Thursday, October 10, 2024

Akhri Goli

جوں جوں امتحان قریب آتے جارہے تھے، سلیمان ذہنی دبائو اور گھبراہٹ کا شکار ہوتا چلا جارہا تھا۔ اس کی زندگی دو خانوں میں بٹ گئی تھی۔ تعلیمی سرگرمیاں اور پھر مجرمانہ کارروائیاں… وہ چوبیس سال کا ایک خوبرو نوجوان تھا، جسے جاسوسی کہانیوں اور ناولوں میں مثبت اور اصلاحی کرداروں کے برعکس مجرمانہ کرداروں سے رغبت و انسیت ہو چکی تھی۔ ایک ناول کے کرمنل ہیرو کا کردار اس کے ذہن پر پوری طرح چھا چکا تھا، جو اپنی خُوبصورت اور حسین و جمیل محبوبہ کی طرح طرح کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں کیا کرتا تھا۔ اُسے شرلاک ہومز کے برعکس، چور آرسین لوپین کا کردار زیادہ دلچسپ اور پرکشش محسوس ہوا تھا۔ سلیمان ذہین طالب علم تھا۔ اس میں آگے بڑھنے کی لگن تھی لیکن باپ کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد اس کی رُوح معاشرے کی بے رحم سڑک پر جگہ جگہ زخمی ہوئی چنانچہ وہ اپنے اخراجات اور افتاد طبع کی تسکین کے لیے کہانیوں کے مجرمانہ کرداروں کو پسند کرنے لگا۔ وہ نوجوان تھا اور اس کی کمزوری اس کی حسین اور خُوبرو محبوبہ عروہ تھی۔ اس کے ہونٹوں کی دلکش مسکراہٹ دل موہ لینے والی تھی۔ وہ ڈبل ایم اے کر چکی تھی اور چاہتی تھی کہ اس کا ہونے والا خاوند کم از کم ایک ایم اے تو کئے ہوئے ہو۔ عروہ ڈیفنس کے علاقے میں رہتی تھی جبکہ سلیمان محمود آباد کی متوسط آبادی میں اپنے ایک دوست کے فلیٹ میں گزر بسر کر رہا تھا۔ وہ اپنے باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ باپ کی وفات کے کچھ عرصے بعد ہی اس کی والدہ بھی ایک حادثے میں چل بسی تھیں۔ جب والد اور والدہ دونوں چلے گئے تو تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے میں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اُسے ایسا معلوم ہوا جیسے لوگوں کے چہروں سے طرح طرح خول اترنے شروع ہو گئے ہیں۔ وہ بےرحم چہروں اور سنگ دل ویرانوں میں بدل گئے ہیں۔ ایک دن وہ قسطوں پر لی ہوئی اپنی بائیک پر عروہ کی فرمائش کی تکمیل میں چلا جارہا تھا کہ صدر کے علاقے سے ڈیفنس مین روڈ پر آتے ہوئے اس کی بائیک سڑک کی کھدائی اور تنگ راستے کے باعث سیٹھ پرویز خان کی کار سے ٹکرا گئی اور کار کی باڈی پر لمبی لائن پہنچ گئی۔ پرویز خان غصے اور اشتعال کے عالم میں نیچے اترا اور اس پر سرتاپا نگاہ ڈالی۔ اس کے لمبے قد ، مضبوط جسم ، آگے بڑھنے کی لپک نے پرویز خان کا غصہ اتار دیا اور اُس نے اُسے اپنی تنظیم کا جزو بنا کر استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں سلیمان، پرویز خان کی دعوت پر رات کے وقت اس کی کوٹھی میں چلا آیا۔ پرویز خان نے اُس کے سامنے ایک پروگرام رکھا۔ کمرے کی خُوبصورتی اور آراستگی نے سلیمان کو کچھ ایسا متاثر کیا کہ اس نے پرویز کے مجرمانہ پروگرام کا حصہ بننے کی ہامی بھر لی۔ وہ اپنی محرومیوں کا ازالہ کرنا چاہتا تھا۔ اب اسے پرویز کے فون کا انتظار رہتا تھا کہ کب کوئی کام اس کے سپرد کیا جائے گا لیکن امتحان کی تیاری کے دوران اس کی توجہ بٹ گئی تھی۔ منقسم ذہن کی وجہ سے سوالات کے جوابات یاد کرنے میں دقت اور الجھن کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، لہذا گھبراہٹ اور الجھن نے اضمحلال کی صورت اختیار کرلی تھی۔ اسی دوران اُسے موبائل فون پر پرویز خان کا پیغام ملا کہ محمود آباد کے آخری سرے پر واقع اس پرانے آسیبی مکان میں چلے آئو، جہاں تمہیں نئے مشن کے متعلق ہدایات دی جاتی ہیں۔ یہ غیر آباد مکانوں کی قطار کے عقب میں ٹیلے پر واقع ایک ویران سا پرانا مکان تھا، جس کے جھڑے ہوئے حصے رات کے وقت خوفناک دکھائی دیتے ہیں۔ اس مکان کے متعلق مشہور تھا کہ یہ آسیب زدہ ہے اور اس کی چھت پر بھوتوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ لہذا رات کو لوگ اس طرف آتے ہوئے گھبراتے تھے۔

