’’ہاں ہاں جوان! ہمارے لیے تو وہ خود ایک جیتا جاگتا عجوبہ تھا۔ ڈاکٹر عادل تو کب سے اس کا انتظار کررہا تھا۔ تم نے شاید اس سے وعدہ کیا تھا کہ تم جوگی کو زندہ اس کے حوالے کرو گے؟‘‘
’’رائٹ سر! یو آر ایبسولیوٹلی رائٹ… میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ اس کا اچھی طرح چیک اَپ کرلیا تھا۔ وہ واقعی مر چکا تھا یا صرف اس کی ظاہری حالت دیکھ کر فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ وہ مرچکا ہے۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہے ہو جوان؟‘‘
’’سر! اس کی لاش کہاں ہے۔ اس کی لاش کہاں رکھی گئی ہے آپ کو معلوم ہے کیا؟ اگر نہیں معلوم تو پلیز… پلیز! فوری پتا کریں۔ ابھی اور اسی وقت۔ پلیز سر!‘‘
’’ہاں! وہ تو میں پتا کرلیتا ہوں لیکن ظاہر ہے اس کی لاش اسپتال کے مردہ خانے میں ہی ہوگی اور کہاں جائے گی۔‘‘
’’نہیں سر! مجھے اندیشہ ہے کہ جوگی کی لاش وہاں نہیں ہوگی بلکہ کہیں بھی نہیں ہوگی۔ او میرے خدا۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھوں سے سر کے بال جکڑتے ہوئے افسوس میں سر ہلایا۔
کرنل صاحب نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے معاملے کی سنگینی کو محسوس کیا اور فوراً ہی اپنے سیٹلائٹ فون سے کسی سے رابطہ کیا اور جوگی کی لاش کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ کچھ دیر وہ فون کان سے لگائے خاموش بیٹھے رہے۔ شاید کسی نے ہولڈ کرنے کو کہا تھا۔ چند سیکنڈ بعد ہی ان سے رابطہ کیا گیا۔ ادھر کی بات سن کر وہ بے اختیار بولے۔ ’’کیا…؟ اوہ نو! یہ کیسے ہوا… وہاں سیکورٹی نہیں تھی کیا۔ فوراً سب کو الرٹ کرو۔ گو… گو…!‘‘ انہوں نے فون بند کرکے زری کو دیکھا جو امید و بیم کی کیفیت میں انہیں دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے نہایت افسوس کے ساتھ نفی میں سر ہلادیا۔ وہ سر پکڑ کر جھک گیا۔
’’ہمت کرو جوان! مجھے اندازہ ہے کہ تمہارا شاید کوئی بہت ہی پیارا اس کی بدخصلتی کا شکار ہوا ہے اور جوگی کی واپسی شاید اس کی زندگی اور موت کا سوال ہوگا لیکن ہم اسے ڈھونڈنے کے لیے زمین آسمان ایک کردیں گے۔ وہ مردہ خانے سے بھاگا ہے۔ عام لوگوں میں گھل مل کر ادھر ادھر نہیں ہوسکتا۔ ہم ڈرون کے ذریعے، کتوں کے ذریعے، سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے اسے تلاش کرلیں گے۔ تم ہمت کرو۔ میں پوری فورس کو اس کی تلاش پر لگا دیتا ہوں۔ مل جائے گا۔‘‘ انہوں نے اس کا کاندھا تھپتھپایا اور اٹھ کر آفس سے نکل گئے۔
وہ انہیں کھڑکی سے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ وہ فون کان سے لگائے کسی سے باتیں کرتے ہوئے نیچے اترتے چلے گئے۔
٭…٭…٭
ان کے ٹیکنیشن نے آخرکار کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد کامیابی حاصل کرلی۔ اس نے ریموٹ اٹھا کر اس بھاری گیٹ کی جانب رخ کیا اور ایک مخصوص فاصلے پر کھڑے ہوکر اس پر موجود سرخ رنگ کے بٹن کو دبایا تو گیٹ میں ہلکی سی تھرتھراہٹ پیدا ہوئی اور اوپر والے ایرو کو دبایا تو گیٹ آہستہ آہستہ اوپر کی جانب اٹھنا شروع ہوگیا۔
سب دیکھنے والوں نے تالیاں بجا کر اسے داد دی۔ گیٹ پوری طرح اوپر پہنچ کر رکا تو اس اندھیری سرنگ میں جگہ جگہ روشنی کے بلب جل اٹھے۔ وہ کافی اونچی محرابی چھت والی طویل سرنگ تھی جس میں ریل کی ایک چھوٹے گیج کی پٹری چمکتی ہوئی نظر آرہی تھی۔
دو افراد پر مشتمل ایک ایڈوانس ٹیم سب سے پہلے اس سرنگ میں داخل ہوئی۔ وہ دونوں تیز رفتاری سے چلتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ بقیہ افراد اپنے کام کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ جلد ہی ان دونوں کی واپسی ہوگئی۔
’’ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایسا ہی ایک گیٹ ہے جو اس وقت بند پڑا ہوا ہے۔ سرنگ میں کسی کی موجودگی کے آثار نہیں ملے اور نہ ہی کوئی کیمرہ نظر آیا۔‘‘ ان میں سے ایک نے اپنی رپورٹ دی۔ تو چھ افراد پر مشتمل ایک اور ٹیم اپنے اوزاروں سمیت اندر داخل ہوگئی۔ کچھ کے ہاتھوں میں کارٹن تھے جن میں بارودی اسٹکس بھری ہوئی تھیں۔
انہوں نے اندر داخل ہو کر جگہ جگہ ڈرل سے سوراخ کرکے ان میں یہ بارودی اسٹکس لگا دیں۔ یہ کام بڑی دیر تک جاری رہا۔ بالآخر وہ لوگ ان اسٹکس کو تاروں سے کنیکٹ کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔
’’فی الحال ان تاروں کو ریت میں چھپا کر آگے تک لے جائو اور انتظار کرو۔ مناسب وقت آنے پر میں کاشن دوں گا، بلاسٹ اسی وقت کرنا ہوگا۔ اوکے!‘‘ اس نے انگوٹھا اٹھا کر کہا تو باقی نے بھی اسی طرح اس کی تائید کی۔
