Sunday, April 27, 2025

Aik Dafa Ka Zikar Hai | Teen Auratien Teen Kahaniyan

ان دنوں ہماری سکونت شہر سے سو میل دور تھی۔ روز کالج آنے جانے میں دقت ہوتی تھی۔ تبھی ابو نے فیصلہ کیا کہ مجھے لاہور کالج میں داخل کرا دیں۔ میں بہت خوش تھی کہ پہلی بار لاہور جارہی تھی۔ شومئی قسمت عین وقت پر والد صاحب کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ داخلے کی تاریخ دو دن بعد آخری تھی لہٰذا ابو نے افتخار بھائی سے کہا کہ تم بہن کے ہمراہ چلے جائو۔
ہم ریلوے اسٹیشن پہنچے تو گاڑی روانہ ہونے کو تھی۔ تبھی جلدی سے سوار ہوگئے۔ یہ خواتین کے لئے مخصوص کمپارٹمنٹ تھا مگر وہاں پہلے سے ایک شخص موجود تھا۔ دیگر مسافروں میں ایک بزرگ عورت کے ساتھ تین جوان لڑکیاں بھی تھیں۔
ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ گاڑی چل دی، بھائی نے سامان اوپر والی برتھ پر جما دیا اور خالی نشست پر بیٹھ گئے۔ چند سیکنڈ بعد بوڑھی عورت میرے بھائی سے یوں مخاطب ہوئی۔تم یہاں آکر کیوں بیٹھ گئے ہو۔ مردوں والے ڈبے میں جائو۔ یہ عورتوں کا ڈبہ ہے۔
عورت کی بات سن کر ہم بہن بھائی ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ٹکٹ والد صاحب نے بک کرائے تھے۔ بھائی نے تو عین وقت پر تیاری کی تھی وہ تفصیل سمجھ نہ پا رہے تھے۔
بوگی نمبر تو یہی ہے۔ بڑھیا کی یقین دہانی کو بھائی ٹکٹ نکال کر دکھانے لگے، عورت نے اور برا منایا تو ان پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ بزرگ عورت سے ایسی امید نہ تھی۔
شاید جلدی میں بوگی نمبر صحیح نہ دیکھ سکے تھے۔ میں نے بات کو سنبھالنا چاہا۔
آنٹی ٹکٹ چیکر کو آلینے دیں۔ اس نے جہاں بٹھایا وہاں چلے جائیں گے۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ عورت نے دوبارہ خشمگیں نگاہوں سے بھائی کو گھورا، بوگی نمبر دوبارہ دیکھو۔ یہ مردوں کا ڈبہ نہیں ہے۔ تم یہاں نہیں بیٹھو گے۔ افتخار بھائی کو اس کے ترش لہجے سے گھبراہٹ ہونے لگی۔ ٹرین نے رفتار پکڑ لی تھی ۔ ٹکٹ چیکر کا کچھ پتہ نہ تھا۔ ایسے میں بیگ وغیرہ اٹھا کر ڈبہ تبدیل کرنا محال امر تھا۔ مگر وہ تو کوئی عجیب عورت تھی۔ پیچھے ہی پڑ گئی۔
ادھر سے اٹھو میاں۔ بس میں کچھ نہیں جانتی۔ ہمارے ساتھ بچیاں ہیں۔ کسی جوان مرد کا ادھر بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔ اب تو افتخار بھائی کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔ ان دنوں وہ بی اے کے طالب علم تھے اور تربیت بھی اچھی پائی تھی لہٰذا تلخی سے جواب دینے میں ادب مانع تھا۔ بزرگ خاتون پیرانہ سالی کے سبب سنکی اور چڑچڑی ہوگئی تھی۔ لیکن لڑکیاں ہماری مجبوری کو سمجھ رہی تھیں تبھی ان میں سے ایک نے کہا۔