رات کے بارہ بجے ٹیلے کے دروازے تک جانے والی پختہ سڑک پر سلیمان کی موٹر سائیکل ہیڈلائٹس کی روشنی میں تیزی سے صدر دروازے کی طرف بڑھتی جارہی تھی۔ وہ اُلجھن کے عالم میں سوچ رہا تھا کہ آخر اس راستے کا انجام کیا ہو گا جس پر وہ چل نکلا تھا۔ اگر اُس کی تعلیم ادھوری رہ گئی تو وہ عروہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ عروہ… جس کی مسکراہٹ اور دلکش شخصیت پر وہ ہزار جان سے فدا ہو چکا تھا، اب اُس کی جدائی اس کے لیے سوہان روح تھی۔ ٹھنڈی اور تیز ہوا کے جھونکے شائیں شائیں کا شور مچاتے ہوئے گزر رہے تھے۔ جب وہ گیراج میں گاڑی روک کر باہر نکلا اور ملازم نے بیرونی دروازہ اندر سے بند کیا، اسی لمحے بادل بڑے زور سے گرجے ، جیسے آسمانوں پر کسی کی جان لی جارہی تھی۔ وہ بہادر اور دلیر لڑکا تھا۔ گولیاں چلانا، خنجر کے وار کرنا، راتوں کو اپنے مشن پر نکلنا اس کا معمول تھا مگر آج نہ جانے کیوں وہ کچھ خوف سا محسوس کر رہا تھا۔ وہ بے جان قدموں سے چلتا ہوا مختلف راہداریوں سے ہو کر باس کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ کمرا سادہ مگر صاف ستھرا تھا۔ کمرے کے وسطی مقام پر لگی بڑی اور شاندار میز کے پیچھے پرویز خان اپنی آرام کرسی پر بیٹھا جھول رہا تھا۔ اس کی نیلی آنکھوں میں تیز چمک تھی۔ اچانک کرسی کی حرکت رُک گئی۔ سلیمان کو اس کی نظریں اپنے جسم میں اترتی محسوس ہوئیں ، جیسے وہ اس کا ایکسرے لے رہا ہو۔ اُس نے سلیمان پر ایک بھر پور نگاہ ڈالی، پھر ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے ہوئے بولا۔ کیا بات ہے ؟ آج تم کچھ سست اور اداس معلوم ہوتے ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تمہارا دل و دماغ کہیں اور الجھا ہوا ہے۔ کوئی خاص بات نہیں باس ! بس امتحان سر پر ہے۔ اگر آپ اپنا پروگرام ملتوی کر دیں تو بڑی نوازش ہو گی۔ سلیمان نے خشک ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔ بیٹے ! معاملہ فوری نوعیت کا ہے۔ دیر ہونے پر ہمیں بڑا نقصان اُٹھانا پڑے گا اور میں اِس وقت نقصان اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ میرے نزدیک آئو۔  پرویز خان کی آواز تحکمانہ ہو گئی۔ سلیمان خان اپنی نشست سے اٹھ کر بڑی میز کے قریب آیا تو اس نے نوٹوں کی ایک بڑی گڈی اور ایک کاغذ کا پرزہ اس کی طرف پھینک دیا۔ سلیمان نے نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں چیزیں اٹھا لیں۔ معلومات ذہن نشین کرنے کے بعد اُس نے پرزہ اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں چھپا لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ٹھیک ہے باس آپ کا کام ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا خارجی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے گھر آکر لباس بدلا۔ سوٹ کیس میں ضروری سامان رکھ کر فون پر ٹیکسی منگوائی اور ایئر پورٹ روانہ ہو گیا۔ اُس نے اپنا سر سیٹ کی پشت سے ٹکا دیا اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے لگا کہ وہ آخر کیسی زندگی گزارے گا۔ اُس کے ہاتھ میں قلم ہو گا یا ریوالور ! یہ قتل و غارت کا کھیل ختم ہو گا یا نہیں ؟ اس کے آنگن میں ننھے منے بچے کھیلیں گے یا وہ بچوں کو یتیم کرتا رہے گا؟

جب ہوائی جہاز لاہور ایئرپورٹ پر اترا تو سب سے پہلے چیکنگ کے مراحل سے گزر کر باہر آنے والا سلیمان ہی تھا۔ اُس نے تیز نگاہوں سے ایئر پورٹ کا سرسری سا جائزہ لیا۔ اس کے خون میں برق سی دوڑ گئی۔ لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی۔ کہیں کہیں سیلفیاں بنانے کا عمل بھی دکھائی دے رہا تھا۔ سلیمان کے خون میں گرم گرم لہریں سی دوڑنے لگیں۔ وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے بریف کیس کو مخصوص انداز میں ہلاتا ہوا ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف بڑھا۔ ایک بائیکیا وہاں تیار کھڑا تھا۔ اُس نے مسکرا کر سلیمان کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ دو تین ٹیکسیوں اور رکشائوں کے ڈرائیوروں نے بھی باہر نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر سلیمان انہیں نو کہہ کر بائیکیا موٹر سائیکل پر سوار ہو گیا۔ اب کی بار اس کے لیے ہوٹل میں کمرا بک کروایا گیا تھا۔ موٹر سائیکل تیزی سے سڑک پر دوڑنے لگی۔ سلیمان سفر طے کرتے ہوئے پھر ذہنی طو پر الجھ گیا کہ وہ یہ سب کچھ اپنے اخراجات کے لیے کر رہا ہے، لیکن کیا یہ صحیح ہے ؟ پھر اسے ایڈونچر کا بھی یاد آیا۔ اپنی بےرحمی اور سنگ دلی پر وہ کچھ ملول ہوا۔ وہ اپنے تعلیمی نصاب اور ادبی تحریروں میں انسانیت اور اخلاقی اقدار کے بارے میں بہت کچھ پڑھ چکا تھا۔ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ اسے یہ الفاظ بھی یاد آئے لیکن خُوبصورت افکار پر مادہ پرستی و عیش و عشرت کے جذبات نے اپنا غبار پھیلا دیا۔ اچھا مستقبل حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ میرے اعلیٰ کردار کی قدر اس معاشرے نے کیوں نہ کی؟ اگر پیسہ نہ ہو گا تو عروہ بھی میرے قریب نہیں آئے گی۔ وہ انہی سوچوں میں مگن تھا کہ بائیک رک گئی اور اس کی سوچوں کا حصار ٹوٹ گیا۔ یہ ہوٹل مون مارکیٹ کے وسطی پارک کے مشرقی کنارے پر ایک پرانے پلازہ کو گرا کر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس میں پارک کی جانب کے علاوہ دائیں بائیں سے بھی داخلی راستوں کے ذریعے اندر پہنچا جا سکتا تھا۔ ہوٹل کے ہال میں نصف دائرے کے کائونٹر پر بیٹھی سنہری بالوں والی لڑکی پر خوشگوار سی نگاہ ڈال کر اُس نے بکنگ رسید دکھائی۔ لڑکی نے اُسے ایک ویٹر کے ساتھ دوسری منزل پر روانہ کر دیا۔ وہ اپنے روم نمبر ایک سو پچاس میں داخل ہوا۔ کمرا آراستہ و پیراستہ تھا۔ کمرے کی کھڑکیاں پارک کی جانب واقع تھیں۔ ویٹر کے جانے کے بعد اس نے دروازہ بند کیا اور کھڑکیاں کھول کر ٹھنڈی ہوا میں گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ پارک کی روش پر لگے ستونوں پر خُوشنما روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ عورتیں، مرد، بچے، بوڑھے باغ میں جابجا دکھائی دے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد اس نے شاور لے کر تازہ دم ہو کر کھانے کا آرڈر دے دیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر اس نے تیز چائے پی اور پھر سگریٹ سلگا کر گہرے گہرے کش کھینچتے ہوئے سوچنے لگا کہ کل اس کا شکار آنجہانی ہو جائے گا، پھر وہ بھی نہ بول سکے گا، منوں مٹی تلے سو جائے گا۔ اُس کے عزیز واقارب اُسے لاکھ پکاریں وہ جواب نہ دے پائے گا۔

