’’مسٹر ایم حسان؟‘‘ حمیرا نے دھیمی آواز میں استفسار کیا۔ جب اس شخص نے اثبات میں سر ہلا دیا تو وہ بولی۔ ’’میں مسز افتخار ہوں۔‘‘
دبلے پتلے اور قدرے زرد رُو شخص نے رومال ایک طرف رکھ کر گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’آپ نصف گھنٹہ تاخیر سے آئی ہیں۔ بہرحال مجھے افسوس ہے کہ ہماری پہلی ملاقات ایک ناخوشگوار واقعے کے پس منظر میں ہورہی ہے۔ تشریف رکھیے۔‘‘
حمیرا نے ذرا جھجکتے ہوئے اندر آکر سیٹ سنبھال لی۔ اس کے ذہن میں اب بھی سوالات جنم لے رہے تھے۔ اس شخص نے اسے اپنے آفس میں کیوں بلایا تھا اور وہ بھی یوں چلی آئی جیسے اس کا ملنا اس اجنبی شخص سے ضروری ہو۔
چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ دوبارہ بولا۔ ’’مسز افتخار! کیا آپ اس ملاقات کی نوعیت جانتی ہیں؟‘‘
حمیرا کو اس کا سوال عجیب لگا تاہم وہ جواباً نفی میں اپنا سر ہلاتے ہوئے بولی۔ ’’جی نہیں، میں پہلی بار یہاں آئی ہوں اور آپ کے ایک ہی خط پر یہاں کیوں چلی آئی۔‘‘ اس سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنے دل کی بات کہہ ہی ڈالی۔
’’بات آپ کی بھی غلط نہیں ہے لیکن ان حالات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جس خاتون کے شوہر کی اچانک رحلت ہوجائے اور وہ بھی کسی جانکاہ حادثے میں تو اسے شوہر کے حوالے سے ان لوگوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے جن کا تعلق رہا ہو۔‘‘
’’بات کیا ہے؟‘‘ حمیرا نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’بات یہ ہے کہ آپ کے شوہر ہمارے ہاں جاب کرتے تھے۔ آپ کو اس فرم کے بارے میں انہوں نے بتایا ہوگا۔‘‘
’’جی نہیں، مجھے انہوں نے کبھی نہیں بتایا۔‘‘ حمیرا نے کہا۔ ’’نہ ہی مجھے یہ معلوم تھا کہ وہ کوئی جاب بھی کرتے تھے۔‘‘
اس کی بات پر حسان کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے حیرت کے آثار امڈے۔ پھر وہ قدرے طنزیہ لہجے میں بولا۔ ’’میرا خیال ہے آپ واحد بیوی ہیں جنہیں اپنے شوہر کے بارے میں یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ کہاں اور کس نوعیت کی جاب کرتے ہیں۔‘‘
’’آپ نے ان کے کوئی واجبات ادا کرنے ہیں تو بتائیں۔ میں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتی۔‘‘ حمیرا نے کسی قدر تلخی سے کہا۔
’’واجبات تو ہمارے ان پر تھے۔‘‘ حسان نے کہا۔
’’میرا پھر ان سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘ حمیرا یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’اگر واجبات لینا ہوتے تو یہ سب آپ کو اچھا لگتا۔‘‘ وہ زہر بھرے لہجے میں بولا۔
’’میں خود یہاں نہیں آئی، آپ نے مجھے خط کے ذریعے بلایا تھا مسٹر!‘‘
’’دیکھیں خاتون… واجبات تو اب آپ کو دینا ہوں گے۔ آپ کے مرحوم شوہر نے ایڈوانس سیلری کے طور پر…‘‘
’’خداحافظ۔‘‘ حمیرا نے اس کی بات کاٹ دی اور دروازے کی طرف بڑھی۔
عقب سے اس کی سماعتوں میں تہدیدی الفاظ ٹکرائے۔ ’’میں آپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔‘‘
’’بڑے شوق سے… میں بھی ہتک عزت کا دعویٰ محفوظ رکھتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دروازے سے باہر نکل گئی۔
اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا۔ وہ جلتی بھنتی گھر پہنچی۔ خود کو کوسنے لگی کہ کسی اجنبی کے خط پر کیوں اس طرح منہ اٹھائے چلی آئی۔ اسے تذلیل کا احساس ہورہا تھا۔
٭…٭…٭
شام میں اس کے اپارٹمنٹ کی کال بیل بجی۔ اس نے دروازہ کھولا تو بے اختیار اس کے منہ سے ایک گہری سانس خارج ہوگئی۔ وہ کرائم برانچ کا انسپکٹر رشید تھا۔
’’جی! فرمایئے؟‘‘ حمیرا نے بیزاری سے پوچھا۔
’’میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ میرا خیال ہے آپ کو قانون سے تعاون کرنا چاہیے۔‘‘ انسپکٹر رشید اس کے چہرے کے تاثرات اور لہجے کی تلخی کو بھانپتے ہوئے بولا۔
’’تشریف لایئے۔‘‘ حمیرا نے کہا اور دونوں ڈرائنگ روم میں آگئے۔
’’میرا خیال ہے میرے شوہر کا مرڈر نہیں ہوا۔ وہ ایک حادثہ تھا اس کے لیے اتنی لمبی چوڑی تفتیش کی ضرورت تو نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ حمیرا نے تلخ سا تبصرہ کیا۔
انسپکٹر اس کے چہرے پر اپنی گھاگ نظریں جماتے ہوئے بولا۔ ’’یہ آپ کا خیال ہے مگر قانون اور شواہد کچھ اور کہتے ہیں۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’یہی کہ آپ کے شوہر کو چلتی ٹرین سے دھکا دے کر گرایا گیا ہے۔‘‘
’’اب مجھ سے مزید کیا پوچھنا چاہتے ہیں آپ…؟‘‘
’’ہمیں پتا لگا ہے آپ کے شوہر مختلف شناخت رکھتے تھے اور وہ کچھ غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔‘‘
