مجھے بچپن ہی سے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے والدین ایسا چاہتے تھے۔ جب سے اسکول میں میرا ایڈیشن ہوا تھا، میری والدہ پیار سے اکثر یہی کہا کرتی تھیں کہ میری بیٹی تو پڑھ لکھ کر بہت بڑی ڈاکٹر بنے گی…!
اسی لیے یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی تھی کہ مجھے ڈاکٹر بننا ہے۔ میٹرک میں میرے اچھے نمبر آئے تھے اور میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئی۔ لیکن ایف ایس سی میں باوجود کوشش کے میں مطلوبہ میرٹ پر پوری نہ اُتر سکی اور مجھے میڈیکل میں داخلہ نہیں ملا۔ مجبوراً میں نے بی ایس سی میں داخلہ لے لیا اور حسب عادت جی لگا کر پڑھنے لگی۔
ہماری کلاس میں صرف دو لڑکے اور دس کے قریب لڑکیاں تھیں، سبھی کی آپس میں اچھی دعا سلام ہوگئی۔ احتشام میرا کلاس فیلو تھا، وہ بہت شریف لڑکا تھا۔ کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا تھا۔ مجھ کو اس کی یہی ادا بھا گئی۔ خوبرو تھا اچھے نمبر لیتا تھا، ٹیچرز اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
ایک روز فری پیریڈ میں وہ گرائونڈ میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ میں نے قریب جا کر بات کی۔ آپ کے پاس کل کے نوٹس ہیں… میں کل غیر حاضر تھی۔ اس نے مجھے اپنی ڈائری دے دی۔
وہ جب کلاس میں داخل ہوا کافی خوش لگ رہا تھا، پہلی بار میں نے اسے چہکتے دیکھا۔ اگلے روز کالج کی گیلری میں کھڑا تھا۔ میں قریب سے گزری تو بات نہیں کی لیکن لیکچر سے پہلے جب کلاس میں جانے لگی اس نے مجھے پکارا۔
قرۃ العین میری بات سنو۔ میں ٹھہر گئی، وہ کچھ ڈرا ہوا سا تھا۔ بات تو کچھ نامناسب ہے لیکن… پلیز آپ برا مت مانیے گا۔
جی… کہیے۔ میں نے کہا۔
وہ بولا کیا آپ کا نمبر مل سکتا ہے؟
سوری، میں نمبر نہیں دے سکتی۔ اس جواب پر وہ مایوس سا ہوگیا، جانے کیوں… میں نے کچھ سوچ کر اس کو اپنا نمبر دے دیا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ایک شریف لڑکا ہے کسی غلط بات کی اس سے توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔
گھر جا کر اس کو ایس ایم ایس کیا، تھوڑی خفگی جتلائی کہ آخر اسے میرا نمبر لینے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی۔ اس نے وضاحت کی کہ کچھ سوالات کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ اب وہ گاہے گاہے فون پر مختصر بات کرتا۔ یوں ہماری دوستی ہوگئی۔
ابھی ہماری دوستی کو ایک ہفتہ ہوا تھا کہ اس نے کالج چھوڑ دیا اور لاہور چلا گیا۔ لیکن ہمارے درمیان ایس ایم ایس کا تبادلہ اور فون پر مختصر بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ بہت اچھی گفتگو کرتا تھا، جی چاہتا اس کی باتیں سنتے رہو۔
ایک دن میں اپنی فیملی کے ہمراہ ایک ہوٹل میں کھانا کھانے گئی تو وہ مجھے وہاں نظر آ گیا، ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور خوشگوار موڈ میں ہنس ہنس کر اس سے باتیں کر رہا تھا۔ میں نے ’’ایس ایم ایس‘‘ کیا کہ کہاں ہو؟
