آپا شمیم میری ٹیچر تھیں، وہ ہمیشہ ایک ہی درس دیا کرتی تھیں کہ ایمانداری سے بڑی کوئی خوبی نہیں ہوتی۔ ہمیشہ ایماندار رہنا اور انصاف سے کام لینا، وہ ایک اور بات بھی ہمارے ذہن نشین کیا کرتی تھیں، یاد رکھنا کہ ٹاپ کرنے والوں کے لئے ہمیشہ اعلیٰ ترین منصب خالی رہتا ہے۔ میں نے ان کی کہی ہوئی یہ دونوں باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر لی تھیں۔
آپا شمیم کی اپنی کہانی بڑی سبق آموز ہے، جب پاکستان وجود میں آیا ہزاروں خاندانوں کی مانند ان کے گھر والے بھی ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ آپا شمیم کے والد دوران ہجرت شہید ہوگئے اور چچا اسی سفر کے دوران جان کی بازی ہار گئے۔ خواتین میں کچھ رشتہ داروں کے ہمراہ ان کی والدہ اور نانی سلامت پہنچ سکیں۔ ہجرت کے وقت آپا شمیم کی عمر نو برس تھی۔ جب وہ بارہ برس کی ہوئیں ان کی والدہ نے کفالت کے سہارے کی خاطر نکاح ثانی کر لیا۔
آپا شمیم صرف سال بھر والدہ اور سو تیلے والد کے ہمراہ رہ سکیں۔ نانی کی وفات کے بعد جو ان کے پاس ہی رہا کرتی تھیں، آپا شمیم سے ایک اور مضبوط سائبان چھن گیا۔ وہ سوتیلے والد کے رویّے سے مضطرب و بے چین تھیں۔ ان دنوں وہ گورنمنٹ گرلز اسکول میں ساتویں کی طالبہ تھیں۔ ایک روز ان کی کلاس ٹیچر آپا زہرا نے ان کو کلاس میں چپکے چپکے آنسو بہاتے دیکھا۔ وہ کئی دنوں سے نوٹ کر رہی تھیں کہ یہ بچی پریشان اور مضطرب رہتی ہے۔ آج روتے پا کر انہوں نے اپنی اس لائق شاگرد کو بلا کر افسردگی کی وجہ دریافت کی۔ آپا زہرا کے شفقت بھرے لہجے سے اپنائیت کی خوشبو محسوس کرتے ہوئے اس معصوم لڑکی نے ان پر اپنا حال دل کھول دیا۔ بتایا کہ وہ اپنے سوتیلے باپ کے رویّے سے شاکی ہیں اور ان کے گھر میں رہنا نہیں چاہتیں۔ آپا زہرا نے ان کی والدہ کو بلوا کر کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو بچی کو میں اپنے پاس رکھ لوں۔
زہرا آپا بے اولاد تھیں اور خاوند بھی وفات پا چکے تھے۔ وہ اکیلی رہتی تھیں۔ آپا شمیم کی والدہ نے کچھ دیر سوچا اور پھر انہوں نے بیٹی کو استانی زہرا کے سپرد کر دیا، یوں وہ اپنی اس مشفق ٹیچر کی بیٹی بن کر ان کے گھر منتقل ہو گئیں اور تمام عمر ان کے گھر قیام پذیر رہیں۔
وہ اب آپا زہرا کی بیٹی کہلاتی تھیں اور وہ بھی ان کو اپنی اولاد جیسا چاہتی تھیں، یہاں تک کے جس مکان میں قیام پذیر تھیں وہ بھی اپنی زندگی میں اپنی اس لے پالک بیٹی کے نام کردیا تاکہ ان کی وفات کے بعد آپا شمیم بے گھر نہ ہو جائیں یا کوئی ان کو اس گھر سے نہ نکال دے۔ یہ پرانے وقتوں کے فرشتہ صفت لوگ تھے آجکل کے طمع پرست اور لالچی دور میں ایسے نایاب لوگ کہاں؟ میں نے ساتویں سے دسویں جماعت تک آپا شمیم سے پڑھا اور وہ ہمیشہ میرے ساتھ کمال شفقت سے پیش آتیں، اتفاق سے ہمارا گھر بھی اسی محلے میں تھا جہاں ان کا گھر تھا لہٰذا ہم ایک ہی تانگے میں اسکول آتے جاتے تھے۔
گریجویشن کے بعد میری شادی ہو گئی۔ اب کبھی کبھی آپا سے ملاقات ہو جاتی۔ جب ہمارے شہر میں گرلز کالج کا قیام عمل میں آیا تو شمیم آپا اس وقت تک ایم اے کر چکی تھیں لہٰذا ان کو اپنے شہر کے اس واحد کالج میں لیکچرار ہونے کا شرف حاصل ہو گیا۔
