Monday, January 13, 2025

Allah Wali Gulabo

گلابو ایک مسکین صورت بچی تھی۔ اس کی رنگت گلاب جیسی تهی . اکلوتی ہونے کی وجہ سے ، گھر میں اکیلی کھلونوں سے کھیلتی رہتی ۔ ذرا بڑی ہوئی تو اداس رہنے لگی کیونکہ اس کے ساتھ کوئی کھیلنے والا نہ تھا ، پھر وہ آس پڑوس کے گھروں میں، دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے جانے لگی وہ اکثر ہمارے گھر بھی آ جاتی تھی۔ بچپن کیسے گزرا ؟ اس کا تو شعور نہیں ، لیکن جب وہ سات برس کی ہوئی تو محلے میں اللہ والی بچی مشہور ہو گئی۔ جانے کیوں سب لوگ اسے اللہ والی کہتے شاید مسکین صورت ، صابر و شاکر اور خاموش طبع لڑکی تھی شرارتیں نہیں کرتی تھی۔ اسی وجہ سے ایک پڑوسن نے اسے اللہ والی“ کہہ کر بلایا تو سب نے اسی طرح پکارنا شروع کردیا، تاہم اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ لوگ کیوں اسے اللہ والی کہہ کر بلاتے ہیں ۔ ایک دن اس کی ماں نے گلابو کے بالوں میں تیل لگاکر کنگا کیا اور چوٹی کردی تو اسے خیال آیا کہ آئینے میں اپنی صورت دیکھوں۔ خالہ نسیم اتنا کس کر چوٹی کرتیں تھیں کہ اس کا سر دکھنے لگ جاتا۔ اس نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو اس میں اسے کچھ نظر نہ آیا۔ وہ پریشان ہوگئی اور شیشے کو دوپٹے سے صاف کرنے لگی۔ عجیب بات کہ آج آئینہ صاف کرنے کے بعد بھی اسے اپنی صورت نظر نہیں آئی تھی بس دھندلا دھندلا سا کوئی عکس تھا۔ گلابو اس بات سے گھبرا گئی۔ اس کے بعد اس نے آئینہ دیکھنا ہی چھوڑ دیا۔ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ خدا نے اسے بنایا ہی اسی طرح ہے کہ اس کا عکس نہیں بنتا اور نہ اس پر کوئی لباس سجتا ہے اور نہ اسے بناؤ سنگھار کرنا چاہئے۔ کیا خبر کس کرچوٹی کرنے سے اس کی بینائی پر اثر پڑتا ہو۔ اب نہ وہ اچھے اور نئے لباس کی خواہش کرتی اور نہ بناؤ سنگھار کرتی دراصل اس پر اپنے دھندلے عکس کا کچھ ایسا نفسیاتی ردعمل ہوا تھا کہ وہ آئینہ سے ڈرنے لگی تھی۔ وہ اپنی شکل تک بھولنے لگی۔ وقت گزرتا گیا اس نے میٹرک کر لیا۔ جب کالج میں داخلہ لیا تو اسے اس بات کا شدت سے احساس ہونے لگا۔ دل کو صدمہ رہنے لگا کیونکہ بناؤ سنگھار سے دور رہنے کے باعث وہ خود کو اپنی سہیلیوں سے کم تر محسوس کیا کرتی تھی جب تک اسکول میں تھی ، پابندی سے نماز پڑھتی تھی کیونکہ اس کی ماں بھی پابندی سے نماز پڑھتی تھیں۔