ایک نے ریموٹ کنٹرول پر نیچے والا ایرو دبا کر گیٹ کو بند کردیا۔
اب اسے سرفراز کا انتظار کرنا تھا۔ اس نے پانچ بجے آنے کو کہا تھا اور پانچ بجنے میں ابھی پندرہ منٹ باقی تھے۔ سورج ڈھلنا شروع ہوگیا تھا۔ وہ ایک پتھر پر نیم دراز ہوکر ڈھلتی شام کے اس سہانے منظر کو دیکھتا رہا۔ سردیوں کے دن چھوٹے ہوکر جلد ہی سمٹ جاتے ہیں۔ سورج تیزی سے نیچے جارہا تھا۔ پرندوں کی چہکاریں ہر طرف سنائی دے رہی تھیں۔ سامنے ٹاہلی کے گھنے درخت پر بے شمار چڑیاں ادھر ادھر پھدک رہی تھیں اور شور مچا رہی تھیں، کوئوں اور طوطوں کی ڈاریں اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف اُڑانیں بھر رہی تھیں۔
یہ پرندے کتنے خوش قسمت ہیں۔ انہیں انسانوں کی طرح کے غم نہیں ہوتے۔ انسان اس قدر بدقسمت کیوں ہوتا ہے۔ غموں کے پہاڑ کاندھوں پر اٹھائے پھرتا رہتا ہے۔ زندگی اس کے لیے اتنی مشکل کیوں بنا دی جاتی ہے۔ وہ دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے اس بڑے سے پتھر پر نیم دراز ایسی ہی سوچوں میں گِھرا قنوطیت کا شکار ہورہا تھا۔
اسے سرفراز کی آواز سنائی دی۔ ’’اوئے آجا بائو! آج میری گڈی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔ ہوسکتا ہے راستے میں کچھ نخرے کرے۔ اندھیرا پڑ گیا تو مشکل ہوگی۔ آجا چھیتی آجا!‘‘
’’چل بھئی چل تو اور تیری گڈی کے نخرے… چلتی کم ہے، خدمتیں زیادہ کرواتی ہے۔‘‘ وہ موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھا تو سرفراز نے اسے دوڑانا شروع کیا۔
’’بائو! کدھر جانا ہے؟ حویلی یا ہوٹل… آج چاچا چراغ نے آلو گوشت بنایا ہے۔ میں پوچھ کے آرہا ہوں۔‘‘
’’یار! تو مجھے حویلی چھوڑ دے۔ ادھر دیکھتا ہوں کیا ہورہا ہے۔‘‘
’’اوجی! ادھر تو بڑی کھپ پڑی ہوئی ہے۔ بالا کہہ رہا تھا کہ فوجی جوان بڑے اور چھوٹے راجہ کو تلاش کررہے ہیں پر وہ دونوں تو ایسے غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ!‘‘
’’اچھا! ابھی تک نہیں ملے دونوں۔ آئے تو ادھر حویلی میں ہی تھے۔ کدھر گئے؟‘‘
’’پتا نہیں جی! کوئی سلیمانی ٹوپی پہن کے بیٹھ گئے ہوں گے جب ہی تو نظر نہیں آرہے ورنہ فوج کے جوان حویلی کو کھنگالیں تو سوئی بھی ڈھونڈ لیں۔ پھر یہ تو دونوں ڈشکرے ہیں۔ پتا نہیں مل کیوں نہیں رہے۔ مجھے لگتا ہے کسی خفیہ راستے سے کہیں نکل گئے ہیں۔‘‘ سرفراز باتونی تھا، بولے جارہا تھا۔
’’بھاگ نہیں سکتے۔ دور دور تک پہرے بٹھائے ہوئے ہیں۔ کہیں چھپے ہوئے ہوں گے۔ پر کب تک چھپے رہیں گے۔ بھوک پیاس سے مجبور ہوکر نکلیں گے اور پکڑے جائیں گے۔‘‘
’’ہاں جی! ہوسکتا ہے میرا تو دل کرتا ہے کہ پکڑے جائیں اور جتنے ظلم انہوں نے لوگوں پر ڈھائے ہیں۔ ان سب کا حساب ہو بیچ چوراہے پر… جس جس کے وہ قصوروار ہیں وہ سارے مل کر انہیں پتھر مار مار کے سنگسار کردیں۔ ایسی سزا ملنا چاہیے جی!‘‘
’’کاش…! اس سے بھی بڑی کوئی سزا ہوتی۔ کسی کا گھر جلانے۔ ماں باپ کو زندہ جلا دینے۔ کم عمر بیٹے پر ہی ماں باپ کے قتل کا الزام ڈال دینے اور اس کی ساری زمین زبردستی چھین لینے اور اسے ساری عمر کے لیے دربدر کردینے کی… بڑی سے بڑی سزا کیا ہوسکتی ہے۔ صرف پتھر مار کے مار دینا۔ یہ کوئی سزا ہے بھلا…؟‘‘
’’ہاں بائو! سچ کہہ رہا ہے۔ سب سے زیادہ تو اس نے تجھ پر ہی ظلم کیے ہیں۔ تو تو اس کا ریشہ ریشہ نوچ کر الگ کردے اس کے زندہ بدن سے… پھر بھی کم ہے۔ پر دل چھوٹا نہ کر۔ اللہ نے دنیا میں بھی بدترین سزا دینا ہے اور اوپر جاکر تو جانے جہنم کی کس آگ میں جلایا جائے۔ کچھ پتا نہیں۔ وہ بڑا انصاف والا ہے۔‘‘ پھر وہ موٹرسائیکل روکتے ہوئے بولا۔ ’’یہ لے بائو! تیری منزل آپہنچی… آج تو حویلی کا دروازہ پاٹوں پاٹ کھلا ہوا ہے۔ وہ طرّے باز بھی نظر نہیں آرہے۔ لگتا ہے اپنے فوجی جوانوں نے سب کو ڈک دیا ہے۔ چل رب راکھا!‘‘
سرفراز اسے اتار کر فوراً ہی واپس ہوگیا۔ شاید اس خوف سے کہ چاچا چراغ کے ہوٹل پر آلو گوشت ختم نہ ہوجائے۔
وہ ادھر دھر دیکھتا ہوا حویلی کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ روشنیاں جل اٹھی تھیں اور حویلی کے کمروں کی تلاشی جاری تھی۔ اسے خبر مل گئی کہ دونوں باپ، بیٹوں کی فی الحال کوئی خبر ملی ہے اور نہ ان کی موجودگی کا کوئی نشان! وہ بھاری دل کے ساتھ آگے بڑھتا ہوا زنان خانے کی جھروکے والی دیوار کے نزدیک سے گزرا تو اسے شمائلہ کی یاد نے بے چین کردیا۔ وہ اس کے گر جانے والے کمرے کو دوبارہ بنا دیکھتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ اسے ایک مدھم سرگوشی سنائی دی۔ کسی نے ہولے سے اسے ’’بائو‘‘ کہہ کر پکارا تھا۔ وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ تھوڑی دیر میں دہری دیواروں کے بیچ چھپے دروازے سے ایک ملازمہ باہر نکلی۔