وہ نہایت فرض شناس اور مقبول اساتذہ میں شمار ہوتی تھیں۔ ان کے سینکڑوں شاگرد تھے جو ان کی بے حد عزت کرتے تھے۔ آپا نے شادی نہ کی کیونکہ ان کو اپنے تعلیمی کیریئر میں دلچسپی رہی کہ میٹرک سے ایم اے اور ایم ایڈ تک آتے آتے ان کے سر میں چاندنی اتر آئی اور شادی کی عمر نکل گئی۔ میں دل سے آپا کی قدر کرتی تھی۔ میرے خاوند کا تبادلہ ایک بار اپنے شہر میں ہو گیا تو میں نے اپنے چھوٹے بچوں کی وجہ سے میکے کے قریب رہنا پسند کیا۔ یوں ایک بار پھر آپا کی رہائش کے نزدیک رہائش پذیر ہونے کا موقع ملا۔ آپا شمیم کو یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ میں ان کے پڑوس میں آ گئی ہوں، جب وقت ملتا میرے گھر آجاتیں۔ ایک روز وہ آئیں تو بہت پریشان تھیں۔ وہ جب پریشان ہوتیں میرے پاس آجاتیں۔ بولیں، بڑی پریشانی ہے۔
آخر ایسا کیا مسئلہ ہے کچھ بتایئے تو ایک بچی جس نے ایف ایسی سی کا امتحان دیا ہے۔ اس کے نمبر بڑھوانے کو میرے پاس سفارشیں آ رہی ہیں۔ جبکہ بچی نے درحقیقت کم نمبر لئے ہیں، اگر میں ا یسا کروں تو محنتی اور لائق بچیوں کا حق مارا جائے گا یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔
تو مت کیجئے آپا میں میاں سے بات کروں گی زیادہ کوئی پریشان کرے تو مجھے بتایئے گا۔ میں نے انہیں تسلی دی تو وہ سکون میں آ گئیں۔ اس کے بعد کافی دن نہیں آئیں، میں بھی بچوں کے کاموں میں ایسی مصروف ہوگئی کہ ان کی طرف نہ جا پائی۔ ایک روز پتا چلا کہ آپا کا تبادلہ بہت دور دراز جگہ کر دیا گیا ہے جہاں روزانہ کا آنا جانا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا وہ وہاں چلی گئی ہیں اور کرائے کا گھر لے کر رہ رہی ہیں۔ حقیقت معلوم کرنے میں ان کے گھر گئی، جہاں وہ پہلے رہتی تھیں۔ وہاں تالا لگا ہوا تھا، ان کے ساتھ والے گھر میں آپا زہرا کی بھابھی رہتی تھیں۔ ان سے آپا کا پوچھا، انہوں نے کہاں ہاں ان کا تبادلہ ہو گیا ہے۔
اچھا جب آئیں تو ان کو پیغام دے دیجئے گا کہ وہ مجھ سے ملنے میرے پاس ضرور آئیں۔ اس واقعے کے دو ماہ بعد ایک روز آپا آ گئیں۔ وہ بہت دلگرفتہ تھیں، میں نے خیر خیریت دریافت کی تو روہانسی ہو گئیں۔ بولیں میں یہ سمجھتی تھی کہ ایمانداری ہی سب کچھ ہے۔ اور پڑھانے میں جو سکون و عزت ہے کسی اور پیشے میں نہیں ہے۔ اب سوچتی ہوں تو عجیب سا لگتا ہے آج سے کچھ عرصہ پہلے کتنی با اعتماد اور مضبوط ہوا کرتی تھی۔ مگر اس واقعہ نے تو مجھے اس قدر توڑ ڈالا کہ اب ہر قدم پر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ کسی وقت اچانک پائوں تلے سے زمین کھسک جائے گی اور میں اوندھے منہ جا گروں گی۔
