یہ آج سے تیس برس قبل کا ذکر ہے۔ خالہ اپنے منہ بولے بیٹے قاسم کے ساتھ مجھے راولپنڈی لے جارہی تھی۔ ریل میں اپنی نشستوں پر بیٹھ کر ہم نے سکون کا سانس لیا کیونکہ رش بہت تھا۔ ان دنوں گرمی سے برا حال تھا۔ دم گھٹ رہا تھا۔ خدا خدا کرکے ریل چل دی۔ لوگ کچھ دیر کی ہلچل کے بعد اپنی اپنی سیٹوں پر قرار سے براجمان ہوگئے۔ جدھر ہم بیٹھے تھے، کوئی سیٹ خالی نہ تھی لیکن ایک نوجوان جو خوش شکل تھا اور چہرے مہرے سے شریف لگ رہا تھا ، کافی دیر سے اوپر والی نشست کا ڈنڈا تھامے کھڑے کھڑے سفر کررہا تھا۔
ریل کو رواں ہوئے جب ایک گھنٹہ گزر گیا اور اسے کہیں بیٹھنے کو جگہ نہ ملی تو خالہ نے مجھے اور قاسم کو کہا کہ تم لوگ ذرا سکڑ کر بیٹھو اور اس مسافر کے لئے جگہ نکالو۔ راولپنڈی کا کافی فاصلہ ہے، یہ کب تک یونہی ایستادہ سفر طے کرے گا۔
میں کھڑکی کی جانب بیٹھی تھی، پھر خالہ اور اس کے بعد قاسم بیٹھا تھا۔ ہم نے سرک کر جگہ بنادی۔ یوں ہماری برتھ کے آخری سر ے پر اس نوجوان کو بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔
اس عنایت پر وہ کافی مشکور ہوا۔ خالہ اور قاسم کا شکریہ ادا کیا۔ کچھ دیر خاموشی رہی، پھر وہ اور قاسم باتیں کرنے لگے۔ جلد ہی ان کی دوستی ہوگئی۔
باتوں باتوں میں قاسم نے بتایا کہ خالہ کی کوئی اولاد نہیں تھی لہٰذا اس نے میری بہن کو گود لیا ہے۔ یہ بھی بتایا کہ یہ میری سگی بہن نہیں ہے بلکہ سوتیلی ماں کی بیٹی ہے۔
قاسم کی باتیں کچھ کچھ میرے کانوں میں بھی پڑ رہی تھیں۔ میں سوچ رہی تھی۔ یہ کتنا بے وقوف ہے۔ اسے ذاتی باتیں ایک اجنبی کے گوش گزار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ریل کا سفر تو لمحاتی پہچان کا حامل ہوتا ہے ۔ سفر تمام ہوتے ہی مسافر اپنی اپنی منزلوں پر چلے جاتے ہیں اور پھر کبھی نہیں ملتے۔
کچھ دیر بعد خالہ کمر سیدھی کرنے اوپر کی برتھ پر جاکر لیٹ گئیں کیونکہ یہ ہماری برتھ تھی۔ اب نچلی برتھ پر ہم تینوں رہ گئے۔ نوجوان نے قاسم کو بتایا کہ اس کا نام ولی محمد ہے اور فیصل آباد میں رہتا ہے جہاں اس کے والد کی کپڑے کی دکان ہے۔ وہ لوگ خوشحال تھے۔ وہ پشاور ریشمی غیرملکی کپڑے کے تھان لینے جارہا تھا۔ ولی محمد کے والد سفر نہیں کرسکتے تھے ،تبھی اسے بھیجا تھا۔
گویا ہماری منزل ایک تھی اور ہم ایک ہی شہر کے رہنے والے تھے۔ تبھی قاسم سے ولی محمد کی دوستی ہوگئی۔ پنڈی کے اسٹیشن پر اترے تو قاسم نے کہا۔ یار پشاور تو کل جائو گے، اس وقت ہوٹل جانے کی بجائے ہمارے ساتھ قیام کرو۔ ہم خالہ کے یہاں چلتے ہیں، گھر جیسا آرام ملے گا۔
ولی محمد نے لاکھ انکار کیا مگر قاسم نے اصرار کرکے اس کو ساتھ آنے پر مجبور کردیا۔ وہ اپنا بیگ اٹھائے ہمارے ساتھ ہولیا۔ خالہ نے بھی اس نوجوان کو مہمان بنانے پر کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ خوشی خوشی گرم جوشی سے اسے گھر میں لا بٹھایا۔
خالہ کا گھر خوشنما اور صاف ستھرا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا۔ ماہم بیٹی… مہمان کے لئے بستر لگادو اور جلدی کھانا بنائو تاکہ یہ گھر کا گرم گرم کھانا کھائے۔
خالہ نے قاسم کے اس نئے دوست کی خاطر تواضع میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسے بھی یہاں بے حد راحت اور سکون نصیب ہوا تھا۔ رات کو سونے سے پہلے ولی محمد نے اپنا بٹوہ خالہ کو دیا کہ اسے حفاظت سے رکھ لیں۔ اس میں لاکھ روپیہ ہے۔ یہ کپڑے کے تاجر کو دینا ہے۔ پھر وہ سکون سے سوگیا۔
صبح سویرے ناشتہ کے بعد ولی محمد نے جانے کی اجازت مانگی تو خالہ نے اس کا بٹوہ حوالے کیا کہ بیٹے یہ لو اپنی امانت۔ لیکن پشاور سے واپسی میں فیصل آباد جاتے ہوئے ضرور ہماری طرف ہوکر جانا۔
وقت ملا تو ضرور آئوں گا۔ اس نے ایک بار پھر مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد کافی دیر تک خالہ اور قاسم، ولی محمد کے بارے میں باتیں کرتے رہے کہ کتنا اچھا لڑکا ہے، یقیناً یہ کسی اچھے خاندان کا ہے۔ دو دن گزر گئے قاسم نے ولی محمد کو فون کیا۔ خیریت دریافت کرنے کے بعد تقاضا کیا کہ واپسی میں ہم سے ملتے جانا پھر نجانے کب ملاقات ہو۔ خالہ نے بھی فون پر اصرار کیا تو ولی محمد نے ہامی بھرلی اور اگلے روز وہ ہمارے گھر آگیا۔ اس وقت قاسم گھر میں نہ تھا۔ خالہ نے اسے بہت پیار سے بٹھایا۔مجھ سے کہا فوراً چائے بنا کر لائو اور گرم گرم کھانا تیار کرو۔ تب تک قاسم بھی آجائے گا۔
میں نے چائے بنائی اور ولی محمد کو دی۔ پھر کچن میں کھانا بنانے چل گئی۔ تب تک خالہ اس کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتی رہیں۔ شام کو ولی محمد نے واپس جانے کی اجازت مانگی، تب خالہ بولیں۔ بیٹا اگر ایک روز ٹھہر جائونا، ماہم اور قاسم کو بھی جانا ہے، اکٹھے چلے جانا، سفر اچھا کٹ جائے گا۔
ولی محمد سوچ میں پڑگیا۔ انکار کرے یا اقرار۔ مہمان نوازی کے احسان تلے دبا ہوا تھا۔ انکار کرتے ہوئے ہچکچا رہا تھا۔ میرے والدین فیصل آباد میں رہتے تھے۔ والدہ سوتیلی تھیں تبھی خالہ نے مجھے گود لیا تھا۔ اپنے والد کے گھر کم جاتی۔ وہ بیمار تھے اور ان کا گردے کا آپریشن تھا تبھی قاسم اور میں دوبارہ وہاں جارہے تھے۔
ولی محمد ایک رات ہماری خالہ کے گھر رک گیا۔ اگلے روز ہم تینوں اکٹھے اسٹیشن گئے۔ ولی محمد نے ہمارا بھی ٹکٹ لے لیا۔ ٹکٹ کے پیسے قاسم سے نہیں لئے۔ ایک ہی ڈبے میں جگہ لی تھی لہٰذا قاسم اور ولی محمد تمام راستے باتیں کرتے آئے جبکہ میں کونے والی نشست پر بیٹھی رسالہ پڑھتی رہی۔ جب نیند آنے لگی تو اوپر کی برتھ پر جاکر لیٹ گئی۔
فیصل آباد میں ہم سب اتر گئے ۔ ولی محمد نے اپنے گھر کا پتا قاسم کو دے دیا اور پھر وہ ہم سے جدا ہوگیا۔ وہ اپنے گھر چلا گیا اور ہم اپنے گھر آگئے۔ اب قاسم روز ہی فون کرتا تھا۔ دونوں فون پر بات کرتے۔ قاسم نے گھر پر مدعو کیا مگر وہ ہمارے گھر نہیں آیا۔ خالہ بھی فون کرتیں، قاسم سے ولی محمد کا ضرور پوچھتیں۔
ابو کا آپریشن ہوگیا۔ میں ایک ماہ ابو کے گھر رہی۔ پھر خالہ پنڈی سے لینے آگئیں۔ تب انہوں نے قاسم سے کہا کہ ولی محمد کو فون کرکے بلائو۔ بہت اچھا لڑکا ہے، چاہتی ہوں کہ اس سے ملتی جائوں۔ لگتا تھا ولی محمد خالہ کے حواسوں پر چھاگیا ہے۔ خالہ کے کہنے پر قاسم نے فون کیا۔ ولی محمد شام کو آگیا۔
خالہ اسے دیکھتے ہی خوش ہوگئیں۔ بولیں۔ بیٹا ولی محمد، میں روز ہی تمہارا انتظار کرتی ہوں۔ تم پھر پنڈی نہیں آئے؟ میں نے تم کو کہا تھا کہ تم میرے لئے قاسم کی طرح ہو۔ پھر تم کیوں میرے گھر نہیں آتے؟
اس بار پشاور گیا تو واپسی میں ضرور پنڈی آپ کے گھر آئوں گا۔ اس نے خالہ کا خلوص دیکھ کر ان کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا اور وعدہ کرلیا ۔ خالہ مجھے لے کر پنڈی آگئیں۔ ایک ماہ بعد ولی محمد آیا تو سیدھا اسٹیشن سے ہمارے گھر آگیا۔ خالہ بہت خوش ہوئیں اور پہلے کی طرح آئو بھگت کی۔ بولیں ، تم میرے بھانجے کے دوست ہو تو میرے بیٹے کی طرح ہو۔ اس گھر کو اپنا ہی گھر سمجھو۔ جتنے دن چاہے رہو۔
قاسم فیصل آباد میں تھا۔ پھر بھی خالہ اصرار کررہی تھیں کہ ولی محمد کہیں ہوٹل وغیرہ میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تمہارا ہی گھر ہے۔
ولی محمد نے جان لیا کہ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے، تبھی اس نے ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔ بہانہ کیا کہ ایک دوست کو دیکھنے اسپتال جانا ہے، رات وہاں ٹھہرنا ہے، صبح آجائوں گا۔ بہرحال خالہ نے مجھے حکم دیا۔ جلدی سے مرغی کا عمدہ قورمہ اور چاول تیار کرو۔ میرا بیٹا آیا ہے۔
کھانا وغیرہ کھا کر ولی محمد دوبارہ آنے کا کہہ کر رات کو ہمارے گھر سے چلاگیا۔ اگلے روز خریداری میں مصروف رہا اور خالہ اس کے انتظار میں گھلتی رہیں۔ تیسرے دن وہ آگیا اور بتایا کہ جلدی جانا ہے، ٹھہروں گا نہیں، بس خدا حافظ کہنا ہے۔ خالہ روہانسی ہوگئیں۔ ولی محمد نے ان کی اداسی کو محسوس کرلیا۔ بولا۔ آپ نے مجھے بیٹا کہا ہے تو بتائیے کوئی کام ہے تو میں حاضر ہوں۔
کام تو ہے بیٹا… خالہ نے جھجکتے ہوئے کہا۔ ماہم کے معدے میں تکلیف ہے، اس کو ڈاکٹر کو دکھانا ہے، اگر کچھ رقم قرض دے دو تو جلد لوٹا دوں گی لیکن قاسم سے ذکر مت کرنا۔ ولی محمد نے پانچ ہزار روپے دیئے اور کہا جلد لوٹانے کی فکر نہ کرنا، جب چاہے لوٹا دینا۔
مجھے خالہ کی یہ بات ناگوار گزری کیونکہ ایک غیرآدمی سے قرض لیا تھا۔ بھلا اس کا ہم سے کیا رشتہ تھا۔ ریل میں ہی تو ملا تھا۔ اچھا آدمی تھا مگر ہمارے بارے میں کیا سوچتا ہوگا۔
