Tuesday, November 12, 2024

Allah Ki Grift

ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی اور وارث علی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا جا رہا تھا۔اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ چہرہ اداس اور آنکھوں میں ویرانی تھی۔ وارث کی عمر تیس سال کے لگ بھگ تھی۔ اس کا جسم کمزور ہو چکا تھا۔ سر کے بال سفید ہو چکے تھے۔ اس کی شیو اکثر بڑھی رہتی تھی اور وہ کئی دن کے بعد اپنے باربر کے پاس جا کر شیو کرا آتا تھا جو اسے اپنے ہیئر کٹنگ سیلون میں دیکھ کر خوش اخلاقی سے پیش آتا تھا۔ وہ اس کے کہے بغیر چائے منگوا کر کوئی بات چھیڑ دیتا تھا۔ ایک ہفتہ پہلے جب وارث اس کے سیلون میں گیا تھا تو باربر نے اس کی شیو بنانے کے بعد پوچھا تھا۔ بالوں کو رنگ دوں؟ وارث نے جواب دیا۔ اس کا کیا فائدہ… اب تو زندگی میں رنگ نہیں رہے۔ تمہاری زندگی اور رنگ لازم و ملزوم ہیں۔ جب تک تمہاری زندگی ہے ، رنگ تمہارے ساتھ رہیں گے۔ ان رنگوں کا کیا ہے ؟ سارے رنگ مل کر بھی میری بے رنگ زندگی کو رنگین نہیں بنا سکتے۔ وارث کی آنکھوں میں اداسی آ گئی تھی۔  تم بہت بدل گئے ہو۔ تمہارے چہرے کی مسکراہٹ ختم ہو گئی ہے۔ تم مسکراتے بھی ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے تم اپنے زخم کھرچ رہے ہو ۔ باربر اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ جو کھو گیا ہے وہ واپس نہیں آ سکتا۔ اتنا کہہ کر اپنے اداس چہرے کے ساتھ وہ اس کے سیلون سے باہر نکل گیا تھا۔ باربر  نے محسوس کیا تھا کہ اس بار وارث پہلے سے زیادہ اداس اور غمگیں تھا۔ وارث چلتے ہوئے ایک لمحے کے لئے رکا جیسے اچانک اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔ اس نے اپنے کوٹ کی دائیں جیب کو ٹٹولا۔ جیب کے اندر رکھا ہوا کاغذ محسوس کرنے کے بعد وہ پھر چلنے لگا۔ وارث مصور اور خطاط تھا۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی برش اور رنگوں سے کھیلنا شروع کر دیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کا باپ بھی ایک مصور تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد اس نے چھوٹا سا گھر آرٹ گیلری میں تبدیل کر دیا تھا۔ ماں بہت پہلے چل بسی تھی۔ اب وہ اکیلا تھا۔ اس گھیر نما گیلری میں چاروں طرف اس کی بنائی ہوئی تصویریں دکھائی دیتی تھیں۔ جہاں دو چیزوں کی بو ہر وقت آتی رہتی تھی، ایک رنگ اور دوسری اس کی سگریٹوں کے دھویں کی۔ وہ بہت سگریٹ پیتا تھا۔ سگریٹ منہ سے الگ ہوتا تو اپنی کھڑ کی کا پٹ کھول کر چائے والے کو آواز دیتا۔ ایک چائے بھیج دو۔

وارث کا گھر بازار میں تھا۔ نیچے دکانیں تھیں جو کسی اور کی ملکیت تھیں جبکہ اوپر چھوٹا سا گھر جو اب آرٹ گیلری بن چکا تھا، اسے ورثے میں مل گیا تھا۔ وارث کا اوڑھنا بچھونا اب یہی گھر تھا جہاں وہ دن رات رنگوں سے کھیلتا رہتا تھا۔ چائے والا دن بھر اسے چائے اور سگریٹ تو پہنچاتا ہی تھا لیکن صبح کے وقت ایک کپ گرم چائے پہنچانا اس کی ڈیوٹی میں شامل تھا۔ وارث کی شہرت سن کر ڈاکٹر الیاس اس کی پینٹنگ لینے کے لئے پہنچ گیا تھا۔ اس نے اسی علاقے میں اپنا پرائیویٹ کلینک کھولا تھا۔ وہ اپنے کلینک میں کچھ مصوری کے شاہکار آویزاں کرنا چاہتا تھا۔ ڈاکٹر الیاس نے اس کی چار تصویریں منتخب کیں اور اس کی قیمت پوچھی تو وارث نے کہا۔ آپ نے بتایا کہ آپ ڈاکٹر ہیں۔ ہاں میں ڈاکٹر ہوں۔ ڈاکٹر الیاس نے اپنا وز یٹنگ کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ وارث نے کارڈ لے کر ایک نظر دیکھا اور پھر اسے دراز میں رکھ دیا۔ آپ نیا کلینک کھول رہے ہیں۔ یہ تصویریں میری طرف سے تحفہ ہیں، آپ لے جائیں۔ بہت شکریہ ، لیکن میں ان تصویروں کی قیمت دینا چاہوں گا۔ مجھے بتائیں کہ آپ کتنے پیسے لینا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر الیاس مسکرا کر بولا۔ بس ان تصویروں کی قیمت یہی ہے کہ آپ مجھے اچھے الفاظ میں یاد رکھیں۔ میں یہ تصویریں بیچنے کے لئے نہیں بناتا لیکن ضروریات زندگی کے لئے مجھے ایسا کرنا پڑتا ہے۔ جب میری جیب میں کچھ پیسے آجائیں تو پھر مجھے زیادہ لالچ نہیں رہتی۔ وارث بولا۔ چلیں، میں آپ کی ایک تصویر تحفہ کے طور پر رکھ لیتا ہوں، باقی تین کی قیمت آپ لے لیں۔ ڈاکٹر الیاس نے کہا۔ لیکن وارث ان سے اپنی تصویروں کی قیمت لینے کے لئے تیار نہیں تھا اور اس کے مجبور کرنے پر ڈاکٹر الیاس کو رقم ادا کئے بغیر وہ تصویریں لے جانا پڑی تھیں۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جب وارث بیمار ہو گیا تو جس ڈاکٹر کے پاس وہ علاج کرا رہا تھا، اس نے ڈاکٹر الیاس کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ ڈاکٹر الیاس نے جو نہی وارث کو دیکھا، وہ فورا سے پہچان گیا۔ اس میں شک نہیں تھا کہ وارث کی صحت کمزور ہو گئی تھی۔ اس کا چہرہ بھی پہلے جیسا نہیں رہا تھا لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر الیاس اس کا نام بھی نہیں بھولا تھا۔ ارے وارث صاحب ! ڈاکٹر الیاس مسکراتے ہوئے آگے بڑھا۔ آپ کو میرا نام یاد ہے ۔ وارث خوش ہو کر بولا۔ مجھے سب یاد ہے۔ کیا بات ہے تم بہت کمزور ہو گئے ہو۔ تمہاری صحت پہلے جیسی نہیں رہی۔ ڈاکٹر الیاس نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔ یہ تو آپ بتائیں گے کہ مجھے کیا ہوا ہے۔ جس ڈاکٹر کے پاس میں علاج کر رہا تھا، انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ ڈاکٹر الیاس نے وارث کو اچھی طرح چیک کیا اور پھر کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیئے۔ جب تک وارث کے ٹیسٹوں کی رپورٹیں آتیں اس وقت تک کے لئے ڈاکٹر الیاس نے کچھ دوائیں لکھ دیں۔ وارث وہ دوائیں کھاتا رہا۔ پھر جب وہ لیبارٹری سے اپنی ٹیسٹ رپورٹس لے کر باہر نکلا تو ہلکی ہلکی بوندا باندی ہونے لگی تھی اور وہ اسی بوندا باندی میں ڈاکٹر الیاس کے کلینک کی طرف چلا جارہا تھا۔ ڈاکٹر الیاس کا کلینک آ گیا۔ اندر مریضوں کا رش تھا۔ وہ اپنا ٹوکن لینے کے لئے کائونٹر کی طرف بڑھا تو وہاں موجود لڑ کے نے وارث کو دیکھتے ہی کہا۔ آپ ایک طرف بیٹھ جائیں، جیسے ہی مریض باہر نکلتا ہے میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس بھیج دوں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ آپ جب بھی آئیں، ٹوکن دینے کی بجائے آپ کو اندر بھیج دوں۔ وارث بینچ کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر الیاس کو یاد تھا کہ آج میری رپورٹس ملنے والی ہیں، اس لئے انہوں نے پہلے ہی کائونٹر پر موجود لڑکے کو ہدایت دے دی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد لڑکے نے وارث کو ڈاکٹر الیاس کے کمرے میں بھیج دیا۔ آجائو وارث … یہاں بیٹھ جائو ۔ ڈاکٹر الیاس نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ وارث اس کے سامنے اسٹول پر بیٹھ گیا۔ ر پورٹ لے کر آئے ہو۔ ڈاکٹر الیاس نے پوچھا۔ جی۔ وارث نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک لفافہ نکالا اور ڈاکٹر الیاس کی طرف بڑھا دیا۔ ڈاکٹر الیاس نے کاغذات نکال کر پڑھنا شروع کر دیئے۔ جیسے جیسے وہ کاغذ پلٹ رہا تھا، اس کے ماتھے پر تشویش عیاں ہوتی جارہی تھی۔ میری رپورٹ میں کیا آیا ہے ۔ وارث نے پوچھا۔ تمہیں اب کچھ احتیاط کرنی پڑے گی۔ فی الحال رنگوں سے دور رہنا ہو گا اور ڈاکٹر الیاس بولا۔ ڈاکٹر صاحب میری رپورٹ میں کیا آیا ہے ۔ وارث نے متانت سے پوچھا۔ تمہارے پھیپھڑوں میں کچھ مسئلہ ہے ۔ ڈاکٹر الیاس بولا ۔ تم فکر مت کرو۔ ڈاکٹر صاحب آپ مجھے صاف بتادیں۔ مجھ میں سننے کا حوصلہ ہے۔ وارث نے کہا۔ ڈاکٹر الیاس سوچنے لگا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ وارث پھر بولا۔ لیبارٹری والا میرا جاننے والا ہے۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ مجھے کینسر ہے۔ اب آپ مجھے بتادیں کہ میرے پاس زندہ رہنے کا وقت ہے کہ نہیں۔ دیکھیں ڈاکٹر صاحب کچھ چھپائے گا مت۔ میں سچ سننا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر الیاس نے بتایا۔ ٹھیک ہے کہ تمہیں کینسر ہے اور یہ آخری اسٹیج پر ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ تم کتنا جی سکو گے کیونکہ یہ خدا بہتر جانتا ہے لیکن تمہاری رپورٹس بتاتی ہیں کہ تمہارے پاس وقت کم ہے۔ ڈاکٹر الیاس کی بات سن کر وارث سوچ میں پڑ گیا۔ ڈاکٹر الیاس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بڑ لیا۔ گھبرائو نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔ مجھے یہ بھی خوف نہیں ہے کہ میں مر جائوں گا۔ موت سب کو آئی ہے اور ویسے میں اسی دن مر گیا تھا جس دن … وارث بولتے بولتے چپ ہو گیا۔ اس نے کرب ناک انداز میں ڈاکٹر الیاس کی طرف دیکھا۔ پھر چند لمحے توقف کے بعد بولا۔ میرے ذمے ایک کام ہے، بس مجھے اس کام کو مکمل کرنے کے لئے مہلت چاہئے۔ دیکھتے ہیں کہ موت مجھے کام کرنے دیتی ہے کہ نہیں اور اگر میں کام مکمل کئے بغیر مر گیا تو مجھے مرنے کا بہت افسوس ہو گا۔ وارث اتنا کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھا۔ تم کہاں جارہے ہو ؟ ڈاکٹر الیاس نے پوچھا۔ اپنے گھر جا رہا ہوں۔ بیٹھو میں تمہیں کچھ دوائیں لکھ کر دے رہا ہوں۔ ڈاکٹر الیاس نے کہا۔ ہاں دوائیں لکھ کر دے دیں، شاید یہ دوائیں مجھے میرا کا میرا کام مکمل کرنے میں مدد دے سکیں۔ وارث کی آنکھوں میں چمک سی ابھری۔ ڈاکٹر الیاس اپنے پیڈ پر دوائیں لکھنے لگا اور پھر وہ کاغذ پیڈ سے الگ کر کے وارث کی طرف بڑھا کر بولا۔ دو دن کے بعد پھر آنا۔ گر زندگی رہی تو ضرور آئوں گا۔ وارث نے دھیمے لہجے میں کہا اور نسخہ جیب میں ڈال کر باہر نکل گیا۔ وارث اپنے گیلری نما گھر میں پہنچا۔ اس نے کوئی بتی روشن نہیں کی اور اپنی آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے کرسی کی پشت کے ساتھ ٹیک لگا لی اور آنکھیں موند لیں۔ وہ اپنی بیماری سے پریشان نہیں تھا، وہ اس بات پر متفکر تھا کہ اس کی بیماری اسے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کرنے کی مہلت دیتی ہے کہ نہیں۔ وہ ہر صورت میں اپنا وعدہ پورا کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے وعدے کو نبھانے کے لئے آٹھ سال سے انتظار کر رہا تھا اور اب چوبیس گھنٹوں کے بعد وہ آرہا تھا۔ اس کے لئے ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ وارث آنکھیں بند کئے ماضی کے اوراق پلٹنے لگا۔