تم جانتی ہو کہ میں نے کیسے نامساعد حالات میں سخت جدوجہد کے بعد تعلیم پوری کی ہے۔ جب یہاں کالج نہ تھا ،داخلہ فارم لانے کے لئے لاہور کا سفر اختیار کرنا پڑا تھا۔ پرچے دینے لاہور جاتے تھے۔ میرے ساتھ جانے والا کوئی نہ ہوتا تھا تو کسی اسٹوڈنٹ کی والدہ سے درخواست کرتی کہ میرے ساتھ چلیں، ان دنوں کب خواتین کا اکیلے سفر کرنے کا رواج تھا۔ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے آئے دن لاہور کا سفر کیا کرتے تھے۔ خواہ محکمہ تعلیم سے متعلق کام ہوتے یا کسی اور محکمے کے متعلق۔ ہیڈ آفس تو سینکڑوں میل دور تھے۔ اپنے ساتھ محرم نہ ہونے کی وجہ سے ہم جیسی اکیلی خواتین کو کیسی تکالیف برداشت کرنی پڑتی تھیں۔ یہ کوئی ہم سے پوچھے۔ مگر اتنی محنت و مشقت کے باوجود میں نہ تھکتی تھی۔ اپنا سفر جاری رکھا، پرائیویٹ پڑھا، پرچے دیئے آخر اپنی منزل پالی۔ لیکچرار ہو گئی تو یک گونہ طمانیت کا احساس ہوا کہ جو سکھ ٹیچر کے دامن میں قدرت ڈال دیتی ہے وہ انعام ہوتا ہے اس کے باضمیر ہونے کا۔ اور ایک اچھا استاد تو باغبان کی مانند ہوتا ہے۔ جو اپنے شاگردوں کی شخصیت کی مہکتے پھولوں کی طرح آبیاری کرتا ہے کہ جن کی خوشبو سے دنیا کا چمن مہک جاتا ہے۔
ہمیں کسی صلے اور انعام کا لالچ کب ہوتا ہے۔ ہمارا انعام تو یہ ہوتا ہے کہ ہمارے لگائے ہوئے پودے تناور درخت بن جائیں تو ہماری محنت کا صلہ مل جاتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں ڈبڈبا آئی تھیں۔
میں چاہتی تھی کہ آپا اب اصل بات کی طرف آجائیں اور بتائیں کہ معاملہ کیا ہے جس کی وجہ سے وہ ذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔ اچھا تو آپا شمیم اصل مسئلہ کیا ہے، یہ بتایئے۔
تم جانتی ہوکہ امتحانات کے بعد طالب علم پرسکون ہو جاتے ہیں لیکن ہم پرچے چیک کرنے والوں کا اصل امتحان شروع ہوجاتا ہے۔ ہر وقت یہی خیال رہتا ہے کہ ہمارے قلم کی ایک ہلکی سی جنبش سے بھی کسی طالب علم سے ناانصافی نہ ہو جائے۔ ورنہ طالب علم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا امکان رہتا ہے۔
آپا … آپ نے تو کسی سے کبھی ناانصافی نہیں کی۔ ہمیشہ صحیح نمبر دیتی ہیں۔ ہاں میں ہمیشہ مکمل ذہنی سکون کی حالت میں بچیوں کے پرچے چیک کرتی ہوں۔ میری طبیعت خراب ہو یا موڈ درست نہ ہو تو میں پرچے چیک نہیں کرتی۔ سارے دن میں صرف بیس پرچے دیکھتی ہوں تاکہ مکمل سکون کی حالت میں ہر طالبہ کے ساتھ انصاف کر سکوں اور کسی نالائق کے نمبر بڑھانے کی تو قائل ہی نہیں ہوں کیونکہ اس طرح تعلیم کا معیار گر جاتا ہے۔ درست ہے آپا تو اب مسئلہ کیا ہے۔
مسئلہ یہ کہ اس سال ایف ایس سی کے امتحانات ختم ہوئے تو پرچوں کا ایک بنڈل چیکنگ کے لئے میرے پاس آیا۔ ہمارے چیک کردہ پرچے دوبارہ ’’ہیڈ ایگزامنر‘‘ کے پاس ری چیکنگ کے لئے جاتے ہیں تاکہ اگر ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اسے درست کر دیا جائے۔ ایک روز جب میں پرچے چیک کر رہی تھی تو میرے گھر پر ایک خاتون آ گئیں، بتایا کہ محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوں اور میری چھوٹی بہن کا پرچہ آپ کے پاس چیک ہونے آیا ہے۔ آپ اس کے نمبر بڑھا دیجئے۔ ہم دونوں ایک ہی پیشے سے وابستہ ہیں اس وجہ سے آپ اتنا تو لحاظ کر لیں گی۔