اماں صبر کرلو۔ چیکر کو آنے دو۔ یوں بھی سیٹ خالی پڑی تھی یہ لوگ بیٹھ گئے ہیں تو بیٹھا رہنے دیں۔ ان کے ساتھ بھی ایک لڑکی ہے جب دوسری مسافر عورتیں آجائیں گی تو یہ خود جگہ خالی کردیں گے۔
بادل ناخواستہ بزرگ عورت نے صبر کیا مگر ناخوش گوار موڈ کے اثرات چہرے سے ظاہر تھے۔ لگتا تھا بھائی کی موجودگی سے جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہے۔ وہ بار بار اپنی لڑکیوں کی طرف دیکھتی تھی کہ کہیں وہ تو اس آنے والے نوجوان کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔ ہماری طرف داری میں ایک ہی لڑکی نے بولنے کی ہمت کی تھی دوسری خاموش تھیں۔ تاہم بوڑھی نے اس لڑکی کو ناگواری سے دیکھا جو ہماری حمایت میں بولی تھی پھر خاموش ہورہی۔ جو شخص سامنے بیٹھا تھا لگتا تھا وہ ریلوے کا کوئی ملازم ہے۔ اس نے بھی کہا۔ اماں جی ان کو بیٹھا رہنے دو۔ تمہارے بچوں کے برابر ہیں۔ ابھی ٹکٹ چیکر آجائے گا تو سیٹ کی تصدیق ہوجائے گی۔
ہم ٹکٹ چیکر کا انتظار کرتے رہے لیکن وہ ادھر نہ آیا تو بھائی اوپر والی ایک خالی برتھ پر جاکر سو گئے اور میں خواتین کے ساتھ بیٹھی اونگھتی رہی۔
میں نے تشکر بھری نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا تھا جس نے بڑھیا سے ہماری حمایت کی تھی مجھ کو اپنی جانب دیکھتے پاکر وہ مسکرا دی تھی۔ اس کا یوں مسکرانا بھلا لگا گویا یہ خاموش دوستی کا پیغام تھا۔ تاہم میں نے بڑی بی کے خوف سے اس لڑکی سے بات نہ کی اور نہ وہ مزید ہم کلام ہوئی کیونکہ میرا بھائی ساتھ تھا جو اوپر کی برتھ پر (زنانہ ڈبے میں ) سو گیا تھا۔
گاڑی تیز جارہی تھی، شام گہری ہونے لگی اب اسٹیشن بھی نظر نہ آرہے تھے۔ کہیں رکتی اور کہیں گزرتی۔ بالآخر ٹرین نے مسافت تمام کی اور ہم تقریباً سات بجے لاہور چھائونی پر اتر پڑے۔ یہاں صرف ایک دو مسافر ہی اترے اور وہ تیزی سے لائنیں عبور کرتے دور نکل گئے۔ ہم ذرا آگے گئے یہاں مکمل اندھیرا تھا۔ ہمیں سواری کی تلاش تھی کیونکہ ابو کے دوست نظر نہیں آئے تھے۔
وہ نظر بھی کیسے آتے۔ ہم ہی بیوقوفوں کی طرح سٹی اسٹیشن کی بجائے کینٹ پر اتر گئے تھے۔ عجلت میں خیال نہیں رہا کہ ہمیں یہاں نہیں اترنا تھا کیونکہ انکل فخر تو ہمیں سٹی اسٹیشن پر لینے کو آنے والے تھے۔
