آج سے چالیس برس پہلے کی بات ہے جب میرا بیٹا جمال نوجوان تھا۔ وہ ایک اسکول میں ٹیچر تھا۔ یہ لڑکوں کا اسکول تھا جو لاہور میں شاہی محلے کے قریب واقع تھا۔ ان دنوں لوگ سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ استادوں کی تنخواہیں بھی بہت تھوڑی ہوتی تھیں، پھر بھی گزارا ہو جاتا تھا۔ مہنگائی اس قدر نہ تھی، لوگ نمود و نمائش کی بجائے قناعت بھری زندگی گزارنے کو عبادت جانتے تھے۔
جمال کی تنخواہ بھی زیادہ نہ تھی لیکن ہمارا کنبہ چھوٹا تھا۔ گھر کرائے کا تھا پھر بھی گزر بسر عزت سے ہو رہی تھی۔ میری دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ جمال ان میں سب سے بڑا تھا۔ بیوگی کے درد سہہ کر بڑی مشکل سے اُسے بی اے تک تعلیم دلوائی تھی۔ اس زمانے میں گریجویٹ ہونا ایک اعزاز کی بات تھی بلکہ اس نے تو پوزیشن لی تھی، تبھی بی اے کرتے ہی سرکاری اسکول میں نوکری مل گئی۔
جمال کی کمائی پر گرچہ ہمارا گزارا تھا لیکن اس کی اپنی بھی تو زندگی تھی۔ پھر ایک ماں کی سب سے بڑی خوشی یہی ہوتی ہے کہ وہ بیٹے کا سہرا دیکھے اور چاند سی بہو گھر لائے تاکہ اس کے آنگن میں روشنی بکھر جائے۔
ان دنوں میں لڑکی دیکھنے کی کوششوں میں لگی تھی جبکہ جمال مجھے کہتا تھا امی جان… ذرا صبر کیجئے ابھی شادی کا وقت نہیں آیا ہے۔ تھوڑا سا مالی لحاظ سے سنبھلنے دیجئے۔ تبھی اچھے گھر سے رشتہ ملے گا۔ فی الحال تو چھوٹا بھائی پڑھ رہا ہے، بہنیں بھی اسکول جاتی ہیں۔ دونوں بہنیں میٹرک پاس کرلیں تو پہلے ان کی فکر کریں پھر میرا گھر بسانے کا سوچیئے گا۔
جمال صحیح کہتا تھا لیکن میں ماں تھی سوچتی تھی کب تک اپنے بچے کی خوشیاں قربان ہوتے دیکھوں جبکہ اس کی شادی کی عمر ہے۔
جب دو چار بار جمال کو اس بارے میں سمجھانا چاہا تو اس نے کہا۔ اچھا اماں… میں آمدنی میں کچھ اضافے کے لئے سوچتا ہوں۔ کچھ نہیں تو گھر کی بیٹھک میں ٹیوشن سینٹر کھول لیتا ہوں۔ جب آمدنی بڑھے گی تو آپ کی خوشیاں بھی جلد پوری ہو پائیں گی۔
جمال نے گھر کی بیٹھک میں ایک ٹیوشن سینٹر کھول لیا۔ اس زمانے میں اکیڈمی وغیرہ جیسے تعلیمی مراکز کا رواج نہ تھا۔ بہرحال اسکول کے وہ لڑکے جو پڑھائی میں کمزور تھے جمال کے پاس شام کو ٹیوشن پڑھنے آنے لگے۔
ایک روز ایک لڑکا آیا جو ٹیوشن پڑھنا چاہتا تھا۔ اس کا نام مختار تھا۔ جمال نے پوچھا کس اسکول میں پڑھتے ہو کیونکہ میں نے تم کو کبھی اپنے اسکول میں نہیں دیکھا۔ وہ کہنے لگا۔
میں آپ کے اسکول میں داخلہ لینا چاہتا ہوں۔ پڑھنے کا شوق ہے لیکن ماں نے بچپن میں داخل نہ کرایا۔ اب چاہتا ہوں کہ پہلے کچھ پرائیویٹ طور پر پڑھ لوں پھر داخلہ لوں۔
مختار نے ٹھیک بات کی تھی کیونکہ اس کی عمر پندرہ برس تھی اور اس عمر میں اسے میٹرک میں ہونا چاہئے تھا مگر وہ صرف دوسری جماعت کے طالب علم جتنی علمی استعداد رکھتا تھا۔ اسے حروفِ ابجد اور اے بی سی ڈی وغیرہ آتی تھی۔ سو تک گنتی بھی لیکن اور زیادہ کچھ نہیں جانتا تھا۔
