خالہ سونیا ہم سے بہت پیار کرتی تھیں۔ ان کی منگنی کے دن ہم بے حد خوش تھے ۔صبح سویرے تیار ہو کر والدہ کے ہمراہ نانی اماں کے گھر پہنچ گئے ۔ شام کو جب مہمانوں سے گھر بھر گیا، امی کا دل گھبرانے لگا اچانک ہی بے ہوش ہو کر گرگئیں۔ بھگدڑ مچنے سے تقریب پھیکی پڑ گئی۔ والدہ کو جلدی سے ہسپتال لے گئے اور یوں خالہ کی رسمِ منگنی ملتوی کر دی گئی۔
والدہ چھ دن اسپتال میں رہیں۔ ٹیسٹ وغیرہ ہوتے رہے۔ رپورٹیں آئیں تو پتا چلا کہ انہیں بلڈ کینسر ہے اور چند دن زندگی کے باقی رہ گئے ہیں۔ یہ انکشاف نانا اور نانی کے لئے قیامت سے کم نہ تھا۔ خالہ سونیا بھی روتے روتے نڈھال ہو گئی تھیں انہیں امی سے بہت پیار تھا دونوں بہنوں کا پیار مثالی تھا۔ تبھی دم ِآخر میری ماں نے اپنی چھوٹی بہن کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا۔وعدہ کرو سونیا کہ میرے بعد تم میری بچیوں کا خیال رکھو گی۔ ان کوتم ہی سنبھالو گی تمہار ے علاوہ کوئی بھی میری بیٹیوں کو ماں جیسا پیار نہیں دے سکتا۔ ماں کے بعد ہم چاروں بہنیں گھر میں اکیلی رہ گئیں۔ ہمیں دیکھنے اور سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔ والد بہت پریشان تھے۔ ایک روز نانا نانی اور ابو سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اب ان چاروں بچیوں کا کیا کریں، ان کو کہاں رہنا چاہئے۔نانا نانی کے پاس یا اپنے باپ کے گھر…؟
نانی عمر رسیدہ تھیں، وہ ہماری دیکھ بھال نہیں کر سکتی تھیں اور ممانی کرخت و خود غرض قسم کی خاتون تھیں۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ گھرمیں چار بچیوں کی گنجائش نہیں ہے۔ہمارے اپنے چار بچے ہیں، میں اپنا سکون خراب نہیں کر سکتی۔ یہ اکیلے نہیں رہ سکتیں تو لطیف بھائی کو چاہئے کہ اور بیاہ کر لیں تاکہ بچیوں کی نئی ماں آجائے ان کا بھی گھر بس جائے گا اورلڑکیوں کو ماںمل جائے گی۔ معاملہ بے حد اہم اور گھمبیر تھا ۔ہمیں فوری طور پر ایک ماں کی نگرانی کی ضرورت تھی۔ سوال یہ تھا کہ چار لڑکیوں کے باپ سے کون عورت شادی کر سکتی تھی۔ بے شک ڈھونڈے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ ہمارے باپ کو بھی نئی بیوی مل جانی تھی تاہم اس کے لئے وقت درکار تھا جبکہ ہمیں سنبھالنے کا مسئلہ فوری حل کرنا تھا۔
کون کہہ سکتا ہے کہ ہر عورت اچھی ماں ثابت ہوتی ہے جبکہ وہ سوتیلی بھی ہو۔ایسی فرشتہ صفت کا ملنا چراغ لے کر ڈھونڈنے کے مترادف تھا۔ ماموں بیوی سے ڈرتے تھےاس لئے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لی، البتہ ممانی نے مشورہ دیا ۔سونیا بھانجیوں سے بہت پیار کرتی ہے یہ بھی اس کے ساتھ ہلی ہوئی ہیں۔ کیوں نہ لطیف بھائی سے سونی بی بی کا نکاح کر دیا جائے۔ گھر کا مسئلہ گھر میں حل ہو جائے گا اور بچیاں بھی محفوظ ہو جائیں گی۔