’’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا؟‘‘ حمیرا چونکی۔ اس کا دل انجانے خدشات تلے تیزی سے دھڑکنے لگا۔
’’پولیس تفتیش کا دائرہ جب وسیع ہوتا ہے تو ایسے ہی انکشافات سامنے آتے ہیں جس سے ہمیں مدد ملتی ہے۔‘‘
’’میں آپ کے لیے کیا کرسکتی ہوں۔‘‘
’’کیا آپ کو اپنے شوہر کی ایسی کسی سرگرمی کا علم تھا؟‘‘
’’ہوتا بھی تو کیا آپ میرے بیان پر بھروسہ کرلیتے کہ میرا جواب ظاہر ہے انکار میں ہی ہوتا۔‘‘
’’مجھے آپ کی یہ صاف گوئی پسند آئی مسز افتخار…!‘‘ انسپکٹر رشید نے مسکرا کر کہا۔
’’مجھے آپ اور کتنا تنگ کریں گے؟‘‘ بالآخر وہ زچ ہوکر بولی۔
’’اسے تنگ کرنا نہیں، قانون سے تعاون اور مدد کرنا کہتے ہیں۔‘‘
’’جی…!‘‘ حمیرا نے ہولے سے کہا۔ ’’ایک عورت جو پہلے ہی دکھی ہو اور…‘‘
’’اپنے شوہر سے طلاق بھی لینا چاہتی ہو۔‘‘ انسپکٹر رشید نے طنزیہ انداز میں جملہ پورا کیا تو حمیرا اس کی طرف خوف زدہ سی نگاہوں سے تکنے لگی۔ اس کی سماعتوں میں ارم ٹریڈرز کے ایم حسان کے تہدیدی الفاظ بھی گونجنے لگے۔
انسپکٹر کو اس پر ترس آگیا۔ ہولے سے کھنکار کر بولا۔ ’’میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں خاتون! بس آپ ہم سے کچھ نہ چھپائیں۔‘‘
’’میں آپ سے کچھ نہیں چھپا رہی ہوں آفیسر!‘‘
’’میں آپ کو خوف زدہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ حقیقتاً میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ آپ کی جان بھی خطرے میں ہے۔‘‘
انسپکٹر کے اس انکشاف نے حمیرا کو سرتاپا لرزا دیا۔ وہ ہکلائی۔ ’’کک… کیا مطلب؟‘‘
’’جی ہاں! مگر آپ فکر نہ کریں اور اپنے شوہر سے متعلق اور اس کے دوستوں کے بارے میں جو کچھ آپ بتا سکتی ہیں، بتا دیں۔‘‘
حمیرا سوچنے اور کچھ یاد کرنے کے انداز میں خاموش ہوگئی۔ انسپکٹر نے بھی اسے سوچنے کا موقع دیا۔ تھوڑی دیر گزر گئی اور جب اس نے کچھ بتانے سے معذوری ظاہر کردی تو انسپکٹر نے اپنی جیب سے ایک لفافہ نکالا اور چار تصویریں اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولا۔ ’’انہیں پہچانتی ہیں آپ…؟‘‘
حمیرا نے تصویریں اس کے ہاتھ سے لے کر ان کا جائزہ لیا اور جواباً بولی۔ ’’یہ چاروں افتخار کے دوست ہیں اور میں نے کل پہلی بار انہیں دیکھا تھا۔ میری سہیلی سلمیٰ بھی وہاں موجود تھی۔ یہ لوگ اسی کی موجودگی میں تعزیت کے لیے آئے تھے۔‘‘
اس کی بات سن کر انسپکٹر کی آنکھوں میں چمک سی ابھری۔ وہ بولا۔ ’’یعنی آپ کے کہنے کے مطابق آپ انہیں پہلے سے نہیں جانتی تھیں اور نہ انہیں کبھی دیکھا تھا؟‘‘
’’جی ہاں! میں نے اس روز پہلی بار ان کے چہرے دیکھے تھے۔‘‘
’’کوئی بات تو انہوں نے آپ سے نہیں کی تھی؟‘‘
’’جی نہیں! ماسوائے تعزیت کے۔‘‘
’’ٹھیک…!‘‘ انسپکٹر نے کہا۔ ’’اب آپ محتاط رہیے گا۔ یہ لوگ آپ سے دوبارہ رابطہ کرسکتے ہیں اور جو کہیں وہ آپ نے مجھے فوراً بتانا ہے۔ میں آپ کو اپنا سیل نمبر دے دیتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا سیل نمبر حمیرا کو نوٹ کرا دیا جو اس نے اپنے موبائل پر سیو کرلیا۔
’’یہ مجھ سے بھلا کس سلسلے میں رابطہ کرنا چاہیں گے انسپکٹر؟‘‘ حمیرا نے پوچھا۔
’’ہماری تفتیش کے مطابق آپ کا شوہر اور یہ چاروں کسی خاص منصوبے میں مصروف تھے۔ وہ پایۂ تکمیل تک پہنچ چکا تھا یا پھر اس میں ایسی کوئی کمی رہ گئی تھی جس کے سبب افتخار کو قتل کردیا گیا۔‘‘
’’اوہ!‘‘ حمیرا کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ’’تت… تو کیا اب وہ نامعلوم منصوبہ یہ لوگ میرے ذریعے پورا کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’خاصی ذہین ہیں آپ!‘‘ انسپکٹر رشید نے توصیفی لہجے میں کہا اور آگے بولا۔ ’’جی ہاں! میرا جواب اثبات میں ہے۔‘‘
’’مم… میں ان کے کسی منصوبے میں شامل نہیں ہونا چاہتی اور نہ ہی میرا ان سے کوئی تعلق ہے۔ میں یہ شہر ہی چھوڑ دوں گی۔‘‘
’’ہرگز نہیں!‘‘ انسپکٹر رشید نے منع کیا۔ ’’آپ جرأت سے کام لیں۔ قانون آپ کا ہر طرح سے تحفظ ہی نہیں کرے گا بلکہ مدد بھی کرے گا۔ آپ ایک باہمت خاتون ہیں۔‘‘
ایسے میں ایک بار پھر حمیرا کے کانوں میں ارم ٹریڈرز والے ایم۔ حسان کے تہدیدی الفاظ یاد آنے لگے۔ اس نے سوچا کہ قانون سے تعاون کرنا اس کے مفاد میں بھی ہوسکتا ہے۔ اگر حسان اس کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کرنا چاہے گا تو یہی قانون اس کی مدد کرسکتا ہے۔
’’انسپکٹر! میں خود کو تنہا محسوس کررہی ہوں۔ پتا نہیں یہ کیا پراسرار معاملہ ہے۔ کہیں دانستہ طور پر میں ان چاروں کے چکر میں نہ آجائوں۔‘‘
’’ایسا بالکل نہیں ہوگا۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔ آپ بس مجھے ان سے متعلق ہر بات کی خبر کرتی رہیں۔‘‘
