میرے اکلوتے بیٹے زوہیب کی عجب خواہش تھی کہ اس کی شادی ایسی لڑکی سے ہو جس کے بال بہت لمبے ہوں۔ بہت لڑکیاں دیکھیں، ایسی کوئی لڑکی نہ ملی جس کے بال بھی دراز ہوں اور وہ خوبیاں بھی ہوں جو میں اپنی بہو میں دیکھنے کی آرزومند تھی۔کسی کے بال لمبے تھے تو رنگت کالی یا پھر نین نقش گئے گزرے ہوتے۔ خوبصورت ملی تو پھوہڑ گھرانہ تھا یا پھر تعلیم میں کمی تھی۔ غرض یہ مسئلہ بہت پریشان کن ہوگیا جبکہ زوہیب کی عمر بتیس سال ہوچکی تھی۔
زوہیب ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ کسی شے کی کمی نہ تھی مگر میں اس کی پسند کی لڑکی نہ ڈھونڈ سکی۔ تمام خوبیاں انسان میں یکجا نہیں ہوتیں۔ کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے۔ جبکہ صاحبزادے نے کہہ دیا تھا کہ لڑکی جو آپ میرے لیے پسند کریں، وہ خوبصورت لمبے بالوں والی، پڑھی لکھی اور اعلیٰ خاندان سے ہونی چاہیے۔ میں اعلیٰ افسر ہوں، میری بیگم کو بھی شاندار نظر آنا چاہیے۔
بیٹے کو سمجھایا۔ اپنی سوچ بدلو۔ تمہاری بھی ایک بہن ہے۔ اس کارشتہ ہونا ہے۔ غرور اللہ کو پسند نہیں۔ سوچو… اگر تمہاری بہن میں کوئی نقص نکالے تو کیسا لگے گا۔ صورت سے زیادہ سیرت اہم ہوتی ہے جس کی وجہ سے گھر آباد رہتے ہیں اور نسل ترقی کرتی ہے۔ حیرت تھی کہ وہ میری کوئی بات نہ سمجھتا تھا۔ سوچتی… خدا جانے کیسے اعلیٰ افسر بن گیا ہے۔ ایسی سوچ تو ہمارے گھر کے کسی فرد کی نہ تھی۔ تھک ہار کر لڑکی تلاش کرنا ترک کر بیٹھی۔
ایک دن اس کے دوست کی بیوی کسی تقریب میں ملی۔ روبینہ سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا۔ اس نے بتایا کہ آپ کے بیٹے کو ایک لڑکی ماہم پسند تھی، وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا، بہت کوشش کی ہم نے لیکن لڑکی کے والدین نہ مانے اور انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کہیں اور کردی۔ اب آپ بیٹے کے لیے رشتہ چاہتی ہیں تو میری ایک کزن ہے۔ وہ خوبصورت، پڑھی لکھی اور اچھے خاندان کی ہے۔ میں سہیلا کے والدین سے بات کرلوں گی۔ زوہیب نے سہیلا کو دیکھا ہے ہمارے گھر پر۔ وہ راضی ہوگا تو بات آگے بڑھائیں گے۔
مجھے زوہیب کی کڑی شرطوں کی وجہ سمجھ میں آگئی۔ دراصل وہ شادی سے اس لیے گریز کررہا تھا کہ ماہم سے سنجوگ چاہتا تھا۔ اپنی سی کوشش کرتا رہا۔ جب وہ لڑکی بیاہی گئی تو اب ناامید ہو بیٹھا۔
میں نے زوہیب سے بات کی۔ ماہم تو بیاہی گئی ہے، اب بتائو کیا سوچا ہے۔ وہ چونک گیا۔ آپ کو اس بارے میں کس نے بتایا ہے۔ جس نے بھی بتایا، اس معاملے کو چھوڑو۔ یہ بتائو گھر بسانا ہے یا نہیں… اس نےسرجھکا لیا۔
میری خوشی کی خاطر اس نے گھر تو بسانا تھا۔ وہ میرا اکلوتا بیٹا تھا۔ جانتا تھا کہ میں اس کا سہرا دیکھنے کے لیے بے قرار ہوں اور اب تو اس آرزو میں بیمار رہنے لگی تھی۔ اس نے کہا۔ ماں اب میری کوئی شرط نہیں ہے۔ آپ کالی، گوری، موٹی، دبلی جیسی بھی لڑکی پسند کریں گی، مجھے منظور ہوگی۔