خدا جانے خالہ کو اپنے ہونے والے منگیتر سے کتنا پیار تھا لیکن اب وہ آزمائش کے دوراہے پر کھڑی تھیں۔ ایک طرف ان کے مستقبل کے خواب اور دوسری جانب بھانجیوں کا پیار… میری چھوٹی دونوں بہنیں تو ان کے بازئوں پر سوتی تھیں۔ اِدھر دن رات نانی کان کھاتیں۔ دیکھ تو سونیا یہ معصوم کیسے تجھ سے لپٹتی ہیں ان کی بے زبان آنکھوں کے آنسو تیرا آنچل بھگوتے ہیں۔ کیا یہ سوتیلی ماں کے ظلم سہہ سکیں گی؟ انہیں بے یار و مددگار نہیں چھوڑنا۔ سبھی نے خالہ کو اس قدر جذباتی طور پر بلیک میل کیا کہ انہوں نے نانا نانی کے فیصلے کے آگے سر جھکا دیا۔
جس شخص کو بھائی جان اور دولہا بھائی کہتی تھیں اسی سے نکاح قبول کرنا پڑ گیا۔کس دل سے؟ یہ تو وہی جانتی ہیں یا خدا جانتا ہے۔ ہم تو اس بات پر خوش تھے کہ خالہ دلہن بن کر ہمیشہ کیلئے ہمارے گھر آ گئی ہیں اور اب کبھی ہم کو چھوڑ کر نہیں جائیں گی۔
والد صاحب، خالہ سونیا سے عمر میں کافی بڑے تھے تاہم ان کی فراست ،سوجھ بوجھ اور فراخ دلی کام آئی اورخالہ نے رفتہ رفتہ ان کو اپنا جیون ساتھی قبول کر لیا۔ میری خالہ کے آجانے کے بعد وہ سکون کی نیند سونے لگے اور وقت پر دفتر جانے لگے۔ ان دنوں بڑی بہن فرخندہ دس برس کی اور میں آٹھ سال کی تھی۔ تابندہ چھ سال کی اور چھوٹی پائیدہ تین سال کی تھی۔ خالہ کے آجانے سے ہمارا غم آدھا رہ گیا تھا انہوں نے ماں کی جگہ لے لی۔ پہلے بھی پیار کرتی تھیں اب زیادہ خیال رکھنے لگیں کہ ہم ان کی ہستی میں ماں کی ممتا تلاش کرتے تھے اور ان کو بڑی بہن سے کیا وعدہ یاد آ جاتا تھا تو آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہنے لگتے تھے۔
سچ ہے گھر بچوں سے نہیں عورت سے بستا ہے پہلے پہل ابو نے بھی بہت چاہت دکھائی۔ ہمارا بھی خیال رکھتے کہ بِن ماں کے ہیں اور خالہ سونیا کا بھی کہ ہماری خاطر انہوں نے قربانی دی تھی۔ لیکن یہ سب کچھ اس وقت تک تھا جب تک خالہ کی اپنی اولاد نہ ہوئی تھی۔ انہیں پھل پھول لگے تو ہماری طرف سے دھیان ہٹنے لگا اور ہم پر خزاں چھا گئی۔
لاکھ بہن کے بچوں سے محبت ہو جب اپنی اولاد آ جائے تو اس کے آگے ہر شے ہیچ ہو جاتی ہے۔ خالہ نے بھی رفتہ رفتہ ہم کو پیچھے ہٹانا شروع کر دیا۔ اب وہ ہم پر غصہ بھی کرتیں اور ذرا ذرا سی غلطی پر جھڑک بھی دیتیں ۔اگر والد دیکھ لیتے وہ ان کو تنبیہ کرتے ،یاد دلاتے کہ یہ تمہاری مرحومہ بہن کی بچیاں ہیں، ان کے ساتھ رویہ نہ بدلو بلکہ اپنے رویئے کو درست رکھو۔ خدا جانے کیوں خالہ جان کو والد کی یہ باتیں بُری لگتی تھیں۔ وہ اب ان کے سامنے تو کچھ نہ کہتیں، بعد میں دھنک کر رکھ دیتیں۔
