میرے شوہر کی منگنی اپنی خالہ زاد سے ہو چکی تھی ۔ شادی میں دو ماہ باقی تھے کہ انہوں نے مجھے ایک رشتہ دار کی شادی میں دیکھا اور فریفتہ ہو گئے ۔ دل میں ٹھان لی کہ اس لڑکی سے شادی کروں گا۔ اس فیصلے پر ان کے گھر والے دنگ رہ گئے۔ والدہ کو غشی کے دورے پڑنے لگے کہ بیٹے کی منگیتر ان کی بھانجی تھی جو ان کو بہت پیاری تھی، پھر منگنی بھی سات سال رہی تھی، شادی کی تاریخ مقرر ہو چکی تھی۔ ایسے موقع پر اس خبر سے ان کے میکے میں بھونچال آجاتا۔ ان کے سب بہن بھائی ان سے تعلق قطع کر لیتے ۔ ماں نے بہت شور مچایا، خودکشی کی دھمکی دی، باپ نے بھی سمجھایا ، بہنوں نے قطع کلامی کر لی مگر دانیال ضد کے ایسے پکے تھے کہ کسی کی نہ سنی اور خود منگیتر کے گھر جا کر اس کے والدین سے منگنی ختم کرنے کی بات کر کے آگئے۔ لڑکی والوں کی بھی عزت ہوتی ہے۔ بس پھر وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا، میرے ساس کا اپنے میکے سے ہمیشہ کے لئے ناتا ختم ہو گیا۔
ان دنوں دانیال ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور گھر انہی کے دم قدم سے چل رہا تھا۔ یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو کماتا ہے، سرپرست بھی وہی بن جاتا ہے اور زور بھی اسی کا چلتا تھا۔ گھر والے مانتے یا نہ مانتے ، وہ شادی میں شامل ہوتے یا نہیں، دانیال نے کہہ دیا کہ گھر والوں میں جس کو یہ شادی قبول نہیں، بے شک وہ شادی میں نہ بیٹھے۔ وہ کورٹ میرج کر لیں گے۔ یہ بڑی دھمکی تھی۔ سبھی نے جان لیا دانیال جو کہہ رہا ہے، کر دکھائے گا۔ تب ان کا کیا رہ جائے گا۔ کمانے والا گھر سے چلا جائے گا تو اخراجات کیسے چلیں گے۔ وہ بھائی بہنوں کو پڑھا رہے تھے، ماں باپ کا تمام خرچہ اٹھا رہے تھے ۔ سارا گھرانہ معاشی لحاظ سے ان کا دست نگر تھا، لہذا وہ اختلاف کے متحمل نہ ہو سکتے تھے۔ دانیال کے والد سمجھ دار تھے۔ وہ میرے والد کے چچا زاد بھی تھے، اس وجہ سے انہوں نے اس رشتے پر مخالفت نہیں کی۔ ان دنوں کالج میں میرا دوسرا سال تھا۔ میرے والدین کو بھی میری شادی کی فکر تھی لہذا انہوں نے رشتے کے لئے ہاں کر دی۔ بارہویں کا امتحان دیا ہی تھا کہ میری شادی دانیال سے ہو گئی۔ وہ مجھ سے شادی کر کے بہت خوش تھے اور میں بھی ، کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بیسویں گریڈ کے آفیسر تھے۔ مجھ سے عمر میں بے شک بڑے تھے لیکن باوقار اور پر کشش شخصیت کے مالک تھے۔ میں اپنی قسمت پر نازاں تھی اور میرے والدین پھولے نہیں سما رہے تھے۔ خیر، جو خدا کو جو منظور تھا، ہو گیا۔ میں بیاہ کر سرال آگئی ۔ جلد ہی عقدہ کھلا کہ سسر صاحب کے علاوہ باقی سارا خاندان مجھ کو ناپسند کرتا تھا۔ دانیال کے گھر کے کسی فرد نے بھی مجھ کو دل سے بہو تسلیم نہیں کیا۔ بس ایک سسر صاحب تھے ، جو اچھے لب و لہجے میں بات کر لیتے تھے۔ خیر، گھریلو ریشہ دوانیوں کا میں نے صبر کے ساتھ مقابلہ کیا۔ دانیال نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ میری والدہ اور بہن بھائی تمہارے ساتھ جو سلوک کریں برداشت کر لینا کیونکہ میں نے ماں کی بھانجی سے منگنی توڑ کران کا دل دکھایا ہے۔ اب تمہارا حسن سلوک اور صبر ہی ان کو رام کر سکتا ہے۔ میں نے ان کا یہ حکم اپنے پلو سے باندھ کر صبر و شکر کو اپنا وطیرہ بنالیا۔ ساس سسر کی خدمت میں کوئی کثر نہ رکھی ، نندوں کا بھی حکم مانتی حالانکہ ایک عمر میں میرے برابر اور دو مجھ سے چھوٹی تھیں دیور کا خیال رکھتی۔ مگر یہ ریاضت بھی کام نہ آئی یہاں تک کہ تین بچوں کی ماں بن گئی۔
میں بھی انسان تھی۔ میرا دل ان کی نفرت اور بدسلوکی پر کڑھتا تھا، مگر اب تین بچے سامنے تھے۔ ان کی خاطر قربانی دے رہی تھی۔ ساس کھلم کھلا مجھے برا بھلا کہتیں، گالیوں سے بھی گریز نہ کرتیں۔ ہر بات پر اعتراض اور ہر کام میں کیڑے نکالتیں۔ جب میرے صبر کی انتہا ہو گئی تو میں نے بھی ان کے سامنے بولنا شروع کر دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھا دیا ، جس میں ان کی بیٹیوں نے بھر پور ساتھ دیا۔ ان دنوں میرے شوہر ٹریننگ کے لئے امریکا گئے ہوئے تھے۔ ادھر ساس نے مجھے مار کر گھر سے نکال دیا۔ اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد دانیال لوٹے تو ان کو واقعے کا علم ہوا۔ وہ فوراً میرے میرے میکے آئے، مجھ سے اور میرے والدین سے معافی مانگی اور منا کر گھر لے آئے۔ اب اکثر یہ ہونے لگا۔ ساس جھگڑا کرتیں اور گھر سے نکال دیتیں۔ میں میکے چلی جاتی اور دانیال منا کر واپس گھر لے آتے۔ ان حالات میں میرا حسن گہنا گیا ، دل افسردہ ہر وقت روتا رہتا۔ اب میں دانیال سے مطالبہ کرنے لگی کہ مجھے علیحدہ گھر میں رکھو، ورنہ میں نہ رہو گی ۔ وہ تسلی دیتے کہ تھوڑے دن اور صبر کر لو۔ بہن کی شادی ہونے دو، پھر ہم علیحدہ گھر لے لیں گے۔ دراصل سسر صاحب نہیں چاہتے تھے کہ دانیال ان سے علیحدہ رہے۔ وہ گھر کے معاملات کو احسن طریقے سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہر بار مجھ کو سمجھاتے، شفقت سے درخواست کرتے کہ دانیال میرا بڑا بیٹا ہے۔ اس کو ہم سے جدامت کرو۔ میں گھر والوں کو سمجھالوں گا۔ ان کے احترام کی وجہ سے میں ان کی بات کی لاج رکھ لیتی تھی کہ دانیال تو میرے ساتھ اچھے ہیں۔ مجھ سے پیار کرتے ہیں حالانکہ میں ہی پریشان نہ تھی، میرے بچے بھی سہمے سہمے رہتے تھے۔ ایک دن میرے کالج کی سہیلی اپنے بھائی کے ساتھ مجھ سے ملنے آئی۔ اس بیچاری کو ہمارے گھر یلو ماحول کا کیا پتا تھا۔ اس نے کہا کہ میرا بھائی باہر کھڑا ہے، اسے اندر بٹھا لو۔ میں نے اس کے بھائی کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور شرمین کو اپنے ساتھ کمرے میں لے آئی ۔ ہم باتیں کرتی رہیں کہ کھانے کا وقت ہو گیا۔ شرمین کالج میں میری بیسٹ فرینڈ تھی ہماری دانت کاٹے کی دوستی تھی۔ اخلاقاً سے کھانے کا کہا تو بولی۔ ارے بھئی لے آؤ کھانا ، ہم کھا کر جائیں گے۔ تبھی جو گھر میں پکا تھا، اسے اپنے کمرے میں کھلایا اور اس کے بھائی کے لئے ڈرائنگ روم میں بھجوا دیا۔ بس اتنی سی بات تھی جس کا بہت بڑا بتنگڑ بن گیا۔ جب یہ بھائی بہن چلے گئے تو ساس نے شور مچادیا کہ بہو بیگم نے حد کر دی ۔ کالج میں کسی سے مراسم تھے، وہ شخص اس کی سہیلی کے ساتھ آیا، گھنٹوں بیٹھا۔ یہ بے حیائی میں اپنے گھر برداشت نہیں کر سکتی میری جوان بیٹیاں ہیں۔ غرض رورو کر انہوں نے سسر صاحب کو بھڑکایا۔ وہ جانے کس موڈ میں تھے تھکے ہوئے گھر آئے تھے، انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور مجھے تھپڑ رسید کر دیا۔ میں یہ صدمہ نہ سہ سکی۔ وہ تو میرے ساتھ شفیق و مہربان سلوک رکھتے تھے ، وہ بھی عورتوں کی باتوں میں آگئے؟ میرا ان پر مان تھا، وہ بھی ٹوٹ گیا۔ ساس بدستور شور مچاتی رہیں کہ دال میں کچھ تو کالا ہے۔ اتنا بڑا الزام اتنی آسانی سے مجھ پر تھوپ دیا گیا میرا کلیجہ شق ہو گیا۔ پھوٹ پھوٹ کر روئی مگر وہاں کس کو پروا تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ کسی طرح دانیال مجھے طلاق دے دیں تو وہ اپنے میکے والوں کو منا کر بھانجی کو بہو بنا کر لے آئیں جس قدر بھی جھگڑا ہوتا میں، دانیال کو اطلاع کئے بغیر گھر یسے نہ جاتی تھی۔ روٹھنا بھی ہوتا، تو ان کو خبر کر کے میکے جاتی تھی لیکن اس بار مجھ سے اپنی اہانت سہی نہ گئی۔ دانیال اسلام آباد گئے ہوئے تھے۔ ان کو فون کیا۔ وہ شاید میٹنگ میں تھے، انہوں نے فون نہ اٹھایا۔ میں نے چادر اوڑھی اور رکشہ کر کے میکے چلی آئی۔ اس دن سخت دل جلا ہوا تھا۔ جوں جوں سوچتی ، ذہن اور سلگتا تھا۔ اس بار والدین نے میری ذہنی کیفیت سے اندازہ کر لیا کہ اب معاملہ سمجھا بجھا کر واپس بھجوانے سے نہ سنورے گا لیکن اس بار عجب بات یہ ہوئی کہ تین چار ماہ گزر گئے اور دانیال مجھ کو لینے آئے اور نہ فون ہی کیا۔ انہوں نے بھی اپنے گھر والوں کی بات کا یقین کر لیا کیونکہ اب تو مخالف پارٹی میں ان کے ابا جان بھی شامل ہو گئے تھے۔ خدا جانے انہوں نے ان سے کیا کہا کہ انہوں نے مجھ سے حقیقت جاننے کی کوشش نہ کی اور میں پوری طرح ٹوٹ کر رہ گئی۔
وقت اس طرح کسمپرسی میں گزرنے لگا۔ ان دنوں شدت سے دل چاہتا تھا کوئی ایسا مل جائے کہ اپنے دل کا سارا غم اس کے دل میں انڈیل دوں۔ انہی دنوں مجھ کو عظیم ملا۔ وہ سچ مچ ہی عظیم لگا۔ اپنے کردار سے، حوصلے سے گفتار سے ، غرض اس کی ہر ادا میں مردانہ شان تھی۔ بتاتی چلوں کہ وہ مجھے کیسے اور کہاں ملا۔ یہ میری بدنصیبی کا ایسا دن تھا جس نے میری زندگی میں اور اندھیرا بھر دیا۔ اس روز بھابھی کی بھائی سے کسی بات پر چپقلش ہوگئی تو بلاوجہ مجھ سے الجھ پڑیں اور مجھے منحوس، برباد، نا شکری، در بدر کہہ دیا۔ جس پر میں چادر اوڑھ کر خود کشی کرنے گھر سے نکل کھڑی ہوئی۔ سوچا کہ جب اپنے ایسے لفظ منہ سے نکالنے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتے میں ان کے گھر مزید رہوں۔ ریلوے اسٹیشن ہمارے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ میں سیدھ میں چلتی ریلوے لائن پر پہنچ گئی۔ مجھے نہیں خبر تھی کہ ٹرین آنے والی ہے، سر پکڑے پٹڑی پر بیٹھی تھی کہ ایک شخص بھاگا ہوا آیا اور اس نے پوری قوت لگا کر مجھے ٹرین کی زد سے بچالیا۔ اگر یہ فرشته صفت بروقت مجھے نہ بچالیتا تو میرے ٹکڑے اڑ چکے ہوتے۔ اس وقت تو میں نہ سمجھ پائی کہ کیا ہوا ہے لیکن جب اسپتال میں آنکھ کھلی تو بچانے والے شخص نے اپنا نام بتادیا کہ اگر میں تمہیں نہ دیکھ رہا ہوتا تو آج تم زندہ نہ ہوتیں۔ غرض اس ملاقات کے بعد وہ ہمارے گھر آیا کیونکہ اس نے میرے والد کو فون کر کے بلایا اور ساری کارروائی نمٹائی تھی، ورنہ مجھ پر خود کشی کا کیس بن سکتا تھا۔ اس وقت میں صدمے سے بے ہوش ہوگئی تھی۔ اسپتال میں، میں نے اپنا زخمی دل عظیم کے سامنے کھول دیا۔ اس درد کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے محسوس بھی کیا۔ مجھے اپنے دل میں جگہ دی اور اب میں خود کو پھرایک مہکتا گلاب محسوس کرنے لگی۔
اس کے بعد میں گھر والوں سے چھپ چھپ کر اس سے ملنے لگی۔ اب دانیال اور اپنے گھر کا خیال کم کم ہی ستاتا تھا۔ میں نے عظیم سے وعدہ کر لیا کہ اگر میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تو میں اس کے لئے زندگی کی بہترین ساتھی بنوں گی۔ اس نے بھی وعدہ کیا کہ اگر بچے تمہارے پاس رہیں گے تو وہ میرے بچوں کو باپ جیسی محبت دے گا۔ اب میں سسرال واپس نہ جانا چاہتی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ ایک بار دانیال ضرور مجھے منانے آئیں گے کیونکہ جب بچے بیمار ہو گئے اور ساس ان کو نہ سنبھال سکیں تو انہوں نے از خود بچوں کو میرے پاس بھجوادیا تھا۔ حسب امید دانیال چھ ماہ بعد ایک روز اچانک آگئے اور خوشامد سے بولے۔ جو غلط فہمی گھر والوں نے میرے دل میں ڈالی ، وقت کے ساتھ وہ دور ہوگئی ہے۔ میرا دل صاف ہو گیا ہے، اب تم گھر چلو۔ میں دانیال کی بات ماننا نہیں چاہتی تھی مگر بچے باپ سے لپٹ گئے اور رو رو کر مجھے منانے لگے۔ امی ، بابا کی بات مان لو گھر چلو ہم کو یہاں نہیں رہنا، بابا جان کے ساتھ رہنا ہے۔ بچوں کے آنسوؤں نے میری قوت ارادی چھین لی۔ اور میں مجبور ہو کر شوہر کے ساتھ گھر آگئی۔ عظیم کو اطلاع بھی نہ کر سکی کہ میں واپس گھر جا رہی ہوں ۔ اسے جانے کتنا صدمہ ہوا ہوگا ۔ وہ بھی شادی شدہ تھا، اس کے بھی بچے تھے، پھر بھی اس نے عمر بھر ساتھ نباہنے کی حامی بھری تھی۔ وہ ریلوے آفیسر تھا، پڑھا لکھا تھا اور یہ فیصلہ اس نے یقینا سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ گھر آ کر چار دن سکھ کے نہ گزرے پھر وہی سلوک جو پہلے دن سے تھا، وہی سب کا رویہ۔ ساس بے نقط سناتیں، تب میں نے بھی دو چار کرارے جواب دے دیئے۔ ان کو تو سکتہ ہو گیا کہ بہو پہلے چپ رہتی تھی، آنسو بہاتی تھی ، اب اس کو کیسے زبان مل گئی ؟ ان کو کیا خبر کہ محبوب کے وعدوں نے مجھے اس قدر باحوصلہ بنا دیا تھا۔ انہوں نے بیٹے سے کہا۔ بہو آج میرے سامنے بولنے لگی ہے، کل کو جوتیاں اٹھا کر سر پر مارے گی۔ تین لفظ طلاق کے کہو اور چلتا کرو، مگر میں نے بھی اس بار جی کڑا کر کے دل کی بھڑاس نکال دی، کہا۔ بڑی بی اب تم ہوش میں رہنا۔ تم کیا طلاق کی دھمکی دیتی ہو، میں خود ہی طلاق لینے آئی تھی۔ اپنے پوتے پوتی رکھنے ہیں تو رکھ لو۔ پالتی رہنا، ان کو۔ یہ بات تو مرے پر سو درے ثابت ہوئی ۔ وہ بے چاری وہیں بے ہوش ہو کر گر پڑیں اور مجھ کو ایک طلاق مل گئی۔ باقی دو طلاقیں دانیال نے مقررہ وقفے سے دینا تھیں۔
مجھے اگر طلاق کا ملال تھا تو صرف اپنے بچوں کی خاطر ، ورنہ تو میں خود بھی اس زندگی، اس کنبے سے تنگ آچکی تھی۔ ادھر عظیم میرا منتظر تھا۔ میرے ادھورے خواب پورے ہونے والے تھے، افسوس کہ گھر والوں کو پتا چل گیا کہ میں اس سے چھپ چھپ کر ملتی ہوں۔ انہوں نے یہ جانا کہ میں نے عظیم کی خاطر سسرال سے جھگڑا کیا۔ تبھی گھر والوں نے مجھے خوب برا بھلا کہا۔ میرے والد عظیم کے آفس چلے گئے۔ اسے لعنت ملامت کی اور میری اس سے ملاقات پر کڑی پابندی لگا دی گئی۔ میں نے تو سمجھا تھا کہ اس شخص نے میری زندگی بچائی اور مجھے محبت دی، تو ٹھوس سہارا بھی ملے گا لیکن اگر دل کی بات پوری ہو جائے تو رونا کس بات کا ؟ قسمت میں بربادی لکھی تھی سو اس نے بیچ منجدھار میں ساتھ چھوڑ دیا۔ میرے والد کا بھرم رکھ لیا۔ اپنا تبادلہ اور شہر کروالیا اور مجھے ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیا۔ شوہر نے ایک بار طلاق دی تھی لہذا صلح کی گنجائش باقی تھی۔ انہوں نے والد صاحب کے ساتھ قانونی کاروائی کی اور مجھے گھر لے گئے۔ اس بار انہوں نے مجھے علیحدہ گھر میں رکھا، بچے اس نئے گھر میں میرا انتظار کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر دوڑتے آئے اور مجھ سے لپٹ گئے۔ میں نے بھی اپنے جگر گوشوں کو کلیجے سے لگا لیا۔ دانیال کی اتری صورت بتارہی تھی کہ وہ بھی ٹھوکر لگنے سے میری جانب واپس آئے ہیں اور میں بھی ٹھوکر کھاکرہی لوئی تھی۔ اب سوچتی ہوں کاش کچھ دن اور انتظار کر لیتی کیونکہ دانیال میرے لئے الگ بنگلہ بنوا ر ہے تھے۔ کچھ عرصہ بعد سسر صاحب ساس کے ہمراہ آئے۔ مجھ سے معافی مانگی۔ وہ بزرگ تھے، میں نے ان کی لاج رکھ لی اور ان کے سامنے احترام سے جھک گئی، لیکن ساس نجانے کس مٹی کی بنی تھیں۔ شاید اپنے پوتے پوتیوں کی خاطر انہوں نے مجھے قبول کر لیا۔ میں نے بھی تو ہتھیار اپنے بچوں کی وجہ سے ڈالے تھے۔ یوں ہم سب اولاد کی خاطر ایک کشتی کے سوار ہو گئے۔