☆☆☆

وارث کو پیسہ کمانے کا لالچ نہیں تھا۔ وہ اپنی بنائی ہوئی تصویروں کو کسی طے شدہ معاوضے پر فروخت نہیں کرتا تھا۔ جس تصویر کے اسے جو پیسے بھی مل جاتے، وہ رکھ لیتا تھا اور اپنی زندگی کی ضرورتیں پوری کرتا اور شکر ادا کرتا تھا۔ ایک دن اس کی ملاقات شازیہ سے ہو گئی۔ وہ ایک پر کشش لڑکی تھی۔ وارث نے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ اکثر اس کی گیلری میں آنے لگی اور تصویریں دیکھ کر چلی جاتی۔ اس دوران دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی بات کر لیتے تھے۔ ایک دن وارث نے شازیہ سے کہا۔ ا گر آپ برا محسوس نہ کریں تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کی تصویر بنائوں اور میری یہ تصویر سب سے الگ اور نایاب ہو گی۔ کیا واقعی آپ میری تصویر بنانا چاہتے ہیں ؟ شازیہ مسکرائی۔ ہاں بالکل۔ شازیہ نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور پھر پوچھا۔ کب بنانا چاہتے ہیں آپ میری تصویر ؟ وارث نے  ایک کرسی کھینچ کر درمیان میں رکھ دی۔ مجھے یہاں بیٹھنا پڑے گا۔ صرف ایک گھنٹہ… اس ایک گھنٹے میں ، میں آپ کی تصویر بنادوں گا۔ وارث نے بڑے یقین سے کہا۔ نازیہ نے ایک بار سوچا اور پھر رضامندی کا اظہار کر دیا۔ وارث نے اسے کرسی پر ایک خاص انداز میں بٹھایا اور کینوس کے آگے کھڑا ہو گیا اور اس کے ہاتھ انتہائی تیزی سے حرکت کرنے لگے۔ ایک گھنٹے میں وارث نے شازیہ کا عکس اپنے کینوس پر منتقل کر لیا تھا۔ پھر اس نے شازیہ سے کہا۔ اب آپ اُٹھ سکتی ہیں۔ میں اپنی تصویر دیکھنا چاہتی ہوں۔ شازیہ اس کی طرف بڑھی۔ یہ ابھی نامکمل ہے۔ آپ کل اس وقت آجائیں، تصویر مکمل ہو جائے گی۔ وارث نے جلدی سے شازیہ کے سامنے آکر اسے اسکیچ دیکھنے سے روک دیا۔  شازیہ مسکرائی اور بولی۔ ٹھیک ہے ، میں کل اس وقت آئوں گی ۔ وہ اتنا کہہ کر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد وارث سارے کام بھول کر شازیہ کی تصویر مکمل کرنے میں لگ گیا۔ اس کے ہاتھ بڑی تیزی سے چل رہے تھے۔ رات ہو گئی تھی اور اس کا برش اب بھی اس تو تصویر کی نوک پلک سنوارنے میں مصروف تھا۔ جب اس نے تصویر مکمل کر لی تو اسے بغور دیکھا اور مطمئن ہو کر اس پر سفید کپڑا ڈال دیا۔ وہ رات بھر شازیہ کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کے خیالوں میں اسے نیند بھی نہیں آئی۔
☆☆☆

دوسرے دن ٹھیک وقت پر شازیہ آ گئی۔ اس وقت وارث سگریٹ پی رہا تھا۔ اچانک شازیہ کو دیکھ کر اس نے سگریٹ بجھا دی اور اپنے دونوں ہاتھ ہلا کر سگریٹ کا دھواں معدوم کرنے کی کوشش کی۔ پھر اس نے جلدی سے ایک کرسی اٹھا کر ایک طرف رکھی اور بولا ۔ آپ تشریف رکھیں۔ وارث نے کئی دنوں کے بعد آج شیو کی تھی اور اس نے جینز کے ساتھ سفید شرٹ زیب تن کر رکھی تھی۔ آج وہ کل سے زیادہ نکھر اہوا لگ رہا تھا۔ میں اپنی تصویر دیکھنا چاہتی ہوں۔ شازیہ بیٹھنے کی بجائے بولی۔ میں آپ کے لئے چائے منگواتا ہوں۔ وارث نے کہا۔ میں چائے نہیں پیتی۔ مجھے تصویر دکھائیں۔ میں اپنی تصویر دیکھنے کے لئے سخت بے چین ہوں۔ شازیہ بولی۔ آ جائیں۔ وارث ایزل کے قریب چلا گیا۔ شازیہ بھی اس کے نزدیک کھڑی ہو گئی۔ تصویر پر سفید چادر پڑی تھی۔ وارث نے وہ چادر جیسے ہی ہٹائی تو شازیہ کو لگا جیسے اس کی سانس رک گئی ہو۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہو۔ ایسی تصویر بنائی تھی کہ شازیہ کی نگاہیں اس پر جم گئی تھیں۔ پھر وہ بے اختیار بولی ۔ کمال کر دیا ہے آپ نے۔ کمال تو آپ کی خوبصورتی کا ہے ۔ وارث نے کہا۔ آپ کے ہاتھوں میں جادو ہے۔ یہ تصویر میں لے جاسکتی ہوں۔ شازیہ نے وارث کی طرف دیکھا۔ کیوں لے جانا چاہتی ہیں آپ؟ میں اس تصویر کو دوسروں کو دکھائوں گی۔ اپنی فیس بک پر شیئر کروں گی۔ میں چاہتی ہوں کہ میری یہ تصویر ہر جگہ پہنچ جائے۔ میں مشہور ہو جائوں۔شازیہ بہت خوش تھی۔ میں یہ تصویر آپ کو نہیں دے سکتا۔ وارث نے فیصلہ سنایا۔ کیوں ؟ کیونکہ یہ میں نے اپنے لئے بنائی ہے۔ یہ انمول ہے۔ یہ تصویر میری ہے ، میں اس کی قیمت ادا کر دیتی ہوں۔ شازیہ نے کہا۔ میں نے کہانا کہ یہ انمول ہے۔ وارث نے کہا۔ ایک بات کہوں اگر آپ برا محسوس نہ کریں تو ؟ ہاں بولیں ، کیا کہنا چاہتے ہیں۔میری زندگی گزری ہے رنگوں سے کھیلتے ہوئے لیکن میں نے کبھی کسی کو دیکھ کر اپنے دل میں ایسی ہلچل محسوس نہیں کی جیسی آپ کو دیکھتے ہی محسوس ہوئی۔آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ شازیہ نے اس کی طرف تیکھی نظروں سے دیکھا۔ میں نے جب سے آپ کو دیکھا ہے ، میرے دل میں آپ کا خیال بسا ہے ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ اس تصویر کے ساتھ آپ مرے آنگن میں آجائیں تو میری زندگی میں حقیقی رنگ بھر جائیں گے۔ دمیں نے آپ کو پہلی بار اس شام کو دیکھا تھا جب آپ کی تصویروں کی نمائش لگی تھی۔ شازیہ متانت سے بولی۔ اس بات کو تقریباً تین ماہ ہونے کو ہیں۔ اس گیلری میں ، میں نے آپ کے کام کو دیکھا تھا، پھر آپ کو دیکھا لیکن آپ سے ملنے کی ہمت نہ ہوئی لیکن آپ میرے دل میں بسیرا کر چکے تھے۔ پھر میں یہاں آنے لگی لیکن بات کرنے کی کی پھر پھر بھی ہمت نہ ہوئی۔ میں بے سہارالڑکی ہوں۔ اپنے ماموں کے پاس رہتی ہوں۔ میری ممانی میر اوجود میرے ماموں کی زندگی تک برداشت کر رہی ہیں ۔ وارث بولا۔ مجھے کبھی اتنی خوشی اپنی بنائی ہوئی تصویر پر نہیں ہوئی جتنی آج ہوئی ہے۔ کیا ہم ایک ساتھ چائے پی سکتے ہیں ؟ ہاں کیوں نہیں۔ شازیہ مسکرائی۔
☆☆☆

وارث اور شازیہ بہت خوش تھے ۔ دونوں ایک دوسرے سے ملنے لگے تھے۔ وہ گھنٹوں باتیں کرتے ۔ دونوں کی زندگی میں تغیر آ گیا تھا۔ دونوں مستقبل کے سہانے خواب دیکھنے لگے تھے۔ پھر ایک دن اچانک کامران آ گیا۔ کامران دو سال سے وارث کی بنائی ہوئی تصویریں خرید کر جانے کہاں بیچتا تھا۔ وہ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر میں رہتا تھا۔ وہ اچانک آتا تھا اور وارث کی بنائی ہوئی تصویریں پیک کرتا، اسے بند لفافے میں پیسے دیتا اور تصویریں لے کر چلا جاتا تھا۔ کامران اور وارث میں ان اچھی گپ شپ رہتی تھی۔ وہ دوستوں کی طرح ہو گئے تھے۔ جتنے دن وہ اس شہر میں ہوتا، وارث کے پاس ہی رہتا تھا۔ اس بار کامران آیا تو وارث سیڑھیاں اتر کر نیچے جا رہا تھا۔ دونوں سیڑھیوں میں ملے ۔ وارث نے بتایا کہ وہ اپنے لئے کھانا لینے جا رہا ہے ۔ کامران نے کہا کہ اسے بھی بھوک لگی ہے ، اس لئے وہ اس کے لئے بھی کھانا لے آئے۔ کامران او پر چلا گیا۔ اس نے بیگ ایک طرف رکھا اور طویل انگڑائی لینے کے بعد اس نے اپنے بازو ابھی سمیٹے نہیں تھے کہ اچانک اس کی نظر شازیہ کی تصویر پر پڑی۔ وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ کامران کے ذہن میں تھا کہ وارث نے وہ تصوراتی تصویر بنائی ہے۔ ایسا شاہکار اس نے وارث کی گیلری میں ایک طویل عرصے کے بعد دیکھا تھا۔ کامران ابھی تصویر دیکھ ہی رہا تھا کہ اسے آہٹ سنائی دی۔ اس نے سمجھا کہ وارث آ گیا ہے۔ پھر کسی نے کھلے دروازے پر اپنی الٹی انگلی سے دستک دی تو کامران کو اپنی نگاہیں تصویر سے ہٹانا پڑیں۔ اس نے دروازے کی طرف دیکھا تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔ دروازے پر شازیہ کھڑی تھی۔ اس نے بار بار کبھی تصویر اور کبھی شازیہ کو دیکھا۔ وہ دل ہی دل میں وارث کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکا۔ وارث صاحب ہیں ؟ ہاں ۔ وہ ایک کام سے گئے ہیں۔ کامران نے جواب دیا۔ کب تک آ جائیں گے ؟ شازیہ نے پوچھا۔  پندرہ منٹ تک آجائیں گے ۔ آپ تشریف لے آئیں۔ میرا نام کامران ہے اور میں وارث کے سارے کام کا انویسٹر ہوں۔ سوری میں نے یوں ہی کہہ دیا حالانکہ وارث کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ کسی پر یہ ظاہر ہو کہ اس سارے کام میں میرا پیسہ انوالو ہے۔ یہ تصویر آپ کی ہے ؟ شاطر کامران نے شازیہ کو متاثر کرنے کے لئے یہ بات کہہ دی تھی۔ جی میری ہے۔ شازیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ کمال کر دیا ہے وارث نے… آپ کو سامنے بٹھا کر اس نے تصویر بنائی تھی۔ کامران بولا۔ جی ہاں۔ یقینا وہ اس تصویر کے دام بھی زیادہ مانگے گا۔ کامران نے اپنی ٹھوڑی کھجاتے ہوئے کہا۔ انہوں نے یہ تصویر بیچنے کے لئے نہیں بنائی۔ شازیہ نے فوراً کہا۔ کامران نے شازیہ کی طرف مسکرا کر دیکھا اور معنی خیز انداز میں بولا ۔ ایسا وارث نے کہا ہے آپ سے ؟ ہاں۔ شازیہ نے جواب دیا۔ جواب سن کر کامران کے چہرے پر سجی مسکراہٹ مزید معنی خیز ہو گئی۔ اسی اثنا میں وارث ہاتھ میں ایک شاپر لئے آ گیا۔ وہ شازیہ کو دیکھتے ہی بولا۔ ارے آپ کب آئیں ؟ ا بھی آئی ہوں۔ شازیہ مسکرائی۔ وارث نے شاپر ایک طرف رکھا اور شازیہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کامران للچائی ہوئی نظروں سے شازیہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی نیت کسی عورت کے لئے کبھی صاف نہیں رہی تھی۔ وہ شاطر اور مکار شخص تھا۔ وہ وارث کی بنائی ہوئی تصویریں اچھے داموں بیچ کر اچھی خاصی دولت کما چکا تھا۔ تم نے ان کی تصویر بہت زبردست بنائی ہے۔ میں اسے خریدنا چاہوں گا اور اس جیسی تم مجھے جتنی تصویریں چاہو اور بنا دو۔ کامران نے کہا۔  میں نے یہ تصویر بیچنے کے لئے نہیں بنائی۔ وارث کا جواب سن کر شازیہ کے چہرے پر پر سکون مسکراہٹ آ گئی تھی۔ یہاں سب کچھ بکائو ہے۔ پھر یہ کیوں نہیں بکے گی۔کامران نے کہا۔ تم آ جائو، ہم کھانا کھاتے ہیں ۔ وارث نے اس کی توجہ اس موضوع سے ہٹانے کے لئے کہا۔ پھر وہ شاپر لے کر کچن میں چلا گیا جبکہ کامران شازیہ کے پاس آیا اور دھیمے سے بولا۔ آپ بہت خوبصورت ہیں۔کامران کا یہ جملہ شازیہ کو اچھا نہیں لگا۔ وہ سمٹ کر بیٹھ گئی اور اس نے چہرہ دوسری طرف کر لیا۔ اس دوران وارث ٹرے میں کھانا رکھ کر لے آیا۔ اس نے وہ ٹرے ایک طرف میز پر رکھی اور ان دونوں کو کھانے کی دعوت دے کر شازیہ کو اپنے قریب کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
