عروسہ اور ستارہ ان دنوں نئی نئی ہمارے محلے میں آئی تھیں۔ ان کے والد سعودی عربیہ میں تھے اور تینوں ماں، بیٹیاں اکیلی رہتی تھیں۔ ہمارے سامنے والا گھر ان کی والدہ نے کرایے پر لیا تھا۔ آتے ہی ان کی دوستی محلے کی کچھ لڑکیوں سے ہوگئی۔ ہمارے گھر بھی آنے لگیں لیکن میری ان کے ساتھ دوستی نہ ہوسکی۔ یہ پڑھی لکھی نہ تھیں اور محلے میں بلاروک ٹوک گھومتی پھرتی تھیں جبکہ والدین کی طرف سے ہمیں کہیں آنے جانے کی اجازت نہ تھی۔ میری والدہ کو ان کا آزادانہ گھومنا پسند نہ تھا۔
ان دنوں میں نویں جماعت کی طالبہ تھی۔ بہت زیادہ سمجھ بوجھ نہ تھی، ہر کسی پر اعتبار کرلیا کرتی۔ عروسہ میری ہم عمر تھی۔ وہ کبھی کوئی چیز اور کبھی کوئی شے لینے کے بہانے آجاتی۔ ہمارے گھر کا ماحول کافی سخت تھا۔ امی پرانے خیالات کی تھیں ،تبھی میں عروسہ کے گھر نہیں جاتی تھی بلکہ پڑوس میں بھی کسی کے گھر نہیں جاتی تھی ،صرف اسکول تک جانے کی اجازت تھی۔
عروسہ اور ستارہ جب آتیں، کہتیں۔ محلے کی اور لڑکیاں تو ہمارے گھر آتی ہیں، تم کیوں نہیں آتیں؟ ہمیں اجازت نہیں ہے۔ میں جواب دیتی۔ بھئی تمہارے گھر کا ماحول تو ایسا ہے کہ ہمارا دم گھٹتا ہے۔
لیکن ہمارے گھر میں سکون ہے اسی لئے میرا دم نہیں گھٹتا۔ میں اس کے ایسے جملوں کی نفی کردیا کرتی۔ یہ چھٹی کا دن تھا۔ امی کو خالہ کے گھر جانا تھا۔ جاتے ہوئے مجھ سے کہا۔ گھر کا خیال رکھنا، آئو دروازہ اندر سے بند کرلو، میں آدھ گھنٹے تک آجائوں گی۔ میں نے دروازہ بند کرلیا اور اپنے کمرے میں آکر پڑھنے بیٹھ گئی۔
امی کے جاتے ہی دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے در پر جاکر پوچھا۔ کون ہے…؟ میں ہوں عروسہ…! دروازہ کھولو، دن میں بھی قفل لگا کر بیٹھی ہو۔
میں نے در کھول دیا۔ وہ اندر آگئی۔ آج ستارہ ساتھ نہ تھی، وہ اکیلی آئی تھی۔ تمہاری امی کہاں ہیں؟ مجھے ان سے بریانی کی ترکیب پوچھنی ہے، امی نے بھیجا ہے۔
وہ خالہ کے گھر گئی ہیں۔ اچھا! میرا ایک کام تو کردو، ذرا یہ پڑھ دو۔ اس نے پرس سے ایک کاغذ نکالا اور کھول کر میرے سامنے دھر دیا۔ میں نے پوچھا۔ یہ کیا ہے…؟ کسی نے میری بہن کو لکھا ہے، وہ پڑھ نہیں سکتی۔ سوچا تم سے پڑھوا لیتی ہوں۔
میں نے کاغذ ہاتھ میں لے لیا اور پڑھنے لگی مگر وہ اس قدر واہیات تحریر تھی کہ بلند آواز سے نہ پڑھ سکی۔ کیا لکھا ہے بھئی…؟ بکواس لکھی ہے کسی نے، بس! تم اسے پھاڑ کر پھینک دو۔
ایسے کیسے پھاڑ کر پھینک دوں، ایسا خط دوبارہ آجائے گا۔ اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ تم چند سطریں جو میں بولتی جائوں، لکھتی جائو تاکہ آئندہ کوئی ایسی بکواس لکھنے کی جرأت نہ کرسکے۔ عروسہ…! دیکھو اس کا کوئی فائدہ نہیں، الٹا لکھنے والے کی ہمت افزائی ہوگی۔ بہتر ہوگا کہ ایسی چیزیں نظرانداز کردی جائیں۔