انہی خیالات کے ساتھ وہ تھک کر بستر پر اوندھا لیٹا اور تمام سوچوں سے غافل ہو گیا۔ اگلی صبح وہ اپنے شکار کے ہوٹل میں بھیڑ کے ساتھ داخل ہوا اور عقبی زینے کی طرف بڑھ گیا۔ ماحول سُنسان اور سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ و ادھر اُدھر دیکھ کر محتاط انداز سے گول چکر دار زینے پر قدم بڑھانے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ زینے کے بلوں کی مانند زندگی بھی سیدھی اور سپاٹ نہیں بلکہ اُلجھا گھما دینے والی ہے۔ وہ قدم اٹھاتا ہوا اوپر چلا آیا، اسی لمحے لفٹ دوسری منزل پر آ کر رک گئی۔ لوگ باہر نکل کر راہداری میں پھیل گئے۔ سلیمان سیڑھیوں پر ہی رُک گیا۔ وہ لوگوں کے ادھر اُدھر ہٹنے کا انتظار کرنے لگا۔ جب راہداری سُنسان ہوئی تو وہ اوپر چلا آیا۔ اس کے قدم تیزی سے کمرا نمبر ایک سو پندرہ کی طرف اٹھنے لگے۔ دروازے کے سامنے رک کر اس نے ہیٹ سر پر جھکا دیا اور قمیض کے بڑے کالر کھڑے کر لیے ، پھر آہستہ سے دروازے پر دستک دی۔ کون ہے ؟ کسی نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔ جناب ! میں ہوٹل بوائے ہوں۔ آپ کے لیے ایک پارسل لایا ہوں۔ سلیمان نے تیزی سے کہا۔ پارسل …! اندر سے، حیرت سے رُک رُک کر دُہرایا گیا۔ اچھا اسے دروازے کے پاس چھوڑ دو۔ میں بعد میں اُٹھا لوں گا۔ مگر جناب قاعدے کے مطابق مجھے آپ کے دستخط بھی کرانا ہیں۔ اچھی بات ہے۔ ایک منٹ ٹھہرو، میں دروازہ کھولتا ہوں۔ اندر موجود شخص نے خاصے تذبذب سے کہا اور سلیمان کے ہونٹوں پر پُراسرار سی مسکراہٹ آگئی۔ اس نے بریف کیس کھولا اور اس میں موجود مختلف پرزوں کو جوڑنے لگا۔ دوسرے ہی لمحے اُس کے ہاتھ میں جدید ساخت کا والٹر اسکاٹ ریوالور تیار تھا، جس پر سائلنسر فٹ تھا۔ یہ حیرت انگیز ریوالور پرویز خان نے فراہم کیا تھا، جو یورپ کے کسی جرائم پیشہ آدمی نے تیار کیا تھا اور خفیہ طور پر لوگوں کو مہنگے داموں فروخت کر رہا تھا۔ اس نے ریوالور کا سیفٹی کیچ ہٹاتے ہوئے دروازے کی طرف تان دیا۔ اُس کی ساری توجہ دروازے کے پیچھے سے ابھرنے والی آہٹوں پر مرکوز تھی۔ قدموں کی چاپ آہستہ آہستہ دروازے کی طرف آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے کے عضلات میں سختی اور بے رحمی ابھر آئی۔ خون میں برق سی دوڑ گئی۔ اس وقت اندر سے چٹخنی کھلنے کی آواز آئی۔ کس چیز پر دستخط کرنا ہیں ؟ دروازہ کھولتے ہی اس شخص نے پوچھا۔ اپنی موت کے سرٹیفکیٹ پر سلیمان نے سرد لہجے میں کہا اور ٹرائیگر دبا دیا۔ فائر کی آواز سائلنسر کی وجہ سے کمرے کے اندر ہی رہ گئی۔ باہر راہداری میں کوئی ہوتا بھی تو سُنائی نہ دیتی۔ گولی ٹھیک اُس کے شکار ارباز خان کے ماتھے پر پڑی تھی۔ وہ الٹ کر فرش پر لڑھک گیا۔ اسے چیخنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ سُرخ خون ابل ابل کر سفید قالین پر پھیلنے لگا۔ سلیمان تیزی سے اندر داخل ہوا اور دروازہ بند کر دیا۔ اس نے ریوالور اپنی پتلون میں اُڑس لیا تھا۔ اس نے اپنی جیکٹ کی جیب سے دستانے نکال کر پہن لیے۔ موسم سرد تھا لہذا لوگ شرٹس یا قمیض کے اوپر کچھ نہ کچھ پہن کر نکلے تھے۔ وہ پھرتی سے کمرے کی تلاشی لینے لگا۔ الماری کے خانے ، میز کی درازیں، قالین، کوئی چیز اس کے ہاتھ سے نہ بچی، یہاں تک کہ اُسے وہ شے مل گئی جس کی اُسے جستجو تھی۔ یہ ایک کالے رنگ کا سفری بیگ تھا، جو ارباز خان نے دوسرے سامان میں چھپا کر رکھا ہوا تھا۔