ہم جو ماں کی وفات کے بعد بھی خالہ کی بانہوں میں سمٹ کر خوش رہنے لگے تھے، مرجھانے لگے۔ ان کے بدلتے رویئے سے متاثر ہوئے اور چہروں سے وہ محرومی کا احساس ٹپکنے لگا جو یتیم بچوں کے چہروں سے ہویدا ہوتا ہے۔ والد کو جب یہ یقین ہو گیاکہ سونیا میری بیٹیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے لگی ہے تو وہ ان سے برافروختہ رہنے لگے۔ کبھی ہاتھ بھی اُٹھا دیتے جس پر خالہ نے ہم کو اپنا مدِ مقابل سمجھ لیا۔ بظاہر نفرت کا اظہار نہ کر سکتی تھیں لیکن دل میں نفرت کی چنگاری نے جڑ پکڑ لی تھی۔ ہم سے کام کروانا ہوتا توان کا مزاج اچھا ہو جاتا ۔غصہ آ جاتا تو ابو کے سامنے نجانے کب کب کی خطائیں گنوانے لگتیں۔ جوں توں بچپن گزرا ہم نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ خالہ کی حکمت عملی کو سمجھ لیا۔ پہلے صبر نہ آتاتھا پھر صبر کرنا بھی سیکھ لیا۔
خالہ کی نفرت کا شکار سب سے پہلے فرخندہ آپی ہوئیں۔ وہ سچی بات پر کبھی کبھی خالہ کے سامنے بول پڑتی تھیں یہ بات انہیں ناگوار گزرتی۔میں سمجھ دار تھی ،مصلحتاً چپ رہتی غصے کو پی جاتی تاکہ دونوں چھوٹی جو ابھی ناسمجھ تھیں اور سوتیلی ماں کے عتاب کا کم شکار ہوتی تھیں، ان کو نہ وہ اپنا ٹارگٹ بنالیں۔ فی الحال تو آپی ہی خالہ کے نشانے پر تھیں اور دونوں میں کبھی ٹھن بھی جاتی تھی۔
خالہ نے سوچا کہ اس مسئلے کا یہی حل ہےکہ فرخندہ کی شادی کر دی جائے ۔جلد از جلد اس سے چھٹکارا پانے کا یہی طریقہ تھا، چاہے اس کے لئے کنویں میں دھکا کیوں نہ دینا پڑے۔ انہوں نے والد سے کہنا شروع کر دیا۔ تمہارے سر پر چار لڑکیوں کا بوجھ ہے۔ انہیں بیاہتے بیاہتے عمر لگ جائے گی ۔میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں ان کی باری آنے تک بوڑھے ہو چکے ہوگے۔ ان کا بھی وقت سے تمہی کو سوچنا ہے۔ فرخندہ کو اس کے گھر کا کرو۔ کوئی اچھا رشتہ آئے تو کردوں گا، ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے بمشکل چودہ برس کی ہو گی۔میٹرک کا امتحان تو سکون سے دے لے پھر سوچیں گے۔
ہاں میں نے کب کہا ہے کہ ابھی گھر سے رُخصت کر دو۔ ظاہر ہے اچھا رشتہ آئے گا تو ہی کریں گے، ویسے میری نظر میں ایک رشتہ ہے اگر آج سے سوچیں گے تو ہی کل اس کے ہاتھ پیلے کر پائیں گے۔ وہ کون سا رشتہ ہے جو تمہاری نظر میں ہے۔ اپنے صباحت
کا ، لڑکا تو اچھا ہے اپنے ہیں کچھ چھان بین کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن … وہ تو …
کم تعلیم یافتہ ہے ،یہی کہنا چاہ رہے ہیں نا آپ ۔ تو کیا ہوا اپنا کاروبار ہے،خوشحال گھرانہ ہے، رشتےداری ہے،اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ بیوی مر چکی ہے۔ آپ کی بیوی بھی تو … تو کیا دوبارہ گھر نہیں بسا لیا۔یہ اللہ کے کام ہیں، بندہ بے بس ہے لیکن جیون ساتھی نہ رہےتو دوبارہ گھر بسانا ہوتا ہے۔ صباحت کے تو بچے بھی نہیں ہیں۔ اچھا ٹھیک ہے سوچیں گے ،لڑکی کو میٹرک تو کر لینے دو۔ گویا کہ ابو نے جان چھڑائی۔
صباحت اُسی کا چچا زاد تھا جس شخص سے خالہ کی منگنی ہوتے ہوتے رہ گئی تھی اور یہ نانا کے قریبی رشتہ دار تھے۔ بہرحال، خالہ کی باتیں آپی بھی سنتیں، تب وہ رنجیدہ ہو جاتیں اس خیال سے کہ خالہ اب ان سے جان چھڑانا چاہتی ہیں۔
