Friday, March 29, 2024

Ahsas e Wafa Baqi Hai | Teen Auratien Teen Kahaniyan

پہلو میں ایک ہمدرد دل رکھتی تھی اور اس ہمدردی نے مجھے مار دیا… شروع سے ہی… نازک احساسات کی مالک تھی، کسی کی آنکھ میں آنسو نہ دیکھ سکتی تھی۔ مجھ سے کوئی اپنا دکھ بیان کرتا تو اس کے غم میں شریک ہوجاتی، گھر میں کسی شے کی کمی نہ تھی، خاندان بھر کی چاہت ملی ہوئی تھی، تبھی سکون سے تعلیم کی منازل طے کرتی کالج تک پہنچ گئی۔
کالج کی زندگی بڑی دل کش ہوتی ہے… ذوق و شوق سے اپنی تعلیم کی طرف متوجہ تھی کہ والد کو میری شادی کی فکر لا حق ہوگئی، کیونکہ ان دنوں میرے لئے بہت اچھے رشتے آرہے تھے لیکن میں نے کہہ دیا کہ ابھی پڑھنا چاہتی ہوں آپ میری زندگی کو پابند نہ کریں۔ والد مجھ سے پیار کرتے تھے خاموش ہو گئے، لیکن اندر سے مضطرب تھے کیونکہ بہت اچھے رشتے آرہے تھے اور میں ٹھکراتی جا رہی تھی۔ ایک روز تایا زاد حبیب ہمارے گھر آیا۔ والدہ نے اس سے کہا۔ بیٹا تم اس کے بڑے بھائی کی طرح ہو، تم ہی اسے سمجھائو لڑکی کے لئے وقت پر شادی بہت ضروری ہے۔ اب نہ کی تو کب کرے گی، ہمارے یہاں لڑکیوں کو زیادہ پڑھانے کا رواج بھی نہیں تھا۔
حبیب مجھے سمجھانے آبیٹھا کہ رانیہ چچی جان ٹھیک کہتی ہیں۔ شادی وقت پر ہو جانی چاہیے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا…تبھی میں نے اس سے یہ سوال کر دیا کہ حبیب بتائو، کیا تم جلدی شادی کرکے اپنی شادی سے خوش ہو؟
اس روز جو میں نے اس کے ساز دل کو چھیڑا غم کا پیمانہ جو لبریز تھا چھلک گیا۔ اس نے مجھے بتا دیا کہ ملائکہ اسے ایک غلط قسم کی محفل میں ملی تھی جہاں وہ دوستوں کے ساتھ تفریح کی غرض سے گیا تھا، چونکہ بہت حسین تھی، پہلی نظر میں دل میں اتر گئی اور اس نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ بے شک سبھی نے روکا۔ مگر اکثر لوگ اپنے جذبات کے غلام ہوتے ہیں، زمانے کے سمجھانے پربھی نہیں سمجھتے۔
رانیہ… شادی ایک جوا ہے جس کی قسمت اچھی ہو وہ بازی جیت لیتا ہے، ورنہ ہارنا ہی قسمت بن جاتا ہے، میں بھی یہ بازی ہار گیا ہوں۔ میں چونکہ کافی خوش مزاج تھی، اس کی بسورتی صورت پر دکھ تو ہوا مگر میں نے اس کی دلجوئی کی۔ میری باتیں وقتی طور پر اس کے زخموں کا مرہم بنیں اور دلجوئی سے اس کے ڈپریشن میں کمی آگئی ۔ اب حبیب اکثر آتا اور میں اپنی شگفتہ گفتگو سے اسے ہنسا دیا کرتی۔ ایک روز وہ آیا تو بے حد افسردہ لگا، بتایا کہ میرے ملائکہ کے ساتھ جھگڑے طول پکڑ گئے ہیں، اب نباہ ممکن نہیں رہا ہے۔ جب بھی گھر سے نکلتا ہوں میرے بعد وہ بھی گھر سے کہیں چلی جاتی ہے، بیٹی کو بھی ساتھ لے جاتی ہے۔ میں نے جس عورت کو بری جگہ سے نکال کر اپنا نام دیا، عزت کی زندگی دی۔ اپنے خاندان کے ناموس کو دائو پر لگایا اسی نے میرے ساتھ دھوکا کیا، آج ایک دولتمند کو ڈھونڈ لیا ہے اور میری وفا کو ٹھوکر مار رہی ہے۔ جو حالات میں نے اس کی زبانی سنے۔ میرے خیال میں کوئی غیرت مند شوہر ایسی شریک حیات کو گھر میں رکھنا قبول نہیں کر سکتا تھا۔ بیوی کے اس چلن نے اس کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا تھا۔ دل نے اس کے دکھ کو گہرائی سے محسوس کیا تو اپنی ساری توجہ اس پر مرکوز کر دی۔