جونہی سلیمان نے سنہری زپ کھولی، اُس کی آنکھوں میں چمک بھر گئی۔ اُس نے اندر رکھے ہوئے نوٹوں کے تمام بنڈل میز پر الٹ دیئے، پھر جلدی جلدی تمام رقم گن ڈالی اور جب مجموعی تعداد معلوم ہوئی تو اس کی پیشانی پر ناگواری کی سلوٹیں پڑ گئیں۔ رقم اس تعداد سے بھی نصف تھی جتنی اسے پانے کی توقع تھی۔ اس نے اضطراب کے عالم میں تیزی سے دوبارہ کمرے کی تلاشی لی مگر کچھ اور نہیں مل سکا۔ دل ہی دل میں کھولتے ہوئے اُس نے ارباز خان کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور لپک کر اس کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے قریب پہنچ کر اس نے ایک زور دار ٹھوکر اُس کی پسلیوں پر دے ماری۔ اب اُسے افسوس ہو رہا تھا کہ اُس نے پرویز خان کے حکم کے مطابق ارباز خان کو ٹھکانے لگانے میں جلد بازی سے کام لیا ہے۔ پہلے کمرے کی تلاشی لینا ضروری تھا، پھر اس سے باز پرس کر کے اُسے موت کے حوالے کرنا چاہیے تھا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکا تھا، باقی دولت کا راز اسے اب خود ہی معلوم کرنا تھا۔ کچھ سوچ کر اُس نے اُس کی جیبوں کی تلاشی لی مگر سوائے بٹوے کے اُس کی جیبوں سے کچھ نہ نکلا۔ وہ چند لمحے تک قالین پر پڑی لاش کو گھورتا رہا، پھر لمبے لمبے سانس لیے اور نوٹوں کے بنڈل اور ریوالور کو اپنے بریف کیس میں رکھ لیا۔ مقتول کا پرس بھی ان کے ساتھ رکھتے ہوئے بریف کیس بند کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ راہداری میں اس نے دستانے اتار کر جیب میں رکھے اور کچھ قدم چل کر عقبی زینے کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے چلی منزل کے واش روم میں گھس گیا۔ وہاں سے ایک منٹ بعد باہر نکلا اور توقع کے مطابق واش رومز سے نکلنے والے تین چار افراد میں شامل ہو کر ہوٹل کے بال کی طرف بڑھنے لگا۔ ہال میں رونق اور گہما گہمی تھی۔ دن کے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ ہال میں بیٹھے لوگ ناشتہ کرنے ، اخبار پڑھنے اور ایل سی ڈی اسکرین پر تازہ سیاسی خبریں سنے اور تبصرے کرنے میں مگن تھے۔ کچھ لوگ اندر داخل ہو رہے تھے، کچھ ریسیپشن پر موجود تھے۔ بیرے ادھر ادھر آجارہے تھے۔ کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ آہستگی سے چلتا ہوا ہوٹل کے عقبی دروازے کی طرف آیا اور وہاں کسی کو موجود نہ پا کر تیزی سے باہر نکل گیا۔ سڑک پر آ کر اس نے پاس سے گزرتی ہوئی ایک ٹیکسی کو روکا۔ ایئرپورٹ وہ اندر بیٹھتے ہوئے بولا اور ٹیکسی روانہ ہو گئی۔ اُسے معلوم تھا کہ ایک گھنٹے بعد ایک طیارہ پرواز کرنے والا ہے۔ ایک نئی کمپنی نے متعدد پروازیں اب شروع کر رکھی تھیں۔ طیارے میں داخل ہو کر وہ مطلوبہ سیٹ پر بیٹھا اور سیٹ کی پشت سے کمر ٹکاتے ہوئے بقیہ نصف رقم کے بارے میں سوچنے لگا چونکہ تھوڑی رقم ہی برآمد ہو سکی تھی، اس لیے ابھی اسے باقی رقم تلاش کرنے کے لیے مزید دوڑ دھوپ کرنا تھی۔ وہ دل ہی دل میں قسمت کو بُرا بھلا کہنے لگا۔ وہ دُگنی مصروفیت میں پھنس گیا تھا۔ اس وقت جب اسے اپنا فائنل امتحان دینے کے لیے مکمل یکسوئی سے تیاری کرنا تھی، یہ درد سر اُسے امتحان سے دُور کر سکتا تھا، جبکہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنا اس کے لیے زندگی اور موت والا معاملہ تھا۔ اگر وہ امتحان میں ناکام ہو جاتا تو عروہ اس سے منہ موڑ کر کامران سے شادی کر لیتی۔ یہ بات وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا مگر اس کے پائوں جرم کی زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے۔ وہاں بھی معافی نہیں تھی۔ وہ کام سے انکار نہ کرنے کا معاہدہ کر چکا تھا۔ اسے اپنے دماغ کی رگیں پھولتی محسوس ہوئیں۔ اس نے اپنا سر تھام لیا۔ طیارہ کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے والا تھا۔ دوسرے دن وہ کراچی ڈیفنس میں واقع ایک ماڈرن طرز کی عمارت کی دوسری منزل پر لفٹ سے اتر رہا تھا۔ وہ ایک دروازے کی طرف بڑھا، جس پر نیو کراچی انٹر پرائزز کے الفاظ تحریر تھے۔ جیسے ہی وہ دروازہ کھول کر سجے ہوئے استقبالیہ میں داخل ہوا، خوبصورت سی سیکرٹری نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اسے پسند کرتی تھی۔ سلیمان نے بھی ہوائی بوسہ اچھال دیا۔ سیدھے اندر چلے جائو مسٹر سلیمان۔ وہ بڑی ادا سے چہک کر بولی۔ مسٹر پرویز اور دلاور خان آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ سلیمان نے اثبات میں سر ہلایا اور ایک دوسرے دروازے کی طرف چل دیا۔ جس پر پرائیویٹ کی تختی آویزاں تھی۔ اندر آفس میں پرویز خان اور دلاور خان بے تابی سے سگریٹ پیتے ہوئے اس کے منتظر تھے۔ جونہی پرویز خان کی اس پر نظر پڑی، وہ پُرجوش لہجے میں بولا۔ ہیلو برخوردار ! کہو ایڈونچر کیسا رہا…؟ کامیاب مگر سلیمان کے منہ سے کھوئے کھوئے لہجے میں نکلا۔ مگر کیا ..! پر ویز خان چونک کر تیزی سے بولا۔ جواب میں سلیمان نے بریف کیس اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس میں پچاس لاکھ روپیہ ہے اور وہ رقم بھی، جو اس کے پرس سے برآمد ہوئی ہے۔ سلیمان خان نے بریف کیس کھول دیا۔ مگر اس کے پاس تو پورے دو کروڑ روپے تھے ۔ دلاور خان جو پرویز کا خاص ساتھی تھا سُرخ ہوتے ہوئے بولا۔ باقی رقم تم نے تو نہیں مار دی کالج بوائے ! سلیمان کا چہرہ سُرخ ہو گیا، جبڑے کے عضلات تن گئے اور اس کا سیدھا ہاتھ ریوالور کی طرف بڑھا، جو اب بھی کھلے ہوئے بریف کیس میں یکجا صورت میں رکھا ہوا تھا۔

تم اپنا منہ بند رکھا کرو، تم جذباتی اور بے لگام آدمی ہو ۔ پرویز نے اسے ڈانٹا۔ وہ بُرے بُرے منہ بنانے لگا۔ مائی ڈیئر سلیمان ! تم اس احمق کی باتوں کا بُرا مت مانو ، اس کے پاس دماغ نہیں ہے ، صرف زبان ہی زبان ہے ۔ سلیمان نے ایک گہرا سانس لے کر ہاتھ واپس کھینچ لیا۔ میں جانتا ہوں کہ تم ہمارے ساتھ غداری نہیں کر سکتے ۔  پرویز خان نے کہا۔ مگر ارباز خان نے دو کروڑ کا غبن کیا تھا۔ اب تنظیم ہر حال میں وہ رقم واپس چاہتی ہے۔ مجھے بتائو کہ باقی رقم کہاں ہو سکتی ہے، میں جا کر لے آئوں گا؟  سلیمان نے میز پر مکا مارتے ہوئے کہا۔ یہ ہمارے کارکنوں کی رپورٹ ہے۔ جو انہوں نے ارباز خان کے جیل سے نکلنے کے بعد اس کی سرگرمیوں اور نقل و حرکت کے بارے میں فراہم کی تھی۔ پرویز نے ایک فائل سلیمان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد ہم نے ارباز خان کو پھر سے اُس کے کام پر لگا دیا تھا مگر جب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ضرورت سے زیادہ پینے لگا ہے اور ایک رقاصہ کے چکر میں پڑ گیا ہے تو تنظیم کی انتظامیہ نے اُسے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا مگر اس سے پہلے کہ فیصلہ پر عمل ہو سکتا ارباز خان کو اس کی سن گن مل گئی اور وہ دو کروڑ روپے لے کر فرار ہو گیا۔ پرویز خان نے قلم اٹھا کر کاغذ پر کچھ لکھا اور پرزہ سلیمان کی طرف بڑھا دیا۔ یہ گلبرگ کے اس کلب کا پتا ہے ، جہاں وہ ڈانسر رقص کرتی ہے۔ اس کا نام ستارہ ہے۔  تم یہ کام میرے سپرد کیوں نہیں کر دیتے ؟ دلاور خان نے لقمہ دیا۔  میں اس قماش کی عورتوں سے نمٹنا خوب جانتا ہوں۔ تم جذباتی آدمی ہو ، تمہارے لیے دوسرے کام ہی مناسب ہیں۔ پرویز خان نے ناصحانہ لہجے میں کہا اور دلاور کامنہ پھر لٹک گیا۔ پرویز نے اپنا رخ بدل کر سلیمان کی طرف کر لیا۔ تم اس عورت کو اپنے دام میں پھانس لو اور باتوں ہی باتوں میں معلوم کرنے کی کوشش کرو کہ وہ بقیہ رقم کے متعلق جانتی ہے یا نہیں ! ہم اس کے ساتھ بلا ضرورت سختی نہیں کرنا چاہتے ، اس لیے کہ ابھی کچھ دن تک اخبارات میں ارباز خان کی موت کا تذکرہ ہوتارہے گا۔ تم اُسے کسی ایسی جگہ لے جانے کی کوشش کرنا جہاں تنہائی اور سکون ہو اور اس کام کے لیے ہمارا دریا کنارے ویران مقام پر بنا ہوا بنگلہ بہترین قیام گاہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم نے اس کے ارد گرد طلسمات پھیلا رکھے ہیں۔ لوگ اس طرف جاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ جب سے دو پولیس والوں کی وہاں سے لاشیں ملی ہیں لوگ تھرتھر کانپتے ہیں۔  پرویز خان نے پروگرام سمجھاتے ہوئے کہا پھر چونک کر بولا۔ تمہاری پڑھائی کیسی چل رہی ہے ؟ بس جناب امتحان سر پر آرہا ہے اور تیاری نامکمل ہے۔ اوہ یہ تو مسئلہ ہے، مگر ہمارا مشن بھی فوری نوعیت کا ہے۔ اس کام کے بعد تم جم کر پڑھائی کرو اور امتحان پاس کر لو، تعلیم انسان کا زیور ہے۔ پرویز خان نے مشفقانہ انداز سے سلیمان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جبکہ دلاور خان کراہ کر رہ گیا۔ اُس کی انگارہ آنکھیں سلیمان کو گھور رہی تھیں۔