سچ بتا دیا میں ایک ہوٹل میں اپنی کزن کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ ابھی تک اس نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔ مجھ کو بہت جلن ہوئی کہ یہ کیوں یہاں کسی لڑکی کے ساتھ ہے۔ اس دن کے بعد سے میں اس کے ساتھ اکھڑے اکھڑے انداز سے بات کرنے لگی۔
وہ کچھ پریشان سا رہنے لگا تھا لیکن مجھ سے ناراضی کی وجہ دریافت نہ کی۔ میں اسی انتظار میں تھی۔ وہ پوچھے تو سوال کروں کہ کون تھی وہ جس کے ساتھ تم ہوٹل میں بیٹھے تھے اور کیوں؟
جب اس نے ایک بار بھی نہ پوچھا کہ تم کیوں روٹھی روٹھی ہو تب یقین ہو گیا کہ اس کا معاملہ اسی لڑکی سے ہے۔ تبھی مایوسی کے عالم میں فون پر جھگڑ پڑی۔ اس نے کچھ کہنا چاہا تو ایک نہ سنی اور کہہ دیا کہ جس کے ساتھ ہو اسی کے ساتھ رہو اور اب کبھی مجھ سے رابطہ نہ کرنا۔
اس نے کئی بار فون کئے۔ نجانے مجھے کیا ہوگیا تھا، ہر بار بغیر سنے بند کردیتی تھی۔ سوچ سوچ کر غصہ آتا تھا کہ وہ کسی اور کے ساتھ ہے۔ لہٰذا ناتا میں نے ہی توڑا۔
وہ لاہور سے واپس آ گیا۔ دوبارہ کالج میں داخلہ لے لیا مگر اب وہ پہلے والا احتشام نہ تھا، بہت بدل گیا تھا، کالج میں الگ تھلگ سب سے بیزار اور اکھڑا اکھڑا رہتا۔ مسکرانا تو کجا کسی سے بات تک نہ کرتا۔
انہی دنوں ضمنی امتحان میں اس کی اول پوزیشن آگئی۔ ہماری کلاس کی چند طالبات نے اس سے ٹیوشن لینے کی استدعا کی اور وہ ان کو فارغ وقت میں پڑھانے لگا۔ ان لڑکیوں میں سے ایک کے ساتھ اس کی اچھی خاصی دوستی ہوگئی جس سے مجھ کو جلن ہونے لگی۔ جب وہ اس لڑکی عابدہ سے بات کرتا مجھ پر قیامت گزر جاتی، کسی پل چین نہ آتا۔ میں نے پھر سے اسے ایس ایم ایس کرنے شروع کردیئے۔
فون پر بھی رابطہ کیا لیکن احتشام نے ٹھیک طرح بات نہ کی یقین ہوگیا کہ اس نے کسی اور سے دل لگا رکھا ہے۔ بجھی بجھی رہنے لگی، پڑھائی میں بھی دل نہ لگتا تھا۔ وقت بھاری قدموں سے مجھ کو روندتا جاتا تھا، دن کاٹے نہیں کٹتے تھے، پڑھائی میں بھی من نہ لگتا۔
ایک روز میری دوست عرفانہ نے بتایا کہ احتشام کی کزن ہماری لیکچرار گلناز سے ملنے آئی ہے۔ یہ وہی تھی جس کو میں نے احتشام کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھے دیکھا تھا۔ باتوں باتوں میں میڈم سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ان کی بچپن کی دوست ہے اور احتشام کے بڑے بھائی کی بیوی ہے۔ شوہر عرصہ سے دبئی میں ہے اور اب یہ بھی دبئی جا رہی ہے، تبھی ملنے آئی تھی۔ دو بچوں کی ماں ہے، احتشام کے چچا کی بیٹی ہے۔
اتنی تفصیل جان کر میری آنکھیں کھل گئیں، خود پر غصہ آنے لگا کہ بغیر سوچے سمجھے کیوں احتشام سے رشتہ ختم کردیا۔
گھر پہنچ کر میں نے احتشام کو فون کیا اور معافی مانگی مگر اس نے کوئی بات نہ کی۔
