آخری تاریخوں کا کمزور اور مختصر چاند اپنے غروب کی آخری منزلوں پر تھا۔ ہر سُو ملگجی اور راکھ سی چاندنی پھیل ہوئی تھی۔ اُونچی نیچی پہاڑیوں میں کبھی کبھی کوئی پتھریلا ریزہ ستارے کی مانند چمک کر بجھ جاتا۔ کچھ دُور تک پھیلی گھاس اور جھاڑیوں کے اس پار چھدرا سا جنگل بھی اس وقت گھنا اور ہیبت ناک محسوس ہو رہا تھا۔ ہر طرف اندھیرا اور ایک پُرہول سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس آسیب زدہ سنّاٹے میں اگر کوئی آواز تھی تو وہ چھوٹی سی پُرسکون ندی کے پانی کی تھی۔
ان دونوں نے وحشت زدہ چہروں کے ساتھ تھوڑا اُوپر اُٹھ کر آس پاس کے حالات کا جائزہ لیا اور دوبارہ ان دو بڑے پتھروں کے درمیان دُبک گئے جو نہ جانے کس پہاڑی سے ٹوٹ کر وہاں آن گرے تھے۔ انہوں نے اس محفوظ پناہ گاہ میں اپنے ہتھیاروں کو دوبارہ اچھی طرح چیک کیا۔ دونوں کے پاس تیز دھار والے چُھرے اور بلّم تھے۔ دونوں نے ایک دُوسرے کی جانب دیکھا اور اثبات میں سروں کو جنبش دے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔
وہ قیدی کیمپ سے فرار ہوئے تھے اور اب اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر انہیں سامنے نظر آنے والے چھوٹے سے پُل کو پار کرکے قدِ آدم گھاس اور جھاڑیوں سے گزر کر جنگل میں داخل ہونا تھا۔ اور پھر جنگل پار کر کے انہیں اس دُنیا میں داخل ہو جانا تھا، جہاں آزادی بانہیں پسارے ان کے انتظار میں کھڑی تھی۔
وہ پچھلے ڈیڑھ سال سے اس بیگار کیمپ میں مشقت کاٹ رہے تھے۔ سارا دن پہاڑوں میں کھدائی کا کام کرتے۔ دن ختم ہوتا تو ان کی ڈیوٹی بھی ختم ہو جاتی۔ وہ بُری طرح تھکے ہوئے درماندہ جسم کے ساتھ اس بیگار کیمپ میں آجاتے۔ جہاں ہتھیار بند لوگ ان کی کڑی نگرانی کرتے۔ برائے نام کھانا دیا جاتا اور ایک بڑے بوسیدہ کمبل کے ساتھ انہیں سونے کے لیے بھیج دیا جاتا۔ اسی کمبل کو آدھا بچھانا اور آدھا اوڑھنا ہوتا تھا۔
ڈیڑھ سال پہلے وہ اپنے اپنے گائوں سے مزدوری کرنے نکلے تھے کہ ان کے چنگل میں پھنس گئے جو خرکار تھے۔ ڈبل مزدوری کا لالچ دے کر وہ انہیں اور ان جیسے کئی غریب نوجوانوں کو وہاں لے آئے تھے۔ مزدوری ضرور مل گئی تھی لیکن اُجرت نہیں۔ اور پھر وہ واپس کبھی نہیں گئے۔ ہر طرف ہتھیار بند لوگ ان کی سخت نگرانی کرتے تھے اور انہیں مقررہ حدود سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ حتیٰ کہ وہ نزدیک واقع گائوں تک بھی نہیں جا سکتے تھے اور نہ ہی کسی سے مل سکتے تھے۔
’’یار… ابھی تک شیروں کی کوئی آواز آئی ہے اور نہ ہی کوئی شیر دکھائی دیا ہے۔ نکلتے ہیں۔‘‘ ایک نے کہا۔
’’ہاں۔ نکلنا تو ہے۔ بس اپنے بلّم لے کر دوڑ لگاتے ہیں۔ میں سامنے کی طرف نظر رکھوں گا تو پیچھے کا خیال کرنا۔ ٹھیک۔‘‘
وہ دونوں اپنی کمیں گاہ سے نکلے اور دُور نظر آنے والے پُل کی طرف دوڑ لگا دی۔ پُل پار کر کے گھاس اور جھاڑیوں میں گھس جاتے تو کسی حد تک محفوظ ہو جاتے۔ وہ تیز دوڑ رہے تھے۔ اتنا تیز کہ چند ہی منٹوں میں انہوں نے بُری طرح ہانپتے ہوئے ندی پر بنا وہ چھوٹا سا لکڑی کا پُل پار کیا اور قدِ آدم گھاس میں داخل ہوگئے۔ یہاں ایک لمحے کو رُک کر انہوں نے اپنی سانسیں دُرست کیں اور پھر اس گھاس میں اندر ہی اندر دوڑتے ہوئے جنگل کی جانب بڑھتے رہے۔
’’بس ایک دفعہ یہ جنگل پار کر جائیں تو اس نحوست سے جان چھوٹ جائے گی۔‘‘ ایک نے ہانپتے ہوئے کہا۔
’’دُعا کر وہ بھیانک شیر نہ مل جائیں ہمیں۔ منحوس کہیں پڑے سو رہے ہوں۔‘‘ دُوسرے نے جواب دیا۔
’’رُک مت یار! چل جلدی چل اور ان بلائوں کا نام بھی مت لے۔ کہیں نازل ہی نہ ہو جائیں۔ چل آ جا۔‘‘
وہ جان لگا کر دوڑ رہے تھے کہ اچانک ان کے قدم ساکت ہوگئے۔ ان کے منہ سے نکلنے والی آواز خوف کی انتہائوں نے دبا دی تھی اور وہ بُت بن کر کھڑے کے کھڑے رہ گئے تھے۔
ایک ہیبت ناک دھاڑ کے ساتھ وہ شیر اچانک ان کے سامنے آ گیا تھا۔ آگے چلنے والے دینو نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا اور شیر کی چمکیلی آنکھوں میں نہ جانے ایسا کیا تھا کہ وہ سحرزدہ سا اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ شیر نے ایک قدم آگے بڑھایا پھر بھی اس کے بدن میں جنبش پیدا نہ ہوئی۔
’’دینو! بلّم مار۔ چُھرا چلا دے۔ چیر دے اسے۔ دینو!‘‘ پیچھے آنے والے نے انتہائی خوف اور دہشت کے باوجود اپنے ساتھی کو پکارا اور خطرے سے مقابلہ کرنے کے لیے اُکسایا لیکن اس کے جمود میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ اسی طرح بے حس و حرکت کھڑا شیر کی آنکھوں میں دیکھتا رہا جن میں نہ جانے کیا تھا جس نے اس کے ذہن کو مکمل طور پر جامد کر دیا تھا۔
