ہمارے گھر کے حالات دگرگوں تھے۔ تعلیم سے فارغ ہوئی تو ملازمت کی تلاش شروع کر دی۔ کچھ تگ و دو کے بعد ایک اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت مل گئی۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، میں نے بھی برے حالات میں کنارے کا سانپ پکڑ لیا۔ ایم اے پاس کرنے کے بعد ایک پرائمری اسکول میں ٹیچر لگی وہ بھی بہت قلیل تنخواہ پر ، پھر بھی رب کا شکر بجا لائی کہ چلو کچھ پیسے تو ہاتھ آہی جائیں گے۔ ابو کی پنشن کے ساتھ، گھر کے راشن میں ، میں بھی اپنا حصہ ڈال لوں گی۔ اسکول کی ڈیوٹی کے بعد میں محلے کے بچوں کو بھی ٹیوشن پڑھانے لگی۔ اس سے کچھ اضافی آمدنی ہوتی تو چھوٹے بھائی کی اسکول کی فیس ادا ہو جاتی۔ ایک روز میری ایک شاگردہ رقیہ جو گھر پر ٹیوشن پڑھنے آئی تھی، نے کہا۔ مس، کیا آپ میری ایک سہیلی کو پڑھا دیں گی ؟ ہاں کیوں نہیں، کل اسے اپنے ساتھ لے آنا۔ مس وہ امیر لوگ ہیں۔ زارا کی امی نے کہا ہے کہ کوئی ایسی ٹیچر ڈھونڈ کر دو جو گھر پر پڑھانے آ سکے۔ بچی کو ہم کسی کے گھر ٹیوشن کے لئے نہیں بھیج سکتے۔ اس لڑکی کا گھر یہاں سے کتنی دور ہے ؟ کچھ دور ہے ، مگر پیدل کا رستہ نہیں ہے۔ ان سے کہو سواری کا انتظام کر دیں تو میں پڑھا دوں گی۔ اگلے روز رقیہ نے بتایا کہ زارا کی امی کہتی ہیں ، وہ سواری کا انتظام کر دیں گی۔ ان کی امی کی گاڑی آپ کو گھر لے جائے گی اور چھوڑ بھی جائے گی اور جو فیس آپ کہیں گی وہ دیں گی۔ ٹھیک ہے ، ان کو بتا دینا کہ وہ مجھے شام پانچ بجے لینے آجائیں میں ڈیڑھ گھنٹہ پڑھا دوں گی اور ٹیوشن فیس بھی میں نے ان کو بتادی۔ اگلے روز زارا کی امی ڈرائیور کے ساتھ آ گئیں ۔ وہ ایک اچھی اور ملنسار خاتون تھیں، بچی بھی ان کے ساتھ آئی تھی۔ میں نے زارا کو ٹیوشن دینا قبول کر لیا۔ ان کا بنگلہ شہر کے ایک عمدہ علاقے میں تھا، جس کو نہایت خوبصورتی سے سنوارا گیا تھا۔ دبیز ، نرم، خوش رنگ، قیمتی قالین، فانوسوں سے مزین چھتیں۔ مجھے ملازمہ نے ایک کمرے میں بٹھایا جو مشرقی طرز پر آراستہ تھا۔ یہ زارا کی امی کا کمرہ تھا۔ انہوں نے روایتی طریقے سے قالین بچھا کر اس پر خوش رنگ گائو تکیے رکھے ہوئے تھے۔ اس کمرے میں ٹیک لگا کر ، ٹانگیں پسار کر بھی بیٹھ سکتے تھے۔ میز کرسیوں کا تکلف نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد خاتون قیمتی زیورات پہنے سفید ساری میں ملبوس تشریف لائیں۔ ہمارے گھر تو وہ سادہ لباس میں آئی تھیں۔ آج شام شاید ان کو کہیں تقریب میں جانا تھا مگر زارا نہیں جارہی تھی کیونکہ اسے مجھ سے پڑھنا تھا۔