’’آپ کچھ چھپا رہے ہیں انسپکٹر! میرا خیال ہے آپ بہت کچھ معلوم کرچکے ہیں۔‘‘ حمیرا نے شاکی نگاہوں سے پولیس آفیسر کی طرف دیکھا۔
’’میں نے کہا تھا نا آپ بہت ذہین ہیں اور باہمت بھی…‘‘ وہ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ ’’میرا جواب اثبات میں ہے لیکن ابھی میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا۔ جب تک کہ ان چاروں افراد کی قلعی صحیح طرح نہیں کھل جاتی۔ وعدہ ہے آپ سے میرا کہ میں پھر آپ سے کچھ نہیں چھپائوں گا۔‘‘
’’اوکے انسپکٹر…!‘‘ حمیرا نے کہا اور وہ اس کا شکریہ ادا کرکے چلا گیا۔
٭…٭…٭
افتخار کے لیے اب حمیرا کا دل دکھ سے بھر گیا تھا۔ وہ اب تک یہی سمجھتی رہی تھی کہ افتخار کسی دوسری عورت کے چکر میں تھا۔ اس کے ساتھ بے وفائی کررہا تھا مگر اب یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہ محض اس کی غلط فہمی تھی۔ اس کی عزیز سہیلی سلمیٰ کا بھی یہی خیال تھا کہ وہ جلد بازی سے کام لے رہی ہے اور افتخار سے طلاق لینا اس کی غلطی ہے۔ مگر اب کیا فائدہ وہ تو قتل ہوچکا تھا۔ اس کا پیار بھرا خط اس کی محبت میں ڈوبی ہوئی تحریر اسے سب یاد آنے لگے۔ وہ دکھی ہونے لگی۔
لیکن پھر جلد ہی اس کے دکھ پر خوف غالب آگیا جس کے بارے میں انسپکٹر رشید نے اسے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ افتخار کے وہ چاروں دوست اس کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس لئے اب اس جذباتیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ پولیس نجانے کن خطرناک مجرموں کو پکڑنے کے لیے اس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتی تھی۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ یہ شہر چھوڑ دے گی۔ اپارٹمنٹ یوں بھی کرائے کا تھا۔ افتخار اس کے لیے تھوڑا بہت چھوڑ کر گیا ہوگا۔ وہ خود بھی ایک پرائیویٹ کمپنی میں جاب کرتی تھی جو معمولی سہی مگر گزارہ ہوجاتا تھا۔ کچھ دن سکون کے گزر جائیں گے۔
جب اس نے افتخار کا اکائونٹ چیک کیا تو اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ اکائونٹ میں چند ہزار روپوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ وہ تو چند لاکھ کی توقع کیے بیٹھی تھی۔ اسے معلوم ہوگیا کہ وہ ایک پھکڑ شخص تھا۔ اس کا دماغ سن ہونے لگا۔ وہ اب اپارٹمنٹ کا کرایہ کیسے دے گی؟ اس نے سوچا وہ یہ اپارٹمنٹ پہلی فرصت میں چھوڑ دے گی اور ادھر ہی ایک کمرے والا اپارٹمنٹ لے لے گی جو اس کے لیے کافی ہوگا۔ سامان تو سارا نیلام ہوگیا تھا۔ اپنی محدود ضروریات کے لیے وہ تھوڑا بہت سامان خرید لے گی اور بس…! مستقبل کی پلاننگ کرتے ہوئے اسے تھوڑا سکون ملا لیکن دوسرے ہی لمحے اسے خیال آیا وہ دنیا میں اکیلی تھی۔ ماسوائے ایک گہری اور اچھی دوست سلمیٰ کے۔
اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، خود کو ایک بوڑھی خاتون کے ہاں ہی پایا تھا۔ جو خود کو اس کی خالہ کہتی تھی۔ وہ بھی غریب تھی۔ کپڑے سی سی کر اس نے حمیرا کو پالا پوسا اور تھوڑا بہت پڑھا بھی دیا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد اس نے افتخار سے شادی کرلی۔ بقول اس کے اتنا بڑا فیصلہ اس نے جلد بازی میں کیا۔ وہ افتخار کے رکھ رکھائو سے اسے پیسے والا نہیں تو کم ازکم قدرے خوشحال سمجھتی تھی۔
بہرطور…اسے احساس تھا کہ ایک اکیلی عورت جو معمولی سی ملازمت کرتی ہو، اس دنیا میں اس کا جینا کس قدر کٹھن تھا مگر اب اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ دوسری بار جلد بازی سے کام نہیں لے گی۔
ابھی وہ شہر چھوڑ کر نہیں جاسکتی تھی۔ یہ نوکری اسے بڑی دوڑ دھوپ کے بعد ملی تھی۔ پھر پتا نہیں دوسرے شہر میں کیا حالات ہوں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پاس خاطر خواہ رقم نہیں تھی۔ جس سے وہ اپنی زندگی میں لگنے والے اس جھٹکے کو تھوڑے دنوں تک سہنے کی کوشش کرتی۔ حسان الگ اس کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ وہ اس پر کیس کرنے کی تیاری کررہا تھا۔ وہ سخت پریشان ہوگئی۔ اسے اس جھٹکے سے سنبھلنے کے لیے کچھ رقم کی ضرورت تھی۔ اس نے سوچا سلمیٰ سے مدد لی جائے۔
لہٰذا وہ یہ سوچ کر سلمیٰ کو فون کرنے کے لیے اٹھی۔ سیل فون اس کا قریب تپائی پر دھرا تھا۔ ابھی اس نے وہ اپنے ہاتھ میں لیا ہی تھا کہ اس کی بیل بجی۔ اس نے یہ سوچ کر کان سے لگایا کہ سلمیٰ کی کال ہوگی مگر اسکرین پر ایک اجنبی نمبر آرہا تھا، جلدی میں وہ دیکھ نہ سکی۔
’’محترمہ! میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ دوسری جانب سے ایک اجنبی مردانہ آواز سن کر وہ ٹھٹھک گئی۔
’’آپ کون…؟‘‘ اس نے سرد لہجے میں پوچھا۔
’’میرا نام حماد ہے۔‘‘
’’میں آپ کو نہیں جانتی۔‘‘ حمیرا نے خشک لہجے میں کہا۔
