کتنی بار گھڑی دیکھ چکی تھی مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت تھم کر رہ گیا ہو۔ جون کی شدید گرمی اور حبس میں گھر کے اندر سانس لینا مشکل لگ رہا تھا، تو باہر قبرستان میں مردوں کا کیا حال ہو رہا ہوگا؟میں خود کو گرمی سے بچانے کے لیے، اور کسی طرح وقت گزارنے کے لیے مختلف باتیں سوچ رہی تھی۔ بندہ قرآن شریف بھی کتنا پڑھے؟ اوپر سے زمین پر بیٹھ کر دانے گننا بھی کوئی آسان بات نہیں۔ آدھے ایک گھنٹے بعد ہی میرے گھٹنے دکھنے لگے، اور میں بے چین ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی اور چھوٹے سے کمرے کی دیوار سے لگی کرسیوں میں سے ایک پر جا بیٹھی۔میں نے ایک بار پھر گھڑی پر نظر ڈالی۔ اف، ابھی تو صرف دو ہی گھنٹے ہوئے ہیں۔ یعنی فقط ایک گھنٹہ پہلے تو یہ لوگ جمعہ کی نماز کے بعد میت کو میت گاڑی میں سوار کر کے قبرستان لے گئے تھے۔میرے پاس تو ہر لمحے کی خبریں بذریعہ واٹس ایپ مسجد سے آتی جا رہی تھیں۔یہ بھی عجیب بات تھی کہ مردوں میں کتنے ہی ایسے تھے جو مجھے ہر لمحے سے آگاہ کرنے میں شاید ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے تھے، مگر شوہر صاحب پہلی بار اس طرح کی بے نیازی دکھا رہے تھے۔خیر، ابھی تک قبرستان پہنچنے کا پیغام نہیں آیا تھا۔کب قبرستان پہنچیں گے، کب دفن ہوں گے، تو بہ تو…میں نے اپنا سر جھٹک کر خود کو جھاڑا، اور میری ہمیشہ کی تنی ہوئی، لمبی صراحی دار گردن ذرا سی لچک گئی۔اللہ کا خوف کرو بی بی! کل تم کو بھی مرنا ہے۔ اور کیا اچھا لگے گا تم کو، اگر کوئی تمہاری میت کے گھر میں بیٹھ کر تمہاری پسندیدہ شخصیت کو اس بے رخی سے جھیلتا؟حد ہو گئی بھئی! میں نے ایک بار پھر خود کو جھاڑا،اور ویسے بھی، کہاں مرحومہ، اور کہاں میں! میرے تو سب زار و قطار روئیں گے، اور روتے ہی چلے جائیں گے۔ جب میں اس دنیا سے جاؤں گی، تو جیسے سارا سنسار اشکبار ہو جائے گا۔ ہر کوئی مجھے چاہتا ہے۔ اتنی پرکشش اور خوبصورت ہستی کے دنیا سے اٹھنے پر ایسا قیامت انگیز دردناک منظر ہی تو رونما ہوتا ہے جیسے فلموں یا ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے۔گردن کا تناؤ ایک بار پھر بھرپور ہو چکا تھا۔مگر بھئی، ابھی سے مرنے کے بارے میں کیوں سوچوں؟ میں نہ صرف صحت مند، جوان اور خوش شکل ہوں بلکہ پیسے والی بھی ہوں۔ میرے والدین بھی اونچے درجے کے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اکثر ہم یہ فیصلہ نہیں کر پاتے تھے کہ آیا ہم امیر ہیں یا متوسط۔خیر، بتانے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے مجھے بڑے لاڈ سے پالا تھا۔ اور میری شادی کرتے وقت انہوں نے بھرپور چھان بین کی تھی کہ ان کی انمول بیٹی کو کوئی جسمانی یا ذہنی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ اسی لیے میرے لیے نہ صرف امیر شوہر ڈھونڈا گیا، بلکہ رشتہ طے کرتے وقت یہ بھی دیکھا گیا کہ میرا شوہر شادی سے پہلے ہی میرے عشق میں گرفتار ہو جائے۔