ہم ان دنوں دیہات میں رہتے تھے جب میں نے اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ والد صاحب نے پڑھنے ماموں کے پاس شہر بھیج دیا کیونکہ دیہات میں کالج نہیں تھا۔ مجھے یہاں گھر کی یاد ستاتی تھی لیکن مجبوری تھی کہ تعلیم تو حاصل کرنی تھی۔
کالج میں میری دوستی خالدہ سے ہوگئی۔ یہ غریب ماں، باپ کی بیٹی تھی، اسے پڑھنے کا شوق تھا مگر والدین اس کی ضروریات پوری نہیں کرسکتے تھے۔ وہ بہت بوسیدہ کپڑے پہن کر کالج آتی تھی، اس کی کتابیں بھی پرانی ہوتی تھیں، تاہم خوددار اور سنجیدہ طبیعت تھی۔ اس کو صرف پڑھائی سے غرض تھی، فضول باتیں بالکل نہیں کرتی تھی۔
خالدہ ایک لائق طالبہ تھی۔ اس سے زیادہ احساسِ ذمہ داری میں نے کسی اور میں نہیں پایا۔ میں تو لاڈوں پلی شروع سے ہی لاپروا طبیعت تھی، کبھی اپنا کام بروقت نہیں کرتی تھی، تبھی خالدہ سے مدد لیتی۔ روز اس کی کاپی سے نوٹس نقل کرتی، اسی غرض سے میں نے اس کے ساتھ دوستی کرلی۔
خالدہ کی سنجیدگی اور سادگی سب کو پسند تھی۔ غربت کے باوجود اس کی عزت لڑکیوں اور اساتذہ کے دلوں میں تھی۔ سچ ہے انسان اپنی سیرت سے چاہا جاتا ہے۔ گھر کے مالی حالات خراب ہونے کے باوجود خالدہ نے جوں توں گریجویشن مکمل کرلی مگر اس کے لئے اب ملازمت ناگزیر ہوگئی۔ باپ بوڑھا تھا اور بھائی شادی کے بعد بیوی کو لے کر علیحدہ ہوگیا تھا۔ ایک چھوٹا بھائی اور بہن اسکول میں زیرتعلیم تھے لیکن ذریعہ آمدنی ندارد تھا۔
ایک روز اس سے ملنے گئی تو وہ بے حد افسردہ تھی۔ وجہ پوچھی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے۔ آج ان کے گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہ تھا۔ بڑی مشکل سے حالات بتائے۔ میں نے وعدہ کیا کہ ماموں سے کہہ کر تمہاری ملازمت کا بندوبست کرا دوں گی۔ میں نے ماموں سے کہہ کر ان کی سفارش سے خالدہ کو ایک اسکول میں ٹیچر لگوا دیا۔ وہ بہت مشکور ہوئی اور میرے احسان تلے دبی دبی رہنے لگی۔
ان دنوں میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ خالدہ اب ساتھ نہ تھی، مجھے اکیلے ہی درسگاہ جانا پڑتا تھا لیکن ہماری دوستی اب بھی قائم تھی۔ گھر قریب تھے، ہر شام کو ہماری ملاقات رہتی تھی۔ گھر سے کچھ دور ایک لائبریری تھی جس کا انچارج اوج نامی نوجوان تھا۔ وہ خوبصورت اور ہنس مکھ تھا۔ کبھی کبھار شام کو جب ہم فارغ ہوتیں تو میں اور خالدہ اکٹھے لائبریری جاتے، اپنی پسند کی کتابیں رسالے لے آتے۔ خالدہ تاریخی کتابیں لیتی کیونکہ اسے ہسٹری کا شوق تھا، جبکہ میں ناول اور شعر و شاعری کی مطبوعات ایشو کراتی تھی یا پھر ڈائجسٹ وغیرہ۔ اوج کو ہم دونوں کے مزاج کا علم تھا، وہ ہمارے لئے خود ہی نئے رسالے اور اچھی کتابیں تلاش کرکے رکھ لیتا تھا۔
شروع میں تو میں نے اوج کی ذات میں کوئی دلچسپی نہ لی لیکن جب ہم دونوں اس لائبریری کی مستقل ممبر بن گئیں تو کتابیں لیتے اور واپس لوٹاتے وقت میں اس کے ساتھ اِدھر اُدھر کی دوچار باتیں بھی کرلیتی تھی۔