اس نے اس قدر خوشامد کی کہ میں نے جان چھڑانے کو کہا۔ اچھا بولو… میں لکھے دیتی ہوں۔ وہ قلم اور کاغذ میز سے اٹھا لائی اور میں لکھنے لگی۔ ابھی اس نے دو تین جملے ہی لکھوائے تھے کہ امی گھر میں داخل ہوئیں۔ دراصل جب عروسہ آئی، میں دوبارہ کنڈی لگانا بھول گئی تھی۔ والدہ نے مجھے لکھتے پایا تو پوچھا۔ کیا لکھ رہی ہو؟
اچانک اس سوال پر گھبرا گئی۔ میرا خط نہیں عروسہ کا ہے۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ امی نے جھپٹ کر کاغذ مجھ سے لے لیا اور تحریر پڑھتے ہی ان کی تیوری پر بل پڑ گئے۔ ڈانٹ کر پوچھا۔ کس کو لکھا ہے؟ میں پریشانی میں بول نہ پا رہی تھی۔ عروسہ نے فوراً کہا۔ خالہ جان! کسی لڑکے کو خط لکھ رہی تھی۔ میں تو پڑھی لکھی نہیں ہوں۔ یہ دیکھئے اس خط کا جواب لکھ رہی تھی۔ اس نے وہ واہیات تحریر امی کو دے دی۔ والدہ نے پڑھا تو غصے سے ان کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ درشت لہجے میں عروسہ سے کہا۔ تم جائو گھر۔ فوراً وہ چلی گئی۔
سچ بتائو یہ سب کیا معاملہ ہے؟ اف میرے خدا…! میرا سر گھومنے لگا۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ یہ ایسی چالاک لڑکی ہوسکتی ہے۔ سارا الزام اس نے میرے سر تھوپ دیا تھا۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اللہ کا شکر کہ امی کو عروسہ کی چالاکی سمجھ میں آگئی کیونکہ ان کو بھروسہ تھا کہ میں ایسا کچھ نہیں کرسکتی۔ وہ اسی وقت دونوں رقعے لے کر عروسہ کی ماں کے پاس چلی گئیں۔ ماں، بیٹی کو سمجھانے کی بجائے امی سے الجھنے لگی۔ کہا کہ یہ کرتوت تمہاری اپنی بیٹی کے ہوں گے، خواہ مخواہ ہماری بچی پر الزام دھرنے آگئی ہو۔ عروسہ بھی شور مچانے لگی۔ قسمیں کھانے لگی کہ میں تو بریانی کی ترکیب پوچھنے گئی تھی۔ یہ خط ان کی اپنی بیٹی کے ہیں۔ وہ میرا نام لگا رہی ہے۔
والدہ بہت سمجھدار تھیں، جان گئیں کہ یہ ٹھیک لوگ نہیں ہیں۔ یہ عورت اپنی بیٹی کو سیدھا راستہ دکھانے کی بجائے ہمیں بدنام کردے گی۔ بیٹی کا معاملہ ہے، ننگ خاندان لوگوں سے اپنی عزت بچانی مشکل ہوتی ہے، ان کے منہ نہیں لگنا چاہئے۔ زیادہ الجھے بغیر وہ واپس آگئیں اور سختی سے ہدایت کی کہ اب ان لڑکیوں کو گھر میں گھسنے نہ دینا اور نہ کبھی ان کے ساتھ واسطہ رکھنا۔
وہ واقعی غلط قسم کی تھیں۔ عروسہ اور اس کی ماں نے محلے کی عورتوں سے کہنا شروع کردیا کہ کشمالہ خراب لڑکی ہے، محلے کے لڑکے سے خط و کتابت رکھتی ہے۔ خیر کچھ نے سنی ان سنی کردی اور کچھ نے ان کو منہ نہ لگایا کہ ہم پرانے رہائشی تھے۔ سب محلے والے ہمیں اچھی طرح جانتے تھے تاہم دوچار لوگوں نے ان کی کہی ہوئی باتیں آکر بتا دیں تاکہ ہم لوگ ان سے محتاط ہوجائیں۔
اس واقعے کو تین ماہ گزرے تھے کہ ایک روز رات کے نو بجے عروسہ کی ماں گھبرائی ہوئی آئی اور امی سے روہانسی ہوکر بولی۔ بہن! میں بڑی مصیبت میں ہوں۔ عروسہ کل سے غائب ہے۔ وہ جاتے ہوئے گھر میں رکھی نقدی اور سارے زیورات بھی لے گئی ہے۔ خدا کیلئے تم اپنے خاوند سے کہو کہ اس کا پتا کرا دیں۔ میرا یہاں کوئی نہیں ہے۔