کمال کی بات ہے آپ نے معلوم کر لیا کہ آپ کی بہن کا پرچہ میرے پاس چیک ہونے آیا ہے۔ جی ہاں… ہمارے کافی لوگ محکمہ تعلیم میں ہیں۔ میں نے اندازہ کر لیا کہ یہ بآسانی ٹلنے والی نہیں ہے۔ اسے میں نے کہہ دیا کہ اچھا… اپنی بہن کا رول نمبر دے جائیں میں دیکھ لوں گی کہ کتنی گنجائش نکل سکتی ہے۔ گنجائش کی بات نہ کریں، دو چار نمبر بڑھانے سے اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اچھے خاصے نمبر بڑھانے ہیں تاکہ وہ میڈیکل کالج میں داخلہ لے سکے۔
میں حیران تھی کہ خود محکمہ تعلیم سے وابستہ ہونے کے باوجود اس خاتون کو اس محکمے کے تقدس کا کوئی پاس نہ تھا۔ ان کے جاتے ہی میں نے پرچوں سے ان کی بہن کا رول نمبر والا پرچہ الگ کیا۔ اس لڑکی کے نمبر اتنے کم تھے کہ اس کو میرٹ لسٹ تک لانے کے لئے مجھے کم از کم تیس بچیوں کے ساتھ ناانصافی کرنی پڑتی، تبھی میں نے وہ پرچہ بھی نکال کر الگ کیا۔ جس بچی نے تمام طالبات سے زیادہ نمبر لئے تھے میں اس بچی کے ساتھ ظلم نہ کر سکتی تھی کہ اس کو اور اس جیسی بچیوں کو لسٹ میں پیچھے کر کے ایک نالائق لڑکی کو اوپر لے آئوں۔ یہ ضمیر نے گواراا نہ کیا۔ آسیہ بھی اپنی بیٹی عذرا کا رول نمبر لکھ کر دے گئی تھی لہٰذا اس کا پرچہ الگ کرنے میں آسانی ہو گئی۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ عذرا نے اچھے نمبر لئے تھے، وہ واقعی محنتی تھی اور میڈیکل کالج میںداخلے کی جائز حق دار تھی۔
اگلے روز میرے استاد
محترم تشریف لائے اور کہا، بیٹی ایک کام سے آنا پڑ گیا ہے۔ آنا تو نہ چاہتا تھا۔ مگر مجبور کیا گیا تو آ گیا ہوں۔ حکم کیجئے میں نے سر سے احتراماً کہا، وہ بولے۔ بیٹی میرے ایک پرانے واقف کار ہیں، صاحب حیثیت ہیں۔ آج بڑی حجت کی ہے کہ میری بیٹی سائرہ کا پرچہ شمیم کے پاس ہے… نمبر بڑھوانے ہیں تاکہ میڈیکل کالج میں داخلہ ہو جائے۔ اگر ایسا ممکن ہو تو یہ کام کر دو بیٹی۔ میں نے کہا۔ استاد محترم آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن اس لڑکی کے بہت کم نمبر ہیں۔ ایک دو نمبر کم ہوتے تو شاید بات بن جاتی لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ آپ اس پرچے کو دیکھ لیجئے اور اپنے ہاتھ سے جتنے نمبر چاہتے ہیں خود بڑھا لیجئے۔ انہوں نے پرچہ دیکھا، اور سر جھکا لیا اور بغیر مزید اصرار کئے بغیر وہ چلے گئے۔
وہ ہمارے استاد تھے۔ ہمیشہ ایمانداری کا درس دیا کرتے تھے۔ کیسے ایسا کام کر سکتے تھے، تاہم اتنا کہہ گئے۔ بیٹی یہ سیاسی لوگ ہیں۔ بارسوخ بھی ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ تمہیں کسی مشکل میں ڈال دیں، اسی لئے چلا آیا تھا۔
ابھی اس صدمے سے نکلی نہ تھی کہ اگلے دن ہماری ایک ساتھی تشریف لائیں بولیں۔ سائرہ کی والدہ نے بھیجا ہے تمہارے پاس۔ ان کا خیال ہے کہ تمہیں اس کام کے لئے کچھ معاوضہ درکا ہے بولو جو مانگتی ہو۔ پچاس ہزار یا اس سے زیادہ۔ ان دنوں پچاس ہزار پچاس لاکھ سے بڑھ کر تھے میرا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