’’بائو! وہ تجھ سے بڑی بی بی ملنا چاہتی ہیں۔ کوئی بہت ہی ضروری بات کرنا ہے انہوں نے!‘‘
’’کون بڑی بی بی؟‘‘
’’وہ جی! چھوٹے راجہ شاہو کی بیگم… وہی جنہوں نے چھوٹی بی بی کے بارے میں اس دن کہا تھا کہ وہ مری نہیں ہیں۔ وہ بارش والے دن۔ جب آدھی حویلی پر آسمانی بجلی گری تھی۔ ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ اس دن آپ نے چھوٹی بی بی کو ملبےکے نیچے سے نکالا تھا۔‘‘ وہ ملازمہ جلدی جلدی بولے جارہی تھی۔
اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا اور بولا۔ ’’ہاں مجھے سب یاد ہے۔ کہاں ہیں بڑی بی بی؟‘‘
’’اندر ہیں۔ اندر آ۔ میں انہیں بتاتی ہوں تیرا۔‘‘
وہ اس کے ساتھ اندر چلا گیا۔ گھاس کے ایک تختے پر چند مونڈھے پڑے ہوئے تھے۔ وہ انہی میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ فضا میں ہلکی سی خنکی تھی۔ جو اس وقت اچھی لگ رہی تھی۔ سامنے وہی کمرہ تھا جس میں شمائلہ رہتی تھی۔ اسے دیکھ کر ایک بے نام سی اداسی نے اس کے دل کو بھاری کردیا۔ وہ دکھ کے بوجھ سے جھک گیا۔ جانے کب تک اسی طرح بیٹھا رہا کہ بڑی بی بی کی آمد ہوئی۔
ہلکے نیلے سوٹ پر انہوں نے گہری نیلی شال اوڑھ رکھی تھی اور سفید چہرہ ان پر گزرتے جذباتی اتار چڑھائو کی کہانی سنا رہا تھا۔
’’زریاب! یہ سب کیا ہورہا ہے؟ مجھے باہر کے حالات کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ شمائلہ کتنے دنوں سے غائب ہے۔ دلنواز پاگل ہوگیا ہے اور اب شاہنواز اور ابا جی بھی غائب ہوگئے ہیں۔ فوج کے جوان انہیں حویلی میں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ آخر کچھ پتا تو چلے۔ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ تم ہی مجھے اس بارے میں کچھ بتا سکتے ہو۔ بتائو!‘‘
’’بڑی بی بی! انسان طاقت کے غرور اور دولت کے نشے میں مبتلا ہوکر یہ بات بھول جاتا ہے کہ جب تک اوپر والے کی طرف سے انہیں مہلت ملی ہوئی ہے۔ وہ ظلم اور ناانصافی کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ کئی زندگیوں کو چیونٹیوں کی طرح مسلتے ہیں اور کتنوں کو جیتے جی عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے جب ان کا دنیا کے کسی انسان سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا۔ اور وہ ہر رشتے اور تعلق کو بھول کر صرف اَندھی دولت سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں اور دولت کی ہوس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ اس کے لیے وہ اپنی سگی ماں، بہن یا بیٹی کو بھی بیچ ڈالتے ہیں۔ پھر بھی ہوس ختم نہیں ہوتی تو اپنی زمین، اپنی دھرتی ماں کی حرمت بیچ کر اپنے پاپوں کے گھڑے بھرتے جاتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ اوپر والے کا انصاف حرکت میں آجاتا ہے۔ ان کے پاپوں کے بھرے گھڑے پھوٹنے لگتے ہیں اور زمین ان پر تنگ ہوجاتی ہے۔ یہی وقت آپ کے شوہر اور سسر پر بھی آگیا ہے۔ وہ کہیں بھی چلے جائیں، کسی پاتال میں چھپ جائیں۔ اب زمین انہیں پناہ نہیں دے گی۔ کہیں نہ کہیں اگل دے گی۔ انہیں اپنے گناہوں کا بہت سا حساب اسی دنیا میں دینا ہوگا اور باقی اوپر جاکر۔‘‘ بولتے بولتے اس کی آواز میں شعلوں کی لپک اور عجب سی یاسیت تھی۔
’’خدا کی پناہ… زریاب! تم کیا کہہ رہے ہو؟ ان میں سے جتنا کچھ میں جانتی تھی۔ وہ تو نظر انداز کرنے کی مجبوری تھی۔ کیونکہ اس طرح کے گھرانوں میں یہ ان کا چلن ہے لیکن تم تو اس سے بھی آگے کی بات کررہے ہو۔ میں سمجھ نہیں پا رہی ہوں خیر۔ مجھے بتائو کہ شمائلہ کہاں ہے؟ اور اس پر کیا گزری ہے؟‘‘
’’وہ اپنے باپ اور بھائی کے کرتوتوں کی سزا بھگت رہی ہے۔ انہوں نے غیروں سے بدعہدی کی تو انہوں نے شمائلہ کو اٹھوا لیا۔ مکمل طور پر ہوش و حواس سے بیگانہ کردیا۔ تین دن پہلے جھگڑا شروع ہوا تو وہ اسے سامنے لائے۔ اس حال میں کہ وہ مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں تھی۔ انہوں نے سب کے سامنے اس سے بے لباس ہونے کو کہا تو وہ ایسا کرنے لگی۔ راجہ جی نے اسے گولی مارنے کی کوشش کی تو لڑائی شروع ہوگئی۔ اب وہ اپنے گمشدہ حواس کے ساتھ نہ جانے کہاں ہے۔ شاید انہی لوگوں کے پاس۔‘‘
’’او مائی گاڈ! اتنی پیاری لڑکی تھی وہ… بہت معصوم اور محبت بھرا دل رکھنے والی… یہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟‘‘