جانے کیوں میں نہ چاہتی تھی کہ یہ شخص ہمارے بارے میں کوئی غلط رائے قائم کرے۔ تاہم خالہ کی اپنی فطرت تھی۔ ان کی روش پر میں اعتراض کی جرأت نہ رکھتی تھی کیونکہ ابا کے گھر پر سوتیلی ماں کا راج تھا اور وہ مجھ کو قطعی برداشت نہیں کرتی تھی۔ دو دن بھی نہ رہنے دیتی اور جھگڑا شروع کردیتی۔
دو ماہ بعد خالہ نے خود ہی ولی محمد کو فون کردیا اور پوچھا بیٹے کہاں ہو، کیا پنڈی آنا نہیں ہوا۔ اس نے بتایا پشاور میں ہوں اور آج کل میں پنڈی آنا ہوگا۔ تبھی خالہ نے کہا۔ بیٹے ہم پرسوں لاہور جارہے ہیں، وہاں میری ایک رشتے کی بھانجی رہتی ہے جو بہت بیمار ہے۔ اس کی عیادت کو جانا ہے۔ اکیلے سفر سے گھبرا رہی ہوں۔ اگر تم ساتھ چلو تو یہ تمہارا احسان ہوگا۔
انہوں نے کچھ اس طرح التجا کی کہ ولی محمد کو ہامی بھرتے ہی بنی۔ دوسرے روز وہ آگیا ۔ خالہ نے بتایا ماہم بھی ساتھ جائے گی۔ اسے اکیلے گھر میں نہیں چھوڑ سکتی۔ اس کا بھی ٹکٹ لینا ہے۔ ولی محمد نے تین ٹکٹ لئے اور مقررہ وقت ہم ریل گاڑی میں سوار ہوگئے۔
کچھ دیر خالہ ہمارے بیچ بیٹھی رہیں، پھر وہ تھکن کا بہانہ کرکے اوپر والی برتھ پر جاکر لیٹ گئیں۔ اب میں اور ولی محمد ایک سیٹ پر رہ گئے۔ میں اس کے برابر بیٹھی تو کچھ گھبراہٹ ہونے لگی۔ مجھے خالہ پر غصہ آنے لگا کہ ناحق ولی محمد کو ساتھ لیا جبکہ ہم پہلے کئی بار پنڈی سے لاہور اور پھر فیصل آباد اکیلے سفر کرچکے تھے۔
رات آٹھ بجے ہم لاہور پہنچے۔ ولی محمد نے کہا۔ خالہ آپ نے جہاں جانا ہے، بتائیے آپ کو چھوڑ دوں گا، پھر فیصل آباد چلا جائوں گا۔ خالہ بولیں۔ بیٹا یہ وقت کسی بیمار کے گھر جانے کا نہیں ہے۔ ان کے تو اسپتال کے چکر لگ رہے ہیں۔ ہم اس وقت کسی ہوٹل میں ٹھہر جاتے ہیں، صبح ان کے گھر چلے جائیں گے۔ پھر بولیں لیکن ہم دو عورتیں اس وقت اکیلی کسی ہوٹل میں کیسے ٹھہریں گی؟ بہتر ہوتا کہ تم بھی ہمارے ساتھ ٹھہر جاتے اور کل صبح فیصل آباد چلے جاتے۔ اس نئی فرمائش پر وہ بیچارا بوکھلا گیا۔ کچھ سوچ کر کہنے لگا۔ جیسی آپ کی مرضی۔ میں دوسرا کمرہ کرایے پر لے لیتا ہوں۔ اس کی ضرورت نہیں ہے، تم کوئی غیر ہو۔ مجھے اپنی اولاد کی طرح ہو۔ میرے بیٹے ہو، ہم ایک کمرے میں رہ لیں گے۔
وہ شریف آدمی چپ ہوگیا۔ ایک کمرے کرایے پر لے لیا۔ اسٹیشن سے نزدیکی ہوٹل تھا اور درمیانے درجے کا تھا۔ جب میں ہاتھ منہ دھونے واش روم چلی گئی تو خالہ کی آواز میرے کانوں میں آئی۔ وہ ولی محمد سے کہہ رہی تھیں۔ ’’بیٹا تم شادی شدہ تو نہیں ہو کیونکہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ میری ماہم تم کو دل سے پسند کرنے لگی ہے، وہ میری لاڈلی بیٹی ہے، اس کی خوشی میری خوشی ہے۔ اور اسی کی خاطر میں تمہارے ساتھ یہاں آئی ہوں۔