کچھ تو بولو۔ میں نے منت سماجت کی تب گویا ہوا۔ قرۃ العین افسوس ہے میں تم کو ایسے ذہن کی لڑکی نہیں سمجھتا تھا، تبھی پسند کیا اور شادی کرنا چاہتا تھا مگر تمہارے شک نے ہماری دوستی اور محبت کے خوبصورت رشتے کو توڑ دیا۔ میں نے کئی دفعہ تم کو منانے کی کوشش کی، یہ بھی بتانا چاہا کہ وہ میری بھابی ہیں مگر تم نے کوئی بات نہ سنی… لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ ایک شکی مزاج لڑکی کو اپنی زندگی میں کوئی جگہ نہیں دے سکتا۔ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔
اس کے بعد وہ کالج نہیں آیا۔ اس کی تلاش میں، میں نے سر دھن لیا مگر بے سود، اس کا نمبر بھی بند تھا، رابطہ کرنا چاہا نہ کرسکی، پکارتی کب تک، اس نے جواب ہی نہ دیا۔ دعا کرتی تھی، ایک بار فون پر رابطہ کر لے تو اس کو کہوں کہ احتشام… پلیز معاف کردو۔ میں تم جیسے انسان کو کھونا نہیں چاہتی… لیکن اسے کھو دیا تھا۔ کیونکہ میں نے دیور بھابی جیسے مقدس رشتے پر شک کیا تھا۔ اسی کی سزا ملی تھی کہ مجھے اپنی محبت سے دائمی جدائی مل گئی۔
کافی عرصہ پریشان رہی۔ امتحان بھی نہ دے سکی۔ احتشام کو بھلانا چاہا لیکن نہیں بھلا سکتی تھی۔ ایک پھانس تھی جو دل میں چبھ گئی تھی اور پھر نکل نہ سکی۔
اس واقعے کے بعد زندگی کے جتنے بھی دن گزارے، میں نے ایک مردے کی مانند گزارے۔
وقت کسی کے لئے ٹھہرتا نہیں۔ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ وقت تیزی سے گزرتا ہے لیکن ہم کو احساس نہیں ہوتا۔ کئی رشتے آئے لیکن میں شادی سے انکار کرتی گئی، بالآخر امی ابو مجھ سے اس قدر خفا ہوئے کہ ان کی خوشنودی کی خاطر سر تسلیم خم کرنا ہی پڑا۔
میرے نصیب میں جو شخص جیون ساتھی کے طور پر لکھا گیا تھا، اس کے ساتھ میری شادی ہوگئی اور ہماری نئی زندگی شروع ہوگئی۔ زبیر بہت اچھے انسان تھے۔ مجھ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ میں بھی بظاہر ان کو خوش نظر آنے کی کوشش کرتی مگر دل کا حال تو اللہ جانتا ہے اور دل ایسی شے ہے جس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔
شادی کے چند ماہ بعد ان کی پوسٹنگ دوسری جگہ ہوگئی، وہاں بھی میرا دل نہ لگتا تھا، یہ پہاڑی علاقہ تھا اور انڈیا کی سرحد سے قریب تھا۔ انہی دنوں جبکہ میں ذہنی طور پر بے چین سی رہتی تھی، میری ملاقات گل جاناں سے ہوگئی۔
وہ ایک مقامی لڑکی تھی اور ہمارے پڑوس میں رہتی تھی، بہت اچھی عادات کی مالک تھی، جلد ہی میری اس کے ساتھ دوستی ہوگئی، گل جاناں کی باتیں بڑی معصومانہ ہوتی تھیں لیکن بہت ذہین لڑکی تھی، جلد ہی میرے دل کی اداسی کو بھانپ لیا، ایک دن کہنے لگی۔ باجی مجھے لگتا ہے آپ کو کوئی بے سکونی ہے، برا نہ مانیں تو پوچھوں کہ آپ کیوں اداس رہتی ہیں، کیا کسی کی یاد ستاتی ہے۔
ہاں… ایک دوست کی… کیا کروں بھلانا چاہتی ہوں لیکن بھلا نہیں سکتی۔
اس کا ایک حل ہے میرے پاس۔ آپ میرے دادا کے گائوں چلیں وہاں ایک شخص ہے جس کا نام عجب خان ہے۔ وہ واقعی بڑا عجیب آدمی ہے بس ایک بار آپ کو غور سے دیکھ کر آپ کی ہتھیلی پر پھونک مارے گا تو آپ فوراً بھلی چنگی ہو جائیں گی۔
