ہمارے حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے۔ مجبور ہو کر ابا جان باپ کے پاس گئے کہ گھر داماد بنانے والی خالہ دنیا سے چلی گئی ہیں اور میرے بچّے ابھی چھوٹے ہیں۔ آپ میرے حصّے کی زمین دے دیں تاکہ اس کی پیداوار سے ہم لوگ گزارہ کر سکیں۔ دادا ہر کام اپنی بیوی کے مشورے سے کرتے تھے۔ جب ان خاتون نے سنا کہ سوتیلا بیٹا زمین سے حصّہ مانگ رہا ہے تو وہ سیخ پا ہو گئیں۔ کہنے لگیں کہ ہرگز ایسا نہ ہونے دوں گی۔ اگر تم بڑے بیٹے کو زمین کا مالک بنائو گے تو میرے سارے بچّوں کو بھی اپنے جیتے جی زمین کے حصّے دو، ورنہ میں گھر چھوڑ کر چلی جائوں گی۔
دادا خاموش ہو گئے۔ البتہ وہ سال بھر کا اناج والد صاحب کو دینے لگے۔ یہ بات بھی ہماری دادی کو ناگوار گزرتی تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ جب یہ لوگ فصل کیلئے محنت نہیں کر سکتے تو مفت میں اناج کیوں لیتے ہیں۔ والد تو ایک طرح سے معذور تھے، تھوڑی سردی، گرمی سے بخار آ جاتا۔ ذرا سا پیدل چلتے تو سانس پھول جاتا، کم عمری کے باوجود مجبوراً میرے دونوں بھائی دادا کے کھیتوں میں کام کرنے کیلئے جانے لگے تاکہ ہم لوگ سال بھر کے اناج کے حقدار ہو سکیں۔ ان دنوں میرے بڑے بھائی سلیم کی عمر بارہ سال تھی اور چھوٹا کلیم ابھی صرف دس برس کا تھا۔ دونوں اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ ان کے اسکول سے آتے ہی ماں ان کو دادا کے پاس بھیج دیتی تھیں۔
میں سات برس کی ہو چکی تھی۔ صبح پڑھنے جاتی۔ دوپہر کو دادی بلوا لیتیں کہ آ کر کچھ کام کر جائو۔ وہ مجھ سے جھاڑو دلواتیں اور جھوٹے برتن دھلواتی تھیں۔ دادی نے بالآخر میرے ذمے اتنے کام لگا دیئے کہ مجھے اسکول چھوڑنا پڑا۔ میں زیادہ وقت ان کی چاکری میں رہنے لگی۔
اب میں صبح سے شام تک سوتیلی دادی کی خدمت میں حاضر رہتی۔ رات کو سونے گھر جاتی۔ کسی دن نہ جاتی تو دادی خود مجھے بلانے آ جاتیں۔ غرض کہ وہ مجھے اپنے گھر میں ٹکنے نہ دیتی تھیں۔ والدہ بھی کہتیں۔ جائو، جا کر دادی کا کام کرو، ورنہ یہ لوگ ہمارا خرچہ اور اناج بند کر دیں گے۔ تیرا باپ تو بیمار رہتا ہے، وہ کام نہیں کر سکتا، پھر ہم کھائیں گے کہاں سے اور کیا…؟
ہمیں چچا زادوں پر رشک آتا، وہ ٹھاٹ سے دادا کے گھر میں رہتے، کام بھی نہیں کرتے تھے۔ ان کے حصّے کا کام کھیتوں میں مزدور کرتے۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ ہماری حقیقی دادی نہیں تھیں اور ہم نانی کے مکان میں قیام پذیر تھے جو میری والدہ کو مرحوم نانا کے ترکے سے ملا تھا۔
ہم کل چھ افراد تھے مگر دادی ہمیں ناکافی حصّہ دیتی تھیں کہ ہمارا گزارہ مشکل ہو جاتا تھا جبکہ چچا اور پھپھو کو اپنے باپ سے خوشحالی ورثے میں ملی تھی۔ ان کے بچّے بھی ٹھاٹھ سے رہتے تھے۔ پھپھو کو باپ نے اپنے گھر کا آدھا حصّہ دے دیا تھا۔ وہ اپنے شوہر اور بچّوں کے ہمراہ ان کے پاس ہی رہتی تھیں۔ ایک ہم ہی بدقسمت تھے جنہیں سوتیلی ہونے کے سبب دادی نے کنبے سے نکال پھینکا تھا۔ ان کا کہنا تھا ان لوگوں کو ان کے نانا کا گھر مل گیا ہے اب یہ وہیں رہیں، ہمارے گھر رہیں گے تو جٹھانی دیورانی والے مسئلے ہوں گے اور بچّوں کی بھی آپس میں نہیں بنے گی۔ ہمارا سکون برباد ہو جائے گا۔ شاید دادا ہمیں پاس رکھنا چاہتے ہوں لیکن انہوں نے اس خواہش کا اظہار کبھی برملا نہیں کیا۔ وہ بہ ظاہر ہم سے پیار کرتے مگر اپنے ہاتھ سے کوئی چیز اٹھا کر نہیں دیتے تھے، جو دینا ہوتا ان کی بیوی ہی دیتی تھیں۔