میں بہت لڑکیاں دیکھ چکی تھی۔ بیسیوں گھر جھانکے تھے۔ اب کس منہ سے دوبارہ ان گھروں میں جاتی۔ روبینہ کو فون کیا۔ اپنی کزن سہیلا کو دکھا دو۔ اس نے سہیلا کو گھر بلایا اور لڑکی کے ساتھ ان کے والدین بھی بلا لیے۔ اسے دیکھتے ہی مجھے اور میری بیٹی کو لڑکی پسند آگئی۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ سہیلا نہ صرف بے حد حسین تھی بلکہ اس کے بال بھی اتنے لمبے تھے کہ کمر سے نیچے جاتے تھے۔ میں نے زوہیب کو آگاہ کیا کہ اس لڑکی سے تمہارا رشتہ طے کررہی ہوں، کوئی اعتراض تو نہیں۔ بولا۔ آپ پر چھوڑ دیا ہے تو بس آپ جانیں، آپ کا کام، جیسا مناسب سمجھیں کریں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
میں نے سہیلا کے والدین سے زوہیب کے لیے اس کا ہاتھ مانگا۔ انہوں نے ہاں کردی۔ یوں چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا اور وہ مسئلہ جو پانچ برسوں سے اٹکا ہوا تھا، اللہ کے کرم سے آن واحد میں حل ہوگیا۔
سہیلا واقعی بہت اچھی لڑکی تھی۔ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ سگھڑ ، تابعداد اور نیک تھی۔ خوش تھی کہ اتنی اچھی بہو ملی ہے، ضرور یہ میری کسی نیکی کا ثمر ہے۔ زوہیب بھی سہیلا کو پاکر مطمئن نظر آتا تھا۔ وہ اس کے ساتھ اچھا رویہ رکھتا، سیرو تفریح کے لیے باہر لے جاتا اور بیوی کا ہر طرح خیال رکھتا تھا۔ ان کی شادی کو سال ہوا تھا کہ زوہیب کا تبادلہ سرگودھا ہوگیا۔ جہاں آفیسرز کالونی میں اسے ایک بڑا سا گھر ملا۔ یہ گھر تھا کہ سرسبزوشاداب جنت کا ٹکڑا۔ میں بہت خوش تھی کہ بیٹے کو ایسی خوبصورت رہائش مل گئی ہے۔
کچھ وقت خوشی خوشی گزر گیا۔ پھر آہستہ آہستہ سہیلا کے بال جھڑنے لگے۔ وہ کہتی تھی۔ امی لگتا ہے یہاں کا پانی ٹھیک نہیں ہے، کھارا اور کڑوا ہے، یہ بالوں کا دشمن ہے، بال کم ہوتے جارہے ہیں۔ سہیلا کو اپنے بالوں سے بہت پیار تھا۔ اس نے بڑی محنت سے انہیں لمبے کئے تھے۔ خوراک کا خیال رکھتی تھی۔ سر میں کبھی سرسوں کے تیل کی مالش کراتی، کبھی آملے سے سر دھوتی، بادام روغن لگایا، ناریل کا تیل استعمال کیا مگر کچھ اثر نہ ہوا۔ اس کے بال گرنا بند نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ سر کی کھال نظر آنے لگی۔ سہیلا کا سکون برباد ہوگیا۔ اسے خوف رہنے لگا کہ عنقریب گنجی ہوجائے گی۔ اسے پریشان دیکھ کر ہم سبھی پریشان تھے۔ وہ اب ہر آئے گئے سے بال لمبے کرنے کے نسخے پوچھنے لگی۔ کسی اخبار رسالے میں کوئی نسخہ نظر آتا فوراً آزماتی۔ مجھے اس کی یہ کیفیت دیکھ کر ترس آتا تھا۔ اس نے کوئی پچاس ٹوٹکے اور نسخے آزمائے ہوں گے۔
ایک روز ایک مانگنے والی نے صدا لگائی۔ نوکر نے خیرات دی، تو اس نے کہا کہ مجھے اندر جانے دو، مالکہ سے ملا دو، کچھ امداد چاہتی ہوں۔ نوکر نے اس کی ضعیفی پر ترس کھاتے ہوئے گھر کے اندر آنے دیا۔ سامنے میری بہو برآمدے میں پڑی کرسی پر بیٹھی سر میں تیل لگارہی تھی۔ اس کے چھدرے بالوں کو دیکھ کر بولی۔ بیٹی تیرے بال تو بہت کم رہ گئے ہیں، شاید جھڑ رہے ہیں۔ ہاں…اماں تم ٹھیک کہتی ہو۔ کیا تم کوئی ایسا نسخہ جانتی ہو جس کے لگانے سے میں اس ’’بال جھڑ‘‘ کی بیماری سے نجات پالوں۔