ان دنوں آپی بہت حساس ہو گئی تھیں۔ ماں کے ساتھ ساتھ باپ کے پیار میں بھی کمی آتی جا رہی تھی کیونکہ وہ اب بڑی ہو گئی تھیں۔ سچ کہتی ہوں، کچی عمر میں اگر لڑکی کو گھر والوں کا پیار نہ ملے تو وہ اس امرت کو گھر سے باہر تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کوشش میں اس کے قدم بہک بھی سکتے ہیں۔ اس سے قبل آپی کے قدم بہک جاتے خالہ نے ان کا رشتہ صباحت سے طے کروا دیا۔ آپی نے صباحت کو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ منگنی کے بعد ان لوگوں نے آنا جانا شروع کر دیا۔
ایک دن صباحت اپنی والدہ اور کزن کے ہمراہ ہمارے گھر آئے ابو گھر پر نہ تھے۔ صباحت اور ان کی والدہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے اور بَری وغیرہ کے بارے وہ خالہ سے باتیں کر رہے تھے جبکہ ان کے کزن واش روم میں ہاتھ دھونے چلے گئے تھے۔
آپی کو خبر نہ تھی کہ کوئی واش روم میں ہے۔ وہ باورچی خانے میں تھیں۔ کسی باعث وہاں سے نکل کر واش روم چلی گئیں، جونہی احساس ہوا کوئی وہاں ہے تو اُلٹے قدموں پلٹیں، اُسی وقت خالہ ڈرائنگ روم سے نکلیں اور ان کو واش روم کے دروازے سے پلٹتے دیکھ لیا بس اتنا ہی میری بہن بچاری کا قصور تھا۔
خالہ نے آپی کو خوب ڈانٹا کہ جب تم کو خبر تھی گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں تو تم باہر والے غسل خانے میںکیوں جا گھسیں۔ اپنے کمرے سے متصل باتھ روم میں کیوں نہ گئیں تم کو اتنی بھی تمیز نہیں ہے کہ مہمانوں کی موجودگی میں مہمانوں کے لئے مخصوص واش روم میں نہیں جایا کرتے۔ آپی جو کہ پیار کو ترس رہی تھیں ایسی دھتکار پھٹکار پر پھپھک پڑیں۔ وہ اپنے گھر میں مجرم بن گئیں۔ ڈری سہمی چور چور سی خود کو محسوس کرنے لگیں جیسے کوئی بڑا گناہ ان سے سرزد ہو گیا ہو۔ اُوپر سے خالہ ہر وقت کہتیں۔ کم کھایا کرو، اتنی جلدی اونٹنی سی ہو گئی ہو کہ سر پیر میں آپے سے باہر ہوئی جاتی ہو۔
میں آپی سے دو سال چھوٹی تھی مگر دبلی پتلی، ان سے چار برس کم عمر لگتی تھی ان کی اُٹھان ہی ایسی تھی۔ ان کو سمجھاتی۔ آپی، خالہ بدل گئی ہیں لیکن ہیں تو خالہ ہی ،ماں کی بہن ہیں۔ مائیں بھی تو بچوں کو ڈانٹتی ہیں۔ تم ان کی ڈانٹ پر اتنی آزردہ نہ ہوا کرو۔ ان کو اپنے بچوں کے بھی سو کام ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچے تھکا دیتے ہیں۔ تبھی غصہ ہم پر نکالتی ہیں۔
سمجھانے کو آپی کو سمجھاتی مگر خود بھی ان باتوں پر کڑھتی۔ سوچتی تھی۔ اے کاش خالہ کی شادی ہمارے ابو سے نہ کی جاتی تو یہ خالہ ہی رہتیں۔ سوتیلی ماں بن کر تو خالہ کا پیار بھی جاتا رہا ہے۔
اس واقعے نے آپی کے دل پر گہرا اثر کیا۔ انہوں نے کھانا پینا ترک کر دیا اور کمزور ہوتی گئیں، یہاں تک کہ اُٹھتی تھیں تو چکر آتے تھے، کچھ کھاتیں تو متلی ہوتی۔ یہ سب نفسیاتی دبائو کے باعث تھا جو کہ خالہ نے ان پر ڈالا تھا لیکن خالہ نے اس کا کچھ اور ہی مطلب لیا بجائے ڈاکٹر کے پاس لے جا کر علاج کرانے کے انہوں نے اور زیادہ آپی پر سختی اور لعن طعن شروع کر دی کہ روز بہ روز نلمی اور کام چور ہوتی جارہی ہے۔ ہر وقت بستر پر پڑی ہے۔ کچھ کام کاکہو تو اسے چکر آنے لگتے ہیں۔ آج نہیں تو کل پرائے گھر جانا ہے وہاں کام بھی کرنا ہو گا تب کیا کرے گی۔