جمال سوچ میں پڑ گیا۔ مجھ سے ذکر کیا کہ اس لڑکے کا کیا کروں۔ عمر زیادہ ہو جانے کی وجہ سے یہ ایک دو سال میں کیسے نویں تک کا کورس کور کرسکے گا۔ میں نے ہمت دلائی کہ بیٹا کوشش کر دیکھو۔ ہوسکتا ہے کہ اس کا شوق اسے کامیابی سے ہمکنار کردے۔
جمال نے اسے ٹیوشن پڑھانے کی ہامی بھر لی۔ وہ روزانہ شام کو بیٹھک میں پڑھنے آنے لگا۔ اس کو واقعی جنون کی حد تک پڑھنے سے لگائو تھا۔ تبھی میرے بیٹے نے بھی خاص توجہ دی اور دل لگا کر اس کو پڑھانا شروع کردیا۔ جب سب لڑکے ٹیوشن پڑھ کر چلے جاتے وہ تب بھی پڑھتا رہتا اور ایک سے دو گھنٹے تک مزید پڑھنے میں مشغول رہتا۔
وہ بہت ذہین تھا، خوبصورت بھی تھا۔ غرض دو سال میں ہی اس نے آٹھویں کا کورس پڑھ لیا۔ پھر مڈل کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا تو ہیڈ ماسٹر سے کہہ کر جمال نے اسے اسکول میں داخل کرا دیا تاکہ وہ میٹرک ریگولر طالب علم کے طور پر پاس کرسکے۔
مختار اب سترہ برس کا ہوگیا تھا لیکن صحت مند تھا اور امیر گھرانے سے معلوم ہوتا تھا، لہٰذا قد کاٹھ اور اٹھان سے وہ اٹھارہ بیس برس کا نوجوان نظر آتا تھا۔ پہلے وہ سائیکل پر ٹیوشن پڑھنے آتا تھا۔ پھر نئی موٹر سائیکل پر آنے لگا اور جب اس نے اسکول میں داخلہ لیا تو کار پر آتا جاتا۔
قدرتی بات ہے کہ لوگ خوشحال گھرانوں کے افراد سے ازخود مرعوب ہوتے ہیں۔ ان دنوں تو کاریں بھی کم لوگوں کے پاس ہوتی تھیں۔ حتیٰ کہ ہیڈ ماسٹر صاحب بھی موٹر سائیکل پر اسکول آتے۔ اساتذہ تو سائیکل استعمال کرتے یا پرانی موٹر سائیکل کے مالک تھے مگر مختار کے عجب ٹھاٹ تھے۔ لگتا تھا کسی بہت امیر گھرانے کا چشم و چراغ ہے۔
اسکول کے طالب علم تو کیا استاد بھی اس سے مرعوب تھے اور اس کو عزت سے بلاتے۔ پھر وہ پڑھائی میں بھی لائق تھا۔ غرضیکہ سارے اسکول میں سب سے زیادہ عزت اسی لڑکے کی بنی ہوئی تھی۔
جمال اکثر اس کا تذکرہ کرتا۔ کہتا کہ بڑا سخی اور فراخ دل ہے۔ کئی غریب طالب علموں کو اس نے کتب وغیرہ خرید کر دی ہیں۔ جب کسی طالب علم کو تعلیمی خرچے کی حاجت ہوتی ہے اور اس کو علم ہو جاتا ہے کہ یہ ضرورت مند ہے وہ اس کی مدد کرتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اسکول کا ہیرو بن گیا ہے۔ اب تو ہیڈ ماسٹر صاحب استادوں سے بھی زیادہ اسے اہمیت دیتے ہیں اور عزت کرتے ہیں۔
رفتہ رفتہ اس کی دوستی چند استادوں سے ہوگئی جن میں جمال بھی شامل تھا۔ مختار اکثر و بیشتر ان کو چائے پر مدعو کرتا اور کسی اچھے ہوٹل میں کھانا کھلانے بھی لے جاتا۔ وہ بہانے بہانے سے اپنے استادوں کو تحفے دیتا۔ اس زمانے میں گرچہ طالب علموں سے تحفے لینے کا رواج نہ تھا بلکہ یہ ایک معیوب بات سمجھی جاتی تھی لیکن مختار کی بات اور تھی۔ اب وہ طالب علم سے زیادہ اپنے استادوں کا دوست بن چکا تھا۔ لہٰذا دوستوں کی طرح سب اس سے پیش آتے اور تعلق بھی رکھتے تھے۔