جانتی ہوں۔ وہ بولی۔ کاغذ پینسل لے آئو۔ میں لکھوا دیتی ہوں۔ یہ جڑی بوٹیاں کسی پرانے پنساری سے ملیں گی۔ تمام اجزاء پورے لینا، تھوڑی محنت کرنی پڑے گی لیکن بال اتنے لمبے ہوجائیں گے کہ تم سے سنبھالے نہیں جائیں گے۔
بہو کی باچھیں کھل گئیں۔ ملازمہ سے کہا۔ نبیلہ کاغذ پینسل لے کر جلدی آئو۔ وہ دوڑی گئی اور میری بیٹی سے کاغذ اور پینسل لے آئی۔ بڑھیا نے نسخہ لکھوا دیا۔ بہو نے اسے پانچ سو روپے کا نوٹ دیا۔ کہنے لگی اگر تمہارا نسخہ کام کرگیا تو اور پیسے دوں گی، تم دوبارہ ضرور آنا۔
میں تین ماہ بعد آئوں گی۔ تین ماہ میں تمہارے بال گھٹنوں تک ہوں گے۔ روپے لے کر وہ دعائیں دیتی چلی گئی۔
اب مرحلہ اس کارگر نسخے کے مطابق جڑی بوٹی لانے کا تھا۔ مقامی پنساری سے دو تین چیزیں مل گئیں تو دوسرے شہر کے پنساری کے پاس نوکر بھیجا۔ غرض مختلف پنساریوں سے مختلف بوٹیاں مل گئیں۔ تاہم ایک چیز ابھی باقی تھی جس کے بغیر نسخہ تیار نہ ہوسکتا تھا اور وہ تھی سانپ کی کینچلی۔ بڑھیا نے کہا تھا سانپ کالے رنگ کا ہونا چاہیے، تبھی یہ نسخہ اثر کرے گا۔
اب کالے سانپ کی کینچلی کے لئے سانپ کے بل کی تلاش میں نوکر چاکر لگے تھے مگر اس شے کو ڈھونڈنا آسان کام نہ تھا۔ بالآخر زوہیب سے بیوی کی پریشانی دیکھی نہ گئی۔ اس نے سہیلا کو اس الجھن سے نکالنے کے لئے کہیں سے سپیرا بلوایا اور اس کے ذمے یہ کام لگا دیا۔
میری بہو کو اس نسخے کو استعمال کرنے کی دھن سوار تھی۔ بالآخر سپیرے نے کھوج لگالیا۔ ہمارے ہی گھر کے وسیع و عریض رقبے میں ایک جگہ سانپ کا بل تلاش کرلیا۔ دو چار روز کی محنت کے بعد وہ سانپ پکڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ اتفاق سے سانپ کالا ہی تھا لیکن اس کی کینچلی نہیں ملی۔ سپیرے نے کہا۔ اس کی کھال سے بھی کام چل جائے گا۔ اگر آپ لوگ مجھے ہزار روپیہ دو تو میں اس کی کھال اتار کر دے سکتا ہوں۔ بہو نے کسی کو نہ بتایا اور اس کی مٹھی میں ہزار کا نوٹ تھما دیا۔ اس نے سانپ کو مارا اور کھال اتار کر حوالے کردی۔ یہ مشکل مرحلہ بھی مکمل ہوگیا۔ نسخے کے تمام اجزاء اب پورے تھے لیکن اسے تیار کرنا باقی تھا۔ ایک سن رسیدہ ملازمہ نے بڑی محنت سے لکھے ہوئے طریقے پر یہ نسخہ تیار کرکے حوالے کیا۔ اس سفوف کو سرسوں کے تیل میں ملا کرکے روزانہ سر میں لگانا تھا۔ بہو رات کو لگاتی اور صبح سر دھو لیتی۔
پندرہ روز میں بال آنا شروع ہوگئے۔ وہ تیزی سے لمبے اور گھنے ہو رہے تھے۔ سہیلا کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ جیسا کہ اس مانگنے والی نے کہا۔ دو ماہ بعد لمبی چوٹی کمر تک پہنچ گئی مگر وہ نہیں آئی جس کا انتظار تھا۔ بہرحال تیسرے ماہ بال بھی کمر سے نیچے پہنچے اور تیل لگانا بھی بند کردیا کیونکہ نسخہ دوبارہ تیار کرانا آسان نہ تھا۔