میرے ماموں پولیس میں تھے۔ والدہ نے ابو سے کہا تو انہوں نے ماموں کو فون کیا اور حال بتایا۔ عروسہ کی امی رو رہی تھی کہ میں بالکل بے سہارا ہوں۔ خاوند سعودی عربیہ میں ہیں، ان کو بھی اطلاع نہیں کرسکتی۔ پردیس میں ایسی بات سن کر صدمے سے انہیں کچھ ہو نہ جائے۔ خیر ابو کے کہنے پر ماموں نے کافی دوڑ دھوپ کی، محلے کے لڑکوں سے تحقیق کی۔ ایک لڑکے نے اس نوجوان کا بتایا جس سے عروسہ کے مراسم تھے اور اس کی مدد سے پولیس ان کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئی۔
والدہ کے دل میں خفگی ضرور تھی مگر اس وقت انہوں نے خدا ترسی سے کام لیا کیونکہ پڑوس کی بیٹی کا معاملہ تھا اور بیٹی کا معاملہ نازک ہوتا ہے۔ اللہ عزت دار گھرانے کو ایسی قیامت سے بچائے۔ عروسہ عزت کا خسارہ اٹھا چکی تھی مگر ابھی محلے میں بدنامی نہ ہوئی تھی۔ وہ دو راتیں اور ایک دن کسی نوجوان کے ہمراہ ہوٹل میں رہی تھی۔ یہ لوگ اسلام آباد کی طرف جانے والے تھے کہ پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ زیورات بھی برآمد ہوگئے اور لڑکی بھی خاموشی سے گھر واپس پہنچ گئی، البتہ وہ آدمی گرفتار ہوگیا جو عروسہ کو بھگا کر لے جارہا تھا۔ وہ نہایت غلط آدمی تھا اور برے لوگوں کے ایک گروپ کا سرغنہ تھا۔ اللہ کا شکر کہ عروسہ غلط ہاتھوں میں کھلونا بننے سے بچ گئی۔
اس واقعے کے بعد عروسہ کی امی کو سبق مل گیا کہ لڑکیوں کو بے جا آزادی نہیں دینی چاہئے۔ ایک تو انہیں پڑھایا لکھایا نہ تھا اوپر سے اتنی چھوٹ دے رکھی تھی کہ بچیاں اپنا اچھا برا نہ سمجھ سکتی تھیں اور جدھر چاہیں منہ اٹھا کرچل پڑتی تھیں۔
ان لوگوں نے سبق سیکھا یا نہیں لیکن عروسہ کی والدہ نے اپنے خاوند سے یہ
بات چھپا لی۔ امی ابو کی بہت منت سماجت کی کہ اگر میرے شوہر آجائیںتو انہیں ہرگز کوئی بات نہ بتانا ورنہ وہ مجھے طلاق دے دیں گے۔ میں سوچا کرتی تھی کہ ہماری امی اس ترقی یافتہ صدی میں بھی جانے کیوں اس قدر سختی کرتی ہیں۔ ہمیں کہیں آنے جانے نہیں دیتیں، کوئی نئی سہیلی بنانے نہیں دیتیں۔ جو ہماری سہیلیاں ہیں، ان کے بارے میں چھان پھٹک کرتی ہیں۔ کبھی کبھی ان کا رویہ انتہائی ظالمانہ لگتا تھا لیکن عروسہ پر جو بیتی، اس کے بعد سمجھ میں آگیا کہ امی کیوں سختی کرتی ہیں۔ جب ہم کہیں جاتے ہیں، ہمیشہ ساتھ کیوں جاتی ہیں اور کبھی اکیلا کسی کے گھر جانے کیوں نہیں دیتیں۔
ہمارے ابو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے۔ وہ کبھی کبھی امی کو کہتے کہ بیگم! بچیوں پر اتنی سختی بھی ٹھیک نہیں۔ ہمارے والد ہم پر زیادہ پابندیاں نہیں لگاتے تھے لیکن ماں لگاتی تھیں، نگرانی کرتیں اور ہر پل کی خبر رکھتی تھیں۔
عروسہ کی ماں نرم مزاج تھی اور باپ بیرون ملک کمانے گیا ہوا تھا۔ باپ کی غیر موجودگی بھی بچوں کو اس قدر بے خوف کردیتی ہے کہ وہ نادانی میں برے حالات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
(کشمالہ… حیدرآباد)