’’دلنواز بھی انہی کا تختۂ مشق بنا ہے۔ اس کے حواسوں پر قبضہ کرکے اس کے ذریعے وہ شمائلہ بی بی کو قبضے میں کرنا چاہتے تھے۔‘‘
’’تب ہی وہ اس رات شمائلہ کے کمرے کا دروازہ پاگلوں کی طرح توڑنے کی کوشش کررہا تھا۔‘‘
’’جی…!‘‘ پھر ان دونوں کے درمیان ایک تکلیف دہ خاموشی چھا گئی۔
کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر جانے کے لیے کھڑا ہوا تو بڑی بی بی نے جھجکتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ ’’زریاب! میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔‘‘ انہوں نے ہولے سے کہا تو سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا دوبارہ بیٹھ گیا۔
’’وہ… ابا جی اور شاہو حویلی میں ہی ہیں۔ نیچے کہیں خفیہ تہہ خانے میں۔ وہ اس میں چھپے ہوئے ہیں لیکن میں ان تہہ خانوں میں جانے کا راستہ نہیں جانتی۔ البتہ اتنا ضرور جانتی ہوں کہ وہ مہینوں وہاں چھپے رہ سکتے ہیں۔ ضرورت کی ہر شے وہاں موجود ہے۔ اور وہ اس طرح بنائے گئے ہیں کہ کوئی انہیں تلاش نہیں کرسکتا۔ یہ مجھے شاہو نے بتایا تھا۔ جب وہ نشے میں تھا۔ بس! میں اس سے زیادہ نہیں جانتی۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ اٹھ کر چلی گئیں پھر جاتے جاتے مڑیں اور دوبارہ اسے مخاطب کیا۔ ’’زریاب! تم وہ ہرگز نہیں ہو۔ جو دکھانے کی کوشش کرتے ہو۔ اس کا اندازہ تو مجھے پہلے بھی ہوا تھا لیکن آج یقین ہوگیا۔ جذباتی کیفیت میں تم اپنے اوپر وہ خول چڑھانا بھول گئے جو ہمیشہ چڑھائے رکھتے ہو۔ دیہاتی، پینڈو زری والا… اور اس جذباتی کیفیت کی وجہ سو فیصد شمائلہ ہے۔ صرف شمائلہ…مجھے سو فیصد اس بات کا یقین ہے کہ تم اسے ڈھونڈ لائو گے۔ آل دا بیسٹ۔‘‘ اتنا کہہ کر چلی گئی اور اسے حیران کرگئیں۔
٭…٭…٭
آج یہاں اس کی سولہویں رات تھی۔ ہر رات وہ جوگی کے کمرے کے ایک گوشے میں اپنا ٹھکانہ بنا لیتا تھا۔ اس نے اپنا کچھ سیٹ اَپ ترتیب دیا تھا۔ کٹیا کی طرف آنے والے پتھریلے راستے پر کچھ مخصوص سینسرز لگائے تھے جو وہاں سے گزرنے والے کا سراپا اس اسکرین پر منتقل کردیتے تھے جو اس کے سامنے رکھا تھا۔ اس نے آواز کے لیے کانوں پر ہیڈ فون چڑھائے ہوئے تھے۔
اس رات بھی وہ بڑی دیر تک فضل سے باتیں کرتا رہا تھا۔ واکی ٹاکی کی رینج اتنی تھی کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے آرام سے باتیں کرسکتے تھے۔ فضل نے ان سولہ راتوں میں اتنے ہی گانےسنائے ہوں گے اور لطیفے، واقعے تو نہ جانے کون کون سے ازبر تھے اسے… کافی دیر تک باتیں کرنے کے بعد جب اسے نیند ستانے لگتی تو وہ رانی صاحبہ کا حال احوال موسم کے حال کی طرح جلدی جلدی سناتا اور شب بخیر کہہ کر ہمیشہ یہی ہدایت کرتا کہ کبھی اس کی ضرورت محسوس ہو تو بس ایک بیپ دینا۔ میں اٹھ جائوں گا لیکن یہ تم وہاں کر کیا رہے ہو۔ اس منحوس جوگی کی کٹیا میں، یقیناً اس کے چھوڑے ہوئے کچھ چھوٹے موٹے شیطان تو ضرور ہوں گے۔ ڈرائیں گے بھی اور ٹانگ بھی کھینچیں گے۔ کیوں پڑا ہوا ہے ادھر؟ کام کیا ہے؟
’’مجھے کسی کا انتظار ہے۔ وہ یہیں آئے گا۔ اس لیے یہاں ہوں۔‘‘
’’اچھا…جس کا تجھے انتظار ہے ضروری تو نہیں کہ وہ آبھی جائے۔ ویسے بھی وہ مر چکا تھا۔ مرا بھی ایسے کہ بھوت بن چکا ہے۔ بتائو! مردہ خانے سے بھاگ گیا اور تجھے اس نے شاید خواب میں آکر بتایا ہوگا کہ میں ایک بار وہاں ضرور آئوں گا اور تو ڈر کر بھاگنے کی بجائے اس کے انتظار میں ہے۔ جاگ جاگ کر راتیں گزار رہا ہے۔ کوئی تک ہے۔‘‘
’’وہ دن کے اجالے میں تو آنے سے رہا۔ رات میں ہی آئے گا۔ اس لیے راتیں یہاں گزار رہا ہوں۔ اچھا چل اب سو جا… باقی باتیں کل… اوکے… شب بخیر!‘‘ اس نے سوئچ آف کیا اور گھڑی پر نظر ڈالی۔ رات کے بارہ بجنے والے تھے۔ کسلمندی سے بازو کاندھوں سے سر تک اٹھائے اور دیوار سے ٹیک لگا لی۔ آنکھیں بند ہوئیں اور نیند کا غلبہ ہوا تو وہ سو گیا۔ جانے کتنی دیر اسی طرح بیٹھے بیٹھے سوتا رہا کہ یکدم اس کے کانوں میں چڑیاں سی بولنا شروع ہوگئیں۔ وہ ان کی تیز آوازوں سے بیدار ہوا اور لپک کر اسکرین آن کیا۔
وہ آرہا تھا۔ وہ آگیا تھا۔ اس نے اسکرین پر موجود ایک چھوٹے سے بٹن کو بار بار پُش کیا تو اسکرین پر نظر آنے والا ہیولا نمایاں ہونے لگا۔ وہی تھا۔ شلوار، قمیص میں ملبوس، برے حالوں میں۔ وہ آہستہ آہسہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ جیسے بہت تھکا ہوا ہو۔ چہرے پر داڑھی، مونچھیں جھاڑ جھنکاڑ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں اور چہرے پر سب سے نمایاں نظر آنے والی چیز اس کی آنکھیں تھیں۔ موٹی موٹی اور وحشت ناک!
