Thursday, February 13, 2025

Allah ki Raza

شادی کے ایک سال بعد اللہ کے فضل سے میری گود ہری ہو گئی۔ سب دن رات دعائیں مانگتے کہ اللہ پاک ، ریاض کو بیٹا دے۔ اُن کی دعاؤں پر میرا دل کانپ جاتا کہ ان کی آرزوؤں پر پانی پھر گیا تو اس گھر میں میری قدر نہ رہے گی۔ ایک دن میری سہیلی ملنے آئی ، وہ ایک اسپتال میں نرس تھی۔ اس سے پریشانی بیان کی، تو وہ کہنے لگی۔ تم فکر نہ کرو، ہمارے لیبر روم میں دو تین خواتین کو ایک ساتھ لاتے ہیں۔ تم اسپتال میں نام لکھوا لو۔ جب تمہاری باری آئے گی، میں وہاں موجود رہوں گی اور تمہاری مدد کروں گی۔ میں نے ایسا ہی کیا اور جب پیدائش کا مرحلہ طے ہوا تو اس نے ننامنا بچہ میرے پہلو میں لا کر لٹا دیا۔ اس روز کسی وجہ سے ڈاکٹر دیر سے آئی تھی اور رات کے ایک بجے میں نے بچے کو جنم دیا تھا۔ پروین بڑی تجربہ کار تھی، اس نے میرے علاوہ ایک اور خاتون کی بھی ڈلیوری کرائی تھی۔ اس کے پہلے سے چار بیٹے تھے اور جب پانچویں بیٹے کو جنم دیا تو پروین نے اسے کہا کہ مبارک ہو، تمہاری بیٹی پیدا ہوئی ہے، پھر بڑی پھرتی سے اس کا بیٹا میرے پہلو میں لٹا کر میری بچی اس کے ساتھ لٹا دی۔

میں بہت خوش تھی۔ ہمارا شمار گاؤں کے چند گنے چنے امیر گھرانوں میں ہوتا تھا، اس لئے میں نے پروین سے کہا تھا کہ اگر تیرے ہاتھوں سے مجھے بیٹا ملا، تو میں تجھے سونے کے کنگن پہناؤں گی اور یہ منت بھی دل میں مان لی تھی کہ اپنے بیٹے کو حافظ قرآن بناؤں گی۔ یوں میں کسی اور کا لخت جگر لے کر گھر آگئی۔ سب خوش تھے کہ خدا نے ہمیں اولاد نرینہ سے نوازا ہے۔ خاندان کا نام لیوا پیدا ہوا ہے۔ بڑے چاؤ سے بچے کی پرورش ہونے لگی۔ میری ساس نے بچے کا نام محمد فیاض رکھا۔ جب وہ چار برس کا ہوا، تو میں نے اپنے خاوند سے کہا کہ میں بیٹے کو حافظ بنانا چاہتی ہوں۔ وہ دین سے بہت لگاؤ رکھتے تھے ، اس لئے میری خواہش پر فیاض کو حفظ کرنے کے لئے بٹھا دیا۔ ہم فیاض کوفجر کی نماز سے قبل بیدار کرتے۔ وہ گھنٹہ دو گھنٹہ مولانا صاحب سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرتا، پھر اسکول چلا جاتا۔ میرا بیٹا بہت ذہین اور بلا کا حافظہ تھا۔ جب اس نے پانچویں جماعت پاس کر لی تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کیونکہ اس نے اسکول بھر میں اول پوزیشن لی تھی۔ فیاض کے ابو نے کہا۔ یہ اس قدر ذہین ہے، میں اسے شہر کے بہترین تعلیمی ادارے میں داخل کرادوں گا تا کہ یہ ڈاکٹر یا انجینئر بن جائے۔ اس بات سے میں پریشان تھی کیونکہ شہر میں ہاسٹل کی سہولت تو تھی لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ فیاض کلام پاک حفظ کر رہا تھا۔ اگر ہم اسے شہر کے ہاسٹل میں داخل کراتے، تو اس کی دینی تعلیم نا مکمل رہ جاتی۔ میں نے خاوند سے کہا کہ پہلے کلام پاک حفظ ہو جانے دو، بعد میں اسے اسکول میں داخل کروادیں گے۔ وہ بولے۔ یہ ممکن نہیں، کیونکہ دو سال بعد اس کی عمر نکل جائے گی، پھر اسے چھٹی جماعت میں داخلہ دلوانا مشکل ہو گا۔ میں اسے اس سال چھٹی جماعت میں داخل کرواؤں گا۔ عرض وہ نہ مانے اور فیاض کوقریبی شہر کے اسکول میں داخل کر آئے اور ساتھ ہی ہاسٹل میں بھی داخلہ دلوا دیا۔ اب اسے ہر وقت اسکول کی فکر لگی رہتی ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قر آن پاک کی طرف اس کی رغبت ختم ہو گئی اور وہ شہر کی رونقوں میں کھو گیا۔ قر آن پاک دہرانے کی نوبت نہیں آئی تو وہ حفظ شدہ کلام پاک بھولنے لگا، جس کا مجھے بڑا قلق تھا، مگر کیا کرتی مجبور تھی۔ جب فیاض نویں میں گیا تو میرے خاوند خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے کیونکہ یہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے میں نے تین لڑکیوں کو جنم دیا تھا۔ نویں میں گئے ابھی فیاض کو چودہ پندرہ دن ہوئے تھے کہ ایک روز اسکول سے چھٹی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ بس چل پڑی ہے۔ اس نے سوچا اگر میں دوڑ کر سڑک پار کر لوں تو بس پر سوار ہو جاؤں گا، ورنہ پیدل جاتا ہو گا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بس کی طرف دوڑ لگادی۔ وہ بھاگتا ہو ابسوں کے درمیان سے گزرا تو اچانک پہلو سے ایک تیز رفتار بس آگئی۔ اس کے بعد اسے کچھ پتا نہیں کیا ہوا۔ ہوش آیا تو خود کو پٹیوں میں لپٹا پایا۔ راہ گیروں نے اٹھا کر قریبی اسپتال پہنچ یا تھا۔ اس وقت تک ہمیں اطلاع نہ ہو سکی تھی۔ ڈاکٹر نے لاوارث جان کر ٹانگوں سے جو گوشت ادھڑ گیا تھا، اسے کھینچ کھانچ کر ٹانکے لگا دیئے جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ ایک دن میں ٹانگ کالی سیاہ ہو گئی۔ اس دوران بچے کی شناخت بھی ہو گئی۔

ہمیں اطلاع ملی تو ہم بھاگم بھاگ پہنچے۔ ڈاکٹروں نے میرے خاوند کو ہدایت کی کہ اسے فوراً لاہور کے بڑے اسپتال لے جاؤ۔ میری ساس شدید بیمار تھیں، اس لئے فیاض کے ابو نے کہا کہ صبح لے کر جائیں گے، لیکن دوسرے دن تک دونوں ٹانگیں پھول چکی تھیں اور زخموں سے بدبو آرہی تھی، تبھی وہ بیٹے کو فور لاہور لے گئے، جہاں ایک ماہر ڈاکٹر کی بھر پور توجہ سے میرے بیٹے کی جان بچ گئی، تاہم چھ ماہ ہمیں اسپتال میں رہنا پڑا۔ فیاض گھر آگیا مگر وہ ابھی چلنے کے قابل نہ تھا۔ علاج کے لئے اب بھی ہمیں ہر ہفتے شہر جانا پڑتا تھا۔ بہر حال رفته رفته زخم پوری طرح بھر گیااور وہ ٹھیک ہو گیا، لیکن اسے سر پر بھی چوٹیں آئی تو تھیں، جس کی وجہ سے اس کا ذہن پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ اب اس کو معمولی باتیں بھی دیر اور مشکل سے سمجھ میں آتی تھیں۔ دو سال بعد اس کو کم سنائی دینے لگا اور مزید ایک سال بعد حالت ایسی ہو گئی کہ اگر کوئی کان کے ساتھ منہ لگا کر پورے زور سے بھی بولے تو معمولی آواز سنائی دیتی تھی۔ مجھے رہ رہ کر خیال آتا کہ میں نے جو منت مانی تھی کہ اسے حافظ قرآن بناؤں گی اور وہ پوری نہیں کر سکی تھی، شاید اسی وجہ سے میرے بیٹے کے ساتھ یہ حادثہ ہوا ہے۔ پس میں نے اصرار شروع کر دیا کہ فیاض کو دوبارہ مولانا صاحب کے پاس بٹھانا ہے۔ یہ اسکول نہیں جا سکتا تو قر آن پاک حفظ کرلے۔ میرے میاں اسے دوبارہ سے قر آن پاک حفظ کرانے پر تیار ہو گئے اور ہم نے فیاض کو مولوی صاحب کے پاس بٹھا دیا ، مگر شاید خدا کو یہ منظور نہ تھا۔ وہ ایک آیت بھی یاد نہ کر سکا بلکہ چند دنوں میں اس کی قوت سماعت بالکل ختم ہو گئی۔ اب ہم اس کی طرف سے کلی طور پر مایوس ہو گئے۔ اس کی صورت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ میں رو رو کر دعا کرتی ، اے اللہ ! ہماری مشکل آسان کر اور میرے بیٹے کو صحت کامل عطا فرما۔ خیال آتا تھا کہ اللہ پاک نے مجھے بیٹی دی تھی اور میں نے کسی اور عورت کا لخت جگر دھوکے سے ہتھیا کر اس کی گود میں بیٹی دے دی۔ بیٹا حاصل کر کے بھی ہمیں سخت اذیت اور پریشانی کے سوا کچھ نہ ملا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر میرے خاوند نے بیٹے کو ایک ٹیلر ماسٹر کے پاس بٹھا دیا کیونکہ زندہ رہنے کے لئے اسے کوئی نہ کوئی کام تو کرنا تھا۔ وہ بھی فارغ رہنے سے پریشان رہتا تھا۔ میرا بیٹا، جس قدر مقدور ہوا، دل لگا کر کام کرنے لگا اور دو ماہ میں خاصا کام سیکھ گیا۔ ہم نے اسے دکان لے دی، دو کاریگر رکھ دیئے تا کہ وہ ٹیلر ماسٹر کہلائے لیکن سر کی چوٹ نے رفتہ رفتہ اثر دکھانا تھا۔ وہ گونگا نہیں تھا ، لیکن گونگوں سے بدتر تھا کیونکہ اسے تو اشاروں میں بھی باتیں کرنا نہیں آتی تھیں۔ شکر ہے ، وہ آٹھ جماعتیں پڑھ چکا تھا۔ کوئی خاص بات ہوتی تو وہ ہمیں لکھ کر بتاتا اور ہم بھی اس سے لکھ کر باتیں کرتے۔ بچپن کے دوست اس سے دوستی چھوڑ چکے تھے۔ غیر تو غیر ہوتے ہیں، اب تو اپنے بھی اس سے کنی کترا جاتے اور اشاروں میں چند باتیں سمجھا کر گویا احسان عظیم کرتے تھے۔ اس کی ایک ٹانگ مڑتی نہیں تھی، اس لئے چلتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ گویا بندر اچھل رہا ہو۔

زہرہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ وہ میرے بیٹے سے ہمدردی کرتی تھی۔ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ اپنے کپڑے سلوانے فیاض کی دکان پر جانے لگی۔ کہتے ہیں کہ محبت کی نہیں جاتی ، ہو جاتی ہے۔ بس میرے نادان بیٹے نے اس حسینہ کے لئے تڑپنا شروع کر دیا۔ اس کے گھر کے چکر لگاتا۔ میں دعا کرتی ، اے خدا! اس کے دل سے زہرہ کی محبت نکال دے کیونکہ اب میں مزید دکھ اور اس کی رسوائی برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتی تھی۔ میں نے لکھ لکھ کر فیاض کو سمجھایا کہ تم زہرہ سے پیار و محبت کے لائق نہیں ہو۔ یہ رشتہ ہمیں کبھی بھی نہیں مل سکتا۔ تم اس سے شادی کا خیال دل سے نکال دو، مگر وہ سمجھتا ہی نہیں تھا اور مجھے تنگ کرتا کہ اس کے والدین سے زہرہ کا رشتہ مانگو۔ مجھے خبر تھی، یہ ممکن نہیں ، پھر بھی اس کی تسلی کے لئے زہرہ کے گھر گئی۔ اسے کہا۔ بیٹی ! انسان اچھا ہو یا برا، ادھورا ، لولا لنگڑا ہو مگر خدانے ہر انسان کا دل ایک جیسا بنایا ہے اور ہر دل میں کسی کے لئے محبت رکھی ہے۔ اللہ نے میرے بیٹے کے دل میں بھی محبت کا جذبہ رکھا ہے۔ بہتر ہے کہ تم اس کی دکان پر کپڑے سلوانے مت جایا کرو، ورنہ وہ زیادہ پریشان ہو گا۔ اس پر ترس کھاؤ اور اس سے دور رہو۔ وہ ایک دکھی اور معذور انسان ہے۔ ایسا نہ ہو کہ جذبات میں آکر کسی دن اپنی جان سے چلا جائے۔ تب زہرہ بولی۔ خالہ جان میں سمجھی نہیں کہ آپ کیا کہنا چاہتی ہیں ؟ میں نے صاف لفظوں میں کہا۔ بیٹی ! میرا بیٹا تم سے شادی کی آرزور کھتا ہے اور روز مجھے کہتا ہے کہ میں تمہارے والدین کے پاس جا کر رشته طلب کروں، اب تم بتاؤ میں کیا کروں ؟ زہرہ کو ایک جھٹکا لگا پھر خود کو تابو پا کر وہ کہنے لگی۔ خالہ جان ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ کسی کو پسند کرے یا شادی کی تمنا کرے، لیکن شادی بھی مخصوص حالات میں ممکن ہوتی ہے۔ آپ اسے سمجھائیے کہ یہ ممکن نہیں۔ میں شادی کے لئے اسے منتخب نہیں کر سکتی، یہ میری مجبوری ہے۔ یہ بات تو میں نے بہت بار سمجھائی ہے۔ مگر وہ سمجھتا ہی نہیں اور رونے لگتا ہے۔ یہ سن کر زہرہ پریشان ہو گئی اور کہنے لگی۔ خالہ جان ! میں خود اسے سمجھا دوں گی۔ اگلے روز وہ فیاض کی دکان پر گئی اور باتوں باتوں میں اس سے کہا۔ فیاض ! میں تمہاری بہت قدر اور عزت کرتی ہوں۔ میرا کوئی بھائی نہیں ہے، اس لئے میں تم کو دل سے اپنا بھائی سمجھتی ہوں ، پھر اس نے اپنی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی دکھائی اور کہا۔ میری منگنی بچپن میں چچا زاد سے ہو گئی تھی جو انگلینڈ میں ہے۔ وہ جلد آنے والا ہے۔ اس کے ساتھ شادی کے بعد انگلینڈ چلی جاؤں گی، لیکن میں چاہتی ہوں کہ تم میری شادی کے کپڑے سیو، مجھے تمہاری سلائی بہت پسند ہے۔ وہ آنکھیں جھکائے بولے جارہی تھی اور جب اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو دھک سے رہ گئی۔ فیاض کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی اور اس کا چہرہ ایسے زرد ہو گیا تھا جیسے گیندے کا پھول۔ وہ پریشان ہو کر میرے گھر آگئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے دکان پر فیاض سے بات کی تھی، تو اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ دکان سے کاریگر لڑکا دوڑا آیا اور کہنے لگا کہ جلدی چلیے ، فیاض بھائی کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ ہم دکان پر پہنچے تو لوگ اسے اسپتال لے جارہے تھے کیونکہ اس کی ناک سے خون نکل رہا تھا۔ خدا جانے وہ پہلے سے بیمار تھا یا زہرہ کی باتوں کا اثر لیا تھا ، بہر حال اسے اسپتال لے گئے۔ کچھ روز سے اس نے دوا بھی نہیں کھائی تھی۔ یوں میرا بیٹا ایک دن اچانک ہم سے دور چلا گیا۔ خدا نے اس کو اتنی ہی زندگی دی تھی۔ ہماری دعائیں بھی کام نہیں آ سکیں۔

آج پروین نرس کے بقول، تمہاری بیٹی بہت اچھے لوگوں میں پھل پھول رہی ہے اور عیش کر رہی ہے۔ اس کی شادی ایک امیر گھرانے میں طے ہو گئی ہے اور وہ امریکا جانے والی ہے اور ادھر فیاض اپنا جیون ہار چکا ہے۔ اس تجربے سے گزرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہمیں اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے، کبھی فطری کاموں میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ جو وہ کرتا ہے، بہتر کرتا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS