مدت بعد میری ملاقات اپنے کلاس فیلو، جمشید سے ہوئی۔ وہ ایک منچلا اور دل پھینک نوجوان تھا لیکن خُدا نے اس میں ایسی کشش رکھی تھی کہ جس سے بات کرتا دل موہ لیتا تھا۔ اس کا گھر ہمارے گھر کے بالکل سامنے تھا۔ اور ہم ایک ایسے پوش علاقے میں رہتے تھے ، جہاں قطار در قطار بنگلے بنے ہوئے تھے۔ سامنے جمشید کے والد کا مکان تھا اور ہمارے برابر میں شرمین کا گھر تھا۔ شرمین کے ساتھ پڑوسی ہونے کے ناتے میری دوستی تھی، تاہم بلا سبب میں اس کے گھر نہیں جاتی تھی کیونکہ دوماہ قبل یہ لوگ یہاں آئے تھے۔ ایک دن جمشید سیڑھیاں اتررہا تھا۔ اچانک اس کی نظر ہمارے برابر والے بنگلے کی ایک کھلی کھٹرکی پر پڑی، سامنے ہی شرمین کا کمرہ تھا۔ وہ مسہری پر نیم دراز اپنے قلم سے کچھ تحریر کر رہی تھی۔ اُسے دیکھ کر جمشید شش و پنج میں پڑ گیا کہ اس نازنین کو اُس نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ دراصل وہ اپنے چچا کے گھر مری میں تین ماہ کی چھٹیاں گزار کر آیا تھا۔ اسی محویت میں اپنے گھر کی سیڑھیوں پر ایک بت کی طرح ایستادہ تھا کہ اس نازنین کو محسوس ہوا کہ کوئی محویت سے اُس کو دیکھ رہا ہے تبھی اس نے چونک کر سیڑھیوں کی جانب دیکھا۔ چہرہ اوپر اٹھانے سے اس کے حسن کا پورا چاند جمشید کی نگاہوں میں نُور کی چکا چوند برسا گیا۔ خُوبصورت نقوش کے ساتھ سیاہ لمبی زلفیں کمر تک پھیلی ہوئی تھیں، موزوں قامت اور چھریرا بدن غرض کہ اُس کا وجود انتہائی دلکش تھا۔ وہ اس لمحے پہچان نہ سکا کہ یہ لوگ اُس کے پُرانے والے مکان کے برابر رہا کرتے تھے ، تقریباً دس سال پہلے۔ جمشید بھول گیا کہ باہر کس کام سے جارہا تھا اور واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ اپنی الماری کھول کر پرانی البم نکالی اور شرمین کی دس سال قبل والی تصویر ڈھونڈ کر غور سے دیکھنے لگا۔ سوچا کہ کہیں، نگاہیں دھوکا تو نہیں کھا گئیں۔ یہ وہی ہے جس کی سالگرہ پر اس نے یہ تصویر بنائی تھی یا کوئی اور ہے ؟ ان دنوں وہ میٹرک کا طالب علم تھا۔ وہ حیران تھا کہ یہ لوگ یہاں آکر بس گئے اور اُسے خبر تک نہ ہوئی۔ اس نے کبھی شرمین یا اس کے گھر والوں کو آتے جاتے نہیں دیکھا تھا۔ عرصہ سے واقفیت کے سبب اس کا جی چاہا کہ جا کر شرمین کی والدہ سے ملے ، جن کو وہ آنٹی نشاط کہا کرتا تھا۔ اُن سے ملنا کوئی مشکل مسئلہ نہ تھا لیکن یہ ممکن تھا کہ شرمین کی شادی ہو چکی ہو اور وہ اپنے والدین کے بجائے شوہر کے ہمراہ رہتی ہو۔
