Thursday, October 10, 2024

Achi Batein

پھوپھی سکینہ کہاں ہیں ؟ مینا یاسمین سے سوال کرتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئی۔ وہ باتھ روم میں ہیں۔ آپ سنایے کیسی ہیں؟ کافی دنوں بعد چکر لگایا ہے گھر میں سب خیریت ہے یاسمین نے تخت پر بیٹھتے سوال کیا۔ سب ٹھیک ہیں باجی بس طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی، اس لیے نہ آسکی ۔ اتنے میں سکینہ بی بی باتھ روم سے ہانپتی ہانپتی آ کر تخت پر بیٹھ گئیں۔ السلام علیکم ! کیا حال ہے پھوپھی؟ مینا نے پوچھا۔ ٹھیک ہوں تم ٹھیک ہو؟ گہری گہری سانسیں لیتے سکینہ بی بی نے پوچھا۔ میں ٹھیک ہوں۔ آپ کی طبیعت کا پوچھنے آئی تھی، بخار تھا نا کچھ دن پہلے آپ کو- ہاں اب اتر گیا ہے۔ وہ سادہ لہجے میں کہتے کچن کی طرف متوجہ ہوئیں ، لاؤنج میں ٹرے اٹھائے سائرہ داخل ہوئی چہرے پر نرم مسکراہٹ کے ساتھ سلام کرتے اس نے تخت اور چار پائی کے درمیان دھری میز پر ٹرے رکھی اور سر پر پیار لینے کے لیے جھکی۔ یہ سائرہ ہے؟ رابعہ کی بیٹی ؟ مینا نے سر پر پیار دیتے سکینہ بی بی سے سوال کیا۔ ہاں ماشاءاللہ کافی بڑی ہوگی ہے۔ اور تمہاری ڈاکٹری مکمل ہو گئی؟ تبصرے کے ساتھ سوال بھی کیا۔ جی وزیر آباد میں پوسٹنگ ہوئی ہے۔ نرم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے ۔ اب وہ ان کا دلچسپی سے جائزہ لے رہی تھی ، اتنے سالوں میں ان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی۔ چلو اچھی بات ہے اب جب تک یہاں ہو ہمیں اپنی ڈاکٹری کا قائدہ بھی دینا، کیوں پھوپھی؟ وہ کولڈ ڈرنک کا گھونٹ بھرتے مخاطب ہوئی۔ ہاں کیوں نہیں۔ میں تو جس دن سے یہ آئی ہے روزانہ بلڈ پریشر اور شوگر اس سے چیک کرواتی ہوں۔ شوگر تو یاسمین بھی چیک کر لیتی ہے مگر اب سائرہ ہی کرتی ہے۔ سکینہ بی بی نے فخر سے نواسی کو دیکھتے کہا۔ میرا بھی ذرا بلڈ پریشر تو چیک کر مینا نے فوراً کہا۔ جی میں بی پی آپریٹس لے کر آتی ہوں ۔ وہ اٹھ کر کمرے سے آپریٹس لے کر آئی ، بی پی چیک کر کے وہ کمرے میں سونے چلی گئی ، رات کو ڈیوٹی پر جانا تھا۔
☆☆☆

سکینہ بی بی اور شہاب الدین کی چار اولا دیں تھیں۔ شہاب الدین اپنے وقت کے میٹرک پاس تھے جبکہ سکینہ بی بی چٹی ان پڑھ ، ہاں دینی تعلیم ضرور سکینہ بی بی نے حاصل کی تھی شہاب الدین نے اپنی سب اولادوں کو اعلا تعلیم دلوائی۔ ایک بیٹا ڈاکٹر جولاہور میں ہوتا تھا جبکہ ایک بیٹا انجینئر تھا، وہ اسلام آباد میں ہوتا تھا جبکہ رابعہ بیگم ہاؤس وائف تھیں، یاسمین بیگم گورنمنٹ ٹیچر تھیں۔ سکینہ بی بی اپنی بیٹی یاسمین کے ساتھ وزیر آباد کے قریبی گاؤں میں رہائش پذیر ہیں۔ یاسمین شہاب الدین بیوہ تھیں ۔ دوبارہ شادی نہیں کی وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہتی تھیں۔ رابعه بیگم لاہور میں رہائش پذیر تھیں مجموعی طور پر یہ خاندان پڑھا لکھا تھا۔ گاؤں کے لوگ سادہ تھے ، جب بچپن میں سائرہ یہاں آتی ۔ اپنے بہن بھائیوں اور کزنز کی نسبت یہاں رہنا پسند کرتی تھی۔ وہ اپنی نوکری کے سلسلے میں یہاں آئی ہوئی تھی، جو کوئی بھی نانی سے ملنے آتا وہ جاتے ہوئے سائرہ سے بی پی تو ضرور چیک کروا کر جاتا ۔ گونانی کے ملنے ملانے والے بچپن کے مقابلے میں اب کچھ کم ہو گئے تھے لیکن چہل پہل تو رہتی ہی تھی۔
☆☆☆

