اس دن مانو نہیں آئی تھی۔ میں اکیلی ہی اسکول جارہی تھی۔ راستے میں ایک لڑکا نظر آیا جو میرے پیچھے آرہا تھا مگر میں خوفزدہ نہ ہوئی کہ کچھ فاصلے پر میرے پیچھے کافی لڑکیاں چلتی آرہی تھیں اور یہ لڑکا ہمارا رشتہ دار بھی تھا۔ دوسرے دن مانو بلانے آگئی۔ میں نے بتایا کہ مجھے بخار ہے، آج میں اسکول نہیں جائوں گی۔ وہ اکیلی ہی چلی گئی۔ واپس آئی تو کافی پریشان تھی۔ کہنے لگی۔ آج آذر ملا تھا۔ اس نے کہا کہ اپنی سہیلی کو میراسلام کہنا۔ کیا تمہاری اس سے بات ہوتی ہے ؟ نہیں تو، لیکن کل جب میں اسکول سے لوٹ رہی تھی، وہ میرا پیچھا کر رہا تھا مگر میں نے اس کو اہمیت ہی نہیں دی۔ تم مت پریشان ہو ، وہ پاگل میرا کیا بگاڑ لے گا۔ ارے نہیں، اس بات کو ایزی مت لو۔ تم اپنے بھائی کو بتادو، اس سے پہلے کہ اس کا حوصلہ بڑھے ، وہ خود اس سے نمٹ لیں گے۔ نہیں مانو ! میر ابھائی بہت غصّے والا ہے ، وہ آپے سے باہر ہو جائے گا۔ میں اپنے کزن اختر کو بتا دیتی ہوں کہ وہ اسے سمجھا دے کیونکہ آذر اس کا کلاس فیلو ہے۔ جو تم مناسب سمجھو۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ میں نے اختر کو بتایا۔ اس نے کہا تم فکر نہ کرو میں اس کو سمجھا دوں گا۔ خیر بات آئی گئی ہو گئی۔ اس دوران ہمارے گائوں میں شادی تھی، باقی لڑکیوں کے ساتھ میں بھی بارات کو دیکھنے چھت پر چلی گئی۔ کیا دیکھتی ہوں وہاں بھی وہ موجود تھا اور اس کی نظریں مجھ پر گڑی تھیں۔ مجھے بہت غصہ آیا کیونکہ چھت پر جھانکتی عورتیں بھی اس کو اور مجھے دیکھ رہی تھیں۔ گھر آکر میں نے اختر کو بلایا اور کہا کہ تم نے آذر کو سمجھایا نہیں ! آخر یہ کیا چاہتا ہے ؟ کیا میں بھائی جان سے کہہ دوں۔ اس نے کہا۔ تحمل سے کام لو شانو، عموما لڑکے ایسے ہوتے ہیں، جب وہ تم کو کوئی غلط بات کہے گا تو میں خود اس کی پٹائی کر دوں گا۔ اس معاملے کو ہوا دینا ٹھیک نہیں، خواہ مخواہ لوگ نوٹس لیں گے۔ میں اس کو سمجھا دوں گا۔ ہماری آذر سے بھی رشتہ داری تھی۔ وہ میرے ابو کے کزن کا بیٹا تھا اور اختر سگے چچاکا، لہذا رشتہ داری کے باعث بھی وہ لحاظ کر رہا تھا۔ ایک دن ہم اسکول سے نکلیں تو اسکول کی دیوار پر نظر پڑی۔ کسی نے لکھا تھا، شانو کو سلام، بس پھر کیا تھا، میرا غصّے کے مارے بُرا حال تھا۔ مانو سے کہا۔ دیکھا تم نے اس بدتمیز آذر کی حرکت ! اب دیواروں پر میرا نام لکھے گا۔ مجھے بدنام کر رہا ہے۔ وہ بولی۔ اول تو کسی کو نہیں معلوم کہ تم شانو ہو، اسکول میں سب تم کو تمہارے نام شاہینہ سے جانتے ہیں، صرف گھر میں ہی تم شانو کہلاتی ہو ، دوسری بات یہ کہ مردوں میں بات واقعی بڑھ جائے گی ، ہم خود خط لکھ کر یا فون کر کے اس کو سمجھا دیتے ہیں۔ اگر اس کے کسی گھر کے فرد نے فون اٹھا لیا؟ چلو فون نہیں کرتے ، لکھ کر تنبیہ کر دیتے ہیں کہ سدھر جائے، اختر سے کہنے کا فائدہ نہیں۔ وہ کچھ قدم نہیں اٹھانے والا۔ میں نے مانو کا مشورہ مان لیا اور ہم نے اس کو ایک مختصرخط لکھ دیا کہ باز آجائو ورنہ تمہارے گھر آکر نہ صرف تمہارے والد سے شکایت کر دوں گی بلکہ اپنے والد اور بھائی کو بھی بتادوں گی کہ تم کیا حرکتیں کر رہے ہو۔ اس پر شرمندہ ہونے یا ڈرنے کی بجائے اس نے جواب اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ بھجوا دیا کہ غصہ نہ کرو۔ وہ نام دیوار پر میں نے نہیں لکھا لیکن تم نے بتایا ہے تو جا کر مٹادیتا ہوں۔ میں نے ایک لائن لکھ کر اس کے بھائی کو پرچی تھمادی کہ آخر تم کیا چاہتے ہو۔ کیا جان سے جانا چاہتے ہو ؟ چھوٹا لڑکا فوراً جواب لے آیا۔ اس نے لکھا تھا۔ میں صرف تم کو چاہتا ہوں، تم مل جائو گی تو باز آجائوں گا۔ یہ ایسا جواب تھا کہ پڑھ کر ہر انسان تلملا اٹھے اور لڑکیاں اس عمر میں کتنی جذباتی ہوتی ہیں، میں نے پھر مانو سے مشورہ کیا۔ وہ میرے تایا کی بیٹی تھی لہذا وہ بھی آذر کی رشتہ دار تھی، اس نے کہا۔ چھوڑو دفع کرو، کسی سے کچھ مت کہو مگر میراغصّہ ٹھنڈا نہ ہو رہا تھا لہذا میں نے بڑے بھائی سے اس کی شکایت کردی۔ پھر کیا تھا جو ہونے کا ڈر تھا، اس سے بھی کچھ زیادہ ہو گیا۔ بھائی نے ایک دن کرکٹ کے میدان میں دوستوں کے ساتھ گھیر کر اسے بہت مارا۔ وہ کئی دن بستر پر پڑا رہا لیکن نہ تو اس نے اپنے گھر والوں کو پتا لگنے دیا کہ اس کو کس نے اور کیوں مارا ہے اور نہ ہی میرے بھائی نے کسی کو اصل وجہ بتائی۔ تاہم اختر جان گیا کہ میری شکایت پر آذر کی پٹائی ہوئی ہے۔ جب میں نے سنا کہ اسے گہری اندرونی چوٹ آئی ہے، اس کو اسپتال لے گئے ہیں، میرے ہاتھ پیر پھول گئے کہ وہ ماں باپ کا اکلوتا لڑکا تھا پھر بابا کے چچازاد کا بیٹا تھا۔ بابا جان بھی اس کو پوچھنے اسپتال گئے۔ انہوں نے آکر بتایا کہ اس کی حالت خطرے میں ہے تو دن رات دُعائیں کرنے لگی، خُدا کرے آذر ٹھیک ہو جائے ورنہ اس کا خون میری گردن پر ہو گا۔ جب اس کی ماں اور بہنیں روئیں گی تو کیسا دردناک سماں ہو گا ، اف خدا اسے بچا لے۔ اس کا آپریشن ہوا۔ گردے پر چوٹ آئی تھی۔ اللہ تعالی نے دعائیں قبول کر لیں اور آذر بچ گیا۔ کافی دنوں گھر میں رہا، قدم باہر نہ نکالتا تھا۔ پہلے میں اس کی توجہ سے پریشان تھی اور اب اس کی بے توجہی سے پریشان رہتی تھی۔ اس کی علالت نے سارے رشتہ داروں کے دل ہلا کر رکھ دیئے تھے۔ کہتے ہیں کہ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر ۔ پس اس کی علالت میرے لئے پھول کی پتی بن گئی جس نے میرے جگر کی سختی کو کاٹ کر رکھ دیا۔ جب وہ ٹھیک ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ اب اگر وہ ملے گا تو میں اس کو سختی سے جواب نہ دوں گی۔ میں نے اس کی بہن سے بھی کہا کہ اپنے بھائی سے کہنا، پہلے تعلیم مکمل کر لے پھر اس کے بارے میں سوچیں گے ۔ وقت گزرنے لگا۔ میں اسکول سے کالج آگئی۔ اب میں ایف اے میں اور وہ بی ایس کر رہا تھا۔ اتفاق سے ہمارے کالج ایک ہی رستے میں تھے۔ جب ہم کالج جارہی ہوتیں، وہ رستے میں آجاتا۔ بے شک ہمارے گائوں میں گرلز کالج تھا اور تعلیم بھی تھی لیکن ماحول ابھی تک دیہات والا ہی تھا۔ کبھی میں سہیلیوں کے ساتھ ندی پر جاتی تو آذر دکھائی دے جاتا مگر میں اُسے نظر بھر کر نہیں دیکھتی تھی۔ اب تو لڑکیوں کو بھی پتا چل گیا تھا کہ شانو کا کزن اس کا دیوانہ ہے، بے شک قریب آکر بات نہیں کرتا لیکن ندی سے دور کھڑا رہ کر کبھی درخت کی چھائوں میں بھی چلچلاتی دھوپ میں جلتا رہتا ہے۔ایک دن مانو میرے گھر آئی۔ بولی ندی پر چلو، ہمارے گھر مہمان آئے ہیں، پانی لینا ہے تم برتن پکڑ لینا۔ ہم ندی پرگئے۔ میں نے آذر کو دیکھا۔ وہ درخت کے نیچے لیٹا تھا۔ اس کی طبیعت بہت خراب تھی، آنکھیں سرخ تھیں، ان سے پانی بہہ رہا تھا لیکن وہ پھر بھی مجبور سا وہاں پڑا ہوا تھا۔ مانو نے اشارہ کیا۔ اس دن پہلی بار میرے دل میں آذر کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوا۔ درخت کی چھائوں برائے نام تھی، وہ بخار میں دُھوپ میں پڑا تھا۔ یہ ندی ہمارے گھر سے قریب تھی، اس کو یہاں اور کیا کام تھا۔ وہ یقیناً ہمارے یہاں آنے کی آس میں لیٹا ہوا تھا۔ شاید یہاں دھوپ سے بخار اور تیز ہو گیا ہو گا۔ سردیوں کے دن تھے اور اس کی آنکھوں سے پانی بہ رہا تھا۔ آذر کو اپنا بھی ہوش نہ تھا۔ جب ہم اس کے پاس سے گزریں، مانو ٹھہر گئی اور اس نے حال پوچھا۔ تبھی میں نے بھی کہا۔ آذر تم کیسے ہو ؟ کیا۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں، تم یہاں کیوں لیٹے ہو۔ ہم ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ مانو نے مجھے اشارہ کیا۔ وہ دیکھو تمہارے بھائی کا دوست ہم کو دیکھ رہا ہے ، چلو یہاں سے جلدی سے۔ اس لڑکے نے ہمارے تایا کے بیٹے ارباز کو بتا دیا اور اس کے ساتھ میری نسبت طے تھی۔ جب ہم گھر پہنچیں ، ہماری شامت آگئی۔ میں ارباز کو پسند نہیں کرتی تھی کیونکہ وہ جھگڑالو طبیعت کا تھا، آئے دن گائوں کے کسی نہ کسی لڑکے سے اس کی ہاتھا پائی ہو جاتی تھی، گھر والے بھی اس کی اس عادت سے نالاں تھے۔ ارباز نے ہم دونوں سے سوال کیا۔ سچ سچ بتائو کہ کیا بات ہے ؟ ہم نے کہہ دیا۔ اس لڑکے نے جھوٹ کہا ہے، ہم نے اس دن کسی سے بات نہیں کی تھی، اس کا شک دور نہیں ہوا۔ اس نے کہا کہ اگر آئندہ تم دونوں نے کسی لڑکے سے بات کی تو میں یا تو تم کو ختم کر دوں گا یا پھر اس کو مار دوں گا۔ ارباز کی اس دھمکی نے میرے دل میں آذر کے لئے جگہ بنا دی۔ انہی دنوں آذر کی امی نے ہمارے یہاں آنا جانا شروع کر دیا۔ میں ان کی آمد کا مطلب سمجھ گئی۔ وہ میری امی کے پاس اس وجہ سے آنا جانا کر رہی تھیں کہ آذر کے رشتے کے لئے بات کر سکیں۔ آذر کی عادت تھی کہ وہ اپنے دل کی ہر بات اپنے کزن عابد کو بتا دیا کرتا تھا۔ عابد ہمارا بھی کزن تھا مگر وہ پیٹ کا ہلکا تھا اور اس کی دوستی ارباز سے بھی تھی۔ یوں جو بات آذر عابد سے کہتا، وہ ارباز تک پہنچ جاتی۔ جب امی نے مجھ سے رائے مانگی، میں نے ارباز کی بجائے آذر کے حق میں فیصلہ دیا۔ میری ماں نے میری مرضی بابا جان تک پہنچادی۔ وہ دین دار آدمی تھے اور شادی کے سلسلے میں بیٹیوں سے رائے لینا ضروری سمجھتے تھے۔ انہوں نے آمی سے کہا۔ آذر بھی غیر نہیں ، میرے تایازاد کا بیٹا ہے۔ میں بیٹی کی شادی کا فیصلہ اس کی مرضی سے کروں گا۔ انہوں نے امی کو سمجھا دیا کہ ابھی بات اپنے تک رہے کیونکہ ارباز سگے بھائی کا بیٹا ہے ، اس کو کسی بہانے سے انکار کریں گے ورنہ آپس میں دشمنی پڑ جانے کا خطرہ ہے۔ ارباز کی عادتیں اچھی نہ تھیں تبھی ابو بھی اس کے حق میں نہ تھے۔ امی نے آذر کی والدہ کو مطمئن کر کے بھیج دیا اور استدعا کی کہ ابھی یہ معاملہ راز میں رکھنا، کسی سے تذکرہ نہ کرنا۔ انہوں نے بیٹے کو بھی نہ بتایا، مبادا خوشی میں بات اس کے منہ سے کچھ نکل جائے اور بات بگڑ جائے۔ ماں نے آذر کو یہی بتایا کہ لڑکی والے ابھی سوچ رہے ہیں، کچھ دنوں بعد ہاں یا نہ میں جواب دیں گے۔ آذر کی اس جواب سے تسلی نہ ہوئی۔ اس نے اختر اور عابد کو پکڑا لیکن وہ بھی اس سلسلے میں اس کے کام نہیں آسکے۔ مانو نے مجھ کو پیغام بھجوایا کہ ہمارے گھر آجانا، تم سے کوئی بات کرنی ہے۔ میں نے امی جان سے تایا کے گھر جانے کی اجازت لی۔ ہمارے گھر پاس ہی تھے۔ میں مانو کے پاس چلی گئی۔ وہاں ارباز موجود تھا۔ اس نے ہی دراصل مجھ کو مانو سے کہہ کر بلوایا تھا۔ وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گیا اور کہا کہ عابد نے مجھے بتایا ہے کہ آذر نے تمہارے لئے رشتہ بھیجا ہے اور تم نے ہاں بھی کر دی ہے، کیا یہ سچ ہے ؟ میں اس کے تیور دیکھ کر سہم گئی۔ یقین دلایا کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ میں نے رو کر قسمیں کھائیں تو اس کو یقین ہو گیا تا ہم میرے دل میں خوف بیٹھ گیا کہ اب کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا کیونکہ ارباز کو یقین ہو گیا تھا کہ شانو میرے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی۔ لیکن وہ میرے دل کی بات نہ جان سکا کہ میں فیصلہ آذر کے حق میں دے چکی ہوں۔ میں نے کسی طرح آذر سے رابطہ کیا، اس کو سمجھایا۔ وہ اپنی کوئی بات عابد سے نہ کہے اور نہ اسے اپنا دوست سمجھے بلکہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ تمہاری ہر بات ارباز تک پہنچادیتا ہے ، اس کو اپنا کوئی راز نہ دو اور اس کے ساتھ نہ رہا کرو۔ آذر پھر بھی اس کے ساتھ رہتا تھا۔ میں نے ایک بار اور اس کو سمجھایا کہ اور اپنی قسم دی کہ آئندہ عابد سے نہ ملنا اور نہ کوئی بات اس کو بتانا۔ اگر تم نے قسم توڑی تو یہ میرے اور تمہارے رشتے کا آخری دن ہو گا۔ اس نے قسم کھا کر کہا کہ وہ میری بات پر عمل کرے گا اور اس سے نہ ملے گا اور نہ اسے کوئی بات بتائے گا۔ میں جانتی تھی کہ عابد ارباز سے ملا ہوا ہے اور وہ ہمارا دشمن ہے۔ اب آذر بار بار پیغام بھیجتا کہ مجھ سے ملو، چند ضروری باتیں کرنا ہیں۔ میں نہ ملی مگر اس کے پیغامات سُن سُن کر تھک گئی۔ آخر میں نے اس سے ملنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے اسے کہلوایا کہ کھیت میں فلاں جگہ مل سکتی ہوں۔ اس نے اس بات کا تذکرہ عابد سے کر دیا کہ شانو فلاں جگہ مجھ سے ملنے آئے گی، تم ذرا خیال رکھنا۔ شاید اسے میری بات کا یقین نہیں تھا لیکن عابد پر زیادہ اعتبار تھا۔ ابھی میں آذر کے پاس پہنچی ہی تھی جہاں کھیت میں وہ میرا انتظار کر رہا تھا کہ ہم کو دور سے چند روشنیاں دکھائی دیں۔ وہ ہاتھوں میں بیٹریاں لئے مسلسل قریب آرہے تھے۔ جب وہ قریب آئے مجھے ارباز کی آواز سنائی دی۔ میں تو مارے ڈر کے سر پر پائوں رکھ کر بھاگی۔ وو دیکھ رہے تھے کہ کوئی تو ہے جو بھاگ کر گیا ہے مگر میری صورت نہ دیکھ سکتے تھے۔ آذر دوسری جانب بھاگا۔ انہوں نے میرا پیچھا نہیں کیا مگر اس کا پیچھا کیا۔ میرے جوتے کھیت میں رہ گئے ۔ گھر پہنچی تو سانس پھول رہا تھا۔ امی نے پوچھا۔ کہاں گئی تھی جو سانس پھول رہا ہے اور تمہارے جوتے کہاں ہیں۔ میں نے بہانہ کر دیا کہ تایا ابو کے گھر مانو سے ملنے گئی تھی۔ اس سے کتاب لینی تھی لیکن اس کے گھر کے پاس لوگ کسی کا تعاقب کر رہے تھے ، سو ڈر کے مارے گھر بھاگ آئی اور جوتے رستے میں رہ گئے۔ وہاں سے تو بچ گئی لیکن انہوں نے آذر کو نہ بخشا کیونکہ عابد نے ارباز کو اطلاع کر دی تھی۔ آج یہ کھیتوں میں فلاں جگہ فلاں وقت ملیں گے۔ تبھی ارباز اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں آپہنچا تھا۔ انہوں نے تعاقب کر کے آذر کو پکڑا اور تندو تیز نالے میں پھینک دیا۔ یہ بات گھر آکر ارباز نے مانو کو بتادی کہ ہم آذر کو بڑے نالے میں بہا آئے ہیں کیونکہ وہ شانو سے ملاقاتیں کرتا تھا اور اب ہم شانو کو بھی نہ بخشیں گے۔ وہ لاکھ میری سہیلی سہی مگر تھی تو ار باز کی بہن۔ اس نے یہ بات کسی کو نہ بتائی۔ اگلے دن آذر گائوں میں نہ تھا۔ سب سمجھے ، وہ شہر چلا گیا ہے۔ جب دودن گزر گئے وہ نہ پہنچا تو اس کی تلاش شروع ہو گئی ۔ تب مجھ کو مانو نے بتایا کہ بڑے بھائی نے اس کا خاتمہ کر دیا ہے اور اب تجھ کو بھی مارنے کا ارادہ ہے، تیری خیر نہیں۔ مجھے پتا تھا، ایسا ہوا ہے لیکن زبان نہ کھول سکتی تھی اور کس کو بتاتی آذر کہاں گیا ہے۔ میں نے امی جان کو بتادیا۔ انہوں نے بابا جان کو کہہ دیا کہ ارباز کو پتا چل گیا تھا۔ ہم نے شاہینہ کارشتہ آذر کو دے دیا ہے لہذا اس نے آذر کو نالہ میں پھینک دیا ہے۔ باباجان کو افسوس بہت ہوا لیکن دوسری طرف سگے بھائی اور بھتیجے کا معاملہ تھا لہذا وہ خاموش ہو رہے۔ وہ بھائی اور بھتیجے کو آذر کے ورثا کے حوالے نہیں کر سکتے تھے کہ وہ مقتول کے بدلے ان کا سر قلم کر دیں۔ مجھے کو ارباز نے کچھ نہ کہا۔ تبھی جان گئی کہ اس نے کیا سوچ رکھا ہے۔ دو دن بعد آذر کی لاش پانی میں پتھروں میں نکلی ہوئی مل گئی۔ جب مجھے پتا چلا تو بہت روئی، کھانا بھی نہ کھایا اور طبیعت سخت خراب ہو گئی۔ امی میرے پاس آئیں ، انہوں نے مجھ کو سکون کی گولی دی لیکن میری نیند اور سکون تو آذر کے غم نے کھا لیا تھا۔ کئی دن تک بخار میں پڑی رہی۔ آذر سے آخری ملاقات کا منظر آنکھوں میں پھرتا تھا ارباز کی سنگدلی پر رونا آتا تھا۔ اس واقعہ کے تین ماہ بعد تایا اور تائی میر ارشتہ ارباز کے لئے لینے آگئے۔ بابا جان نے خاموشی سے تاریخ دے دی کیونکہ وہ آذر کے انجام سے ڈر گئے تھے۔ارباز کے مزاج کو جانتے تھے ، اگر انکار کرتے تو جانے وہ کیا کر گزرتا۔ ادھر میں نے کتنے خواب آنکھوں میں سجائے تھے کہ آذر کی دلہن بنوں گی اور اس کے گھر جائوں گی لیکن اب تو اس کو دیکھنا ہی ممکن نہ تھا کہ وہ اس دنیا میں نہیں تھا۔ میں خود کو مجرم سمجھتی تھی کہ اگر اس روز ملنے نہ جاتی تو وہ جان سے نہ جاتا۔ ایک ستم یہ ہوا کہ آذر کے قاتل سے ہی میرا بیاہ ہو رہا تھا۔ ارباز جو اب بھی میرے خون کا پیاسا تھا اور اس نے مجھے قتل نہیں کیا تھا، شادی کر کے میرے ساتھ کیا کرنے والا تھا۔ دراصل وہ مجھ کو زندہ رکھ کر آہستہ آہستہ ترپا کر مارنا چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس دن کھیت میں، میں ہی تھی جو آذر سے ملنے گئی تھی۔ اگرچہ اس روز اندھیرے میں وہ مجھے کو دیکھ نہیں سکا تھا لیکن عابد نے ضرور اس کو بتا دیا ہو گا تبھی تو وہ وہاں ساتھیوں کے ہمراہ آیا تھا۔ آخر میری روحانی موت کا بھیانک دن بھی آگیا۔ جب میں اپنی خوشیوں کے قاتل کی بیوی بنی اور اس نے وہی کیا جو سوچا تھا۔ شادی کی پہلی رات اس نے کہا کہ وہ تم ہی تھیں نا جو آذر سے ملنے گئی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ عابد نے جھوٹ نہیں بولا بلکہ تم نے جھوٹ بولا تھا کہ تم اس کو نہیں جانتیں۔ میں نے ایک بار پھر جھوٹ کا سہارا لیا اور بہت سے آنسو بہائے، قسمیں کھائیں کہ اس روز وہاں میں نہیں تھی بلکہ ساتھ والے گائوں کی کوئی لڑکی تھی۔ میں نے آذر کی بہن کے منہ سے سنا ہے۔ بے شک تم اس امر کی پڑتال کر لو۔ اس لڑکی کا نام راز رکھنے کے لئے آذر نے میرا فرضی نام لے لیا ہو گا۔ وہ خود میرے پیچھے تھا لیکن میں نے اس کو دھتکار دیا تھا، تم اس بات کی تصدیق اختر سے کر سکتے ہو۔ وہ ہم دونوں کا کزن ہے میں تو اختر سے کہتی رہتی تھی کہ آذر سے نفرت کرتی ہوں، اس کو سمجھائو میرے پیچھے نہ آئے۔ ٹھیک ہے ، میں اختر سے قسم اٹھوائوں گا۔ اگر اس نے قسم اٹھالی تو میں تمہارے بے قصور ہونے کے بارے سوچوں گا۔ میں عابد سے بھی قسم لوں گا۔ خدا نے اختر اور عابد کے دل میں نیکی ڈال دی کہ وہ آذر کا انجام دیکھ چکے تھے اور اب مجھ کو مرتے نہ دیکھنا چاہتے تھے۔ دونوں نے قسم اٹھا کر کہا کہ شاہینہ تو آذر سے نفرت کرتی تھی اور ہم سے کہتی تھی کہ اس کو سمجھائو۔ میرے پیچھے نہ آئے ورنہ میں اپنے بھائی سے کہہ دوں گی اور اس نے اپنے بڑے بھائی کو آذر کی شکایت بھی کی تھی تبھی اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جا کر اسے کرکٹ گرائونڈ میں اتنا مارا تھا کہ وہ اسپتال پہنچ گیا تھا۔ یہ بات تو سچ تھی۔ اس بات میں ان کی قسم سچی تھی تاہم میری جان بچانے کو انہوں نے کہا کہ اس دن آذر کو ملنے جو لڑکی گئی تھی وہ شانو نہیں، دوسرے گائوں کی لڑکی تھی۔ خیر دونوں نے باہمی مشورے کے بعد میری جان بچانے کو ایک ہی طرح کی باتیں کیں۔ مانو نے بھی کہا کہ شانو نے آذر کی شکایت اپنے بھائی سے کر کے اس کو مار پڑوائی تھی۔ ان ساری گواہیوں سے ارباز کا دماغ کچھ ٹھنڈا ہوا اور اسے کچھ کچھ یقین ہو گیا کہ شاید میں بے قصور ہوں اور یہ سب اس کی غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے۔ البتہ اس نے عابد سے کہا کہ اگر تم نے مجھ سے غلط بیانی کی تو میں تم کو نہیں چھوڑوں گا۔ اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے میں مانو نے بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے بھی قسم کھا کر یقین دلایا کہ شانو بے قصور ہے دراصل آذر اسے تنگ کرتا تھا جبکہ وہ تو اس سے جان چھڑانا چاہتی تھی اور جس روز واقعہ ہوا شانو تو ہمارے گھر تھی۔اتنا کچھ ہونے کے باوجود ارباز کے دل کا میل نہ ڈھل سکا۔ اب بھی وہ کچھ عرصہ بعد پھر سے شک کے دریا میں غوطے لگانے لگتا تھا تب اس کا رویہ بہت برا ہو جاتا، حالانکہ مرنے والا مر چکا تھا لیکن میں تو اس کے سامنے اور اس کی دسترس میں تھی۔ جب وہ اس دن کو یاد کرتا جب وہ ہمارے تعاقب میں کھیت میں آیا تھا، اس کے برفیلے دل میں آگ بھڑک جاتی تھی اور وہ ہذیان بکنے لگتا۔ میری سیاہ زندگی کے روز و شب بھی تمام ہو گئے کہ جب اسمگلنگ کا مال لے جاتے ہوئے ایک روز ارباز پکڑا گیا۔ گولیوں کا تبادلہ ہوا اور وہ قانون کے محافظوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ بے شک وہ اس دنیا میں میرا سرتاج تھا مگر اس تاج کے گر جانے سے میرا سانس بحال ہو گیا ۔ میری گھٹی ہوئی سانسیں پھر سے کھل کر آنے لگیں اور میں نے جانا کہ میں زندہ ہوں، ابھی تک مر نہیں گئی تھی۔ عورتیں اپنے شوہروں کے فوت ہو جانے پر روتی ہیں، بین کرتی ہیں مگر میں اپنےسہاگ کے اجڑنے پر بالکل خاموش تھی۔ مجھے رونا نہیں آرہا تھا بلکہ اپنے دوبارہ سے زندہ ہونے کا احساس ہوا تھا۔ آج میں بے حس عورت ہوں۔ جس کو نہ غم کا احساس ہوتا ہے ، نہ خوشی کا، کیونکہ اتنے برس موت کے خوف میں جینے سے میرے یہ دونوں احساس مر گئے ہیں۔