’’دینو! ہوش میں آ۔ اسے مار۔ نہیں تو یہ ہم دونوں کو مار ڈالے گا۔ چُھرا مار۔ ہاتھ تو اُٹھا۔ دینو!‘‘ وہ بول ہی رہا تھا کہ ایک دھاڑ بلند ہوئی اور شیر نے چھلانگ لگا دی۔
٭…٭…٭
طویل نیم پختہ سڑک کے دونوں جانب گھنے سایہ دار درختوں نے اس جگہ کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا۔ وہ بیگ اُٹھائے آس پاس کی ماحولیاتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
آج وہ تقریباً بارہ سال کے بعد اپنے آبائی علاقے میں واپس آیا تھا۔ بارہ سال پہلے ایک جھگڑے میں اس کے ماں باپ کا قتل ہوگیا تھا اور قاتلوں نے چالاکیوں اور ریشہ دوانیوں سے اسے ہی اس کے ماں باپ کا قاتل قرار دلوا دیا تھا۔ ان کی آبائی حویلی کو آگ لگوا دی اور اسے دس سال قید کی سزا دلوا دی تھی۔ وہ پندرہ سال کی عمر میں جیل گیا تھا اور اب جب کہ وہ واپس آ رہا تھا تو اس نے اپنے آپ کو یہاں کے حالات سے نمٹنے کی خاطر پوری طرح تیار کر لیا تھا۔
چلتے چلتے وہ ندی پر بنے پرانے لکڑی کے پُل پر پہنچا تو رُک گیا۔ کمان کی شکل کا وہ پُل آج بھی ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ نیچے پتھروں پر بہتی ندی کا شفاف پانی، اس میں کہیں کہیں تیرتی مچھلیاں اور گھنے درختوں سے گر کر تیرتے ہوئے پتّے۔
سب کچھ ویسا ہی تھا لیکن پُل سے آگے دُور نظر آنے والے گائوں کے مناظر خاصے تبدیل شدہ نظر آ رہے تھے۔ کافی ترقی ہوگئی تھی۔ کچے گھر اب پکے مکانوں میں تبدیل ہوگئے تھے اور اسے دُور سے ہی اسکول اور اسپتال کی عمارتیں بھی نظر آ رہی تھیں۔
اب دل کی بیقراری بڑھ گئی تھی۔ وہ جلد سے جلد اپنے گائوں پہنچنا چاہتا تھا اپنے گھر۔ حالانکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہاں اس کا گھر، اس کی وہ چھوٹی سی خوبصورت حویلی اب ایک جلی ہوئی بوسیدہ اور خستہ حال عمارت کے علاوہ وہاں کچھ نہیں رہا ہوگا۔ لیکن پھر بھی وہ بیتاب تھا۔ تیز تیز قدم اُٹھاتا وہ آگے بڑھ رہا تھا۔ درختوں سے گھری اس نیم پختہ سڑک کا موڑ مڑتے ہی وہ آدمی اچانک سامنے آ گیا۔
’’کون ہو تم؟ کہاں جا رہے ہو؟‘‘ اس نے سوال کیا تو لہجے میں شک بول رہا تھا۔
’’میں۔ اپنے گھر جا رہا ہوں۔ بہت عرصے کے بعد آیا ہوں۔ لیکن تم کون ہو اور کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ اس نے جواب میں کہا۔
’’شیرگڑھ میں تمہارا گھر کہاں ہے؟ کس کے بیٹے ہو؟‘‘ اَجنبی نے بغور اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’حویلی باز بہادر۔ میں شیر باز بہادر کا بیٹا ہوں۔‘‘
’’اوہ۔ زریاب باز بہادر۔ تمہاری واپسی ہوگئی۔ اوخدایا! تم کتنے بڑے ہوگئے ہو۔ مجھے نہیں پہچانا؟‘‘
’’کیوں نہیں پہچانا ارباز چاچا! اچھی طرح پہچان لیا ہے۔ تمہارا لاڈلا اور میرا جگر، میرا دوست میرباز کیسا ہے؟‘‘
’’اوئے سب ٹھیک ہے۔ میرو بھی ٹھیک ہے۔ تم گلے تو ملو۔ اتنے عرصے کے بعد تمہیں دیکھ کر پرانے زخم بھی تازہ ہوگئے اور ملنے کی خوشی بھی ہوئی ہے۔ پر زریاب! تم یہاں کیوں آئے ہو۔ یہاں حالات بہت بدل گئے ہیں۔‘‘ ارباز نے اسے گلے لگاتے ہوئے گلوگیر لہجے میں کہا۔
’’حالات سے تو واقعی لگ رہا ہے کہ کافی بدل گئے ہیں۔ گائوں نے کافی ترقی کرلی ہے اور رہا سوال کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں تو چاچا! یہاں میرا گھر ہے۔ میری زمین ہے۔ ماں باپ کے ختم ہونے سے میری وراثت تو ختم نہیں ہوگئی نا۔‘‘
’’ہاں زری! تمہارا کہنا صحیح ہے لیکن کافی مشکلیں بھی ہیں۔ تمہاری حویلی تو جلا دی گئی تھی۔ وہ ابھی تک اسی سوختہ حالت میں ہے۔ تم کہاں رہو گے؟ ایسا کرو۔ میرے گھر چلو۔‘‘ ارباز نے کہا۔
’’نہیں چاچا! جائوں گا تو اپنے ہی گھر۔ سالوں ہوگئے۔ میں اپنے گھر کے لیے ترس کر رہ گیا ہوں۔ کم از کم آج کا دن تو وہیں گزاروں گا۔ آپ گائوں میں کسی کو نہ بتانا میرے بارے میں۔ میں کل ملوں گا سب سے۔‘‘ زریاب نے دل گرفتگی سے کہا۔
’’ادھر ہی تمہارے ماں باپ کی قبریں بھی ہیں۔ پچھلی طرف۔‘‘ ارباز نے آزردگی سے کہا۔
’’جانتا ہوں۔ دُور رہا ہوں لیکن بے خبر نہیں رہا۔ بہت کچھ جانتا ہوں میں۔‘‘
وہ دُور تک باتیں کرتے ساتھ چلتے رہے۔ اگلا موڑ مڑتے ہی انہیں دُور بلندی پر وہ سوختہ حویلی نظر آ گئی۔ اس پر نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹھک کر رُک گیا۔ ارباز نے اس کی آنکھوں میں جذبات کا ایک طوفان اُمڈتے دیکھا۔ سرخی کے ساتھ نمی بھی اُتر آئی تھی۔ مگر یہ کیفیت چند لمحوں کی تھی۔ اس نے جلد ہی اپنے اُوپر قابو پا لیا۔ آنکھیں بھینچ کر ایک گہری سانس لی اور قدم آگے بڑھا دیے۔