میں اپنے بہن، بھائیوں میں سب سے سمجھ دار تھی، حسّاس بھی تھی۔ پھپھو اور چچا ہمیں پہننے کیلئے اپنے بچّوں کی اترن دیتے تو مجھے بڑا دکھ ہوتا۔کبھی کسی نے ہمیں عید پر بھی نئے جوڑے نہیں دیئے۔ ہم اترن ہی پہن لیتے تھے۔ میں سوچا کرتی۔ اے کاش!ہم پہلی دادی کی بجائے اس دوسری دادی کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہوتے تو دادا نے ہمیں اپنے گھر سے دودھ کی مکھی کی طرح نہ نکال پھینکا ہوتا۔
ہمارا گھر پرانا تھا جبکہ دادا کی دیگر اولاد چچا، پھوپی اور ان کے بچّے سب بڑے اور پختہ گھر میں رہتے تھے۔ ہم اس گھر میں نوکروں کی طرح ڈرتے ڈرتے داخل ہوتے۔ بھائی کام ختم کرتے ہی چلے جاتے۔ میری چھوٹی بہن، چچی اور پھپھو کے بچّوں کو کسی آیا کی طرح کھلاتی جبکہ ابھی اس کے خود کھیلنے کے دن تھے۔ ماں بے چاری چپ رہتیں کہ ہمارے خون پسینہ ایک کرنے سے گھر کا چولہا جلتا تھا۔
خدا کی کرنی کہ چچی اور پھپھو میں لڑائی ہو گئی، تب غصّے میں دادی نے بیٹی کی حمایت میں بہو کو گھر سے نکال دیا۔ چچا بیوی کے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ ان کے چھ بچّے تھے پس وہ بھی بیوی کے ساتھ چلے گئے۔ بعد میں دادی نے بیٹے کو دوسری شادی پر اکسایا، وہ نہ مانے تو انہیں دوبارہ گھر میں آنے نہ دیا۔
ایک دن چچا نے آ کر پھپھو اور دادی سے خوب لڑائی کی۔ اس بات کا دادی کو اتنا صدمہ ہوا کہ وہ بے ہوش ہو گئیں۔ اس کے بعد سے وہ بیمار رہنے لگیں۔ بیٹھے بیٹھے ان کا بلڈپریشر اس قدر بڑھ جاتا کہ اسپتال لے جانا پڑتا۔ آخرکار اسی عالم میں وہ چل بسیں۔
دادی کی وفات دادا کیلئے ان کی اپنی موت جیسی تھی۔ بیوی کیا مری گویا خود ان کی موت ہو گئی۔ انہوں نے ملنا ملانا اور بات کرنا ترک کر دیا۔ بس سارا دن اپنے کمرے میں لیٹے رہتے تھے۔ بڑھاپے میں جیون ساتھی نہ رہے تو تنہائی کا عذاب ستاتا ہے کیونکہ جوان اولاد کو تو اپنے ہی معاملات سے فرصت نہ تھی کہ باپ کا
اور نہ ہی دوا۔ ان کے دھلے ہوئے کپڑے بھی ہمارے گھر سے جاتے۔ کبھی کبھی والدہ جا کر ان کے کچھ کام کر آتی تھیں۔
دادی سوتیلی تھیں مگر دادا تو سگے تھے۔ ہمیں انہیں غمزدہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا۔ پھوپی اپنے بچّوں میں لگی رہتیں، کھانا وقت پر تیار نہ کرتیں، تب امّی گھر میں جو پکا ہوتا ہمارے ہاتھ دادا کو بھجوا دیتیں۔ دادا اس صورتحال سے پریشان رہنے لگے۔ وہ اولاد سے بدظن ہونے لگے۔ ایک روز انہوں نے چچا کو کہلوایا کہ واپس گھر آ جائو۔ میں تمہارے اور تمہارے بچّوں کیلئے اداس رہتا ہوں لیکن چچی نے آنے سے انکار کر دیا۔ دادا نے بیٹے کے انکار کو اپنی توہین خیال کرتے ہوئے جائداد سے عاق کرنے کی خبر بھجوا دی۔
اس اطلاع کی وجہ سے پھوپی غصّے میں آپے سے باہر ہو گئیں۔ ان کو خطرہ لاحق ہو گیا کہیں باپ پہلوٹی کے بیٹے کو زمین نہ دے دے۔ انہوں نے باپ سے لڑائی شروع کر دی۔ جب داماد نے بھی بیوی کا ساتھ دیا تو دادا نے ان دونوں کو بھی گھر سے چلے جانے کا حکم دے دیا۔