جیسا کہ بتا چکی ہوں خالدہ خاموش طبیعت لیکن میں باتونی تھی ۔ اوج نے میری اس کمزوری کو بھانپ لیا تھا۔ لہٰذا وہ زیادہ مجھی کو باتوں میں الجھانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس اثناء میں خالدہ کے ابو بیمار ہوگئے، ان دنوں اس نے میرے ساتھ لائبریری جانا بند کردیا، میں اکیلی ہی جانے لگی۔ ایک روز اوج نے مجھ سے کچھ ایسی کتابوں کا تذکرہ کیا جو کہ عام لوگوں کے پڑھنے کی نہیں تھیں۔ یہ میں نے بڑی مشکل سے منگوائی ہیں اور چھپا کر رکھی ہوئی ہیں، اگر تم پڑھنا چاہو تو لے جائو۔ اس نے کہا۔ میں نے کتابیں نہیں لیں، سوچا جانے کیسی ہوں، پہلے خالدہ سے مشورہ کرلوں پھر لے جائوں گی لہٰذا اوج سے بہانہ کردیا کہ ابھی میرے پرچے ہیں، بعد میں دیکھوں گی۔ خالدہ کے ابو ٹھیک ہوگئے تو وہ پھر سے میرے ساتھ لائبریری آنے لگی۔ اس سے میں نے ان کتابوں کا تذکرہ کیا جو اوج مجھے سب سے چھپا کر دینا چاہتا تھا اور جو سرعام آسانی سے نہیں ملتیں۔ خالدہ نے منع کردیا کہ وہ ایسی کتابیں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی، ساتھ ہی کہا کہ وہ آئندہ میرے ساتھ لائبریری نہیں جائے گی۔ اس نے واقعی اپنا کہا سچ کر دکھایا اور دوبارہ میرے ساتھ نہ آئی۔
مجھے خالدہ سے یہ امید نہ تھی کہ وہ اتنی سی بات پر میرا ساتھ چھوڑ دے گی۔ کئی بار ساتھ چلنے پر اصرار کیا مگر وہ نہ مانی۔ کہنے لگی۔ تم بھی اس لائبریری جانا چھوڑ دو کیونکہ اوج صحیح بندہ نہیں ہے۔ اوج نے میرے ساتھ کبھی کوئی بدتمیزی یا غلط باتیں نہ کی تھیں، لہٰذا خالدہ کو سنکی سمجھ کر بات چیت بند کردی۔ وہ یوں روکھے پن سے کام لے گی، یہ تو سوچا بھی نہ تھا۔
ہر لڑکی کو ایک سہیلی ایک سنگی ساتھی کی تو ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ خالدہ سے قطع تعلق کرلیا مگر اب خود کو بے حد تنہا محسوس کرنے لگی تھی۔ انہی دنوں ہماری کلاس میں ایک نئی لڑکی نے ایڈمیشن لیا۔ باتوں باتوں میں پتا چلا اس کا گھر بھی قریب ہے۔ نام شبنم تھا۔ میں نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔
شبنم سے واسطہ پڑا تو احساس ہوا کہ وہ اتنی زیادہ سادہ اور سیدھی نہیں ہے، جیسی خالدہ تھی، تاہم وہ مجھ سے دوستی کی خواہشمند تھی۔ گرچہ وہ چالاک و شاطر تھی، میں نے پھر بھی اس کے ساتھ دوستی کرلی کہ یہ میری ضرورت تھی۔ خالدہ کے رویئے سے دلبرداشتہ ہوکر ہی اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ اب میں شبنم کے ہمراہ یونیورسٹی آنے جانے لگی۔ اس کا گھر ہمارے ہی بلاک میں تھا۔ جب جی چاہتا شبنم کے پاس چلی جاتی اور ہم اکٹھی اپنا کام کرلیتیں۔