’’کل میں تعزیت کے لیے آپ کے پاس آیا تھا اور بعد میں میرے تین دوست بھی آئے تھے۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے اپنے اور ساتھیوں کے حلیوں کی نشاندہی کی اور آگے بولا۔ ’’امید ہے اب آپ نے پہچان لیا ہوگا۔‘‘
’’اوہ!‘‘ حمیرا اسے فوراً پہچان گئی۔ اس نے پوچھا۔ ’’آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’آپ کے شوہر کے بارے میں چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ بہتر ہوگا کہ ڈنر ریسٹورنٹ میں کیا جائے۔ آج رات بہتر رہے گا۔‘‘
حمیرا خاموش رہی۔ وہ جواب دینے کے لیے الفاظ کا انتخاب کررہی تھی۔ ’’لل… لیکن آج رات…؟‘‘ پھر ایک لمحہ توقف کے بعد اس نے خشک لہجے میں کہا۔ ’’لیکن میں کسی اجنبی کے ساتھ اس طرح کی ڈیٹنگ بالکل پسند نہیں کرتی مسٹر!‘‘
’’یہ ڈیٹنگ ہرگز نہیں ہے، محض ایک کاروباری گفتگو ہے۔ اس کا تعلق ایک خطیر رقم سے ہے جس سے آپ بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور یوں بھی اس وقت آپ کو رقم کی سخت ضرورت ہے۔‘‘ حماد نے کہا تو حمیرا کا دل ’’خطیر رقم‘‘ کا سن کر یکبارگی زور سے دھڑکا۔ وہ جواب کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ وہ بولا۔ ’’آج رات ٹھیک رہے گا۔ میں آپ کو لینے آرہا ہوں۔‘‘
’’پلیز مسٹر حماد…! میری بات تو سنیے۔‘‘ حمیرا نے انکار کرنا چاہا لیکن دوسری جانب سے سلسلہ منقطع ہوگیا۔
وہ بیڈ کے کنارے بیٹھ گئی۔ ’’اب کیا کروں؟‘‘ وہ بڑبڑائی اور خالی نگاہوں سے ہاتھ میں پکڑے فون کو تکتی رہی۔ وہ اچانک ہی خود کو تنہا محسوس کرنے لگی۔ تنہائی کے درد کا اسے پہلی بار اندازہ ہورہا تھا اور غیر محفوظ تو وہ اسی روز سے خود کو محسوس کرنے لگی تھی جب انسپکٹر رشید دوسری بار اس سے ملا تھا۔ کوئی تو ایسا ہو جو ان حالات میں اس کی رہنمائی کرے۔ سلمیٰ! اس کے ذہن میں یہ نام ابھرا یا پھر انسپکٹر رشید… نہیں، وہ تو اسے تعاون کے نام پر کسی نئی مصیبت میں پھنسانا چاہ رہا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ حماد سے ملنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ بالآخر اس نے فیصلہ کیا۔ وہ اسے کسی خطیر رقم کا حصہ دار بنانا چاہ رہا تھا مگر وہ رقم تھی کس کی؟ ضرور اس کے مقتول شوہر کی ہوگی جو کہیں پھنس گئی تھی اور حماد اس سلسلے میں اس کی مدد کرنا چاہتا تھا تو کیا برائی تھی؟ وہ مختلف انداز سے سوچنے لگی۔ اس میں سے اگر اسے بھی حصہ دے دیا جاتا تو سودا گھاٹے کا نہیں تھا۔ دروازے پر پھر دستک ہوئی۔
’’صبر ذرا…‘‘ اس نے کہا مگر دستک مسلسل ہونے لگی۔ ’’اوہو… یہ اماں نجو بھی بائولی ہوگئی ہے۔‘‘ وہ جھلا کر بڑبڑاتی ہوئی دروازہ کھولنے کے لیے لپکی اور دوسرے ہی لمحے اس کے حلق سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ یہ وہی شخص تھا۔
’’میں حماد ہوں۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’آ… آپ اتنی جلدی اور…‘‘ آواز حمیرا کے حلق میں پھنس گئی۔
وہ اس کی بات کاٹ کر بولا۔ ’’میں آپ کے برابر والے اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں۔‘‘
’’اوہ…‘‘ حمیرا کے منہ سے اتنا ہی نکل پایا۔
٭…٭…٭
حمیرا کی بیوگی کا آج چوتھا روز تھا وہ گولڈ پلازہ کی دوسری منزل کے ریسٹورنٹ میں حماد کے ساتھ بیٹھی تھی۔ ایک کسک بار بار اس کے دل میں اٹھ رہی تھی۔ انسپکٹر رشید کی باتوں کی روشنی میں وہ سوچ رہی تھی کہ کہیں حماد، افتخار کا قاتل تو نہیں؟ جاننا چاہیے۔ ہدایت یہی تھی کہ وہ ان سے ملے اور ان کی باتیں سنے پھر مطلع کرے۔ وہ یہی کررہی تھی۔
آٹھ بج چکے تھے۔ حمیرا نے شہر کے مغربی حصے کی طرف دیکھا۔ یہاں سے اکیس کمرشل اسٹریٹ صاف نظر آتی تھی۔ وہ ایک آہ بھر کے سوچنے لگی۔ اسی شاہراہ کے چوتھے اپارٹمنٹ میں سات ماہ قبل افتخار اسے دلہن بنا کر لایا تھا اور آج وہ اس بھری دنیا میں تنہا رہ گئی تھی۔
حمیرا نے شاہراہ سے نظریں ہٹا کر حماد کی طرف دیکھا جو اس کے لیے اجنبی تھا اور اجنبی بھی کیسا جس سے اسے جان کا خوف تھا۔ پھر بھی وہ اس کے ساتھ ڈنر کے لیے چلی آئی تھی۔ بسا اوقات انسان اس قدر الجھا ہوا اور پریشان ہوتا ہے کہ اس کی عقل مائوف ہوجاتی ہے۔ پریشان کن حالات میں وہ صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس میں انسپکٹر رشید کی حوصلہ افزا ہدایت بھی کارفرما تھی کہ وہ ان چاروں سے بھاگنے کی کوشش نہ کرے بلکہ ان کا راز جاننے کی کوشش کرے اور اب وہ یہی کر رہی تھی مگر اس کی زیادہ دلچسپی خطیر رقم کے سلسلے میں تھی۔
’’تمہارا ذاتی نام کیا ہے مسٹر حماد؟‘‘ حمیرا نے اس کی طرف دیکھ کر کسی خیال کے تحت پوچھا۔
