Friday, October 11, 2024

Aik Thi Malka

جمیلہ آپا کیسی تھیں یہ امر سے زیادہ کون جان سکتا تھا شادی کے پہلے دن جھاڑو پکڑا کر انہوں نے امر کی عزت افزائی کا آغاز کر دیا تھا۔ نئی دلہن کے ہاتھ میں بھاڑو دیکھ کر جہاں محلے کی خواتین نے لبوں میں انگلیاں دبا لی تھیں وہیں امر کو خوش دیکھ کر حیران بھی تھیں۔ روٹی برتن جھاڑو سے لے کر گھر بھر کے کپڑے دھونے تک سے فراغت حاصل کر کے بیٹھنے والی جمیلہ آپا انتہائی زیرک، چھوٹے سے قد کی عورت تھیں تو وہیں امر لمبے قد سے لمبے لوگوں کے بے وقوف ہونے کا مقولہ سچ ثابت کرتی نظر آتی تھی دیور کی تنخواہ بھی وہ امر سے چھپ کر گنتیں، اسے ہوا تک نہ لگنے دیتیں، بے چاری امر اس میں بھی خوش تھی۔ تھوڑا سا کباب کا سالن اور گن کے دی گئیں دو روٹیاں اسے وہ اپنے ہاتھ سے جمیلہ آپا دیتیں۔ رہی ساس تو ساس اور بڑی بہو کی مثالی دوستی ایسی کہ نہ سنی نہ دیکھی، دونوں ٹاہلی کے درخت تلے ٹھٹھا مار کے ہنستیں تو امر بھی ہنسی میں خود بہ خود شریک ہو جاتی۔ دیور دفتر سے آ کر لکڑیاں کاٹتا اور امر پھلکے بنانے میں تیز- کیا غضب جوڑ تھا جو جمیلہ آپا کی منظوری کے بعد وجود میں آیا گھر بھر میں جھاڑو پونچھا کرنا اور شام میں بچے پڑھانا بھی امر کے ذمے تھا، گھر کے بچے تھے اور اپنی چاچی تھی کیا فرق پڑتا تھا۔ بچوں سے فراغت کے بعد چائے بنانی ہوتی پھر ساس اور جھٹھانی بچے کو گود میں دبائے امر کے کمرے میں محفل جمالیتیں۔ گاؤں کے قصے گڑ، تمباکو گنے کے کھیت، گاجر، مولیاں، تازہ دودھ گوشت، پنجیریاں مربے اور آج کے دور کی خرافات، امر ساتھ دیتی جاتی رات بیتتی جاتی محفل ہنوز گرم بلکہ گرم تر، ساس کا جوش خروش بڑھتا ہی چلا جاتا اور جمیلہ آپا تابعداری سے سنے جائیں وہ سنائے جائیں اور اور خود امر زور زور سے سر ہلاتی برادری کے گلے شکوے میں برابر کا ساتھ دیتی۔ کولڈ ڈرنک تک بات آتے آتے گھڑی رات کے ڈھائی بجاتی اور احمد پہلے سو جاتا۔ امر نیند میں جھولا جھولنے لگتی بلکہ بے دم ہو کر گر جاتی تو ساس معذرت کرتی جمیلہ آپا کو لیے رخصت ہوتیں کہ بھئی اب سو جاؤ رات بہت ہو گئی۔ صبح ناشتے کے لیے جلدی اٹھ جانا تیرا بابا جلدی مچا دیتا ہے۔ جاتے جاتے بھی وہ نصیحت کرنا نہیں بھولتیں۔ امی روز فون کر کے پوچھتیں نصیحتیں کرتیں اور اسے مطمئن پا کر فون رکھ دیتیں۔ احمد اور امر دن کے وقت بات کرنے کا کوئی لمحہ ہر گز نہیں پاسکتے تھے اگر جو کبھی وہ اکٹھے پائے جاتے ماں جی فورا سے مصروف کر دیتیں، چاول لے آؤ گوشت لے آؤ ٹانگیں دبا دو۔ اس گھر میں کام سو بندے کا تھا اور امر اکیلی بیچاری کیا کیا کرتی۔ احمد کو کسی کام سے لاہور بہن کے گھر جانا پڑا، نئی نویلی دلہن چھوڑ کر گیا تھا۔ بے تاب ہو کر فون کیا تو جمیلہ آپا نے فون اسے پکڑانے کے بجائے ساس کو تھما دیا کہ احمد اپنی ماں سے بات کرنا چاہتا ہے حالانکہ وہ سن چکی تھی کہ اسے امر سے بات کرنا تھی ۔ جمیلہ آپا فون اماں کو تھما کر اسے چاولوں کی صفائی پر لگا گئیں اور امر ہونقوں کی طرح تکتی رہ گئی احمد اب اماں جی سے بات کر رہا تھا اور وہ سن رہی تھی۔ دل کو کچھ کھٹکا سا ضرور تھا احمد نے اسی سے بات کرنی تھی مگر جمیلہ آپا نے فون اماں کو دیا تھا وہ جتنی بھی بیوقوف ہوتی یا بنائی جاتی محبت کو سمجھتی تھی، اس محبت کو جو شوہر اور بیوی کے درمیان روز روشن کی طرح عیاں تھی- دونوں بہت کم باتیں کر سکتے تھے مگر دل کی لگن سچی تھی تڑپ حقیقی تھی جو احمد کو راتوں رات بڑی بہن کے سنہری جال سے نکال لے آئی تھی۔ آپا ماہم کی باتیں جتنی بھی چکنی چپڑی ہوتیں اس میں امر کہیں نہیں تھی۔ وہ اکتا کر بھاگ نکلا تھا دولہا بھائی کی کام چوری احمد کے سوا کسی کو نظر نہیں آتی تھی۔ بھائی اور تابعدار بھائی اگر بیوی کی محبت میں گرفتار ہو جائے اور اسے فقط بیوی نظر آنے لگے تو ان ہی حالات سے بچنے کے لیے انہوں نے بہتیرے جال بچھائے تھے۔ بڑے بھائی اور جمیلہ آپ کی زندگی کا دارومدار اسی پر تھا- نحوست چھا گئی ہے اس گھر پر، جیٹھ بیٹھے بیٹھے چلانے لگا تھا امر چولہے پر روٹیاں پکانے بیٹھی تھی۔ تنخواہ میں سے پورے دو ہزار کم تھے اور وہ دو ہزار احمد نے امر پر خرچ کیے تھے۔ اس کے دو جوڑے گرمی کے اور ہوائی چپل۔ ورنہ وہ تو وہ بھی لینے کی روادار نہیں تھی جیسے سب روکھی سوکھی کھا کر، پہن کرجی رہے تھے بے چاری امر دل و جان سے ان کے ساتھ جینا چاہتی تھی مگراحمد کو احساس تھا اور نجانے کیسے ہوا تھا کہ وہ اسے کسی طرح برتنوں اور باتوں کے جال سے نکال لے گیا تھا اور اپنی پسند کے دو سوٹ سلوائے تھے- اور وہیں جیٹھ کو نخوست کا احساس ہو گیا تھا۔ وہ کھٹک گیا تھا ماں کے دیے تسلی دلاسے بہلاوے، شادی کے بعد نہ بدلنے کی قسمیں حربے سارے ناکام ہوتے نظر آتے تھے۔ آج دو ہزار نکلے تھے وہ بھی پوچھے بغیر کل دس ہزار خرچ کر ڈالے تو کون کہنے والا تھا خود کماتا تھا بیوی تھی خرچ کرلیے، ہر طرف نحوست نے ڈیرے ڈالے تھے ساس جمیلہ اور جھیٹھ کے چھرے تلخی سے اٹ گئے تھے سب اگلے قدم پر غور کر رہے تھے مگر جیٹھ ذرا بے صبرا واقع ہوا تھا وہ چپ رہنے والا نہیں تھا- امر نے جلدی سے دورود شریف پڑھنا شروع کردیا تھا تا کہ نحوست کے سائے جلد از جلد چھٹ نکلیں- اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ اصل نحوست تو وہ خود تھی اور خود ہی نحوست دور کرنے کی تدبیر کر رہی تھی- منحوس نہ ہو تو۔ زندگی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی- ساس اور جیٹھانی جمیلہ کے گٹھ جوڑ نے احمد اورامر کو حتی المقدور دور رکھا تھا مگر دور رہ کر بھی الجھ کر بھی وہ کتنے قریب قریب تھے کون جانے۔ آہستہ آہستہ کم کرتے وہ تھکنے لگی۔ اس کی زندگی میں کسی کی آمد کی نوید تھی۔ وہ کمزور ہونے لگی تھی کام کے دباؤ اور ساس اور جیٹھانی کے تلخ رویے کی وجہ سے بھی وہ پریشان تھی- آہستہ آہستہ گھر کے کام بٹ گئے برتن چونکہ ایک بڑا ڈھیر ہوتا اس لیے وہ امر کے ذمے ، جھاڑو جمیلہ آپا کے ذمے ۔ امر کی ایمان داری اور جی لگا کے کام کرنے کی وجہ سے برتن صاف ستھرے چمکدار اور آدھے وقت میں دھل دھلا کر اپنی جگہ پر پہنچ جاتے-