وہ ایک سلجھی ہوئی اور خوبصورت لڑکی تھی۔ پہلی نظر میں ہی وہ مجھے اچھی لگی۔ اب میں روز شام کو مقررہ وقت پر اسے پڑھانے کو جانے لگی، پہلے میری خاطر تواضع کی جاتی پھر پڑھائی شروع ہوتی۔ جلد ہی میں نے جان لیا یہ لڑکی نہ صرف سنجیدہ مزاج ہے بلکہ دوسروں کا خیال کرنے والی، با ادب اور بے حد حساس بھی ہے ۔ وہ ایسی شاگردہ تھی، جس کا مجھے خاص خیال رکھنا پڑتا تھا اور وہ بھی میرا خاص خیال رکھتی۔ اپنے والدین کی واحد چشم و چراغ کے والد محض میٹرک پاس تھے جبکہ ماں نے بی اے کیا تھا۔ رشتہ دار ہونے کی وجہ سے زارا کی والدہ کا رشتہ ان کے چچازاد یعنی زارا کے ابو سے ہو گیا تھا۔ تعلیم اور ذہنی سوچ کے لحاظ سے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ زارا کے والد کو اپنے باپ دادا سے ورثے میں بہت کی زمین، جائیداد اور چلتا ہوا کاروبار ملا تو دولت ، ان کے گھر کی باندی بن کر رہنے لگی۔ اس کے والد موسیقی کے دلدادہ تھے۔ گھر میں جھولا پڑا ہوا تھا اور بے شمار ریکارڈ رکھے تھے۔ ان دنوں وی سی آروغیرہ نہیں تھے۔ زارا کی امی ہلکے رنگ کے نفیس اور خوبصورت لباس تن زیب کرتیں۔ شوہر کی گاڑی علیحدہ تھی، بیگم کی علیحدہ۔ ڈرائیور بھی دونوں کے الگ الگ تھے۔ اس کے علاوہ بھی کام کاج کے لئے ملازمائیں اور نوکر وغیر ہ تھے۔ زارا کی امی گھر کا کام کاج نہیں کرتی تھیں کھانا پکانا بھی باور چن کے ذمے تھا۔ زارا بہت ہو نہار نکلی۔ وہ اچھے خاصے افسانے اور کہانیاں لکھ لیتی تھی۔ انگریزی میں البتہ قدرے کمزور تھی لیکن اپنی ذہانت کی بنا پر تھوڑے دنوں میں اچھی خاصی انگریزی اس نے سیکھ لی۔ اب میں اس کی کار کردگی سے مطمئن ہو گئی۔ مجھے زارا کو پڑھاتے ہوئے ابھی دو ماہ گزرے تھے کہ اس گھر میں مجھے ایک نوجوان لڑکی دکھائی دی۔ جب میں نے زارا سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہمارے پڑوس والا جو پرانا مکان ہے، یہ لڑکی اسی مکان میں رہتی ہے۔ اس کا باپ ضعیف تھا۔ سال بھر پہلے ہمارے اس ضعیف پڑوسی نے ابو کو بلا بھیجا اور اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر میرے والد کے ہاتھ میں دے دیا اور کہا کہ میرا وقت قریب آ گیا ہے۔ یہ میری بیٹی نور ہے۔ میری وفات کے بعد یہ مکان فروخت کر کے اس کا نکاح کسی نیک لڑکے سے کر دینا۔ ایسی ہی باتیں کرتا ہوا ، وہ بیچارہ چند روز بعد وفات پا گیا۔ اس کی وفات کے چند ماہ بعد ابو نے نور کی شادی اپنے ایک جاننے والے سے کر دی، لیکن یہ وہاں خوش نہیں اور نہ ہی اسے اولاد ہوئی ہے۔ یہ اکثر یہاں آجاتی ہے اور ہمارے ساتھ ہی رہتی ہے، امی اس کو اپنی بیٹی کی طرح چاہتی ہیں۔ سردیوں کے دن تھے۔ اسکولوں میں موسم سرما کی چھٹیاں تھیں۔ اب نور نے باقاعدہ زارا کے گھر میں رہائش اختیار کر لی تھی۔ وہ بھرے بھرے جسم کی خوش شکل لڑکی تھی۔ سفید رنگت، گھنگریالے بال، آنکھیں بڑی بڑی اور سیاہ، عنابی لبوں پر مہلکی ہلکی مسکراہٹ اس کے گول چہرے کو اور زیادہ پر کشش بناتی تھی۔ اکثر سجی بنی اور چوڑیاں ہاتھ بھر