’’ہر شخص کا نام اس کا ذاتی ہی ہوتا ہے۔ ڈنر میں کیا پسند کرو گی؟‘‘ وہ ٹال گیا۔ حمیرا نے اپنے کندھے اچکائے۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ شخص اپنے بارے میں کچھ نہیں بتائے گا۔
’’تم افتخار کے دوست ہو؟‘‘ اس نے پھر سوال کیا۔
’’نہیں۔‘‘ حماد نے انکار میں سر ہلایا۔
’’لیکن تم اس سے واقف تو ضرور ہو گے؟‘‘
’’کسی حد تک۔‘‘
’’سنو!‘‘ حمیرا نے اس بار ذرا متانت سے کہا۔ ’’تم نے اس شرط پر مجھے ڈنر کے لیے مدعو کیا تھا کہ میرے شوہر کے بارے میں گفتگو کرو گے۔‘‘
’’ہم اسی بارے میں تو باتیں کررہے ہیں۔‘‘ حماد نے جواب میں کہا۔
’’ہم نہیں… صرف میں افتخار کے بارے میں باتیں کررہی ہوں۔‘‘ حمیرا نے نیپکن ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔ اسے اب غصہ آنے لگا تھا۔ یہ کچھ زیادہ ہی چالاک بننے کی کوشش کررہا تھا۔
’’مسز افتخار…!‘‘ حماد نے نیپکن سے منہ پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’سچ یہ ہے کہ میں افتخار کے بارے میں گفتگو کرنے نہیں آیا۔‘‘
’’پھر تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ حمیرا نے اس کی طرف دیکھا۔ اسے یہ ملاقات ضائع جاتی محسوس ہوئی۔ اسے لگا جیسے وہ کسی فضول کام میں پھنس گئی ہے۔
’’افتخار کی دولت کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ حماد نے اچانک اس کے مطلب کی بات کی۔ شاید وہ حمیرا کے تیور بھانپ گیا تھا۔
’’کیسی دولت؟‘‘ حمیرا نے حیرت کا اظہار کیا۔
’’اگر اس کی دولت تمہارے پاس ہے تو ہم دونوں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘
’’دولت اور میرے پاس …؟‘‘ حمیرا طنز سے بولی۔ ’’کسی دولت کی تو تم بات کررہے تھے۔‘‘
’’ہاں! میں نے احتیاطاً پوچھا تھا۔‘‘ وہ بولا اور چند لمحے توقف کے بعد انکشاف کے انداز میں کہا۔ ’’میرے پاس چند اطلاعات ہیں۔‘‘
’’اطلاعات!‘‘ وہ ہنسی۔ ’’جب تمہیں یہی نہیں پتا کہ وہ دولت کہاں ہے تو تمہاری اطلاعات کی کیا قدر و قیمت ہوسکتی ہے؟‘‘
جواب میں حماد نے مستحکم لہجے میں کہا۔ ’’مجھے پورا یقین ہے تم اپنے شوہر کے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں۔ لیکن میں سب جانتا ہوں تاہم میں اس کی حالیہ سرگرمیوں سے بے خبر ہوں۔ شادی کے بعد تم سے اس نے کیا کچھ کہا ہوگا اس دولت کے بارے میں، اس سلسلے میں تاریکی میں ہوں۔‘‘
’’مثال کے طور پر کس سلسلے میں…؟‘‘ حمیرا نے پوچھا۔
’’اپنے اور تمہارے دفاع کے لیے کسی قاتل سے بچنے کے لیے…جس نے بھی افتخار کو قتل کیا، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا ہوگا۔‘‘
’’مجھے یقین ہے کہ وہ اب بھی سرگرم عمل ہوگا۔‘‘ حمیرا نے کہا اور حماد کی آنکھوں میں جھانکنے لگی۔
’’احتیاط سے کام لیں مسز افتخار!‘‘ وہ بولا۔ ’’بعض چاقو دودھاری ہوتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی افتخار کا قاتل ہوسکتا ہے لیکن میرے پاس ایسی ٹھوس شہادتیں ہیں جن کی بنا پر میں اس الزام سے بری ہوسکتا ہوں۔ اب تم اپنی کہو۔‘‘
’’رقم میرے پاس نہیں ہے۔‘‘ حمیرا کھڑی ہوگئی۔ اسے سخت کوفت ہورہی تھی۔ اس کے خیال میں یہ آدمی اپنے مفاد کے لیے آیا تھا یا جو کچھ بھی تھا، وہ اب انسپکٹر رشید کی ہدایت پر عمل کرنا چاہتی تھی۔ یعنی کسی بھی مشکوک آدمی کے بارے میں فوراً مطلع کرنا تھا اسے۔
’’کہاں جارہی ہو؟‘‘ حماد نے پوچھا۔
’’ایک ضروری فون کرنا یاد آگیا مجھے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک گوشے میں چلی گئی اور اپنے سیل پر انسپکٹر رشید کا نمبر ملایا۔ اس گوشے سے وہ دور بیٹھے حماد پر بھی نگاہ رکھے ہوئے تھی۔
’’میں اس مشکوک آدمی کے ساتھ ڈنر ٹیبل پر ہوں۔‘‘ اس نے انسپکٹر رشید کو ساری باتوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے، میں تم سے بات کرتا ہوں۔‘‘ دوسری طرف سے انسپکٹر رشید نے کہا اور رابطہ منقطع کردیا۔
’’تمہیں حماد نے اب تک بتا تو دیا ہوگا کہ وہ رقم ہم سب کی ہے؟‘‘ اچانک عقب سے اس کے کانوں سے آواز ٹکرائی۔
وہ چونک کر مڑی اور اس کا چہرہ خوف سے پیلا پڑنے لگا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے خود کو سنبھال لیا۔ بڑا دائو کھیلنا تھا تو ہمت بھی کرنا تھی۔ اس نے فوراً چہرے پر نخوت سجالی اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے برہمی سے بولی۔ ’’آپ کی تعریف؟‘‘ حالانکہ وہ اسے پہچان چکی تھی۔ یہ ان چاروں میں سے ایک تھا جو تعزیت کے لیے آیا تھا۔ موٹا، ٹھگنا اور گنجا۔
’’چھوڑو اس بات کو، رقم کی بات کرو۔‘‘ وہ غرایا۔
’’کیا بکواس کررہے ہو تم؟ کیسی رقم؟‘‘ وہ بھی ہتھے سے اُکھڑ گئی۔ گنجے نے کئی بار پلکیں جھپکائیں۔ پھر بولا۔ ’’خطرات بڑھ چکے ہیں، کسی اور کو بھی علم ہوچکا ہے۔‘‘