☆☆☆

شازیہ کے جانے کے بعد اس نے باتوں باتوں میں شازیہ کے بارے میں وارث سے پوچھ لیا۔ وارث نے اسے صاف بتا دیا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور جلدی شادی بھی کرنے والے ہیں۔ کامران کے دل میں یکدم آگ بھڑک اٹھی۔ اس کے لئے یہ برداشت کرنا مشکل تھا کہ وارث کو اتنی خوبصورت لڑکی مل گئی اور وہ بھی اتنی آسانی سے۔ کامران نے اس جلن کو اپنے دل میں رکھ کر سلگنے دیا۔ وہ اس کھوج میں رہا کہ شازیہ کہاں رہتی ہے۔ پھر وہ جلد ہی یہ جان گیا کہ اس کا گھر کہاں ہے۔ شازیہ کرتی کیا ہے اور اس کے گھر یلو حالات کیا ہیں۔ شازیہ ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی تھی۔ وہ اپنے اسکول سے گھر آ رہی تھی کہ اچانک اس کے سامنے کامران آ گیا۔ کامران کو اچانک اپنے سامنے دیکھ کر وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ میں نے اچانک آپ کو دیکھا تو رک گیا۔ دراصل میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ وارث نے آپ کی تصویر مجھے بیچ دی ہے اور ساتھ اس جیسی مزید دس تصویریں بنانے کے لئے بھی پیسے لے لئے ہیں۔ شازیہ کو اس کی بات پر یقین نہ آیا۔ وہ بولی ۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ایسا ہو چکا ہے۔نہیں، ہر گز نہیں۔ ایسا کریں کہ آپ اس کی گیلری میں چلی جائیں۔ کچھ کہے بغیر اس سے پوچھیں کہ آپ کی تصویر جو اس نے ایک طرف رکھی ہوئی تھی وہ کہاں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو کچھ اور پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اور اگر آپ میرا نام نہ لیں تو میں بتانا چاہوں گا وہ ایسی کئی لڑکیوں کی تصویریں بنا کر مجھے بیچ چکا ہے اور ان لڑکیوں سے وہ بالکل اسی طرح محبت کا کھیل رچا چکا ہے جیسے آپ سے رچا رہا ہے۔ وہ ایک تخلیق کار ہے، اسے اپنے برش اور رنگوں کے لئے نئے چہرے ہر وقت درکار رہتے ہیں۔ کامران کی بات سن کر شازیہ کو غصہ آ گیا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کی طرف چلی گئی۔ کامران کو یقین تھا کہ شازیہ ہر صورت اس کی گیلری میں پہنچے گی۔ اس لئے وہ وارث کے گھر کے پاس ایک دکاندار کے پاس بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگا۔ شازیہ کے دل میں کامران کی باتیں بیٹھ گئی تھیں۔ وہ مضطرب ہو گئی تھی اور حقیقت جاننے کے لئے بے چین تھی۔ چنانچہ اس نے اپنی ممانی سے بہانہ کیا اور گھر سے باہر نکل آئی۔ جیسے ہی وہ وارث کے گھر کے پاس پہنچی، کامران نے دیکھ لیا اور دل ہی دل میں مسکرایا۔ شازیہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلی گئی۔ وارث ایک تصویر پر کام کر رہا تھا۔ شازیہ کو دیکھتے ہی اس نے کام چھوڑ دیا اور بولا۔ میں آپ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔ شازیہ متلاشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی۔ میں اس طرف آئی تھی تو میں نے سوچا کہ آپ سے ملتی چلوں۔آپ نے بہت اچھا کیا ہے ۔ آجائیں بیٹھ جائیں۔ میری تصویر نظر نہیں آرہی۔ وہ میرے دل میں قید ہے ۔ وارث بلا تامل بولا۔ وہ تو ہے۔ لیکن وہ تصویر کہاں ہے جو آپ نے بنائی تھی۔ شاز بی ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔ اس سے پہلے کہ وارث کوئی جواب دیتا، سیڑھیوں میں کھڑا کامران جوان کی باتیں سن رہا تھا، یکدم اندر آ گیا اور اندر آتے ہی وہ خوشی سے نہال ہو کر بولا ۔ ارے کمال ہو گیا۔ میں نے صرف ایک آدمی کو وہ تصویر دکھائی اور اس نے مجھے اس جیسی پچاس تصویروں کا آرڈر دے دیا اور ایڈوانس میں پیسے بھی دے دیئے، اور تو اور مجھے اس میں جو نفع ہوا ہے… کیا بتائوں۔ بس اب تم سارے کام چھوڑ کر اس جیسی پچاس تصویریں بنانا شروع کر دو۔ اچانک کامران نے بولتے بولتے شازیہ کی طرف دیکھا جو ایک طرف گم صم کھڑی تھی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ کامران اس کی تصویر کی بات کر رہا ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ وارث سے اس کی ایک اور تصویر لے کر گیا تھا۔ وہ اس وقت اس تصویر کے بارے میں بات کر رہا تھا لیکن اس انداز میں کہ شازیہ کو شک ہو جائے کہ وہ اس کی تصویر کی بات کر رہا ہے۔ کامران کے کہنے پر ہی وارث نے شازیہ کی تصویر اس جگہ سے ہٹا کر اپنے بیڈ روم میں رکھی تھی۔ کامران کامیاب ہو گیا تھا اور شازیہ غلط فہمی کا شکار ہو گئی تھی۔ وہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی تھی۔ اس نے اپنی آنکھوں میں آئے آنسو بمشکل رو کے تھے۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ کامران ٹھیک کہتا ہے کہ وہ ہر خوبصورت چہرے کو اپنی باتوں کی گرفت میں لے کر اس کی تصویر بناتا ہے اور پیسہ کماتا ہے۔ شازیہ اپنے گھر چلی گئی اور کمرے میں بند ہو گئی۔