کر پہنتی تھی، جن کی جھنکار تمام گھر میں وقفے وقفے سے سنائی دیتی تھی۔ ایک دن ہم دھوپ میں بیٹھے پڑھائی میں مشغول تھے کہ زارا نے اچانک مجھ سے عجب بات کہی۔ مس ! ابو اس نور کو بہت چاہتے ہیں۔ اسے اپنے کمرے میں بلا لیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے ؟ اگر ٹھیک ہے تو امی اس بات سے کیوں پریشان رہتی ہیں ؟ نور کو تمہارے والد نے بیٹی بنایا ہے تو اس لئے اس کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ تمہارے گھر کو میکہ خیال کر کے آتی ہے، تبھی تمہارے ابو اسے توجہ دیتے ہوں گے تاکہ یہ خود کو لاوارث اور یتیم نہ سمجھے۔ میری بات سن کر زارا خاموش ہو گئی۔ ایک دن میں اسے پڑھا کر گھر جانے لگی تو زارا کی ماں کمرے میں آنکھیں اور بیٹی سے بولیں ۔ تم باہر جائو ، مجھے تمہاری ٹیچر سے ضروری بات کرنا ہے۔ زارا کمرے سے چلی گئی تب وہ بولیں۔ میں صوفیہ ! میں زارا کی شادی کرنا چاہتی ہوں، میرے گھر کے حالات درست نہیں ہیں۔ شوہر بیٹی کی شادی پر آمادہ نہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ ابھی چھوٹی ہے ، اسے تعلیم مکمل کرنے دو۔ کیوں اتنی جلدی گھر سے نکالنا چاہتی ہو۔ دراصل ، وہ اس نوجوان لڑکی نور سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور یہ میں برداشت نہیں کر سکتی کہ میری بچی گھر پر ایسے چلن دیکھے ، اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فوراً اس کی شادی کر دوں۔ تمہاری نظر میں کوئی اچھا لڑکا ہو تو بتائو۔ میں نے ان کو سمجھانا چاہا کہ زارا ا بھی واقعی کم عمر ہے ، اس کی عمر شادی کے لائق نہیں ہوئی ہے۔ امتحان سر پر ہیں، اسے تعلیم پوری کرنے دیں، آپ کے شوہر ٹھیک کہتے ہیں۔ آپ نہیں سمجھ رہیں۔ گھر پر اگر بے حیائی کے مظاہرے ہوں گے تو بچی کے اخلاق پر کیا اثر پڑے گا جبکہ اس کی کچی عمر ہے، سو جتنی جلد اس کی شادی کر دوں ، اچھا ہے ورنہ گھر یلو حالات اس بچی کے ذہن کا ستیا ناس کردیں گے۔ فرخندہ بیگم نے مزید کہا۔ اکثر جب نور ان کے کمرے میں ہوتی ہے۔ میرے شوہر بلا جھجھک کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر دیتے ہیں تو میری بچی تجسس میں بے قراری سے گھر میں ٹہلتی ہے اور کبھی کبھی کھڑکیوں کی درزوں سے کمرے میں جھانکنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس خوف سے میں کہیں گھر کے باہر بھی نہیں جاسکتی۔ اب فروری کا مہینہ تھا۔ مارچ شروع ہونے والا تھا اور سالانہ امتحانات سر پر تھے۔ زارا بہت آپ سیٹ رہتی تھی۔ وہ پڑھائی پر بالکل توجہ نہیں دے رہی تھی اور میں فکر مند تھی کہیں کم نمبر نہ لائے ورنہ میری بھی سبکی ہو گی۔ اتوار کی چھٹی تھی۔ پیر کی شام کو گئی تو گھر سے ڈھولک کی آواز آرہی تھی۔ پانچ چھ لڑکیاں زارا کے کمرے میں اسے مہندی لگا رہی تھیں۔ میں حیران رہ گئی۔ پتا چلا کہ رشتہ طے ہو گیا ہے۔ میں نے اس کی ماں کو مبارکباد دی۔ انہوں نے بتایا کہ دو ہفتے بعد شادی ہے۔ اب پڑھائی کہاں ہونا تھی۔ پندرہ سال کے قریب بچی کی عمر اور لڑکا، وہ چالیس برس کا ہے۔ زارا کی ایک سہیلی نے بتایا۔ رنڈوا ہے مگر دولت مند بہت ہے۔ کہاں پھنسادیا تھا لڑ کی کی ماں نے اس کو ،۔