غرض روز بہ روز اس قدر اس معصوم سی لڑکی پر دبائو بڑھایا کہ ایک دن فرخندہ آپی ناشتہ کر رہی تھیں۔ خالہ باورچی خانے میں سر پر پہنچ گئیں ،کہا۔ بنوذرا ہاتھ روک کر کھایا کرو تمہاری شادی ہونے والی ہے ایسا نہ ہو کہ کھا کھا کر موٹی بھینس نظر آنے لگو ۔موٹی لڑکیاں دلہن بنتی اچھی نہیں لگتیں۔ اسمارٹ لڑکیوں پر ہی عروسی لباس اچھا لگتا ہے شادی کے بعد جتنا مرضی کھا لینا۔
یہ بات فرخندہ کے دل کو تیر کی طرح لگی، وہ جو کھا چکی تھیں صحن میں آکر اُلٹ دیا… ان کارنگ پیلا پڑ گیا اور بستر پر جا کر گر گئیں۔ ان کی یہ حالت خالہ کے ناروا سلوک کی وجہ سے ہوئی تھی لیکن میری ماں نے اس کا کوئی اور مطلب ڈھونڈ نکالا۔
ابو سے کہا کہ زہر لادو… لڑکی کی حالت ایسی ہے کہ ہماری بدنامی کا وقت قریب آنے والا ہے… خالہ کے ستم پر ہم بہنیں خون کے آنسو رو رہی تھیں۔ خالہ کی پٹائی سے اُن کا برا حشر ہو گیا۔ جب ہم اسکول سے آتے وہ ہم کو رو کر اپنے بدن کے نیل دکھاتیں ۔
خالہ اپنے اس کزن کے بارے میںآپی سے اُلٹے سیدھے سوال کرتیں جو اس روز اتفاق سے واش روم میں تھا اور آپی غلطی سے اُدھر چلی گئی تھیں ۔آپی کو بھی خالہ کی بیہودہ باتوں پر غصہ آجاتا۔ وہ چلانے لگتیں ۔خالہ کو کوسنے لگتیں تو وہ جوتا اُٹھا لیتیں۔ دوچار فرخندہ کے بدن پر جڑ کر دل کی آگ ٹھنڈی کر لیتیں۔ لگتا ہی نہ تھا کہ ہماری وہی اپنی سگی خالہ ہیں جو ابو کی بیوی بننے سے پہلے ہم سے اس قدر پیار کرتی تھیں۔
یہ سارا دبائو اس وجہ سے تھا کہ کہیں آپی صباحت کے ساتھ شادی سے انکار نہ کردیں۔ وہ عمر میں ان سے بڑے تھے رنگت بھی کالی تھی۔ غرض کہ بالکل بھی ایسی شکل و صورت نہ تھی جیسی کہ چودہ یا سولہ برس کی لڑکیوں کے آئیڈیل کی ہوتی ہے۔ وہ ایک پریکٹیکل آدمی تھے۔ تمام دن کاروبار میں مصروف رہنے والے، کسی الھڑ کے خوابوں کے شہزادے کی مانند تو بالکل بھی نہیں دِکھتے تھے۔ یہ بھی اغلب تھا اگر آپی صباحت سے شادی سے انکار کر دیتیں تو والد بھی ان کی شادی اس کے ساتھ نہ کرتے اور خالہ کی پلاننگ دھری رہ جاتی۔ بُرے برتائو سے آپی اب خالہ کے چنگل سے جلد از جلد نجات کی خواہ ہو گئیں تو میں بھی ہر نماز کے بعد یہی دعا کرنے لگی کہ اے اللہ آپی کی جلد ازجلد شادی کرا دے تاکہ خالہ کے ناروا سلوک سے ان کی جان چھوٹ جائے۔