☆☆☆

دوسرے دن کامران اس راستے پر پہلے ہی کھڑا تھا جہاں سے شازیہ کا گزر ہوتا تھا۔ اس نے شازیہ کو ایک طرف لے جا کر کہا۔ یقین آ گیا آپ کو۔ دراصل میں نے آپ پر یہ حقیقت اس لئے کھولی تھی تا کہ آپ کسی غلط فہمی میں رہ کر وارث کے خواب دیکھتے ہوئے اتنی سنجیدہ نہ ہو جائیں کہ آپ کو بعد میں شدید ذہنی کوفت سے گزرنا پڑے۔ مجھے اسکول سے دیر ہو رہی ہے ۔ شازیہ کا دل رنجیدہ تھا۔ وہ جانا چاہتی تھی۔ کامران بات کرنا چاہتا تھا لیکن شازیہ چلی گئی اور کامران اس کے گھر پہنچ گیا، کیونکہ اس نے اس کے بارے میں سب کچھ جان لیا تھا کہ وہ کہاں رہتی ہے اور اس کی ممانی کا رویہ اس کے ساتھ کیسا ہے۔ شازیہ کے بارے میں یہ سب جانتا اس لئے آسان ہو گیا تھا کہ جس اسکول میں شازیہ پڑھاتی تھی وہاں ایک کلرک اس کا جاننے والا تھا۔ شازیہ کی ممانی نے دروازہ کھولا تو وہ ایک اجنبی کو دروازے پر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ کامران نے اندر آنے کی اجازت مانگی اور ممانی بادل ناخواستہ اسے اندر لے آئی۔ چرب زبان اور شاطر کامران نے باتوں کی ایسی کھچڑی پکائی کہ ممانی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور مزید ایک پرانا تعلق بھی دونوں کے پیچ پل بن گیا اور یوں کامران نے ممانی کو سبز باغ دکھا کر شازیہ کارشتہ مانگ لیا۔ ممانی کو پہلے ہی شازیہ بوجھ لگ رہی تھی، اوپر سے کامران نے گھر کی حالت دیکھتے ہوئے اس کی مرمت کا ذمہ اپنے اوپر لے لیا۔ بس پھر کیا تھا کہ ممانی نے کامران کے گن گانے شروع کر دیئے۔ اس نے شازیہ کے ماموں سے اس طرح بات کی کہ کامران اس کا دور کا رشتے دار ہے۔ ماموں بے چارہ پہلے ہی ممانی کے سامنے بے بس تھا۔ یوں ممانی نے خود ہی شازیہ سے بات کئے بغیر اس کارشتہ کامران سے طے کر دیا۔ وارث کے دل میں یہ بات کئی دنوں سے تھی کہ شازیہ نے اچانک اس کے پاس آنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ ایک دن وہ اس کے اسکول پہنچ گیا۔ جیسے ہی چھٹی کے بعد شازیہ اسکول سے باہر نکلی، وارث نے اس کے پاس جا کر اسے اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھنے کو کہا۔ شازیہ نے اس موقع پر کوئی ایسی بات کرنا مناسب نہ سمجھا۔ کیونکہ آس پاس لوگ کھڑے تھے، اس کے انکار اور وارث کے اصرار پر سب مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگتے۔ چنانچہ وہ چپ چاپ موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی۔ وارث نے کچھ دور جا کر ایک مناسب جگہ پر موٹر سائیکل روکی اور اس کی بے رخی کے بارے میں پوچھا تو شازیہ نے بغیر کسی تامل کے فوراً اپنے دل کی بات وارث کو بتادی۔ کامران سے ہونے والی ساری باتیں بتانے کے بعد یہ بھی کہا کہ تم نے میری تصویر اچھے معاوضے پر کامران کو بیچ دی ہے۔ وارث نے سنا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ کامران نے ایسا کہا۔ جبکہ تمہاری تصویر میرے بیڈ روم میں موجود ہے اور وہ جس تصویر کی بات کر رہا تھا، وہ کوئی اور تھی۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ میں تمہاری تصویر کسی کو بیچوں ، مجھے اس کے بدلے میں ہیرے ہی کیوں نہ ملیں۔ وارث کی بات سن کر شازیہ نے کہا۔ تو پھر اس نے ایسا کیوں کہا۔ میں اس سے پوچھوں گا۔ نہیں ، تم اس سے کوئی بات نہیں کرو گے ۔ اس سے میں بات کروں گی ۔ شازیہ بولی۔ اس کے دل و دماغ پر چھائے شک کے بادل چھٹنے لگے تھے۔ شازیہ گھر پہنچی تو وہاں کامران بیٹھا ہوا تھا۔ اپنے گھر میں کامران کو دیکھ کر وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ ممانی فوراً اس کی طرف لیکی ۔ یہ کامران ہے، میر ادور کا رشتے دار ۔ جلدی سے کپڑے بدل کر آ جائو۔ کیوں ؟ کیونکہ ہم نے تمہارا رشتہ اس کے ساتھ طے کر دیا ہے ۔ ممانی نے بتایا۔ شازیہ نے سنا تو ساری بات اس کی سمجھ میں آ گئی کہ کامران نے وہ کھیل کیوں کھیلا تھا۔ اگر ابھی اس کی ملاقات وارث سے نہ ہوئی ہوتی تو شاید وہ اس رشتے کے لئے ہاں کر دیتی۔ شازیہ غصے سے اس کی طرف بڑھی اور بولی۔ میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔ اس کے ساتھ میرا رشتہ طے کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں۔ بکواس بند کرو اور اندر جا کر تیار ہو کر آ جائو ۔ ممانی اس کو گھسیٹ کر لے جاتے ہوئے بولی۔ شازیہ نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو ممانی سے چھڑایا اور کامران کے پاس آ کر کہا۔ آپ یہاں سے جاسکتے ہیں۔ میں وارث سے شادی کر رہی ہوں۔ کون وارث ؟ تم کسی وارث کی بات کر رہی ہو ؟ ارے تم اسکول پڑھانے جاتی تھیں کہ پیار محبت رچانے۔ میں پہلے ہی کہتی تھی کہ تم گھر سے باہر نکلو گی تو آوارہ ہو جائو گی ۔ ممانی چلانے لگی۔ ممانی۔ شازیہ نے اپنی ممانی کی طرف دیکھ کر غصے سے کہا۔ بولتے ہوئے سوچ لیا کریں۔ اسے بولیں کہ یہ یہاں سے فوراً چلا جائے۔ میں ابھی وارث سے مل کر آرہی ہوں۔ تم جھوٹے انسان ہو… فریبی ہو۔ کامران یہ سن کر غصے میں لال پیلا ہو گیا۔ وہ ایک دم اٹھا اور گھر سے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد ممانی اور شازیہ کے در میان نه ختم ہونے والی تکرار شروع ہو چکی تھی۔