وہ بچپن سے اس لڑکی کو پسند کرتا تھا۔ اس کی صورت اُسے اچھی لگتی تھی۔ یہ پسندیدگی خیالات کی پاکیزگی تک تھی۔ وہ ایک کم سن لڑکا تھا اور شرمین بھی ایک معصوم لڑکی تھی۔ یہ ایک دوسرے کے گھر جاتے اور باتیں بھی کر لیا کرتے تھے ، ان کے بزرگ اس بات کو بُرا نہیں جانتے تھے۔ اب جمشید کے سامنے ایک سوال تھا کہ اس تک رسائی کیسے حاصل کی جائے ؟ وہ شرمین سے ملنے اور بات کرنے کے لئے بے چین تھا۔ وہ اس جذبے کو نہیں پہچان پا رہا تھا کہ آیا یہ محبت تھی یا پرانی جان پہچان کی کشش۔ اب وہ سامنے والے گھر میں تھی تو قریب ہی تھی۔ وہ دن اُس نے اضطراب میں کاٹا۔ دوسرے روز پھر سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ شرمین کھڑکی میں نظر آگئی اور اُس کو دیکھ کر مسکرادی۔ مسکراہٹ کچھ ایسی تھی جیسے کہتی ہو کہ میں تمہارے چکر میں آنے والی نہیں ہوں۔ ندامت کے احساس سے وہ بجھ سا گیا۔ سوچا کہ یہ وہی شرمین ہے یا اس سے ملتی جلتی صورت والی کوئی اور لڑکی ؟ مگر وہ یہ سوال کس سے پوچھتا ؟ مجھ سے پوچھنا چاہا مگر میں نے اس کے سوال کو ہنسی میں اڑا دیا کہ پڑوس کی لڑکیوں سے دوستی کا یہ بہانہ تمہارا اچھا ہے ، اپنی راہ لو۔ وہ کھسیانہ ہو کر چلا گیا اور دوبارہ مجھے فون نہیں کیا۔ ایک ہفتہ یونہی اضطراب میں گزر گیا۔ جمشید کوئی کام نہ کر پا رہا تھا۔ اس کے اور شرمین کے درمیان فاصلہ جُوں کا توں تھا۔ وہ اس الجھن سے ہر صورت نکلنا چاہتا تھا۔ اس کی یہ کیفیت غیر فطری نہ تھی- یہ صورت جو اس کے دل پر اثر کر گئی تھی، اس لئے بھی زیادہ اہم تھی کہ وہ ابھی تک غیر شادی شدہ تھا۔ اب وہ کافی بدل گیا۔ دوستوں میں وقت گزارنے کی بجائے خاموش خاموش رہنے لگا۔ مجھے لگا اگر یہ وہی شرمین نہ تھی تب بھی وہ اس کو چاہنے لگا تھا۔ جمشید نے مجھ سے دو ایک بار شرمین کی بابت پوچھا اور کہا۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا۔ اپنی والدہ کو بھیج کر ان کے گھر سے معلومات لے لو، میں کیا بتا سکتی ہوں۔ دراصل میں شرمین کے بارے اس سے مزید بات چیت نہ کرنا چاہتی تھی۔ مجھ کو جمشید پر بھروسہ نہ تھا۔ احتیاط کا یہی تقاضہ تھا کہ اس معاملے میں، میں درمیان میں نہ آؤں کہ ہمارا بھی پڑوس کا معاملہ تھا۔
ایک بار شرمین کا بوڑھا ملازم گیٹ پر مل گیا۔ جمشید نے اُسے آواز دے کر روکا اور پوچھا کہ تمہاری بیگم صاحبہ کا نام کیا ہے؟ نجانے وہ کیا سمجھا اور جمشید کو حقارت سے گھورتا ہوا گھر کے اندر چلا گیا۔ ایک دن میں خالہ کے گھر سے اپنے گھر جارہی تھی کہ وہ مجھے گلی میں مل گیا اور پوچھا۔ تم نے شرمین کے بارے نہیں بتایا؟ میں نے تو اس کے گھر سے کبھی کسی کو نکلتے یا اندر جاتے نہیں دیکھا۔ اگر وہ شادی شدہ ہے تو کیا اس کا شوہر کہیں باہر رہتا ہے ؟ میں زیادہ اس کے بارے نہیں جانتی۔ وہ نئے لوگ ہیں ، ہمارا آنا جانا بس سلام دُعا تک تھا۔ آخر تم کو اس لڑکی سے اتنی دلچسپی کیوں ہے ؟ اس لئے کہ اگر یہ شادی شدہ ہے تو میں اس کا خیال چھوڑ دوں گا کیونکہ میں کسی کی آزدواجی زندگی برباد کرنے کا قائل نہیں، لیکن اگر یہ غیر شادی شدہ ہے تو اس سے الفت کارشتہ استوار کرنے سے پہلے میں اس کے ارادے سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں بیچارے جمشید کے خوابوں بارے سوچ کر مسکرا دی۔ میرا خیال تھا کہ بہت جلد اس کو شرمین کے گھرانے سے متعارف ہونے میں کامیابی ہو جائے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ اس تلخی نے اس کی اچھی بھلی خوشگوار زندگی میں زہر گھول دیا۔ وہ اس کے جذبات سے بھی واقف نہیں تھا۔ وہ کبھی کبھی اسے دیکھتی اور مسکرا دیتی، اور کبھی تغافل سے کام لیتی۔ دیکھ کر آنکھیں چرا لیتی، اور تجاہل عارفانہ برتنے لگتی، جمشید کے جذبات ایسے تھے کہ، نہ باگ ہاتھ میں تھی نہ پاؤں رکاب میں، شرمین کے حُسن کا جادو، اس کے اعصاب پر سوار ہو گیا تھا۔ وہ کہیں آتی جاتی نہ تھی، تمام وقت گھر میں رہتی تھی۔ ہر شام، خود کو قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر سنوارتی تھی۔ شادی شدہ عورتوں کی مانند سنگھار کرتی، پھر اپنے سجے ہوئے سراپے کا جائزہ لیتی ، لیکن تیار ہو کر جاتی کہیں نہ تھی، بس کھڑکی میں آ کر باغ میں جھانکتی رہتی تھی، جیسے اس کے من کا مالک اسی باغ میں کہیں چھپا بیٹھا ہو۔ اس نے جمشید کو کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کیا تھا کہ وہ بھی اس کو مخاطب کرنے کی جرات کر گزرتا-
دوماہ وہ یو نہی پریشان رہا، تاہم شرمین کے سینڈلوں کے خطرے کارن اُس سے مخاطب نہ ہوا اور دبکا رہا اور آزخود آواز دے کر اس کی توجہ پانے کی کوشش نہیں کی۔ اس نے بالواسطہ اظہار کے سارے ارادے ترک کئے رکھے، تبھی وہ بھی مایوس ہو گئی۔ ایک حسین شام جبکہ وہ سیڑھیوں سے اتر رہا تھا، تو اس نے کھٹرکی میں آکر اپنی کلائیوں میں پڑی چوڑیاں کھنکھنائیں۔ وہ ہمہ تن شرمین کی جانب متوجہ ہو گیا، تبھی ایک پرچی، جو کاغذ کے ٹکڑے میں لپٹی ہوئی تھی، اس کے سامنے آ گری۔ اس نے وہ گولی اُٹھالی اس پر لپٹا ہوا کاغذ کھولا۔ لکھا تھا۔ رات آٹھ بجے ان سیڑھیوں پر ملاقات ہو گی۔ فقط ”ش“۔ اس نے اس کاغذ کے ٹکڑے کو جیب میں محفوظ کر لیا اور اپنے کمرے میں آگیا۔ آج اس کی سوچ کے دھارے ایک خوشگوار سمت میں مڑچکے تھے۔ گویا شرمین کو میرے جذبات کا علم ہے ، وہ میرے حال سے واقف ہے، تو یہ بنائو سنگھار واقعی میرے لئے تھا۔ اس نے مجھے فون پر بتایا۔ اس ننھی منی تحریر نے بچارے جمشید کی کتنی بڑی مشکل آسان کر دی تھی۔ اب اُسے اگلی رات کا شدت سے انتظار تھا۔ دوسری شام آگئی۔ شرمین کے خیالوں میں گم، عمدہ لباس زیب تن کر کے اس نے آئینے میں اپنا جائزہ لیا اور بن سنور کر جب اپنے کمرے سے نکلا تو رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ اندھیری رات تھی وہ سیڑھیاں اترا سامنے گیٹ کا دروازہ کھل گیا۔ وہ اپنے گیٹ سے نکل کر تیزی سے جمشید کے صحن میں آگئی اور اس کی سیڑھیوں سے اوپر گئی۔ اس جگہ جہاں وہ کھڑے ہو کر اس کی کھڑکی سے اُسے دیکھا کرتا تھا۔ وہ سُرخ رنگ کے ملبوس میں تھی۔اس نے خود کو اتنا سجایا تھا کہ سچ سچ کی عروس لگ رہی تھی۔ اس کے لباس میں لگی خوشبو اتنی تیز تھی کہ ہمارے گھر تک آرہی تھی جیسے سارا جہان مہک گیا ہو۔ مدھم روشنی میں وہ باتیں کر رہے تھے اور میں چھت سے ان کو دیکھ رہی تھی۔ آج مجھے اندازہ ہو گیا کہ دُوری اور قربت میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ دُوری آگ اور قربت ٹھنڈک تھی۔ وہ اس کو پا کر اپنی منزل تک پہنچ گیا تھا۔ وہ ایک بھٹکا ہوا مسافر تھا، شرمین اس کی منزل تھی۔ دونوں دیر تک ساتھ رہے۔ اس کے بعد ایسے لمحات بار بار آئے جب ساری دُوریاں مٹ گئیں اور اس کی بے چینی روح کو قرار آ گیا۔ یہ سلسلہ تین ماہ چلا، پھر گائوں سے جمشید کے والدین لوٹ آئے۔ وہ اسے لینے آئے تھے کہ اس کی شادی کر دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے گائوں میں ایک کم سن گھریلو لڑکی جو ان کی رشتہ دار تھی، پسند کر لی تھی اور چاہتے تھے کہ جمشید بھی ایک نظر حنا کو دیکھ لے تاکہ وہ اس کی شادی کی تاریخ مقرر کر دیں۔ ماں باپ کے اسرار پر اسے جانا ہی پڑا۔ بھولی بھالی حنا اس کو بے حد اچھی لگی۔ معصوم، کم سن اور شرمائی سی۔ اس پاکیزہ صفت دوشیزہ نے اس کے دل میں گھر کر لیا۔ ماں سے کہا۔ مجھے حنا سے شادی پر کوئی اعتراض نہیں۔ گائوں سے آکر اس نے سوچا ابھی تک میں نے شرمین کی نجی زندگی کے بارے سوال نہیں کیا جبکہ میں تنہا زندگی کے اہم فیصلے نہیں کر سکتا لہذا اس نے شرمین سے سوال کیا کہ مجھے بتائو ، اپنے گزرے دنوں کی بابت۔ والد وفات پاگئے تھے۔ ماں بیمار ہے ، بھائی اسے امریکہ لے گئے ہیں، میں پرانے ملازم بابا شاداب کے ہمراہ رہتی ہوں۔ اس کی بیوی کبھی یہاں آجاتی ہے اور کبھی گائوں اپنے بچوں کے پاس چلی جاتی ہے۔ آج کل اماں صابرہ گائوں گئی ہوئی ہیں، اس کی بیٹی کے لڑکی پیدا ہوئی ہے، کچھ دنوں بعد آجائیں گی۔ تمہاری منگنی ہو گئی کیا؟ یہ بڑا اہم سوال تھا۔ اب اس گتھی کو سلجھانا لازم تھا۔ تب شرمین نے تفصیل سے بتایا کہ منگنی نہیں ، میرا نکاح ہو چکا ہے۔ والد صاحب اپنی زندگی میں میرا نکاح ٹیلی فون پر اپنے بھتیجے فرحان سے کروا گئے تھے ، جو امریکہ میں رہتا ہے۔ نکاح کو پانچ برس گزر چکے ہیں مگر وہ ابھی تک نہیں آیا ہے۔ والد صاحب، میرے نکاح کے ایک دو برس بعد تک جیئے۔ وہ اس کو آنے کو کہتے تھے اور فرحان ٹال مٹول سے کام لیتا تھا۔ بعد میں والدہ سے بھی ٹال مٹول کرتا رہا، اب بھائی کے پاس امی گئی ہیں، دیکھو کیا ہوتا ہے؟ پانچ برس میں نے انتظار کیا ہے اب اور نہیں کر سکتی۔ اب تو ہر صورت طلاق لوں گی۔ مجھے لگتا ہے کہ خود بخود وہ طلاق کے کاغذات کسی روز بھجوادے گا کیونکہ وہ بھی شادی کر چکا ہو گا۔ چاچی بھی وہاں ہیں مگر مہر بہ لب ہیں، نجانے کیا معاملہ ہے۔ جمشید نے کہا۔ شرمین تم نے بُرا کیا۔ مجھے پہلے سے بتایا ہوتا کہ تم شادی شدہ ہو تو میں تم سے یوں کبھی نہ ملتا۔ وہ بولی۔ ٹیلی فون کا نکاح بھی کوئی نکاح ہوتا ہے۔ اس کے باوجود میں نے پانچ برس تو انتظار کیا اور کتنا کروں گی ؟ مجھ کو کس جرم کی سزامل رہی ہے۔ ٹھیک ہے مگر نکاح، تو نکاح ہوتا ہے ، جب اتنا انتظار کیا تھوڑا سا اور بھی کر لیتیں۔ اپنی والدہ کو تو آنے دیتیں کہ کیا جواب لاتی ہیں۔ تمہارے چاچی سے تو وہ بات کریں گی ہی۔ اب ایک دن بھی اور مجھ سے انتظار نہیں ہو سکتا، چند ماہ تو بڑی بات ہے۔ اب تم مل گئے ہو تو آب تم ہی میری منزل ہو۔
اس جواب سے جمشید بہت ڈسٹرب ہو گیا۔ وہ سخت شش و پنج میں تھا کہ ماں کا فون ملا۔ میں نے تمہاری شادی کی تاریخ رکھ دی ہے۔ فلاں دن پہنچ جائو۔ وہ گھبرایا۔ شرمین سے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کہہ نہیں سکتا تھا۔ ادھر ماں منتظر تھی جس کا بیٹے پر بہت حق تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے فیصلہ کر لیا کہ ماں کو مایوس نہیں کرنا چاہئے ، گائوں جانا ہی چاہئے۔ دوسری شام وہ بھائی سے ملنے ہمارے گھر آیا اور مجھ سے کہنے لگا۔ گائوں جارہا ہوں ، ماں نے شادی کی تاریخ ٹھہرا دی ہے۔ پتا نہیں شرمین کو فراموش کر بھی سکوں گا یا نہیں ؟ تبھی نظر اپنے گھر کی جانب کی، جہاں شرمین کھڑکی میں موجود تھی۔ اس نے اشارہ کیا کہ وہ رات کو اس سے ملنے آئے گی۔ رات کے آٹھ بجے میں اپنے کمرے کی کھڑکی میں ہوا لینے آئی، میں نے دیکھا اس کے گھر شرمین آ گئی تھی۔ وہ ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف تھے۔ تھوڑی دیر پہلے اس کو فراموش کر دینے کے بارے مجھ سے بات کر رہا تھا، اس سے شادی سے معذرت کی بات کر رہا تھا لیکن اب اس کے سامنے ایسی بات کرنے کی ہمت نہ تھی۔ وہ اس کے ساتھ سرد مہری سے بات نہ کر پا رہا تھا۔ وہ بے حد اداس اور چپ چُپ تھا۔ شرمین کی میٹھی باتیں اس کی کوئی آواز اس کے کانوں میں نہ پہنچ پا ہی تھی تبھی جمشید کی سرد مہری اُسے کھل گئی۔ وہ سمجھ گئی کہ جمشید کسی گہری سوچ میں ہے۔ اس نے کہا۔ جو مسئلہ ہے مجھے سچ سچ بتا دو۔ اُسے بتانا ہی پڑا۔ ٹھیک ہے ، کچھ دنوں قبل جب تمہاری امی تمہاری شادی کا سندیسہ لائی تھیں ، تم تب ہی مجھ کو آگاہ کر دیتے ؟ تم ان کی خوشی پوری کرو۔ میں تمہارے راستے سے ہٹ جاتی ہوں۔ شرمین کے یہ کہنے پر جمشید جو پریشان تھا، پر سکون ہو گیا اور ہلکا پھلکا ہو کر گائوں چلا گیا۔ اس کی شادی حنا سے ہو گئی ، اس کو وہ حور مل گئی جو سچ مچ اسی کی تھی۔ شریک حیات کو پا کر اس کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اس کو کبھی بھی کسی سے محبت نہ تھی۔ شادی کے بعد جمشید نے وہ گھر چھوڑ دیا۔ بیوی کے ساتھ وہاں رہنا مناسب نہ جانا، جہاں سامنے شرمین کا گھر تھا اور دوسرے علاقے میں فلیٹ لے کر حنا کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کر دیں۔ مدت تک وہ نہ ہمارے گھر آیا اور نہ ملاقات کی۔ ہم سمجھے کہ وہ کسی دوسرے ملک چلا گیا ہے۔ کچھ عرصہ بعد شرمین کی والدہ، اس کے چاچا اور چاچی کے ہمراہ امریکہ سے لوٹ کر آ گئیں۔ بیٹا بھی ساتھ تھا۔ فرحان نے ابھی تک شادی نہ کی تھی۔ اس نے نکاح کی لاج رکھ لی اور اپنی منکوحہ کو لے کر امریکہ چلا گیا۔ شرمین کی قسمت اچھی تھی کہ خُدا نے اُسے مزید بھٹکنے سے بچالیا۔ شرمین کو منزل مل گئی اور جمشید کو بھی۔ میں سوچتی ہوں کہ اس جیسے نوجوان راہِ حیات سے بھٹکنے لگیں تو تھوڑی سی شعوری کوشش سے خود کو سنبھال سکتے ہیں کہ اسی میں ان کے لئے فلاح کا راستہ مضمر ہے۔ وہ شادی کر کے گھر بسا لیں تو بہت سی خرابیوں سے بچ سکتے ہیں۔ تاہم جب عرصہ بعد وہ ملنے آیا تو اس کی باتیں سُن کر میں ششدر رہ گئی۔ میں کتناغلط سوچ رہی تھی اور اس نے صاف صاف سچی باتیں کہہ دیں۔ میں نے پوچھا تمہاری بیوی کے ساتھ کیسی بسر ہو رہی ہے، زندگی کیا شرمین کے بغیر بے کیف تو نہیں ہو گئی ؟ میری بیوی میرے دل کی رانی، میرا پیار، میرا سب کچھ ہے۔ اس کے ساتھ شادی کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ازدواجی زندگی اور آزادانہ میل ملاقات میں بہت فرق ہے۔ دُور رہ کر محبت میں آہیں بھرنا اور بات ہے جو شے حاصل ہو جاتی ہے اپنی کشش کھو دیتی ہے جبکہ نکاح کے بعد اپنی جیون ساتھی سے پہلی ملاقات ، شرف زندگی ہے۔ اپنی دلہن ، زندگی بعد شرافت کا پیکر اور خلوص کی ضمانت ثابت ہو تو یہی زندگی جنت ہے۔ اس کے ان الفاظ نے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ تو گویا وفادار اور نیک و باحیا بیوی مرد کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے۔ ہاں، یہی بڑا انعام ہے۔ پھر بھی مرد اپنی اچھی بیویوں کی قدر نہیں کرتے اور ادھر اُدھر … وہ بہت بد نصیب مرد ہوتے ہیں بڑی بی ! جمشید نے جواب دیا۔ میں ہنس دی۔ وہ مجھے ہمیشہ مذاق میں بڑی بی، کہا کرتا تھا کیونکہ میں اُسے اچھا انسان بننے کی نصیحتیں کیا کرتی تھی۔