اللہ اللہ کر کے آپی کی شادی صباحت سے ہو گئی اور ہم سب نے سکھ کا سانس لیا۔ آپی کو بھی خالہ نے ایسا ستا کر بھیجا تھا کہ جیسی بری بھلی زندگی مل گئی سمجھوتہ کر لیا ۔دوبارہ باپ کے گھر آ رہنے کا کبھی نام تک نہ لیا۔ آپی کی شادی کے سال بعد میری باری آ گئی خالہ نے میرا رشتہ اپنے ماموں زاد بھائی سے کرا دیا۔ میرا شوہر اچھا نہ تھا تو برا بھی نہ تھا۔ جیسا تھا میں نے دل سے قبول کر لیا کیونکہ زندگی اب اس کے نام لکھی جا چکی تھی۔ یہ سوچ کر کہ جو خوشیاں نصیب میں ہوں مل جاتی ہیں اور جو نصیب میں نہ ہوں نہیں ملتیں… دکھ سکھ تنگی ترشی سب میں نے قبول کی مگر کبھی شکایت لے کر والد کے گھر نہیں گئی۔میں جگ ہنسائی نہیں چاہتی تھی نہ ہی مجھے یہ اُمید تھی کہ اس سے اور اچھی زندگی میرے نصیب میں ہوگی۔
شروع دنوں میں کافی مغموم رہا کرتی تھی لیکن جب پتہ چلا کہ ہماری زندگی میں اُمید کا پھول کھلنے والا ہے، رب کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس سونے اور ویران گھر میں جینے کا مقصد مہیا کر دیا تھا۔ مستنصر بھی خوش تھے۔ مدت سے وہ تنہا زندگی بسر کرتے کرتے اُکتا گئے تھے۔ جب میں ایک معصوم سے بیٹے کی ماں بن گئی خالہ ہمارے گھر بچے کو دیکھنے آئیں۔ رسماً کچھ اشیاء بھی میرے نومولود کے
لئے لائی تھیں ۔ مستنصر اس وقت بچے کے لئے جھولا لینے بازار گئے ہوئے تھے۔ میں نے ان کو فون کیا۔ جلدی سے آجائیے۔ خالہ آئی ہوئی ہیں، ان کے لئے بازار سے مٹھائی اور کھانے پینے کا سامان لیتے آئیے گا۔
وہ جھولا خرید چکے تھے اور اُسے سواری پر لاد کر لا رہے تھے اسی باعث مٹھائی اور کھانے پینے کی اشیاء نہ لا سکے۔ سوچا کہ گھر جا کر پہلے جھولا پہنچا دوں گا۔ مٹھائی وغیرہ بعد میں لےآ ئوں گا۔ ان کے قدموں کی آہٹ سنی تو میں نے کہا کہ مٹھائی لائے ہیں۔ ان کے منہ سے نکلا۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے ،لے آتا ہوں پہلے جھولا تو فٹ کرالوں۔ فٹنگ والا دکان سے ساتھ آیا ہے بعد میں کون یہ کام کرے گا۔ ذرا سا صبر کر لو۔ خالہ کہیں بھاگی نہیں جا رہیں۔
یہ الفاظ خالہ نے بھی سنے ان کا منہ پھول گیا اور خفا ہو کر جانے کو اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ کہنے لگیں تمہارے شوہر کو تو بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہے میں مبارک باد کہنے آئی تھی اس بے لحاظ نے میری بے عزتی کر دی ہے۔ مجھے نہیں کھانی مٹھائی وٹھائی ۔
لاکھ روکتی رہ گئی کہ کھانا تو کھا کر جائیے۔ بولیں۔ کھانا تو کجا اب تیرے گھر کا پانی بھی نہیں پیئوں گی ۔یہ کہتے ہوئے وہ گھر سے نکل گئیں۔مستنصر کوجاتے ہوئے خدا حافظ بھی نہ کہا۔ وہ دوسرے کمرے میں جھولا فٹ کروا رہے تھے ،میں بستر سے اُٹھنے سے قاصر تھی، ان کو آواز نہ دے سکی۔ میرے شوہر کو علم تک نہ ہوا کہ خالہ روٹھ کر جا چکی ہیں۔ جب وہ جھولا فٹ کروا کر کمرے میں آئے پوچھا خالہ جی کدھر ہیں۔
روٹھ کر چلی گئی ہیں۔میں نے بتایا۔ آپ نے بات ہی ایسی کی ہے۔ کہنے لگے۔ بخدا … میں نے ان کی دل آزاری کے لئے یہ نہیں کہا تھا۔ تم نے کمرے سے ہی مجھ سے مٹھائی کے بارے پوچھا۔ تم کو علم نہ تھا کہ میرے ساتھ ایک اور آدمی ہے اور مجھے خیال نہ رہا خالہ اندر بیٹھی ہیں اور سن رہی ہیں یہ سب بے سبب ہو گیا۔ ابھی جاتا ہوں ان کے گھر، جاکر مناتا ہوں ،معافی مانگ لوں گا مٹھائی بھی لے جائوں گا۔