ٹرین تو پل بھر میں آنکھوں سے اوجھل ہوگئی اور اب بھیا گھبراہٹ کے مارے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ کہیں ٹیکسی وغیرہ مل جائے۔ پلیٹ فارم پر سناٹا تھا قلی بھی کوئی دکھائی نہ دیا کہ ٹیکسی اسٹینڈ کی سمت کا پوچھ لیتے۔ بھائی نے بریف کیس اور بیگ اٹھا رکھے تھے اور ایک چھوٹا بیگ میرے ہاتھ میں تھا۔ اسٹیشن سے نکلے تو آگے پل کے پاس پانچ آدمی بیٹھے تاش کھیل رہے تھے۔
ایک بھائی کو اپنے سے زیادہ اپنی بہن کا خیال ہوتا ہے۔ چھائونی سے آگے کا سنسان علاقہ اور اس سے آگے بڑی بڑی خاموش کوٹھیاں جن کے بیچ راستوں پر کسی آدم زاد کا نام و نشان تک نہ تھا۔ جیسے کہ یہاں لوگ رہتے ہی نہ ہوں۔
جب بھائی نے تاش کھیلتے ہوئے پانچ مردوں کی اس ٹولی کو دیکھا تو اور محتاط ہوکر چلنے لگے۔ وہ ادھر سے گزر کر نہ جانا چاہتے تھے لہٰذا دوسری ’’سائیڈ‘‘ پر آگئے۔
اچانک ہم کو وہ لڑکی نظر آگئی جو بڑی بی سے ہماری حمایت میں بولی تھی۔ ہم اسے دیکھ کر آگے بڑھ گئے میرا خیال تھا کہ اس کے پیچھے اس کی ماں اور باقی دونوں بہنیں بھی آرہی ہیں جو ڈبے میں اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم آگے آگے چل رہے تھے کہ اچانک پیچھے سے آواز آئی۔
ذرا ٹھہرنا۔ وہ ہم سے مخاطب تھی۔ ہم ٹھہر گئے تو تیزی سے چلتی ہوئی ہماری جانب آگئی۔
اس نے مجھ کو مخاطب کرکے التجا کی۔ باجی میں اکیلی ہوں اور گاڑی لیٹ ہوگئی ہے رات ہونے کو ہے اور مجھے گھر کا پتہ ڈھونڈنا ہے۔ میری مدد کریں۔ لڑکی بہت پریشان تھی تبھی میں نے پوچھا۔ آپ کے ساتھ ڈبے میں آپ کی والدہ اور بہنیں تھیں وہ کہاں ہیں؟
وہ میرے ساتھ نہیں تھیں، میں اکیلی ہی سفر کررہی تھی۔ اس انکشاف پر سخت حیرت ہوئی۔ ’’آپ اکیلی کیوں سفر کررہی ہیں؟‘‘
والد فوت ہوچکے ہیں کوئی بہن بھائی نہیں ہے۔ جس اسامی کے لئے درخواست دی ہے، یہ اسامی ہمارے شہر کے لئے ہے۔ مگر انٹرویو لاہور میں ہوگا اسی وجہ سے آئی ہوں۔
گویا کہ تمہارے ساتھ آنے والا کوئی نہ تھا۔
ہاں، یہی بات ہے۔
اب جانا کہاں ہے؟
میری دور کی رشتہ دار ہیں پہلے کبھی ان کے گھر نہیں گئی امی نے پتہ سمجھایا مگر گاڑی لیٹ ہونے سے رات ہونے والی ہے۔ تبھی گھبراہٹ ہورہی ہے گھر تلاش نہیں کرسکتی۔
کسی کا فون نمبر ہے؟
بھائی نے سوال کیا۔
ہاں… خالو جان کا نمبر ہے لیکن اب ان کا دفتر بند ہوچکا ہوگا۔
اچھا پریشان نہ ہو۔ ہم تم کو وہاں چھوڑ دیتے ہیں جہاں تمہیں جانا ہے۔
کافی دور تک پیدل چلنا پڑا کیونکہ یہ ایسا علاقہ تھا جہاں رکشہ اور ٹیکسی نہیں ملتی تھی۔ یہاں سبھی ذاتی گاڑیوں والے لوگوں کے بنگلے تھے۔ جوکہ تقریباً دو کنال پر بنے ہوئے تھے۔ یہ علائو الدین روڈ کے قریب کا علاقہ تھا۔
خدا خدا کرکے آگے فورٹ اسٹیڈیم کے پاس ہمیں ٹیکسی مل گئی۔ لیکن اس لڑکی کے پاس پتہ لکھا ہوا نہ تھا بلکہ اسے زبانی یاد تھا۔