جس کے لیے شادی سے پہلے ہی میرے والدین نے شوہر صاحب کے والدین کو یہ باور کرا دیا تھا کہ میری خوشی سب سے اہم ہے۔شادی کے بعد شوہر صاحب کو قابو کرنے کے لیے مجھے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑی، کیونکہ وہ پہلے سے ہی مجھ پر فریفتہ تھے — یا شاید میں ایسا ظاہر کرتی ہوں۔میں یہ بات بہت معمول کے انداز میں کہتی ہوں: ان کو میرا بہت خیال رہتا ہے، وہ میری ہر خواہش کو پورا کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک میری خوشی سب سے اہم ہے۔حالانکہ بظاہر دیکھا جائے تو شوہر صاحب ایک اچھے انسان ہیں، جو خود سے جڑے ہر شخص کو اہمیت دیتے ہیں۔ مگر میں ان کی اس عادت کو بھی اپنے مقصد میں استعمال کرتی ہوں۔ کیونکہ ایسا کوئی اعلانیہ بیان اکثر ساتھ بیٹھی دوسری خواتین کی آنکھوں میں رشک کے آنسو لے آتا ہے، جو مجھے بہت اطمینان دیتا ہے۔کیونکہ مجھے اپنی قسمت پر ناز کرنا اچھا لگتا ہے۔قسمت تو نسل در نسل ہمارے گھر کی باندی رہی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ میری آنے والی نسلیں بھی میری ہی طرح قسمت کی دھنی ہوں گی۔مگر ایک بات کے علاوہ بھی میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھنے میں بالکل حق بجانب ہوں، اور وہ یہ کہ مجھے ملنے والا ہر انسان — عورت یا مرد، بڑا، چھوٹا، جوان یا بوڑھا — مجھ سے بے حد محبت کرتا ہے۔ جو لوگ محبت نہیں کرتے، وہ بھی مجھ سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔مجھے کبھی کسی سے توجہ یا محبت کی بھیک نہیں مانگنی پڑی؛ سب کچھ مجھے خودبخود، بطورِ حق، ملتا چلا آیا۔لہٰذا مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں کہ جب کسی کو ایسے سب کچھ یا آسانی سے نہ ملے، یا امید ہو مگر غریبی یا بھوک اُسے آ دبوچے، تو ان کے دلوں میں کیسے کیسے دکھ جنم لیتے ہیں۔ شاید وہ اپنے آپ کو بدقسمت سمجھنے لگتے ہوں۔مگر میرے خیال میں بدقسمتی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، اور نہ ہی کوئی انسان واقعی بدقسمت ہوتا ہے۔میرا یقین ہے کہ اصل میں لوگ بدقسمت نہیں بلکہ بزدل ہوتے ہیں۔ وہ اپنی خوشی کے لیے فیصلے لینے کی ہمت نہیں رکھتے۔اور میں اس بات پر بھی ایمان رکھتی ہوں کہ جو لوگ خود کو کمزور، بدصورت، یا بدقسمت سمجھتے ہیں، وہ دراصل شدید احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔یہ لوگ خود کو حساس سمجھتے ہیں اور ہر وقت دوسروں کے رویوں کو پرکھتے رہتے ہیں۔انہیں لگتا ہے کہ اگر وہ کسی کے ساتھ برا کریں گے، کسی کا حق ماریں گے، یا کسی پسندیدہ انسان کو ماں باپ کے فیصلوں کے خلاف لے جائیں گے، تو ان کے ساتھ بھی برا ہو گا — دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔یہ سوچ ان کے اعتماد، عزت نفس اور انا کو مٹا دیتی ہے۔ایسے لوگ زندگی کی خوشی، امن، محبت — یہاں تک کہ زندگی خود — سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔اپنے آپ پر ترس کھانا، ہر وقت خود کو دوسروں سے کمتر سمجھنا، اور محفلوں میں کونے کھدروں میں چھپ کر بیٹھ جانا کہ کہیں ان کی معمولی شکل و صورت یا سادہ لباس لوگوں کے ذوقِ جمال کو مکدر نہ کر دے — یہ سب بےوقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟ارے، یہ سب کیا تماشا ہے؟