وہ اُسی وقت گھر سے نکل گئے۔ مٹھائی خرید کر ابو کے گھر گئے ۔ خالہ سے معذرت خواہ ہوئے مگر انہوں نے معذرت قبول نہ کی بلکہ ان سے اُلجھ پڑیں۔ تلخ لہجے میں بے عزتی کرنے لگیں کہ اُٹھائو مٹھائی اور چلے جائو میرے گھر سے جیسا سلوک تم نے اپنے گھر میں مجھ سے روا رکھا ویسا ہی تمہارے ساتھ کروں گی۔ خدا جانے ان کی آپس میں کیا باتیں ہوئیں میں تو سن نہ سکی، بعد میں بہنوں کی زبانی کچھ معلوم ہوا تھا کہ خالہ نے جب زیادہ سنائیں تو مستنصر کا بھی موڈ خراب ہو گیا۔ ایک آدھ بات انہوں نے بھی جواباً کہہ دی۔
اگلے روز جبکہ وہ گھر پر نہ تھے ہماری خالہ جان تشریف لے آئیں۔ مجھ سے کہا۔ ابھی چلو میرے ساتھ، اب تم نے چھلّا میکے میں کرنا ہے یہی ہمار ا دستور ہے۔
مستنصر کو گھر آجانے دیجئے۔ لاکھ میں ان کو سمجھاتی رہی، انہوں نے ایک نہ سنی میرے منے کو اُٹھا لیا ابو باہر گاڑی میں بیٹھے تھے۔ پھوپھو ،ساس ہمارے ساتھ رہتی تھیں ان کو میں نے کہا کہ خالہ اور ابو لینے آگئے ہیں اور رُک نہیں رہے۔ مستنصر سے کہئے گا وہ ابو کے گھر آجائیں۔ ظاہر ہے کہ جب منالے کر خالہ گاڑی میں جا بیٹھیں، میں اپنے ننھے منے کے بغیر کیسے رہ سکتی۔
میں تو سمجھ رہی تھی معمولی سا جھگڑا ہے کتنے دن چلے گا، جلد واپس گھرچلی جائوں گی لیکن یہ نہ ہوا۔ خالہ نے اس معمولی جھگڑے کو اتنا طول دیا کہ بات طلاق تک پہنچا دی۔ میں نے احتجاج کیا کہ طلاق نہیں لوں گی تو خالہ نے کہا کیا تمہیں میری عزت سے بھی زیادہ اپنا گھر پیارا ہے ۔جس شخص نے اپنے گھر میں تیری خالہ کی بے عزتی کی ہے تو بے قدری ہو کر پھر سے اس گھرمیں جائے گی۔اگر جانا ہی ہے تو پہلے ستر دفعہ تیرا شوہر ہمارے آگے ناک رگڑے گا پھر ہم تمہیں اس کے ساتھ جانے دیں گے۔
دراصل خالہ میرے بچے کی آڑ میں مستنصر کو بلیک میل کر رہی تھیں کہ بیٹے کی خاطر جو کہوں گی اس کو مانتے ہی بنے گی ،لیکن انا کے پُتلوں کو کسی کی زندگی سے زیادہ اپنی انا پیاری ہوتی ہے۔ مستنصر بھی ان لوگوں میں سے تھا جو ایک حد تک جھکتے ہیں۔ زیادہ جھکائو تو ٹوٹ جاتے ہیں یا توڑ ڈالتے ہیں اور زیادہ جھکنے کی بجائے انہوں نے میرے والدین سے داماد والا رشتہ توڑ دیا اور مجھے طلاق دے دی۔ یہ کہہ کر کہ رکھو عمر بھر اپنی لڑکی اپنے پاس ،مجھے رشتوں کی کمی نہیں ہے۔ کاروبار روپیہ پیسہ سب کچھ ہے میرے پاس، میرا دوبارہ گھر بس جائے گا ۔تم لوگ ہی پچھتا تے رہ جائو گے۔
والد پچھتاتے ہوں گے خالہ کو پچھتاوا کیسا، ان کی انا کو تسکین مل گئی بے شک میرا گھر برباد ہوا ۔میرا بیٹااپنے باپ کی شفقت سے محروم ہوا ،جس کا وہ جھولا اتنے شوق و محبت سے لائے تھے مگر وائے بدنصیبی کہ باپ کے لائے ہوئے اس جھولے میں بیٹے کو ایک دن بھی جھولنا نصیب نہ ہو سکا۔ شاید کہ اُسے عمر بھر دکھوں کی بانہوں میں ہی جھولنا تھا۔