سلیمان گلبرگ تھری کے ماڈرن اور شاندار کلب و ہوٹل بلیو مون میں داخل ہوا۔ ریسیپشن گرل نے ستارہ کا نام سُن کر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بتایا کہ آج اس کا رقص نہیں تھا، وہ جلد ہی اپنے فلیٹ پر چلی گئی تھی۔ وہ کائونٹر سے ہٹ کر ایک بیرے کے پاس آکر رکا اور اُسے نوٹوں کی جھلک دکھا کر ایک قریبی میز پر لے گیا۔اس کے ہاتھ کی سنہری گھڑی، مہنگے سگریٹ اور انگلیوں میں بیش قیمت انگوٹھیاں دیکھ کر ویٹر مرعوب سا ہو گیا تھا۔ مجھے ڈانسر ستارہ کے فلیٹ کا ایڈریس درکار ہے، اس شرط پر کہ تم کسی سے بھی اس بات کا تذکرہ نہیں کرو گے۔ مگر جناب والا مجھے ستارہ کے فلیٹ کا ایڈریس معلوم نہیں۔ منیجر یا ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی ہی بتا سکتی ہے۔ بیرا گڑبڑا کر بولا۔ سب کچھ ممکن ہے مائی ڈیئر ۔ سلیمان نے پانچ ہزار کے نوٹ کو رول کرتے ہوئے اُس کا ایک سرا بیرے کے ہاتھ میں چھویا تو وہ مسکرا دیا۔ اچھا، میں کوشش کرتا ہوں، مگر دس ہزار روپے ہوں گے۔ پانچ ریسیپشن والی لے گی اور پانچ میں۔ بیرا مسکرا کرا بولا۔ نوٹ دیکھ کر اس کی رال ٹپک پڑی تھی۔ وہ کائونٹر پر گیا اور دومنٹ بعد کاغذ کی ایک چٹ سلیمان کی طرف بڑھا دی۔ رات بارہ بجے کا وقت تھا۔ کلب کی رونق ماند پڑ گئی تھی۔ گلبرگ چوک میں سیاسی جلسہ تھا اس لیے لوگ اس طرف متوجہ تھے۔ داخلی دروازے پر کچھ لڑکے اور لڑکیاں دکھائی دے رہے تھے جو شاید ٹورسٹ تھے۔ سلیمان کلب سے باہر آکر ٹیکسی میں سوار ہوا اور فیصل ٹائون کے فلیٹس کی طرف روانہ ہو گیا۔ رات ایک بجے کا وقت تھا، جب وہ فیصل ٹائون فلیٹ کے اونگھتے ہوئے چوکیدار کے پاس سے گزر کر نیم تاریک زینے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ فلیٹس کی مین روڈ والی سائیڈ پر اس وقت بھی کافی رونق دکھائی دے رہی تھی، مگر وسطی مقام پر اندھیرا اور سناٹا تھا۔ چوکیدار شاید نشہ کرنے کا عادی تھا۔ وہ کرسی پر سویا پڑا تھا۔ سلیمان ہولے ہولے سیٹی بجاتا، بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہوا تیسری منزل پر آپہنچا۔ اسی وقت زور سے بجلی چمکی ،اس کی روشنی میں اس نے زینے کے اختتام کے سامنے ستارہ کے فلیٹ کے کنڈے پر پڑا ہوا بڑا سا تالا دیکھ لیا جو اُس کا منہ چڑھا رہا تھا۔ اس نے زینے سے اوپر راہداری میں آکر طائرانہ نگاہ ڈالی۔ چھوٹے چھوٹے پرانی ساخت کے پہلے بلب روشن تھے جن کی روشنی ماحول کو اُجاگر کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ یہ فلیٹ نمبر 220 تھا۔ وہ چند لمحے بے بسی کے عالم میں کھڑا دروازے کو گھورتا رہا پھر واپس ہو لیا۔ چوکیدار اب بھی اُونگھ رہا تھا۔ سلیمان اپنا پستول جیب میں ٹولتا ہوا فلیٹس کے سامنے واقع باغیچے کی طرف بڑھ گیا۔ وہ اس فلیٹ کی نگرانی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

اسی وقت بادلوں کی بار بار گرج کے ساتھ بجلی چمکنے لگی اور پھر گڑگڑارہٹ کے ساتھ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی ۔ سلیمان گھنے درخت کے نیچے آکھڑا ہوا۔ وہ کچھ بھیگ گیا تھا لیکن اُسے کیا پروا تھی، وہ تو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے بے چین تھا۔ اس کی جیب میں ایک پولیس آفیسر کا جعلی کارڈ بھی موجود تھا، جو اسے لوگوں سے تحفظ دے سکتا تھا۔ تقریباً پندرہ بیس منٹ بارش ہوتی رہی، وہ درخت کے نیچے سے کھسک کر ایک شیڈ کے نیچے چلا آیا اور سگریٹ سلگا کر گہرے گہرے کش لینے لگا۔ بلبوں کی روشنی میں باغ ڈھلا ہوا اور مہکا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو باغ میں پھیلی ہوئی تھی۔ بارش کا زور ٹوٹ گیا اور بادلوں کے بیچ سے ستارے اور روشن چاند جھانکنے لگا۔ وہ تصور ہی تصور میں عروہ کو باغ کی روش پر ٹہلتا ہوا دیکھنے لگا۔ وہ دونوں بے فکری اور دل بستگی کے ساتھ گھوم پھر رہے تھے، کھلتے ہوئے پھول اور ٹہنیوں پر جھکے ہوئے مالٹے اور سیب انہیں جھک جھک کر سلامی دے رہے تھے۔ اس کا خُوبصورت تصور اس وقت ٹوٹا جب ایک چھوٹی سفید کار زینے کے سامنے روش پر آ کر رکی۔ چوکیدار اس بھی وقت سویا ہوا تھا۔ کار کا پسنجر سیٹ والا درواز کھلا اور ستارہ باہر نکل کر کار کے دوسرے دروازے کی طرف چلی آئی۔ کار کے اندر بیٹھا ہوا سنہری بالوں والا خُوبصورت لڑکا ہاتھ ہلاتا ہوا اسٹارٹ گاڑی کو ٹرن دے کر مین روڈ کی طرف روانہ ہو گیا۔ ستارہ اپنے ہینڈ بیگ کو گھماتی ہوئی زینے پر قدم اٹھانے لگی۔ وہ واقعی آسمان کا ستارہ ہی معلوم ہورہی تھی۔ اُس کے سلور کلر کے لباس سے چمک اور خیرگی پھوٹ رہی تھی۔ وہ حسن و شباب کا پیکر تھی۔ سلیمان کی نگاہ برابر اس پر جمی ہوئی تھی۔ وہ اپنے اخروٹی کلر کے بالوں کو جھٹکتی تو سلیمان کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔ وہ دبے پائوں بھاگ کر قریب آتے ہوئے اُسے زینے سے اوپر جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کسی رومینٹک فلم کی شوٹنگ میں حصہ لے رہا ہے۔ پھر وہ رومانویت کے حصار سے باہر نکلا اور ریوالور پر ہاتھ جماتا ہوا تیزی سے دبے پائوں سیڑھیاں طے کرنے لگا۔ وہ اپنے کمرے کا دروازہ کھول رہی تھی جب وہ اس کے بدن سے اٹھنے والی مسحور کن خوشبو سونگھتا ہوا اس کے قریب چلا گیا۔ ہیلو مس ستارہ ! سلیمان نے جھک کر باادب لہجے میں کہا۔ ستارہ ایک دم چونک کر سیدھی ہوئی اور مڑ کر پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس کو دیکھنے لگی۔ تت. … تم کون ہو؟ رات کے ڈیڑھ بجے کیا لینے آئے ہو ؟ ستارہ کے منہ سے رُک رُک کر نکلا۔ مس ستارہ! میں ایک روزنامے کا رپورٹر ہوں اور آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن آدھی رات کے وقت کیوں آئے ؟ اس وقت تو چور اچکے اور ڈاکو ہی آتے ہیں۔ ستارہ نے درشت لہجے میں کہا- میڈم میں کئی دنوں سے آپ سے ملنے ، آٹو گراف لینے اور انٹرویو کرنے کا متمنی تھا مگر کلب والے آگے ہی نہیں جانے دیتے، آپ تک پہنچنے ہی نہیں دیتے۔  سلیمان نے نظریں جھکاتے ہوئے مسکین صورت بنالی۔ کیا نام ہے تمہارا؟ ستارہ نے نظریں اُس کے چہرے پر گاڑ دیں، سلیمان کے نام بتانے پر وہ بولی۔ نام تو اچھا ہے لیکن آنے کا وقت بالکل غلط۔ آپ مجھ سے کل شام آٹھ بجے کلب کے لائبریری روم میں مل لیں۔ میں آٹو گراف اور انٹر ویو دے دوں گی۔ وہ گرین شیشوں والا کمرا… سلیمان نے استفسار کیا۔ ہاں۔ اب تم جا سکتے ہو۔ میں تھکی ہوئی ہوں، آرام کرنا چاہتی ہوں۔ ستارہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور پھر دروازہ بند کر لیا۔ سلیمان ایک منٹ وہاں کھڑارہا، پھر واپس ہو لیا۔ فی الحال اتنا ہی تعارف کافی تھا۔

اگلی صبح ستارہ اپنے فلیٹ سے باہر نکلی اور ٹیکسی میں سوار ہو کر کسی طرف روانہ ہو گئی۔ کوئی بے تابی سے اس کے جانے کا منتظر تھا۔ اس کے جاتے ہی سلیمان بالٹی، جھاڑو اور صفائی کرنے والی دیگر اشیاء لیے زینے کی طرف بڑھنے لگا۔ دن کے وقت ڈیوٹی دینے والا چوکیدار آج لیٹ ہو گیا تھا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا زینہ عبور کرنے لگا۔ اوپر آکر اُس نے راہداری سُنسان دیکھ کر ماسٹر کی، جو پرویز خان کا ایک ساتھی اُسے دے گیا تھا، ماسٹر کی مدد سے ستارہ کے فلیٹ کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو کر دروازہ بھیڑ دیا۔ وہ تیزی سے صفائی کے بہانے اس کے فلیٹ کی تلاشی لینے لگا۔ راہداری میں لوگوں کے قدموں کی آوازیں سنائی دیں مگر ہر شخص جلدی میں تھا۔ کسی نے ستارہ کے دروازے کے کھلے تالے کا نوٹس نہ لیا۔ سلیمان نے پورے کمرے کی تلاشی لی مگر اُسے چھپائی ہوئی دولت نوٹوں کی صورت میں نہ ملی۔ وہ صفائی کا سامان پکڑے باہر نکلا تو ایک بوڑھی عورت نے اسے آواز دے دی۔ وہ اُسے اپنے فلیٹ میں لے گئی اور کچھ صفائی وغیرہ کروانے لگی۔ سلیمان اندر کا اندر سلگ اٹھا مگر وہ اُسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے بڑھیا کو بتایا کہ اس کا بھائی بیمار ہے لہذا وہ اس کی جگہ صفائی کے لیے چلا آیا تھا۔ بڑھیا نے اُسے سو روپیہ تھمایا وہ شکریہ کا لفظ کہتا ہوا جلدی سے باہر نکل آیا۔ گم شدہ دولت کا سراغ لگانا ایک مشکل کام تھا جس کا احساس اُسے اب ہو رہا تھا کہ بندہ مارنے کی نسبت گمشده دولت کو دستیاب کرنا زیادہ محنت طلب اور دشوار کام ہے۔ رات آٹھ بجے سلیمان نے بلیو مون کلب میں اپنا پریس کارڈ دکھایا، تب کائونٹر گرل نے اُسے ایک بیرے کے ساتھ ستارہ کو اطلاع دے کر لائبریری روم میں بھیجا۔ ایک گن مین اپنی مونچھوں کو بل دیتا ہوا اسے گھور رہا تھا۔ سلیمان کے پاس نوٹ بک ، بال پوائنٹ اور چھوٹا ٹیپ ریکارڈر موجود تھا۔ اس نے اشارہ پا کر وہ اشیاء میز پر رکھ دیں ستارہ کی اجازت سے اُس کے سامنے آرام دہ نشست پر بیٹھ گیا۔ میز پر اخبارات و فیشن میگزینز، بکھرے ہوئے تھے۔ میز کے بیچوں بیچ کولڈ ڈرنک اور دو گلاس رکھے تھے۔ سلیمان نے تیار شدہ سوالات کئے ۔ ستارہ نے ہر سوال کا مناسب جواب دیا۔ اس طرح یہ ملاقات تمام ہوئی۔ سلیمان کا پروگرام تھا کہ اس سے دوسری ملاقات ڈرامائی انداز سے کرے اور اپنی آمد کا مقصد بھی اُس کے گوش گزار کر دے۔ وہ جیسے ہی کلب کے خارجی دروازے کی طرف بڑھا، دُور کھڑی ستارہ نے اپنے وفادار ویٹر کو انعام دے کر اُس کے تعاقب میں روانہ کر دیا۔ سلیمان باہر نکل کے چند لمحے ادھر اُدھر محتاط انداز سے دیکھتا ہوا کھڑارہا پھر کچھ دُور کھڑے ایک رکشا کی طرف چلنے لگا۔ ویٹر بالا باہر نکل کر اُسے رکشا میں سوار ہوتے دیکھنے لگا۔ اسی وقت اُس کا دوست ویٹر شوکت اپنی موٹر سائیکل اسٹینڈ سے نکال کر سڑک پر لے آیا۔ جو نہی رکشا حرکت میں آیا موٹر سائیکل بھی اُس کے تعاقب میں متحرک ہو گئی۔

