میری تو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آپ نے یہ بات ہضم کیسے کی۔ فوراً کھری کھری کیوں نہیں سنا دیں ۔ فہمیدہ کی کڑک دار آواز پورے گھر میں گونجی تھی، جاذب نے جلدی سے ایل ای ڈی آف کی اور مما پاپا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ عفاف بھی یقینا اس طرف جانے کے لیے اپنے کمرے سے نکلی تھی۔ دونوں ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے ۔ رومیصہ ان سے پہلے ہی پہنچ کر صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کیا ہوا ہے مما ؟ جاذب نے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ اورنگزیب صاحب جزبز سے کنپٹیاں مسل رہے تھے۔ بیٹا جی صبح آپ کے والد محترم آپ کی پھوپھی جان کو بس ٹرمینل چھوڑنے گئے تھے تو انہوں نے لگے ہاتھوں بیٹی کا رشتہ بھی دے ڈالا ۔ فہمیدہ نے استہزائیہ انداز میں کہتے ہوئے کن اکھیوں سے شوہر کو دیکھا جو اس غیر متوقع ہنگامے پر اب پشیمان ہو رہے تھے کہ انہوں نے بیوی سے اس بات کا ذکر ہی کیوں کیا، خود ہی کسی نہ کسی طرح آپا کو ٹال دیتے ۔ مما کی بات سن کر جہاں جاذب کو شاک لگا تھا وہیں عفاف اور رومیصہ بھی منہ کھول کر پاپا کو دیکھنے لگیں۔ دس از ٹو مچ پاپا! کیا سوچ کے نسیمہ پھوپھی یہ بات کر کے گئی ہیں؟ رومیصہ حیرت سے باپ کو دیکھتے ہوئے بولی۔ بالکل بیٹا جی ! یہی بات میں کہہ رہی ہوں کہ نسیمہ آپا کی ہمت کیسے ہوئی یہ بات کرنے کی اور اگر کم عقلی کی وجہ سے انہوں نے ایسا کہہ دیا تھا تو کم از کم یہ تو انہیں منہ توڑ جواب دیتے ۔ فہمیدہ کی آواز چھت پھاڑ رہی تھی۔ ایکچوئلی مما غلطی آپ کی ہے جو آپ لوگوں کو ان کی اوقات کے مطابق ڈیل نہیں کرتیں۔ جب چھوٹے لوگوں کی بھی خوب خاطر مدارت کریں گی تو وہ تو اس طرح سر پر سوار ہوں گے ۔ جاذب بھی مارے اشتعال کے پیچ و تاب کھاتا اب مما کو قصور وار ٹھہرا رہا تھا۔ جاذب! اور نگزیب صاحب گرجے۔ وہ پھوپھو ہیں تمہاری، میری سگی بہن کچھ تو لحاظ رکھو۔ انہوں نے کون سا لحاظ رکھا اتنی بڑی بات کہتے ہوئے۔ جاذب کے بولنے سے پہلے ہی فہمیدہ بول پڑیں ۔ ارے ان کی حیثیت ہے جو میرے بیٹے کے لیے رشتے کی بات ؟ ہونہہ- ماما بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ انہیں بات کرنے سے پہلے ہماری اور اپنی حیثیت کا فرق نظر نہیں آیا؟ لوئرمڈل کلاس لوگ ! اور رشتہ جوڑنے چلے ہمارے گھر ۔ عفاف بھی کیوں پیچھے رہتی ۔ مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ایک نارمل سی بات کا بتنگڑ بنا کر آپ کی ماما نے جو تماشا کھڑا کیا ہے۔ اس کا مقصد کیا ہے۔ اورنگزیب صاحب صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کی آپا جان کو ایسی بات کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے تھا۔ میرا بیٹا فیوچر کا ڈاکٹر ہے تو کیا ایسے گھر سے رشتہ لوں گی میں- نہ تعلیم نہ شکل وصورت نہ حیثیت نہ مرتبہ فہمیدہ کا پارہ کسی صورت کم نہیں ہونے والا تھا۔ خونی رشتوں میں حیثیت اور مرتبہ اہمیت نہیں رکھتا۔ نزہت ایک سمجھی ہوئی سلیقہ مند بچی ہے کل کو ہماری خدمت کرنے گی ۔ احساس کرے گی ہم سب کا- انہوں نے بڑے رسان سے سمجھانے کی کوشش کی تھی- زبردست! آپ کی سوئی ابھی تک ادھر ہی اٹکی ہے ۔ فہمیدہ کی بھنوئیں پھر سے تن گئیں۔ پاپا پلیز! یہ ایموشنل باتیں مت کریں اور ہاں اپنے رشتہ داروں کو سمجھا دیں کہ اگر ہم سے ملنا چاہتے ہیں تو ایسی بے ہودہ خواہشات کو اپنے گھروں میں ہی دفن کر کے آیا کریں ورنہ ہمیں کسی سے ملنے کا کوئی شوق ہے، نہ ضرورت ۔ جاذب پھر سے بپھر گیا۔ ارے لوگ تو ایسے رشتہ داروں کو منہ نہیں لگاتے یہ تو ہمارا ظرف ہے کہ ہم کلاس ڈیفرنس کی پرواہ کیے بغیر ان سے ملتے ہیں ۔ فہمیدہ نے نخوت بھرے انداز سے کہا۔ مگر اورنگزیب صاحب شاید اپنے رشتہ داروں کی مزید توہین برداشت نہیں کر سکتے تھے سو کمبل اوپر تک لے کر سوتے بن گئے اور وہ تینوں بہن بھائی بھی سرجھٹک کر اپنے اپنے کمروں کی طرف چلے گئے ۔ اس کے بعد بھی کئی روز تک بیوی بچے انہیں بے نقط سناتے رہے۔
☆☆☆
اورنگزیب اب یہ سوچ سوچ کر پریشان رہتے تھے کہ وہ کس منہ سے آپا کو جواب دیں گے۔ بات اگر صرف فہمیدہ کی ہوتی تو وہ یقینا انہیں دوبارہ قائل کرنے کی کوشش کرتے مگر تینوں بچے بھی اسٹیٹس سے ہٹ کر سوچنا ہی نہیں چاہ رہے تھے اور اسٹیٹس کا فرق تو بلا شبہ تھا اور کوئی معمولی نہیں بلکہ زمین آسمان کا فرق تھا۔ اورنگزیب صاحب کے گھر میں ہر فرد کے پاس گاڑی بمع ڈرائیور ہمہ وقت موجود تھی گھر میں کئی ملازمین تھے۔ ان کے بہن بھائی بلاشبہ لوئر یا اپرمڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے بھی رشتوں کو کبھی دولت کے ترازو میں نہیں تولا تھا اور ہمیشہ اپنے بہن بھائیوں کو دل کھول کر نوازتے تھے مگر آج جب رشتے کی بات آئی تھی تو دولت کا پلڑا بھاری پڑ گیا تھا۔ پھر ایک دن آفس سے ہی انہوں نے آپا کو فون کیا اور معذرت سے انہیں انکار کر دیا۔ نسیمہ آپا کی ساری حسرتوں کا خون ہو گیا تھا، انہیں تو بڑا مان تھا۔ جس بھائی نے ہمیشہ دولت پر رشتوں کو فوقیت دی اچانک اس کے لیے دولت کیسے اہم ہوگئی۔ مگر نسیمہ آپا بھائی کی مجبوری سمجھ چکی تھیں۔ یقیناً اولاد کے آگے بے بس ہو کر ہی انہوں نے انکار کیا ہو گا۔ سو انہوں نے بڑے ظرف سے کام لیتے ہوئے پھر بھی اس بات کا گلہ کیا نہ شکوہ۔ لیکن فہمیدہ کے دل میں سسرالی رشتہ داروں کے لیے اب وہ چاہ نہ تھی اور بچے بھی اب ددھیالی رشتہ داروں سے کھنچے کھنچے رہتے تھے۔ نسیمہ ایک بار پھر بھولے سے آگئیں ۔ فہمیدہ اور بچوں نے ان کی انتہائی تذلیل کی۔ کبھی غریب ہونے کا طعنہ تو کبھی ان کی اولاد کے ان پڑھ اور معمولی شکل صورت ہونے پر تضحیک، بھی پینڈو کہہ کر ان کا مذاق اڑایا۔ نسیمہ بمشکل دو تین دن ہی رکیں اور کان لپیٹ کر واپس چلی گئیں۔ اورنگزیب صاحب کو بھی متنبہ کر دیا گیا تھا کہ ان پر پہلے کی طرح عنایات کرنے کی ضرورت نہیں اور یہ کہ اب لوگوں کو ان کی اوقات میں رکھا جائے گا۔ مگر کن لوگوں کو، صرف اورنگزیب کے عزیزواقارب کو ، اپنے میکے سے تو فہمیدہ کو کوئی شکایت نہیں تھی اور انہیں تو وہ دل کھول کر نواز رہی تھیں ۔ اورنگزیب پر فیملی کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیاں بھی طول پکڑتی جارہی تھیں۔ نسیمہ آپا کی کال آئی تھی؟ کیا فرمارہی تھیں؟ باقاعدگی سے اور نگزیب کے فون کی چیکنگ کے بعد تفتیش ہوتی۔ آپا نے اپنی بیٹی کے رشتے کی بات ہی کی تھی آپ لوگوں نے اس معمولی بات کو ان کا جرم ہی بنا دیا ہے۔ کبھی بھی وہ جھنجھلا جاتے مگر کب تک بیوی بچوں کے آگے بے بس ہونا ہی پڑتا ہے۔
☆☆☆
گاؤں سے شرافت بھائی کے بیٹے کی شادی کا کارڈ آیا تھا ۔ دنیا کہاں سے کہاں سے پہنچ گئی ہے گھر گھر میں موبائل فون ہیں۔ بھلا اتنی دور شادی کا بلاوا دینے کے لیے کارڈ بھیجنے کی فارمیلٹی پوری کرنے کی کیا تک بنتی ہے۔ فہمیدہ نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔ کس کی شادی کا کارڈ ؟ اور نگزیب صاحب نے نوالہ منہ میں ڈالتے پوچھا۔ ڈونٹ نو پاپا۔ رومیصہ نے بیزاری سے کہا عفاف اور جاذب بھی برے برے منہ بناتے کھانا میں مگن رہے۔ آپ کے گاؤں سے ایک آدمی آیا تھا کارڈ لے کر میں نے اس سے ریسیو کر کے آپ کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔ جی گاؤں سے دیکھ لیں کتنے عقل مند ہیں آپ کے رشتہ دار … پورے چار گھنٹے کی مسافت طے کر کے آیا وہ غریب بندہ پر نہیں جی کارڈ ہی بھیجنا ہے چاہے سات سمندر پار کیوں نہ ہو۔ فہمیدہ نے اس انداز سے کہا کہ تینوں بچے طنزیہ ہنسی ہنسنے لگے۔ ویسے پاپا دو منٹ لگتے کال پر مگر ماما کی بات بالکل ٹھیک ہے کارڈ ہی بھیجنا ہے چاہے سات سمندر پار ہو۔ جاذب نے بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ نہ جانے جو کارڈ لے کر آیا تھا اس کے ساتھ انہوں نے کیا سلوک کیا ہوگا۔ انہیں تشویش ہوئی مگر دانستہ پوچھا نہیں تھا۔ شازو کو آواز دی کہ کارڈ لائے۔ ارے یہ تو دو کارڈ ہیں ۔ انہوں نے زیر لب کہتے ہوئے یکے بعد دیگرے دونوں کارڈ زکھول کر دیکھے۔ شرافت بھائی کے بیٹے عرفان کی شادی نزہت کے ساتھ ۔ دونوں گھروں سے کارڈز آئے تھے اور اور نگزیب صاحب کو اس رشتے کی بہت خوشی ہوئی تھی مگر انہیں دکھ بھی ہوا تھا کہ ان سے مشورہ کیے بغیر ہی شادی بھی طے کر لی۔ بیوی بچوں نے جو طنز کیا وہ الگ۔ دیکھ لیا ساری زندگی آپ جن کی محبتوں کا دم بھرتے رہے کیسے انہوں نے آپ کو پرایا کر دیا۔ رشتوں کی بھنک بھی نہ پڑنے دی اور غیروں کی طرح دعوت نامہ بھیج دیا۔ فہمیدہ ہر وقت شوہر کو جتاتی تھیں۔ بھئی ایسی لو اسٹینڈرڈ شادی آپ کو ہی مبارک ہو ہم تو جانے سے رہے۔ فہمیدہ نے شوہر کو پیشگی مطلع کر دیا۔ اور پھر اورنگزیب صاحب بھی آفس کی مصروفیت کی وجہ سے صرف ولیمہ پر ہی جاسکے۔ سب بہن بھائی اور خاندان والے ان کا اس طرح اکیلے اور عین وقت پر غیروں کی طرح آنے پر خاصے حیران تھے۔ اورنگزیب صاحب نے اچھی خاصی رقم سلامی کے طور پر بھتیجے کو دی . اور بھانجی کے جہیز کے لیے بھی کافی رقم دی یہ الگ بات کہ یہ سب ان کی اپنی فمیلی سے مخفی تھا۔ اگر بچیاں بھی شادی پر آجاتیں تو کم از کم مل ہی لیتے۔ کتنا عرصہ ہو گیا انہیں دیکھے ہوئے ۔ نعیمہ آپا بھائی سے گلہ کرنے لگیں۔ آپا ! آپ تو جانتی ہیں جاذب کا ایم بی بی ایس کا فائنل سال ہے ، رومیصہ بھی میڈیکل میں ایڈمیشن کی تیاری کر رہی ہے اور عفاف کا بھی لاء کا تیسرا سال ہے خیر سے بچوں کو اسٹڈی سے ہی فرصت نہیں ہوتی ۔ انہوں نے رسان سے سمجھایا۔ چلو میں پھر کسی وقت آؤں گی عاشر کو لے کر خیر سے اگلے مہینے آرہا ہے وہ بھی ۔ نعیمہ آپا نے خوش دلی سے کہا مگر اورنگزیب صاحب نے اوپرے دل سے ضرور آنے کا کہا پھر توجہ بنانے کے لیے وہ عاشر کے متعلق پوچھتے ہوئے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔
☆☆☆
شومئی قسمت مہینے بعد عاشر کو ساتھ لے کر نعیمہ آپا سچ مچ اسلام آباد پہنچ گئیں۔ فہمیدہ اندر سے چاہے کتنا ہی جزبز ہوئیں مگر بظاہر اچھے طریقے سے نند کا خیر مقدم کیا۔ کھانے پر بھی کچھ اہتمام کرنا ہی پڑا یہ الگ بات عفاف اور رومیصہ سلام دعا کے بعد اپنی ایکٹیوٹیز میں بزی ہوگئیں اور جاذب ویسے ہی دوستوں کے ساتھ مری گیا ہوا تھا اور اس کی کل واپسی تھی۔ اورنگزیب مطمئن تھے چلو بیوی کا موڈ تو بہتر ہے اور ماں کی وجہ سے دونوں بچیوں کے موڈ بھی بہتر ہو گئے ۔ رات کا کھانا خوش گوار ماحول میں تناول کیا گیا۔ اصل میں نعیمہ کے ساتھ ایسا رویہ رکھنا فہمیدہ کی مجبوری تھی کیونکہ نعیمہ آیا نند ہونے کے ساتھ فہمیدہ کی چچی بھی تھیں اور ان کے ساتھ ایسی ویسی بات کر کے وہ اپنے میکے میں کوئی برا تاثر نہیں دینا چاہتی تھی۔ کھانے کے بعد چائے پی گئی۔ اورنگزیب عاشر کی ذہانت اور قابلیت سے خاصے متاثر ہوئے تھے۔ عاشر نے بی کام کیا تھا اور مزید تعلیم افورڈ نہ کرنے کی وجہ سے دبئی جا کر کام کرنے کو ترجیح دی تھی۔ جب سے وہ دہی گیا تھا ان کے گھریلو حالات میں بہت تبدیلی آگئی تھی وہ اپنے سے بڑے واحد کو بھی دیئی بلانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا کیونکہ واحد بھی ماسٹر کرنے کے بعد نوکریوں کے چکر میں خوار ہو رہا تھا لیکن اب چھوٹے بھائی کے ساتھ بیرون ملک سیٹ ہونا چاہتا تھا۔ اگلے دن اتوار کی وجہ سے سب لوگ معمول سے کافی لیٹ جاگے تھے جو جس ٹائم اٹھتا شازو اس کی مرضی کا ناشتہ بنا دیتی۔ دوپہر کو جاذب بھی واپس آگیا۔ لنچ سب نے ساتھ مل کر کیا اسی دوران نعیمہ آپا نے اعلان کیا کہ ہم کل واپس جائیں گے۔ فہمیدہ نے سکون کا سانس لیتے دل ہی دل میں شکر کا کلمہ پڑھا مگر کچھ دیر بعد سارا اسکون غارت ہو گیا جب کھانے کے بعد بچوں کے ادھر ادھر ہوتے ہی نعیمہ آپا نے لاؤنج میں بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے واحد کے لیے عفاف کے رشتے کی بات کی۔ کچھ دیر پہلے نند ہونے کی وجہ سے جو لحاظ کی چار دیواری کھڑی تھی۔ وہ بھربھری ریت کی طرح ڈھے گئی اور ظاہری خلوص و محبت کا بت بھی پاش پاش ہو گیا تھا ۔ کیا بات کر رہی ہیں آپ؟ میرا خیال ہے نعیمہ آپا آپ اپنے حواسوں میں نہیں ہیں ۔ فہمیدہ نخوت سے بولیں۔ اورنگزیب صاحب جانتے تھے کہ اب معاملہ گرفت سے باہر ہو چکا ہے کیونکہ فہمیدہ آج نئے پرانے سارے حساب چکا دیں گی وہ پریشانی سے کیپیٹیاں مسلنے لگے۔ فہمیدہ میں بالکل ہوش و حواس میں ہوں لیکن تم شاید اپنے حواس کھورہی ہو ۔ نعیمہ آپا کے بے تاثر انداز میں کہی گئی اس بات پر وہ اور بپھر گئیں اور بنا لگی لپٹی کھری کھری سنانے کا سوچا۔ آپ بڑی ہیں میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں مگر آپ کو شاید عزت راس ہی نہیں ، پہلے آپ کی دوسری بہن اپنی بیٹی کا رشتہ لے کر ہمارے در پر آئی اور اب آپ جھولی پھیلائے کھڑی ہیں۔ فہمیدہ نے طنزیہ ہنسی ہنستے تحقیر آمیز الفاظ میں نعیمہ آپا کو ذلیل کرنا چاہا جو ان کی بات سن کر اب بہن کی حماقت پر حیران ہو رہی تھیں کہ بیٹی کا رشتہ لے کر آگئی تھی۔ جاذب بالکل ٹھیک کہتا ہے کہ لوگوں کو اگر ان کی اوقات میں نہ رکھا جائے تو وہ یونہی سر پر سوار ہو جاتے ہیں (جاذب اور عاشر بھی وہیں آگئے تھے اور عفاف اور رومیصہ بھی ہنگامے کی آواز سن کر ہی بھاگی آئی تھیں) کیا اوقات ہے آپ کی جو آپ نے اتنی بڑی بات کی۔ ساری زندگی ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والے ہماری اترن پہننے والوں کے ساتھ میں رشتے جوڑوں گی؟؟ پانچ مرلہ کا مکان ایک موٹر سائیکل اور معمولی کالجوں میں پڑھے بچے اس سے بڑھ کر کیا ہے آپ کے پاس؟ بس اتنی سی اوقات ہے آپ کی اور چلی آئیں میری بیٹی کا رشتہ لینے جائیے کوئی اور در کھٹکھٹائے۔ وہ تن فن کرتی نان اسٹاپ بولتی رہیں۔ عاشر کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔ اتنی بے عزتی نجانے وہ کیوں اور کیسے برداشت کر رہا تھا۔ فوراً آگے بڑھ کر اس نے ماں کا بازو کھینچا اور چلنے کے لیے کہا۔ نہیں عاشر! فہمیدہ اپنی بات کر چکی ہے اب میری باری ہے۔ نعیمہ آپا نے متانت سے کہا۔ میرا خیال ہے جب کوئی اپنی اوقات سے بڑھ کر بات کر دے تو پھر اسے آئینہ دکھانا تو بنتا ہے نا- میری اوقات تو پانچ مرلہ گھر اور موٹر سائیکل ہے اب میں تمہاری اوقات بتاؤں ؟ تم وہی فہمیدہ ہو جس نے میرے لائق فائق خوب صورت بھائی کی تعلیم سے متاثر ہو کر خود آ کر مجھے سے اپنے رشتے کی بات کی تھی۔ تمہیں اپنے باپ کے گھر میں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ تھی تو تم نے اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے میرے بھائی کو پھانسا اور پھر رشتے کے لیے میری منت سماجت کی۔ تمہیں یاد ہے نا کہ بارات کے نام پر آئے صرف دس لوگوں کے لیے چائے پانی کا انتظام بھی اورنگزیب نے خود کیا تھا اور تمہیں یہ بھی یاد ہے کہ تمہاری بہن کے رشتے سے لے کر شادی کے تمام اخراجات بھی میرے بھائی نے اٹھائے تھے اور یقینا تم یہ بھی نہیں بھولی ناں کہ تمہارے دونوں بھائیوں کو گھر اور کاروبار اورنگزیب نے ہی بنا کے دیئے تھے۔ یہ ہے تمہاری اوقات جس دولت کا تم مان کر رہی ہو میرے بھائی میرے ماں جائے کی کمائی ہے جو تم دونوں ہاتھوں سے میکے پر لٹاتی ہو ۔ تم نے بالکل ٹھیک کہا اگر لوگوں کو ان کی اوقات کے مطابق نہ رکھا جائے تو وہ سر پر چڑھ کر ناچتے ہیں۔ نعیمیہ آپا نے آخری لفظوں پر خاصا زور دیا۔ اگر ہم بھی سسرالی بن کر تمہیں تمہاری اوقات کے مطابق ڈیل کرتے تو آج تم بھی اپنی اصلیت نہ بھولی ہوتیں۔ چلو عاشر بیٹے کو ساتھ لے کر نعیمہ آپا چلی گئیں اور فہمیدہ گم صم انہیں باہر تک جاتا دیکھتی رہیں اور پھر ان کے جانے کے بعد اورنگزیب صاحب کی وہ شامت آئی کہ خدا کی پناہ پھر جب تک انہوں نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ قطع تعلق کی ہامی نہ بھری فہمیدہ نے جان بخشی نہ کی۔
☆☆☆
جاذب کو ہاؤس جاب مکمل ہوتے ہی نوکری مل گئی تھی اور اب اس کا ارادہ نیورولوجی میں اسپیشلائزیشن کا تھا۔ عفاف بھی بار ایٹ لا کے لیے باہر جانا چاہتی تھی مگر فہمیدہ کو اس کی شادی کی فکر تھی، اورنگزیب بھی دونوں بڑے بچوں کی شادی کی فکر سے آزاد ہونا چاہتے تھے کیوں کہ رومیصہ کا تو ایم بی بی ایس کا سکینڈ ایئر تھا۔ عفاف کے لیے کافی رشتے دیکھنے کے بعد انہیں آفاق اچھا لگا تھا۔ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والا خاصا ہینڈسم لڑکا تھا ایسے ہی رشتے کی تو خواہش تھی فہمیدہ کو سو انہوں نے چیٹ پٹ منگنی کردی اور اب جاذب کے رشتے کے لیے کمر کس لی۔ زیادہ تردو نہیں کرنا پڑا ، انہیں پریشے پسند آگئی۔ ماڈرن اور خوب صورت سی پریشے جاذب کو بھی بہت پسند آئی تھی اور انگیجمنٹ پریڈ میں ہی دونوں میں کافی انڈراسٹینڈنگ ہو گئی تھی۔ فہمیدہ نے اپنے میکے سے صرف اکا دکا لوگوں کو بلایا۔ شادی کے تمام فنکشنز شہر کے مہنگے ہوٹل میں رکھے گئے لیکن بہو بیگم کے ہائی فائی خاندان کا بھانڈا بارات پر ہی پھوٹ گیا۔ پتا چلا کہ لڑکی کے سگے باپ کو دوسری بیوی نے ملائیشیا سے نہ آنے دیا اور بھائی تو کوئی تھا نہیں سومحترمہ جہیز کے نام پر ایک عدد مما کو ساتھ لے آئیں۔ مہمانوں میں ہونے والی چہ میگوئیوں اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی طرف سے اٹھنے والے سوالات سے بچنے کے لیے فہمیدہ نے اعلا ظرفی سے کام لیتے ہوئے بہو کے حالات پر پردہ پوشی ڈالنا ہی مناسب سمجھا کیونکہ اگر ایسا نہ کرتیں تو اپنی ہی جگ ہنسائی ہوتی۔ خیر بہو کے ساتھ اس کی ماں کو بھی قبول کرنا پڑا۔ پریشے کی فرمائش پر ان کا روم فرنشڈ کیا گیا اس کی فرمائش پر ہی جاذب نے ہنی مون کے لیے یورپ جانے کا پلان کیا۔ فہمیدہ کے لیے یہ سب ہضم کرنا مشکل تو تھا مگرنئی نئی شادی کی وجہ سے چپ تھیں۔ عفاف کی وجہ سے خاصی پریشان تھی کہ اس کی انگیجمنٹ جاذب سے پہلے ہوئی تھی مگر اس کے سسرال والے شادی کے لیے ابھی تک ٹال مٹول کر رہے تھے۔ کتنا اصرار کیا تھا اورنگزیب نے کہ جاذب کی اور عفاف کی شادی اکٹھی کی جائے مگر آفاق کے گھر والے ماننے کو تیار ہی نہ تھے اورنگزیب صاحب کو کہیں سے اطلاع ملی تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی کئی نام نہاد منگنیاں کی ہیں وہ صرف لڑکی والوں سے قیمتی جیولری اور باقی قیمتی گفٹس وصول کرتے رہنے کے بعد کوئی موقع دیکھ کر منگنی توڑ دیتے ہیں۔ اور اورنگزیب صاحب اس خبر کی تصدیق بھی کروا چکے تھے۔
☆☆☆
جاذب اپنی ساس سے کہو اب اپنے گھر جائیں کیونکہ لوگ اب باتیں کرتے ہیں بیٹا ۔ وہ جیسے ہی ہنی مون سے لوٹے فہمیدہ نے بیٹے کو علیحدگی میں سمجھانے کی کوشش کی مگر پریشے نے یہ بات سن کر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اگر جاذب کے والدین یہاں رہ سکتے ہیں تو میری ماما کیوں نہیں، جتنا یہ گھر جاذب کا ہے اتنا ہی میرا ہے سو میری ماما میرے ساتھ رہیں گی۔ اس نے بنا لگی لپٹی دوٹوک بات کر دی۔ بی بی یہ ہمارا گھر ہے اور تم ہمارے ساتھ اپنی ماں کا موازنہ کر رہی ہو؟ اگر بہت شوق ہے ایسے ساتھ رکھنے کا تو اس کے گھر چلی جاؤ ۔ آگے بھی فہمیدہ تھیں۔ آنٹی بی ہیو یور سیلف ۔” پریشے دھاڑی ۔۔ مائی فٹ تمہاری اوقات کیا ہے؟ اور تم مجھے بی ہیو سکھاؤ گی۔ باپ تک نے تو منہ نہیں لگایا تمہیں اور جہیز کے نام پر ایک ماں اٹھا لائی ہو۔ اگر تم اپنے گربیان میں جھانکو تو تم تو ہم سے نظر ملانے کے قابل بھی نہیں ۔ رشتہ کرتے وقت کیسے جھوٹ بولے تم لوگوں نے اور نکلے کیا کنگلے۔ یہ ہے تمہاری اوقات سو اب اپنی زبان سنبھال کر رکھنا۔ فہمیدہ نے بڑی جلدی بہو کو اوقات بتا دی۔ ماما پلیز کچھ تو خیال کریں وہ پریشے کی مما ہیں میرے لیے قابل احترام ہیں، میرے دل میں جو حیثیت آپ کی ہے وہی ان کی ہے۔ لیکن مجھے آپ کی کم ظرفی پر افسوس ہے ، پریشے کی مما کو تو چار دن آپ برداشت نہیں کر سکیں لیکن اپنے میکے والوں کو تو آج تک پال رہی ہیں اور اگر پریشے کا خاندان کنگلا ہے تو آپ کے خاندان کی حقیقت بھی مجھے معلوم ہے۔ ایک اور بات پریشے کی اوقات یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر جاذب کی بیوی ہے۔ آپ کو اپنا گھر مبارک ہو، میں پریشے کو اور آنٹی کو لے کر الگ گھر میں چلا جاؤں گا۔ فہمیدہ کو ایک بار پھر وقت نے آئینہ دکھا دیا تھا۔ ان کا بیٹا انہیں کم ظرفی کا طعنہ دیتے ہوئے ان کی اوقات بتایا گیا تھا ۔ فہمیدہ نے رشتوں پر دولت اور اسٹیٹس کو اہمیت دی تھی مگر نہ اسٹیٹس ملا نہ ہی رشتے رہے تھے۔ رشتوں کی قدر نہ کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