شبنم سے میری دوستی گہری ہوتی گئی۔ اس پر اعتبار کرنے لگی، گرچہ وہ نئے زمانے کی فیشن ایبل لڑکی تھی، مگر مجھے پسند تھی کیونکہ وہ میری ہر بات مان لیتی تھی۔ جہاں کہتی، بلاچوں چرا ساتھ چل پڑتی تھی، جبکہ خالدہ پر ملازمت کی ذمہ داریاں تھیں، وہ میرے ساتھ ہر جگہ نہیں جاسکتی تھی۔ شبنم سے گاڑھی چھننے لگی۔ اب ہم یونیورسٹی سے آکر زیادہ وقت ساتھ گزارتیں، وہی اب میرے ساتھ لائبریری بھی جاتی کیونکہ مجھے رسالوں کا چسکا تھا۔ اوج نے پہلی نظر میں اسے پسند کرلیا، وہ اس کے ساتھ کھل کر باتیں کرنے لگا، جبکہ خالدہ ہمراہ آتی تو اس کا رویہ ہمارے ساتھ بڑا محتاط ہوتا تھا۔ اوج کی دلی خواہش پوری ہوگئی۔ شبنم نے ہم دونوں کی دوستی کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی غیر موجودگی میں وہ اوج کی تعریفیں کرتے نہ تھکتی تھی۔ دوسرے معنوں میں اس نے مجھے ایسی راہ پر لگا دیا، جس کا پہلے کبھی میں تصور بھی نہ کرسکتی تھی۔
اب میں اور اوج، شبنم کی مدد سے ایک دوسرے سے گھر کے باہر بھی ملنے لگے۔ ایک روز اوج نے وہ کتابیں دیں جن کا تذکرہ کیا تھا۔ میں ان کو گھر لے آئی لیکن یہ لٹریچر پڑھنے کے قابل نہ تھا۔ میں یہ کتابیں اور رسالے دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ ماموں اور ممانی کے ڈر سے دوسرے دن ہی انہیں اوج کو واپس کردیا۔ اب سمجھ میں آیا کہ خالدہ نے اوج اور اس کی لائبریری سے کیوں کنارہ کیا تھا۔
انہی دنوں گھر سے خط آنے لگے کہ جلدی آنے کی تیاری کرو کیونکہ یہاں تمہاری شادی کی تاریخ رکھ دی ہے۔ والدین نے اپنے عزیزوں میں ایک رشتہ دار لڑکے سے میری نسبت طے کی ہوئی تھی اور اب وہ رخصتی کا تقاضا کررہے تھے۔ سالانہ امتحان ہوچکا تھا اور چھٹیاں تھیں۔ مجھے ہر حال گائوں جانا تھا، مگر اوج سے جدائی برداشت نہ تھی۔ میں کسی صورت گھر واپس جانا نہیں چاہتی تھی۔ جانتی تھی ایک بار گئی تو واپس نہ آسکوں گی۔ انہی پریشانیوں میں غلطاں تھی کہ ایک روز والد صاحب لینے آگئے۔ اب گھر سے قدم نکالنا محال تھا۔ میں اوج سے ملنے بھی نہیں
جاسکتی تھی۔ ایک امید باقی تھی، شبنم آجائے گی اور میرا پیغام اوج تک لے جائے گی۔
شبنم آگئی۔ میں نے اس سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا۔ وہ بھی پریشان ہوگئی اور ہر طرح سے مدد کو تیار ہوگئی۔ ادھر اوج مضطرب تھا کہ کئی دنوں سے میں گھر سے نہیں نکلی تھی، اس سے نہیں مل رہی تھی۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ میں اپنے گائوں چلی گئی ہوں۔
وہ میری سن گن لینے ماموں کے گھر تک آگیا۔ ہمارے پڑوس میں اس کا ایک رشتے دار رہتا تھا۔ وہ اس سے معلومات لینے آیا تھا مگر وہ لوگ کہیں گئے ہوئے تھے، گھر پر تالا پڑا تھا۔ وہ ہمارے دروازے کے پاس کھڑا کچھ سوچ رہا تھا کہ ابو اور ماموں آگئے۔ اسے یوں کھڑا دیکھ کر پوچھا۔ کیا بات ہے، یہاں کیوں کھڑے ہو؟ اس نے کہا۔ لاہور سے آیا ہوں، مسافر ہوں لیکن یہاں تالا لگا ہے۔ اس نے بند گھر کی طرف اشارہ کیا۔ یہ لوگ گھر پر نہیں ہیں، ملتان گئے ہیں۔
کیا تم ان کے رشتے دار ہو؟ جی…! اوج نے سر ہلایا۔
اچھا! تو آجائو۔ ماموں اس کو بیٹھک میں لے آئے۔ انہوں نے ممانی سے کہا۔ ایک مسافر ہے کھانا اور پانی وغیرہ بھجوا دو۔