جب وہ آتا میری شگفتہ باتوں اور ہنستی مسکراتی گفتگو کی سحرانگیزی سے متاثر ہو کر مسکرا پڑتا۔ میری غمگساری نے اس کو جلا بخشی۔ وہ ان دنوں خوش رہنے لگا تھا اور میں سوچتی اس کو دوبارہ زندہ دل بنانے میں میری توجہ کام آرہی ہے۔ اس کی ہر بات سنتی، مانتی… جس سے اس کا ڈپریشن ختم ہوتا گیا۔ تبھی میں نے جانا کہ اس کی شخصیت سحر انگیز ہے اور اس نے میرے دل میں گھر کر لیا ہے۔
ایک دن وہ آیا تو بہت پر سکون تھا۔ میں نے پوچھا۔ آج بہت مطمئن نظر آرہے ہو۔ کون سا کارنامہ کرکے آرہے ہو؟ آج میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ ایک بہت بڑا عذاب تھا جو اتار پھینکا ہے۔ کچھ دنوں بعد تائی ہمارے گھر آئیں اور حبیب کے لئے میرا رشتہ طلب کیا۔ یہ اپنوں کا معاملہ تھا، والد صاحب نے خاندان کے بزرگوں کو بلایا اور صلاح و مشورے کے بعد حبیب کے ساتھ میری منگنی کی تاریخ طے ہوگئی، کیونکہ ہم کزن تھے، تبھی اس رشتے میں کسی نے رکاوٹ نہ ڈالی اور میں بھی خوش تھی کہ میرا ساتھ اسے خوشیاں دے گا، آئندہ کبھی افسردگی اس کے پاس نہ پھٹکے گی۔
اب میرے روز و شب حبیب کے خیال میں بسر ہونے لگے۔ آنکھوں نے مستقبل کے خواب سجا لئے اس کے بغیر زندگی کا تصور نا مکمل لگتا تھا۔ میں اپنے خوابوں کی تعبیر کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، فخر تھا کہ توجہ اور شگفتہ مزاجی سے اپنے کزن کی کانٹوں بھری زندگی میں امید کی کلیاں کھلا دی ہیں۔ میری توجہ نے اسے اس مردہ دل کو پھر سے جینے کا حوصلہ دیا تھا۔ جب اس نے وعدہ لیا کہ میں اس کے لئے جیوں گی تو مجھے لگا ایک دنیا فتح کر لی ہے میں نے… ہر لمحہ خیال رکھنے لگی کہ میرے کسی لفظ سے اس کے دل کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اس کے احساسات کا یوں خیال رکھتی کہ جسے وہ کانچ کا بنا ہو۔ اس کی معمولی پریشانی مجھے بڑی اذیت میں مبتلاکر دیتی تھی۔ میری تعلیم مکمل ہو گئی تو تایا تائی شادی کے معاملات طے کرنے آگئے اور اس کے بعد گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ حبیب سے شادی کی خوشی سے زیادہ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ میں نے ایک افسردہ خاطر انسان کے ٹوٹے ہوئے دل کو سہارا دے کر اس کو مسرت بھری زندگی دینے جا رہی ہوں۔
ان خوشی بھرے دنوں کے گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا کہ میں تو ہوا کے دوش پر اڑ رہی تھی۔ اچانک پھر یہ ہوا کہ میری ہنسی اور ساری خوشیاں کہیں گم ہو گئیں۔ کسی نے بتایا حبیب اپنے والدین کے گھر سے چلا گیا ہے اور کہیں اور رہنے لگا ہے۔ یہ غلط نہ تھا وہ اب بدلا بدلا سا تھا رویے میں بیگانہ پن آگیا تھا۔ ابھی شادی کی تاریخ بھی نہ رکھی گئی تھی کہ وہ مجھ سے کھنچا کھنچا رہنے لگا۔ گھر آتا تو میرے سوا سبھی سے باتیں کرتا۔ فون کرتی تو یہ کہہ کر بات ختم کر دیتا کہ بہت مصروف ہوں جب فرصت ہو گی خود فون کر لوں گا۔ اور پھر فون نہ کرتا، میں انتظار کرتی رہ جاتی۔
ان دنوں جب اس کی محبت مجھے خود پر فخر کرنے پر مجبور کر رہی تھی وہ مجھ سے دوری اختیار کرنے لگا… میں نے وجہ پوچھی تو کچھ نہ بتایا لیکن کچھ دنوں بعد وہ پھر پہلے جیسا ہو گیا اور میں نے اس کے سابقہ رویے کو بھلا دیا۔ ایک ماہ بعد اچانک ہی وہ پھر گم ہو گیا۔ رابطہ بھی نہ رکھتا۔ نہیں جانتی تھی کہ کہاں چلا گیا ہے، روز اس کا انتظار کرتی اور پھر یہ انتظار خود بخود ختم ہو گیا۔ میں پھپھو کے گھر سے آئی تو وہ ہمارے گھر موجود تھا، اسے دیکھ کر پیاسی آنکھیں سیراب ہو گئیں۔ اس خوشی میں، میں نے اس کے اتنے عرصہ نہ آنے کی بھی وجہ دریافت نہ کی۔
ہماری شادی کے دن قریب تھے اور میں اس کے ناز اٹھانے میں مگن تھی کہ اچانک اس نے مجھے ایک ایسے دکھ سے دو چار کر دیا کہ اس کے بعد میںزندگی کی ہر بازی ہار گئی۔ اس نے کہا کہ ایک ماہ یوں نہیں آسکا کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے سے نوازا ہے، اسی وجہ سے مصروف ہو گیا تھا۔ گھر میں میرے علاوہ کوئی بیوی بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں تھا۔ یہ کیا کہہ رہے ہو؟ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ تم نے تو ملائکہ کو طلاق دے دی تھی۔ طلاق نہیں دی تھی بلکہ ہم علیحدہ رہنے لگے تھے۔
اس کا مطلب ہے کہ پہلے اس نے جھوٹ بولا تھا۔ وہ بڑے سکون سے رو داد سنا رہا تھا، اس کے چہرے سے ذرّہ بھر بھی احساس ندامت آشکار نہ تھا۔ جیسے فخر سے بیٹے کا باپ بن جانے کی خبر سنا رہا ہو۔ میں جو اندر سے ایک بوسیدہ بھر بھری عمارت کی طرح ڈھے گئی تھی۔ بڑے حوصلے سے اس کی رو داد سننے پر مجبور تھی، اس کو مبارک باد دی۔ اتنی ہمت نہ تھی کہ اس کے منہ پر تھپڑ رسید کرسکتی۔ میرے ذہن میں جیسے طوفان اٹھ رہا تھا۔ سوچ رہی تھی جس گرتے درخت کو میں نے اپنے خوابوں سے آب یاری کرکے ہرا بھرا کیا۔ اب میں اس کے سائے میں نہیں رہ سکتی۔ میں نے اسے وہ مقام دیا جو شاید ایک شادی شدہ مرد کبھی حاصل نہیں کرسکتا۔ میں اس وقت اتنے صدمے میں ڈوب گئی کہ اس سے کوئی اچھی بری بات کہنے کا بھی یارا نہ رہا… اور پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا، ایک معمولی سی شے سمجھ کر… وہ اپنی بیوی اور بچوں کے پاس چلاگیا۔
ہم لوگ کسی کے غلام نہیں ہوتے مگر ان کے جو ہمیں چاہتے ہیں یا جن کو ہم چاہتے ہیں۔ میرے خواب اس نے ایک لمحہ میں ریزہ ریزہ کر ڈالے اور میرے والدین سارے خاندان کے سامنے شرمندہ ہو کر رہ گئے۔ یہ رشتہ جو بڑوں میں بیٹھ کر جوڑا گیا تھا، انہی میں بیٹھ کر ختم ہو گیا۔ لیکن میرے دل سے حبیب کی تصویر نہ مٹ سکی۔ جی چاہتا تھا اسے الزام دوں مگر نہیں دے سکتی تھی، کیونکہ میرے نزدیک کسی انسان کی غلطی کی سزا یہ بہت ہوتی ہے کہ وہ تمام عمر جلتا اور کڑھتا رہے۔
میں نے شادی کے خیال کو دل سے نکال دیا۔ کیونکہ اب میں اس کی جگہ کسی اور کو نہ دے سکتی تھی، صدمہ اتنا تھا کہ اب جلے ہوئے باغ میں دوبارہ چمن نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ وقت گزرتا رہا اور وہ پھر لوٹ کر نہ آیا۔ والدین اب شادی کے لئے نہیں کہتے تھے وہ میری دلی حالت جانتے تھے۔ انہوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔ میں نے دوبارہ پڑھائی شروع کر دی۔ ایم اے، ایم فل کیا۔ مجھے ایک اچھی نوکری مل گئی، خود کو مصروف کر لیا۔ والدین میرے ساتھ رہتے تھے، زندگی میں کوئی کمی نہ تھی مگر حبیب کی جگہ خالی تھی، اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکا۔ اسی سبب میرا دل اور گھر دونوں ہی خالی خالی ہیں۔
