Monday, April 28, 2025

Adhura Rishta

ہم لاہور سے گائوں آئے تھے۔ چچا کے گھر میں یہ میری پہلی عید تھی۔ امی نے بتایا کہ یہ تمہارے چچا کا بیٹا ہے ، وہ مجھے عید مبارک کہنے آیا تھا۔ میں اُسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ کتنا خوبصورت تھا وہ، وہی ایک کیا، یہاں تو سب ہی لوگ خوبصورت تھے۔ گورے  ، اونچے لمبے، گائوں میں رہ کر ان کی صحت قابل رشک تھی۔ میں نے سوچا کہ اگر میں گائوں میں رہوں، یہاں کی کھلی فضا میں، تو کیا میں بھی اتنی ہی خوبصورت ہو جائوں گی ؟ تبھی چچی نے مجھے پکارا۔ میں ان کے پاس باورچی خانے میں گئی۔ انہوں نے سویوں کی پلیٹ پکڑا کر کہا انور کو دے دو۔ میں سویوں کی پلیٹ لے کر گئی تو اس نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ کہا کہ تم بھی میرے ساتھ کھائو۔ اُس نے پلیٹ میری طرف پھیر دی۔ پلیٹ میں ایک ہی چمچہ تھا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے چمچے کی طرف دیکھا تو وہ ہنس دیا۔ مجھ کو اُس کی ہنسی بہت اچھی لگی۔ وہ ایک خوش مزاج لڑکا تھا۔ پڑھنے کے لئے لاہور آنا چاہتا تھا، تبھی چچ نے ہمارے گھر کے نزدیک ایک مکان کرایے پر لے لیا۔ ایک دن انور اپنے صحن میں درخت کے نیچے کرسی ڈالے بیٹھا امتحان کی تیاری کر رہا تھا کہ میں نے پوچھ لیا۔ یہ فرحانہ کون ہے، جس کا نام آپ کی کاپی پر لکھا ہے۔ اس نے کہا کہ جس کے پاس مرہم نہ ہو اس کو زخم دکھانا بے وقوفی ہے ۔ واقعی مرہم میرے پاس نہیں ہے۔ میں نے اُس کو جواب دیا۔ وہ تو اسی کے پاس ہو گا جس نے زخم لگایا ہو گا۔ اس دن کے بعد وہ بہت سنجیدہ ہو گیا، مجھے بھی دوسروں کی زبانی پتا چل گیا کہ فرحانہ اس کی پہلی محبت تھی، جس کو اس نے برے کردار کی وجہ سے اپنی زندگی سے نکال دیا تھا۔ انور کا گھر ہمارے گھر کے برابر میں تھا۔ میں روز ہی وہاں جاتی ، اس کی کتابوں پر لکھے ہوئے شعر پڑھتی اور  جوابی شعر لکھ دیتی۔ اس نے نے کبھی ! مجھے اس حرکت پر نہ ٹوکا اور نہ کوئی جواب دیا۔  میں نے جان لیا کہ وہ ایک اچھا انسان ہے ، ہر آزمائش میں پاس ہے ، مجھے اس پر اعتماد ہو گیا۔ ابو انور  کو بہت چاہتے تھے۔ وہ بھی میرے والد پر جان نثار کرتا تھا۔ ہمارے گھر آکر ابو کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ اگر وہ نہ آتا تو ابو اسے بلانے خود چلے جاتے۔ وہ اُس کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ تایا اور بھتیجے کی یہ محبت دیکھ کر سب کو یقین ہو گیا کہ وہ اُس کو ضرورداماد بنانے والے ہیں۔