ابھی اسے آئے کچھ ماہ ہی ہوئے تھے شام کا اندھیرا پوری طرح سے پھیل گیا تھا ، جب سائرہ دو دن کی ڈیوٹی کے بعد گھر آئی لاؤنج میں سامنے والے گھر کی صباحت بیٹھی تھی ، سلام دعا کے بعد سائرہ کے پانی پیتے ہی وہ بولی۔ میں کافی دیر سے تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ تم جلدی سے میرے ساتھ چلو امی کا بلڈ پریشر چیک کرنا ہے۔ سبحان بھی گھر نہیں، نہیں تو اس کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلی جاتی ۔ سائرہ نے جلدی سے ملازمہ کو آواز دی وہ آپریٹس لے کر آئے۔ دوپٹہ لیتے وہ لاؤنج کا دروازہ کھولتی صباحت کے ساتھ چلی گئی۔ سکینہ بی بی جو منع ہی کرنے والی تھیں ، ان کے کچھ کہنے سے پہلے وہ چلی گئی۔ کچھ دیر بعد سائرہ کی واپسی ہوئی سکینہ بی بی کے چہرے پر خفگی تھی ، سائر نے ان کے چہرے کو ایک نظر دیکھا۔ میں کپڑے بدل کر آتی ہوں پھر کھانا کھاتے ہیں۔ کمرے میں جاتے وہ ملازمہ کو کھانا دستر خوان پر لگانے کا کہتی چلی گئی- کھانے کے دوران بھی خاموشی رہی ۔ کھانے کے بعد معمول کے مطابق وہ تینوں ٹی وی دیکھتیں اور ساتھ ایک دوسرے کو پورے دن کا حال بتاتی تھیں ۔ آج معمول سے ہٹ کر خاموشی تھی تو بالآخر سائرہ نے، نانی کے پاس بیٹھتے ان کی ٹانگوں کو دباتے بات کا آغاز کیا۔ آپ کو یاد ہے ایک سال پہلے جب آپ کی شوگر بہت لو ہو گئی تھی تو کون آپ کو ہاسپٹل لے کر گیا تھا؟ اور ماموں لوگوں کے پہنچنے تک کون آپ کے پاس ہاسپٹل میں رہا تھا اور گھر میں بھی ؟ سکینہ بی بی جو غور سے اس کو سن رہی تھیں بولیں۔ صباحت کے اماں ابا، تو نانی، کیا یہ دوہرا معیار نہ ہوگا؟ کہ جب تو ہمیں ضرورت ہو تو وہ حاضر ہوں اور جب ان کو ہمیں ہماری ضرورت ہو تو ہم ان کے پاس نہ ہوں ؟ ہاں بات تو ٹھیک ہے پر مجھے اعتراض تمہارے جانے پر نہیں اس پر ہے کہ تم آتے ہی چلی گئی۔ نانی ، ڈاکٹر ہوں مجھے یہ نہیں دیکھنا کہ میں نے دو دن کی ڈیوٹی کی ہے، یہ دیکھنا ہے کہ کسی کو میری ابھی ضررت ہے۔ وہ اس کی بات سمجھ کر بولیں۔ اچھا ٹھیک ہے، کیسی طبیعت تھی صباحت کی؟ شوگر بہت ہائی تھی تھوڑی دیر تک جاؤں گی چیک کرنے ۔ وہ سامنے دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھ کر بولی۔ تو ابھی جاؤ چیک کر کے آؤ کیسی طبیعت ہے اب سائرہ کو ان کی بات پر ہنسی آگئی۔ اچھا جارہی ہوں آپ بھی کمال کرتی ہیں، ابھی آپ کو اعتراض تھا اور اب آپ خود کہہ رہی ہیں کہ جاؤ تمہارے نانا کہا کرتے تھے ، جب کوئی اچھی بات سیکھو تو فورا اپنا لوں۔ سائرہ ان کی بات پر تائیدی انداز میں سر ہلاتی لاونج سے باہر چلی گئی اور نانی ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگئیں۔
☆☆

Latest Posts

Related POSTS