کچھ استادوں نے ایک دو بار اس کے گھرانے کے بارے میں جاننے کی کوشش کی لیکن وہ ٹال گیا۔ اس نے کہا کہ اس کے والد بیرون ملک چلے گئے تھے اور وہاں انہوں نے اور شادی کرلی۔ تاہم وہ میری ماں کو باقاعدگی سے خرچہ بھجواتے ہیں جو کافی ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کے دن خوشحالی سے بسر ہو رہے ہیں۔ بس اس سے زیادہ اس نے کسی کو کبھی کچھ نہ بتایا۔
جن دنوں اس نے نویں جماعت پاس کی اور چھٹیاں آئیں وہ مری چلا گیا۔ تب وہ جمال کے پاس ٹیوشن پڑھنے نہ آیا جبکہ باقی لڑکے چھٹیوں میں آتے رہے کیونکہ وہ پیشگی میٹرک کی کتابوں سے پڑھنے آتے تھے تاکہ کلاس میں بہتر پوزیشن لے سکیں، ان میں سے کچھ تو مختار پر رشک کرتے تھے اور اس کو پڑھائی میں پچھاڑنا چاہتے تھے۔ اسی لئے کچھ مقابلے کی فضا بن گئی تھی اور یہ اچھی بات تھی، ایک صحت مند رجحان نے مختار کی وجہ سے اسکول میں جنم لیا تھا کہ بہت سے لڑکے تعلیم میں بہترین پوزیشن لے کر اس سے آگے آنا چاہتے تھے۔
محنت کی اپنی بات ہے اور دولت کی اپنی شان ہے۔ بہت سی دائمی کامیابیاں محنت سے اور فوری کامیابیاں دولت سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ایک لباس کو ہی لے لیں۔ اچھا قیمتی، عمدہ اور بہترین لباس پہننے والا ہجوم میں بھی سب کی نظروں میں فوری طور پر عزت پاتا ہے اور نمایاں ہو جاتا ہے۔ مختار کے لباس کی تو کیا بات تھی۔ وہ جو لباس پہن کر ٹیوشن پڑھنے آتا تھا وہ تو رئیس زادوں کو ہی نصیب ہوتا تھا۔
چھٹیاں ختم ہوگئیں۔ مختار اسکول آنے لگا۔ ایک دن فری پیریڈ میں کچھ لڑکوں میں کسی بات پر بحث ہوئی تو بحث نے جھگڑے کی صورت اختیار کرلی۔ مختار نے بیچ بچائو کرا دیا لیکن جن دو لڑکوں میں بحث ہونے کے بعد جھگڑا ہوا تھا ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے کدورت موجود رہی۔
چھٹی کے بعد جو سارے طالب علم اسکول سے باہر نکلے تو وہ دونوں بھی ایک دوسرے کو گھورتے ہوئے باہر آئے اور ہجوم کے نکلتے ہی الجھ پڑے۔ دونوں دسویں کے طالب علم اور مختار کے کلاس فیلو تھے۔ اس وقت تک مختار اپنی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا اور چند اساتذہ بھی اسکول سے باہر آگئے تھے۔
جھگڑنے والے لڑکوں میں سے ایک کا نام قادر اور دوسرے کا ریاض تھا۔ قادر نے بُرا بھلا کہتے ہوئے ریاض کو بہن کی گالی دے دی جس پر وہ غصے سے بھڑک اٹھا اور اس نے قادر کا گریبان پکڑ لیا۔ اس کا غصہ ناقابلِ برداشت تھا۔ قادر کو زمین پر گرا کر ریاض اس کے اوپر چڑھ بیٹھا اور اس کی گردن دبانے لگا۔
قادر جسمانی طور پر ریاض سے کمزور تھا۔ سبھی نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں نکل آئی تھیں اور گلا دبائے جانے سے حالت غیر ہو رہی تھی۔ تبھی استاد بھاگے ہوئے ان کی طرف گئے۔ مختار بھی گاڑی سے اتر پڑا اور ان سب نے ریاض کے پنجے سے قادر کو چھڑایا۔