ٹیکسی والے کی نیت ٹھیک نہ تھی، اس نے بتائے ہوئے پتے کو ڈھونڈنے کے بہانے ٹیکسی کو گھمانا شروع کردیا۔ شاید کہ کرایہ زیادہ وصول کرنے کی خاطر… کافی دیر تک وہ آڑے ترچھے راستوں پر چلتا رہا۔ ہم بھی اس شہر میں اجنبی تھے۔ بھائی دو تین بار ابو کے ساتھ آئے تھے مگر میرے لئے تو یہ شہر بالکل ہی اجنبی تھا، میں پہلی بار آئی تھی۔ اسی وجہ سے اس لڑکی سے زیادہ گھبرا رہی تھی۔ بالآخر بھائی نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا۔
اگر تمہیں پتہ سمجھ نہیں آیا ہے تو ہمیں یہاں ہی اتار دو۔ کوئی دوسری سواری کرکے چلے جائیں گے۔ لگتا ہے کہ تم نے بھی نئی نئی ٹیکسی چلانا شروع کی ہے۔ بہرحال کافی کرایہ بن گیا تھا اور ہم منزل تک نہ پہنچ سکے تھے۔کچھ بحث و تکرار کے بعد اس سڑک کے ایک طرف ٹیکسی روک لی اور اپنا من مانا کرایہ وصول کرکے وہ چلتا بنا۔
اب ہم تینوں ایک انجانی سڑک پر کھڑے تھے اور بھائی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ہم لوگ کہاں کھڑے ہیں۔ لاہور جیسے شہر کے چپے چپے سے تو وہ قطعی واقف نہ تھا۔ تبھی آہستہ آہستہ آگے کو چلنے لگے اور کسی معقول آدمی کو دیکھ رہے تھے جس کو روک کر صحیح پتہ پوچھ لیں۔
کافی وقت گزر چکا تھا۔ رات ہوگئی تھی اور ہم اپنی اصل منزل سے بہت دور آچکے تھے۔ ان دنوں سیل فون کا رواج نہ تھا۔ کسی ایسی دکان کی تلاش تھی کہ جہاں سے ہم انکل فخر کو ہی فون کرسکیں۔
ایک راہ گیر کو روک کر پوچھا۔ کہ میاں میر کہاں ہے۔ اس نے کہا… آپ تو بہت دور آگئے ہو۔ میاں میر تو فورٹریس اسٹیڈیم سے تھوڑی دور ہی پر ہے گویا کہ کہاں سے ہم چلے تھے۔ اف اللہ… میرے بھائی کی پریشانی قابل دید تھی ایک نہیں اب دو نوجوان لڑکیاں اس کے ساتھ تھیں اور دوسری کو تو اپنی منزل کا صحیح پتہ بھی معلوم نہ تھا۔ بہن کی اور بات ہے مگر جب اجنبی لڑکی ہمراہ ہو، دل تو گھبراتا ہی ہے۔ بہرحال آگے پیچھے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے چلتے جارہے تھے کہ اچانک عقب سے پولیس کی گاڑی آکر رک گئی۔ ہم مسافروں کے حلیے میں تھے اور انداز بتا رہے تھے کہ بھٹک رہے ہیں تبھی گاڑی سے دو پولیس والے اتر کر آگئے اور بولے۔
تم لوگ کہاں سے آرہے ہو اور کدھر جارہے ہو؟
ہم ملتان سے آرہے ہیں۔ بھائی نے جواب دیا مگر اس احمق لڑکی کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ میں مظفر گڑھ سے آرہی ہوں۔ اس متضاد بیان سے پولیس والا شک میں پڑ گیا اور لڑکی سے پوچھا۔
تم ان کی کیا لگتی ہو؟ وہ بولی۔
جی… جی… کچھ نہیں لگتی دراصل وہ گھبرا کر ہکلانے لگی تھی۔ پولیس مین کا رخ اب میری جانب ہوگیا۔