’’اور وہ لوگ کہاں ہیں۔ وہی لکڑ چور۔ جنہوں نے میرے ماں باپ کو مار کر، میرے گھر کو آگ لگا دی تھی اور مجھے جیل بھجوا دیا تھا۔‘‘ ارباز کو اس کے ٹھنڈے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں نہ جانے کیوں شعلوں کی تپش محسوس ہوئی۔
’’ہاں… ان کو کیا ہونا تھا۔ جن کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ سب کچھ اپنی مرضی کا حاصل کر لیتے ہیں۔ پہلے جنگل سے درخت کاٹ کر لکڑی چوری کرتے تھے۔ اب انہوں نے زمینیں خرید لی ہیں۔ گائوں سے لے کر آگے پہاڑیوں تک۔ وہاں زمین کی کھدائی کرواتے ہیں۔ سُنا ہے کوئلہ نکالتے ہیں اور بھی کچھ معدن نکلتی ہے ادھر سے۔ نہ کوئی پوچھنے والا ہے، نہ کوئی روکنے والا۔‘‘
’’لیکن ادھر تو میری زمین ہے۔ پچاس ساٹھ ایکڑ تو ہوگی۔ اس پر تو ان کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
’’حق کی بات کون کرتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی بھی زمینیں تھیں۔ پر انہوں نے سب لے لیں۔ کچھ سے اونے پونے خرید لیں۔ کچھ سے زبردستی چھین لیں۔ کسی کو راستے سے ہٹا کر قبضہ کر لیا۔ دھونس دھڑلّے سے سب کچھ چھین لیا۔ کس میں اتنی طاقت تھی کہ ان سے مقابلہ کرتا۔‘‘
’’لیکن میں اپنی زمین انہیں نہیں دوں گا اور اگر قبضہ کر لیا ہے تو انہیں واپس کرنا ہوگی۔‘‘
’’سب ایسا ہی سوچتے ہیں۔ لیکن کوئی ان کی بدمعاشی کے آگے ٹک نہیں پاتا۔ سب مجبور ہیں۔ بہت مجبور۔‘‘
’’لیکن میں اتنا مجبور نہیں ہوں۔ دیکھوں گا کہ کیا کر سکتا ہوں۔‘‘
’’دیکھو بیٹا! تم آج بھی مجھے شیرو جتنے پیارے ہو۔ میرے پیارے دوست کی آخری نشانی۔ اپنا خیال رکھنا۔ میرا مشورہ ہے کہ تم ان سے اُلجھنے کی کوشش نہ کرو۔‘‘
’’پریشان نہ ہوں چاچا! اللہ بہتر کرنے والا ہے۔ ارے۔ یہ اسٹیشن کے کھنڈر پر کیا چیز ہے۔ وہ اُونچائی پر۔‘‘
وہ چلتے چلتے جلی ہوئی حویلی تک پہنچ گئے تھے اور وہ دُور بنے ہوئے متروک ریلوے اسٹیشن کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جس کے پلیٹ فارم کے آخری سرے پر اب بھی مٹیالے سے سنگی پتّھر پر مٹے مٹے حروف میں شیرگڑھ جنکشن لکھا نظر آ رہا تھا۔
’’ارے یہ شیروں والے بابا کا آستانہ ہے۔ اسٹیشن کی عمارت کے کھنڈرات اب اس کے پالے ہوئے شیروں کی آماجگاہ ہیں اور وہ خود بلندی پر اپنی کٹیا میں رہتا ہے۔ وہ جو دو شیر تمہیں بیٹھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس کے اشارے پر حرکت کرتے ہیں۔‘‘
اتنے میں سیاہ لمبا سا چغّہ پہنے، اور سر پر پگڑی باندھے، ہاتھ میں ایک لاٹھی تھامے کوئی فقیر نما شخص ان پہاڑی پتھروں پر پائوں رکھتا اُوپر کٹیا کی جانب جاتا دکھائی دیا۔ شیر کے تین چھوٹے بچّے اس کے پیچھے پیچھے اُچھل کود کرتے ہوئے ساتھ جارہے تھے جبکہ دونوں شیر اطمینان سے بیٹھے رہے اور وہ بابا لاٹھی ٹیکتا اطمینان سے چڑھتا، بلندی پر چلا گیا۔
’’یہ کون ہے چاچا! جسے شیر کچھ نہیں کہتے یا پھر یہ شیر کسی کو بھی کچھ نہیں کہتے؟‘‘ زریاب نے حیرت سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’ارے نہیں نہیں… بہت خونخوار اور ہیبت ناک شیر ہیں یہ۔ سُنا ہے کہ بابا نے انہیں کچھ پُراسرار قوتوں کے ساتھ سدھایا ہے کسی کا ان سے سامنا ہو جائے تو کتنا ہی بہادر شکاری کیوں نہ ہو۔ سارے حواس کھو کر ان کے سامنے بُت بن کر رہ جاتا ہے اور وہ ان کی ہڈّیاں تک نہیں چھوڑتے۔‘‘
٭…٭…٭
’’یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ جیتے جی جہنم میں ڈال دیے گئے ہیں ہم لوگ۔ مجھے یہاں نہیں رہنا۔ مجھے اپنے گھر جانا ہے۔‘‘ بخار سے پیر بخش کا جسم تپ رہا تھا اور چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اس میں ہلنے کی بھی سکت نہیں تھی لیکن دو ہنٹر کھانے کے بعد وہ دوبارہ لرزتے کانپتے ہوئے بیلچہ چلانے پر مجبور ہوگیا تھا۔ اب اس کے منہ سے کراہوں کے ساتھ تلخ الفاظ بھی نکل رہے تھے کہ اس کے ساتھ والے نے ہلکے سے کہنی مار کر اسے خاموش کروانے کی کوشش کی۔
’’شش! وہ ادھر آ رہا ہے۔ چپ ہو جا۔‘‘ اس نے ہنٹر بردار مسلح محافظ کو کن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔
وہ ان پہاڑی سلسلوں میں کھدائی کر کے ملبہ نکال کر بڑی ٹرالیوں میں بھرتے تھے۔ جو تین چار دنوں میں رات کو کسی وقت نکلتی تھیں اور پٹریوں کے ایک ٹریک پر نہ جانے کہاں جاتی تھیں اور پھر خالی ہو کر واپس آ جاتی تھیں۔