’’پتا نہیں کیا بکواس کیے جارہے ہو تم! ہٹو آگے سے…‘‘ حمیرا نے غصے میں اسے ایک طرف دھکا دے کر آگے نکلنے کی کوشش کی تو اس ٹھگنے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حمیرا پر خوف کی جگہ طیش طاری ہوگیا۔ اس نے نفرت سے ہونٹ سکیڑ کر اس کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا اور اپنا ہاتھ ایک جھٹکے سے چھڑا لیا۔ ’’تت… تم نے میرے شوہر کو قتل کیا ہے۔ تم خونی ہو۔‘‘
’’ہم نے افتخار کا قتل نہیں کیا ہے خاتون! ہمارے ہاتھ صاف ہیں۔ لیکن یہ راز کسی پر ظاہر ہوگیا ہے اور تمہاری جان اس وقت سخت خطرے میں ہے۔ بہتر ہوگا ہم سے تعاون کرو۔‘‘
’’پولیس بھی یہی کہتی ہے، تم قاتلوں کا ٹولہ بھی یہی دعویٰ کرتا ہے، آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے، میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔‘‘ حمیرا نے کہا اور تیزی سے آگے بڑھ گئی۔
’’مگر میں تمہارا خیرخواہ ہوں خاتون! مجھ پر بھروسہ کرو اور تعاون کرو۔‘‘ گنجا نرم لہجے میں بولا مگر حمیرا سسکتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ گنجے نے دوبارہ اس کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کی تاہم عقب سے اس کی بڑبڑاہٹ ضرور اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔ ’’وہ ہم سب کی ملکیت ہے۔ ویسے میرا نام جابر خان ہے۔‘‘
٭…٭…٭
حمیرا اور حماد ٹیکسی میں بیٹھ کر اپارٹمنٹ پہنچ گئے۔ اس نے گنجے کے متعلق جس نے اپنا نام جابر خان بتایا تھا، حماد کو بتایا تو وہ خاموش رہا۔ حمیرا کو جلدی تھی۔ وہ دراصل آج کے واقعات کی تفصیل سے انسپکٹر رشید کو آگاہ کرنا چاہتی تھی۔ حماد کے جانے کے بعد اس نے ایک گلاس پانی پیا، اپنے حواس بحال کیے۔ اسے ان حالات میں کسی پر بھروسہ نہیں تھا، سوائے انسپکٹر رشید کے۔ انسپکٹر رشید نے اس کی کال فوراً ریسیو کی۔ حمیرا نے آج کی رپورٹ بلا کم و کاست اس کے گوش گزار کردی۔
’’گڈ…
اچھی جارہی ہو۔‘‘ وہ پرجوش انداز میں بولا۔
’’لیکن مجھے لگتا ہے کہ میرے لیے خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ میں اس خطیر رقم سے واقف ہوں جو افتخار کے قبضے میں تھی۔‘‘
’’ان کا شبہ قائم رہنے دو۔ تم اسی طرح انہیں جوابات دو کہ وہ یہ نہ سمجھ پائیں کہ تمہیں واقعی اس رقم کا پتا نہیں، ورنہ یہ تم سے دور ہوجائیں گے اور قانون کی گرفت میں نہیں آئیں گے۔‘‘
’’اچھا ہے دور ہوجائیں، کم از کم میری پریشانی تو دور ہوجائے گی نا۔‘‘ حمیرا نے جل کر کہا۔
’’وہ دور ہوجائیں گے مگر تمہیں بھی اس دنیا سے دور کرکے جائیں گے، بے وقوف لڑکی! وہ کرتی رہو، جو میں کہہ رہا ہوں۔‘‘ انسپکٹر رشید نے اسے تنبیہ کی۔ حمیرا ایک گہرا سانس لے کر رہ گئی۔ رشید نے اسے چند اور ہدایات دیں اور رابطہ منقطع کردیا۔
وہ سوچنے لگی۔ معاملہ اگر ایک بڑی رقم کے حصول کا ہے تو پھر وہ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ انسپکٹر رشید نے اسے اگر اس مصیبت میں ڈال ہی دیا ہے تو اسے اپنے فائدے کے لیے بھی سوچنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ مگر ابھی تک یہ پراسرار معاملہ واضح نہیں ہوا تھا کہ اتنی بڑی رقم اوّل تو افتخار کے پاس آئی کہاں سے تھی؟ دوسرے یہ کہ وہ اس وقت تھی کس کے پاس؟ اور جس کے پاس تھی، وہ خود کہاں تھا؟ ایک طرح سے معاملہ سیدھا سادہ رقم کا حصول لگتا تھا اور دوسری جانب الجھائو یہ تھا کہ وہ رقم کیسے آئی تھی اور اب کس کے پاس تھی؟ افتخار کا قتل کیوں کیا گیا تھا؟ کم ازکم رقم لینے والے ایسا اقدام نہیں اٹھاتے جب تک رقم نہیں نکلوا لیتے۔ یعنی قاتل کوئی اور تھے۔ کیا بعید تھا کہ وہ خطیر رقم بھی انہی کے پاس تھی؟ تو گویا انسپکٹر رشید ان چاروں کے ذریعے اصل قاتل اور اس رقم کے حصول کا پس منظر جاننے کے لیے اسے پھنسائے ہوئے تھا۔
معاً اس کا فون بجا۔ اس نے کال ریسیو کی۔ دوسری جانب سے ایک شناسا آواز ابھری۔ ’’حماد بول رہا ہوں پھر تم نے کیا سوچا؟‘‘
’’کس سلسلے میں؟‘‘ حمیرا نے جیسے خیالوں سے چونکتے ہوئے پوچھا۔ اسے آج جانے کیوں حماد کی آواز بدلی بدلی سی محسوس ہورہی تھی۔
’’تم تو ایسے پوچھ رہی ہو جیسے تمہیں کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ حماد نے کیا کہا تھا تم سے؟‘‘ یہ الفاظ شاید اس کے منہ سے غلطی اور بے اختیاری میں برآمد ہوگئے تھے۔
’’کیا…؟ تم حماد نہیں ہو؟‘‘
’’میں حماد کا بھائی ہوں۔ صمد۔‘‘ اس نے بتایا تو حمیرا نے غصے سے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتی۔
تھوڑی دیر بعد کال بیل بجی اور اس کی سوچوں کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ نجمہ نے آکر بتایا کہ دو صاحب ملنے آئے ہیں۔ حمیرا نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھانے کا کہا اور خود تھوڑا نک سک سے درست ہوکر وہاں پہنچی۔