امتحان سے فارغ ہوتے ہی انور کو ابو نے کہا کہ اب تم سروس کر لو۔ تب اس نے ملازمت تلاش کی اور ڈیوٹی پر جانے لگا۔ جیسا میرے والد کہتے ، وہ ویسا ہی کرتا تھا۔ دن میں کام پر چلا جاتا اور رات کو ہمارے گھر آجاتا۔ جب کوئی قریبی رشتے دار لڑکا ، گھر والوں کے اتنا قریب ہو تو دیکھنے والوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ اس قربت میں مزید کوئی رشتہ ناتا جڑنے والا ہے۔ مجھے بھی یقین ہو گیا کہ والد میری شادی اس کے ساتھ کرنے والے ہیں، اس وجہ سے میرے دل میں اُس کے لئے جگہ بن گئی۔ انہی دنوں جب میں انور کے ساتھ مستقبل کے سہانے خواب دیکھ رہی تھی، رہی اچانک ابو کو دل کا دورہ پڑا اور وہ فوت ہو گئے۔ ان کی وفات کا کا صدمہ مجھ سے برداشت نہ ہو پا رہا تھا۔ میں بیمار پڑ گئی۔ رات کو کافی دیر تک روتی رہتی، یہاں تک کہ کھانا پینا بھی مجھ سے رہ گیا۔ تب انور نے بڑا حوصلہ دیا، میری ہمت بندھائی، آنسوئوں کی جگہ مجھے مسکراہٹ بخشی ۔ جب شام کو ڈیوٹی کر کے کے  گھر آتا  تو اکثر اوقات میں بے سدھ پڑی ہوتی۔ وہ مجھے اُٹھاتا، کھانا کھلاتا اور خود بھی کھاتا۔ وہ میرے بہن بھائیوں سے بھی اتناہی پیار کرتا تھا جتنا مجھ سے۔ ایک دن وہ ہمارے گھر آیا تو میں بیمار تھی۔ جب اُس نے مجھے اُٹھایا۔ مجھے کچھ ہوش نہ تھا۔ اُس کے ہاتھ میں نے اپنے گلے کی طرف بڑھتے دیکھے تو اسے روکنا چاہا، مگر ان ہاتھوں نے میرے گلے کے کھلے ہوئے بٹنوں کو بند کیا اور میرے سر پر چادر اوڑھائی۔ اس وجہ سے میرے دل میں اس کی عزت زیادہ ہو گئی۔ وہ کوسوں دور بھی ہوتا تو میری آواز پر لبیک کہتا تھا۔ اس نے اس وقت ہمارے ساتھ خلوص کے رشتے قائم کئے ، جب اپنوں نے بھی منہ موڑ لیا تھا۔

جب والد صاحب کی وفات کے بعد کوئی سہارا نہ رہا تھا۔ بعض اوقات ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب انسان کو دولت کی نہیں، خلوص کی ضرورت ہوتی ہے۔ انور کے پاس گرچہ دولت نہ تھی مگر اس نے اپنے من کی دولت ہم پر نچھاور کر کے ہمیں کھویا ہوا سکون عطا کیا تھا۔ اس کے اخلاص سے متاثر ہو کر میں نے اپنی سہیلی کے ذریعے اسے یہ پیغام دیا کہ وہ مجھ سے شادی کرلے تاکہ ہمیں سہارا مل جائے۔ تب دونوں بھائی بھی زیر تعلیم تھے اور ہمارا کوئی سہارا نہ تھا۔ تمہارے رشتے کی بات تمہاری والدہ نے اپنے بھائی کے گھر چلا ر کھی ہے۔ ماں کو ناراض مت کرنا۔ میں بیوہ تائی کی دل آزاری نہیں چاہتا، اس لئے خاموش ہوں۔ اس نے جواب دیا تھا۔ اس جواب سے میری دل شکنی ضرور ہوئی مگر جب ٹھنڈے دل سے غور کیا تو سمجھ گئی کہ وہ میرے لئے نہ صرف ایک اچھا دوست ہے بلکہ اس نے مجھے ماں باپ بھائی بہن جیسی شفقت اور پیار بھی دیا ہے۔ وہ  دل سے مجھ سے پیار کرتا تھا، مگر مجھ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ماموں کے گھر سے انکار ہو گیا تو امی خاموش ہو کر بیٹھ گئیں۔ ممانی سے ان کی نہیں بنتی تھی۔ انہوں نے ہی میرا رشتہ لینے سے انکار کر دیا۔ اب حالات صاف تھے لہٰذا انور نے ہر قدم پر میرا ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا۔ اس کے بعد ابو کے گھر والوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ گہری نیند سے بیدار ہو گئے۔ بُرے وقت میں ہمارے سگے چچا بھی ساتھ چھوڑ نے لگے کہ اب جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ سامنے آنے والا تھا۔ انہوں نے انور کو ہمارے گھر آنے سے منع کر دیا۔ انور نے ان کو ناراض تو کر لیا مگر ہمارے گھر کا رستہ نہ بدلا۔ ہم روزانہ ایک دوسرے سے ملتے، مستقبل بارے باتیں کرتے۔ اب ہم اپنی منزل کو پانے کے لئے تپتی دھوپ کے مسافر ہو گئے۔ منزل کو پالینے کی خاطر مختلف راستے تلاش کرتے رہتے۔ میرے گھر میں سب کو پتا چل گیا کہ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں۔  اماں چونکہ انور کو پسند کرنے لگی تھیں، وہ اس کو گھر آنے سے منع نہیں کرتی تھیں۔ تین سال گزر گئے ، نئی زندگی کے خواب آنکھوں میں بسا کر کبھی سوتے کبھی جاگتے ، پل پل گنتے تھے کہ کب وہ دن آئے گا جب ہم شادی کے پاکیزہ رشتے میں بندھ جائیں گے ۔ منزل جب واضح ہو تو تھکاوٹ نہیں ہوتی مگر ہمارے ساتھ تو دشمنوں کے سایے بھی چل رہے تھے۔ ان دنوں انور مجھ سے بار بار ایک سوال کرتا تھا کہ کیا جب کوئی لڑکی مرد سے پیار کرتی ہے تو وہ ذہنی یا دلی طور پر کسی اور مرد کے قابل رہ جاتی ہے ؟ میں صرف آپ کے لئے بنی ہوں۔ شادی کروں گی تو آپ سے ، پھر میں ایسے سوالات کے بارے کیوں سوچوں ؟ انور کو میں یہی جواب دیتی۔

ایک دن انور نے میری امی سے کچھ باتیں کیں۔ امی نے جانے کیا جواب دیا کہ وہ ہمارے گھر سے موڈ آف کر کے چلا گیا۔ میں نے انور سے رابطہ کیا۔ اُس نے بتایا کہ پہلے تو تمہاری امی مجھ سے تمہاری شادی پر راضی ہو گئی تھیں کیونکہ ان کے بھائی کے گھر سے انکار ہو گیا تھا، اب پھر بھائی نے ان کو منا لیا ہے اور دو بارہ  بیٹے کے رشتے کے لئے منت سماجت کی ہے تو تائی جی کا ارادہ میری طرف سے بدل گیا ہے اور انہوں نے مجھے کہا ہے کہ میں تاج کا رشتہ اسے ہی دوں گی جس کے ساتھ بچپن سے بات طے کر دی تھی یعنی اپنے بھتیجے اسفند یار ہے ۔ اسفند تو میری نظر میں پرلے درجے کا کتا تھا، جس کی ذہنیت ہی خراب تھی۔ وہ بے حس دل کا مالک تھا۔ جو بے غیرتی کو اپنی عزت سمجھے ، وہ بیکار انسان ہی ہوتا ہے۔ پہلے خود مجھ سے شادی سے انکار کیا پھر اقرار کرنے لگا۔ انور میرے بڑے بھائی کے پاس گیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہمارے دُشمن بن گئے تھے۔ ہم خود یہ چاہتے   ہیں کہ کوئی ایسی بات ہو کہ وہ ہمارے رستے سے آپ ہی ہٹ جائے۔ خاندانی طور پر ہم ماموں کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ اب پھر یہ بے غیرت بن کر ہمارے در پر آ گئے ہیں ، امی کو پھر سے شیشے میں اُتار لیا ہے اور میں امی سے جھگڑ نہیں سکتا، اسفند ان کو بھتیجا جو ہوا۔ اب بتائیے میں کیا کروں ؟ جب انور نے میرے دوسرے بھائی سے بات کی اس نے بھی کہا۔ انور بھائی ! امی ضدی ہیں، میری نہیں مانیں گی۔ اگر ہم نے رشتے سے انکار کیا تو ساری ننھیالی برادری ہماری دشمن بن جائے گی جبکہ ابو کا سایا ہم کھو چکے ہیں۔ آپ کے والد بھی ہم سے کنارہ کش ہیں۔ وہ اگر ہمارے اور آپ کے ساتھ ہوتے تو بھی ہم مضبوط ہو جاتے ، مل کر ننھیال سے ٹکر لے لیتے ۔ ماموں والے بھی ہیں تو ہمارے مخالف مگر ہم ماں کی خاطر مجبور ہیں کہ والدہ کے بھائی کا معاملہ ہے۔ اب آخری امید انور کو اپنے گھر والوں سے تھی وہ ان کے پاس گیا تو انہوں نے بھی ساتھ نہ دیا۔ کہنے لگے کہ تمہاری تائی کے سارے بھائی ہمارے دشمن بن جائیں گے۔ اس معاملے سے بچ ہی کر رہو تو بہتر ہے۔ انور نے آخری حربہ آزمانے کو اپنی برادری اور میرے ننھیال میں یہ بات پھیلا دی کہ وہ مجھ سے شادی کرے گا۔ اگر اس کی والدہ اور بھائیوں نے سیدھے سبھائو ر شتہ نہ دیا تو مجھ کو بھگا کر لے جائے گا۔ یہ باتیں انور کی بھابھی کے ذریعے مجھے پتا چلیں۔ اُس کے بعد میرے گھر والوں نے مجھ پر سختیاں شروع کر دیں۔ اب میں انور سے مل بھی نہیں سکتی تھی۔ بھا بھی نے مجھے سمجھایا کہ ہ سارے مرد مطلب پرست ہوتے ہیں۔ اگر انور بھی مطلب پرست نہ ہوتا تو آج تمہاری عزت عزت کر رکھتا اور یوں سر عام ایسی باتیں نہ پھیلاتا۔ یہ کیسی محبت ہے کہ اُس نے سارے خاندان میں تمہیں بد نام کر دیا ہے۔ خاندان والے بھی اب ہماری بے عزتی پر تل گئے تھے۔ اس پر مجھے بہت غصہ آیا۔ اُس کے بعد روزانہ مجھے انور کے خلاف ایک سے ایک بڑھ کر بات بتلائی جاتی تھی اور میرا اس پر غصہ بڑھتا ہی جاتا تھا جو نفرت میں بدل رہا تھا۔ ایک دن انور کا خط ملا۔

لکھا تھا، تاج، بتائوا اگر ہم دونوں ایک ایسے میدان میں چل رہے ہوں، جہاں دھوپ ہی دُھوپ اور تپتی ریت ہو۔ پانی بھی نہ ہو اور کوئی مددگار بھی نہ ہو۔ پیچھے سے اگر گھوڑے پر سوار کوئی آدمی آجائے تو کیا مجھے اس صحرا میں تن تنہا، بھوکا پیاسا چھوڑ کر تم اُس کے ساتھ بیٹھ کر چلی جائو گی ؟ اگر ایسے عالم میں تم مجھے چھوڑ جانا چاہتی ہو تو چھوڑ جائو مگر یاد رکھنا ! سو سال بعد بھی جب واپس مڑ کر دیکھو گی تو مجھے اپنے انتظار میں پائو گی ، کہ میرے تن مردہ کی آنکھیں تیرے انتظار میں کھلی رہیں گی۔ یہ ایک بہت جذباتی خط تھا۔ یہ خط پڑھنے کے بعد مجھے چکر سا آیا اور میں بے ہوش ہو گئی۔ مجھے اسپتال لے گئے۔ میر ا چھوٹا بھائی انور کے   پاس گیا اور اُس کو بتایا کہ تاج اسپتال میں ہے۔ وہ مجھے دیکھنے آیا۔ اسے اس قدر احساس جرم ہوا کہ دُکان پر جاتے ہی وہ بھی بے سدھ ہو کر وہاں گر گیا۔ یہ سب باتیں مجھ سے پوشیدہ رکھی گئیں۔ گھر والے مجھے اسپتال سے گھر لے آئے، میں تو سنبھل گئی مگر پتا نہ چلا کہ اس کا کیا حال ہوا۔ دل میں تو ابھی تک پیار تھا مگر سب کے سامنے اس سے نفرت کا اظہار کرتی۔ اُس کے بعد میری شادی ہو گئی۔ اس دوران انور پر کیا گزری، یہ وہ اور اُس کا خدا جانتا ہے۔ مجھے تو صرف اتنا یاد ہے کہ شادی کے چوتھے دن جب میری ملاقات انور سے ہوئی تو میں نے اس سے مکمل پیچھا چھڑانے کی خاطر نفرت بھری باتیں کیں، اور کہا کہ میرا شوہر بہت اچھا انسان ہے۔ تم اس کے پائوں کی ڈھول بھی نہیں ہو، لہٰذا کبھی آئندہ میرے راستے میں آنے کی کوشش نہ کرنا، ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔ میری باتیں سن کر وہ خاموش رہا اور پھر اُٹھ کر چلا گیا۔ برسوں بعد ایک دن میں اپنی والدہ کے گھر برآمدے میں بیٹھی تھی کہ ایک بوڑھی بھکارن آ گئی۔ امی کسی پڑوسن کے ہاں گئی ہوئی تھیں اور گھر میں کوئی نہ تھا۔ بھکارن نے کہا۔ بی بی ! میں دو دن سے بھوکی ہوں، تم کو اپنی کسی پیاری ہستی کا واسطہ ، مجھے کھانا دے دو۔ یہ سن کر میں کانپ اُٹھی۔ اس وقت میرے ہاتھ میں انور کی تصویر تھی۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ اماں ! میری سب سے پیاری ہستی یہ تھی، جو مجھ سے کھو گئی ہے۔ دُعا کرنا میں اس کی صورت زندگی میں ایک بار دیکھ پائوں اور اس سے معافی مانگ سکوں۔ اس بوڑھی نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دیئے۔ جب وہ دُعا مانگ چکی میں نے کھانا اس کے سامنے رکھ دیا۔ اُس دن میرا دل بھر آیا تھا۔ وہ بولی۔ بیٹی تم نے اس کو کیسے اور کیوں کھو  دیا اور اب کیوں معافی مانگنا چاہتی ہو ؟ میں نے ایک غم گسار جان کر اس سے دل کی بات کہہ دی کہ اماں ، ہم شادی کرنا چاہتے تھے مگر کسی نے میرے دل میں اُس کے لئے نفرت ڈال دی اور میں نے بد گمانی کا شکار ہو کر اس کو نفرت بھری باتیں کر کے دُکھ دیا۔ وہ اس کے بعد یہاں سے غائب ہو گیا اور پھر کبھی نظر نہ آیا۔ تب تو میں اپنے شوہر کے ساتھ خوش تھی اور مجھے کسی کی بربادی کا احساس نہ ہوا لیکن اب پچھتاوا ہوتا ہے ، دل بے چینی ہو جاتا ہے ۔ تم کو اب کیوں پچھتاوا ہوتا ہے ، بوڑھی نے سوال کیا۔ میرے شوہر کی  بھا بھیاں اس بارے مجھے طعنے دیا کرتی تھیں ، مگر شوہر کے پیار کی وجہ سے میں چپ رہتی تھی۔ ایک دن ان کے طعنوں سے تنگ آکر میں نے شوہر کو بتایا کہ ان کی   بھا بھیاں ایسا کہہ کر مجھ کو تنگ کرتی ہیں جبکہ میرا تو انور سے محبت والا معاملہ نہ تھا، بلکہ میں اُس سے نفرت کرتی تھی۔ وہ تو ایک ایسا انسان ہے کہ میں اُس کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی۔ اس پر میرے شوہر کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اس نے دو خط لا کر مجھے پکڑا دیئے۔ کہنے لگا کہ اگر تم اس شخص سے نفرت کرتی تھیں تو یہ محبت بھرے خط کیا تم نے میرے باپ کو لکھے تھے؟ میں نے کہا۔ اگر آپ کو میری اور انور کی محبت کا علم تھا تو مجھ سے شادی کیوں کی تھی۔ یہ میری انا کا مسئلہ اور مجبوری تھی کہ والد صاحب کی یہی آرزو تھی۔ وہ دشمنی ختم کرنا چاہتے تھے، تبھی یہ رشتہ ہو گیا۔