ریل کی یہ پٹریاں وہاں سے گزرتی ہوئی اس پرانے اور متروک ریلوے اسٹیشن کی طرف جا کر ختم ہو جاتی تھیں جس کے بوسیدہ سے پتّھر پر مٹے مٹے حروف میں شیرگڑھ جنکشن لکھا ہوا تھا۔ اسٹیشن سے آگے کی طرف کا ٹریک جو سرحد کی طرف جاتا تھا استعمال نہ ہونے کے سبب مٹی میں دفن ہو چکا تھا، جس پر گھاس اور جھاڑیاں اُگ آئی تھیں۔ سرحد یہاں سے دس کلومیٹر دُور تھی۔ پہلے شاید کبھی یہ ایک مصروف اسٹیشن رہا ہوگا اسی سبب جنکشن تھا۔ اب ریلوے سروس بند ہونے کے سبب اسٹیشن بھی ویران ہو گیا تھا۔
پہاڑیوں کے درمیان ہی کہیں ان بیگار مزدوروں کے لیے کیمپ لگائے گئے تھے، جہاں ان کی عارضی رہائش کا بندوبست تھا۔ سخت مشقت، ناکافی خوراک اور موسم کی سختیاں سہہ کر ان میں سے زیادہ تر افراد لاغر اور کمزور ہوگئے تھے۔ کوئی بیمار ہو جاتا تو اسے علاج کے لیے دُوسرے کیمپ میں بھیج دیا جاتا۔ جہاں سے وہ کچھ عرصے میں ٹھیک ہو کر واپس آ جاتا یا پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتا۔
’’مجھے یہاں سے نکلنا ہے۔ میں اس قید سے بھاگ جانا چاہتا ہوں۔ باہر کی آزاد دُنیا میں اپنوں کے ساتھ جینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کون ایسا نہیں چاہتا۔ پرممکن ہو، تب نا۔‘‘
’’آخر دینو اور کاکا بھی تو بھاگ گئے۔ ہم بھی ہمت کریں تو نکل سکتے ہیں۔‘‘
’’ان خبیث خرکاروں سے تو بچ بچا کر نکل بھی جائیں پر وہ شیر؟ ان سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ پتا نہیں کیسی آسیبی بلائیں ہیں وہ۔‘‘
’’شاید ان سے بھی بچ کر نکل جائیں۔‘‘
’’بچ کر تو نہیں۔ شاید انہیں مار کر نکل سکیں۔ لیکن تو جانتا ہے اور میں بھی کہ یہ ممکن نہیں ہے اس لیے صبر سے یہ کدال بیلچہ چلا۔ شاید زندگی ہمیں کبھی کوئی اچھا موقع دے دے۔‘‘ پیر بخش اور غلام رسول ایسی ہی باتوں سے دل بہلا رہے تھے کہ کام کا وقت ختم ہوگیا۔
٭…٭…٭
وہ رات اس کے لیے بڑی بھیانک تھی۔ وہ رات گئے تک اپنے ماں باپ کی بے نام قبروں کے پاس بیٹھا ان کے لیے دُعائیں کرتا رہا۔ پھر اپنے سلیپنگ بیگ میں گھس کر سونے کی کوشش کی تو دُور جنگل سے آنے والی شیروں کی دھاڑوں نے اسے ہڑبڑا کر اُٹھنے پر مجبور کر دیا۔ انہی لمحوں میں کچھ درد انگیز انسانی چیخیں بھی سُنائی دیں جو اگرچہ بہت ہلکی تھیں لیکن رات کے گہرے سنّاٹے میں اسے بخوبی سُنائی دے گئیں۔ اس نے چاندنی میں نہائے ہوئے ماحول میں دُور تک نظریں دوڑائیں لیکن کچھ دیکھ نہیں پایا۔ صرف شیروں کی بھیانک آوازیں ہوا کے دوش پر تیرتی اسے بے چین کرتی رہیں۔ پھر بڑی دیر تک وہ نیند کو بلانے کی کوشش کرتا رہا۔ آخرکار کامیاب ہوگیا۔
اب پرندوں کی چہکاروں نے اسے جگایا تو ایک بڑی خوبصورت صبح اس کے سامنے تھی۔ وہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھا دیر تک لمحہ لمحہ اُترتی صبح کو دیکھتا رہا۔
اچانک کچھ آہٹیں اُبھریں۔ اس نے چونک کر پیچھے دیکھا تو خوشی اور مسرت کے احساس نے اسے کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بچپن کا دوست میرباز اس کے سامنے کھڑا تھا۔ دونوں دوست مدتوں بعد ملے تو خوشی اور گرم جوشی سے لپٹ گئے۔
وہ ناشتہ ساتھ لایا تھا۔ ناشتہ کرنے اور چائے پینے کے دوران وہ مسلسل باتیں کرتے رہے۔
’’اب تو ادھر رہے گا یا چلا جائے گا۔‘‘ میرو نے پوچھا۔
’’میرا گھر ہے یہاں۔ بے شک جل گیا ہے۔ میری زمینیں ہیں۔ یہ سب میری میراث ہے۔ میں اسے چھوڑ کر کیوں جائوں گا۔ اب مجھے یہیں رہنا ہے۔‘‘ زریاب نے پورے اعتماد سے کہا۔
’’لیکن… یار!… وہ… تیری زمینوں پر تو راجوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ گھر تیرا جل چکا ہے۔ کیا کرے گا تو؟‘‘
’’قبضہ کر لینے سے زمین کی ملکیت انہیں نہیں مل گئی۔ انہیں میری زمین واپس کرنا پڑے گی۔‘‘
’’یار! وہ بہت طاقتور ہوگئے ہیں۔ سب کی زمینیں انہوں نے دھونس دھڑلّے سے ہتھیا لی ہیں۔ کسی کو تھوڑی بہت رقم دے کر کسی کو دھمکا کر اور کسی کو غائب کرکے۔ کوئی ان کے مقابل کھڑا ہونے کی ہمت نہیں رکھتا تو اکیلا کیا کرے گا۔‘‘
’’ہاں واقعی… جب تم سب مل کر کچھ نہیں کر سکے تو میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔ یہ سوچنا پڑے گا۔‘‘
’’دیکھ یار! اس ظالم راجہ ہارون نے پہلے بھی تجھے اور تیرے خاندان کو اُجاڑ دیا تھا۔ کہیں پھر تو اس کی شیطانیت کی بھینٹ نہ چڑھ جانا۔ ویسے بھی اب تیرے پاس بچا ہی کیا ہے کھونے کے لیے۔ سوائے جان کے۔ اسے دائو پر لگانے کی سوچنا بھی مت۔‘‘ میرو فکرمند ہو کر بولا۔
’’فکر مت کر۔ وہ وقت اور تھا یہ اور ہے۔ اب میں اتنا کمزور نہیں ہوں جتنا بارہ سال پہلے تھا۔‘‘