اور تم کہاں سے آرہی ہو بی بی۔
ملتان سے۔ میں نے جواب دیا۔
اچھا۔ ایک ملتان سے آرہی ہے دوسری مظفر گڑھ سے اور تم لوگ ساتھ گھوم رہے ہو۔ یہ تمہاری کچھ نہیں لگتی اور تم اس نوجوان کی کیا لگتی ہو؟
بہن ہوں میں نے جواب دیا۔
کیا ثبوت ہے؟ بھئی یہ لڑکی اور بیان دے رہی ہے کہ کچھ نہیں لگتی۔ ایک بہن ہے۔ یہ کیا چکر ہے۔ بھائی نے اصل بات بتانی چاہی مگر اس آدمی نے وقت کو ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور کہا۔
باقی کا حال تھانے میں چل کر بتانا۔ مجھے تو تم لڑکیاں گھر سے بھاگی ہوئی لگتی ہو۔ اس نوجوان کے ساتھ کہاں سے بھاگ کر آرہی ہو۔ یہاں تو سچ نہیں بتائوگی۔ تھانے چل کر رام کہانی سنانا۔ ہاں بھئی یہ لاہور شہر ہے یہاں گھر سے بھاگے جوڑے ایسے چھپ جاتے ہیں جیسے چوہے بلوں میں…یہاں ہوٹل بھرے پڑے ہیں۔ کون پوچھتا ہے میاں؟
یہ 1970ء سے پہلے کا واقعہ ہے ان دنوں ابھی شناختی کارڈ نہیں بنے تھے۔ بھائی کی زندگی میں ایسا کڑا وقت پہلی بار آیا تھا وہ پولیس والے کو مطمئن نہ کرسکے اور ہم تھانے پہنچ گئے۔ تھانے میں انہوں نے ہمارے بیگوں کی تلاشی لی دو جوڑے کپڑوں اور تعلیمی اسناد کے علاوہ کچھ نہ ملا۔
اب یہاں آگئے ہو تو تصدیق کے بغیر نہیں جاسکتے صبح ہی خلاصی ملے گی۔
اس احمق لڑکی کی وجہ سے ہم بہن بھائی پھنس گئے جو ابھی تک گھبراہٹ میں اوٹ پٹانگ باتیں کررہی تھی۔ اس کی حالت قابل رحم تھی وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے میری خالہ کے گھر پہنچادیں۔ صبح ملازمت کے لئے انٹرویو دینا ضروری ہے بڑی مشکل سے میری بیوہ ماں نے سفارش لگائی ہے۔ خدا کے لئے رحم کریں۔ مگر وہ پولیس والا تھا، اسے ہماری بدنامی سے کچھ غرض نہ تھی۔ ایک ہی رَٹ لگائے جاتا تھا کہ ابھی یہاں مہمان رہو۔ رات کا وقت ہے کہاں جائو گے۔ صبح چلے جانا یوں انہوں نے ہم کو حوالات میں بند کردیا۔ افتخار بھائی نے انکل فخر کو فون ملانا چاہا تو بدقسمتی سے کال نہ مل سکی۔
دوسرے روز کسی طرح انکل کو اطلاع ملی۔ وہ تھانے آئے اور ہم کو رہا کراکر لے گئے۔ لڑکی جس کا نام مہ جبیں تھا، اسے بھی ساتھ گھر لے آئے۔ تلاشی پر اس کے بیگ سے سوائے اسناد کچھ نہ ملا تھا۔
انکل تو لاہور کے رہنے والے تھے جب مہ جبیں نے اپنی رشتے کی خالہ کا اَتا پتابتایا تو انہوں نے گھر تلاش کرلیا اور اسے اس کی خالہ کے یہاں پہنچا دیا۔ مگر اس ناگہانی حادثے کی وجہ سے اس کا انٹرویو رہ گیا جس کا اسے بہت قلق تھا۔ تبھی انکل نے سمجھایا کہ بیٹی تمہاری عمر کی بچیوں کو یوں اکیلے سفر نہیں کرنا چاہئے۔ وہ کہتی تھی انکل مجبوری تھی۔ میرے ساتھ آنے والا کوئی نہ تھا جبکہ امی دمہ کی مریض ہیں وہ سفر نہیں کرسکتی تھیں۔ تبھی میں نے ملازمت کی خاطر ہمت کرلی۔ ملازمت تو میری مجبوری ہے حالات مالی طور پر بہت کمزور ہیں، کوئی کمانے والا نہیں ہے۔