بہر حال میں انور کو شکست خوردہ دیکھنا چاہتا تھا کیونکہ وہ ایسی ویسی باتیں پھیلا رہا تھا۔ بیٹی اگر یہ شخص تم سے مخلص ہوتا تو تمہارے خط تیرے شوہر کو نہ دیتا، پھر بھی تو اس کے لئے دُعا منگوانا چاہتی ہے ؟ ہاں  ، میں نے بھی یہی اپنے شوہر سے کہا تھا کہ اگر  وہ سچا ہوتا تو یہ خط آپ کو نہ دیتا۔ اُس نے مجھے بد نام کیا ہے ، مجھے بر باد اور تباہ کر دیا ہے۔ پھر بھلا میں کیونکر اس سے محبت کر سکتی ہوں ؟ میرے شوہر نے بتایا کہ ایک روز جب وہ قبرستان کی طرف شاید کسی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جارہا تھا ، میں نے اُسے جا لیا اور مارنا شروع کر دیا۔ جب ایک مکا اسے کنپٹی پر پڑا تو وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔ تبھی میں نے اُس کی جیب کی تلاشی لی۔ دراصل میں اُس کا شناختی کارڈ اور بٹوہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ بٹوہ تو ملا مگر اس میں شناختی کارڈ موجود نہ تھا البتہ کچھ رقم اور یہ دو خط موجود تھے۔ شوہر کی باتیں سن کر میں پریشان تھی اماں، تبھی مجھے احساس ہوا کہ میں غلط تھی۔ وہ مجھے بد نام نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بس اسی بات کا غم  ہے اور معافی مانگنا چاہتی ہوں۔ خاندان میں جو غلط باتیں پھیلیں وہ انور نے نہیں بلکہ اسفند نے پھیلائی تھیں تاکہ میں اسے غلط سمجھوں۔ اس کی بھابھی نے بھی جھوٹی باتیں مجھے لگائیں ، یوں میرے دل میں اُن لوگوں نے انور کی نفرت بٹھادی اور اپنا کھیل مکمل کر لیا۔ بات مکمل کر کے میں نے نگاہیں اوپر اٹھائیں جو آنسوئوں سے لبریز تھیں اور حیران رہ گئی کہ وہ بوڑھی عورت کب کی جاچکی تھی اور میں خود سے باتیں کئے جارہی تھی۔ بھلا ایک بھکارن کو کسی کی داستانِ غم سے کیا غرض ، اسے غرض تو اپنے بھوکے پیٹ کو دو روٹیوں سے بھرنے کی تھی۔ کتنی ہی دیر میں سکتے کے عالم میں بیٹھی رہی۔ اس کے بعد جیسے زندگی میری کٹی , میں جانتی ہوں یا میرا خدا جانتا ہے۔ ظاہر ہے ، مجھے اپنے شوہر کے ساتھ ہی رہنا تھا، جیتی رہتی یا مرتی رہتی۔ انہی کے ساتھ پچیس برس گزار دیئے ، انہی کا گھر میرا گھر تھا اور اُنہی کی چھت میری پناہ تھی۔ اور کون سا گھر عورت کا ہوتا ہے ؟ چاہے اُس گھر کی چار دیواری میں خوشی اور محبت کے چمن کھلے ہوں یا نفرت اور بیزاری کا دوزخ …

Latest Posts

Related POSTS