’’اچھا۔ اب تو گوشت پوست کی بجائے لوہے یا فولاد کا بن گیا ہے۔ تیرے اُوپر گولی اثر نہیں کرتی۔ ہے نا… وہ۔ وہ دُور اسٹیشن کے کھنڈر کی چھت پر جو شیر سوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں نا… چند سیکنڈ لگاتے ہیں بندے کو چیرنے میں۔ اس لیے خوش فہمیوں میں مارے نہ جانا۔‘‘ میرو نے اس کے چہرے کے سامنے ہاتھ لہراتے ہوئے کہا۔
’’ارے ہاں یار! یہ شیروں کا کیا قصّہ ہے۔ رات میں نے جنگل میں ان کے دھاڑنے کی آوازیں سُنیں۔ کچھ انسانوں کی چیخیں بھی سُنیں۔ یہ کیا آدم خور شیر ہیں؟ اور اگر ہیں تو لوگ انہیں مارتے کیوں نہیں؟‘‘
’’ارے یار چھوڑ! راجوں کی طرح یہ بھی ہم پر مسلط کر دیے گئے ہیں۔ وہ جو اُوپر جوگی بابا رہتا ہے نا۔ یہ اس کے پالتو ہیں اور جوگی راجوں کا پالتو ہے۔ کون انہیں کچھ کہہ سکتا ہے۔ گائوں والے جوگی کی بددُعائوں اور اس کے پالتو شیروں سے ڈرتے ہیں۔ انہوں نے خود جوگی سے دُعا لی ہوئی ہے کہ اس کے شیر گائوں کی طرف نہیں آئیں گے۔‘‘
’’شیر گائوں کی طرف تو نہیں آتے لیکن میں نے رات شیروں کی دھاڑوں کے ساتھ انسانی چیخیں بھی سُنی ہیں۔ اس کا مطلب ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ہے۔‘‘ زریاب نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔ کچھ نہ کچھ نہیں بہت کچھ ہے۔ لیکن بظاہر نظر کچھ نہیں آتا۔ جوگی بابا نے گائوں والوں سے کہا کہ یہ شیر میری پالتو بلّیاں ہیں اور اسٹیشن ان کا گھر ہے۔ اپنے گھر میں کسی کی آمد انہیں پسند نہیں ہے۔ اس لیے ادھر کوئی نہ جائے۔ بس اسی لیے لوگ اس طرف نہیں جاتے۔‘‘
’’اچھا! اس کا مطلب ہے۔ اسٹیشن کی عمارت میں کچھ ہے۔ جسے چھپانے کے لیے وہاں یہ شیر بٹھائے گئے ہیں۔‘‘ زریاب نے پُرخیال انداز میں بہت دُور نظر آنے والے اسٹیشن کی عمارت کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’یار! صرف اسٹیشن ہی نہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ٹیلوں کے اس پار بھی بہت کچھ ہے جسے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلے ان ٹیلوں سے آگے سب ہمارے لوگوں کی زمینیں تھیں۔ کھیت، باغ، سبزیوں کے باغیچے۔ سب ہمارے ہی گائوں کے لوگوں کے تھے۔ ان راجوں نے ساری زمینیں ہتھیالی ہیں وہاں نہ جانے ایسا کیا کر رہے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو ٹیلوں کے اس پار قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ مسلح افراد گھومتے رہتے ہیں۔ بندہ دیکھتے ہی گولی مار دیتے ہیں۔‘‘ میرو نے بتایا تو وہ حیران ہوا۔
’’مار دیتے ہیں۔ یعنی وہ نہیں چاہتے کہ کسی کو معلوم ہو کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’ہاں۔ شاید۔ چل چھوڑ۔ ناشتہ ختم کر۔ میں چائے نکالتا ہوں۔‘‘
٭…٭…٭
’’اوئے! مرا ہوا ہے کیا؟ ایسے کیوں پڑا ہے؟ کام تیرا باپ کرے گا…‘‘ گارڈ نے ہنٹر کو زمین پر مارتے ہوئے اسے موٹی سی گالی بکی۔
’’مجھے… سخت بخار ہے… مجھ سے اُٹھا نہیں جا رہا ہے سنتری صیب!‘‘ وہ نحیف و نزار مزدور کراہ کر بولا۔
’’اوئے کتّے کے بچّے! بہانہ کرتا ہے… اُٹھ۔‘‘ اس نے ہنٹر جڑتے ہوئے کہا۔
’’نہیں صیب! بالا صحیح کہتا ہے۔ آپ ہاتھ لگا کر دیکھو… آگ کی طرح تپ رہا ہے یہ۔‘‘ دُوسرے مزدور نے اس کی حمایت کرتے ہوئے پہرے دار کو حقیقت سے آگاہ کیا۔
’’لو بھئی! آج یہ تیسرا بندہ ہے… جسے اسپتال بھیجنا پڑے گا…‘‘ وہ بڑبڑایا۔
’’ہاں صیب! کل سے اس کی حالت بہت خراب ہے… رات بھر اسے سخت سردی لگتی رہی… اور پھر بخار ہوگیا۔‘‘
’’چل بھئی! تو اسے لے کر جا اسپتال… ڈاکٹر کے حوالے کرکے آ… اور جلدی واپس آنا… کہیں خود بھی وہاں مرنے نا لگ جانا۔‘‘ گارڈ نے ناگواری سے حکم دیا تو وہ اپنے ساتھی کو سہارا دے کر اسپتال کی طرف چل دیا۔
دُور نظر آنے والا بڑا سا خیمہ اسپتال کہلاتا تھا۔ جہاں ایک عدد ڈاکٹر۔ دو میل نرس اور دو فیمیل نرس تھیں۔
اس نے اپنے ساتھی کو لکڑی کےجھولے نما بیڈ پر لٹایا اور نرس کو اس کے بارے میں بتا کر رُخصت ہوگیا۔
بالے نے آس پاس نظر ڈالی تو وہ پندرہ بیڈ پر مشتمل ایک معمولی سا طبّی امداد فراہم کرنے والا عارضی اسپتال نظر آیا۔ جو ایک بڑے سے خیمے میں قائم کیا گیا تھا۔ تقریباً آٹھ سے دس مریض وہاں موجود تھے۔ ایک کونے میں لکڑی کی بھدّی سی میزیں اور بینچیں رکھ کر ان پر دوائیں اور طبّی امداد فراہم کرنے کے مختلف اوزار اور اشیاء رکھی گئی تھیں۔
کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر نے اسے دیکھا۔ انجکشن لگایا۔ دوا کھلائی۔ کچھ سکون ہوا تو وہ سو گیا… شام سے رات ہوگئی ہر طرف گہرا اندھیرا پھیل گیا… اس اسپتال نما خیمے سے باقی اسٹاف تو جا چکا تھا۔ صرف ایک فیمیل نرس بینچ پر بیٹھی اونگھ رہی تھی یا پھر مریض اپنے اپنے بستر پر سکون کی نیند سو رہے تھے۔ ایک ٹمٹماتی ہوئی لالٹین بیچ میں لگے ہوئے لکڑی کے ایک کھمبے سے لٹکی ہوئی اندھیروں سے لڑ رہی تھی۔ ہر طرف گہرا سکوت تھا۔
اچانک گہری اور تاریک رات کا یہ سکوت شیر کی دھاڑ سے ٹوٹ گیا۔ دو شیر اسپتال پر حملہ آور ہوئے تھے۔ انہوں نے خیمے کا موٹا مضبوط کینوس اپنے تیز اور نوکیلے پنجوں سے پھاڑ ڈالا تھا۔ وہ دھاڑتے چنگھاڑتے وہاں سے اندر داخل ہوئے تو مریض بدحواس ہو کر ادھر ادھر دوڑ پڑے۔ مگر وہ جان بچا کر جاتے تو کہاں جاتے۔
حملہ آور شیروں اور بدحواس دوڑنے والوں نے پورا اسپتال تہس نہیں کر دیا۔ شیر ہر سامنے آنے والے پر حملے کر رہے تھے۔ لوگ زخمی ہو رہے تھے اور جان توڑ کر اپنے آپ کو ان موت کے ہرکاروں سے بچانے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ ہر طرف خون زخمی اور لاشیں تھیں… قیامت برپا تھی۔ کہیں پناہ نہیں تھی۔ لوگوں کی خوفزدہ چیخ و پکار اور شیروں کی دھاڑیں۔ ایک ہنگامہ برپا تھا کہ اچانک ایک فائر ہوا۔
کسی نے بندوق سے فائر کیا تھا۔ شیروں نے اسے خطرہ سمجھا اور جہاں سے وہ خیمے میں داخل ہوئے تھے۔ وہیں سے واپس نکل گئے۔ لیکن جاتے جاتے وہ منہ میں دبا کر اپنا اپنا شکار بھی لے گئے۔ وہ دو مریض پتا نہیں مر چکے تھے یا صرف بیہوش تھے لیکن اب وہ ان شیروں کا تر نوالہ تھے اور ان میں سے ایک بالا تھا۔
ڈاکٹر ہاتھ میں بندوق اُٹھائے اندر داخل ہوا تو خیمے کی حالت دیکھ کر کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ رنج، افسوس اور غصّہ اس کے وجود کو تپا رہے تھے۔ پھر اسے زخمیوں کی کراہیں سُنائی دینے لگیں تو وہ ان کی طرف متوجہ ہوا۔ نرس کا خیال آیا تو اسے آوازیں دیں۔ ’’شینا! شینا!‘‘
اس نے ٹارچ جلا کر اِدھر اُدھر دیکھا اور فرش پر اُلٹی پڑی لالٹین اُٹھا کر اسے جلایا۔ پھر اطراف کا جائزہ لیا تو اسے بینچ کے نیچے نرس نظر آئی جو شاید خوف کی وجہ سے
بیہوش ہو چکی تھی۔ اسے اُٹھا کر ایک بیڈ پر ڈالا اور اس کے منہ پر پانی چھڑکا۔ مریضوں کا جائزہ لیا تو اسے دس مریض ملے۔ کچھ بہت بُری طرح زخمی تھے اور انہیں فوری طبّی امداد کی ضرورت تھی۔ کچھ معمولی زخمی تھے لیکن خوف و دہشت سے بے ہوش ہو چکے تھے اور دو مریض غائب تھے۔ ڈاکٹر نے یہ سب دیکھ کر دُکھ اور مایوسی سے سر ہلایا۔ پھر شینا کی طرف متوجہ ہوگیا جو اب ہوش میں آ رہی تھی۔
’’شینا! اُٹھو! مریض بہت زخمی ہیں۔ ہمیں ان کی مدد کرنا ہے۔ اگر دیر ہوئی تو کئی لوگ زیادہ خون بہہ جانے سے مر جائیں گے۔ اُٹھو شاباش! ہمت کرو۔ میں تمہیں یہ انجکشن لگا رہا ہوں۔ اُمید ہے تمہاری توانائی فوراً بحال ہو جائے گی۔‘‘ ڈاکٹر کے لہجے میں تشویش تھی۔
پھر وہ کافی دیر تک دونوں مریضوں کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ اسپتال کے وسائل پہلے ہی بہت کم تھے۔ اب اس تباہی نے ان میں سے بہت سے تباہ کر دیے تھے۔ ڈاکٹر کو یہ بات اندر سے دُکھی کر رہی تھی اور نہ جانے کیوں غصّہ بھی آ رہا تھا۔
٭…٭…٭
رات گہری ہونے لگی تھی۔ وہ سب دن بھر کے تھکے ہوئے اپنے اپنے ٹھکانے پر لیٹے سونے کی تیاری کر رہے تھے اور ان میں سے بہت سے تھکن سے نڈھال ہو کر کب کے نیند کی آغوش میں جا چکے تھے۔
ایسے میں ان چاروں کی بیٹھک جاری تھی۔ وہ آہستہ اور مدھم آواز میں باتیں کر رہے تھے۔
’’آج بالا بھی گیا… اور خیرو بھی۔ آخر یہ کیا تماشا ہے جو بھی کوئی اپنے حق کے لیے آواز اُٹھانے کی ہمت کرتا ہے۔ وہ مارا جاتا ہے۔ آخر ان جانوروں کو کیسے خبر ہو جاتی ہے کہ یہ مار دیے جانے کے قابل ہیں۔‘‘
’’لوگ کہتے ہیں شیر جو کچھ کرتے ہیں۔ جوگی کے حکم سے کرتے ہیں۔‘‘
’’تو اس جوگی کو بھلا کیا معلوم کہ ہم میں سے کون کیا سوچ رہا ہے؟ ہم تو ابھی صرف بات ہی کر رہے تھے اس بارے میں۔ عملی طور پر تو ابھی کچھ کیا نہیں تھا۔ تو بالے کو سزا کیسے مل گئی۔‘‘
’’بالے کے ساتھ نورا بھی شیروں کا نوالہ بن گیا کیونکہ وہ بھی ہماری جیسی سوچ رکھتا تھا۔ وہ بھی اس جہنم زار سے نکلنے کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔‘‘
’’یار! کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ شیروں کو کیسے خبر ہو جاتی ہے۔ اور وہ اُن لوگوں کو مار دیتے ہیں جو یہاں سے نکلنے کی سوچتے ہیں۔‘‘
’’خبر شیروں کو نہیں ہوتی۔ خبر اس منحوس جوگی کو ہوتی ہے اور وہ شیروں کو بھیجتا ہے ایسے لوگوں کے پاس۔‘‘