☆☆☆

کامران کے لئے یہ بات نا قابل برداشت تھی کہ شازیہ جیسی خوبصورت لڑکی وارث کی زندگی کا حصہ بن جائے۔ اس نے دوسرے دن اس وقت شازیہ کے منہ پر تیزاب پھینک دیا جب وہ اسکول جارہی تھی۔ شازیہ کی چیخیں نکل گئی تھیں۔ لوگ ان کی طرف بڑھے۔ کامران سے موٹر سائیکل اسٹارٹ نہیں ہو رہی تھی کیونکہ اس گھبراہٹ میں وہ چابی لگانا بھول گیا تھا۔ لوگ اس کی طرف دوڑتے آرہے تھے۔ کامران کو موٹر سائیکل چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ لوگوں نے اس کا تعاقب کیا لیکن کامران فرار ہو جانے میں کامیاب ہو گیا۔ شازیہ کی حالت خطرے میں تھی۔ وارث کو پتا چل گیا تھا۔ اتفاق سے اس وقت چائے والا وہاں سے گزر رہا تھا۔ وہ شازیہ کو کئی بار وارث کی گیلری میں جاتے ہوئے دیکھ چکا تھا اور کئی بار وہ ان دونوں کے لئے چائے بھی لے کر گیا تھا۔ اس نے جا کر جب وارث کو بتایا تو وارث پاگلوں کی طرح سرکاری اسپتال پہنچا، وہاں شازیہ نام کی لڑکی موجود نہیں تھی، وہ دوسرے سرکاری اسپتال پہنچا۔ وہاں شازیہ موجود تھی۔ وہ موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھی اور پھر وہ مر گئی۔ وارث روتا ہوا اسپتال سے کامران کی تلاش میں نکا لیکن کامران دبئی فرار ہو چکا تھا۔ یہ بات اسے دوسرے دن کامران کے ایک دوست نے بتائی تھی۔ اسے یہ نہیں پتا تھا کہ کامران نے کیا جرم کیا ہے۔ وارث نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ کامران کو موت کے گھاٹ اتار کر ہی دم لے گا۔ کوئی ایسا لمحہ نہیں تھا جب وارث نے شازیہ کو یاد نہ کیا ہو اور اس غم میں وہ کینسر کا مریض بن گیا تھا اور اس کی تشخیص بھی تب ہوئی تھی جب اس کے پاس وقت نہیں بچا تھا اور اسی دوست کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنے کے بعد وارث کو پتا چلا تھا کہ کل کامران واپس آ رہا ہے۔ کامران کا اپنے اس دوست کے ساتھ مسلسل رابطہ تھا۔ کامران نے اپنے ایک دوسرے دوست کی مدد سے پتا کرا لیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی مقدمہ تو درج نہیں ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہونے اور اس معاملے کو آٹھ سال گزرنے کے بعد اس نے واپس آنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس واپسی کا وارث کو علم ہو چکا تھا۔
☆☆☆

وارث نے اچانک اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اسے لگا جیسے اس کے آس پاس شازیہ ہے۔ اس نے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا تو اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اسے اس بات کا غم تھا کہ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ جانے کب وہ زندگی کی بازی ہار جائے اور کامران کل کسی وقت پہنچ رہا تھا۔ ابھی کئی گھنٹے پڑے تھے۔ ان گھنٹوں میں وہ اپنا عہد پورا کر سکتا ہے کہ نہیں … موت اس کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ اسے پتا نہیں تھا اور وہ یہ سوچ کر مزید غمگیں ہو گیا تھا۔ وہ ہر حال میں اپنا عہد نبھانا چاہتا تھا۔ کامران کو مارنا چاہتا تھا لیکن نہیں جانتا تھا کہ وہ ایسا کر بھی سکے گا یا نہیں۔ اچانک وارث کو کھانسی آنے لگی۔ کھانسی میں شدت آ گئی اور کھانستے کھانستے وہ فرش پر گر گیا۔ کچھ دیر کے بعد کھانسی رک گئی۔ وہ لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم میں جان نہیں رہی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کامران سے انتقام لینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ وہ اس کے آنے سے پہلے مر جائے گا۔ وہ اٹھنا چاہتا تھا لیکن اٹھ نہیں سکا۔ اس نے اٹھنے کے لئے اپنے جسم کو جھٹکا دینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور وہ ساکت لیٹا رہا۔ اس غم نے اسے شدت سے گھیر لیا تھا کہ وہ کامران کو اپنے ہاتھوں سے نہیں مار سکے گا۔ وہ اس سے انتقام لینے سے پہلے خود مر رہا تھا۔ یہ غم اسے موت سے بھی زیادہ اذیت ناک محسوس ہو رہا تھا۔ صبح کا سورج طلوع ہو گیا تھا۔ دن کا اجالا رفتہ رفتہ پھیلنے لگا تھا۔ وارث ناچار اسی طرح فرش پر پڑا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ اس کے چہرے پر کرب تھا۔ شازیہ کا انتقام نہ لینے کا تاسف اس کے چہرے سے عیاں تھا۔ اس کے ہونٹ تھر تھرائے اور وہ شکستہ دل سے بولا۔ شازیہ میں تمہارا انتقام نہیں لے سکا۔ میں کامران کو بھی تڑپا کر مارنا چاہتا تھا لیکن بیماری نے مجھے مہلت نہیں دی۔ اچانک دروازہ آہستہ سے کھلا۔ آواز سن کر اس نے اپنی آنکھیں گھما کر دروازے کی طرف دیکھا۔ چمکتے ہوئے جو توں پر نظر پڑی تو اس نے سوچا کون ہے؟ پھر وہ قدم اس کی طرف بڑھے۔ وہ اس کے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ وارث نے آنکھیں اوپر اٹھا کر دیکھا اور پھر جیسے ہی اس کی نظر آنے والے کے چہرے پر پڑی وہ حیران نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔ آنے والا کامران تھا۔ اس کے چہرے پر مکار مسکراہٹ تھی اور اس کی شکل پر پھٹکار برس رہی تھی۔ کامران اس پر جھکا اور بولا ۔ دیکھو میں سیدھا تمہارے پاس آیا ہوں۔ آٹھ سال سے تم میرے انتظار میں ہو اور میرے دوست سے اکثر باتوں باتوں میں پوچھتے رہے ہو کہ میں کب آ رہا ہوں۔ تم نے بھی اس پر یہ ظاہر نہیں کیا کہ تمہارا میرے ساتھ کیسا تعلق تھا۔ تم نے اس کو بس اتنا بتایا تھا کہ میں تمہاری گیلری میں چند بار آیا تھا لیکن وہ میرا دوست تم سے ہونے والی ہر ملاقات میں مجھے بتاتا تھا کیونکہ میں نے اسے سب کچھ بتا دیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ تم میرا انتظار کر رہے ہو۔ شاید مجھ سے شازیہ کا انتقام لینا چاہتے ہو… لو میں آ گیا ہوں۔ اگر انتقام لینا چاہتے ہو تو میں تمہارے سامنے ہوں۔ وارث بے بسی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ اپنے اندر ہمت اور طاقت جمع کرتا رہا کہ کسی طرح اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا گلا پکڑ کر دبا دے لیکن وہ کچھ نہیں کر سکا، بس بے بسی سے دیکھتا رہا۔ کامران پھر بولا۔ میرے دوست نے بتایا تھا کہ تم کینسر کے مریض ہو اور موت کے بہت قریب پہنچ چکے ہو۔ دراصل جس میڈیکل اسٹور سے تم دوائیں لے رہے تھے، اتفاق سے وہ بھی وہاں موجود تھا۔ تمہارے جانے کے بعد میرے دوست نے میڈیکل اسٹور والے سے پوچھا کہ یہ کس بیماری کی دوائیں لے کر گیا ہے۔ کامران یہ کہہ کر فاتح انداز میں مسکرایا۔ پھر یکدم کامران دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ اس کی نظر وارث کی رپورٹس پر پڑی تو اس نے وہ کاغذات اٹھا کر پڑھے اور ان کا غذات کو ایک طرف رکھ کر زور سے ہنسا۔ ارے تم تو موت کے منہ میں ہو۔ تم مر رہے ہو۔ تم کیا خاک مجھ سے انتقام لو گے ۔ کامران پاگلوں کی طرح ہنسنے لگا۔ پھر کا غذات اچھال کر اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ میں نے اپنے دوست کے ذریعے پتا کرایا تھا کہ کسی تھانے میں میرے خلاف کوئی مقدمہ تو درج نہیں۔ تسلی ہونے پر واپس آیا ہوں اور تمہارے پاس سیدھا اس لئے آیا تھا، یقینا تمہارے دل میں مجھ سے انتقام لینے کی آگ ضرور بھڑک رہی ہو گی۔ مجھے پتا چل چکا تھا کہ تم کینسر کے مریض ہو، اس لئے تمہارے پاس آ گیا کہ تم میرا کیا بگاڑ لو گے۔ تم بے بس اور لاچار پڑے ہوئے ہو۔ مجھ سے انتقام کیا لو گے۔ تم مر رہے ہو اور میں زندہ رہوں گا۔ کامران نے نفرت سے کہا اور باہر چلا گیا۔ وارث اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ اس کا دل پھٹ رہا تھا۔ اپنی بے بسی پر رونا آنے لگا تھا۔ اچانک ایک بار پھر دروازہ کھلا۔ اس بار کون اندر آیا وہ نہیں جان سکا کیونکہ اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔
☆☆☆

وارث کو نیم بے ہوشی میں احساس ہوا تھا کہ کسی نے اسے پکارا تھا اور پھر اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے اٹھایا تھا۔ وارث کو کچھ ہوش آیا تو اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ اس نے کوشش کر کے دائیں بائیں دیکھا۔ وہ اسپتال تھا اور اسے یہاں تک چائے والا لے کر آیا تھا۔ وہ اس وقت اسٹریچر پر تھا اور وہ خود بھاگ کر استقبالیہ کی طرف گیا تھا۔ وارث کو پھر کامران یاد آ گیا اور شازیہ کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا تھا۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ ایک اسٹریچر اس کے برابر میں رکھا ہے۔ وارث نے پوری کوشش کر کے اپنی آنکھیں کھولیں اور وہ یہ دیکھنے میں کامیاب ہو گیا کہ اس کے برابر میں آنے والے اسٹریچر پر کامران لیٹا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور جسم ساکت تھا۔ اچانک اسے چائے والے کی آواز سنائی دی۔ وہ اس طرف آتے ہی بولا تھا۔ ارے یہ تو بائو کامران ہے۔ اسے کیا ہوا۔ کون لایا ہے اسے ؟ ہم لائے ہیں۔ ایک مانوس سی آواز وارث کے کان میں پڑی۔ یہ وارث کے گھر کی سیڑھیاں اتر کر سیدھا میری دکان پر آیا اور سگریٹ مانگی۔ میں نے سگریٹ دی تو یہ اچانک منہ کے بل نیچے گر گیا۔ کھڑے کھڑے اس کا دل بند ہو گیا۔ وارث نے سنا تو اس کی آنکھیں بند ہونا شروع ہو گئیں۔ چہرے پر اطمینان آ گیا۔ اسے یوں لگا جیسے کوئی کہہ رہا ہو۔ اللہ کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ وہ قادر مطلق ہے۔

Latest Posts

Related POSTS