کیا کہہ رہی ہو گل جاناں… ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ کیا وہ کوئی پیر فقیر ہے یا کوئی بزرگ ہے؟
یہ میں نہیں جانتی لیکن اس کا حال آپ سنیں گی تو حیرت کریں گی… تبھی گل جاناں نے اس کے بارے میں یوں بتایا۔ باجی… یوں تو قدرت کی رنگارنگ مخلوق ہی اس دھرتی کا حسن ہے مگر جملہ مخلوق کا ایک بہت انوکھا رنگ ہمارے علاقے الائی کے گائوں راشنگ میں کب وارد ہوا، اس بارے میں میری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن یہ شخص عجب خان وہاں کے لوگوں کا مرکزِ نگاہ ہے۔
شروع میں یہ گائوں کے بازار میں دکان داروں اور علاقے کے لوگوں کا بوجھ اجرت پر اٹھانے کا کام کرتا تھا، اسی اجرت پر اس کی گزر بسر ہوتی تھی، اس نے شادی نہیں کی تھی، مزدوری کے پیسے وہ بہت کفایت سے خرچ کیا کرتا تھا۔
عجب خان کو سوائے عیدین کے کبھی اچھے لباس میں نہیں دیکھا گیا۔ اس کا کہنا تھا اگر اچھے اور اجلے لباس میں ہوں گا تو کون مزدوری کا کہے گا۔ وہ دو من وزن سے کم کا بوجھ ہرگز نہ اٹھاتا تھا۔ اس کا اصول تھا وہ طے شدہ مزدوری سے زائد ہر گز نہ لیتا تھا اور اگر کوئی اپنی خوشی سے اسے مزدوری سے زائد رقم دے دیتا تو وہ اسی لمحے رقم واپس لوٹادیتا اور اصرار کے باوجود قبول نہ کرتا۔
پہلے تو کسی کو پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں سے آتا ہے اور رات کو کہاں چلا جاتا ہے، لیکن اب عجب خان بازار میں کوئی دکان یا کوٹھڑی کرائے پر حاصل کر کے اسے بطور رہائش گاہ اور گودام استعمال میں لاتا تھا، اس رہائشی گودام میں اس کا گندم، چاول، مکئی، روٹی اور مختلف دالوں کا اسٹاک ہوتا تھا۔ یہ اجناس وہ بازار میں گرا پڑا، اجناس کی منڈی سے چن چن کر جمع کرتا رہتا تھا۔
عجب خان کو بڑے گوشت سے نفرت تھی، جسے زندگی بھر اس نے ہاتھ نہیں لگایا۔ البتہ چھوٹا گوشت وہ اس طور استعمال کرتا کہ مطلوبہ مقدار
میں گوشت خرید کر اسے کچی حالت میں کھا جاتا۔ کسی نے اسے کھانا پکاتے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی اس کی گودام نما رہائش گاہ میں ایسی سہولت کا ہونا ممکن تھا۔
اس کے باوجود حیرت کی بات یہ ہے کہ کبھی کسی نے اسے بیمار ہوتے نہیں دیکھا بلکہ اگر کوئی بیمار ہو تو وہ اس کی ہتھیلی پر پھونک مار دیتا ہے جس سے مریض جلد ہی اچھا ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے اب اس کی کرامت کی دھوم دور دور تک ہے، لوگ اکثر جاتے ہیں اور اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں تو وہ سائل کی ہتھیلی پر پھونک مار دیتا ہے اور مریض اچھا ہو جاتا ہے۔
گل جاناں ایک معقول لڑکی لگتی تھی مگر جب اس نے یہ کہانی سنائی تو مجھے لگا کہ وہ کوئی افسانہ گھڑ کر مجھے سنا رہی ہے، تبھی میں نے سوال کیا گل جاناں… یہ باتیں تم کو کس نے بتائیں اس عجیب و غریب شخص کے بارے میں… کہنے لگی، ہمارے تایا اور چچا نے، اور جب بھی ہمارے گائوں سے کوئی رشتہ دار آتا ہے تو ہمیں عجب خان کی باتیں سناتا ہے۔