جمیلہ آپا نے آسان کام سمجھ کر اسے برتنوں سے بٹا دیا اور جھاڑو پکڑا دی ۔ ان کے بچے بے حد بد تمیز اور گندے تھے جو بڑے بڑے قد نکالے ندیدے پن کی آخری حدوں کو چھوتے بچوں جیسی حرکتیں کرتے تھے ۔ امر کے لیے انہیں روکنا اور گھر صاف رکھنا مشکل تھا کیونکہ جمیلہ اپنے بچوں کے معاملے میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرتی تھیں۔ جو جہاں ہے جو کر رہا ہے کرنے دو۔ ان کے بچے تک امر سے خائف تھے، وہ کیوں یہاں آگئی تھی کب جائے گی۔ اور تو اور چاچو اور امر ساتھ اچھے بھی نہیں لگتے تھے وہ بے بدتمیز اور بد زبان بچے تھے۔ وہ بے خبر تھی مگر اتنی بے خبر نہیں تھی کہ نہا کر نکلے پڑے غائب، کنگھی کرنے لگے تو کنگھی نہ ملے کے جائے تو پانی بند۔ وہ میلی کچیلی رہنے لگی اور غور کرنے لگی نہ چاہتے ہوئے بھی کہ یہ کام جمیلہ آپا اور سا سں کا ہی تھا وہ دونوں اسے صاف بھی نہیں رہنے دینا۔ چاہتی تھیں، اسے یقین نہیں آتا تھا کہ بوڑھا جھریوں والا چہرہ سفید بالوں سمیت یہ گھٹیا حرکت بھی کر سکتا تھا ۔ احمد اسے سو پچاس دینے لگا تھا، جمیلہ آپ وہ پیسے غائب کرنے لگی تھیں- جمیلہ آیا اور ان کے بچے یہ کام اس اس صفائی سے کرتے کہ اسے خبر بھی نہ ہوتی جو ایک دن وہ نہ دیکھ لیتی ۔ اس بات پر وہ واویلا کرتی مگر جمیلہ آپا زور زور سے بولنا شروع ہو گئی تھیں۔ امرماں بننے والی تھی ظاہر ہے کہ خرچا بڑھ گیا تھا۔ اور جمیلہ اس مسئلے کا توڑ سوچنے میں مصروف تھی- اسے پاتا تھا، وہ جان چکی تھی کہ جمیلہ آپا کی قناعت کے پیچھے چھپی اصل صورت کتنی بھیانک ہے۔ گھٹیا عورت کی سوچ بوٹی سے شروع ہو کر بوٹی پر ہی ختم ہوتی تھی۔ وہ دیور پر قبضہ کر کے اسے گھر میں ہی بے حیثیت کر دینا چاہتی تھیں- ہر مشکل اور الجھا ہوا حقوق کام امر کے حوالے کرتیں اور دیکھیں کہ اسے کون سا کام کرنا برا لگ رہا ہے کس کام کو کرنے میں اسے مشکل پیش آ رہی ہے۔ وہ سارے کام کر رہی تھی۔

