عصمت خالہ صحت کے معاملے میں ہمیشہ کمزور رہی تھیں۔ خوبصورت تھیں، مگر بچوں نے ان کی خوبصورتی کو گھن کی طرح چاٹ لیا تھا۔ اپنے شوہر سے عمر میں دس سال چھوٹی تھیں، لیکن بڑی دکھائی دیتی تھیں۔ سچ ہے، اولاد کی پرورش کے تمام مسائل عورت کو ہی بھگتنے ہوتے ہیں۔ خالو کا اپنا فوٹو اسٹوڈیو تھا اور وہ خاصے خوشحال تھے۔ ان کے ہاں سب سے پہلے امبر پیدا ہوئی، پھر یکے بعد دیگرے پانچ بچے ہو گئے۔ اسی وجہ سے خالہ خون کی کمی کا شکار رہنے لگیں۔ اوپر تلے بچوں کی پیدائش اور آپریشنوں کی وجہ سے گھرداری مشکل ہو گئی تھی، یوں امبر وقت سے پہلے سیانی ہو گئی۔ وہ اب گھر کا کام کرتی اور چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال بھی کرتی۔ خالہ کو اب کسی کام کی فکر نہ تھی۔
امبر کو خدا نے سوجھ بوجھ عطا کی تھی۔ وہ شروع سے ہی سمجھدار بچی تھی۔ پڑھائی بھی کرتی تھی اور گھر کے کام بھی، انہی خوبیوں کی وجہ سے موٹی موٹی آنکھوں اور متناسب نقوش والی یہ لڑکی سب کو بھاتی تھی۔ اس کے سیاہ بال کمر تک لمبے تھے۔ جب بھی وہ شادیوں میں آتی، اپنی معمولی سی سجاوٹ کے باوجود ہر کسی کو لبھا لیتی۔ دھیمے لہجے میں بات کرنے والی، وہ سب کی آنکھ کا تارا تھی۔ اس کا رشتہ ماموں کے گھر طے تھا۔ پھر وہ وقت بھی آ گیا جب اسے رخصت ہونا تھا۔ خالہ اور خالو بہت خوش تھے، مگر امبر پرائی ہو رہی تھی، یہ سوچ کر وہ اداس بھی تھے۔ خالہ قدرے مطمئن تھیں کہ بیٹی ان کے بھائی کے گھر جا رہی ہے۔ بھائی اور بھاوج سے رشتہ مزید گہرا ہو رہا تھا۔ بہرحال، نیک تمناؤں اور دعاؤں کے سائے میں یہ بچی والدین کے گھر سے رخصت ہو کر دوسرے شہر آ گئی۔ کمرہ خوب سجایا گیا تھا۔ وہ دلہن بنی سیج پر بیٹھی اپنے دولہا کا انتظار کر رہی تھی۔ ویسے تو دونوں آپس میں کزن تھے، مگر زیادہ بات چیت نہ تھی۔ قدموں کی آہٹ سنائی دی تو وہ گھونگھٹ میں سمٹ گئی۔ پھر کوئی کمرے میں آیا، خاموشی سے شادی کا تحفہ، انگوٹھی کی صورت میں اس کو تھمایا، پھر اپنی جگہ سے اٹھا اور آئینے کے سامنے بیٹھ کر اپنے عکس سے باتیں کرنے لگا۔ امبر کو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہو رہی تھی کہ دولہا خود کو آئینے میں دیکھنے میں محو ہے۔ پھر جب اس کی باتوں کی آواز آنے لگی، تو امبر نے تھوڑا سا گھونگھٹ سرکا دیا۔ ہارون آئینے سے گفتگو میں محو تھا۔ وہ اس کی اوٹ پٹانگ باتیں سنتی رہی۔ اسے ہارون کی ذہنی حالت پر شک گزرا۔ بظاہر تو وہ ٹھیک لگ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور امبر سے کہا کہ میں تھک گیا ہوں، نیند آ رہی ہے۔ تم بھی تھک گئی ہو گی، سو جاؤ۔ یہ کہہ کر وہ صوفے پر سو گیا۔ اس عجیب و غریب سلوک پر امبر حیران تھی۔
صبح حسب معمول وہ عام لوگوں جیسا ہی نظر آ رہا تھا۔ اس نے ہلکے کریم رنگ کا خوبصورت لباس پہنا ہوا تھا۔ اس کا قد کاٹھ اچھا تھا۔ لڑکیاں اس کی خوبصورتی دیکھ کر امبر پر رشک کر رہی تھیں۔ ولیمہ ہوا اور تمام لوگ ہنسی خوشی بن سنور کر تقریب میں شرکت کرنے کے لیے آئے۔ امبر کی کچھ سہیلیاں اور قریبی کزنز بھی موجود تھیں، لیکن وہ کسی سے اپنے دل کا حال نہ کہہ سکی۔ لوگ کھا پی کر رخصت ہو گئے۔ رات آ گئی اور دلہن کمرے میں اس کا انتظار کرنے لگی۔ ہارون دوستوں سے فارغ ہو کر آیا اور اس سے دو چار واجبی سی باتیں کرنے کے بعد پھر آئینے کے سامنے بیٹھ گیا اور خود کلامی کرنے لگا۔ لگتا تھا وہ کسی اسٹیج ڈرامے کے مکالموں کی ریہرسل کر رہا ہو۔ وہ گھنٹوں بیٹھا باتیں کرتا رہا، یہاں تک کہ آدھی رات بیت گئی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ کمرے میں کوئی اور بھی ہے، جو اس کی باتیں سن رہا ہے۔ وہ چونک گیا اور امبر کو مخاطب کر کے بولا کہ دلہن، ابھی تک جاگ رہی ہو؟ کس کا انتظار کر رہی ہو؟ جاگو، سو جاؤ۔ کیا میری باتیں سن رہی ہو؟ کسی کی بات سننا بری بات ہے، اور وہ بھی چوری چوری، کتنی بری بات ہے۔ سو جاؤ، شاباش۔ امبر، جو تھک کر چور ہو چکی تھی، جہاں بیٹھی تھی وہیں لڑھک گئی۔ وہ سسک رہی تھی، آنسو آنکھوں سے بہہ نکلے تھے، لیکن آواز سے نہ رو سکتی تھی، مبادا گھر والے نہ جاگ جائیں۔مگر یہ ایک دن کی بات نہ تھی۔ یہ روز کا معمول ہو گیا۔ ہارون روز کمرے میں آ کر اپنے آپ سے باتیں کرتا اور امبر خاموشی سے بت بنی دیکھتی رہتی۔ اس نے کسی کو کچھ نہ بتایا۔ آخر کار، دو ماہ بعد جب وہ میکے ماں کے پاس رہنے آئی تو ایک دن پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ خالہ اور خالو بہت پریشان ہوئے۔ ماں کے اصرار پر اس نے بتایا کہ بظاہر نارمل نظر آنے والا ہارون درحقیقت نارمل نہیں ہے۔ وہ نفسیاتی طور پر تندرست نہیں ہے۔ شاید اس پر کوئی سایہ ہے۔ وہ امبر سے عجیب عجیب باتیں کرتا ہے، مثلاً یہ کہ بہت جلد اب یہ دنیا ختم ہونے والی ہے۔ تم بھی ختم ہو جاؤ گی۔ دیکھو، آئینے میں یہ کون دیکھ رہا ہے؟ یہ میرا ہمزاد ہے اور مجھے ہمزاد سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔امبر نے سسرال واپس جانے سے انکار کر دیا۔خالہ نے بھابی اور بھائی سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگر ہارون نارمل نہیں تھا، تو ایسا ظلم کیوں کیا؟ کیوں ہمیں نہ بتایا؟ وہ بیٹی کو ساتھ لے کر ان کے گھر گئیں اور امبر نے اپنی ساس سسر کو سب کچھ بتایا۔ پہلے تو ممانی انکار کرتی رہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، پھر بتایا کہ دراصل ایک بار گاؤں میں شادی تھی اور ہم ویرانے سے گزر رہے تھے کہ اچانک ہارون نے کوئی اجنبی مخلوق دیکھی اور ڈر گیا۔ تبھی وہ کبھی کبھی اس طرح کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ شاید آئینے میں اسے اپنے چہرے کی جگہ کسی خوبصورت عورت کا چہرہ نظر آتا ہے۔ وہ اس عکس میں اتنا کھو جاتا ہے کہ پھر اسے کسی بات کا ہوش نہیں رہتا اور گرد و نواح کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔ ہم نے ایک عامل کو دکھایا تھا، انہوں نے کافی دیر تک دم کیا تھا۔ ڈاکٹر کو بھی دکھایا، اس نے مشورہ دیا کہ اس کی شادی کر دی جائے تو ٹھیک ہو جائے گا۔ تب ہم نے اس کی شادی کر دی، جب کہ عامل نے کہا تھا کہ مسلسل عمل کرنا پڑے گا۔ کوئی پری اس پر عاشق ہے، یہ اس کی کارستانیاں ہیں۔ وہ اس کا گھر آباد ہونے نہیں دے گی۔ یہ سن کر خالہ رونے لگیں، تو ہارون کے والد نے کہا: یہ عورتوں کے فسانے ہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ کوئی پری عاشق نہیں ہے۔ یہ بس کسی بات سے ڈر گیا تھا اور خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ امبر کا خیال رکھیں گے اور ہارون کو بھی سمجھائیں گے۔ ضرورت پڑنے پر اس کا علاج بھی کروائیں گے۔ امبر وہاں رہنے پر تیار نہ تھی، مگر ایک بار آزمائش کے طور پر ٹھہر گئی۔ خالہ اور خالو بیٹی کو سسرال چھوڑ کر خود پریشان حال لوٹ آئے۔کچھ وقت اور گزر گیا، مگر حالات نہ بدلے۔ ہارون نے ٹھیک ہونا تھا، نہ ہوا۔ وہ کہتا تھا: میں ٹھیک ہوں، علاج کس بات کا کراؤں؟ امبر پیلی زرد پڑنے لگی۔ اس کی آنکھوں کے نیچے ہلکے گہرے ہونے لگے۔ وہ ہر وقت روتی رہتی۔
آخر کار، کچھ عرصے بعد جب خالہ اور خالو بیٹی سے ملنے گئے، تو وہ ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی: میں یہاں نہیں رہوں گی، خدا کے لیے مجھے لے جائیے! تب انہیں اندازہ ہوا کہ بات معمولی نہیں، ورنہ ان کی فرمانبردار بیٹی یوں نہ کہتی۔ وہ اسے واپس گھر لے آئے۔ اس بار امبر نے اور بھی ایسی باتیں بتائیں، جن سے اندازہ ہوا کہ ہارون واقعی نفسیاتی مریض ہے۔اب یہ بات تمام خاندان میں پھیل چکی تھی کہ ہارون گھر بسانے کے قابل نہ تھا، پھر بھی اس کے ماں باپ نے شادی کر دی اور امبر کی زندگی برباد کر دی۔ادھر ممانی نے بدلہ لیا اور اس بات کو یہ رنگ دیا کہ ان کی بہو شادی سے پہلے کسی اور سے محبت کرتی تھی اور اب ہمارے بیٹے پر الزام لگا کر جان چھڑانا چاہتی ہے۔خالہ تو بستر سے لگ گئیں۔ خاندان والوں نے تسلی دی کہ اللہ کو جو منظور تھا، وہی ہوا۔ امبر کی آزمائش تو ختم ہو گئی۔طلاق کے صرف چھ ماہ بعد خالو کی بہن مہ جبیں اپنے بیٹے شاہو کے لیے رشتہ مانگنے آ گئیں۔ انہوں نے کہا: اب تو مجھے امبر کا رشتہ دے دو۔ شاہو بھی کویت سے آ کر ماموں کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ ہمارے خالو نے سوچا کہ پہلے بیوی کے بھائی کے گھر رشتہ دیا، تو کیوں نہ اب اپنی بہن کی جھولی مرادوں سے بھر دوں؟ شاید قسمت راضی ہو جائے۔شاہو عرصے سے کویت میں تھا اور کسی کو علم نہ تھا کہ وہ وہاں کیا کرتا ہے۔اتفاق سے انہی دنوں ایک جاننے والا، جو کویت میں رہتا تھا، پاکستان آیا۔ اس نے دبے لفظوں میں بتایا کہ سنا ہے شاہو نے وہاں شادی کی ہوئی ہے۔خالہ اور خالو نے یہ سن کر سخت پریشانی محسوس کی۔خالہ تو ویسے ہی خاموش اور مجبور ہو گئی تھیں۔ انہیں امبر کی پہلی شادی نے بہت بڑا دھچکا پہنچایا تھا۔ امبر بھی شادی کے ذکر پر زرد پڑ جاتی تھی، مگر ماں باپ نے سمجھایا تو خاموش ہو گئی کہ شاید اب اللہ کرم کرے اور میرے ماں باپ پریشانی سے نکل آئیں۔یوں سادگی سے امبر کا نکاح شاہو سے ہوا اور اس کی چھوٹی بہن کا نکاح شاہو کے چھوٹے بھائی اختر سے کر دیا گیا۔رخصتی تب ہونی تھی جب دونوں بھائی کویت سے آ کر بلا پاتے۔نکاح کی تقریب کے دو ماہ بعد خالو کو کئی ذرائع سے علم ہو گیا کہ نہ صرف شاہو شادی شدہ ہے بلکہ تین بچوں کا باپ بھی ہے۔ اس کا بھائی اختر بھی شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ تھا۔یہ سن کر خالہ اور خالو کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔انہوں نے اپنی بہن سے پوچھا: یہ کیا سن رہا ہوں تمہارے بیٹوں کے بارے میں؟ پہلے تو وہ مسکرا دی، پھر بولی: وہ اپنی عربی بیویوں سے تنگ ہیں اور انہیں چھوڑنا چاہتے ہیں۔ وہ جلد چھوڑ دیں گے۔امبر کے والد دوسری بار بیٹی کو طلاق دلوانا نہیں چاہتے تھے، لہٰذا انہوں نے خود شاہو سے بات کرنے کا فیصلہ کیا، مگر اس نے صاف انکار کر دیا: میں کویت والی بیوی کو بھی نہیں چھوڑوں گا اور امبر کو وہاں لے جانا بھی ممکن نہیں۔ کچھ مجبوریاں آڑے آ رہی ہیں۔ وہ پاکستان میں رہے گی اور میں کبھی کویت اور کبھی پاکستان آتا جاؤں گا۔ البتہ اختر نے کہا: ثمرین کو میں بلا لوں گا، میں نے کویت میں مجبوری میں شادی کی تھی۔ لیکن میرا اصل نباہ اپنی دیسی بیوی کے ساتھ ہی ہوگا۔ ماں باپ بھی کتنے مجبور ہوتے ہیں! کوشش کرتے ہیں کہ بیٹی کا گھر بس جائے۔ثمرین نے مجبوراً یہ قبول کر لیا کہ اسے کویت میں سوکن کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گا، مگر امبر کا مسئلہ پھر الجھ گیا۔شاہو کے راضی نہ ہونے پر خالو نے کہہ دیا: میری بیٹی یہاں پڑی سڑتی رہے اور شاہو وہاں بیٹھا رہے، اور سال دو سال بعد پاکستان کا چکر لگائے؟ یہ مجھے ہرگز منظور نہیں! تب دکھی دل کے ساتھ امبر کی دوسری طلاق کا فیصلہ کیا گیا۔
یوں وہ معصوم دوسری بار مطلقہ ہو گئی۔جن والدین کی بیٹی دو بار طلاق یافتہ ہو جائے، ان کا کیا حال ہوگا؟خالہ ہر وقت سر درد کی شکایت کرنے لگیں اور خالو بھی شدید پریشان رہنے لگے۔امبر خود اپنی قسمت پر خدا سے شکوہ کرتی: کاش ایسا نہ ہوتا! مگر ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔سب دعا کرنے لگے کہ خدا امبر کا آئندہ نصیب اچھا کر دے۔آج کل کنواری لڑکی کا رشتہ ملنا مشکل ہوتا ہے، تو دو بار طلاق یافتہ کو کون اپناتا؟بے شک، اس تمام معاملے میں امبر کا کوئی قصور نہ تھا۔ وہ معصوم اور بے قصور تھی۔ مگر زمانہ کب کسی کو بخشتا ہے؟پھر سنا کہ امبر کی دوسری خالہ، صفیہ، اپنے بیٹے کے لیے رشتہ لے کر آئی ہیں۔اس کا بیٹا ساجد اپنی پہلی بیوی کے ساتھ نہ بننے کی وجہ سے دوسری شادی کرنا چاہتا تھا۔مگر اس بار سب نے خالو سے کہا: خدارا، پہلے اچھی طرح تحقیق کر لیں! کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر اس بیچاری کے ساتھ تقدیر کا مذاق ہو جائے۔ جب امبر سے پوچھا گیا، تو وہ رو دی: کیا میں بار بار بکنے والی کوئی چیز ہوں؟ اب مزید تماشا نہیں بنوں گی۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا جائے! اس نے بی اے کی تیاری شروع کر دی، پھر بی ایڈ کیا، اور اب اسکول میں پڑھا رہی ہے۔شادی کا نام سنتے ہی پریشان ہو جاتی ہے۔ کہتی ہے: میں ایسے ہی خوش ہوں، مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ ماں باپ بہت سمجھاتے، مگر وہ نہیں مانتی تھی۔ شاید اس کا مرد ذات سے اعتبار اٹھ چکا تھا۔اب اسے کون سمجھائے کہ زندگی تنہا نہیں گزرتی؟اس کے لیے ہزار پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ہمیں اس مسئلے پر ضرور غور کرنا چاہیے، خاص طور پر ایسے مردوں کے حوالے سے جو حقوقِ زوجیت ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔کسی عورت کو ایسے ادھورے مردوں کے ساتھ زندگی گزارنے کی سزا نہیں ملنی چاہیے۔