پھپھو کے سسرال والے دل سے چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا واپس آ جائے۔ انہوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور پھپھو اپنے شوہر کے والدین کے گھر میں رہنے لگیں۔ یہی ان کے ساس، سسر کی دلی تمنا تھی۔ اتنے بڑے مکان میں میرے بوڑھے دادا اکیلے رہ گئے۔
دادا نے محض دھمکانے کیلئے عاق کرنے کی بات کی تھی۔ ان کی اولاد نے سچ جانا۔ انہیں کسمپرسی میں چھوڑ کر آنکھیں پھیر لیں۔ سنسان گھر کی خاموشی اس ضعیف انسان کو ڈسنے لگی۔ ان دنوں وہ سخت بیمار تھے۔ ان کی خبر لینے والا کوئی نہ رہا۔ کھانا پکا کر کھلانے اور نہ ہی خدمت کرنے والا۔ وہ اٹھ کر خود پانی بھی نہ پی سکتے تھے۔ ہم پوتیاں ان کو کھانا کھلاتیں، پانی پلاتیں اور دوا کھلاتیں۔ ہم آ کر امّی جان کو بتاتیں دادا بہت بیمار ہیں، وہ اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ خود واش روم تک نہیں جا سکتے۔ تب میرے والدین سے رہا نہ گیا اور وہ دادا کے پاس چلے گئے۔
والد ان کے قدموں میں بیٹھ گئے اور کہا۔ بے شک آپ ہمیں اپنی ملکیت اور زمین سے کچھ نہ دیں۔ خدارا ہمیں اپنے پاس رہنے دیں تاکہ ہم آپ کی خدمت کر سکیں۔ اکیلے میں آپ کی حالت بگڑ گئی تو اسپتال لے جانے والا کوئی نہ ہو گا۔
میرے والدین نے یہ بات خلوص دل سے کہی۔ دادا پر اثر ہوا اور انہیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا کہ بڑا بیٹا بھی میری اولاد تھا۔ وہ بیمار تھا مگر علاج کرانے کی بجائے اسے اس کی خالہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے بابا جان اور امّی کو ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ وہ زیادہ بول نہ سکتے تھے، اکثر بات اشاروں سے کرتے۔ ہم ان سے محبت کرتے تھے۔ ہم نے جی جان سے ان کی خدمت کی۔ شاید ایسے ہی وقت انسان کو اچھے، برے، بے غرض اور مطلبی رشتوں کی پہچان ہوتی ہے۔
یہ ان کا آخری وقت تھا، وہ بستر سے اٹھ نہیں سکتے تھے۔ امّی ان کی خدمت کرتی تھیں اور والد کہتے تھے۔ دادا سے کچھ ملے نہ ملے تم نے بس انہیں سکھ دینا ہے اور دعا لینی ہے۔ ہرگز کسی کام میں کوتاہی مت کرنا۔ والدہ ان کے منہ میں نوالہ دیتیں اور پانی ٹپکاتیں۔ والد ڈاکٹر اور حکیم کو گھر لے آتے، غرض میرے ماں، باپ نے بغیر طمع کے دادا کی ایسی خدمت کی کہ رشتے دار بھی عش عش کر اٹھے۔ کہتے تھے یہ بیمار باپ کی خدمت کر کے جنت کے حقدار ہو گئے ہیں۔
جب حالت ابتر ہوئی والد چچا کے پاس گئے اور انہیں سمجھایا کہ والد سے ملو… وہ بیمار ہیں۔ چچا نے جواب دیا۔ جب تک ہمارا حق اپنی زندگی میں ہمیں نہیں دیتے ہم ان کا منہ نہیں دیکھیں گے۔ یہی جواب پھپھو نے دیا۔
دادا پر اپنی پیاری اولاد کی بے وفائی کا اتنا اثر ہوا کہ وہ تین دن تک روتے رہے اور انہوں نے کچھ کھایا نہ پیا۔ اپنے پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں کو دیکھنا چاہتے تھے وہ نہ آئے تو انہوں نے والد سے کہا۔ پٹواری کو لے آئو۔ میں اپنی زندگی میں وراثت کا فیصلہ کر کے جائوں گا تاکہ بعد میں تمہارے لئے مسائل جنم نہ لیں۔ وہ بڑی مشکل سے رجسٹرار کے آفس گئے اور اپنا بیان لکھوایا کیونکہ بولنے میں دشواری ہوتی تھی۔ یوں انہوں نے اپنی زمین اور جائداد سب والد کے نام کر دی۔ پندرہ دن بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