خیر… میں تمہارے دادا کے گائوں جانے سے رہی اور نہ ہی میں ایسے عجیب و غریب انسان سے ملنا چاہوں گی، میں نے گل جاناں کو ٹکا سا جواب دے دیا کیونکہ یہ باتیں سن کر مجھ کو وحشت سی ہونے لگی تھی۔
چند ہفتے گزرے گل جاناں میرے پاس آئی کہنے لگی افسوس ہے باجی… آپ ہمارے ساتھ گائوں نہیں گئیں، اب عجب خان اس جہان سے گزر گیا ہے۔
افسوس ہے گل جاناں… اس عجیب انسان سے دنیا خالی ہوگئی ہے لیکن واقعہ کیا ہوا ہے ذرا بتائو تو… کہنے لگی۔ باجی… یقین کریں کبھی کسی نے عجب خان کو بیمار ہوتے نہیں دیکھا، سوائے آخری بار کے۔
موت کے بارے میں بھی اس کا نظریہ عجیب و غریب تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ کبھی مقامی ندی میں نہانے کے لئے نہیں جائے گا کہ پانی میں ڈوب کر مر جائے، نہ کبھی کسی درخت پر چڑھے گا کہ جہاں سے گر کر مرنے کا اندیشہ ہے اور نہ کسی اونچی جگہ جائے گا جہاں سے گر کر مرنے کا احتمال ہو۔ دیکھئے اتنا طاقتور اور صحت مند آدمی پھر بھی فوت ہوگیا۔ سچ ہے کہ موت ایک بے حد طاقتور شے ہے، یہ جب زندگی پر غالب آنا چاہتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آ جاتی ہے۔ کیا تم نے اس کو دیکھا تھا گل جاناں۔ میں نے سوال کیا۔
نہیں… لیکن ابو، بھائی اور امی اس سے ملے تھے جب وہ دادا کے گائوں گئے تھے۔ چچا نے آ کر ابو کو بتایا تھا کہ عجب خان اپنی جمع پونجی تاجروں کے پاس بطور امانت رکھا کرتا تھا جبکہ چند لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کچھ رقم زمین میں کسی خفیہ جگہ دبا دیتا تھا۔ وہ بتاتا تھا کہ پاکستان کے عالم وجود میں آنے کے بعد جب ہندو تاجروں کو گائوں چھوڑنا پڑا تو انہوں نے عجب خان کو اس کی رقم لوٹانے کی پیشکش کی تھی جو اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ مصیبت کی اس گھڑی میں وہ ان سے یہ رقم ہرگز نہ لے گا، البتہ جب وہ دوبارہ وطن واپس لوٹیں گے تو اس وقت اس کی رقم لوٹا دیں ۔جس کی نوبت پھر کبھی نہیں آئی مگر اسے یقین تھا کہ یہ لوگ ایک بار پھر اپنے علاقے میں لوٹ کر آئیں گے۔
وقت وفات اس کی عمر ستر سال سے اوپر تھی۔ جب وہ پہلی اور آخری بار مرض الموت میں مبتلا ہوا تو اس کی شدید علالت کے باعث گائوں کے لوگ اسے گاڑی میں ڈال کر اس کے علاقے کی طرف جہاں عجب خان کے کچھ رشتہ دار اور عزیز و اقارب تھے ،لے گئے۔ مگر وہ اپنے گائوں زندہ نہیں پہنچا بلکہ راستے میں ہی فوت ہوگیا، تبھی ان لوگوں نے جو اسے لے جا رہے تھے وہاں قبر کھود کر اس کے جسدِ خاکی کو دفن کردیا اور واپس آ گئے۔