اچانک بستر پر سوتے سوتے ایک چیخ کے ساتھ سلیمان کی آنکھ کھل گئی۔ اس لمحے اس نے کمرے کی کھلی کھڑکی کو دیکھا جسے وہ بند کر کے سو گیا تھا۔ وہ تیزی سے کروٹ بدل گیا اور تیز چمکتا ہوا خنجر زور سے اُس کے بستر پر آلگا۔ سیاہ لباس پہنے لڑکے نے خنجر بستر سے کھینچا۔ سلیمان لڑھک کر بستر سے نیچے آگیا۔ وحشی لڑکا دوبارہ اس پر حملہ آور ہوا۔ سلیمان چند قدم پیچھے ہٹا پھر تیزی سے اُس کے خنجر والے لہراتے ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ میں جکڑ لیا۔ لڑکا زور آزمائی کرتے ہوئے غرایا۔ اس کا دوسرا ہاتھ بھی سلیمان نے اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا، جس پر نوکدار چونچ والا سیاہ دستانہ چڑھا ہوا تھا۔ دونوں میں پوری طاقت کے ساتھ زور آزمائی ہونے لگی۔ لڑکا ستارہ کے عشق میں دیوانہ ہو رہا تھا۔ وہ ورزشی جسم کا مضبوط لڑکا تھا لیکن سلیمان قدرتی طور پر طاقتور اور پھرتیلا نوجوان تھا۔ کبھی وہ اسے پیچھے دھکیل دیتا، کبھی لڑکا اسے پیچھے لے جاتا۔ تم کیوں مجھے مارنے آئے ہو ؟ سلیمان نے پوچھا۔ تم میری محبوبہ کے پیچھے پڑ گئے ہو۔ لڑ کا چیخا۔ اسی وقت بھاگتے قدموں کی آوازیں آئیں، پھر سلیمان کے کمرے کے دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی۔ دروازہ ہلنے لگا۔ شاید تمہارے مددگار آگئے۔ سیاہ لباس والا لڑکا کچھ پریشان ہو کر بولا اور پھر ایک جھٹکے کے ساتھ سلیمان سے الگ ہو کر بڑی پھرتی سے کھلی کھڑکی میں سے گزر کر باہر گلی میں بھاگتا چلا گیا۔ لڑکا جھنجھلاہٹ میں اپنا خنجر وہیں پھینک گیا تھا۔ سلیمان نے تعاقب بے کار سمجھا اور آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ پرویز خان کے چار ساتھی اس کے سامنے کھڑے تھے۔ سلیمان نے کھڑکی کا جائزہ لیا۔ شاید وہ رات کے وقت چٹخنی لگانا بھول گیا تھا۔ مزید سونے کے بجائے اس نے کچھ کارروائی کرنے کی ٹھانی۔

رات کے آخری پہر پیاس کی وجہ سے ستارہ کی آنکھ کھل گئی۔ پانی پینے کے بعد جب وہ بستر کی طرف بڑھی تو دائیں جانب کی کھڑکی کے بھاری پردے کے پیچھے سے کھانستا ہوا سلیمان اُس کے سامنے آگیا۔ اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔ اسے دیکھ کر ستارہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، جبکہ سلیمان اس کی حیرت پر ہنس پڑا۔ میں زندہ ہوں۔ تمہارا عاشق مجھے قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بھلا ایک بکرا شیر کا مقابلہ کس طرح کر سکتا ہے۔ ستارہ نے غصے سے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبالیا، تاہم کچھ بولی نہیں۔ سلیمان اس کے قریب چلا آیا۔ مس ستارہ ! تم ارباز خان کی محبوبہ رہ چکی ہو ، اس لڑکے کو تم نے حال ہی میں پھانسا ہے۔ دلاور خان نے پرویز خان کی جو دو کروڑ کی رقم اڑائی تھی، اس میں سے پچاس لاکھ روپیہ میں برآمد کر چکا ہوں۔ باقی رقم کہاں ہیں ؟ سلیمان نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ ستارہ نے حیرت سے آنکھیں پیپٹائیں اور ٹال مٹول کرنے لگی کہ اُسے کچھ معلوم نہیں ، تب سلیمان نے پستول کا ٹرائیگر دبا دیا۔ پستول سے دھوئیں کی لکیر نکل کر ستارہ کے چہرے پر پڑی اور وہ لڑکھڑا کر بے ہوش ہونے لگی تھی کہ سلیمان نے آگے بڑھ کر اُس کے پُرشباب بدن کو گرنے سے بچالیا۔ ستارہ کی آنکھ کھلی تو وہ سلیمان کے ساتھ دریا کے کنارے ویران مقام پر بنے ایک آسیب زدہ بنگلے میں قید تھی۔ اس کے دائیں بائیں دو آدمی کھڑے تھے ، جو اس کے لیے اجنبی تھے۔ اسی اثناء میں، اچانک تیز بارش کے ساتھ ہی دروازے پر دستک کی آواز میں سُنائی دینے لگیں۔ سلیمان اپنی کتابیں چھوڑ کر خارجی دروازے کی طرف بھاگا اور بیرونی دروازہ کھول دیا۔ گیٹ پر دلاور خان کھڑا تھا۔ سلیمان نے اُسے اندر آنے کا اشارہ کیا اور اس کمرے میں لے گیا، جہاں ستارہ موجود تھی ۔ اس کا نام ستارہ ہے۔ اس کے ارباز خان سے تعلقات تھے ، مگر یہ کہتی ہے کہ رقم اس کے پاس نہیں۔ ارباز خان نے اُسے رقم کی ہوا بھی نہیں لگنے دی۔ سلیمان نے بتایا۔ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔  دلاور خان یہ کہتے ہوئے ستارہ کی طرف بڑھا ہی تھا کہ سلیمان تیزی سے اس کے اور ستارہ کے درمیان آکھڑا ہوا۔ کیا تمہیں پر ویز خان نے یہاں بھیجا ہے؟ اس نے پوچھا۔ نہیں، میں خود آیا ہوں ، تاکہ اس سے پوچھ کچھ کر سکوں۔ دلاور خان نے جواب دیا۔  تمہیں کوئی اعتراض ہے؟