یہ دنیا اتنی بڑی نہیں کہ دوبارہ ملاقات نہ ہوسکے۔ زندگی نے ایک بار پھر ہماری ملاقات کا انتظام کر دیا۔ اسے دیکھا توحیران رہ گئی، وہ نہایت خستہ حال تھا، اس کی حالت اچھی نہ تھی، اتنا دلگرفتہ کہ حال پوچھنے پر رو پڑتا۔ لگتا تھا اس کا سبھی کچھ لٹ گیا ہے۔ چہرے سے ظاہر تھا کہ جینا نہیں چاہتا ۔ سمجھ گئی وہ ایک بار پھر لٹ گیا ہے، اس نے مجھ سے وفا نہ کی۔ بیوی نے اس سے وفا نہ کی۔ وہ مردہ دل تھا ایک بار پھر اسے توجہ کی ضرورت تھی، اسے پھر سے زندہ دل کرنے کے لئے جینے کی امنگ دینی تھی۔ تبھی وہ میرے پاس آیا تھا آکسیجن کے لئے کھل کر سانس لینے کے لئے۔ میں سمجھ گئی۔
میں نے اسے کریدا، تو اپنےاوپر گزرے حالات سے آگاہ کرنے بیٹھ گیا۔ اس نے بتایا کہ دوسرے بچے کی پیدائش پر اس نے معافی مانگی۔ باوفا رہنے کی قسم کھائی اور سدھرنے کا وعدہ کیا مگر وہ پھر بھی نہ سدھری جب کہ میں نے اسے ایک بار اور موقع دیا تھا پھر سے بے وفائی کی مرتکب ہوئی غلط راہ پر چل نکلی۔ اسے طلاق دینا چاہتا تھا مگر نہ دے سکا۔ بیٹی کی خاطر جس سے بے حد محبت تھی اس کے بعد بیٹا ہو گیا۔ پائوں میں ایک اور زنجیر پڑ گئی۔ جانتا نہ تھا جسے بیٹی سمجھ کر پالا ہے وہ بھی چھوڑ جائے گی۔ اب ملائکہ مجھے چھوڑ گئی ہے، بیٹا میرے حوالے کر کے اور بیٹی ساتھ لے گئی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے حبیب دلگرفتہ نہ ہو۔ آنا ہو گا تو پھر آجائے گی، ذرا انتظار کر لو اس دوران اگر تمہیں میری توجہ کی ضرورت ہے تو حاضر ہوں میں تو تمہارے زخموں کا مرہم ہوں سو جب زخم جلیں آجایا کرو۔وہ میرے دکھ بھرے شکوے کو نہ سمجھا اور پھر سے آنے لگا۔
میرے والدین اس کے ساتھ بات کرنے سے کتراتے تھے اور خوش دلی سے نہ ملتے تھے، مگر وہ پروانہ کرتا میں اس سے پہلے کی طرح ہنستی مسکراتی اور خوش دلی سے ملتی تھی۔ میری توجہ اور محبت نے اسے ایک بار پھر بااعتماد کر دیا اور وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ اس نے استدعا کی کہ میں اس کو قبول کر لوں وہ میرا ہم سفر بننا چاہتا تھا۔ اس نے مجھ سے شادی کی دوبارہ درخواست کی مگر میں نے معذرت کرلی، میرے زخم ابھی تک رستے تھے ۔ مجھے اس کی بے وفائی پر نہیں اپنی بے بسی پر غصہ آتا تھا کہ کیوں اس کو دھتکار نہیں دیا، کیوں اب بھی اس کے ساتھ عزت اور پیار سے ملتی ہوں۔
وہ میرا کزن تو تھا، مگر اب مجھے اس کی شریک حیات بننا قبول نہ تھا۔ میں نے کہا کہ میں تمہاری غمگسار ہوں غمگسار رہوں گی۔ رازداں ہوں، رہوں گی، کہ پہلو میں ہمدرد دل رکھتی ہوں، تمہیں روتا ہوا اور غمزدہ نہیں دیکھ سکتی۔ اس لئے کزن کے رشتے سے ملتی ہوں۔ اس سے آگے کی مت سوچنا… تم میرے گھر آئے اور میں نے تمہیں منع نہیں کیا۔ تمہارے ساتھ بداخلاقی سے پیش نہیں آئی۔ تم سے اچھی طرح ملی۔ تو کیا یہ کافی نہیں ہے۔