خالہ کا لہجہ ایسا تھا کہ میں شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ ولی محمد بھی پریشان تھا۔ جب میں باہر نکلی، وہ خجل سا بیٹھا تھا۔ خالہ فوراً غسل خانے چلی گئیں۔ اب میں اور ولی محمد تنہا رہ گئے۔ تبھی اس نے کہا۔ یہ کیا معاملہ ہے۔ تمہاری خالہ کیسی عورت ہے؟ میں ان کو ماں جیسی سمجھتا تھا اور انہوں نے ایسی بات کہی کہ اب سوچ میں پڑگیا ہوں۔ میں تم کو اپنے دوست کی بہن سمجھ کر یہاں تک آٰگیا۔ آپ لوگوں کے بارے کوئی غلط بات سوچ بھی نہیں سکتا۔
ابھی کچھ جواب بھی نہ دینے پائی تھی کہ خالہ غسل خانے سے نکلیں اور کہنے لگیں۔ میں ذرا سامنے اسٹور سے کچھ چیزیں خریدنے جارہی ہوں، ابھی آئی۔ انہوں نے ہم کو ایک لفظ کہنے کا بھی موقع نہ دیا اور کمرے سے نکل گئیں۔
ولی محمد خالہ کو جاتے حیرت سے دیکھ رہا تھا جو اپنی جوان لڑکی کو ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اس وقت رات کے دس بجنے والے تھے۔ آخر اتنی رات دونوں کو تنہا چھوڑ کر جانے کا کیا مقصد تھا۔
ولی محمد کا موڈ بے حد خراب تھا، اس نے کڑوے لہجے میں مجھ سے پوچھا۔ ماہم سچ سچ بتائو یہ کیا معاملہ ہے۔ مجھے اپنے ساتھ یہاں لانے کا کیا مقصد تھا۔ اور تم لوگ اپنے رشتے دار کے گھر جانے کی بجائے ہوٹل میں کیوں آگئی ہو؟
اس کے کڑے تیور دیکھ کر میں سہم گئی۔ سوچا یہ موقع ہے کہ سچ بتادوں ورنہ عمر بھر کا پچھتاوا رہ جائے گا۔
ولی بھائی میں غلط لڑکی نہیں ہوں مگر خالہ ٹھیک نہیں۔ سگی بھانجی کو غلط راہ پر چلانا چاہتی ہیں۔ وہ کسی دولتمند لڑکے کو پھنسانے کے چکر میں ہیں مگر ایسے معاملات میں سوائے ذلت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دولت مند رشتے ایسے نہیں ملتے۔
تم احتجاج کیوں نہیں کرتی ہو۔ ایسی خالہ کے ساتھ کیوں رہتی ہو؟
سوتیلی ماں رہنے نہیں دیتی۔ قاسم بھی میرا سگا بھائی نہیں۔ اسے میری پروا نہیں۔ خالہ سے اکثر روپے مانگنے آجاتا ہے۔
تمہاری خالہ کا ذریعہ آمدنی کیا ہے؟
ایک مکان ہے جو خالو مرنے سے پہلے ان کے نام کرگئے تھے۔ اس کے کرایے پر گزارہ کرتی ہیں۔ اس نے حقارت سے دوہزار روپے میرے سامنے پھینکے اور بولا۔ میں جارہا ہوں یہ رقم تم اپنی خالہ کو دے دینا۔
اس توہین پر میں رونے لگی۔ روتا دیکھ کر وہ ٹھہر گیا۔ سچ بتادوگی تو مدد بھی کروں گا۔ جھوٹوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔
مجھے الفاظ نہ مل رہے تھے کیسے کہوں… مگر یہی وقت تھا بری راہوں سے بچنے کا۔ میں نے ہمت کرکے کہا۔ مجھے خالہ نے کہا تھا ولی محمد امیر لڑکا ہے اور تمہیں اسے پھانسنا ہے، وہ اسی لئے یہاں لائی ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک ڈاکٹر کے ساتھ اسی طرح واقفیت پیدا کی تھی مگر وہ دو دن ہمارے ساتھ رہ کر چلا گیا۔ جاتے ہوئے خالہ سے کہا کہ میں شادی شدہ ہوں، اس لئے شادی کرنے سے مجبور ہوں مگر وہ مجھ بن بیاہی کو بیاہی کر کے چلا گیا۔