اگلی بار گل جاناں اپنی ماں کے ساتھ آئی تو اس نے بھی باتوں باتوں میں عجب خان کا تذکرہ کیا۔ میں نے پوچھا آخر وہ تھا کون اور کہاں سے آپ لوگوں کے گائوں آیا تھا۔ گل جاناں کی ماں نے بتایا۔ وہ ہمارے آبائی گائوں سے چند میل دور واقع ایک پہاڑی علاقے سے آتا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اس خوف سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوا تھا کہ اس کے عزیز و اقارب اسے اس کی زمین کی خاطر موت کے گھاٹ اتار دیں گے، کیونکہ وہ اسے دیوانہ سمجھتے تھے۔
وہ اپنے علاقے کے قریب ہی تھا کہ اس نے دور سے اپنے گائوں پر آخری نظر ڈالی اور جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ زمین کا وہ ٹکڑا جس کی خاطر اس نے سالہاسال بن باس کاٹا اس کا مدفن بنا۔
اس عجیب و غریب داستان کو سن کر میرا ذہن پریشان رہنے لگا۔ رہ رہ کر عجب خان کا خیال آتا تھا کہ وہ کون تھا کہاں سے تعلق تھا اور کیا کرامت تھی اس میں؟ اس خیال کی وجہ سے یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ میرے دل سے احتشام کا خیال محو رہنے لگا۔
ایک دن میں اپنے شوہر کے ساتھ بازار گئی وہاں بھیڑ میں مجھے ایک بوڑھا آدمی دکھائی دیا جو اونچا، لمبا، مضبوط بدن کا تھا۔ اس کی عمر ستر سال سے اوپر تھی لیکن سر تنا ہوا تھا اور کمر میں جھکائو نہیں تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس کے بال بھی سفید نہیں بلکہ سیاہ تھے۔
پاس سے گزرتے ہوئے میں نے اس کی طرف تجسس بھری نگاہوں سے دیکھا تو اسے اپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا۔ اس نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر اشارہ کیا کہ اپنا ہاتھ پھیلائو۔ حلیے سے وہ درویش دکھائی دے رہا تھا، میں نے اپنا ہاتھ اس کی سمت پھیلا دیا، اس نے میری پھیلی ہوئی ہتھیلی پر پھونک ماری اور آناً فاناً غائب ہوگیا۔
گھر آئی تو بہت زیادہ پریشان تھی جیسے کوئی غیرمعمولی واقعہ میرے ساتھ گزرا ہو۔ شوہر سے تذکرہ کرکے ان کو بھی پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اگلے روز گل جاناں کو بلا بھیجا وہ اپنی ماں کے ساتھ آئی تو میں نے یہ واقعہ گوش گزار کیا، اس کی ماں نے کہا۔ مجھے اس کا ٹھیک ٹھیک حلیہ بتائو… میں نے بتایا۔ کہنے لگی یہ تو ہوبہو عجب خان جیسا ہے… لیکن وہ تو مر چکا ہے، پھر وہ کیسے زندہ دکھائی دیا، تاہم ہتھیلی پر پھونک والی بات بھی مماثلت رکھتی تھی۔
اس واقعہ کے بعد میں احتشام کی یاد سے غافل ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ اس کو بالکل میرے دل نے فراموش کردیا۔ مجھے سکون آ گیا اور دلی طور پر شوہر سے پیار کرنے لگی، وہ بھی مجھ کو اپنا سب کچھ سمجھتے تھے، تاہم ایک پریشانی سے نجات ملی تو دوسری پریشانی دائمی طور پر میرے ساتھ رہنے لگی اور وہ یہ سوال تھا کہ آخر عجب خان مر گیا تو پھر ویسا ہی درویش نما بوڑھا مجھ کو کیوں نظر آیا اور اس نے میری ہتھیلی پر پھونک ماری۔ اللہ جانے یہ کیا معما ہے جس کو آج تک میں حل نہیں کرسکی۔ کاش کوئی دانا میر ے اس سوال کا جواب دے سکے کہ وہ تھا کون؟ (ث … مری)