میری دونوں چھوٹی بہنوں نے میٹرک کر لیا تو ان کی شادیاں بھی متوسط گھرانوں میں والد صاحب نے کرادیں۔ انہوں نے بھی حالات سے سمجھوتہ کرنا مناسب جانا۔ جیسی زندگی ملی قبول کر لی، لیکن میں اپنے باپ کے گھر میں خالہ اور ان کے بچوں کی مستقل نوکرانی بن گئی کیونکہ ان کی خدمت کر کے ہی اپنے بچے کی پرورش کر سکتی تھی۔ غیروں کے دھکے کھانے سے باپ کے آنگن کی پناہ کو ہی بہتر جانا۔
مستنصر نے اور شادی کر لی، پلٹ کر خبر نہ لی،البتہ ابو سے یہ معاہدہ کر لیا کہ فرساد جب تک دوسری شادی نہ کرے گی بیٹا اپنے ساتھ رکھ سکتی ہے۔ دوسری شادی کی تو میں اپنا لڑکا لے جائوں گا۔ خالہ نے جیسے مجھے اور میرے بیٹے کو پناہ دی، کیا تفصیل لکھوں۔ بیٹے کا خیال نہ ہوتا تو اس گھر سے کب کی بھاگ چکی ہوتی۔ بیٹا سوتیلی ماں کے ہاتھوں میں نہ چلا جائے اس خیال نے مجھے اپنے والد کے گھر سے باندھے رکھا۔ ہماری سوتیلی ماں تو سگی خالہ تھی اس نے ہمارا جو حشر کیا، یہی تجربہ کافی تھا ہر ستم سہتی رہی اور جیتی رہی۔
یہ جینا بھی تو مرنے جیسا تھا مگر ناصر کی خاطر جینا تھا۔ اس آس پر کسی دن تو میرا بیٹا بڑا ہو جائے گا اور میرے دن پھر جائیں گے۔ جوانی کا سنہرا زمانہ ٹھنڈی اور ٹھٹھری راتوں کے مدفن میں گزار دیا ۔ ان تنہا اور بھیانک راتوں نے مجھے کیسے کیسے نہیں نچوڑا ،سہمایا اور زخمی کیا مگر میں ہر لمحے کا وار سہتی گئی۔ ان برچھیوں کے زخم پیتی گئی یہ سوچ کر کہ جوانی تو چند روزہ ہے۔ میرا بچہ بھٹک گیا، رُل گیا یا تباہ ہو گیا تو عمر بھر کے پچھتاوے کا بوجھ نہ اُٹھا سکوں گی۔
عرصے تک خالہ نے مجھ سے گھر کا کام کرایا۔ اپنے بچے پلوائے۔ میں نے سردی گرمی کچن سنبھالا… صرف والد کا سہارا تھا۔ خدا نے ایک دن یہ مضبوط سہارا بھی لے لیا… تب سوتیلے بڑے بھائی نے ایک روز کہا۔ آپا بہتر ہو گا آپ علیحدہ گھر لے لیں۔ آپ کا بیٹا بڑا ہو گیا ہے ہمیںگھر تنگ پڑنے لگا ہے۔
میں نے خالہ سے بھی اجازت کی ضرورت نہ سمجھی خاموشی سے اپنا سامان سمیٹا اور کرائے کے گھر میں شفٹ ہو گئی۔ میرا ناصر انجینئرنگ کے آخری سال میں تھا۔ جوں توں کر کے اس نے تعلیم مکمل کر لی تو باپ کو فون کیا۔ انہوں نے بیٹے سے ملنے کی خواہش کی، میں نے ناصر کو نہ روکا وہ باپ سے ملا اور مستنصر نے اسے اپنے ایک دوست سے کہہ کر ملازمت دلوا دی۔
سچ کہتے ہیں صبر کا پھل مل جاتا ہے ۔اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی صبر کا اجر دیا ،آج میرا بیٹا ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کر رہا ہے۔ وہ بہت اچھا معاوضہ لے رہا ہے ۔گھر اور گاڑی بھی ملی ہے۔ میں نے اس کی شادی کر دی ہے اور پرانے دکھ بھول کر اپنے بیٹے کے ساتھ سکون سے زندگی کے باقی دن بسر کر رہی ہوں۔
خدا کبھی مائوں کی
قربانی رائیگاں جانے نہیں دیتا ۔میں نے ناصر کے لئے زندگی قربان کی۔ وہ روز رات کو میرے پائوں دباتا ہے اور کہتا ہے۔ ماں اگر تم نہ ہوتیں توشاید میں بھی یہ دنیا چھوڑ کر چلا جاتا ۔ (ف… ملتان)