اوج کو تھوڑی دیر بیٹھک میں بیٹھنے کی مہلت مل گئی۔ کھانا کھانے کے دوران والد اور ماموں بھی وہاں موجود رہے، وہ آپس میں باتیں کرتے رہے۔ ان باتوں سے اسے علم ہوگیا کہ میری شادی گائوں میں ہے اور اب ابو مجھے لینے آئے ہیں۔ یہ باتیں سن کر وہ اور پریشان ہوا، تبھی اس نے شبنم سے رابطہ کیا اور اس کو میرے پاس بھیجا۔ شبنم نے مجھے آمادہ کرلیا کہ میں گائوں جانے سے قبل کسی طرح ایک بار اوج سے ملوں۔ شام کو ممانی سے کہا کہ مجھے خالدہ کے گھر جانا ہے، ابو پوچھیں تو یہی کہنا ہے وہ مجھ سے ناراض ہے جانے سے پہلے اسے منانا چاہتی ہوں۔ ممانی نے اجازت دے دی، کہا۔ ٹھیک ہے، جائو مگر جلد آجانا۔
مجھے خالدہ کے پاس کہاں جانا تھا، مجھے تو اوج سے ملنے جانا تھا۔ اس کے لئے بھی شبنم نے معاونت کی۔ میں کسی پارک میں یا کھلی جگہ ملنا نہ چاہتی تھی۔ لائبربری میں بھی لوگ ہوتے تھے، بیٹھ کر بات کرنے کے لئے کوئی محفوظ مقام چاہئے تھا۔ شبنم نے تجویز کیا کہ ہم اس کے کزن کی دکان پر بات کرلیں، وہ بالکل محفوظ جگہ ہے۔ یہ ایک فوٹوگرافر کا اسٹوڈیو تھا۔ وہ ہمارے ساتھ گئی اور اپنے کزن سے بات کی۔ اس نے کہا کہ یہ لوگ اسٹوڈیو کے عقب میں جاکر بات کرلیں۔ وہاں دو تین کرسیاں پڑی تھیں اور کچھ دکان کا سامان رکھا ہوا تھا۔
جونہی شبنم نے بات ختم کی، وہاں اچانک والد اور ماموں آگئے اور انہوں نے مجھے اور شبنم کو دیکھ لیا، حالانکہ ہم نے پردہ چادر سے خود کو لپیٹا ہوا تھا۔ ان کو دیکھتے ہی میں تیزی سے عقبی کمرے میں چلی گئی اور شبنم دکان سے باہر نکل گئی۔ ابھی تک والد اور ماموں یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ ہم دونوں یہاں کیوں آئی تھیں۔ غلطی تبھی ہوئی جب اوج بھی میرے پیچھے عقبی کمرے میں چلا آیا۔ والد میری شادی پر کسی فوٹو گرافر کو گائوں بلوانا چاہتے تھے، وہ تبھی فوٹو اسٹوڈیو آئے تھے۔
والد نے مجھے پہچان لیا تھا، وہ ڈارک روم میں آگئے اور ہم کو وہاں دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے۔ بازو سے پکڑ کر کرسی سے اٹھا دیا اور حکم دیا کہ چلو گاڑی میں بیٹھو۔ میں تیزی سے دکان سے نکلی اور گلی میں مڑ گئی۔ ماموں اور ابو نے اوج کو دو تھپڑ رسید کئے، وہ اس سے نمٹ رہے تھے کہ اتنے میں، میں گھر جانے کی بجائے خالدہ کے گھر گھس گئی۔
خوف کی وجہ سے حواس باختہ ہورہی تھی۔ گھر کیسے جاتی…! ابو کا غصہ جانتی تھی، سوچا آج تو یہ مجھے گولی سے اڑا دیں گے۔
خالدہ نے حواس باختہ دیکھا تو سمجھ گئی کہ میرے ساتھ کوئی معاملہ ہوگیا ہے۔ کیا بات ہے، اتنے عرصے بعد آئی ہو تو ایسے جیسے تمہارے پیچھے دشمن لگے ہوں؟ دشمن نہیں لگے مگر ابو اور ماموں نے مجھے شبنم کے کزن کی دکان پر دیکھ لیا ہے، جہاں میں اوج سے آخری ملاقات کرنے گئی تھی۔ یہ سن کر وہ پریشان ہوگئی۔ یہ کیا حماقت کردی تم نے، اب بتائو کہ کیا کرنا ہے؟ مجھے کسی طرح بچا لو، گھر کیسے جائوں وہ تو مجھے مار ڈالیں گے۔
خالدہ سر پکڑے بیٹھی تھی۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا کہ تم مجھے اوج کا نمبر دے سکتی ہو؟ ہاں…! میں نے لکھ دیا کہ مجھے تو زبانی یاد تھا۔ اس نے کال ریسیو کی اور بتایا کہ میں حوالات میں ہوں، ان کے والد نے مجھے تھانے میں بند کرا دیا ہے کیونکہ یہ گھر نہیں گئیں۔ ان سے کہیں خدا کے لئے جہاں ہیں، گھر جائیں۔