بیٹی، اکیلے سفر کرنے میں بھی احتیاط لازم ہے کیونکہ اکثر غلط واقعات ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ سہرا ہماری پولیس کے سر جاتا ہے۔ یہ بغیر سوچے سمجھے پوچھ گچھ میں خطا کرجاتے ہیں اور نقصان شریف شہریوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
میرا داخلہ انکل نے کالج میں کرا دیا کیونکہ یہاں ہاسٹل کی سہولت میسر تھی۔ انکل کا گھر بھی ساتھ تھا۔ انہی نے ہی ابو کو مشورہ دیا تھا کہ وہاں اگر کالج کے ساتھ ہاسٹل کی سہولت موجود نہیں ہے تو سائرہ بیٹی کو بھیج دو۔ میں سب معاملات دیکھ لوں گا۔ اگر بچی کو گھر سے دور رہ کر ہی پڑھنا ہے تو پھر کسی بہترین تعلیمی ادارے میں کیوں نہ پڑھے۔
ان کی سوچ صحیح تھی کیونکہ ہمارے علاقے میں گرلز کالج کے ساتھ ہاسٹل نہیں تھا۔ میری ہم جماعت لڑکیاں تعلیم کی خاطر اکثر اپنے قریبی عزیزوں مثلاً ماموں چچا وغیرہ کے یہاں قیام پذیر تھیں۔
مہ جبیں نے جب اپنی والدہ کو تمام واقعہ سے آگاہ کیا تو انہوں نے خط لکھ کر ہمارا شکریہ ادا کیا تھا۔ کچھ ماہ بعد وہ ہم سے ملتان ملنے آئیں کیونکہ وہاں علاج کرا رہی تھیں۔
امی ابو اس خاتون سے ملے تو بہت متاثر ہوئے وہ واقعی بیوہ اور بے سہارا تھیں۔ گرچہ دو بھائی تھے مگر وہ اپنی خوشحالی میں مست اور بیوہ بہن سے بیگانہ زندگی گزار رہے تھے۔
مہ جبیں کے والد تو ٹھیک ٹھاک زمیندار تھے لیکن ان کی وفات کے بعد نزدیکی رشتہ دار ان کی زمین پر قابض ہوگئے تھے۔ مہ جبیں کے چچائوں کاخیال تھا کہ مرحوم بڑا بھائی تو اولاد نرینہ سے محروم تھا۔ لہٰذا اس کی اراضی پر اب ان کا حق زیادہ ہے۔
والد صاحب نے اس مصیبت زدہ ماں بیٹی کی مدد کو ٹھان لی۔ جوں جوں حقائق کھلتے گئے پتہ چلا کہ یہ بہت اچھے خاندان سے ہیں۔ مہ جبیں سے بھی امی ابو نے ملاقات کی۔ ان کو یہ لڑکی بہت اچھی لگی۔ سو، افتخار بھائی کے لئے پسند کرلیا اور اس کی والدہ سے رشتہ مانگا۔ اس طرح وہ لڑکی جس نے ہم کو کبھی پریشانی میں ڈالا تھا ہمارے گھر کا ایک فرد بن گئی شاید کہ اسی طرح اس کا ہمارے ساتھ رشتہ قائم ہونا لکھا تھا۔
وہ اگر ریل میں ہمیں نہ ملتی اور پھر ہمارے ساتھ ساتھ نہ چلتی تو ہم سے ناتا بھی نہ ہوتا۔ بلاشبہ خدا نے مہ جبیں کو میرے بھائی کی شریک حیات بنانا تھا تبھی اسے ہمارے ساتھ اس سفر میں ملا دیا۔
(ایس… ملتان)

Latest Posts

Related POSTS