’’کیا سچ مچ جوگی کے پاس ایسی قوتیں ہیں؟‘‘
’’پتا نہیں یار!‘‘
٭…٭…٭
میرو نے برتن سمیٹے۔ وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے نیچے اُترتے ہوئے گائوں کی طرف چل دیے۔ اپنا بیگ پیٹھ پر لادے ہوئے، ہلکے پھلکے جوتے پہنے وہ بڑے آرام سے نیچے اُتر کر گائوں والی پگڈنڈی پر چل پڑا۔
’’ارے او میرو! یہ تیرا مہمان ہے کیا؟‘‘ گائوں میں داخل ہوتے ہی پہلا گھر اور دُکان چاچا اکرم دُودھ فروش کی پڑتی تھی۔ اس کی بات سن کر میرو نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’اچھا! پھر لے آ اپنے مہمان کو۔ گرما گرم باداموں والا دُودھ پلواتا ہوں۔‘‘ اکرم نے خوشدلی سے ہاتھ ہلاتے ہوئے بلایا تو وہ ہنستے ہوئے اس کی دُکان کے سامنے پڑی پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’اے کاکا کون ہے؟ تیرا کوئی یار بیلی ہے؟‘‘ اکرم نے پوچھا۔
’’چاچا جی! ذرا غور سے دیکھو۔ تم پہچان جائو گے میرے یار بیلی کو۔‘‘ میرباز ہنسا تو اکرم نے غور سے دیکھنے کے باوجود نفی میں سر ہلا دیا۔
میرباز شرارت سے ہنسا اور بولا۔ ’’چاچا جی! آپ سچ مچ بڈّھے ہوگئے ہو۔ اپنے سامنے کے بچّے کو نہیں پہچانا۔‘‘
’’اوئے! بڈّھا ہوگا تیرا باپ۔ جب کسی کو دیکھا ہی نہیں تو پہچاننے کا کیا سوال۔‘‘ وہ غصّے سے بولا۔
’’اکرم چاچا! میں زریاب ہوں۔ شیرباز بہادر کا بیٹا۔ شیرباز بہادر یاد ہے یا اسے بھی بھول گئے ہو۔‘‘
’’اوئے! تو زری ہے؟ کیسا گبھرو جوان نکل آیا ہے۔ خیر ہو تیری۔ شیرباز بہادر۔ تیرا باپ کوئی بھولنے والی چیز ہے۔ کبڈی میں میرا بیلی ہوتا تھا۔ یار! وہ تو ہمارے دلوں کا زخم بن کر ہمارے اندر جیتا ہے۔ خیر! رب کرے۔ اب تیرے ساتھ سب کچھ اچھا ہو۔ چل لے۔ دُودھ پی۔‘‘ اکرم نے بڑے بڑے پیتل کے گلاس ان دونوں کی طرف بڑھا دیے۔
تھوڑی ہی دیر میں پورے گائوں میں خبر پھیل گئی کہ شیرباز بہادر کا بیٹا واپس آ گیا ہے۔ وہ سب سے ملتا ہوا۔ آگے بڑھتا چلا گیا۔ کچھ ہی دُور راجہ ہارون بشیر کا ڈیرا تھا۔ وہ ٹہلتا ہوا ڈیرے پر پہنچ گیا۔
رنگین پایوں والی بھاری چارپائی پر راجہ ہارون گائو تکیوں کے سہارے نیم دراز حقّے کی نَے منہ میں دبائے کسی سوچ میں گم تھا۔ اس کے کچھ حواری فرش پر اس کے سامنے بیٹھے تھے۔ اس کے دائیں جانب ایک نیچی چوکی پر پٹواری اپنے بہی کھاتوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ دو دیہاتی کسی جھگڑے کا ذکر کر رہے تھے۔ زریاب کے اندر داخل ہوتے ہی وہاں سنّاٹا چھا گیا۔
’’کون ہے بھئی جوان تو؟‘‘ راجے نے ٹیڑھی نظروں سے نووارد کو دیکھتے ہوئے نخوت سے پوچھا۔
’’میں… زریاب باز بہادر… شکل نہیں پہچانی… پر نام تو یاد ہوگا نا۔‘‘ زری کی بات سُن کر راجہ ہارون چونک کر سیدھا ہوا۔
’’اچھا۔ تو جیل سے چھوٹ گیا تو؟‘‘ راجہ کے لہجے سے لگا جیسے وہ کسی کیڑے مکوڑے سے مخاطب ہو۔
’’ہاں۔ ایک سال بعد ہی چھوٹ گیا تھا کیونکہ مجھ پر میرے ماں باپ کا قتل ثابت نہیں ہو سکا تھا… عدالت کو معلوم ہوگیا تھا… کہ مجھ پر کچھ بدطینت لوگوں نے جھوٹا الزام لگا کر پھنسایا ہے۔‘‘
’’اچھا۔ تو پھر تو نے ان بدطینت لوگوں کے ساتھ کچھ نہیں کیا؟‘‘ اس نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
’’اب کروں گا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ بُرائی جتنی طاقتور ہو، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اتنی ہی طاقت درکار ہوتی ہے۔‘‘
’’اوہو! اس کا مطلب ہے۔ اب تو انسان نہیں بلکہ کوئی گینڈا، شیر بن کر آیا ہے۔ ہے نا؟‘‘
’’انسان جب مضبوط بننے کی ٹھان لے۔ خصوصاً جب اس کا مقابلہ بُرائی سے ہو تو یہ گینڈے اور شیر اس کے سامنے گیدڑ سے زیادہ نہیں ہوتے۔ راجہ جی!‘‘ زریاب نے طنزیہ انداز میں کہا۔
’’اچھا! دیکھتے ہیں۔‘‘ راجہ آتش زدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے برف جیسے ٹھنڈے لہجے میں بولا۔
’’میری زمینوں پر تمہارے آدمی کیا کر رہے ہیں۔ ابھی میں نے دیکھا تھا جا کر۔ وہاں کچھ مسلح افراد گھوم رہے ہیں۔ اور سُنا ہے کچھ کھدائی بھی ہو رہی ہے کس کی اجازت سے؟‘‘ زریاب نے راجہ کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
’’تمہاری زمینیں؟ کون سی زمینیں؟ یہاں سب میری زمینیں ہیں۔‘‘ راجہ نے تمسخر سے پوچھا۔
’’تم اچھی طرح جانتے ہو۔ یہاں ساٹھ ایکڑ زمین میری ہے۔ میرے باپ دادا کی وراثت ہے وہ۔‘‘
’’اچھا۔ اس کی ملکیت کے کاغذات تو ہوں گے تمہارے پاس۔ کسی دن لا کر دکھانا مجھے۔ میں بھی تو دیکھوں۔ کن زمینوں کے مالک ہو تم۔ زمین دار زریاب باز بہادر بھکاری۔‘‘ راجہ نے لفظ چباتے ہوئے اس پر طنز کیا۔