ان دونوں کو غور سے دیکھتے ہوئے وہ صوفے پر براجمان ہوگئی۔ یہ بھی انہی چاروں میں سے تھے جو تعزیت والے دن آئے تھے۔ وہ سوچنے لگی کہ انسپکٹر رشید واقعی ایک ذہین پولیس آفیسر ہے اس کے سارے اندازے بالکل درست ثابت ہورہے تھے۔
ان دونوں نے بھی کم و بیش وہی باتیں اس سے کہیں جو حماد اور جابر خان کرچکے تھے۔ وہ سمجھ گئی کہ ان لوگوں کو حماد ہی اس کے پاس باری باری بہانے سے بھیج رہا تھا۔ وہ ان کا لیڈر تھا مگر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔
انسپکٹر کی ہدایت کے مطابق حمیرا نے ان سے تعاون کی ہامی بھرلی کہ جیسے ہی اسے رقم کے بارے میں پتا چلے گا، وہ انہیں خبر کردے گی۔ ان دونوں نے اپنے نام زمرد خان اور بابو بلی بتائے۔
انہیں رخصت کرنے کے بعد حمیرا نے انسپکٹر رشید کو ان کے بارے میں بھی بتا دیا۔ آخر میں انسپکٹر رشید نے اس کے سامنے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ حماد نامی آدمی اصل نہیں ہے۔ اس کا نام کچھ اور ہے۔ ذرا دھیان رکھنا۔ وہی ان کا سربراہ ہے۔
حمیرا نے یہ سن کر اپنا سر پکڑ لیا۔ تاہم آخر میں اس کے پوچھنے پر اس نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ اور حماد کس ریسٹورنٹ میں ملاقات کرتے ہیں۔
حمیرا سمجھ رہی تھی کہ وہ انہیں ایک طرح سے ڈبل کراس کررہی تھی۔ انسپکٹر رشید، حماد اور اس کے تینوں ساتھیوں کے ساتھ۔
٭…٭…٭
اگلے دو دن تک اس سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ البتہ سلمیٰ کا فون آگیا۔ اس نے بتایا کہ اس کے شوہر کا تبادلہ اسی شہر ہوگیا ہے۔ رہائش بھی کمپنی کی طرف سے ملی ہے۔ نمرہ چڑیا گھر جانے کی فرمائش کررہی ہے جبکہ ہم میاں، بیوی مصروف ہیں۔ ذرا تم اسے گھما کر لے آئو۔ وہ اسے اس کے پاس چھوڑنے آرہی تھی۔
’’ہاں… ہاں! کوئی بات نہیں، مجھے بھی تفریح کی ضرورت ہے۔ تم لوگ آرام سے اپنی سیٹنگ کرو، نمرہ کو میرے پاس چھوڑ جائو۔‘‘ حمیرا نے فراخ دلی سے کہا۔ اسے خوشی تھی کہ اس کی سہیلی بھی اسی شہر میں آگئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد سلمیٰ اپنی بیٹی نمرہ کو اس کے پاس چھوڑ کر اسی رکشے سے واپس لوٹ گئی۔
اسی وقت حماد نے فون کرکے اسے سابقہ ریسٹورنٹ میں ملاقات کے لیے بلایا۔ اس نے معذرت کرنا چاہی مگر وہ فون بند کرچکا تھا۔
وہ نمرہ کے ساتھ ریسٹورنٹ پہنچی۔ ان کی میز محفوظ تھی۔ ایک میز پر اپنے اور حماد کے نام کی تختی دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔ یہ میز دروازے کے قریب تھی۔ اسے یاد آیا کہ افتخار بھی اسی طرح دروازے والی میز ریزرو کراتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد حماد آگیا۔ اس نے حمیرا کے ساتھ نمرہ کو دیکھا تو اس کے بارے میں پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اس کی عزیز سہیلی کی بیٹی ہے۔ دونوں میاں، بیوی نئے نئے شفٹ ہوئے ہیں اور کچھ مصروف ہیں جبکہ نمرہ بور ہورہی تھی۔ اسے وہ یہاں چھوڑ گئی، نمرہ یوں بھی حمیرا کے ساتھ کافی مانوس تھی۔
حماد مسکرایا پھر حمیرا سے اسرار بھرے لہجے میں بولا۔ ’’تم نے اس میز پر بیٹھتے ہوئے کچھ محسوس کیا؟‘‘
’’آں… ہاں! افتخار سے جب میری پہلی ملاقات ہوئی تھی تو ہم ادھر ہی بیٹھے تھے۔‘‘ وہ دکھی سے لہجے میں بولی۔ ’’ہم دونوں بعد میں بھی یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ وہ دروازے کی طرف بار بار دیکھتا تھا۔ میں نے ایک دن مذاق میں اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا کسی کے آنے کا انتظار ہے؟ وہ میری بات پر مسکرا دیتا تھا۔ جواب نہیں دیتا تھا۔‘‘ اس کی آنکھیں ماضی کی یاد سے دھندلا گئیں۔
’’ہوں…!‘‘ حماد کچھ دیر خاموش رہا۔ نمرہ بڑی دلچسپی سے قریب دیوار پر لگے ہوئے ایک بڑے سے دیدہ زیب ایکوریم میں تیرتی رنگ برنگی مچھلیوں کو دیکھنے میں محو تھی۔
’’پھر وہ آگیا جس کا اسے انتظار تھا؟‘‘ حماد نے سرگوشی میں پوچھا۔ اس کا لہجہ پراسرار تھا۔
’’پتا نہیں۔‘‘ حمیرا اب بھی ماضی میں کھوئی ہوئی تھی۔ ’’وہ یہاں ماڈرن آرٹس کی نمائش دیکھنے آیا تھا۔‘‘ اپنے مقتول شوہر کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے حمیرا کو خود بھی حیرت ہوئی کہ آخر مرنے کے بعد افتخار اتنی شدت سے کیوں اس کے ذہن پر سوار ہوتا جارہا ہے؟
’’فون کرنے والے اس بہروپیے نے تم سے کیا کہا تھا؟‘‘ حماد نے پوچھا۔
حمیرا نے اسے بتا دیا۔ حماد نے اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا۔ ’’تم نے میری پیشکش پر غور کیا؟‘‘
’’مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ حمیرا نے جواب دیا۔