تم لوگ کیوں ایسے سڑک پر جاہلوں کی طرح لڑ رہے ہو۔ جمال نے ڈانٹا۔
’’اگر ایسے ہی رویّے رکھنے ہیں تو پھر تعلیم حاصل کرنے کا کیا فائدہ ہوا۔ دوسرے استاد نے لعنت ملامت کی۔
اگر ہم نہ چھڑاتے تو آج قادر کی جان چلی جاتی۔ ریاض تم کو شرم آنی چاہئے۔ آخر ایسی کیا بات قادر نے کہہ دی کہ تم اس کی جان لینے کے در پہ ہوگئے۔ مختار بولا۔ تب قادر نے کہا۔
شرم تو اس کو آنی چاہئے کہ اس نے میری غیرت کو للکارا۔ اتنے میں ہیڈ ماسٹر صاحب اسکول سے باہر آگئے۔ انہوں نے مجمع لگا دیکھ کر پوچھا۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟
قادر نے خوف زدہ ہونے کی بجائے دلیری سے کہا۔ جناب اس نے مجھے بہن کی گالی دی تبھی میرا خون کھول اٹھا، اگر یہ مجھے کتا، کمینہ کہتا، سو طرح کی گالیاں میری ذات کو دے کر جوتے بھی مار لیتا تو میں اس کے گریبان میں ہاتھ نہ ڈالتا، مگر اب میں ایسی گالی کیسے برداشت کرلیتا جو میری غیرت پر تازیانہ بن کر لگی ہے۔
یہ بات سن کر نہ صرف اساتذہ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا بلکہ ہیڈماسٹر صاحب بھی دھیمے پڑ گئے۔ انہوں نے تنبیہ کی کہ اس بار تو میں تم دونوں کو معاف کر رہا ہوں لیکن آئندہ خیال رکھنا دوبارہ ایسی صورت حال پیدا کی تو اسکول سے نکال دوں گا۔
استاد بھی دونوں کے جھگڑے پر تھوڑا بہت تبصرہ کر کے روانہ ہوگئے۔ ان سب کا خیال تھا کہ دونوں نے بدتمیزی کا مظاہرہ ضرور کیا مگر قادر نے زیادتی کی ہے۔ اسے ریاض کو بہن کی گالی نہ دینی چاہئے تھی۔ جب غیرت کا معاملہ آ جائے تو پھر اسی طرح اشتعال میں قتل بھی ہو جاتے ہیں۔
اس واقعے کے اگلے دن شام کو جب مختار جمال سے ٹیوشن پڑھنے آیا تو دونوں میں کل والے جھگڑے کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی۔ تب مختار نے اصرار کیا کہ سر… ہم لوگوں نے ایک کاروبار میں کچھ روپیہ لگایا تھا اس میں بہت فائدہ ہوا ہے۔ اللہ کی مہربانی سے لاکھوں کا سودا ہوگیا ہے۔ آیئے اس خوشی میں آپ کو ہوٹل میں اچھی سی چائے پلوائوں۔
جمال نے کافی انکار کیا مگر وہ لڑکا پیچھے پڑ گیا۔ باقی سارے لڑکے ٹیوشن پڑھ کر جا چکے تھے۔ میں نے کہا۔
جمال… چلے جائو مختار کتنی منت کر رہا ہے۔ وہ استاد سمجھ کر تمہاری عزت کر رہا ہے اور تم انکار کئے جاتے ہو۔ دیکھو کیسا اس کا منہ اتر گیا ہے۔ بیٹے… ایسے نخوت نہیں برتتے۔ شاگرد بھی بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں۔
مجھے کہنا تو یہ چاہئے تھا کہ شاگرد بھی اولاد کی طرح ہوتے ہیں لیکن اس لئے نہ کہا کہ جمال تو ابھی غیر شادی شدہ تھا اور عمر بھی زیادہ نہ تھی۔
