اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ موت کے فرشتے ( عزرائیل ) سے پوچھا: اے عزرائیل ! کیا کسی مرنے والے پر تجھے کبھی رحم بھی آیا۔
عزرائیل نے عرض کیا :
اے میرے مالک! مجھے تو ہر مرنے والے پر رحم آتا ہے لیکن میں تیرے
حکم کے مطابق اس کی جان نکالتا ہوں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یہ بتا کہ آج تک تجھے سب سے زیادہ رحم کس پر آیا ؟
عزرائیل نے عرض کیا :
الہی ! ایک دن ایک کشتی سمندر میں کہیں جا رہی تھی اور اس پر کچھ لوگ سوار تھے۔ یکایک سمندر میں طوفان آ گیا اور میں نے تیرے حکم سے اس کشتی کو توڑ دیا پھر تو نے مجھے حکم دیا کہ کشتی میں سوار ایک عورت اور اس کے ننھے بچے کے سوا باقی سب لوگوں کی روح قبض کرلے۔ میں نے اسی طرح کیا اور اس عورت اور اس کے بچے کوکشتی کے ایک تختے پر زندہ چھوڑ دیا۔ سمندر کی موجیں اس تختے کو بہا کر ساحل تک لے گئیں۔ ان کے بچ جانے پر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اس وقت تو نے مجھے حکم دیا کہ اس عورت کی روح قبض کرلے اور اس کے بچے کو تنہا چھوڑ دے۔ الہی تو جانتا ہے کہ اس بچے کو بے آسرا چھوڑ نے سے میرا دل کتنا دکھا اور مجھے اس پر کس قدر ترس آیا۔ اس دُکھ اور غم کو میں آج تک نہیں بھلا سکا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اے عزرائیل سن ! میں نے اس وقت سمندر کی ایک موج کو حکم دیا کہ اس بچے کو قریبی جنگل میں ڈال دے۔ یہ جنگل طرح طرح کے پھلوں سے لدے ہوئے درختوں اور خوشبودار پھولوں والے پودوں سے بھرا ہوا تھا اور اس میں صاف اور میٹھے پانی کے چشمے بہہ رہے تھے۔ ہر طرف سریلی آوازوں والے پرندے چہچہا رہے تھے اور بہار کا سماں تھا۔ میں نے اسی سرسبز جنگل میں اس بچے کی پرورش کی اس کا بستر چنبیلی کے پھولوں کا ہوتا تھا اور دنیا کی ہر نعمت میں نے اس کو عطا کی تھی۔ پھر میں نے ہر قسم کے خطرے اور مصیبت سے اس کی حفاظت کی۔ سورج کو حکم دیا کہ اپنی تپش سے اس کو نہ ستا، ہوا کو حکم دیا کہ اس پر سے آہستہ گزر بادل کو حکم دیا کہ اس پر مت برس، بجلی کو حکم دیا کہ اس کو اپنی تیزی نہ دکھا۔ چھوٹے بچوں والی ایک شیرنی کو حکم دیا کہ اس بچے کو بھی اپنا دودھ پلا۔ اس طرح چند سال میں وہ بچہ تنومند طاقتور موٹا تازہ نوجوان ہو گیا۔ جانتے ہو یہ بچہ کون تھا ؟ یہ بچہ نمرود تھا جس نے آگے چل کر خدائی کا دعوی کیا اور ابراہیم خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا۔ اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں کوئی حکمت ( تدبیر ) ہوتی ہے اور اپنے بھیدوں کو وہی جانتا ہے۔ اس کے کسی کام پر نکتہ چینی کر نا سخت گناہ ہے۔
( مثنوی مولانا روم سے ماخوذ )