خالدہ کچھ دیر مضطرب ٹہلتی رہی پھر بولی۔ میں تھانے جاتی ہوں۔ ابو وفات پا چکے ہیں، اب مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے۔ وہ اسی وقت تھانے چلی گئی اور تھانیدار سے کہا۔ میں ہی وہ لڑکی ہوں جو اوج کے ساتھ فوٹوگرافر کی دکان میں گئی تھی۔ ہم وہاں اپنی ایک اکٹھی فوٹو کھنچوانے گئے تھے اور ہم نے شادی کا فیصلہ کرلیا ہے، میں خودمختار ہوں، اپنی زندگی کا یہ اہم فیصلہ کرسکتی ہوں اور وہ دوسری لڑکی جو میری سہیلی ساتھ گئی تھی، ان کے والد کو یہاں بلوایئے، ان کو کچھ غلط فہمی ہوگئی ہے۔ وہ لڑکی تو اسی وقت اپنے گھر چلی گئی تھی، اسے کسی نے اغوا نہیں کیا ہے۔ میں نے اپنے گھر کی دہلیز پار کی ہی تھی کہ تھانیدار کا ابو کو فون آگیا۔ اس نے کہا۔ اصل لڑکی نے اقرار کرلیا ہے، وہ ہماری تحویل میں ہے، آپ ذرا دیر کو آنے کی زحمت کیجئے۔ والد صاحب تمام معاملہ سمجھ تو گئے تھے مگر اب اپنی عزت بھی بچانی تھی۔ انہوں نے لاکھ شکر کیا کہ میں صحیح سلامت گھر پہنچ چکی تھی لہٰذا وہ تھانے چلے گئے۔
وہاں خالدہ بیٹھی تھی۔ اس نے والد صاحب کے سامنے بیان لکھوا دیا کہ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا، اوج سے شادی کررہی ہوں اور ہم ایک یادگار تصویر کھنچوانے فوٹو اسٹوڈیو گئے تھے۔ آپ کی بیٹی میرے ساتھ دکان تک ضرور آئی تھی، پھر وہ گھر چلی گئی، اگر وہ پرگھر ہے تو ثابت ہے کہ نہ اس کو کسی نے اغوا کیا ہے اور نہ اس کا کوئی تعلق اوج سے ہے، بلکہ اوج سے میرا تعلق ہے اور ہم دونوں یہ بیان لکھوا رہے ہیں۔ ماموں نے کہا۔ تم نے جو کیا صحیح نہیں کیا، میں تو تم کو اچھی لڑکی سمجھتا تھا۔ خیر تمہاری تم جانو، آئندہ میری بیٹی سے کوئی تعلق واسطہ نہ رکھنا۔ ہم اس کی شادی کررہے ہیں۔
خالدہ ایک سچی دوست ہی نہیں فرشتہ صفت تھی جس نے خود پر پہاڑ جیسا الزام اٹھا کر مجھے بدنامی سے بچایا۔ پھر میری شادی گائوں میں ہوگئی۔ اپنے بیان کو سچ ثابت کرنے کی خاطر تھانیدار کی سرپرستی میں اس نے اوج سے کورٹ میرج کی کیونکہ اسی طرح اوج کی جان بخشی ہوسکتی تھی، حالانکہ وہ خالدہ کی نظروں میں صحیح لڑکا نہ تھا مگر اس لڑکی نے قربانی دے کر اس کے خیالات کا رخ ہی موڑ دیا۔ اوج نے خالدہ جیسی اچھی بیوی کی محبت میں اپنی اصلاح کرلی۔
آج میں اپنے شوہر کے ساتھ گائوں میں پرسکون زندگی بسر کررہی ہوں اور خالدہ کو بھی اللہ نے اس کی قربانی کا صلہ دیا ہے۔ وہ اوج کے ساتھ خوش و خرم ہے یا نہیں لیکن وہ اس کے ہمراہ نباہ تو رہی ہے۔ سنا ہے کہ بظاہر دونوں پرسکون زندگی بسر کررہے ہیں، ان کے دو بچے ہیں۔ خالدہ کی والدہ وفات پا چکی ہیں، جبکہ اس نے چھوٹی بہن کی شادی کردی ہے اور اس کا بھائی کمانے کی خاطر دبئی چلا گیا تھا۔ جانے وہ لوٹا کہ نہیں … میں اس سے شہر میں رابطہ کرنے سے قاصر ہوں اور وہ بھی میرے والد صاحب کے حکم کی پابند ہے، تبھی پھر کبھی رابطہ نہیں کیا۔
(ع… کراچی)