اس نے جلدی سے اسکرین کو آف کیا تاکہ روشنی اسے کسی شک و شبے میں مبتلا نہ کردے۔ جیب سے دو رِنگ نکال کر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں پہن لیے۔ بٹن دباتے ہی اس میں موجود سوئی اس طرح چبھی کہ اس کے ہونٹوں سے ’’سی‘‘ کی آواز نکل گئی۔ اب اسے ہر تھوڑی دیر بعد یہ چبھن برداشت کرنا تھی۔ یہ ڈاکٹر عادل شہریار کا تحفہ تھا جو انہوں نے کسی کے ٹرانس میں آنے سے بچنے کے لیے دیا تھا۔ انہوں نے ایک پہننے کے لیے کہا تھا لیکن چونکہ سامنے جوگی تھا، اس لیے اس نے احتیاطاً دونوں پہن لیے تھے۔ دوسری جیب سے انفرا ریڈ گلاسز نکال کر آنکھوں پر چڑھا لیے۔ اب وہ اس گھپ اندھیرے غار میں ہر چیز کو با آسانی دیکھ سکتا تھا۔ کچھ ہی وقت گزرنا تھا کہ اس کی آمد ہوجاتی۔ اس کے استقبال کے لیے اس نے اپنی وہ چھوٹی سی گن بھی نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی تھی جس کی فائر کی ہوئی سوئی کے اثر سے جوگی جیسا اژدھا بھی کیچوے میں بدل جاتا۔ وہ پوری تیاری سے دروازے کی طرف منہ کیے ساکت بیٹھا تھا۔
پھر وہ آگیا۔ باہر تاروں کی ہلکی سی روشنی کے سبب دروازے میں کھڑا اس کا ہیولا صاف نظر آرہا تھا۔ وہ دروازے میں کھڑا شاید اندر اندھیرے میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کررہا تھا کہ اندر کوئی خطرہ تو اس کا منتظر نہیں ہے۔ پھر وہ آگے بڑھا۔ اب اس کا رخ دیوار کے اس حصے کی طرف تھا جہاں سے دوسرے کمرے کا دروازہ کھولنے کے لیے زمین میں ناب پوشیدہ تھی۔ وہ اس کے قریب پہنچ کر ایک بار پھر ٹھٹھکا شاید اس کی چھٹی حِس اسے کسی خطرے کا احساس دلا رہی تھی۔ تاہم زندگی بچانے کی کوشش تو کرنا ہی تھی۔
اس نے جھک کر ناب کو گھمایا اور دروازہ کھلتے ہی دوسرے کمرے میں کوئی روشنی جلی تھی جو سیدھی اس پر پڑی۔ کوئی اندھیرے میں دبکا ہوا اس کا جائزہ لے رہا تھا۔ راز کھلتے ہی جوگی نے کھلنے والے دروازے سے اندر چھلانگ لگانے کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے ہی ایک باریک سی چبھن اسے اپنے شانے پر محسوس ہوئی اور اس کا جسم ریت کی بھری ہوئی بوری کی طرح بھاری اور بے جان ہوگیا۔
زری نے جلدی سے اٹھ کر اسے پکڑا اور ایک کرسی پر لے جاکر بٹھا دیا۔ رسی سے اس کے ہاتھ پشت پر باندھے اور پیروں کو بھی کرسی کے پائے سے مضبوطی سے باندھ دیا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ کیچوا دو تین منٹ کے بعد دوبارہ اژدھا بن جائے گا لیکن اب وہ اس سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار تھا اور اس کی پشت کی جانب کھڑا ہوا تھا۔
’’تو تم نے مجھے ٹریپ کر ہی لیا آخر۔ مانتا ہوں تمہاری صلاحیتوں کو۔ اتنے دنوں میں نہ جانے کتنے لوگوں کو چکر دیتا رہا ہوں۔ بمشکل یہاں پہنچا تھا۔ بس اب جبکہ منزل دو ہاتھ دور رہ گئی تھی تو تم میرے آڑے آگئے۔ کیا چاہتے ہو؟‘‘ جوگی کی آواز خاموشی میں گونج رہی تھی۔
’’چاہتا تو میں یہ ہوں کہ تمہارے اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کروں کہ گنے نہ جاسکیں۔ اجازت ہے؟‘‘
’’جو کرنا چاہتے ہیں وہ اجازت نہیں مانگتے۔ ویسے بھی میرے ٹکڑے کرکے تمہیں کیا ملے گا۔ بات وہ کرو جس سے کچھ فائدہ بھی ہو۔‘‘
’’مثلاً کس قسم کا فائدہ… تمہارے اور میرے فائدے الگ الگ ہیں۔‘‘
’’کتنے بھی الگ ہوں۔ تمام انسانوں میں دولت کے فائدے مشترکہ ہیں۔ اس وقت ہوسکتا ہے کہ تمہارے اور میرے فائدوں میں دولت پیچھے رہ جائے کیونکہ اس وقت میرا سب سے بڑا فائدہ اپنی جان بچا کر یہاں سے نکل جانے میں ہے۔ تم بتائو تمہیں کیا چاہیے؟‘‘
’’تم نے بالکل ٹھیک کہا۔ تمہیں اپنی جان بچانی ہے اور مجھے اپنی۔‘‘
’’تمہاری جان کو کیا خطرہ ہے؟ اور میں اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘
’’تمہیں وہ لڑکی یاد ہے راجہ کی بیٹی…‘‘
’’اوہ۔ کیا نام لے دیا تم نے… زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ میرے دل نے اسے چاہا اور وہ مجھے نہیں مل سکی۔‘‘
’’کیوں؟ تم نے اٹھوا تو لیا تھا اسے۔ تمہارے پاس ہی تھی وہ۔‘‘
’’ہاں! اٹھوا تو لیا تھا لیکن میں بی جے کے کہنے پر مصلحتوں کا شکار ہوگیا۔ اس نے کہا تھا کہ اگر راجہ کو شبہ بھی ہوگیا کہ اس کی بیٹی میرے پاس ہے تو وہ بھول جائے گا ہمارے ساتھ وہ ایک بزنس کررہا ہے۔ سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دے گا۔ یہ لوگ غیرت کے معاملے میں ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اپنی غیرت پر بات آئے تو اپنی جان نہیں دیتے بلکہ بیٹی کی جان لے لیتے ہیں یا پھر ان کی طرف ہاتھ بڑھانے والوں کی۔ بس اسی وجہ سے…‘‘ وہ چپ ہوکر گھنائونی سی ہنسی ہنسا۔ پھر اسے کچھ یاد آیا۔ وہ بولا۔ ’’ہاں یاد آیا یہ تو بتائو۔ اس لڑکی سے تمہاری جان کو کیا خطرہ ہے۔ کیا کہنا چاہ رہے تھے تم؟‘‘
’’اسے تم نے ہپناٹائز کر رکھا ہے۔ وہ اپنے حواسوں میں نہیں ہے۔ اسے ٹھیک کرنا ہے تاکہ وہ پہلے کی طرح نارمل ہوجائے۔‘‘