میرے کہنے سے جمال، مختار کے ساتھ ہوٹل چلا گیا۔ کچھ دیر بعد جب وہ واپس آیا اس کا منہ اترا ہوا تھا۔ بہت دکھی سا لگا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا بیٹے… بولا… ماں آج جو بات بتانے مختار مجھے ہوٹل لے گیا میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ اس نے کہا۔ سر۔ آج آپ کو اپنے بارے میں سچ بتانا چاہتا ہوں کہ میں کون ہوں۔ کل قادر اور ریاض کے جھگڑے نے مجھے ذہنی طور پر پریشان کردیا ہے کہ یہ کتنی فضول بات پر ایسی خوفناک حد تک لڑائی پر تل گئے تھے۔
میں نے کہا۔ ہاں، واقعی ان کو ایسے نہ جھگڑنا چاہئے تھا۔ یہ بات پڑھے لکھوں کو زیب نہیں دیتی، لیکن قادر کو بھی گالی نہ دینی چاہئے تھی۔ دراصل غیرت کی بات آگئی تھی۔ وہ غصے پر قابو نہ رکھ سکا۔ یہ تو فطری بات ہے کہ جب غیرت کا معاملہ ہو انسان کو غصہ آ جاتا ہے۔
مختار نے اس پر کہا۔ سر جمال۔ ایک بات آپ کو بتائوں۔ شاید آپ یقین نہ کریں۔ آپ مجھے غالباً کسی رئیس گھرانے کا فرزند سمجھتے ہوں گے۔ آپ کے علاوہ اور بھی کچھ استاد میری عزت اسی وجہ سے کرتے ہیں کہ میں بہت خوش لباس ہوں، دل کھول کر خرچہ کرتا ہوں۔ گاڑی پر آتا ہوں۔ کسی کو گاڑی کی ضرورت ہو تو فوراً مستعار دے دیتا ہوں۔ لیکن آپ لوگوں کو نہیں معلوم یہ روپیہ پیسہ… یہ دولت کہاں سے آتی ہے۔ اگر آپ کو معلوم ہو جائے تو آپ سب مجھ سے قطع تعلق کرلیں۔ بات کرنا پسند نہ کریں اور شاید مجھ سے نفرت کرنے لگیں، تاہم تعلیم سے میں نے یہی سیکھا ہے کہ سچ بولنا اچھی بات ہے۔ بلکہ یہ تو پیغمبروں کی صفت ہے کہ ہر حال میں سچ بولو۔ تو میں سچ کہہ رہا ہوں کہ میں کسی دولت مند رئیس آدمی کا بیٹا نہیں ہوں اور نہ میرا تعلق کسی عزت دار گھرانے سے ہے بلکہ مجھے تو اپنے باپ کے نام کا بھی علم نہیں ہے۔ ولدیت کے خانے میں باپ کا فرضی نام لکھوایا ہے۔ دراصل میں نے ایک ایسی عورت کے بطن سے جنم لیا ہے، زمانہ جس کو طوائف کے نام سے پکارتا ہے۔ جس کو لوگ دولت کے ڈھیر دے جاتے ہیں۔ یہ گاڑی بھی میری ماں کو ان کے ایک قدردان نے دی ہے جس پر میں اسکول آتا جاتا ہوں۔ میں اپنے استادوں کی دعوت کرتا ہوں وہ میری اور زیادہ عزت کرتے ہیں۔ اگر ان کو پتا چل جائے کہ کس پیسے سے میں نے ان کی خاطرداری کی ہے تو وہ کھایا ہوا لقمہ بھی تھوک دیں گے۔ لیکن سر کیا کریں… انسان تو اپنی قسمت سے مجبور ہوتا ہے۔ میں نے ایک طوائف کی کوکھ سے جنم لیا یہ میری مجبوری ہے۔ اس پر میرا اپنا تو کچھ اختیار نہیں تھا۔ لیکن کل کے واقعے سے پریشان ہوں کہ ’’غیرت‘‘ کا جذبہ کیا چیز ہے؟ آپ نے کہا کہ فطری جذبہ ہے اگر فطری ہوتا تو سب میں ہوتا۔ مجھ میں بھی، لیکن مجھے تو اس جذبہ سے آج تک ناآشنائی ہے۔ بہرحال میں نے اپنی حقیقت آپ کو بتا دی ہے لیکن چاہتا ہوں کہ آپ آگے کسی سے فی الحال اس بات کا تذکرہ نہ کریں، ورنہ میری پڑھائی رہ جائے گی اور میں میٹرک بھی نہ کرسکوں گا جبکہ میں پڑھنا چاہتا ہوں۔