کچھ دیر زبان گنگ رہی۔ چند لمحوں میں قوت گویائی بحال ہوئی تو میں نے کہا محترمہ نہ پچاس نہ اس سے زیادہ… یہ محکمہ تعلیم ہے جس کا اپنا تقدس ہے، میں کسی معاوضہ کے عوض کسی لائق محنتی بچی کا حق نہیں مار سکتی۔ داخلہ میڈیکل کالج میں اسی کو ملے گا جو اس کی مستحق ہو گی۔ میرا ٹکا سا جواب سن کر وہ بولیں۔ ضد نہ کرو ورنہ اس ضد کی وجہ سے ضرور کسی مشکل میں پڑو گی۔ ایسا نہ ہو کہ نوکری ہی چھوڑنی پڑ جائے۔
ایک ہفتہ بعد میرے ’’ہیڈ ایگزامنر ‘‘ کا پیغام ملا۔ مس شمیم آپ کس دنیا میں رہتی ہیں ذرا سوجھ بوجھ سے کام لیجئے جو کام آپ نہیں کرنا چاہ رہیں، وہ کسی اور طریقہ سے ہو جائے گا۔ لیکن آپ کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ یہ پیغام میرے لئے شدید ذہنی کرب کا باعث بنا میں نے تمام پرچے ان کو بھجوا دیئے۔ چند دن بعد پرچے دوبارہ میرے پاس آ گئے۔ جو کام میں نہ کر سکی تھی وہ میرے اعلیٰ افسر نے خود اپنے ہاتھ سے کر دیا تھا۔ انہوں نے اول نمبر پر آنے والی طالبہ کے دس نمبر کم کر دیئے تھے اور عذرا کے زیادہ کر دیئے تھے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ لائق طالبات کے نمبروں میں ردو بدل کیا تھا۔ اب مجھے فائنل لسٹ بنانی تھی۔ اور لسٹ پر دستخط کرنا تھے۔ میں اس ناانصافی کو برداشت نہ کر سکی، دونوں بچیوں کے سابقہ نمبر درج کر کے دستخط بھی کر دیئے اور لسٹ ان کو بھجوا دی۔
اس کے بعد کیا ہوا، وہ نہیں بتا سکتی۔ بس یہ سمجھ لو کہ آسیہ کی بیٹی عذرا کو داخلہ نہ مل سکا لیکن جو لسٹ میں آخر سے کچھ اوپر تھی میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ ایک نالائق نے ایک لائق لڑکی کا حق مار کر اس غریب محنتی بچی کو تاریک مستقبل کی طرف دھکیل دیا اور اس کی سیٹ بااثر فیملی کی دختر ہونے کے سبب حاصل کر لی۔
میرے خلاف تادیبی لیٹرزکا سلسلہ چل نکلا، سزا دوردراز پہاڑی علاقے میں تبادلہ بھی کر دیا گیا۔ اب یہ عالم ہے کہ خود پر اعتماد ختم ہو گیا ہے جب بچیوں کو کہتی ہوں کہ ایمانداری بہت بڑی خوبی ہے اور اس کا صلہ عزت و تکریم کی صورت میں ملتا ہے تو زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔ دھکے کھائے تو پتا چلا کہ ہمارے اس معاشرے میں ایمانداری کا کیا صلہ ہے۔
سب کہتے ہیں تم کو کیا ہو گیا ہے،کیا بتائوں کہ مجھے سوچوں کی دیمک لگ گئی ہے۔ جو رفتہ رفتہ میرے وجود کو چاٹ رہی ہے، اب تو جلد تھک جاتی ہوں۔ زیادہ محنت کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ سوچتی ہوں میں فرد واحد کمزور پڑ گئی، آگے معاشرہ کا کیا ہو گا۔
آپا شمیم کی مایوسی دیکھ کر بہت دکھ ہوا اب تو مرحومہ کو وفات پائے بھی بیس برس سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن میں اپنی ان محترم ٹیچر کو آج تک بھلا نہیں پائی ہوں۔ یہ کہانی لکھنے کا میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ جو محنت کر رہے ہیں، محنت نہ کریں اور جو ایمانداری پر یقین رکھتے ہیں وہ اس یقین سے تہی دامن ہو جائیں۔ میں اب بھی اپنے بچوں کو کہتی ہوں، بچو… ایمانداری سے بڑھ کر کوئی شے نہیں اور محنت کرنے والوں کے لئے اعلیٰ ترین منصب ہمیشہ منتظر رہتا ہے۔ تاہم آج کا معاشرہ بے ضمیر لوگوں کے کارناموں کی منہ بولتی تصویر آج آپ کے سامنے ہے۔
(س ۔ ض ۔لاہور)