’’اوہ! یہ مسئلہ ہے۔ تمہاری جان ہے وہ اور تمہیں اسے بچانا ہے۔ گڈ۔ ویری گڈ! پھر تو ہمارے درمیان اچھی ڈیل ہوسکتی ہے۔‘‘
’’ہاں۔ تم اسے ٹھیک کردو۔ میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ جہاں چاہو چلے جانا۔‘‘
’’مجھے کہیں نہیں جانا۔ بس تمہارا کام کردیتا ہوں۔ تم مجھے یہیں چھوڑ کر چلے جانا۔‘‘
’’کیوں؟ یہاں پکڑے جانے کا خوف نہیں ہے کیا؟‘‘
’’یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔ اس پر ڈیل فائنل کرلو۔ میں اس لڑکی کو ٹھیک کر دیتا ہوں۔ تم اسے لے کر یہاں سے چلے جانا اور مجھے کھول کر یہیں چھوڑ جانا۔ بولو منظور ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہے۔ منظور ہے لیکن ایک بات بتائو۔ تمہیں اپنے ملک نہیں جانا کیا۔ اگر تم چاہو تو میں اس سلسلے میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں۔‘‘
’’نہیں شکریہ… اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہارے ملک اور تمہارے لوگوں سے بہت کچھ لے چکا ہوں اب اور کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ جوگی نے معنی خیز لہجے میں جواب دیا۔
’’ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ گرینائٹ جیسی معمولی چیز کے لیے تم لوگ اتنے دیوانے ہوئے کہ اتنا بڑا ریکٹ چلا دیا۔ جس میں ہزار خطرات تھے۔‘‘
’’گرینائٹ؟ اچھا وہ جو کانوں سے نکالا جارہا تھا اور جو ہم لے جارہے تھے۔ وہ گرینائٹ؟‘‘ اس نے زور سے قہقہہ لگایا۔ ’’وہ گرینائٹ نہیں ہے۔ وہ ایسی دولت ہے جو اس وقت دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے۔ یورینیم ٹو تھرٹی ایٹ کا نام سنا ہے کبھی؟‘‘
’’ہاں۔ اٹامک انرجی کے حصول کے لیے اس دھات کو بطور خام مال استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
’’بالکل صحیح۔ تم جانتے ہو تو پھر یہ بھی جانتے ہو گے کہ یہ ہر جگہ نہیں ملتی اور جن ممالک میں ملتی ہے وہاں اس میں دوسری دھاتیں اور منرلز اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ یورینیم اس میں سے صرف پانچ سے سات فیصد حاصل ہوتی ہے۔ بہت زیادہ اچھی کوالٹی ہوئی تو آٹھ سے نو فیصد تک نکل آتی ہے لیکن یہاں تمہارے ہاں بقول تمہارے جو گرینائٹ ہم نکالتے ہیں۔ اس میں یو ٹو تھرٹی ایٹ کی مقدار پتا ہے کتنے فیصد ہوتی ہے؟ نہیں معلوم ہوگا۔ فورٹی نائن سے ففٹی پرسنٹ تک…یہ دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ صرف تمہیں ملی ہوئی ہے یہ دولت۔
گرینائٹ؟‘‘ اس نے مضحکہ اڑانے والے انداز میں قہقہہ لگایا۔
’’کیا کرتے ہو اس کا؟ دوسرے ملکوں کو مہنگا بیچتے ہو۔ پیسے کماتے ہو؟‘‘
’’پاگل سمجھا ہے کیا؟ ایسی چیز بیچنے کے لیے نہیں ہوتی۔ اسے ہم جمع کررہے ہیں۔ بڑا قیمتی خزانہ ہے یہ۔ اور یہ اس وقت کام آئے گا جب ہمارے دریائوں میں پانی کم ہوجائے گا تو پھر ہم اٹامک انرجی سے بجلی بنائیں گے۔ پھر زندہ تو وہی رہے گا جسے توانائی ملتی رہے گی۔ تو یہ ہماری اگلی نسلوں کی بقا کا انتظام ہے۔‘‘
’’تو کافی ہوگیا ہے بقا کا یہ انتظام یا ابھی اور ہاتھ صاف کرنا ہے ہماری اس قیمتی دولت پر؟‘‘
’’ہم نے اسے چوری کیا ہے اور نہ ہی زبردستی لوٹا ہے۔ راجہ سے سودا کیا تھا باقاعدہ جو کچھ بھی لے کر گئے ہیں، اس کی اچھی خاصی قیمت دی ہے ہم نے… چاہو تو اس سے پوچھ لینا… اربوں کھربوں بنائے ہیں اس نے۔‘‘
’’اربوں کھربوں؟ بظاہر تو اتنی دولت نظر نہیں آتی اس کے پاس…ایک درمیانے درجے کا زمیندار لگتا ہے وہ۔‘‘
’’درمیانے درجے کا زمیندار… اس لیے لگتا ہے کہ وہ ایسا لگنا چاہتا ہے۔ اس کی ساری دولت باہر کے ملکوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔ ویسے تو ہم ہی منتقل کرکے دیتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ہم پر اس کا بھروسہ ڈانواں ڈول ہوتا ہے تو وہ اپنے ہی کسی ذریعے سے منتقل کروا لیتا ہے۔‘‘
’’اربوں کھربوں کی رقم…! وہ کس طرح دوسرے ملک میں غیر قانونی طریقے سے منتقل کرسکتا ہے۔ اب تو ہنڈی اور ایسے ہی دوسرے سلسلے بھی پکڑ لیے جاتے ہیں۔ تو پھر؟‘‘
’’کرپٹو کرنسی کا نام سنا ہے کبھی… یہ نظر نہ آنے والی کرنسی ہے جسے صرف کمپیوٹر پر مختلف نمبروں کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے اربوں، کھربوں کی رقم منٹوں میں ادھر سے ادھر ہوجاتی ہے۔ ہمارے اور راجہ جیسے بہت سے لوگ یہی طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ بڑے بڑے ڈان، انڈسٹری والے، سیاستدان، کھلاڑی، بادشاہ اور نہ جانے کون کون اس کرامت کو استعمال کرتے ہیں۔ اگر اب تم اس ڈیل کے لیے تیار ہو تو بلوا لو اپنی اس جان کو جسے تم بچانا چاہتے ہو۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دلنواز کا بھی تم نے یہی حشر کیا ہوا ہے۔ اسے بھی بلوا رہا ہوں میں۔‘‘ اس نے واکی ٹاکی پر فضل کو بیپ دی۔
’’جی زری بھائی!‘‘ وہ نیند سے بوجھل آواز میں بولا۔