مارچ آیا، امتحان ہوئے اور جس دن زارا کا نتیجہ تھا ، اسی دن اس کی شادی تھی۔ اسکول سے پتا چلا کہ اچھے نمبروں میں پاس ہوئی ہے۔ وہ ہو نہار بچی پڑھائی کی شوقین تھی۔ خیر ، ہم اس سلسلے میں کیا کر سکتے تھے۔ ادھر لڑکی کی رخصتی ہوئی، ادھر چند دن بعد ہی اس کے باپ نے بیوی کی مار کٹائی شروع کر دی۔ کچن میں کام کرنے والی اور کھانا بنانے والی ملازمہ کو چھٹی دے دی گئی، گھر کا سارا کام کاج چولہا اور کچن کی صفائی بیگم کے سپرد۔ بیگم فیضان اب چولہا صاف کر رہی ہیں ، دونوں وقت روٹیاں پکار ہی ہیں جبکہ اس سے پہلے انہوں نے باورچی خانے کی شکل ہی دیکھی تھی۔ میں نے زارا کو ٹیوشن پڑھائی تھی۔ میرا اس کا استاد اور شاگرد کا رشتہ تھا، ۔ مجھ کو زارا سے بہت انس ہو گیا تھا، تبھی جب میں نے یہ خبر سنی تب سے میرا چین سکون ختم ہو گیا تھا۔ جلد بازی میں کی گئی اس بے جوڑ شادی کے بعد جب زارا نے اپنے دولہا کی شکل دیکھی تو وہ رونے لگی۔ وہ اس کے قابل نہ تھا۔ نہ ہی وہ اس کم سن دو شیزہ کے خوابوں کا شہزادہ تھا بلکہ شادی کے لائق ہی نہ تھا۔ وہ جب اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا، زارا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی۔ کم سن دلہن سے اپنی محرومی کا بدلہ لینے کے لئے اس نے زارا پر اتنی سختی کی کہ وہ ڈپریشن میں چلی گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ بچی نے دو بار خود کشی کی کوشش کی۔ پہلی بار اس خود کشی کے بارے میں اس کے والدین کو اطلاع نہ دی گئی۔ زارا کے شوہر نے معاملے کو چھپایا مگر دوسری بار سب کو خبر ہو گئی کیونکہ جان بچانے والے ڈاکٹر نے خود زارا کے والدین سے رابطہ کیا۔ ماں روئی لیکن باپ کیا توجہ دیتا۔ بیوی سے کہا کہ یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے ، اب خود سوگ منائو۔ میں نے تو منع کیا تھا کہ ابھی اس کی شادی کی عمر نہیں ہے، تمہیں ہی جلدی پڑی تھی۔ مجھے جو رشتہ ملا، میں نے بیاہ دی کہ عمر زیادہ ہے تو کیا ہوا، آدمی دولت مند ہے۔ یہ عیش کرے گی ، ملکوں ملکوں کی سیر کرے گی، مگر اس نے تو وہاں جا کر سوگ منانا شروع کر دیا۔ شوہر کو سکون نہ ملے تو یہی ہوتا ہے پھر … زارا کا باپ نئی بیوی کے چائو میں گم رہا۔ فرخندہ شوہر سے ناراض ہو کر اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں جا چکی تھی نہایت خوبصورت با سلیقہ اور جوان عورت ، شوہر کی بے وفائی اور بے توجہی سے چند دنوں میں مرجھا کر رہ گئی۔ وہ نحیف و نزار وقت سے کہیں پہلے بوڑھی نظر آنے لگی۔ ایک روز کچھ سودا سلف لینے بازار جانے کو نکلی، قدم د ہلیز پر رکھا ہی تھا کہ ایک چھوٹے سے زہر یلے سانپ نے پائوں پر ڈس لیا۔ اس کی سمجھ میں ہی نہ آیا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اس کا چچازاد اسی وقت گھر آیا۔ دیکھا کہ فرخندہ د ہلیز پر پائوں پکڑے پڑی ہے تو اس نے سہارا دے کر اٹھانا چاہا، مگر وہ اٹھ ہی نہ پارہی تھی، تبھی بیوی کو آواز دی۔ دونوں نے مل کر اسے پلنگ پر ڈالا اور وہ ڈاکٹر کو لینے دوڑا لیکن ڈاکٹر کے آنے تک اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