کیا اپنے والد کا پتا دے سکتی ہو؟ میں نے اسے والد کا پتا دے دیا۔ پھر وہ ہوٹل سے چلا گیا۔ خالہ آئی تو میں نے بتایا کہ ولی محمد چلا گیا ہے۔ وہ افسردہ ہو گئیں اور بستر پر منہ لپیٹ کر پڑ گئیں۔
ولی محمد میرے والد کے پاس گیا اور ان کو تمام احوال کہہ کر غیرت دلائی کہ تمہاری بیٹی شریف لڑکی ہے اور تم نے کبھی خبر نہ لی۔ وہ کن مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ سوتیلی ماں اسے برداشت نہیں کر سکتی۔ غیرت مند بنو اور ایسی بیوی کو چلتا کرو ورنہ اپنی بچی کی دیکھ بھال خود کرو۔
ابو، ولی محمد کی باتوں کو سن کر سکتے میں آگئے۔ وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ سگی خالہ ایسی بدقماش ہو سکتی ہے۔
دو روز کے اندر اندر ابو، ولی محمد کے والدین کے ہمراہ آ کر مجھے لے گئے اور پھر میرا نکاح ولی کے ساتھ ہو گیا کیونکہ اس نے اپنے والدین سے خواہش کی تھی کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ یوں خالہ جو چاہتی تھی، وہ تو ہو گیا مگر باعزت طریقے اور والدین کی رضا مندی سے ہوا۔ خدا مجھ پر مہربان تھا کیونکہ میں واقعتاً بری لڑکی نہ تھی۔ پانچ وقت نماز پڑھتی تھی اور ہر نماز کے بعد اپنے اللہ سے یہی دعا کرتی تھی کہ وہ مجھے برائی کے جہنم سے بچا لے۔ ایک شریف شوہر اور شریفانہ زندگی عطا کرے۔
ولی محمد بے شک بہت امیر آدمی ہے اور ان کا کروڑوں کا بزنس ہے۔ لیکن میں نے کبھی دولت کا لالچ کیا اور نہ کبھی مادّی آسائشوں کی تمنا کی۔ عزت کی زندگی جینا چاہتی تھی۔ میرے اللہ نے مجھے عزت کی زندگی کے ساتھ ساتھ از خود دولت کے انعام اور نوازشوں سے نواز دیا۔ وہ جب چاہے جس کو جتنا دے، وہ بے نیاز ہے۔ مگر دولت مندوں سے رشتے اس طریقے سے نہیں ہوتے جس طریقے سے خالہ کرنا چاہتی تھیں۔
خالہ کے تمام کرتوت میں نے ولی محمد کو نہ بتائے۔ اس نے بھی ابو کو تمام باتوں سے آگاہ کرنا مناسب نہ سمجھا ورنہ ممکن تھا کہ ابو خالہ کا گلا دبا دیتے۔ میں خالہ سے زیادہ اپنے والد کو ہی قصوروار سمجھتی ہوں جنہوں نے دوسری شادی کر کے نئی نویلی سے اتنا عشق فرمایا کہ اپنی سگی اولاد کو بھی بھلا دیا۔ کبھی کسی باپ کو ایسا نہ کرنا چاہئے کہ دوسری بیوی کو خوش رکھنے کی خاطر اپنی بیٹی کو رشتے داروں کے حوالے کردے۔ ہونایہ چاہئے کہ ایسا مرد جس نے دوسری شادی کی ہو، نئی بیوی پر کڑی نظر رکھے کہ وہ اس کی پہلی اولاد سے کیا سلوک رَوا رکھتی ہے۔ اولاد کو کبھی کسی کے سپرد ہر گز نہ کرنا چاہئے۔ بچے باپ کی کڑی نگاہ کے نیچے ہی ٹھیک رہتے ہیں۔ شادی کے بعد ولی محمد نے کبھی مجھے خالہ کے گھر جانے اور ان سے ملنے کی اجازت نہ دی۔ وہ ان کو ایک بری عورت کہتے ہیں۔ (م… لاہور)