ہاں، مجھے اعتراض ہے۔ سلیمان نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔ یہ سنتے ہی وہاں موجود دونوں آدمی اپنی جگہ سے اٹھ کر دلاور خان کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے۔ سلیمان کو صورت حال سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی تھی۔ کوئی بات نہیں۔ دلاور خان مسکرایا۔ میں تمہیں سمجھانے کے لیے پوری طرح تیار ہو کر آیا ہوں۔ میں تم سے الجھنا نہیں چاہتا۔ سلیمان نے ضبط کرتے ہوئے کہا۔ تم بھی بات بڑھانے کی کوشش مت کرو، میں پرویز خان کے لیے کام کرتا ہوں اور میرا فرض ہے کہ میں کام کو اس طرح انجام دوں، جس سے وہ مطمئن ہو۔ اس سے پہلے کہ میں اور تم کوئی ایسا قدم اٹھائیں جس سے بعد میں پچھتانا پڑے، کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم پر ویز خان کو فون کرلیں ! اب یہ ممکن نہیں کالج بوائے۔ دلاور خان کا لہجہ اور مسکراہٹ عجیب تھی۔ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ پرویز خان مرچکا ہے۔ سلیمان ایک دم سکتہ میں آگیا۔ اس کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ اسے اپنے جسم میں سردی کی تیز لہریں دوڑتی محسوس ہونے لگیں۔ میں غلط نہیں کہہ رہا۔  دلاور خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ کل رات اچانک اس کا انتقال ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو آخری درد اس کے اٹھا تھا وہ السر کا نہیں بلکہ دل کا تھا۔ چنانچہ جب تک تنظیم کے بڑے کوئی دوسری ہدایت جاری نہ کریں، پرویز کی جگہ میں اس کے کام کا انچارج ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں باقی رقم بر آمد کرنے میں کامیاب ہو جائوں تو تنظیم کی انتظامیہ پر میری کارکردگی کا اچھا اثر پڑے گا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے دائیں طرف کھڑے ساتھی ٹونی کی طرف دیکھا۔ اسے لوگوں کی زبان کھلوانے میں کافی مہارت حاصل ہے۔ سلیمان اگرچہ ستارہ کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا مگر اسے احساس تھا کہ وہ بُری طرح کانپ رہی ہے۔ اس نے اس کی مدد کا فیصلہ کر لیا۔ تو یہ ہے پوری داستان کالج بوائے۔  دلاور خان کہہ رہا تھا۔ اب بھی کوئی اعتراض ہے؟

نہیں۔ سلیمان نے کچھ سوچتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔ میں سمجھتا ہوں ایسی صورت میں اب تم ہی باس ہو۔ دلاور خان نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور ٹونی کو کہا کہ وہ ستارہ کو دوسرے کمرے میں لے جائے۔ ٹونی مسکراتا ہوا ستارہ کی طرف بڑھا، لیکن ابھی اُس نے دو قدم ہی اُٹھائے تھے کہ سلیمان نے پھرتی سے اپنی پتلون کی پیٹی میں لگا ہوا ریوالور نکالا اور یکے بعد دیگرے دو فائر اس کے سینے میں جھونک دیئے۔ ٹونی کوئی آواز نکالے بغیر خون اگلتا ڈھیر ہو گیا۔ دلاور خان کا منہ حیرت و خوف سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ سلیمان تیزی سے اُس کی جانب گھوما اور اس کی تیسری گولی دلاور خان کے حلق کے پار ہو گئی۔ اتنی دیر میں اس کا دوسرا ساتھی ریوالور نکال چکا تھا، مگر اس سے قبل کہ وہ فائر کرتا سلیمان نے لگاتار تین گولیاں اس پر فائر کر دیں پھر بھی اُس نے گرتے گرتے ایک فائر کر دیا جو سلیمان کے سینے میں لگا۔ وہ فرش پر گر پڑا، اس کے ہاتھ سے ریوالور چھوٹ گیا۔ ستارہ تیزی سے اس کی جانب بڑھی۔ شکر ہے تم میری مدد کے لیے موجود ہو ۔ سلیمان نے ایک ہاتھ اپنے زخم پر رکھ کر کراہتے ہوئے کہا، پھر دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گیا۔ اس کی نظروں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا تھا۔ نیم بے ہوشی میں ستارہ کے ہاتھ اسے اپنے جسم پر رینگتے ہوئے محسوس ہوئے۔ وہ اُس کی جیبیں ٹول رہی تھی۔ سلیمان کو حیرت ہوئی۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ ستارہ اس کی جیب سے کار کی چابی نکال رہی تھی۔ تم کیا کر رہی ہو ؟ اس نے بھاری آواز میں پوچھا۔ یہاں سے جانے کی تیاری۔ ستارہ نے غیر جذباتی لہجے میں کہا۔ مگر مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔  وہ ملتجیانہ لہجے میں بولا۔ ستارہ نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اس کا اور دلاور خان کے دوسرے ساتھی کا ریوالور اٹھا لیا۔ اگر پھر کسی نے مجھ سے باقی رقم چھیننے کی کوشش کی تو یہ میرے کام آئیں گے۔ اس نے جیسے اپنے آپ سے کہا اور تیزی سے دونوں ریوالور اپنے بیگ میں رکھ لیے، پھر ایک تولیے سے چیزوں پر سے اپنی انگلیوں کے نشانات کی صاف کرنے لگی۔ ابھی وہ کام سے فارغ ہوئی تھی کہ اس نے اپنے قریب کسی کے کراہنے کی آواز سنی۔ وہ چونک کر پلٹی تو اس کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ سلیمان دیوار کا سہارا لیے کھڑا تھا اور اس کے ہونٹوں پر خونی مسکراہٹ تھی۔  تم دلاور خان کے پہلے ساتھی کو بھول گئیں۔ وہ ریوالور کا رُخ اس کی طرف کرتے ہوئے بڑی مشکل سے بولا۔ ایک ریوالور اس کے پاس بھی تھا۔ میں نے یہ بات پہلے ہی جان لی تھی کہ تم رقم کے متعلق ضرور کچھ نہ کچھ جانتی ہو ، پھر بھی میں نے تمہاری مدد کرنا چاہی، اب جب میری زندگی ختم ہو رہی ہے تو پھر تم کیوں زندہ رہو اس نے چند گہرے گہرے سانس لیے پھر آہستہ سے بولا۔ اگر تم اس وقت میری مدد کرنے پر آمادہ ہو جاتیں تو میں تمہیں زندہ چھوڑ دیتا مگر اس نے مضطرب لہجے میں کہا۔ اس کے سینے سے خون تیزی سے نکل رہا تھا۔ تم ایک سنگ دل عورت ہو… یہ کہتے ہوئے اُس نے ٹرئیگر دبا دیا۔ یہ اس کی زندگی کی آخری گولی تھی، جو ہمیشہ کی طرح اپنے ہدف کے سینے میں پیوست ہو چکی تھی۔

Latest Posts

Related POSTS