انسان بڑا خود غرض ہوتا ہے وہ اپنے اندر کے خلا کو میری ذات سے پر ہوتے محسوس کرتا تھا اور میں اس لئے اسے دھتکار نہ سکی کہ میرے دل میں بھی اسی کی تصویر نصب تھی۔ اس تصویر کو اتار کر پھینک نہ سکتی تھی۔ پھر بھی مجھے اب اس کی شریک زندگی بننا قبول نہ تھا، اس کی فطرت کو جان چکی تھی، ہر شے بدلی جا سکتی ہے، مگر کسی کی فطرت نہیں بدلی جا سکتی۔ یہ حقیقت میں خوب اچھی طرح جان چکی تھی۔
اب وہ کلی طور پر میرے رحم و کرم پر تھا۔ چاہتی تو اس سے بدلہ لے سکتی تھی مگر میں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اسے سمجھایا کہ اگر بیوی کو طلاق نہیں دی تو مت دینا۔ میں اس کی بیوی کو تو نہیں سمجھا سکتی تھی، مگر حبیب کو ضرور سمجھا سکتی تھی کیونکہ وہ ذہنی افسردگی کا مریض تھا تبھی سوچتی تھی ممکن ہے یہ بیوی کے بارے میں کہانیاں گھڑ کر مجھ سے ہمدردی حاصل کرنے آتا ہو۔ جب تک انسان دوسرے فریق سے نہ ملے وہ حقیقت نہیں جان سکتا۔
اس کی بیوی سے نہ مل سکی اللہ جانے وہ کہاں تھی لیکن حبیب نے ایک روز بتایا کہ واقعی ملائکہ اسے چھوڑ گئی ہے۔ ایک بیٹی حبیب سے شادی سے قبل اس کی تھی جو وہ ساتھ لائی تھی اور بیٹا حبیب سے شادی کے بعد پیدا ہوا۔ جس شخص سے بیٹی ہوئی تھی وہ اسے بہت تنگ کرتا تھا کہ واپس آجائو مجھ سے شادی کر لو تاکہ میری بیٹی میرے گھر آجائے وہ دولت مند تھا۔ ملائکہ اسی سے ملتی تھی بالآخر وہ آدمی جیت گیا اور ملائکہ نے اس کا کہا مان لیا وہ حبیب کو چھوڑ کر اس کے پاس چلی گئی، خلع لے لیا اور بیٹا عدالت کے ذریعے حبیب کو مل گیا۔
اب اصل کہانی سمجھ میں آگئی تھی۔ وہ عورت دو کشتیوں کی سوار تھی، پہلے شوہر سے طلاق لے کر حبیب سے شادی کی اور پھر خلع لے کر پہلے شوہر کی منکوحہ ہو گئی۔ میرے کزن کا کہنا تھا۔ یہ سب ملائکہ کی بیٹی کی وجہ سے ہوا جسے اس کا اصل باپ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس کی یہ کہانی سننے کے بعد میرا دل اس سے شادی پر آمادہ نہ ہوا۔ حالانکہ اب واقعی ملائکہ طلاق لے چکی تھی۔ اللہ جانے کیوں اب میرے دل سے شادی کی خواہش نکل گئی۔ میں نے وعدہ کیا کہ زندگی میں جب بھی غمگساری کی ضرورت ہو گی مایوس نہ کروں گی، مگر شادی اب نہیں کر سکتی۔ اس کے ساتھ کیا کسی کے ساتھ بھی نہیں۔
یہ تمام حالات حقیقت ہیں اور حقیقت بڑی کڑوی ہوتی ہے۔ حبیب کی طرف سے ایک بار اتنا صدمہ سہہ لیا کہ دوبارہ اس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا خواب دیکھنے کی اب مجھ میں سکت نہ تھی۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ میرا شریک سفر ہے یا نہیں کیونکہ میں اس کے بغیر خود کو مکمل سمجھتی ہوں جب کہ وہ میرے بغیر خود کو ادھورا خیال کرتا ہے، تو یہ دکھ اس کا اپنا ہے اسے ہی سہنا ہے۔ میں کیوں اس کا دکھ برداشت کروں۔
وہ آج بھی ادھورا ہے، اس کی زندگی نامکمل ہے حالانکہ اس نے دوسری شادی کرلی ہے۔ دوسری بیوی بھی اس ذات کے خلا کو پر نہیں کرسکی، کیونکہ اس کی اپنی شخصیت کی تعمیر صحیح نہیں ہوئی ہے۔ لیکن اس کو کھو کر میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ سب سے بڑھ کر زندگی میں مشکلات کا مقابلہ کرنا سیکھا ہے۔
(س۔الف… ڈیرہ غازی جان)

Latest Posts

Related POSTS