Sunday, October 6, 2024

Aik Sadah Si Larki

اف میرے خدا ! میں بتا نہیں سکتی کہ سیما آپی کے دولہا نعمان اعجاز سے کتنا مل رہے تھے۔ ماہا امی کے ہمراہ ابھی ایک عدد شادی نمٹا کر لوٹی تھی اور اب گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے دولہا صاحب کی شان میں قصیدے پڑھ رہی تھی۔ واقعی ! بالکل نعمان اعجاز جیسے تھے ؟ ایمان نے بھی رشک آمیز حیرت سے کوئی چوتھی بار پوچھا۔ ہاں بالکل ۔ ماہا نے بھی بغیر برا مانے چوتھی بار اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے فرمایا ۔ کوئی فرق نہیں تھا ؟؟ سویرا کو یقین نہیں آرہا تھا؟ نعمان اعجاز کی وہ زبردست مداح تھی۔ تھوڑا سا فرق تھا۔ بالکل رتی برابر ۔ ماہا پر سوچ انداز میں گویا ہوئی۔ وہ کیا ؟ دونوں بیک وقت بولیں۔ بس قد ذرا چھوٹا تھا۔ ماہا نے مدبرانہ لہجے میں کہا۔ کتنا چھوٹا انچ دو انچ سویرا  نے اندازہ لگایا۔ نہیں۔ میرا خیال ہے ایک آدھ فٹ تو ہو گا۔ وہ بولی تو ایمان نے کشن اٹھا لیا۔ اور بس آگے سے بال اڑے ہوئے تھے۔ کشن کو نظر انداز کیے وہ اپنی ہی دھن میں تھی۔ اس بار دوسرا کشن سویرا نے اٹھایا تھا۔ پانچ فٹ کے آدھے گنجے نعمان اعجاز کا تصور کر کے سارا امیج ہی چکنا چور ہوا تھا۔ یہ تم دونوں مجھے کیوں گھور رہی ہو ؟ سچ کہہ رہی ہوں نعمان اعجاز اور اس میں بالکل کوئی فرق سویرا اور ایمان نے اس بار اس کا فقرہ پورا ہونے سے پہلے ہی اسے جا پٹخا تھا- وہ ایسی ہی تھی۔ فطرتا بہت سادہ مزاج بقول سویرا احمقانہ حد تک سادہ مزاج ۔
☆☆☆

لوگوں کی شکلیں ملانے میں اسے خاص کمال حاصل تھا۔ پچھلے دنوں تایا جی کی صبوحی کی منگنی کا فنکشن تھا۔ صبوحی سے ان تینوں بہنوں کی خاص دوستی تھی – بڑے اہتمام سے تیاری کر کے تینوں منگنی کی تقریب میں شرکت کے لیے ایک روز بیشتر ہی تایا جی کے ہاں چلی گئیں تھیں ۔ وہاں پہلے ہی سے خاندان بھر کی لڑکیاں جمع تھیں۔ خوب ہلا گلا ہو رہا تھا۔ ان تینوں کے آ جانے سے گو محفل مکمل ہو گئی تھی۔ رات گئے تک سب صبوحی کو ہمایوں کے نام سے چھیڑتے رہے اور وہ بے چاری بھی لال گلابی ہوتی رہی۔ اگلی شام کو منگنی کا فنکشن تھا۔ ماہا بی بی ٹہریں بلا کی سادگی پسند ۔ اس وقت بھی وہ سب سے پہلے تیار ہو کر باہر مٹر گشت کر رہی تھی ۔ لڑکے والوں کی آمد پر سب سے پہلے اس نے ہمایوں کو دیکھا اور حسب عادت فورا بھاگتی ہوئی اوپر دوسری منزل پر واقع صبوحی کے کمرے میں گئی تھی۔ میں نے تو ہمایوں بھائی کو دیکھ بھی لیا۔ پھولی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے اس نے بریکنگ نیوز جاری کی۔ ہیں! واقعی! کیسے ہیں؟ خلقت سب کام چھوڑ کر اسی کے گرد جمع ہو گئی۔ وہ کیسے ہیں۔ اس نے آنکھیں موند کر ذہن پر زور دیا۔ سویرا اور ایمان ذرا چوکنی ہو گئیں۔ نجانے کیا پھوٹ دے گی۔ اس کی عادت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے روکنا چاہا تھا۔ لیکن وہ محترمہ تو آنکھیں بند کیے کہیں اور ہی پہنچی ہوئی تھیں۔ ہاں یاد آ گیا۔ کتنی حیرت انگیز مشابہت ہے۔ دفعتا کسی نتیجہ پر پہنچ کر اس نے آنکھیں کھولیں۔ بالکل جنید جمشید لگ رہے تھے۔ اس نے بے حد مسرور ہو کر جملہ حاضرین کو اطلاع فراہم کی۔ اور اس اطلاع پر صبوحی کا سانس رک سا گیا کہ کہیں لڑکا تبدیل تو نہیں کر دیا گیا۔ کسی انجانے خوف کے پیش نظر اس کا دل دھڑکا۔ اس نے اپنے منگیتر کو بغور دیکھ رکھا تھا۔ لیکن یہ ماہا کیا کہہ رہی ہے۔ کتنے اخباروں میں عین وقت پر دولہا تبدیل کر دیے جانے کی خبریں چپھتی ہیں، لیکن منگنی کے موقع پر ایسا کوئی واقعہ اب تک تو نظر سے نہیں گزرا تھا۔ واقعی جنید جمشید سے ملتے ہیں ؟ کتنی لڑکیاں غش کھانے کو تھیں۔ ہاں تقریبا۔ بس ذرا وہ اپنا فائنل تجزیہ پیش کرنے سے پہلے ذرا کی ذرا رکی۔ کیا بس ذرا جلدی بکو ۔ کسی سے بھی یہ سسپینس برداشت نہیں ہوا۔ بس ذرا جنید جمشید کی ناک چپٹی کر دو اور رنگ کالا ۔ اور صبوحی کی سانس بحال ہوئی، دولہا واقعی تبدیل نہیں ہوا تھا۔ جب کہ باقی سب چپٹی ناک اور کالے رنگ والے جنید جمشید کا تصور کر کے ذرا بدکے تھے۔ اور صبوحی تمہاری نند پتا ہے ۔ کیسی ہے۔ اب وہ صبوحی کی طرف متوجہ ہوئی۔ ماما ! تمہیں شاید بلا رہی ہیں۔ سویرا نے اسے مزید کسی گل افشانی سے روکنے کے لیے بر وقت مداخلت کی۔
☆☆☆

سویرا کو دیکھنے کچھ لوگ آ رہے تھے۔ امی سمیت سب ہی کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے۔ سویرا ان کی تینوں بیٹیوں میں سب سے بڑی تھی۔ نہایت سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک سویرا پورے خاندان میں ہی ہر دلعزیز تھی۔ شکل و صورت میں تو تینوں بہنیں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں لیکن سگھڑا پے اور سلیقہ میں سویرا یقینا بازی لے گئی تھی۔ اس کا یہ رشتہ بھی چچی کے جاننے والوں میں سے آیا تھا۔ لڑکے کی والدہ اور بہنیں آئی تھیں۔ حسب توقع انہوں نے سویرا کو فورا ہی پسندیدگی کی سند بخش دی۔ اور اب بڑے چاؤ اور اصرار سے ان لوگوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے کر گئی تھیں۔ پہلا مرحلہ تو بخیر و خوبی طے ہو گیا تھا۔ اب اگلے مرحلے میں امی اور چچی نے لڑکے والوں کے ہاں جانا تھا۔ مایا سب سے چھوٹی ہونے کے ناتے ساتھ جانے کو تیار تھی۔ لیکن ایمان ہرگز نہیں چاہ رہی تھی کہ ماہا کو ساتھ لے کر جایا جائے۔ امی! یہ کسی بھی وقت کچھ بھی الٹا سیدھا بول سکتی ہے اسے مت لے کر جائیں۔ اس نے کوئی پانچویں بار امی سے کہا۔ ارے واہ میں نہیں جاؤں گی۔ تو سویرا کو کیسے پتا چلے گا کہ موصوف کیسے ہیں وہ اترائی۔ وہ خدا کے لیے ماہا تم نے وہاں سے آکر کوئی بکواس کی تو میں تمہارا گلا دبا دوں گی۔ ایمان نے کی دھمکی واقعی کار گیر رہی۔ جب ہی ماہا وہاں سے آکر کچھ چپ چپ سی تھی۔ کیا ہوا  عظام بھائی پسند نہیں آئے ؟ ایمان کو اپنی دھمکی تو بھول گئی۔ اب وہ اس کی خاموشی سے صحیح معنوں میں فکرمند ہو گئی۔ وہ تو فوری طور پر رائے دینے والی تھی تو پھر یہ خاموشی چہ معنی؟ نہیں عظام بھائی تو اچھے ہیں۔ وہ ابھی بھی سوچ میں ہی تھی۔ کس سے شکل ملتی ہے ان کی ایمان اسے بولنے پر اکسا رہی تھی۔ نہیں۔ میں نے غور ہی نہیں کیا۔ ہائیں ! یہ معجزہ کیسے ہو گیا۔ اس بار سویرا بھی خاموش نہ رہ سکی۔ وہ میں ان کے ابو پر غور کر رہی تھی۔” ابو پر کیا غور کر رہی تھیں ؟ ایمان نے دل پر ہاتھ رکھا۔ بالکل سچ کہہ رہی ہوں سویرا ! عظام بھائی کے ابو بالکل سلطان راہی سے ملتے ہیں۔ اس نے اپنی پریشانی کی وجہ سے بالآخر ان دونوں کو بھی آگاہ کر ہی دیا۔ کیوں ، کیا گنڈاسا اٹھا رکھا تھا انہوں نے یا پھر لاچا کرتہ پہن رکھا تھا۔ ایمان بری طرح تپ کر بولی۔ نہیں پہن تو سفاری سوٹ رکھا تھا۔ ویسے کلین شیو بھی تھے۔ اسمارٹ تو عظام بھائی سے بھی زیادہ تھے لیکن قسیم سے وہ پھر بھی سلطان راہی سے ہی مل رہے تھے۔ اس کی پریشانی کسی طور بھی کم نہیں ہو رہی ہیں۔ تاہم کلین شیوڈ، سفاری سوٹ میں ملبوس اسمارٹ سے سلطان راہی کا کا تصور کر کے سویرا کے سینے میں اٹکی ہوئی سانس بحال ہو گئی۔ لڑکا پسند آ گیا تھا۔ گھر بھی اچھا تھا سب سے بڑھ کر شریف لوگ تھے۔ سو جلد ہی بات فائنل کردی گئی۔ ایمان کو چھوٹے ماموں نے پہلے ہی مانگ رکھا رکھا تھا۔ (اسفند کو سب نے اچھی طرح دیکھ رکھا تھا۔ لہذا یہاں ماہا بی بی کو دماغ پر زور ڈالنے کی قطعا ضرورت نہیں پڑی) عید کے بعد دونوں بہنوں کی اکٹھے ہی شادی کر دی جائے سوطے یہ پایا کہ عید کے ساتھ ہی زور و شور سے تیاریاں شروع کر دی جائیں- عید آنے میں تین ماہ ہی تو تھے۔ گزرتے پتہ بھی نہ چلا۔ سویرا اور ایمان کی رخصتی کے ساتھ ہی گھر کے در و دیوار میں سناٹا سا اتر آیا۔
☆☆☆

ابو تو آفس کے لیے صبح نکلتے تو شام کی خبر لاتے۔ ایسے میں امی اور ماہا ہی رہ جاتی تھیں۔ شروع شروع میں تو ماہا بری طرح بوکھلائی یہاں سے وہاں پھرتی رہتی لیکن پھر غیر محسوس سے انداز میں اس نے سویرا اور ایمان دونوں کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ اور اتنے اچھے طریقے سے سنبھالیں کہ سب حیران رہ گئے – پتا ہے امی اپنی کارکردگی سے کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہیں۔ ایمان اور سویرا اس روز آئی ہوئی تھیں۔ اس کو پھرتی سے کام نمٹاتے دیکھ کر اسے چھیڑ رہی تھیں – کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہوں۔ ماہا نے ابروچڑھائے یہی کہ بنو اب بیاہ کے قابل ہو گئی ہیں۔ ایمان نے بھی ٹکڑا جوڑا۔ جی نہیں، میں اتنی جلدی شادی نہیں کروں گی۔ اس نے جھٹ تردید کی۔ کیوں ؟ ایمان نے حیرت سے دریافت کیا۔ بس ایسے ہی۔ میں پہلے کچھ کر کے دکھانا چاہتی ہوں۔ اپنی قابلیت آزمانا چاہتی ہوں۔ مطلب یہ کہ میں جاب کرنا چاہتی ہوں۔ ہائیں ! یہ کیا سوجھی ۔ وہ دونوں حیران ہوئیں۔ جناب مابدولت آج کل بڑی سنجید گی سے جاب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اور پتا ہے ابو سے اجازت بھی لے لی ہے۔ وہ بچوں کی طرح انہیں چڑاتے ہوئے بولی۔ جانتی تھی کہ جاب کرنا کسی زمانے میں ایمان کا بھی خواب تھا۔ لیکن اسفند کی ناپسندیدگی کی وجہ سے اسے اس خواب سے دستبردار ہونا پڑا۔ ویسے بھی اسفند کی محبت کے آگے ایمان ایک تو کیا سینکڑوں خواہشات قربان کر سکتی تھی۔ لیکن اب ماہا جاب کرنے جارہی تھی۔ خوش قسمتی سے اس کے سامنے ایمان جیسی کوئی مجبوری بھی نہ تھی سو اس کے لیے تو راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ اخبارات کھنگال کر اس نے ڈھیر ساری جگہوں پر اپلائی کر دیا تھا۔ ایک دو جگہوں سے انٹرویو کال بھی آ گئی۔ جس روز وہ پہلا انٹرویو دینے جارہی تھی۔ سخت گھبراہٹ کا شکار تھی۔ پتہ نہیں کیا کیا سوالات پوچھے جائیں گے۔ سارے راستے وہ یہی سوچتی آئی تھی۔ اور آفس پہنچ کر تو سٹی ہی گم ہو گئی۔اتنی ڈھیر ساری لڑکیاں ہر طرح کے کیل کانٹوں سے لیں۔ ایسے میں میری دال کہاں گلے گی ۔ وہ ایک کونے میں بیٹھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ لڑکیوں کی تیاریوں سے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی کچھ ہی دیر میں یہاں کیٹ واک شروع ہو جائے گی۔ تنگ اور اونچی قمیص ٹراؤزر نما شلواریں، گلے میں رسی کی طرح جھولتے ہوئے اس نے سب کا جائزہ لینے کے بعد اپنے اوپر نظر ڈالی۔ لائٹ لیمن کلر کے سادہ سے سوٹ میں بالوں کی ڈھیلی ڈھائی چٹیا کیے وہ بہت عام لگ رہی تھی۔ چلو مجھے کیا اگر اچھی جگہ ہوئی قابلیت دیکھی گئی تو میں سلیکٹ ہو ہی جاؤں گی۔ اور اگر ان کی ڈیمانڈ کچھ اور ہوئی تو پھر تو ریجیکٹ ہونا ہی بہتر ہے۔ ان کی بری عادت تھی فورا  توجیہہ دے کر خود کو مطمئن کر لیتی تھی۔
☆☆☆