’’دیکھ! شمائلہ بی بی کو جلد سے جلد جتنی جلدی لا سکتا ہے؟ فوراً لے کر آ۔ ہاں ہاں۔‘‘ پھر وہ جوگی سے مخاطب ہوا۔ ’’میں نے بلوا لیا ہے اسے چند منٹ لگیں گے۔ مجھے ایک بات اور پوچھنا تھی۔ وہ شیروں کو کس طرح تم نے اپنے قابو کیا ہوا تھا۔ انسان تو بات کرتا اور سمجھتا ہے، وہ تمہاری ہدایات پر عمل کرلیتا ہے پر جانور…؟ وہ کیسے؟‘‘
’’جانور بات نہیں کر پاتے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے پاس دماغ بھی نہیں ہے۔ سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ وہ ہر بات کو سمجھتے ہیں اور سمجھ کر اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ تم نے سدھائے ہوئے جانور دیکھے ہوں گے۔ بس سدھائے جانے کا یہی عمل ذرا ایڈوانس فارم میں وہ کیفیت پیدا کردیتا ہے جیسی تم نے ان شیروں میں دیکھی تھی۔ بندر، چمپینزی، کتے، بھیڑیئے حتیٰ کہ پرندے تک سدھائے جاسکتے ہیں اور ٹرانس میں بھی لائے جاسکتے ہیں۔ ویسے میں نے ان شیروں پر بڑی محنت کی تھی۔ تم لوگوں نے انہیں بڑی بے دردی سے مار دیا۔‘‘
’’ہاں! انہوں نے بھی بہت سے انسانوں کو یہاں بہت بیدردی سے مارا تھا۔ یہ سامنے پنجرے میں جو شیر کے بچے ہیں، کیا یہ بھی انڈر ٹریننگ ہیں؟‘‘
’’نہیں۔ یہ ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ یہ اسی جوڑے کے بچے ہیں جنہیں تم لوگوں نے مار دیا۔‘‘
’’ہاں! جو خون پینے لگیں انہیں مار دینا ہی بہتر ہے۔ خیر! وہ لڑکی آگئی ہے۔ اسے میرا دوست لے آیا ہے۔ میں اسے یہاں لے آتا ہوں۔ تمہاری نیت ٹھیک ہے نا اسے پہلے جیسا نارمل کردو گے یا پھر کوئی ہاتھ دکھا جائو گے؟‘‘
’’اس کے ساتھ کوئی ہاتھ دکھا کر مجھے کیا ملے گا۔ میں اپنے گھر چلا جائوں گا اگر تمہاری نیت ٹھیک ہوئی تو۔ ڈیل جب کررہا ہوں تو وہ دونوں طرف سے فیئر ہونی چاہیے۔ کیا پتا میں اسے ٹھیک کردوں تو تم مجھے گولی مار دو۔‘‘
’’تمہیں مار کر مجھے کیا ملے گا۔ میں مسلمان ہوں اپنے قول کا پکا۔ جب کہہ دیا کہ میں تمہیں نہیں ماروں گا تو تمہیں یقین کرلینا چاہیے۔ میں آتا ہوں۔‘‘
وہ باہر گیا اور تھوڑی دیر میں شمائلہ کا ہاتھ پکڑ کر لے آیا اور اس کے سامنے کھڑا کردیا۔
’’دیکھو! اسے تم نے کیا بنا دیا ہے۔ یہ زندوں میں ہے اور نہ مُردوں میں…! اس کی آنکھیں دیکھ کر مجھے خوف آتا ہے۔ عجب غیر انسانی سی ہوگئی ہیں۔ تمہیں ذرا بھی ترس نہیں آتا۔ قدرت کے اس طرح کے شاہکار کو بگاڑتے ہوئے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ ایسے شاہکار روز روز تخلیق نہیں ہوتے لیکن اس میں زیادہ قصور اس کے باپ کا ہے۔ اس نے اُلٹے سیدھے مطالبے کرکے ہمیں زچ کردیا تھا اور میں اس کے ذریعے اس کو ذرا سبق سکھانا چاہتا تھا۔‘‘
’’پھر۔ سکھا دیا سبق تم نے اس کے باپ کو…؟‘‘
’’نہیں۔ اس کے رویے نے ہمیں بڑی حیرت میں ڈال دیا۔ اس نے خود مجھ سے کہا کہ میری بیٹی کو ڈھونڈ دو تاکہ میں اسے گولی مار دوں۔ میری غیرت کا جنازہ اٹھا دیا ہے اس نے… بھاگی ہوئی یا اٹھائی گئی لڑکی کی ایک ہی سزا ہے موت اور وہ آخر تک اپنی بات پر قائم رہا۔ وہ اپنے بیٹوں کو تو ہر قیمت پر بچانا چاہتا تھا لیکن اسے ہر قیمت پر مار دینا چاہتا تھا۔ اچھا ہوا تم نے بچا لیا۔ زندہ ہے تو ٹھیک بھی ہوجائے گی۔ میں اس کا علاج کروں گا۔ اس کے لیے تمہیں میرے ہاتھ، پیر کھولنا پڑیں گے۔ بندھے ہاتھ، پیروں سے علاج نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں تمہیں کھول رہا ہوں لیکن خیال رہے کہ میں تمہارے پیچھے ہی موجود رہوں گا اور تم میرے نشانے پرہوگے اس لیے اپنی نیت کو بھٹکنے نہ دینا۔‘‘ اس نے اپنی بات مکمل کرکے اس کے ہاتھ، پائوں کھول دیے۔
وہ کرسی سے اٹھا۔ شمائلہ کا ہاتھ پکڑ کر اس ریکلائنر کی طرف لے گیا جس پر مریضوں کو لٹایا جاتا ہے۔ اسے آہستگی سے تھام کر وہاں لٹایا اور خود اپنی کرسی کھینچ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس سے ہلکی اور نرم آواز میں کچھ باتیں کرنے لگا۔ وہ چپ چاپ خاموشی سے اس کا جائزہ لیتا رہا۔ بڑی دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر کچھ ہدایات دے کر اسے سو کر دس منٹ بعد بیدار ہوجانے کی ہدایت کی اور وہ آنکھیں بند کرکے واقعی سو گئی۔
’’یہ سو گئی ہے۔ دس منٹ بعد اٹھے گی تو بالکل نارمل ہوگی۔ اسے یہاں سے اٹھا کر بیڈ پر ڈال دو۔ اور ہاں! وہ دوسرا مریض آیا کہ نہیں؟‘‘
’’آچکا ہے۔ میں بلوا لیتا ہوں۔ فضل! اندر لے آ اسے۔‘‘
فضل نے دلنواز کو جوگی کے کہنے پر ریکلائنر پر لٹا دیا۔ اسے بھی اس نے اسی طرح ٹریٹ کیا جیسے شمائلہ کو کیا تھا۔ اور اسے بھی آخر میں دس منٹ سو کر بیدار ہونے کی ہدایت دی۔ پھر اس کا کام ختم ہوگیا۔
شمائلہ دس منٹ بعد خودبخود بیدار ہوگئی۔ آس پاس کے ماحول کو دیکھ کر گھبرا گئی اور اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
’’زری! یہ سب کیا ہورہا ہے یہاں…‘‘ اس نے پریشان ہوکر پوچھا تو زری نے طویل عرصے کے بعد اس کی آنکھوں میں وہی زندگی کی چمک دیکھی جو اس کی شخصیت کی خوبصورتی شمار ہوتی تھی۔