جمال نے مختار کی حقیقت بیان کر کے دل کا بوجھ تو ہلکا کردیا لیکن وہ بہت رنجیدہ تھا۔ میں نے سمجھایا… بیٹا میٹرک کرنا اس لڑکے کا خواب ہے۔ اس نے سچ کہہ دیا ہے۔ اب اس راز کو تم طشتِ از بام ہرگز نہ کرنا ورنہ واقعی سبھی لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ان نفرتوں کے سیلاب میں اس کا جذبۂ شوق ہی ختم ہو جائے اور وہ میٹرک بھی نہ کرسکے۔ جمال نے وعدہ کیا کہ وہ کسی سے ذکر نہ کرے گا کہ مختار کون ہے۔
ایک روز جمال اسکول سے پڑھا کر لوٹا تو وہ بہت پریشان تھا۔ میں نے پریشانی کی وجہ دریافت کی۔ جمال کی عادت تھی کہ وہ اپنی ہر پریشانی مجھ سے شیئر کر لیا کرتا تھا۔ اس طرح وہ اپنی طبیعت کی گراں باری کو کم کرلیتا تھا۔
اس نے کہا۔ امی آج ایک عجیب بات ہوئی ہے۔ ناقابل یقین بات ہے۔ میں کلاس لے رہا تھا۔ اچانک مختار کلاس میں داخل ہوا۔ وہ بہت زیادہ خوش تھا، بہت جذباتی ہو رہا تھا۔ انگلی میں اپنی کار کی چابی کو اضطراب سے گھماتے ہوئے اس نے کہا۔
سر میری حاضری لگا دیں۔ میں آج کلاس اٹینڈ نہیں کرسکتا مجھے ضروری کام ہے، ٹیسٹ بھی نہیں دے سکتا۔
ساری کلاس کے سامنے اس کا یہ کہنا کہ میری حاضری لگا دیں۔ مجھے بُرا لگا اور اس طرح بے تکلفی سے بات کرنا کہ ساری کلاس کو اس نے ڈسٹرب کیا تھا تاہم میں نے تحمل سے کام لیا اور پوچھا۔
مختار ایسی کیا بات ہے جو تم اتنے ’’ایکسائٹڈ‘‘ ہو رہے ہو۔ وہ خوشی میں ایسا مدہوش تھا جیسے اسے احساس نہ ہو کہ کہاں کھڑا ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔ روانی میں بول گیا۔
سر، آج میری بہن کی نتھ کھلنی ہے، بہت بھاری سودا لگا ہے۔ مجھے اس تقریب کے لئے کچھ انتظامات کرنے ہیں، اس لئے میں جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ کلاس سے نکل گیا۔ ساری جماعت گنگ تھی اور میں سر پکڑے بیٹھا تھا۔ قادر اور ریاض بھی پتھر کے بُت کی مانند بے حس و حرکت بیٹھے تھے اور اب سوچ میں ہلکان ہو رہا ہوں کہ غیرت کا جذبہ فطری ہوتا ہے یا کہ اکتسابی ہے؟ ہمارے اس معاشرے میں جہاں غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ جہاں ریاض بہن کی گالی نہیں سن سکتا اور گالی دینے والے کا گلا دبانے پر تیار ہو جاتا ہے وہاں مختار جیسے انسانوں کو میں کس شمار میں رکھوں؟ اور غیرت کے جذبہ کو کس خانے میں لکھوں۔ فطری جذبے سے تعبیر کروں یا اکتسابی سے۔ اسی کشمکش میں میری سوچیں ہلکان ہو رہی ہیں۔ تب میں نے جمال سے کہا۔
بیٹے ہر معاشرے میں کئی طبقے ہوتے ہیں اور ہر طبقے کا اپنا سیٹ اپ ہوتا ہے… اپنی سوچ ہوتی ہے۔ تم کو سوچ سوچ کر ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں۔ خدا کا شکر ادا کرو کہ جس طبقے میں ہو وہ بہترین ہے۔ مزید رہنمائی کے لئے ہمارے پاس ہماری مقدس کتاب کلامِ الٰہی، قرآن پاک ہے، اس کو پڑھ لو اور رہنمائی حاصل کرلو۔ خودبخود سکون مل جائے گا۔
(اُمّ سکندر… کراچی)