بہرحال انتظار کافی طویل تھا۔ لیکن ایسے موقعوں پر وہ اپنے ازلی مشغلہ میں مصروف ہو جاتی تھی اور اس وقت بھی یہی ہوا۔ وہ جو سامنے پرپل سوٹ والی لڑکی ہے ۔ شکل تو اس کی ماہ نوربلوچ میں مل رہی ہے لیکن ہے بہت موٹی کمپلیکشن بھی ڈارک ہے۔ اور وہ کارنر والی جو بڑے اسٹائل سے ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھی ہے۔ کچھ دیکھی دیکھی لگ رہی ہے۔ ارے ہاں یاد آیا ۔ واہ بھئی زبردست – اگر ہمایوں سعید اسی کے اسٹائل میں لیزر کٹنگ کروا لے تو کوئی فرق نہیں رہے گا- لیزر کٹنگ میں ہمایوں سعید کو سوچ کر اسے ہنسی آ گئی۔ اس مشغلہ میں وہ اتنا کھو گئی کہ پھر تو وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا۔ اپنی باری آنے پر وہ فائل سنبھال کر بڑے سلیقہ سے دوپٹہ اوڑھے کمرے میں داخل ہوئی۔اے سی کی وجہ سے ماحول خاصا خنک تھا ائیر فریشنز کی مہک نے کمرے کو معطر کر رکھا تھا گہرا سانس لیتے ہوئے وہ کرسی پر آن بیٹھی۔ عین سامنے ٹیبل کے گرد تین افراد بیٹھے تھے۔ تینوں ہی دیکھے دیکھے سے لگ رہے تھے۔ سائیڈ والے حضرت تو وہ سوچنے ہی لگی تھی کہ بروقت انٹرویو کا خیال آ گیا۔ فورا ساری سوچیں ذہن سے جھٹک دیں۔ ہاں تو بی بی ! کیا نام ہے آپ کا؟ سیدھے ہاتھ والے حضرت نے ابتدا کی – جی ماہا عبد الرحمن اس نے متانت سے جواب دیا۔ کیا کوالی فیکیشن ہے ؟ بی سی ایس۔ یہ جواب بھی مختصر دیا۔ انہوں نے پر سوچ انداز میں ہنکارا بھرا۔ ابتک باقی دونوں افراد خاموش بیٹھے تھے۔ کوئی قابل ذکر تجربہ ؟؟ اس مرتبہ سوال کڑا تھا۔تجر بے تو بہت سے ہیں سر! ان فیکٹ انسان تجربوں سے ہی سیکھتا ہے۔ اس نے سنا تھا کہ انٹرویو کے شروع میں ہی دانائی والی باتیں کر کے دھاک بٹھائی جائے تو امپریشن اچھا پڑتا ہے سو اسی فارمولے پر عمل کیا۔ تو آپ نے کیا سیکھا، تجربوں سے۔  انداز میں دلچسپی کا عنصر پیدا ہو گیا تھا۔ بہت کچھ سر۔ مثلا یہ کہ انسان کو کبھی بھی اپنے راز سروں کو نہیں بتانے چاہیں اور یہ کہ انسان کی آنکھیں اس کی شخصیت اور کردار کا آئینہ ہوتی ہیں اور یہ واٹ …… پہ کس قسم کے تجربے ہیں،محترمہ ! میں نے جاب کے تجربے کے متعلق پوچھتا ہے۔ اس نے ٹوکا تو اسے بے پناہ خفت نے آن گھیرا۔ نو سر جاب تو کبھی نہیں کی۔ اس بار سرجھکا کر شرمندگی سے جواب دیا گیا – آپ جاب کیوں کرنا چاہتی ہیں ؟ اس بار عین سامنے بیٹھے شخص نے سوال داغا -دراصل سر اس نے سیدھا ہوتے ہوئے مخاطب کرنے والے شخص کو دیکھا۔ ا وہ مائی گڈنیس ایکس فائلز کا ہیرو مولڈر ۔ سوال جواب وہ سب کچھ بھول گئی۔ جی کچھ کہہ رہی تھیں آپ؟ اسی مولڈر نے اس کےانہماک کو توڑا۔ جی سر اور یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ سوال بھی پوچھا جائے گا وجہ تو اسے خود بھی معلوم نہیں تھی۔ جلدی سے ذہن پر زور ڈالا۔ میں ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ دماغ نے فورا کام کیا تھا اور ایک شاندار وجہ ڈھونڈ نکالی تھی۔ اوہ آئی سی ، لیکن محترمہ  وہ رکا۔ ما ہا عبد الرحمن –  اس نے اس کی سوالیہ نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے فورا اپنا نام بتایا۔ ہاں تو مس ماہا عبد الرحمن ! آپ کو کس نے کہا که همارا ادارہ ملک و قوم کی خدمت کرتا ہے۔ ہائیں ! اب اس بے تکے سوال کا کیا جواب دوں – وہ سر قائد اعظم نے کہا تھا کہ واٹ ! قائد اعظم نے کہی تھی۔ یہ بات اور وہ بھی آپ سے کہ یہ ادارہ ملک و قوم کی خدمت کرتا ہے ؟؟ مولڈر کی آنکھوں میں حیرانی تھی جب کہ لبوں کے گوشوں میں مسکراہٹ بمشکل دبائی تھی۔ وہ خفیف ہو گئی۔ جی نہیں ، قائد اعظم نے کہا تھا کہ کام کام اور صرف کام ۔ آج کل میں فارغ تھی، سو میں نے سوچا کہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے کوئی مثبت کام کروں ۔ اس بار اس نے نہایت سنجیدگی سے مفصل جواب دیا – اچھا اچھا ! پھر ٹھیک ہے۔ اس بار بڑے تائیدی انداز میں سر ہلایا گیا تھا۔ تو کیا صلاحیتیں ہیں آپ میں؟ اب سارے سوالات وہی کر رہا تھا۔ یہ تو آپ بتائیں گے۔ وہ انکساری سے مسکرائی۔ یعنی صلاحیتیں آپ کی اور بتاؤں گا میں۔ یہ کیا بات ہوئی۔ پتہ نہیں وہ واقعی اتنا سادہ تھا یا بن رہا تھا۔میرا مطلب ہے سر جب آپ مجے مجھے جاب دے دیں گے تو میرے کام کو دیکھ کر آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا میری صلاحیتوں کا۔ پتہ نہیں اتنی سیدھی سادی باتیں بھی ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہیں۔ اچھا چلیں یہ بات بھی طے ہو گئی لیکن آخری الجھن رہ گئی ؟جی سر وہ کیا ؟وہ یہ کہ آپ کی تعلیم بی سی ایس ہے جب کہ ہماری ڈیمانڈ ماسٹر ڈگری ہے، ساتھ تین سالہ تجربہ -جی ! وہ حیران ہوئی۔بالکل  پیپرویٹ گھماتے ہوئے اس کے لہجے میں اطمینان ہی اطمینان تھا۔ جب کہ ماہا کا دل چاہا کہ وہی پیپر ویٹ اس کے سر پہ دے مارے۔ اس بات کا ذکر آپ نے اپنے ایڈ میں کیوں نہیں کیا۔؟ ابرو چڑھاتے ہوئے اس نے پوچھا – آپ نے ایڈ پڑھا تھا ؟ الٹا اسی سے سوال ہوا۔بالکل زور و شور سے سر ہلا کر جواب دیا گیا تھا جس پر تیسرے والے شخص نے میز کی سائیڈ پر جھک کراخبار نکالا  لیجئے پڑھیے۔ اس نے اخبار اس کی طرف بڑھایا۔ یہ کیا ! اس نے تھوک نگلا ۔ یہ تو کچھ اور ہی تھا ٠میں نے آپ کے پاس تو اپلائی کیا ہی نہیں۔ وہ الجھ گئی۔ پھر آپ لوگوں نے مجھے انٹرویو کال کیوں دی کیا کال لیٹر ہے آپ کے پاس ؟ فی الفور سوال کیا جی بالکل۔ اس نے جھٹ بیگ سے لفافہ نکال کر اسے تھمایا ۔ کال لیٹر پڑھنے کے بعد مولڈر کے ہونٹوں پر بڑی واضح مسکراہٹ ابھری تھی۔ مس ماہا عبد الرحمن ! آپ کا مطلوبہ آفس فورتھ فلور پر ہے جب کہ اس وقت آپ تھرڈ فلور پر تشریف فرما ہیں۔ ساری حقیقت سمجھ میں آئی تو دماغ بھک سے اڑ گیا۔ ایک گھنٹے سے سر سر کی گردان کر رہی ہوں۔ ایویں فضول میں۔ اس نے جھٹ فائل اپنے قبضہ میں کی۔ اتنی دیر سے مذاق اڑا رہے تھے، پہلے نہیں بتا سکتے تھے۔ اس نے حسب توفیق تینوں افراد کو کڑی نگاہ سے دیکھا اور کرسی کھسکا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔ بہر حال اتنے شاندار تجربے کے بعد طبیعت مزید کسی اور انٹرویو کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی اور ویسے بھی اب تو ٹائم تقریبا ختم ہونے کو تھا۔ دوسری جگہ بھی تو نیہی یسی ڈراما ہو گا۔ اس نے اسی وقت جاب کرنے کے خیال کو ذہن سے نکال باہر کیا تھا۔
☆☆☆

سویرا کے بیٹا ہوا تھا۔ اس خبر کی تو وہ نجانے کتنے دنوں سے منتظر تھی۔ اس نے تو نام بھی سوچ رکھا تھا۔ ہاسپٹل سے سویرا کے گھر آجانے کے بعد وہ تو تقریبا” روز ہی اس چھوٹے سے گل کو دیکھنے جا پہنچتی تھی۔ اور آج تو اس کی رسم عقیقہ تھی سو بڑے اہتمام سے تیار ہو کر وہ وہاں گئی۔ سویرا کا سسرال کافی بڑا تھا اس کا حقیقی اندازہ اسے آج ہو رہا تھا۔ حالانکہ صرف قریبی رشتہ داروں کو مدعو کیا گیا تھا لیکن پھر بھی اچھی خاصی گید رنگ ہو گئی تھی۔بتاؤ تو ہمارے شہزادے کی شکل کس میں مل رہی ہے ؟ سویرا کی ساس جو ننھے عبدالمنان کو گود میں لیے بیٹھی تھیں ما ہا سے پوچھ بیٹھیں۔پتا ہے آنٹی میں بھی کئی روز سے سوچ رہی تھی آج آپ نے پوچھا تو فورا سمجھ میں آ گیا کہ کسی سے ملتی ہے اس کی مشکل۔ ماہا پر جوش ہوئی۔ سویرا جو اپنی ساس سے کسی کو ملوانے لائی تھی ایک دم ک گئی۔ نجانے کیا ارشاد کرے گی۔ میرا تو خیال ہے دونوں سے ہی ملتی ہے۔ ماہا نے کہا تو اس نے سکون کا سانس لیا۔ ہاں۔ میں بھی یہی کہتی ہوں، آنکھیں اور دہانہ سویرا پر ہے۔ ناک اور رنگ روپ عظام جیسا ہے۔ آنٹی نے اپنا تجزیہ پیش کیا۔نہیں آئی ! سویرا اور عظام بھائی سے کہاں ہے ملتا ہے یہ ۔ اس نے پیارے منان کی مٹھی کھول کر اس میں اپنی انگلی تھمائی۔  پھر کن دونوں کا کہہ رہی ہو ؟  آنٹی نے اس طرح مگن لہجے میں پوچھا۔ ایک طرح سے تو یہ مجھے اپنی سفید والی بلی سے ملتا لگتا ہے۔ لیکن جب یہ سوتے میں ہنستا ہے تو بالکل بطخ لگتا ہے۔ وہ بڑی میٹھی نظروں سے منان کو تک رہی تھی۔ جب کہ آنٹی حیران نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ اس کے چہرے پر نظر ڈال کر انہیں اندازہ ہوا کہ اس نے پورے دل سے یہ بات کہی ہے۔ دوسری طرف سویرا اپنی ساس کے تاثرات دیکھ کر بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روک پائی تھی۔ سے پہلے تو وہ سمجھیں کہ شاید وہ مذاق کر رہی ہے لیکن اس کوشش میں وہ جدید کو بھی بھول بیٹھی جو اپنی تائی جان کو سلام عرض کرنے اس کی معیت میں آیا تھا۔
☆☆☆

ماہا کا رشتہ آیا ہے۔ رات کے کھانے پر امی نے ابو کو بتایا اور ابو کے ساتھ ساتھ ماہا بی بی کے بھی کھانا کھاتے ہاتھ رک گئے۔ اچھا کون لوگ ہیں ؟ ابو نے پوری توجہ اس کی طرف کی۔ بابا کو اصولا مشرقی لڑکیوں کی طرح وہاں سے اٹھ جانا چاہیے تھا۔ لیکن جاننا چاہتی تھی کہ اچھی بھلی زندگی میں یہ ایک عدد رشتہ کہاں سے آن ٹپکا ہے۔ سو اطمینان سے بیٹھی کھانا کھاتی رہی۔ سویرا کے سسر کا بھتیجا ہے۔ اچھا پڑھا لکھا اور خوش شکل لڑکا ہے۔ منان کے عقیقہ میں دیکھا تھا۔ امی نے بتایا تو وہ ذہن پر زور ڈال کر یاد کرنے لگی ۔ عقیقہ میں کس کس کو دیکھا تھا۔ لیکن افسوس کچھ یاد نہ آیا۔ وہ تو ویسے بھی سارا وقت سویرا کی ساس سے چپکی رہی تھی ، وجہ ساس سے کسی قسم کی محبت نہیں تھی بلکہ عبد المنان تھا۔ جو اپنی دادی محترمہ کی گود میں محو خواب تھا۔ کاش سویرا مجھے بھی دکھا دیتی۔  اسے کچھ ملال ہوا ۔ خیر پھر بھی دیکھ لوں گی۔ آخر مجھے تو دکھائیں گے ۔ جتنی دیر وہ سوچ میں مشغول تھی اتنے میں امی ابو کولڑ کے کا سارا بائیو ڈیٹا بتا چکی تھیں۔ میں سوچ رہی ہوں۔ اتوار کو بلا لیتے ہیں ان کو۔امی نے رائے مانگی۔ہاں دیکھ لو جیسا مناسب سمجھو۔ اور پھر اتوار کو واقعی وہ لوگ آ گئے۔ لمبی چوڑی فیملی تھی۔ لڑکے کی بہنیں ، بھا بھیاں سب ہی آئے تھے۔ ملنسار سے لوگ تھے۔ ماہا کو خصوصا  جو چیز    اچھی لگی وہ ڈھیر سارے بچے تھے ہر سائز اور شکل کے کوئی خرگوش جیسا تو کوئی بھالو جیسا۔ اس کے منہ میں پانی بھر بھر آرہا تھا۔ ان لوگوں نے ماہا کو پہلی نظر میں ہی اوکے کر دیا۔پسند تو عقیقہ کی تقریب میں ہی کر لیا تھا آج تو رسمی طور پر آئے تھے – پھر امی ابو سویرا عظام بھائی ایمان اور اسفند بھائی بھی لڑکے والوں کی طرف ہو آئے سب تعریف کر رہے تھے۔ دونوں طرف سے تقریبا  معاملہ طے ہی تھا۔
☆☆☆