جو بات ہمارے خواب و خیال میں نہ تھی وہ ہو گئی۔ ہم سمجھتے تھے کہ ان کی تمام جائداد کے مالک چچا اور پھپھو بنیں گی۔ لیکن سب کچھ ہمیں مل گیا۔ جب یہ بات چچا اور پھپھو کے علم میں آئی تو ان کی طرف سے دھمکیاں ملنے لگیں کہ جائداد واپس کرو اور مکان بھی خالی کرو ورنہ ہم تمہارے بچّوں کا سانس لینا مشکل کر دیں گے۔ ان دھمکیوں سے امّی بہت خوفزدہ تھیں۔ وہ میرے بھائیوں کو گھر سے باہر نہ نکلنے دیتی تھیں اور والد کہتے تھے بے شک جو میرے باپ کی دوسری اولاد کے حصّے میں آتا ہے لے لیں، صرف میرا شرعی حصّہ میرے پاس رہنے دیں۔
لالچ ایسی بری بلا ہے کہ رشتوں کی پہچان بھی چھین لیتی ہے۔ ان لوگوں کی تو شروع سے ہی نیت خراب تھی۔ سمجھتے تھے کہ بڑا بھائی دائمی مریض ہے، یہ جلد مر جائے گا تو ہمارے باپ کی وراثت سے اس کے بچّے ازخود محروم ہو جائیں گے مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
بیماری کے باوجود بابا جان کی زندگی طویل تھی کہ دادا جان ان سے پہلے وفات پا گئے اور ان کی تکفین و تدفین کے فرائض والد نے ہی ادا کئے۔ دادا میرے والدین سے راضی گئے تھے۔ لیکن اب چچا اور پھوپی، پھوپھا کو چین نہ تھا۔ والد پر مقدمے دائر کرنے کا سوچ رہے تھے کہ اللہ نے ان کی نیتوں کا ثمر دے دیا۔ اس دن چچا اور پھوپھا وکیل کرنے شہر جا رہے تھے کہ ان کی کار کو حادثہ پیش آ گیا اور دونوں موقع پر جاں بحق ہو گئے۔
اس خبر سے پورے گائوں میں کہرام برپا ہو گیا۔ چچی اور پھپھو ایک ساتھ بیوہ ہو گئیں۔ یہ میرے والدین ہی تھے کہ انہوں نے ان کو گلے لگایا۔ تسلّی دی اور پھر انہوں نے اپنی مرضی سے بیوہ بھابی اور بہن کو زمین دے دی۔ وہ کہتے تھے سب نے ایک دن مر جانا ہے۔ میرے باپ کی نسل یتیم ہو گئی ہے اور میں ابھی باقی ہوں، میرے سوا اب کون ان کے سروں پر ہاتھ رکھنے والا رہ گیا ہے۔
وہ پھوپی اور چچی جو کسی حال زمین کے بٹوارے پر راضی نہ ہوتی تھیں بلکہ دادا کی ساری جائداد کا حقدار خود کو سمجھتی تھیں، اب خاموش تھیں۔ شاید ان کو امید نہ تھی کہ میرے بابا ان کے سروں پر سایہ کریں گے اور ایک بڑا سائبان بن جائیں گے، جب اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
والد نے نہ صرف زمین میں ان کو حصّہ دیا بلکہ ان کے بچّوں کی نگرانی میں بھی باپ جیسا کردار اداکیا۔ انہوں نے اپنا علاج شہر کے ماہر ڈاکٹروں سے جاری رکھا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے نیک اعمال کے صدقے صحت عطا کی اور ستّر برس عمر پائی۔ اپنے بھتیجوں کو تعلیم دلوائی اور بھتیجیوں کے بیاہ کئے۔ دو چچازاد بہنیں میری بھابھیاں بن گئیں اور ہماری شادیاں بھی چچا کے لڑکوں سے ہو گئیں۔
یہ وہ گھرانہ تھا جسے ایک عورت نے ’’سوتیلی ماں‘‘ کے روپ میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا اور اپنے بچّوں کے دلوں میں ہمارے لئے نفرت اور حقارت بھر دی تھی۔ آج ان کے بچّے ہمارے ساتھ پیار و محبت سے رہتے ہیں اور ہمارے ٹوٹے بکھرے خاندان کی ایک بار پھر تشکیل ہو گئی ہے۔ بے شک اللہ جو چاہے کر سکتا ہے لیکن انسان کو اپنی نیت ہر حال میں صاف رکھنی چاہئے۔
(ل۔م…جام پور)