بچپن میں ذہن بہت تیز ہوتا ہے۔ یادداشت ایسی ہوتی ہے کہ اس دور کی باتیں کبھی نہیں بھولتیں۔ اس وقت میری عمر پانچ برس تھی ، جب میں نے اور بھائی نے جو منظر دیکھا ، اس کو قیامت تک کون بھلا سکتا ہے۔ بتاتی چلوں کہ میرا بھائی شہزاد مجھ سے صرف ڈیڑھ برس بڑا تھا۔ نانی سے سنا تھا کہ ماں کی جب شادی ہوئی، وہ سولہ برس کی تھیں۔ میرے والد ، امی کے چچازاد تھے۔ وہ بہت خوش حال تھے۔ دادا نے ساری زندگی کی محنت سے ان کے لئے دولت جمع کی تھی اور ساری ذمہ داریاں اپنے بوڑھے کندھو ں پر سنبھال رکھی تھیں۔ والد تو ہر غم سے آزاد تھے ، یہی وجہ تھی کہ جب دادا جان کا انتقال ہوا، تو ابا جان کاروبار نہ سنبھال سکے۔
تایا جان باپ کے مرنے کے بعد اپنا حصہ لے کر الگ ہو چکے تھے۔ وہ اپنا جنرل اسٹور چلا رہے تھے ، جبکہ ابا جان کو کمانے کا ڈھنگ نہیں آتا تھا۔ کمانے سے لٹانا آسان ہوتا ہے۔ میرے والد نے یہ احساس نہ کیا کہ دادا نے کس مشکل سے چار پیسے جمع کئے ہیں۔ باپ کے دنیا سے جاتے ہی وہ عیاشیوں میں پڑ گئے تو میری ماں پر بھی برا وقت آگیا۔ والد صاحب میری ماں سے بے حد محبت کرتے تھے ، لیکن جب سے عیاشی کی طرف مائل ہوئے ، نشہ کر کے گھر آنے لگے ، تب نشے کی حالت میں امی کو خوب مارتے اور جب نشہ اتر جاتا تو رورو کر معافیاں مانگتے تھے۔ امی اس صورت حال سے تنگ آگئیں۔ ایک دن ابا نے نشے کی حالت میں ان کو اتنا مارا کہ نیم جان ہو کر گر گئیں۔ پڑوسیوں نے ماموں اور نانی کو اطلاع دی۔ وہ آکر میری والدہ کو اپنے گھر لے گئے۔ اس وقت میری عمر تین سال جبکہ میر ابھائی ساڑھے چار سال کا تھا، جب ماں روٹھ کر میکے بیٹھ گئی تھیں۔ ماں اس حادثے میں اتنی مضروب ہوئی تھیں کہ ہفتہ بھر اسپتال میں رہی تھیں۔ انہوں نے میرے باپ کے خلاف کوئی بیان دیا اور نہ زبان کھولی، لیکن ماموں اور نانی نے تہیہ کر لیا کہ اب تبسم کو گھر نہیں بھیجیں گے۔ چند دن بعد والد کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ معافی تلافی کرنے اور امی کو ساتھ لے جانے کے لئے نانی کے گھر آگئے۔ امی نے جانے سے انکار کر دیا اور نانی نے بھی ابا سے کہا کہ تم گھر میں اکیلے ہوتے ہو اور نشہ کرتے ہو۔ نشے کی حالت میں انسان کو اپنی خبر تک نہیں رہتی۔ تم کسی دن یونہیں مارتے مارتے ، میری بیٹی کو مار ہی ڈالو گے اور اس کو بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔ میں ہر گز اپنی لڑکی کو تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گی۔ میرے والد ، دو سال کے عرصے میں کئی بار امی کو منانے کے لئے آئے، لیکن انہوں نے ہر بار انکار کیا۔ نانی اور ماموں نے بھی امی کا ہی ساتھ دیا۔ آخری بار جب وہ آئے ، تو بھائی شہزاد تقریباً سات برس کے تھے اور برآمدے میں گیند سے کھیل رہے تھے۔ یہ صبح آٹھ بجے کا وقت تھا۔ امی نے ناشتے کے برتن سمیٹے اور وہ دھونے کے لئے کچن میں چلی گئیں۔ نانی اماں صحن میں پڑی چار پائی پر بیٹھی تھیں۔ میرے والد آکر ان کے پاس بیٹھ گئے اور کہا کہ چچی جان! میری بیوی کو اب میرے ہمراہ بھیج دو۔ مجھے بہت سزا مل چکی ہے۔ میں نے کوٹھے پر جانا اور نشہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اس پر نانی نے کہا۔ میں کیسے یقین کر لوں ؟ تم کوئی اپنا ضامن لاؤ، ورنہ تبسم کو تمہارے ہمراہ نہ بھیجوں گی۔ غرض ایسے ہی کچھ باتیں ہوئی اور میرا باپ، نانی اماں کو دھمکیاں دیتا ہوا چلا گیا۔ یہ کئی بار ہو چکا تھا، تبھی نانی نے ابا کی دھمکیوں کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔ وہ بارہ بجے کے قریب میری ممانی کے میکے چلی گئیں۔ ممانی کے ہاں بیٹا ہوا تھا۔ ماموں پہلے ہی سے وہاں موجود تھے۔
نانی کے جانے کے گھنٹہ بھر بعد ابا پھر آگئے۔ اس وقت امی میں اور شہزاد گھر میں تھے۔ میرا بھائی کھیل رہا تھا اور میں اس کے لکڑی کے گھوڑے پر بیٹھی، جھولے لے رہی تھی۔ پہلے ابا آتے تھے تو ہم سے بات کرتے تھے، مگر اس وقت انہوں نے ہماری طرف کوئی توجہ نہ دی۔ میں نے دیکھا کہ ابا نے میری ماں کی گردن پر سے بال ہٹائے۔ اس وقت وہ ترکاری چھیل رہی تھیں۔ بولیں۔ ثمر مذاق مت کرو۔ ان باتوں سے کیا ہوتا ہے ، ماں اب نہیں مان رہیں۔ وہ نہیں مانتیں تو تم مان جاؤ ۔ ابا نے کہا۔ جب تک وہ نہیں مانتیں، میں کیسے مان جاؤں۔ ماں نے جواب دیا۔ میری ماں جب ابا سے گفتگو کر رہی تھیں۔ وہ ان کے پیچھے کھڑے تھے۔ امی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ پشت سے حملہ کریں گے ، مگر میں دیکھ رہی تھی کہ ابا نے چھرا نکالا، ان کا ہاتھ ہوا میں بلند ہوا اور پھر انہوں نے میری ماں کی گردن پر وار کرنے شروع کر دیئے۔ گردن سے خون کے فوارے ابلنے شروع ہو گئے۔ میرا بھائی بھی یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ اس قدر خوف زدہ ہوا کہ تیر کی طرح دروازے کی سمت بھاگا اور باہر نکل گیا اور میں کچن میں چھپ گئی۔ سامنے بیرونی دروازہ بھی کھلا ہوا تھا۔ میں نے کچن کی کھڑکی سے دیکھا کہ نانی دروازے سے آرہی ہیں۔ تبھی بھائی باہر ہی ان سے لپٹ گیا۔ وہ اشارہ سے کہہ رہا تھا کہ جلدی جاؤ، اندر جا کر دیکھو۔ اس کے منہ سے الفاظ نہ نکل رہے تھے۔ اس کی گھگی بندھ گئی تھی۔ نانی دوڑی ہوئی اندر آئیں۔ جونہی انہوں نے صحن میں قدم رکھا، بیٹی پر داماد کے وار دیکھ کر وہ بچانے کی خاطر امی پر جھکیں، تب ابا کا خنجر مشین کی طرح ان پر چلنے لگا۔ بوڑھی ہڈیاں کیونکر ایسے وار سہ سکتی تھیں۔ وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئیں ، ماں پہلے ہی بے ہوش ہو کر گر چکی تھیں۔ ابا سمجھے کہ دونوں کا کام تمام ہو چکا ہے ، وہ خنجر وہیں پھینک کر باہر کو نکل بھاگے لیکن ان کو باہر ہی لوگوں نے پکڑ لیا اور حوالہ پولیس کر دیا۔ لوگ میری ماں اور نانی کو اسپتال لے گئے۔ قسمت کی بات کہ امی ، جن کا کافی خون بہہ چکا تھا اور سب ان کو مردہ سمجھ رہے تھے ، وہ بچ گئیں۔ خنجر کے وار سے بچنے کو وہ ادھر اُدھر ہو تیں تو وار کندھوں پر زیادہ لگے تھے۔ وہ کافی دن اسپتال میں داخل رہیں۔ اللہ نے انہیں دوبارہ زندگی دے دی اور وہ ٹھیک ہو کر ماموں کے گھر واپس آگئیں۔ میں اور شہزاد پہلے سے ممانی کے پاس تھے۔ دو سال مقدمہ چلا۔ ابا کو بالآخر پھانسی ہو گئی۔ جس دن پھانسی ہوئی ، تایا، ماموں کے گھر آئے اور ان کے گلے لگ کر بہت روئے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میرا ایک ہی بھائی تھا، اپنی بیوقوفی کی وجہ سے پھانسی لگ گیا۔ اب ہمارے خاندان کی واحد نشانی میرا بھتیجا ہے، جس سے میرے باپ کی نسل چلے گی۔ بے شک بھتیجی بھی مجھے بیٹی کی طرح پیاری ہے، لیکن یہ پریا دھن ہے۔ اس کو بیاہ کر اپنے گھر چلے جانا ہے۔ خدارا! میرے بھائی کے بچوں کو ہمیں دے دو۔ میں ان کو پڑھاؤں لکھاؤں گا ، ان کی اچھی طرح دیکھ بھال اور پرورش کروں گا۔ میرے بعد میرا بھتیجا شہزاد میری جائیداد کا وارث ہو گا۔ چکنی چپڑی باتیں کر کے میرے تایا نے ماموں کو رام کر لیا۔ امی نے مجھے ان کے ساتھ نہ جانے دیا کیونکہ وہ اکیلی رہ گئی تھیں۔
بہرحال شہزاد کو وہ اپنے ہمراہ لے کر چلے گئے۔ ماموں اس لئے اس امر پر رضامند ہو گئے تھے کہ وہ میری ماں کی دوسری شادی کرنا چاہتے تھے تبھی انہوں نے سوچا کہ لڑکا اپنے وارثوں کے پاس چلا جائے۔ بچی ابھی چھوٹی ہے، اس کا بعد میں سوچ لیں گے۔ اس طرح شہزار ددھیال میں اور میں ننھیال کے حصے میں گئی، یوں ہمار ا بٹوارہ ہو گیا، حالانکہ امی شہزاد کو تایا کے حوالے کرنے پر رنجیدہ تھیں مگر ماموں کے سامنے مجبور ہو گئیں۔ تایا شہزاد کو لے کر چلے گئے ، اس دن میں بہت رو رہی تھی۔ میرا بھائی مجھ سے جدا ہو رہا تھا ہم ہر وقت ساتھ رہتے اور ساتھ کھیلتے تھے۔ پہلے پہل تو تایا اور تائی، شہزاد کے ساتھ اچھا سلوک رکھتے تھے، پیار کرتے تھے۔ ان کے اپنی کوئی اولاد نہ تھی، شہزاد کو اپنانے کے بعد اللہ نے ان پر ایسا کرم کیا کہ شادی کے سولہ برس بعد وہ بھی ایک بیٹے کے والدین بن گئے۔ یہ ایک معجزہ تھا جبکہ یہ دونوں تو ناامید ہو چکے تھے۔ اس کے بعد تو تائی کے گھر ننھے منوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر سال وہ ایک نئے بچے کی خوشی سے مالا مال ہو رہے تھے۔ پانچ سالوں میں ہی اوپر تلے چار بچوں کے والدین بن گئے۔ تائی کا گھر اولاد سے بھر گیا تو اس گھر میں شہزاد کی گنجائش نہ رہی۔ جب وہ بارہ برس کا ہوا تو تایا نے اس کو اسکول سے ہٹالیا اور اپنی دکان پر بٹھا دیا۔ وہ کہنے لگے۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ تم اب میرے ساتھ کاروبار میں لگو اور اسٹور کو سنبھالو۔ میں اکیلا تھک جاتا ہوں۔ وہ اکثر سامان کی خریداری کے سلسلے میں باہر چلے جاتے، تبھی جنرل اسٹور شہزاد کے سپرد کر جاتے۔ کہتے کہ ٹھیک طرح سے حساب کتاب کاپی پر لکھتے جانا۔ ادھر تائی کی یہ عادت تھی کہ شوہر جب بھی مال خرید نے بڑے شہر جاتے ، وہ اسٹور پر جا دھمکتیں۔ تایا کی غیر موجودگی میں اسٹور سے چیزیں لے جاتیں اور کہہ جاتیں کہ ان چیزوں کا حساب کتاب کاپی میں مت لکھنا، ورنہ میں تمہارے تایا کو کہوں گی کہ یہ چیزیں میں نے نہیں لیں بلکہ شہزاد نے چرا کر اپنے دوست گل امیر کو دے دی ہیں۔ اس بار بھی جب تایا شہر سے باہر گئے تو تائی دکان پر گئیں اور بہت سی چیزیں اٹھا لیں۔ کہنے لگیں۔ خبردار ! ان کا اپنے تایا سے کوئی ذکر نہ کرنا، ورنہ میں تم پر چوری کا الزام لگادوں گی تو تمہارا تایا تمہیں بندوق سے مار دے گا۔ انہوں نے یہ بات شہزاد کو ڈرانے کو کہی تھی۔ وہ سچ سمجھ بیٹھا اور اتنا ڈر گیا کہ اسی روز شام کو دکان سے پیسے نکال کر بھاگ کھڑا ہوا، ایسے راستوں کی سمت جنہیں وہ جانتا بھی نہ تھا۔ البتہ جاتے ہوئے اپنے دوست گل امیر کو بتا گیا تھا کہ میں اس وجہ سے یہاں سے جا رہا ہوں۔ ریل میں بیٹھا تو دوست کو کہا کہ میرا دل تو چاہ رہا ہے کہ ماں کے پاس چلا جاؤں مگر تایا مجھے نہیں چھوڑے گا۔ وہ ماموں کے پاس چلا جائے گا۔ ابا نے میری نانی کو مارا اور ماں کو بھی مار دینا چاہا تھا تو اب تایا مجھے نہ مار دے۔ اس نے گل امیر کو یہ بھی بتایا کہ وہ پھو پھی کے گھر ملتان جارہا ہے ، مگر ایک اسٹیشن پہلے ہی اتر پڑا۔ اسٹیشن پر اُسے ادھر اُدھر گھومتے دیکھ کر دو آوارہ شخص اس کے پیچھے لگ گئے۔ وہ ان کے ڈر سے قریبی مسجد میں چلا گیا۔
امام صاحب نے اُسے پریشان دیکھا تو قریب آکر پریشانی کا سبب پوچھا۔ شہزاد نے ان کو تمام احوال بتادیا۔ انہوں نے دو دن اس کو اپنے پاس ٹھہرایا اور تیسرے روز اپنے ایک عزیز جو زمیندار تھے ، ان کے پاس ملازم رکھوا دیا۔ زمیندار صاحب کا نام علی حسن تھا۔ یہ ایک اچھے اور مہربان دل انسان تھے۔ شہزاد ان کے جانوروں کا سب کام کرتا تھا۔ گھر یلو ملازم تھا، لیکن وہ اس کو اپنے بچوں کی طرح شفقت سے رکھتے تھے۔ ایک دن ان کو کسی نے برا بھلا کہا، اور گالی دی تو شہزاد سے یہ برداشت نہ ہو سکا اور وہ اس شخص سے جھگڑ پڑا، جبکہ وہ دو جوان لڑکے تھے ، طاقت ور تھے اور شہزاد دبلا پتلا ، ناتواں سا، اکیلا تھا۔ اس کو خبر نہ تھی کہ مالک اس کے پیچھے آرہا ہے۔ علی حسن نے تمام جھگڑا سن لیا۔ ان لوگوں سے بھڑ جانے کی وجہ سے بھائی کافی زخمی ہو گیا تھا تھا۔ جب زمیندار نے ان لڑکوں کو للکارا تو وہ بھاگ گئے۔ یہ واقعہ گل حسن کے کھیتوں میں پیش آیا تھا۔ زمیندار نے بھائی کو اُسی وقت اسپتال پہنچایا اور شہزاد کی وفاداری پر کمال شفقت دکھائی۔ انہوں نے اس سے گھر یلو حالات اور رشتہ داروں کے بارے پوچھا تو بھائی نے جذبات سے مغلوب ہو کر ان کو تمام روداد کہہ سنائی۔ ان کو بہت افسوس ہوا کہ یہ بچہ ، ایک خوشحال گھرانے کا فرد ہو کر زمانے کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ انہوں نے میرے بھائی سے امی کا پتا پوچھا۔ امی کی دوسری شادی ہو چکی تھی اور شہزاد کو ان کا پتا معلوم نہ تھا۔ بس اسی قدر معلوم تھا کہ وہ لاہور میں کہیں رہتی ہیں اور ان کا شوہر ویگن چلاتا ہے۔ یہ معلومات بھی بھائی کو گل امیر سے ملی تھیں، جو کبھی کبھی ماموں کے گھر جاتا تھا۔ شہزاد ، تایا کا پتا بھی نہ بتاتا تھا۔ اُس کے دل میں خوف بیٹھ گیا تھا کہ اس نے تایا کے پیسے چرائے تھے ، اب تایا مل گئے تو اس کو نہیں چھوڑیں گے ، اسی سبب وہ لوٹ کر گھر نہیں آیا۔ زمیندار صاحب نے شہزاد کو آمادہ کیا کہ وہ ہر حال میں اپنے ماموں ، ماں یا تایا سے ملے۔ اس کو ایک بار اپنے رشتہ داروں سے ملنا چاہئے۔ تب بہت سوچنے کے بعد اس نے ماں سے ملنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ اس نے علی حسن سے کہا کہ آپ مجھے میری ماں سے ملوا دیں، ان کو بھی مجھ سے ملنے کی ایسی ہی چاہ ہو گی جیسی مجھے ان سے ملنے کی ہے۔ زمیندار صاحب اس کو لاہور لے گئے ، جہاں کا اتا پتا ان کے دوست گل امیر نے دیا تھا۔ یہ اس علاقے میں امی کا مکان ڈھونڈتے رہے۔ لوگوں نے ان کو ادھر ادھر گھومتے دیکھا تو پوچھا کہ آپ یہاں کیوں بار بار چکر لگا رہے ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ وہ قاسم خان کا گھر ڈھونڈ رہے ہیں، جو ویگن ڈارئیور ہے۔ ایک محلے داران کو ایک مکان پر لے گیا کہ یہی تیرے سوتیلے باپ کا مکان ہے۔ شہزاد نے کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھٹکھٹایا تو چار چھوٹے چھوٹے بچے ایک ساتھ دروازے پر آگئے اور ان کے پیچھے ایک عورت کھڑی تھی، جو میری اور شہزاد کی ماں تھی۔
اس روز میں امی سے ملنے ان کے گھر آئی ہوئی تھی۔ میرے شوہر کبھی کبھی مجھے وہاں لے جاتے تھے۔ میں امی کے پیچھے ہی کھڑی تھی۔ شہزاد نے دیکھتے ہی ماں کو پہچان لیا، مگر امی اس کو نہ پہچان سکیں۔ میں شہزاد کو پہچان چکی تھی مگر وہ ماں کی دید میں ایسا گم تھا کہ اس نے میری جانب نظر ہی نہ کی۔ تم کون ہو ؟ ماں نے انجان بن کر کہا تو میرا بھائی پھٹی پھٹی آنکھوں سے امی کو تکنے لگا کہ ماں اتنی بدل چکی تھی ، اپنے ہی بیٹے کو نہیں پہچان پارہی تھی۔ تبھی اس نے ہمت کر کے کہا۔ ماں میں ہوں ، تمہارا بیٹا شہزاد ! کیا تم مجھے پہچانی نہیں ؟ ہوں ؟ ایک لمحے کو ماں کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی، مگر اگلے لمحے تاریکی چھا گئی اور وہ خوفزدہ ہو گئیں۔ کہنے لگیں۔ شہزاد ! بہتر ہے کہ تم واپس چلے جاؤ۔ تمہارا سوتیلا باپ تمہارا آنا پسند نہیں کرے گا۔ تم ماموں کے گھر چلے جاؤ، میں وہاں آکر تم سے مل لوں گی۔ وہ ان کی بات سن کر بھونچکا رہ گیا۔ میں اور شہزاد دونوں ہی سوچ نہیں سکتے تھے کہ ماں برسوں بعد اپنے بیٹے سے مل کر ایسا ردعمل دے گی۔ وہ تو حیران تھا کہ امی اجنبیوں کی طرح دروازے میں کھڑی تھیں۔ انہوں نے بیٹے کو گھر کے اندر آنے کو بھی نہیں کہا، نہ یہ پوچھا کہ تم اب کہاں رہتے ہو ؟ کتنی دور سے آئے ہو اور کیسے میرا پتا تلاش کیا ہے۔ امی نے یہ تک نہ کہا کہ بیٹا شہزاد ، تم لمبی مسافت سے تھک گئے ہو گے۔ آؤ ، دو گھڑی آرام کر لو۔ شاید تم کو بھوک لگی ہو ، پیاس ستار ہی ہو۔ ایک گلاس پانی پی لو یا کچھ کھالو پھر چلے جانا۔ شہزاد حیران اور پریشان کھڑا تھا۔ ماں نے اس کے چہرے کو دیکھا، پھر اپنے چار چھوٹے چھوٹے بچوں پر نظر ڈالی اور پریشان کی ہو کر رونے لگیں۔ میں ان کو روتے دیکھ کر بھی مہر بلب تھی، کیونکہ معاملہ جانتی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ جب امی کی شادی ہوئی تھی تو ماموں نے ان کے شوہر سے کہہ دیا تھا کہ تبسم کے بیٹے کو اس کا تایا لے گیا ہے۔ وہ بچہ اب آپ لوگوں کی زندگی میں نہیں آئے گا۔ اس پر اس شخص نے کہا تھا کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ لڑکا اپنوں میں رہے۔ نکاح سے قبل یہ معاملہ طے کر لیں کہ ان کے پہلے شوہر کا لڑکا یا تو اپنے تایا کے گھر رہے گا یا پھر آپ کے گھر میں لڑکے کو اپنے گھر نہیں رکھوں گا، البتہ ان کی بیٹی کے میرے گھر میں آنے جانے اور اپنی ماں سے ملنے پر پابندی نہ ہو گی۔ بعد میں میرے سوتیلے باپن ے میری شادی اپنے کزن کے بیٹے سے کروادی، اس طرح میں ان کے خاندان کا ہی حصہ بن گئی۔ اب میں ماں سے جب چاہتی ملنے جاسکتی تھی، لیکن ماں کی یہ مجبوری شہزاد کو معلوم نہ تھی، تاہم وہ اتنا تو سمجھ چکا تھا کہ یقینا دوسرے شوہر نے ان پر پابندیاں لگائی ہوں گی، تبھی تو ماں اتنی ڈری ہوئی تھی۔ میں چپ تھی۔ سوچ لیا تھا کہ جب وہ ماموں کے پاس جائے گا، میں وہاں اس سے مل لوں گی۔
وہ کھڑے کھڑے یک دم مڑا اور جیپ کی طرف دیکھا، جس میں بیٹھا ہوا شخص اس کا انتظار کر رہا تھا۔ بوجھل قدموں سے اپنی جانب آتے دیکھ کر اس نے بلند آواز سے کہا۔ غم نہ کر بیٹے ! اگر تیری ماں کے گھر میں تیری جگہ نہیں، میرے گھر میں تو ہے۔ آجا گاڑی میں بیٹھ ، واپس چلیں۔ آجا، شاباش۔ جاتے ہوئے بھائی نے ایک نظر مجھ پر ڈالی لیکن اس وقت اس کے دل کی کیفیت عجیب تھی، اس لئے وہ نہیں رکا۔ مجھے اس نے پہچان تو لیا تھا۔ جب اس نے ماں کو پہچان لیا تو بہن کو کیسے نہیں پہچانتا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور مجھ سے رابطہ کرے گا یا مجھ سے ملنے ماموں ممانی کے گھر آئے گا، مگر میں انتظار ہی کرتی رہ گئی اور وہ نہیں آیا۔ تایا کے خوف کی وجہ سے اس نے ماموں سے بھی رابطہ نہیں کیا۔ شاید اسے کسی پر اعتبار نہ رہا تھا، نہ اپنے پر اور نہ کسی رشتے پر بعد میں اس نے کچھ باتیں گل امیر سے کہیں ، جو امی کے ذریعے مجھ تک پہنچیں، تب میں بہت پچھتائی۔ اے کاش میں ہی اس سے کوئی بات کر لیتی، لیکن میں بھی اس وقت ماں کو خوفزدہ دیکھ کر سوتیلے باپ سے ڈر گئی تھی کہ کہیں وہ آ نہ جائے اور مجھے بھائی سے باتیں کرتا دیکھ لے۔ یہ رشتے بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔ اس دن سے اپنوں سے شہزاد کے سب رشتے ختم ہو گئے اور اُن سے مضبوط ہو گئے جو اپنے نہیں تھے مگر اپنوں سے زیادہ تھے۔