سویرا بتاؤ نا لڑکا کیسا ہے ؟ اس نے وہاں سے واپسی پر سویرا کی کوئی چوتھی بار منت کی تھی۔ کیا مطلب ہے لڑکا کیسا ہے۔ ذرا ادب آداب سیکھ لو۔ لڑکیاں یوں منہ پھاڑ کر اپنے ہونے والے مجازی خدا کے بارے میں رائے نہیں مانگتیں۔ اچھا نہ بتاؤ ایک میں ہی پاگل تھی جو ہر ایک بات صحیح صیح بتا دیا کرتی تھی ۔ اب میری باری آئی ہے تو بدلے نہ اتارو ۔ وہ خفا ہو کر اٹھنے لگی۔ نہیں بھئی ناراض مت کرو ہماری بہن کو۔ ایمان نے ہاتھ پکڑ کر اسے روکا۔ بات دراصل یہ ہے ماہا کہ لڑکوں کی شکل و صورت تو نہیں دیکھی جاتی نا۔ ایمان نے ڈرتے ڈرتے تائید چاہی۔ دیکھی جاتی ہے۔ کیوں نہیں دیکھی جاتی۔ وہ چمک کر بولی۔ نہیں ۔ وہ میرا مطلب ہے کہ اگر لڑکی کے مقابلے میں ذرا کم صورت بھی ہو تو گزارا ہو جاتا ہے۔ کیا مطلب ہے؟ وہ روہانسی ہوئی۔ دونوں نے اپنے لیے تو اپنے سے بھی زیادہ خوبصورت دولہا ڈھونڈ لیے اور میری باری میں سارا فلسفہ یاد آرہا ہے۔ وہ جھنجھلا رہی تھی۔ اب اتنے برے بھی نہیں۔ایمان نے فورا تسلی دی اچھا یہ بتا دو کہ شکل کس سے ملتی ہے۔ وہ کرکٹر ہے نا اس سے۔ اچھا کس سے ؟ اسے تسلی آمیز حیرت ہوئی۔شاہد آفریدی میں ؟ ساتھ ہی پوچھ بھی لیا۔اونہوں۔ دونوں نے نفی میں گردن ہلائی۔معین خان سے ؟نہیں۔ اس بار بھی جواب نفی میں تھا۔یوسف یوحنا – وہ ایک ایک کر کے کسوٹی کھیل  رہی تھی۔ وہ بات یہ ہے کہ کسی پاکستانی کھلاڑی سے نہیں ملتی۔ ایمان بتاتے ہوئے کچھ ہچکچا رہی تھی۔ اچھا پھر آسٹریلیا کے کسی کھلاڑی ہے؟نہیں۔نیوزی لینڈ انگلینڈ نہیں۔ تو پھر جلدی سے بک دو کس سے شکل ملتی ہے۔ ورنہ میں شادی سے انکار کر دوں گی۔ وہ تپ گئی۔ ہنری اولنگا سے ۔ سویرا اور ایمان دونوں یک زبان ہو کر بولیں جیسے واقعی اس کی دھمکی سے ڈرگئی ہوں۔ اور ہنری اولنگا کا نام سن کر اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو جاری ہو گئے۔ لیکن ماہا ! فکر نہ کرو۔ رنگ ہنری اولنگا کے مقابلے میں تھوڑا صاف ہے۔  ایمان نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا۔ صرف تھوڑا سا ؟ وہ اب ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ اچھا اب اتنی پریشان نہ ہو تصویر دیکھ لو اچھے بھلے ہیں۔  ایمان نے تصویر نکالنے کے لیے پرس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ نہیں دیکھنی میں نے کوئی تصویر۔ وہ جھنجھلا کر وہاں سے اٹھ گئی۔
☆☆☆

اس کی بار تو معاملہ سویرا اور ایمان کی نسبت بھی زیادہ تیزی سے طے ہوا۔ بات پکی ہوتے کے ساتھ ہی شادی کی تاریخ دے دی گئی۔ وہ لاکھ منتیں کرتی رہی کسی نے کوئی توجہ نہ دی۔ اور پھر وہ دن آ ہی گیا۔ شادی والے دن اس کے کان منتظر ہی رہے کہ اب کزنز اور دوستیں اس کی قسمت پر اظہار افسوس کریں گی۔ لیکن آج تو سب کی نظریں اس کے حسین سراپے پر ہی ٹک کر رہ گئی تھیں ایمان سے بھی بڑھ کر روپ آیا ہے یہ سب کی مشترکہ رائے تھی۔ قسم ہے حدید بھائی تو آج سب کچھ بھول جائیں گے۔ مہوش نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ وہ چپ چاپ بیٹھی رہی۔ مووی میکر مووی بناتا رہا۔ رسمیں ہوتی رہیں۔ پھر دولہا کو اس کے برابر میں لاکر بٹھا دیا گیا۔ شکر ہے آواز تو اچھی ہے لیکن سنی سنی لگ رہی ہے۔ وہ اپنے حنائی ہا تھوں پر نظریں جمائے سوچ رہی تھی۔ لڑکیوں نے اسٹیج پر ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ اس کو خوب ہی گھیر رکھا تھا لیکن وہ بھی اتنی آسانی سے لڑکیوں کے ہتھے چڑھنے والا نہیں تھا۔ شکر ہے خوش مزاج بھی ہیں۔ یہ دوسرا شکر تھا جو اس نے اسی وقت بیٹھے بیٹھے کیا تھا۔ نظریں اوپر اٹھائیں۔  مودی والا ہدایت دے رہا تھا۔ اس نے ذراسی نظریں اٹھائیں۔ ارے یہ مووی والے کی شکل کس میں مل رہی ہے ؟ اس کی سوچوں کو ایک اور راستہ مل گیا۔  کیا ہے۔ نظریں نیچی بھی کر لو۔  سویرا نے کان کے قریب آکرڈپٹا اور وہ چونک کر ایک بار پھر نظریں جھکا کر بیٹھ گئی۔ مودی والے کی شکل واقعی کسی میں مل رہی تھی۔لیکن کس سے کس سے – خیر دفع کرو مجھے کیا – آج اس کا شکلیں ملنے کا قطعا موڈ نہیں ہو رہا تھا۔ پھر رخصتی ہو گئی۔ بالکل ویسا ہی منظر تھا جیسا کہ ہوتا ہے۔ سرال میں استقبال بھی پر جوش تھا۔ نجانے کہاں کہاں کی رسمیں کی جارہی تھیں۔ یہاں آکر دولہا صاحب کچھ اور بھی کھل گئے تھے۔ اب وہ کچھ کچھ نروس ہو رہی تھی۔ یہ قہقہہ کتنا زور کا لگاتے ہیں۔ وہ ذرا سا کسمسائی میرا خیال ہے۔ دلہن تھک گئی۔  کسی نے فورا نوٹ کیا۔ جی نہیں۔ انہیں کمرے میں جانے کی جلدی ے کونے میں سے کوئی بولا تھا۔ وہ یکدم پسینے میں نہا گئی۔ پھر اس کی ساس کو ہی اس پر ترس آیا تھا جب ہی انہوں نے کمرے میں پہنچوا دیا۔
☆☆☆

کچھ دیر ریلیکس ہو جاؤ۔ جدید آنے ہی والا ہوگا۔  اس کی بڑی نند اور جٹھانی شوخ فقروں کا تبادلہ کرتے ہوئے اسے ریلیکس ہونے کا کہہ گئی تھیں۔ وہ ان کے آنے کا سن کر اور الرٹ ہو کر بیٹھ گئی۔ پندرہ میں منٹ بعد آہٹ ہوئی تھی۔۔ قدموں کی چاپ کے ساتھ ہی اس کا دل بھی دھڑ کا – السلام علیکم ! کسی نے بہت قریب آ کر بیٹھتے ہوئے سلام کیا۔ وہ ایکدم سمٹ گئی۔ کیسی ہو؟ وہ بڑے اپنائیت بھرے لہجے میں حال احوال دریافت کر رہا تھا۔ اس کی کلائی میں نازک سا بریسلٹ ڈال کر وہ اس کے حسن کی تعریف کر رہا تھا۔ لیکن یہ کس انداز میں؟ میرا خیال تھا کہ لیمن کلر تم پر سوٹ کرتا ہے۔ پھر پتا چلا کہ بیج کر تو بنا ہی تمہارے لیے ہے ، لیکن آج سوچ رہا ہوں کہ یہ ڈیپ ریڈ کلر پہننے کا حق تمہارے سوا کسی کو نہیں۔ ہائیں یہ ڈیپ ریڈ کلر کی تو خیر ہے، لیکن بیج کلر۔  اس نے حیرانی سے سوچا۔ وہ اس روز عقیقہ پر پہنا تھا یک دم خیال گزرا۔ ہاں یاد آیا۔ لیکن کیمن کلر ؟ اس نے حیرانی سے نظریں اٹھائیں۔آپ وہ ہنری  بروقت ہی زبان دانتوں تلے دبائی۔ میرا مطلب ہے آپ تو وہی ہیں انٹرویو والے وہ بلا ارادہ پوچھ بیٹھی۔بالکل وہی ہوں- وہ محفوظ ہوا۔  ہماری پہلی ملاقات یقیناً اسی روز ہوئی تھی۔  لیکن ہماری، تو ایک ہی ملاقات ہوئی ہے۔ وہ اپنا دلہنا بھول بھال گئی تھی۔ او نہیں خیر ملاقات تو دوسری بھی ہوئی ہے لیکن وہ یک طرفہ ملاقات تھی یعنی صرف میں نے تمہیں دیکھا تھا۔ تم تو اپنے پیارے سے بھانجے کو بلی کے بچے سے ملانے میں مصروف تھیں۔ اس نے ہنستے ہووے کہا تو وہ خجل سے ہو گئی – تم نے آج اپنا آپ آئینے میں دیکھا ہے۔ وہ ایک بار پھر رومانٹک ہوا۔ اس نے بے اختیار نفی میں گردن ہلا دی۔ اب وہ اسے کیا بتاتی کہ وہ سارا وقت کس ادھیڑپن میں رہی ہے۔ آؤ پھر دیکھو۔  وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے ڈریسنگ ٹیبل تک لے آیا۔ بھاری کامدار لہنگے کو سنبھالتی قدم اٹھاتی وہ اس کے ہمراہ آئینے کے سامنے جا کھڑی تھی۔ ایک نظر آئینے میں اپنے عکس پر ڈال کر اس نے کچھ جھینپ کر حدید کو دیکھا تھا، زبردست تو وہ بھی لگ رہا تھا۔ چھا لگ رہا ہوں تا ؟ اس نے جیسے اس کی آنکھیں پڑھ لی تھیں۔ وہ دھیرے سے مسکرائی۔ اچھا بتاؤ ۔ ہمارا کپل کیسا لگ رہا ہے ؟ اس کے کندھے پر بازو پھیلاتے ہوئے وہ شوخ ہوا۔ہمارا کپل !وہ سوچنے لگی۔ بالکل ابرار الحق جیسا۔ پچھلے دنوں میگزین میں ابرار الحق کی شادی کی تصاویر دیکھی تھیں، سو فورا یہی نتیجہ نکلا۔بالکل ابرار الحق جیسا ؟ اس کے ہونٹوں کے گوشوں میں مسکراہٹ تھی۔ ہاں تقریبا ویسا ہی بس ذرا  وہ نہ جانے کیا کہنے لگی تھی کہ حدید کے لبوں سے پھوٹنے والا قہقہہ سن کر ایک پل کو رکی تھی پھر اس کے ساتھ مطمئن سے ہنسی ہنس دی –
☆☆☆

Latest Posts

Related POSTS