خوش قسمتی سے ہم نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی ، جہاں زندگی کی تمام آسائشیں موجود تھیں۔ میں اکلوتی اور میرے دو ہی بھائی تھے ،جان محمد اور شان محمد ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر ماموں جان کا گھر تھا۔ وہ ایک محکمے میں معمولی ملازم تھے اور ہماری نسبت کافی بدحالی و غربت کا شکار تھے جبکہ ان کا گھرانہ ہم سے بھی مختصر تھا۔ فوزیہ ان کی اکلوتی اولاد اور میری ہم عمر تھی۔ میری پیدائش کے دوسرے روز بابا جان کی ترقی ہوگئی تبھی وہ مجھے خوش بخت کہا کرتے تھے۔ میرا نام بھی انہوں نے خوش بخت تجویز کیا بابا جان مجھ سے بہت پیار کرتے تھے جبکہ امی زیادہ پیار اپنے بڑے بیٹے جان محمد سے کرتی تھیں۔ وہ ان کو پیار سے جانو بلاتی تھیں تو ہم بھی جانو بھائی کہنے لگے۔ اس طرح ان کا نک نیم جانو پڑ گیا۔ جب جانو بھائی پانچ برس کے ہوگئے توان کو ایک اچھے اسکول میں داخل کروادیا گیا۔ بھائی کی دیکھا دیکهی شان نے بھی ضد کی کہ اسے اسکول جانا ہے۔ وہ ابھی چھوٹا تھا، امی نے منع کیا کہ اگلے سال داخل کرا دیں گے لیکن والد صاحب نے بچے کا شوق دیکھتے ہوئے اس کو بھی اسی اسکول میں کے جی، کلاس میں ڈال دیا کہ جہاں جانو بھائی کو داخل کیا گیا تھا۔ اس طرح دونوں بھائی ایک ساتھ اسکول جانے لگے۔جب جانو بھائی نے پہلی اور شان نے کے جی پاس کرلی تو بڑے بھائی کا استعمال کیا ہوا یونی فارم اور کورس چھوٹے بھائی کو مل گیا اور جانو بھائی کو نئی کتابیں بیگ اور یونی فارم خرید کر دے دیا گیا ، اس پر چھوٹا بگڑ گیا کہ میں پرانی چیزیں نہ لوں گا۔ مجھے بھی جانو بهيا كى طرح نئی کتابیں ،نیا بیگ اور نیا یونی فارم لے کر دیں ،مگر امی جان نے اس فرمائش کو بچے کی ضد سمجھ کر رد کردیا اور بولیں۔بیٹا! فضول خرچی اچھی بات نہیں ، درمیانے گھرانوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب بھائی شان کے دل کو ٹھیس لگی اور اسے جانو بھائی بالکل بھی اچھے نہیں لگے۔ اس کے دل میں استعمال شدہ چیزوں کی نفرت بیٹھ گئی ۔یہ سلسلہ چلتا رہا۔ جب بھی بڑا بھائی پاس بوتا، ان کا پرانا کورس اور یونی فارم چھوٹے کو دے دیا جاتا۔وہ دن بھی آگیا جب جانو بھائی نے میٹرک كرليا ، ان کو ٹیکنیکل کالج میں داخلہ مل گیا اور شان بھائی کوان کی استعمال شده چیزوں سے نجات مل گئی۔ ہماری ماموں زاد بہن فوزیہ مجھے اور شان بھیا کو شروع سے اچھی لگتی تھی اور ہم تینوں ساتھ کھیلتے اور باتیں کیا کرتے ، جبکہ بڑے ہونے کے سبب جانو بھیا ہم سے الگ تھلگ رہتے تھے۔ فوزیہ بھی ہمارے ساتھ پڑھتی تھی اور ہم اکٹھے اسکول جاتے تھے۔ واپسی میں شان ضرور اس کے گھر جاتا اور تھوڑی دیر ماموں کے گھر گزار کر آجاتا۔ اس بہانے امی جان کو ماموں کے گھر کی خبریں بھی مل جاتیں۔ وہ جب بھی کوئی اچھی چیز پکاتیں، شان کے ہاتھ ان کے گھر بھجوادیتیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں شان خوش خوش وہ پکوان لے کر ماموں کے گھر چلا جاتا اور اسے ان کے گھر جانے کا بہانہ مل جاتا ۔ایک بار میٹھی عید پر ہمارے نئے کپڑے بنے شان بھائی کو تیز بخار تھا، اس لئے وہ نیا سوٹ نہ پہن سکاجبکہ جانو بھائی نے اپنا نیا جوڑا پہن لیا ۔ عید گزر گئی، چند دن بعد ہمارے ایک عزیز کے ہاں شادی تھی۔ جانو بھائی نے شان کو بتائے بغیر بغیر اس کا عید والا جوڑا پہن لیا جو بالکل نیا تھا اور چھوٹے نے ابھی اسے انگ بھی نہ لگایا تھا شان نے امی سے احتجاج کیا کہ میرا نیا جوڑا مجھے بتائے بغیر کیوں جانو بھیا نے پہنا ہے۔ ماں نے یہ کہہ کر اسے خاموش کرا دیا کہ تیرا بھائی ہی تو ہے، کوئی غیر تو نہیں۔ یوں چھوٹے بھائی کے دل میں بڑے بھائی کے لئے نفرت کی جڑیں گہری ہوتی چلی گئیں ۔ دوسرے روز اس نے وہ کپڑے سیابی سے خراب کر دئیے۔یہ اس کے باغی دل کا پہلا انتقام تھا جو شان بھائی نے بڑے بھائی کے بجائے خود اپنے آپ سے لیا۔ دونوں بھائیوں کا جو بھی مسئلہ ہوتا، ماں اور بابا جان بڑے بھائی کا ساتھ دیتے اور چھوٹے بیٹے کی ہر بات، بر احتجاج کو یوں رد کردیتے جیسے وہ ان کا لے پالک بو وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا۔ شان بھائی بھی میٹرک میں آگئے ۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کھولی۔ اس پر ایک شعر لکھا ہوا تھا۔ میرے دل کا ورق سادہ ہے اب تک، اجازت ہے؟ تمہارا نام لکھ لوں؟
تحریر دیکھ کر میں اور شان دونوں سمجھ گئے کہ یہ شعر فوزیہ نے لکھا ہے۔ یوں بچپن کی دبی چنگاری نے جوانی میں آگ کی صورت اختیار کر لی۔ اس بات کا علم ہم دونوں کے علاوہ کسی کو نہ تھا۔ میٹرک کے بعد میں نے فوزیہ کے ساتھ ہوم اکنامکس اور شان بھائی نے ڈگری کالج میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ہی شام کو ایک جنرل اسٹور پر پارٹ ٹائم جاب شروع کردی۔ جانو بهائی کے پاس الیکٹرک کاڈپلوما تھا، سو انہوں نے ایک الیکٹرک کی دکان پر کام شروع کردیا۔ یہ ایک منحوس صبح کا ذکر ہے جب ماموں ہمارے ابدی نیند سو گئے ممانی جان اور فوزیہ اس صدمے سے بے حال تھیں ۔ماں جی کا اکلوتا بھائی اور ممانی کا کفیل ان سے روٹھ کر جاچکا تھا۔ بہر حال وقت تو دھیرے دھیرے سارے زخموں کو بھر دیتا ہے۔ ماموں کی پنشن کی رقم ممانی نے بینک میں جمع کروا دی ،جس سے بر ماہ جو منافع ملتا وہ اس سے گزر بسر کرنے لگیں۔ ماموں کی وفات کے بعد شان کے تمام ہمدردانہ جذبات ممانی اور فوزیہ کے لئے وقف ہوکر رہ گئے تھے۔ ایک دن وہ ان کے گھر گیا۔ ممانی نماز پڑھ رہی تھیں۔ اس نے فوزیہ سے کہا۔ میری خواہش ہے کہ تم آئندہ میرے گھر مت آنا۔ اب تم ہمارے گھر بس دلہن بن کر ہی آنا ۔وہ بھیا کی بات سن کر شرما گئی۔ شان کچھ دیر اس کے پاس بیٹھ کر گھر آ گیا۔ انہی دنوں بابا جان، ریٹائرڈ ہو گئے۔ ان کو جو رقم ملی آدھی گھر کی مرمت پر لگادی اور آدھی بینک میں جمع کروا دی ۔ خود انہوں نے پارٹ ٹائم جاب کرلی، اس طرح دونوں کی آمدنی سے گھر کا خرچہ چلتا رہا جبکہ شان بھائی اخراجات خود اٹھاتے -اپنی کمائی کے پیسوں سے وہ ممانی اور فوزیہ کی مختلف طریقوں سے مدد بھی کر دیا کرتے تھے۔ شان بھیا نے گریجویشن کر لی، اب وقت نے اپنا رنگ دکھایا۔جانو بھائی کو امریکہ جانے کا چانس مل گیا ۔ امی اور بابا جان نے ان کو لاکھ منع کیا، وہ نہ مانے۔ بالآخرامی جان نے ان کو اس وعدے پر جانے دیا کہ وہ وہاں شادی نہیں کریں گے بلکہ یہان آ کر کریں گے۔ اس کے جواب مین جانو بھائی نے امی کے کان میں کچھ سرگوشی کی۔انہوں نے کیا کہا؟ ہم نہ جان سکے۔وہ امریکہ چلے گئے. کچھ عرصہ بعد ان کی طرف سے رقوم اور تحائف آنے لگے۔ وہ ہم سب کے لئے کچھ نہ کچھ بھجواتے تھے ۔ شان بھیا کے لئے پرفیوم ، جینز ، شرت وغير سب چیزیں نئی ہوتیں مگر ان کو لے کر شان بھائی خوش نہ ہوتے۔ ان کو لگتا کہ یہ سب استعمال شدہ ہیں تبھی وہ ان چیزوں کو ایک طرف ڈال دیا کرتے تھے۔یہ ان کا بچپن سے جمع شدہ وہ زہر تھا جو جوانی میں نفرت بھرا لاوا بن چکا تھا۔ ایم اے کرنے کے بعد شان نے بطور لیکچرار ایک کالج جوائن کرلیا۔ اچھی کارکردگی کی بناپر اس کا شمار بہت کم عمری میں اچھے اساتذہ میں ہونے لگا۔ یہ ایک شام کا ذکر ہے، جب ممانی ہمارے گھر آئی ہوئی تھیں۔ شان بھائی اپنی الماری صاف کر رہے تھے کہ ہمارے کانوں میں امی کی آواز آئی۔ وہ ممانی سے کہہ رہی تھیں کہ فوزیہ کا تم کہیں رشتہ نہ کردینا، یہ میری بہو بنے گی ۔ بابا جان کی تائید پر ممانی کو انکار کی گنجائش نہ تھی۔ تین سال کے عرصے میں جانو بھیا کی بھیجی رقوم سے ہم نے معاشرے میں اچھا مقام بنالیا۔ امی بھی مختلف طریقوں سے ممانی کی مدد کیا کرتی تھیں تاکہ انہیں احساس نہ ہو کہ وہ بیوہ ہو چکی ہیں۔ ایک صبح کالج کے پرنسپل نے شان کو بلاکر کہا کہ کالج سے آل پاکستان ٹور پر آپ لوگ جارہے ہیں۔ میں نے تم کو اس ٹور کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ انہی دنوں جانو بھائی کا خط آگیا کہ وہ امریکہ سے پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ امی اور بابا جان کی تو خوشی کی انتہا نہ تھی۔ ماں نے شان سے کہا۔ تمہارا بھائی آرہا ہے اور تم ٹور پر جارہے ہو، کیا تم اس کو لینے ایئرپورٹ نہیں جاؤ گے۔ وہ کیا سوچے گا؟ مجبوری ہے امی میں کیا کر سکتا ہوں۔ میرا جانا کالج کی طرف سے ضروری ہے کیونکہ میں سربراہ ہونے کی ذمہ داری قبول کرچکا ہوں۔
یوں وہ جانو بھیا کے آنے سے دو روز قبل اپنے کالج کے ساتھیوں اور طالب علموں کے ہمراہ ٹور پر روانہ ہوگئے۔ انہوں نے سارا پاکستان دیکھا۔ فوزیہ کے لئے ثقافتی نمونے خریدے، ان کی تمام تر شاپنگ کا محور صرف اور صرف فوزیہ تھی ۔ ٹور سے واپسی پر انہوں نے پرنسپل کو تمام لڑکوں کی رپورٹ دی پھر کالج وین میں بیٹھ کر گھر آگئے۔ گھر میں قدم رکھتے ہی ان کی نظر سب سے پہلے فوزیہ پرپڑی۔ خوشی اور خفگی دونوں تاثرات ان کے چہرے پر آ گئے۔ خوشی اس لئے کہ سب سے پہلے وہ نظر آگئی اور خفگی اس لئے کہ شان نے اسے اپنے گھر آنے سے منع کیا تھا وہ پھر بھی آئی بیٹھی تھی۔ وہ اس سے بغیر بات کئے اپنے کمرے میں چلے گئے کمرے میں سامان رکھا، پھر سب سے پہلے امی جان کے پاس آئے۔ انہوں نے اسے گلے لگایا، دعا دی اور کہا کہ تیری ممانی کو اچانک دل کی تکلیف ہوگئی تھی۔ اسی نازک حالت میں اس نے فوزیہ کو رخصت کرنے کی آرزو کی اور ہم نے تمہارا انتظار کئے بغیر اس کو تیرے بھائی کے ساتھ نکاح کرکے رخصتی کروا لی ہے۔ چونکہ ڈاکٹر نے کہہ دیا تھا کہ تمہاری ممانی کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے لہذا ہمیں آناً فاناً سادگی سے جان محمد کے ساتھ فوزیہ کی شادی کرنا پڑگئی ۔ اس کے علاوہ اور کیا کیا امی کہے جارہی تھیں، شان کچھ نہ سن رہاتھا ۔ اسے کیا بوش تھا۔ اسے تو بس اپنے کانوں میں سائیں سائیں ہی سنائی دے رہی تھی۔ دودن کی طویل بے ہوشی کے بعد جب حالت سنبھلی تو اس نے خود کو اسپتال کے بستر پر لیٹا ہوا پایا۔ ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق ذبنی صدمہ تھا ، یعنی نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تھا۔ اسپتال میں شان کو کئی دن رہنا پڑا ۔ میرا بھائی گھر آیا تواس کی دنیا بی لٹ چکی تھی۔ شکوہ کس سے کرتا؟ خاموش محبت نے خاموشی سے دم توڑدیا۔ ادھر فوزیہ بھی چپ چپ اور گم صم تھی۔ بھائی اور ماں کی خاطر ،شان بھائی نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ ان کو فوزیہ سے کوئی گلہ نہ تھا کہ لڑکیاں بے بس ہوتی ہیں۔ ایک دن امی نے مجھے بتایا کہ جان محمد نے امریکہ جانے سے پہلے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں فوزیہ کوہی اس کی دلہن بناؤں گی، تبھی میں نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے تب مجھے وہ سرگوشی یاد آ گئی جوبڑے بھائی امریکہ جاتے ہوئے امی جان کے کان میں کرکے گئے تھے ۔ وقت نے میرے شان بھیا کو ایک بار پھر سے پیچھے دھکیل دیا تھا، لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ دوسال کا عرصہ گزرگیا۔ اس دوران باباجان بیمار ہوگئے اور ہم کو داغ مفارقت دے گئے، بھائی کے آنگن میں دوبچوں کا اضافہ ہوچکا تھا۔ ایک دن جانو بھائی، اپنے ننھے منے بیٹے کے لئے دودھ کا ڈبا لینے گئے تو ان کا کار سے ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ وہ جس حالت میں گھر واپس آئے اس پر محلے کی ہر آنکھ اشک بارتھی۔ ایک سال میں دو پیاروں کی اموات نےامی کو بلاکر رکھ دیا اور وہ بستر سے جا لگیں۔ ابھی فوزیہ کی عدت کو ختم ہوئے ایک ماہ گزرا تھا کہ امی نے شان کو بلاکر کہا بیٹا! میں نے ساری عمر تم لوگوں سے کچھ نہیں مانگا، آج مانگتی ہوں۔ تجھے میری آرزو پوری کرنا ہوگی۔ فوزیہ میرے مرحوم بھائی کی نشانی ہے اور اس کے بچے ، میرے لخت جگر جانو کی نشانی ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ اسی گھر میں رہیں، تم فوزیہ سے نکاح کرلو اور اپنے ننھے منے بھتیجوں کے سرپر شفقت کا ہاتھ رکھ دو۔ امی جان کی اس خواہش پر نہ چاہتے ہوئے بھی بے بسی سے شان بھائی نے سر جھکا لیا۔ ان کے پاس انکار کے لئے الفاظ نہ تھے۔ یوں چند بزرگوں کی موجودگی میں فوزیہ، میرے چھوٹے بھائی کے نکاح میں آگئی۔ اس کے بعد امی کی طبیعت کچھ سنبھل گئی اور وہ بشاش بشاش نظر آنے لگین کہ ان کے پوتوں کوچچا کے روپ میں باپ مل گیا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ وقت دھیرے دھیرے ہرزخم کو بھر دیتا ہے شان بھیا کو توجانو بھائی کی ہر شے سے نفرت ہوجایا کرتی تھی کہ نئی چیزیں ان کو ملتی تھیں اور ان کی استعمال شدہ اس کا مقدر بنتی تھیں اور حیرت کی بات ہے کہ جیون ساتھی کے معاملے میں بھی قسمت نے یہی فیصلہ کر رکھا تھا کہ پہلے ان کی چاہت جانو بھیا سے وابستہ ہو ، بعد میں ان کو ملے۔ یہ خوشی ملی بھی تو کیسے ! یہ آخری بازی بھی بڑے بھیا ہی جیت کرگئے۔