یہ ہوا زارا کی امی کا انجام ، مگر اس ساری کہانی میں سب سے المیہ کردار زار اکار رہا، جسے اس کو طلاق دے دی اور وہ اپنے باپ کے گھر آگئی۔ باپ دوسری بیوی سے صاحب اولاد ہوا تو زار اسے بالکل غافل ہو گیا۔ اس پر مالیخولیا کے دورے پڑنے لگے۔ حالت ایسی ہو گئی کہ پہروں فضائوں میں دیوانوں کی طرح گھورتی رہتی۔ منہ ہی منہ میں بڑ بڑاتی ، ہفتوں منہ ہاتھ نہ دھوتی اور نہ کپڑے بدلتی، بال الجھے ہوئے۔ ایک جگہ بیٹھتی تو گھنٹوں وہاں ہی بیٹھی رہتی اور نور اپنے دو چھوٹے جڑواں بیٹوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی۔ زارا سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی۔ ایک دوبار میں اس سے ملنے گئی اور اس کی حالت دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر کر لوٹ آئی۔ میں نور سے زیادہ بات نہیں کرتی تھی کہ اسے کچھ سمجھاتی۔ میں بھلا کون ہوتی تھی اس کے بارے میں اس کے گھر والوں کو کوئی بات کہنے والی ، وہ تو مجھے اس سے ملنے سے ہی منع کر دیتے۔ اس کے وارث تھے ، باپ زندہ تھا۔ کاش زارا کی ماں نہ مرتی تو اس کی یہ حالت نہ ہوتی ۔ وہ بیٹی کو گلے لگا لیتی ، اسے سنبھال لیتی ، اس کا ممتا کا مضبوط رشتہ تھا۔ اس کے چچا تھے ، چچازاد تھے ، خالائیں تھیں لیکن سبھی چپ رہے۔ کسی نے اس کی پاس داری نہ کی۔ مجھے سب سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ زارا ایک ہو نہار بچی تھی۔ اگر اعلیٰ تعلیم کر لیتی تو ضرور ملک کا نام روشن کرتی۔ اچھی ڈاکٹر یا ماہر تعلیم بن سکتی تھی، مگر افسوس ایک مرد کی خود غرضی کی بھینٹ چڑھ گئی اور وہ مرد کبھی اس کا اپنا باپ تھا۔ نور سے اس کے پانچ بچے ہو گئے تو اس شخص نے زارا کو بھلادیا۔ اتنا نظر انداز کیا گیا اسے کہ دیکھنے والے اسے پاگل کہنے لگے۔ نہ کھاتی پیتی اور نہ کپڑے بدلتی ۔ ناخن بڑھ گئے تو سوتیلی ماں نے ان کو کاٹنے کی زحمت بھی نہ کی۔ سر میں جو میں پڑ گئیں، بجائے سر کی صفائی کرتے ، انہوں نے اس کے خوبصورت لمبے بال ہوں نے اس کے خوبصورت سمجھے بال ہی کاٹ دیئے۔ جس روز اس کے بال کاٹے جارہے تھے وہ پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی۔ آخر اسے اتنی تو سمجھ تھی کہ اس کے پیارے خوبصورت بالوں پر سر منڈھنے کی مشین پھیری جارہی ہے۔ پھر ایک دن اس کے والد نے بغرض علاج اسے پاگل خانے داخل کرادیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ علاج ہوا یا نہیں، میں نہیں جانتی کہ میں اس کے گھر اب نہیں جاسکتی تھی کیونکہ نور بر امانتی تھی۔ اب گھر پر اس کا راج تھا، وہی اس گھر کی مالکہ تھی۔ جس کو چاہتی آنے دیتی، جس کو چاہتی نہ ملتی۔ کتنے برس گزر گئے، میری شادی ہو گئی ، بچے ہو گئے ، اب بھی میں اس معصوم پیاری سی لڑکی کو نہیں بھول سکی۔