کیوں نہیں سچ کہتے کہ تمہارے پاس پیسے کی کمی ہے؟اس بات کو ماننے میں کیا حرج ہے کہ دنیا میں معیار صرف پیسہ طے کرتا ہے۔انسان خوبصورت، دلکش، یا محبوب اس لیے بنتا ہے کہ اس کے پاس دولت ہے۔جس چیز پر نظر ڈالو، وہ تمہاری۔ جس انداز سے زندگی گزارنی چاہو، وہی سب سے بہتر راہ۔یہ سب پہلے کمال نہیں، بلکہ سرمایہ ہے۔اخلاق، محبت، رواداری، وفاداری — یہ سب غریبوں کے کام ہیں۔پھر بھی ان کی قسمت میں محرومی لکھی ہوتی ہے۔میں بھی اگر ایسی ہی غریبی میں پیدا ہوتی، تو شاید یونہی خاموشی سے مر جاتی،جیسے وہ مرحومہ مر گئی۔میرے جسم میں ایک جھرجھری سی دوڑ گئی۔ ایک عجیب سی خلش نے دل میں سر اُٹھایا۔میرا دھیان مرحومہ کی طرف گیا ہی تھا کہ بریانی کی خوشبو نے سارا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا۔چاہے جیسے بھی حالات ہوں، نیند اور بھوک برحق ہیں — اور یہ بات ماننے میں کیا قیامت ہے؟میں نے شوہر صاحب کو محض ایک سوالیہ نگاہ سے دیکھا۔میری نگاہ کو یوں نظرانداز ہونے کی عادت نہ تھی، اور میں اس پر غور ہی کر رہی تھی کہ چند کزنز اور مرحومہ کے بھائیوں کے میسجز آ گئے۔شکر ہے، وہ لوگ قبرستان سے نکل چکے تھے۔کہا گیا کہ زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔اتنے میں اگر دیگوں کو اچھی طرح کپڑوں میں لپیٹ دیا جائے تو بریانی ٹھنڈی ہونے سے بچ جائے گی۔ویسے بھی، گرمی جتنی بھی ہو، کھانے میں بریانی گرم ہی اچھی لگتی ہے۔میں نے ارد گرد نظر دوڑائی۔ سوگواران اور دیگر مہمان سب اپنی دھن میں مصروف تھے۔بظاہر تلاوت یا دعا میں مگن، مگر حقیقت میں بریانی کی خوشبو سب کی بھوک جگا چکی تھی۔شوہر صاحب نے میت کی اطلاع ملتے ہی شہر کے سب سے مہنگے پکوان گھر سے بریانی کا آرڈر دے دیا تھا۔اور بھئی، غریب کے جانے کا دکھ بھی کیا ہوتا ہے؟میں تو یہ سوچ کر مطمئن تھی کہ بے چاری کی مشکل آسان ہو گئی۔ویسے بھی، جسے دنیا میں سکون نہ ملا، اُسے آگے کہاں ملتا ہے؟مرحومہ شوہر صاحب کی دور کی رشتہ دار تھیں، اور وہ اُنہیں اور ان کے گھر والوں کو اچھی طرح جانتے تھے۔پھر بھی، جس بردباری اور خاموشی سے شوہر صاحب نے مجھے شامل کیے بغیر یہ سارے انتظامات کیے، مجھے تھوڑا دھچکا لگا۔یوں لگا جیسے شوہر صاحب کوئی چوری کرتے پکڑے گئے ہوں۔حالانکہ میں ہمیشہ ایسے معاملات میں لا تعلق رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتی ہوں،لیکن اگر شوہر صاحب مجھ سے مشورہ کر لیتے، تو میں بتا دیتی کہ غریبوں کی میت میں آنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔جو آتے بھی ہیں، وہ یا تو دفنانے کے بعد آتے ہیں یا جلدی آکر چپ چاپ رخصت ہو جاتے ہیں۔اب یہ تین چار دیگیں اور کتنے ہی کیک و مشروبات جو آئے ہیں، سب ضائع جائیں گے۔نہ کوئی بڑا فریج ہے، نہ فریزر، جہاں بچی ہوئی بریانی کو محفوظ کیا جا سکے۔