اتنے بال بہت ہیں۔ سہیلا نے کہا تھا، اس سے لمبے بال سنبھالے نہیں جائیں گے مجھ سے۔ چند دن خوشی کے گزرے کہ سر میں خارش ہونے لگی۔ شروع میں بہو نے محسوس نہ کیا لیکن خارش رفتہ رفتہ بڑھتی گئی اور اب یہ خارش ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔ اس نے سر کھجا کھجا کر زخمی کرلیا۔ مرض میں کمی نہ آئی بلکہ زخم پک کر بڑے ہوگئے اور پھوڑے سے بننے لگے۔ سہیلا کا رو رو کر برا حال تھا۔ کہتی تھی کہ اس سے تو میں گنجی بھلی تھی۔ اے کاش کہ صبر کرتی۔ بال گر جاتے ہیں تو امید رہتی ہے کہ پھر آجائیں گے لیکن یہ ایک بڑی مصیبت تھی کہ سر سے ناگوار بو آنے لگی تھی۔ بڑے بڑے اسکن اسپیشلسٹ کو دکھایا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا مرض ہے۔ کوئی الرجی کہتا کوئی اور وجہ بتاتا۔ بہرحال سال بھر علاج ہوتا رہا۔ بالآخر خدا خدا کرکے سر کے زخم ٹھیک ہوگئے مگر علاج کی خاطر سر پر استرا پھروانا پڑا ورنہ دوا لگانے میں مسئلہ درپیش تھا۔
سہیلا سارا دن کمرے میں پڑی رہتی۔ باہر نکلنا چھوڑ دیا تھا۔ کسی سے ملتی، نہ کسی تقریب میں جاتی کیونکہ بالکل گنجی ہوگئی تھی۔ علاج ختم ہونے کے بعد بھی ڈاکٹر نے ہدایت کی تھی دو سال تک سر کو ایسے ہی صاف رکھا جائے، جب بال آتے تو استرا پھروانا پڑتا تھا۔ ہر قسم کا تیل لگانے سے منع کردیا تھا، صرف وہ کریم لگاتی تھی جو ڈاکٹر نے لکھ کر دی تھی۔
مجھے سہیلا کو دیکھ کر دکھ ہوتا تھا کیونکہ وہ جو لمبے بالوں کی شیدائی تھی اب گنجی رہنے پر مجبور تھی۔ سر ڈھانپنے سے بھی ڈاکٹر نے منع کیا تھا کہ ہوا لگنی چاہیے، پسینہ سر کے اندر جذب نہ ہونا چاہیے۔
خدا جانے کیسی موذی بیماری تھی۔ نہیں معلوم یہ مانگنے والی کے نسخے سے ہوئی یا اس کی کوئی اور وجہ تھی، اس بات کی تصدیق نہ ہوسکی۔ لیکن مکمل صحت یاب ہونے کے بعد بھی وہ نسخہ دوبارہ لگانے کی سہیلا میں ہمت نہ ہوئی۔ کہتی تھی چھدرے بال منظور ہیں، کم سہی مگر گنجی ہونا منظور نہیں۔ تین سال بعد دوبارہ صحیح طرح سے گھنے بال آگئے اور پہلے کی طرح خوبصورت زلفوں کی مالک ہوگئی۔ اپنی سہیلیوں سے کہتی کہ ہرگز کسی چیز کا لالچ مت کرنا خواہ وہ گھنے بال کیوں نہ ہوں، کسی شے کا جنون انسان کو خوار کردیتا ہے۔
ایک بات بتانا بھول گئی۔ جب سہیلا کا علاج ہو رہا تھا، ساتھ دم درود بھی کرواتے تھے۔ ایک بابا سے اس کی صحت یابی کے لئے دم کرایا تو اس نے کہا۔ کہ سہیلا بی بی کی یہ بیماری عام نہیں ہے، اس کی وجہ کوئی نسخہ ہو، یہ ضروری نہیں کیونکہ یہ بال کھول کر شام کو باغ میں ٹہلتی تھیں اور خوشبو لگا کر چہل قدمی کیا کرتی تھیں۔ گھنے درختوں کے نیچے جاکر بیٹھ جاتی تھیں۔ کسی پرانے درخت پر ماورائی مخلوق کا بسیرا تھا۔ ان کے بالوں کو ان کی نظر لگی ہے۔ بہرحال جو بھی تھا۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے… تاہم اس کے بعد مغرب کےوقت سہیلا نے بال کھول کر ٹہلنا اور درختوں کی طرف جانا چھوڑ دیا۔
سہیلا کو خوشبو پسند تھی۔ ہر وقت اپنا لباس سینٹ وغیرہ سے معطر رکھتی تھی۔ اس دن سے خوشبو لگانا چھوڑا اور معطر لباس میں درختوں کی طرف جانا بھی ترک کردیا۔
سچ ہے انسان جب کسی تکلیف دہ تجربے سے گزرتا ہے تو اس کے ذہن میں مختلف خیالات آتے ہیں۔ یوں انسان اپنے رویوں کو بدلنے لگتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ میانہ روی اختیار کی جائے کیونکہ میانہ روی ہی ہماری زندگی میں آنے والے حالات کو ٹھیک رکھتی ہے۔
(مسز فیاض۔ ڈیرہ غازی خان)