وقت گزر رہا تھا مگر اسے جمیلہ آپا کی شکل سے نفرت ہو گئی تھی اور ساس کے ٹسوے اپنی حقیقت آپ بیان کرتے تھے وہ نکمے بیٹے کو چھوٹے بیٹے کی زندگی میں کعبہ بنا کر رکھنا چاہتی تھیں ایسا شخص جو کھائے بھی اور کسی کا احسان بھی نہ رکھے جو صرف کھانے اور رعب ڈالنے یا پھردوسرے بہن بھائیوں کا خون چوسنے کے لیے پیدا ہوا تھا انہیں سب سے بری امرلگتی تھی کیونکہ اس نے احمد کی کمائی اور اس کی توجہ بانٹی تھی اور جمیلہ آپا جو شوہر کو ہمیشہ بیساکھیوں پر چلاتی آئی تھیں، بیساکھیاں کسی طرح چھیننے نہیں دینا چاہتی تھیں وہ ہر صورت امر کو راستے سے ہٹانا چاہتی تھی مگر امر اس رستے میں کسی کو بھی لے آئی تھی، اپنی پیاری بیٹی نیلم کو۔ وہ اور نیلم اب دو تھے اسے نیلم سہارا لگی تھی اور ساس اور جمیلہ نے نیلم کو اپنے قبضے میں کرنے کا سوچا تھا۔ نیلم تائی کے پاس سوئے گئی دادی سے کھانا کھائے گی تو امر جو ان کی خباثت کو فطری محبت سمجھتی اور کیا کرے ۔ سارا دن اس کی بیٹی اس سے دور کی جانے لگی تھی اتنا تو اسے پتا چل گیا تھا کہ یہ محبت نہیں تھی۔ اسے بے دخل کیا جارہا تھا۔

زندگی چھوٹے کم ظرف لوگوں کے بغیر کتنی آسان تھی یہ احمد اور امر دونوں کو ہی پتا چل گیا تھا مگر کہا کسی نے نہیں۔ کتنے دن یوں ہی گزر گئے تھے۔ ایک دن جمیلہ آپا اور غفران بھائی چلے آئے تھے اور ان کا اصرار تھا کہ انہیں واپس چلنا چاہیے مگر احمد نے انہیں کسی نہ کسی طرح قائل کر ہی لیا تھا۔ وہ شہد میں ڈوبے نشتر لے کر واپس چلے گئے تھے ۔ کچھ رشتے کتنے بڑے بوجھ میں بدل جاتے ہیں ناں جو کسی طرح قابل قبول رہتے ہی نہیں۔ کاش وہ دوسروں کے ساتھ جینا سیکھ جاتے ۔ خود جیتے اور دوسروں کو بھی جینے دیتے ان کے پورے حقوق کے ساتھ امر نے سوچا اور دروازہ بند کر دیا تھا۔

Latest Posts

Related POSTS