’’کچھ نہیں رانی صاحبہ! دلنواز کی طبیعت کچھ خراب ہوگئی تھی تو ہم اسے علاج کے لیے ان کے پاس لائے تھے۔ یہ سو گیا تھا، ابھی اٹھنے والا ہے۔ پھر ہم اسے لے کر گھر چلتے ہیں۔‘‘
’’لیکن… وہ… حویلی میں…؟‘‘ وہ اٹک اٹک کر کچھ بول رہی تھی۔ اس کے اندیشے اسے ڈرا رہے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کا ذہن کام کرنے لگا ہے۔
’’آپ نے ٹھیک کہا ہے۔ وہاں کے حالات ابھی آپ کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ آپ ایسا کریں کہ فضل کے ساتھ چلی جائیں۔ یہ آپ کو محفوظ مقام پر لے جائے گا بعد میں آتا ہوں میں… دلنواز کو حویلی چھوڑ آئوں۔ پھر آتاہوں۔ ٹھیک ہے۔ آپ جائیے۔ فضل! بی بی کو لے جائو۔‘‘
وہ دونوں چلے گئے۔
’’جوگی! تم نے جو کچھ پہلے کیا تھا۔ وہ ناقابل معافی تھا لیکن اب درست کرکے تم نے مجھ پر جو احسان کیا ہے میں اس کے لیے تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ تھینک یو۔‘‘
جوگی کرسی پر بیٹھا مسکراتا رہا۔
اب دلنواز نے پلکیں جھپکانی شروع کردی تھیں۔
’’اٹھ جائو راجہ صاحب! گھر نہیں جانا ہے کیا؟‘‘ اس نے آواز دی۔
راجہ نے آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ادھر ادھر دیکھا پھر بولا۔ ’’یہ میں اس وقت یہاں کیا کررہا ہوں؟ اوئے! تو مجھے لے کر آیا ہے یہاں کیوں؟‘‘
’’راجہ جی! آپ کی طبیعت کافی خراب ہوگئی تھی تو میں ان کے پاس علاج کے لیے لے کر آیا تھا۔ اب آپ کیسا محسوس کررہے ہیں۔ طبیعت ٹھیک محسوس تو ہو رہی ہے نا۔‘‘
’’ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مجھے کیا ہوا ہے۔ چل۔ مجھے ادھر وحشت ہورہی ہے۔‘‘ اس نے یہ کہہ کر باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔
’’ٹھیک ہے جی! آپ گاڑی میں بیٹھیں۔ میں آرہا ہوں۔
ٹھیک ہے جوگی! اجازت۔ تھینک یو ویری مچ۔ انجوائے دا سیکنڈ لائف…بائے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ تیز تیز قدم رکھتا ہوا دوسرے کمرے سے اپنا سامان اٹھا کر باہر آگیا۔ پھر اپنا واکی ٹاکی نکالا۔ بٹن پریس کرکے آن کیا تو دوسری جانب سے ہیلو کی آواز آئی۔
’’اشرف خان! ابھی سے گنتی گنو۔ ایک سے لے کر سو تک اور جیسے ہی سو تک پہنچو۔ بلاسٹ کا بٹن پریس کردینا۔‘‘ یہ ہدایت دے کر اس نے واکی ٹاکی جیب میں ڈالا اور سامنے نظر آنے والے دیوہیکل گیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔ ’’اوکے جوگی!‘‘ دو انگلیاں ہونٹوں پر رکھ کر اس کی طرف ایک فلائنگ کس اچھالا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
راجہ جی ناراض ہورہے تھے۔ انہیں گھر پہنچانا تھا۔ اس نے گاڑی موڑی اور حویلی جانے والے راستے پر ڈال دی۔ ابھی کچھ ہی دور پہنچے تھے کہ ایک زبردست دھماکا ہوا۔ گاڑی بھی لرز کر رہ گئی۔ اور وہ دونوں بھی ہڑبڑا گئے۔
’’یہ کیا تھا اوئے! دھماکا کدھر ہوا ہے اس وقت؟‘‘ راجہ نے پریشان ہوکر پوچھا۔
’’پتا نہیں راجہ صاحب! شاید کانوں میں پتھر توڑنے کے لیے دھماکا کیا ہو۔‘‘
’’نہیں۔ کانوں میں اتنے بڑے دھماکے نہیں ہوتے۔ یہ کچھ اور تھا۔ اوئے! تو مجھے گھر چھوڑ کر ادھر آکر پتا کرنا۔ پھر مجھے بتانا۔ ہوا کیا ہے ادھر۔‘‘ راجہ فکرمند ہوکر بڑبڑایا اور خاموش ہوگیا۔
اسے حویلی پر اتار کر باہر آیا تو چاچا چراغ کے ہوٹل پر سرفراز کی بائیک کھڑی تھی۔ وہ اس کی چابی وہیں سائیڈ میں لٹکے ہوئے اوزاروں کے تھیلے میں ڈالتا تھا۔ اسے معلوم تھا چنانچہ اس نے آرام سے چابی نکالی۔ بائیک اسٹارٹ کی اور پرواز شروع کردی اپنے خوابوں کی وادی کی طرف…! جہاں وہ راحت جاں اس کے انتظار میں ہوگی۔
٭…٭…٭
’’ہیلو! جی سر! کیسے ہیں؟ آپ کہیے کیسے یاد کیا؟‘‘ اس نے کرنل صاحب کا نمبر دیکھ کر کال اٹھائی۔
’’ہاں جوان۔ وہاں حویلی کی صورتحال یہ ہے کہ راجہ اور اور اس کے بیٹے کی کوئی خبر نہیں ملی ہے۔ میرے لوگوں نے کونا کونا چھان مارا ہے۔ نہ جانے کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ اور ہیں یا کہیں اور نکل گئے ہیں۔‘‘
’’سر! اتنے کڑے پہرے میں وہ کہیں نکل تو نہیں سکتے اور گواہوں کے بیان کے مطابق وہ حویلی میں آئے تھے۔ لیکن انہیں باہر جاتے کسی نے نہیں دیکھا۔ ہیں تو وہ حویلی میں ہی، ہوسکتا ہے وہاں تہہ خانے ہوں جہاں وہ دونوں چھپے ہوئے ہوں۔‘‘
’’تہہ خانے…؟ بھئی ایک ہی تہہ خانہ ہے اس حویلی میں۔ اسے میرے لوگوں نے اچھی طرح کھنگال لیا ہے۔ وہاں کچھ نہیں ملا بلکہ اس کا امکان محسوس کرتے ہوئے شاید یہاں سے باہر جانے والا کوئی خفیہ راستہ ہو، تو اس کی دیواریں اور فرش تک ٹھونک پیٹ ڈالے پر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جانے کس بل میں گھس گئے ہیں یہ چوہے۔‘‘
’’سر! ایک اچھی خبر یہ ہے کہ چھوٹا راجہ دلنواز ٹھیک ہوگیا ہے۔ اپنے ہوش و حواس میں آکر نارمل ہوگیا ہے۔ اس کو اٹھا کر ذرا کال کوٹھری میں ڈال کر چوہے چھوڑ دیں۔ وہ کچھ نہ کچھ ان دونوں کے بارے میں ضرور بتا دے گا۔‘‘
(جاری ہے)