’’ٹھیک ہے۔ دیکھتا ہوں۔‘‘ زریاب نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’حویلی تو ساری جل گئی۔ اس کی ساری چیزیں بھی جل گئیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ اس کی اور زمینوں کی ملکیت کے کاغذات کو گرم ہوا بھی نہ لگی ہو۔ ڈھونڈو جا کر… مل جائیں تو لے آنا۔ پھر دیکھیں گے۔‘‘ راجہ نے نخوت سے بولتے ہوئے ہاتھ ہلا کر اسے واپس جانے کا اشارہ کیا، تو وہ ڈیرے سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ فضل باہر سیڑھیوں پر بیٹھا اسٹیل کی ٹرے بجا بجا کر کوئی گیت گا رہا تھا۔ اعلیٰ افسر منیر نے اسے دیکھا۔ وہ اپنی دُھن میں اتنا مگن تھا کہ اسے فون کی گھنٹی سُنائی ہی نہیں دے رہی تھی۔ انہوں نے دھاڑ کر اسے آواز دی۔ ’’فضل… اوئے فضلے!‘‘
’’آیا سر!‘‘ فضل گھبرا کر کھڑا ہوا اور سیلیوٹ مارتے ہوئے جواب دیا۔
’’اوئے! ہر وقت گاتا رہتا ہے۔ یہ گھنٹی کب سے بج رہی ہے۔ سُنائی نہیں دے رہی؟‘‘ انہوں نے غصّے سے کہا۔
’’سوری سر!… ہیلو… جی! جی سر… صاب ہیں۔ بات کریں۔‘‘ اس نے فون ان کے نزدیک لا کر رکھ دیا۔
’’ہاں بھئی! کیا خبریں ہیں؟‘‘
’’خبریں ٹھیک نہیں ہیں سر! وہ پورا علاقہ بند کر دیا گیا ہے۔ کوئی اس علاقے کے اندر تو کیا ان حدبندیوں کے نزدیک بھی نہیں جا سکتا۔‘‘
’’اوئے! یہ میں تمہارے منہ سے کس طرح کی بات سُن رہا ہوں۔‘‘ منیر نے فون پر موجود شخص کو سخت لہجے میں کہا۔
’’میں نے صرف اپنے تحفظات بتائے ہیں سر! یہ تو نہیں کہا کہ یہ ناممکن ہے۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گا۔ بس مجھے کچھ مدد درکار ہے۔ کچھ چیزیں چاہئیں۔ ان چیزوں کی لسٹ میں نے آپ کو ای میل کر دی ہے۔ آپ دیکھ لیجیے گا۔‘‘
’’میں نے دیکھ لی لسٹ۔ فکر مت کرو۔ جلد سے جلد یہ چیزیں تم تک پہنچ جائیں گی۔ اور کچھ؟‘‘
’’نو سر! فی الحال صرف اتنا ہی۔ اگر ضرورت ہوئی تو پھر آپ سے رابطہ کروں گا۔‘‘
’’دیکھو مجھے مکمل معلومات چاہئیں، ہر چیز ثبوتوں کے ساتھ۔ ورنہ ہم کوئی بھی فیصلہ کن اقدام نہیں اُٹھا پائیں گے۔‘‘
’’نو سر! کوئی کمی نہیں ہوگی۔ میں آپ کو مکمل رپورٹ بھیجوں گا۔ آخر ہماری ایجنسی کی نیک نامی بھی تو مطلوب ہے۔‘‘
’’یس! یہی بات ہے۔ ہماری رپورٹس دُرست ہوں گی۔ تب ہی ان کے خلاف کامیاب آپریشن ہوگا اور تم جانتے ہو۔ ناکام آپریشن ہمیں یہ ایجنسی بند کرنے پر مجبور کر دے گا۔ اس لیے بھرپور کوشش کرو۔ اوکے۔‘‘
’’اوکے سر!‘‘ دُوسری طرف سے جواب آیا اور فون بند ہوگیا۔
’’صاب ٹھیک ہیں سر جی!‘‘ فضل نے پوچھا۔
’’ہاں۔ ٹھیک تو ہے۔ اپنے خوابوں کے اُجڑے گھر کو دوبارہ آباد کرنا اس کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا۔ خاصا مشکل کام ہے لیکن میری سخت تربیت اسے ضرور کامیاب کرے گی۔ وہ بڑا باصلاحیت انسان ہے۔‘‘
’’جی سر! میرے تو آئیڈیل ہیں وہ… اتنے خوش اخلاق، ہنسنے ہنسانے والے لیکن اندر سے سخت ہیں جی۔ اپنی جان پر ایسا کچھ کھیل جاتے ہیں جو کسی دُوسرے کے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘فضل کے لہجے میں ستائش تھی۔
’’یہ اس کے اندر کی آگ ہے فضل۔ اپنے اُوپر ہونے والے ہر ظلم کا حساب لینے کے لیے اس نے خود کو تیار کیا ہے۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں سر جی! پر میں تو بڑا حیران ہوتا ہوں۔ دُبلے پتلے بدن میں فولاد جیسی طاقت ہے۔ اتنا ہی طاقتور ان کا دماغ بھی ہے جی! کمپیوٹر سے تو ایسے کھیلتے ہیں جیسے چھوٹے بچّے کسی کھلونے سے کھیلتے ہیں۔ ماہر ہیں بڑے ماہر۔‘‘
’’یہ اس کی خداداد صلاحیت ہے فضل! اب دیکھو۔ تم نے کتنی جھک ماری ہے اس فیلڈ میں مگر فائدہ۔ وہی نکمے کے نکمے۔ بس گانے آتے ہیں۔‘‘
’’او سر جی! یہ میری خداداد صلاحیت ہے۔ آپ ذرا ان سے کوئی گانا سُننے کی فرمائش تو کیجیے گا۔ ذرا جو گا سکیں۔‘‘
’’اوئے نالائقا۔‘‘ اعلیٰ افسر منیر نے ہنس کر کہا۔
٭…٭…٭
’’چاچی کے ہاتھ میں بڑا ذائقہ ہے یار! کھانے کا مزہ آجاتا ہے۔‘‘ اس نے چٹخارہ لیتے ہوئے کہا تو میرو ہنس پڑا۔
’’اوئے تو دال سبزی بھی ایسے مزے لے کر کھاتا ہے۔ جیسے مرغی کی ران چبا رہا ہو۔‘‘
’’یار! اس میں ماں کے ہاتھوں کا ذائقہ ہے۔ اس لیے دال سبزی میں بھی مرغی سے زیادہ مزہ ہوتا ہے۔‘‘
حسبِ معمول میر باز دوپہر کا کھانا لے کر اس کے پاس آگیا تھا۔ دونوں دوست کھاتے ہوئے گپ شپ کر رہے تھے کہ سیفو نے آکر بتایا کہ کوئی گاڑی آئی ہے۔ سامان ہے اس میں۔ ڈرائیور زریاب کو پوچھ رہا ہے۔ (جاری ہے)