’’گویا تمہیں میری پیشکش منظور ہے۔‘‘ وہ خوش ہوکر بولا۔
’’ہم نے جب ایک ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر تمہیں بھی کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا تمہیں اب اپنے بارے میں سب کچھ بتا دینا چاہیے۔‘‘
حماد بڑی عیاری سے اس کی بات کو ہنسی میں اڑا گیا۔ اس کے بعد کئی موضوع چھڑے۔ باتیں ہوتی رہیں لیکن حمیرا ان باتوں سے کچھ اکتائی اکتائی سی تھی۔ وہ توجہ ہٹانے کے لیے ادھر ادھر دیکھنے لگی تو یکدم چونک پڑی۔ اس کی نگاہیں ایک شناسا چہرے سے ٹکرا گئیں۔ انسپکٹر رشید کونے کی ایک میز پر بیٹھا سینڈوچ کھا رہا تھا۔ اس کی نظریں بھی حمیرا سے ٹکرائیں مگر وہ ایک دم انجان بن کر دوسری جانب دیکھنے لگا۔
حمیرا نے بھی توجہ ہٹالی۔ وہ انسپکٹر کو فراموش کرچکی تھی۔ لیکن یہاں اس کی موجودگی سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس کا تعاقب کرتا رہا تھا۔ وہ دوبارہ اس کی جانب متوجہ ہوئی جو اس وقت اخبار کی ورق گردانی میں مصروف تھا۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک نئی پھلجھڑی چھوٹی۔ وہ انسپکٹر کی طرف دیکھ کر ہاتھ لہرانے اور مسکرانے لگی مگر اس نے کوئی توجہ نہ دی، ماسوائے ایک سرد نظر ڈالنے اور ہٹانے کے۔
اسی دوران ایک ویٹر آیا اور حماد کو ایک خط دیا۔ ’’آپ کے لیے ایک خط ہے۔‘‘ حماد نے قدرے حیرانی سے کندھے اچکا کر لفافہ لے کر اسے کھولا، پرچہ پڑھا اور پھر فوراً کھڑا ہوگیا۔ ’’معاف کرنا مجھے ایک ضروری کام سے جانا پڑے گا۔‘‘
’’مگر سنو!‘‘ حمیرا نے جلدی سے کہا۔ ’’اب تم سے کب ملاقات ہوگی؟‘‘
’’تین بجے اسی جگہ!‘‘
’’ٹھیک ہے… مگر نہیں… مجھے نمرہ کو کل گھمانے لے جانا ہے چڑیا گھر۔ وہ آج کل میر ے ساتھ ہی رہتی ہے۔ تمہیں بتایا تھا نا کہ اس کی امی، ابو…‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ حماد نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’ہم ایک ساتھ وہاں چلیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا باہر آگیا۔ فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے اس نے ایک بار پھر پرچہ نکال کر پڑھا۔
’’میں ڈی سینٹ اسکوائر کے چھٹے فلور پر تمہارا منتظر ہوں۔ میں جانتا ہوں تم حماد نہیں ہو۔‘‘
٭…٭…٭
حماد نے ڈی سینٹ اسکوائر کے سامنے رک کر ادھر ادھر دیکھا پھر مین گیٹ سے اندر داخل ہوگیا۔ لفٹ کے ذریعے وہ چھٹے فلور پر پہنچا اور ایک دروازے پر دستک دی۔
’’آجائو نقلی حماد! دروازہ کھلا ہے۔‘‘ اندر سے اسے ایک شناسا آواز سنائی دی۔ وہ دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوگیا۔
سامنے صوفے پر گنجا جابر خان موجود تھا۔ مگر اس طرح کہ اس کے ایک ہاتھ میں پستول تھا اور چہرے پر غصے کے تاثرات۔ جابر خان اسے دیکھ کر غرایا۔ ’’شروع ہوجائو۔‘‘
’’کہاں سے شروع کروں؟‘‘
’’اپنے نام سے۔‘‘ جابر کے لہجے میں خونخواری تھی۔
’’میرا نام حماد ہے۔‘‘
’’جھوٹ… وہ مر چکا ہے۔‘‘
’’شاید تم حماد کبیر کی بات کررہے ہو؟‘‘ حماد نے کہا۔ ’’وہ میرا روم پارٹنر تھا۔ اس کم بخت کے مرنے کے بعد اب پورے فلیٹ کا کرایہ مجھے ادا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’زیادہ چالاکی دکھانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ جابر غرایا۔ پھر اسی لہجے میں مستفسر ہوا۔ ’’وہ رقم کہاں ہے؟ کیا ابھی تک وہ اسی عورت کے قبضے میں ہے جس کے ساتھ تم پینگیں بڑھانے میں مصروف ہو؟‘‘
’’نہیں! میں نے تسلی کرلی ہے کہ وہ رقم حمیرا کے پاس نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر تمہارے پاس ہوگی۔‘‘ جابر کے لہجے میں غراہٹ عود کر آئی۔
’’ہوسکتا ہے۔‘‘ حماد نے بے نیازی سے جواب دیا۔
جابر خان کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ وہ چلا کر بولا۔ ’’وہ رقم ہماری ہے۔‘‘ مارے طیش کے یہ کہتا ہوا وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور چند قدم چلتا ہوا حماد کے قریب آگیا۔
حماد یہی چاہتا تھا۔ اس نے موقع ملتے ہی اس کے غصے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا پستول والا ہاتھ دبوچ لیا اور اپنے دوسرے ہاتھ کا مکا اس کے جبڑے پر رسید کردیا۔ پستول جابر خان کے ہاتھ سے گر تو گیا مگر موٹا جابر اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔
اگلے ہی لمحے موٹے جابر نے حماد کو دونوں ہاتھوں میں دبوچ کر اوپر اٹھا لیا۔ حماد کو اس کی گرفت کسی آہنی شکنجے کی طرح محسوس ہوئی۔ جابر اسے بڑے آرام سے اٹھا کر کمرے کی کھڑکی کی طرف لے جارہا تھا۔ وہ اسے چھٹے فلور سے نیچے گرانا چاہتا تھا۔ حماد کو اپنی موت صاف نظر آرہی تھی۔ وہ موٹے جابر کی گرفت میں خود کو بے بس محسوس کررہا تھا۔ (جاری ہے)