خیر، دیگوں کو دیکھ کر مرحومہ کی بھابھیوں کے چہروں پر چھلکتی خوشی نے مجھے شوہر صاحب کے فیصلے پر ایک بار پھر مطمئن کر دیا۔انسان کا پیٹ تو کبھی بھرتا ہی نہیں۔یہ دنیا کا دستور ہی نہیں۔ ایک وقت کا کھایا نہیں کہ دوسرے وقت کی فکر لگ جاتی ہے۔مرحومہ کی بھابھیاں دنیا دار تھیں، جیسے ہر غریب ہوتا ہے۔مگر مرحومہ — وہ عجیب سی شخصیت کی مالک تھی۔ایسی بے اعتمادی، ایسے دکھ جیسے اسے زبردستی اس دنیا میں بھیجا گیا ہو۔شاید کچھ لوگ واقعی ایسے ہی دنیا میں بھیجے جاتے ہیں —مگر کچھ اس طرح زندگی گزارتے ہیں جیسے دنیا پر اپنے وجود کا احسان کر رہے ہوں۔عاجزی سے رہنا، بے وجہ گھر میں جھینپتے رہنا،دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونا،اپنے جذبات کو راز رکھنا،ہنستے ہوئے بھی آنکھوں میں نمی لیے رہنا —یہ سب کچھ اس میں تھا۔اور محبت سے مل کر میں اکثر بے جان ہو جایا کرتی تھی۔نہ جانے کیسی کشش تھی اس میں۔اس کے لہجے کی نرمی، چال ڈھال کے وقار میں کوئی ایسی چیز تھی جو میرے وجود کو،میرے تمام تر اعتماد کے باوجود، ہلا کر رکھ دیتی تھی۔میں اکثر فیصلہ کرتی تھی کہ اب کی بار اگر شوہر صاحب اس کے گھر جانے کو کہیں گے تو میں صاف انکار کر دوں گی۔عجیب بدروح سی لگتی تھی وہ۔میں دل میں سوچتی، یہ جو دھواں دھواں سا ہالہ اس کے گرد نظر آتا ہے —وہ دراصل اس بے انتہا صبر اور برداشت کا حصار ہے جس نے اُسے گھیر رکھا ہے۔اور پھر یہ سب مجھے ہی کیوں نظر آتا تھا؟شاید وہ میرے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح آتی رہی ہو،اور مجھے صرف لفظوں پر توجہ دینی تھی۔مگر میں ڈر کے مارے کبھی توجہ نہ دے سکی۔مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے لوگ جادوگر ہوتے ہیں۔
یہ دل، دماغ، سب قابو میں کر لیتے ہیں۔قربانی مانگتے ہیں، اور وفاداری خریدتے ہیں۔مگر میں ایسا نہیں کر سکتی تھی۔میں تو ایک خوش نصیب اور خوش قسمت انسان تھی۔پھر بھی، جب کبھی شوہر صاحب نے اس کے گھر جانے کی بات کی،میں انکار نہ کر سکی۔ویسے بھی، جب رشتہ دار غریب ہوں،تو امیر رشتہ داروں کا فرض بنتا ہے کہ کم از کم تہواروں میں اُن سے ملنے جائیں۔اور ہم ہر تہوار پر بلا ناغہ اُس کے گھر جاتے تھے۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب اس کی ماں بھی زندہ تھیں، جو شوہر صاحب کی دور کی خالہ لگتی تھیں۔نا چاہتے ہوئے بھی، شاید کئی بار میں نے شوہر صاحب کو ٹوکا تھا:تنہا خالی ہاتھ تو ہم اپنے والدین سے بھی ملنے نہیں جاتے،تو اس کزن کے گھر اس طرح منہ اٹھا کر کیوں چل پڑتے ہیں؟کئی مہینوں میرے سوالات کے بعد شوہر صاحب نے ایک دن خاموشی توڑتے ہوئے بس اتنا کہا:کیوں کہ کچھ لوگوں کے لیے اللہ ہی کافی ہوتا ہے، اور اس سے ملنے کی یہی شرط ہے۔اور ضروری تو نہیں کہ ہر راز ہر انسان پر کھل ہی جائے۔ اگر کسی کے ماضی پر پردہ پڑا ہو تو بہت سوچ سمجھ کر ہی اسے اٹھانے کی جسارت کرنی چاہیے، کیونکہ کبھی کبھی لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ لہٰذا میں نے بھی اس معاملے میں ولید آغا کو کریدنے سے اجتناب برتا۔ یہی میری طرف سے عقل مندی کا اقدام تھا کہ میں نے شوہر صاحب کو اکیلے وہاں جانے نہ دیا، تاکہ حدود قائم رہیں۔پھر شوہر صاحب کی دور کی خالہ، یعنی اس کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ اور بقول شوہر صاحب، اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا غنی کر دیا کہ سال بھر میں ایک یا دو ملاقات کا بھی وقت نہ رہا۔ پھر بھی ایک پتھر تھا جو میرے سینے پر دھرا تھا۔ اکثر جب شوہر صاحب کسی اور طرف متوجہ ہوتے، تو میں ان کے چہرے کے تاثرات اور انداز پر غور کرتی۔ ہزار ہا شکوک و شبہات مجھے گھیر لیتے، اور میں بے چین ہو کر خود کو ان پر زبردستی متوجہ کرنے لگتی۔کچھ سال پہلے معلوم ہوا کہ اسے کینسر کا مرض لاحق ہوگیا ہے، مگر پھر بھی اس نے جاتے جاتے چار سال تو نکال ہی لیے۔ ان چار سالوں میں شاید تین یا چار بار ہی ملاقات ہوئی ہوگی، مگر اس کی موت پر ایسا محسوس ہوا جیسے دل پر رکھا صدیوں پرانا بوجھ ہٹ گیا ہو۔ ایک ایسی سرشاری، ایسی خوشی، جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا ہو۔ مجھے اکثر خیال آتا کہ اگر اس کی جگہ میں چلی جاتی، تو کیا وہ بھی ایسا ہی کچھ محسوس کرتی؟ شاید نہیں۔میں نے دروازے سے باہر جھانکا۔ مردوں کے لیے لگایا گیا خوبصورت ٹینٹ، زمین پر بچھا صاف ستھرا قالین، آرام دہ کرسیاں، اور ہلکے رنگ کے میزپوش سے ڈھکی میزیں—یہ سب کچھ اس غریب، پرانے، بوسیدہ علاقے کے ماحول سے بالکل الگ تھلگ سا منظر پیش کر رہے تھے، جیسے کسی نے جادو سے یہ سب کچھ وہاں سجا دیا ہو۔دل پر ایک سایہ سا لہرایا۔ پھر جب میرے پیچھے گھومتی پھرتی عورتوں میں سے کسی نے آخری رسومات، میت کا گھر، مرنے والی جیسے الفاظ دہرائے، تو وہ سایہ یکدم رخصت ہوگیا، اور اس کی جگہ بھوک نے لے لی۔امیر رشتہ داروں کا فرض ہے کہ غریب رشتہ دار کے ہر دکھ درد میں شریک ہوں۔ میں پلٹنے ہی والی تھی کہ ٹینٹ میں مردوں کے داخلے کا منظر نظر آیا اور ادھر بیرے تیزی سے کھانے کے انتظامات میں لگ گئے۔ مجھے دروازے پر کھڑا دیکھ کر کئی رشتہ دار مرد مسکراتے ہوئے میری طرف آئے۔آپ لوگوں کا بہت احسان ہے، ورنہ یہ بے چارے اتنا کہاں کر پاتے؟ بس، اس کا اجر تو اللہ ہی دے گا۔ یہ بچارے تو شکر بھی ادا نہیں کر سکتے۔وہ مجھے طرح طرح سے بہلانے لگے، اور میری نظریں شوہر صاحب کو تلاش کرتی رہیں۔ کھانا لگتے ہی مجھے سب سے پہلے اطلاع دی گئی اور میرے بیٹھتے ہی کھانا بڑے اہتمام اور نفاست سے چن دیا گیا۔ بیروں کو خواتین کی طرف آنے کی اجازت نہ تھی، اور ویسے بھی خواتین میں کوئی قریبی سوگوار نہ تھا۔دو بہنیں تھیں جو میت کے اٹھتے ہی اپنی ماں بہنوں کو لے کر الگ الگ گروپ بنا کر بیٹھ گئی تھیں۔ کھانے کے وقت سب دسترخوان پر اس شدت سے اپنی پلیٹیں بھر رہے تھے جیسے بھوک نے انہیں گھیر رکھا ہو، اور ساتھ ہی بریانی کی ٹرے ایک دوسرے کے درمیان گھمائی جا رہی تھی۔ گرم بریانی کی خوشبو اور آوازیں گردش کر رہی تھیں۔ نہ کوئی میزبان تھا، نہ مہمان—غم کسی کو نہ تھا۔سب ہی خواتین بڑی پلیٹیں بھر رہی تھیں، اور سچ کہوں تو میں بھی انہی میں شامل تھی۔کچھ دیر بعد شوہر صاحب کا بلاوا آگیا اور مجھے سکون محسوس ہوا، کیونکہ کھانے کے بعد نیند آ رہی تھی، اور جون کی لمبی دوپہر ابھی مکمل ختم نہیں ہوئی تھی۔ میں نے مرحومہ کی بھابیوں سے چند رسمی باتیں کیں اور باہر نکل آئی۔ جیسے ہی شوہر صاحب کو دیکھا، دل دھک سے رہ گیا۔یہ انہیں کیا ہوا؟ صبح تک تو بالکل ٹھیک تھے۔ مگر اب ان کے چہرے کے گرد یہ دھواں دھواں سا ہالہ کیوں محسوس ہو رہا ہے، جیسے کوئی بڑا صدمہ سہہ گئے ہوں۔ شاید گرمی برداشت نہ کر پائے ہوں… میں نے خود کو تسلی دی۔واپسی کے سفر کے دوران ہماری جدید گاڑی کا تیز اے سی دن بھر کی گرمی کا اثر مٹا گیا۔ میں نے سیٹ کی پشت سے سر ٹکایا، آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ شوہر صاحب گویا ہوئے…ظاہر ہے، صاف کھلے راستے کی رکاوٹ کون انسان برداشت کر سکتا ہے۔ اب رکاوٹ کون تھا؟ میں یا وہ؟ یہ فیصلہ تو وقت نے کرنا تھا، جو میری خوش قسمتی کے ہاتھوں مجبور ہو کر میرے ہی حق میں کر چکا تھا۔میں نے دروازے سے باہر جھانکا۔ مردوں کے لیے لگایا گیا خوبصورت ٹینٹ، زمین پر بچھا ہوا صاف ستھرا سرخ قالین، اور اس پر ترتیب سے رکھی گئی دیدہ زیب پلاسٹک کی آرام دہ کرسیاں اور ہلکے رنگ کے میزپوش سے ڈھکی گول میزیں — یہ سب اس غریب اور پرانے طرز کے بوسیدہ علاقے کے گردونواح سے بالکل الگ تھلگ سا منظر پیش کر رہی تھیں، جیسے کسی نے جادو سے یہ سب کچھ یہاں لا رکھا ہو۔دل پر ایک سایہ سا لہرایا۔ اور جب میرے پیچھے گھومتی پھرتی عورتوں میں سے کسی نے آخری رسومات، میت کا گھر، مرنے والی کے نام جیسے کچھ ملے جلے الفاظ دہرائے، تو وہ سایہ ایک دم رخصت ہو گیا، اور اس کی جگہ بھوک نے پھر سے ڈیرا جما لیا۔امیر رشتہ داروں کا فرض ہوتا ہے کہ غریب رشتہ دار کے ہر دکھ درد میں شریک ہوں۔ میں پلٹنے ہی والی تھی کہ ٹینٹ میں مرد داخل ہوتے دکھائی دیے، اور دوسری طرف بیرے تیزی سے گھوم پھر کر ٹینٹ میں کھانے کے انتظامات کرنے لگے۔ مجھے دروازے پر کھڑا دیکھ کر کئی رشتہ دار مرد مسکراتے ہوئے میری طرف آئے۔آپ لوگوں کا بہت احسان ہے، ورنہ یہ بے چارے اتنا کہاں کر پاتے۔ بس، اس کا اجر تو اللہ ہی دے گا۔ یہ بے چارے تو شکر بھی ادا نہ کر سکے۔وہ مجھے طرح طرح سے بہلانے لگے، جبکہ میری نظریں مسلسل شوہر صاحب کو تلاش کرتی رہیں۔کھانا لگتے ہی خواتین میں سب سے پہلے مجھے اطلاع دی گئی، اور میرے دسترخوان پر بیٹھتے ہی بڑے اہتمام اور نفاست سے کھانا چن دیا گیا۔ بیروں کو خواتین کے حصے میں آنے کی اجازت نہیں ملی تھی، اور ویسے بھی وہاں کوئی قریبی سوگوار خاتون موجود نہ تھی۔دو بہنیں تھیں، جو میت کے اٹھتے ہی اپنی ماں اور بہنوں کو لے کر الگ الگ گروپ میں بیٹھ گئی تھیں۔ کھانے کے وقت سب خواتین بڑی شد و مد سے اپنی پلیٹیں بھرنے میں مصروف تھیں اور بریانی کی ٹرے ایک سے دوسری کے درمیان گھمائی جا رہی تھی۔ ٹرے گھما کر لاتے ہوئے “گرم بریانی” کی آوازیں گردش کر رہی تھیں۔نہ کوئی میزبان تھا نہ مہمان۔ غم کا کسی پر اثر نہ تھا کہ کوئی پہلے کسی کو بٹھاتا یا اس کے آغاز کا انتظار کرتا۔سب ہی خواتین بریانی کے بڑے بڑے چمچ بھر رہی تھیں، اور سچ کہوں تو میں بھی ان میں شامل تھی۔تھوڑی دیر بعد شوہر صاحب کا بلاوا آ گیا اور میری جان میں جان آئی، کیونکہ کھانے کے بعد اب شدید نیند آ رہی تھی، اور جون کی لمبی دوپہر ابھی مکمل ختم نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا گھر جا کر قیلولہ کرنے کا وقت ابھی باقی تھا۔میں نے جلدی میں مرحومہ کی بھابیوں سے چند الوداعی جملے کہے اور باہر نکل آئی۔ جیسے ہی شوہر صاحب کے چہرے پر نظر پڑی، دل دھک سے رہ گیا۔یہ کیا ہوا ان کو؟ صبح تک تو بالکل ٹھیک تھے۔ مگر اب ان کے چہرے کے اردگرد یہ دھواں دھواں سا ہالہ کیوں محسوس ہو رہا ہے، جیسے کسی بڑے صدمے نے ان کے وجود کو گھیر لیا ہو؟ شاید گرمی کی شدت برداشت نہ ہو پائی ہو… میں نے خود کو تسلی دی۔واپسی کے سفر کے دوران ہماری جدید گاڑی کے تیز اے سی نے دن بھر کی گرمی کا اثر یکسر ختم کر دیا۔ میں نے سر سیٹ کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں بند کرنے کا سوچا ہی تھا کہ شوہر صاحب گویا ہوئے۔مانا کہ بیمار تھی، مگر مرنے کے بعد اتنی ہلکی ہو گئی تھی کہ کندھا دیتے ہوئے بالکل یوں لگ رہا تھا جیسے ہم میت کے بغیر ہی چل رہے ہوں۔ جب ہمارے بوڑھے چچا نے اپنی باری پر کندھا دیا تو کچھ اس انداز سے کلمہ پڑھنے لگے کہ سب کو میت کے ہلکے پن کا احساس ہو گیا۔ اس کے دونوں بھائی، جو آگے تھے، وہ بھی رونے لگے۔ مجھ سے بھی برداشت نہ ہو سکا۔میں نے گم شدہ وزن ایک بار پھر اپنے سینے پر محسوس کیا اور بےچینی سے پہلو بدلا، مگر شوہر صاحب اپنی دھن میں بولے جا رہے تھے۔ وہ بے چارے بھی کیا کرتے، انہیں کہیں نہ کہیں تو بولنا ہی تھا، کسی سے تو دکھ بانٹنا ہی تھا۔ مگر شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ میں ان کی شریکِ حیات ہونے کے باوجود، ان کے اس دکھ کو بانٹنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی — اور شاید کبھی تیار ہو بھی نہ سکوں۔ہم دونوں کی عمر میں زیادہ فرق نہیں، اور پیشے سے دوستی تھی۔ وہ مجھے ہمیشہ سمجھتے آئے تھے، مگر اس لمحے شوہر صاحب نے بغیر پوچھے ماضی کے پردے اٹھانے کی ٹھان لی تھی۔ اور میں چاہ کر بھی، بے انتہا کوشش کے باوجود، اس سے آگے سننے کی ہمت نہ کر سکی۔ میں نے ان کو واپس اس دنیا میں لانے کے لیے سرگوشی کی:آپ کو یاد ہے، آپ ہی نے کہا تھا کہ کچھ لوگوں کے لیے صرف اللہ کافی ہوتا ہے۔ وہ اس لیے ہلکی پھلکی تھی کہ اپنا سارا بوجھ اللہ پر ڈال چکی تھی۔ جیسے زندگی میں صرف اللہ ہی کافی تھا، ویسے ہی موت میں بھی صرف اللہ ہی اس کے ساتھ تھا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ آپ کو اس کی یہ خواہش ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