کالج کی اپنی ایک الگ زندگی تھی۔ اس زندگی میں آزادی کا احساس اور ایک سرخوشی سی تھی۔ اس نے کالج میں دوچار اچھی لڑکیوں کا ساتھ پا لیا تھا۔ یہ اس کی سہیلیاں تھیں، جن کو پاکر تنہائی کا احساس ختم ہوگیا تھا۔ وہ ان سے فون پر باتوں میں مشغول ہو جاتی تو نماز کا وقت نکل جاتا۔ اس طرح رفتہ رفتہ اس نے نماز ترک کردی خوشیوں بھرا وقت گزر رہا تھا لیکن یہ احساس ابھی تک تھا کہ وہ آئینہ میں اپنا عکس نہیں دیکھ سکتی۔ جانے کیوں اس بات کا کسی سے ذکر کرتے ہوئے بھی اس کا دل ڈرتا تھا ، سویہ راز اس نے خود تک ہی محدود رکھا ہوا تھا اور یہ حقیقت تھی کہ اب بھی جب وہ کبھی آئینہ دیکھنے کی کوشش کرتی اس کو اپنی شکل واضح نظر نہیں آتی تھی اور دھندلا سا عکس بی نظر آتا تها، تبهی وه نروس ہو جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ آئینہ دیکھنے کی چاہ بھی اس میں بڑھتی جاتی تھی ، یہاں تک کہ اس خامی کے احساس سے وہ بولنے میں ہچکچاہٹ برتنے لگی اور روانی سے بولنے کی بجائے ہکلاہٹ کا شکار ہوگئی۔ جب بولتی تورک رک کر، تب استانیاں حیرت سے اسے دیکھتیں اور پریشان ہوتیں ، جبکہ ہم جماعت اس پر ہنسنے لگتیں ۔اس نے بمشکل بارہویں کا امتحان دیا اور کالج چھور دیا۔ خالہ نسیم کو بیٹی کے تعلیم چھوڑ دینے کا دکھ تھا لیکن وہ اس پر زبردستی نہ کرسکیں تاہم اس کو منا لیا کہ وہ سلائی سینٹر میں داخلہ لے لے وہاں بھی اس کی یہی کیفیت تھی ، تبھی لڑکیاں اس کو مجذوب سمجھنے لگیں۔ مسلسل چپ رہنے ، کسی سے بات نہ کرنے کے سبب وہ کچھ نہ سیکھ پائی۔ اس کا ہر پل ایک کرب میںبیتنے لگا۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا۔  اپنا وجود بی بوجه لگتا تھا۔ گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا ، پھر بھی وہ کسی شے کا لطف محسوس نہیں کر سکتی تھی ۔ اچھے گانے اسے خوش کرتے اور نہ ٹی وی ڈرامے دل کو لبھاتے۔ پھل فروٹ یا اچھا کھانا سامنے ہوتا تو ان کا ذائقہ تک اسے محسوس نہیں ہوتا تھا ۔ اسے لگتا کہ وہ کوئی بے ذائقہ شے نگل رہی ہو یا جو نوالے وہ منہ مینڈال رہی ہو ، وہ کوئی اور کھارہا ہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ گلابو کی شادابی کی جگہ زرد رنگت نے لے لی اوراس نے خود کو کمرے میں قید کر لیا ۔ ہر کسی سے کترانے لگی، کسی سے بات نہ کرتی ، تب ہی اس کی ماں کو احساس ہوا کہ اس کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ خالہ نسیم ہمارے گھر آئین اور میری والدہ کو اپنی بیٹی کی حالت بتاکر ان سے مشورہ لیا۔ اماں نے اپنی اس پڑوسن سے کہا ۔ مجھے لگتا ہے گلابو کسی غیر معمولی کیفیت کا شکار ہے بہتر ہے تم کسی عالم سے رابطہ کرو اور اس پر دم درود کراؤ میری والدہ نے ان کو ایک عالم کا پتا بھی دیا۔ خالہ نسیم عالم کے پاس گئیں ، جو زیادہ دور نہیں رہتے تھے اور ان سے مشورہ کیا۔ عالم صاحب بولے کہ بچی کو میرے پاس لے آؤ ، مگر گلابو عالم صاحب کے پاس جانے کو راضی نہ ہوئی۔ خالہ نے دوبارہ ان بزرگ سے رابطہ کیا کہ وہ تو ایک قدم ہلتی نہیں۔ کیسے آپ کے پاس لے کر آؤں۔ بہت منت سماجت کی ، مگروه راضی نہیں ہوتی۔ وہ بولے۔ اچھا بیٹی تم پریشان مت ہو۔ میں خود آپ کے گھر آجاؤں گا۔ آپ اپنے شوہر سے کہیے کہ مجھے کل شام میرے گھر سے لے جائے۔ اگلے روز گلابو کے ابا ان بزرگ کو گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر لے آئے ۔ بزرگ نے گلابو کو دیکھا۔ کچھ دم درود کیا اور بولے۔ بچی تم نے نماز کیوں چھوڑ دی ہے؟ اس بات کا گلابو نے کوئی جواب نہ دیا۔تم نماز دوباره شروع کردو اور پابندی سے پڑھا کرو ۔ دوسرے یہ کہ ہمیشہ سر ڈھانپ کر رکھا کرو پاک و صاف رہا کرو۔ غسل خانے میں خود کلامی نہ کیا کرنا اور جب كھانا كھاؤ تو دو نوالے کم کھاؤ۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے گلابو نے ان کی باتوں پر عمل شروع کردیا تواسے سکون ملنے لگا ۔ انہی دنوں اس کا رشتہ آیا۔والدین نے فوراً ہاں کر دی کیونکہ وہ بیٹی کی حالت سے گھبرا گئے تھے۔ سوچا کہ شاید شادی کے بعد ٹھیک ہوجائے۔

رشتہ متوسط گھرانے میں ہو گیا۔ والدین نے جہیز بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کردیا ۔ یہاں تک کہ سازوسامان سے آراستہ کرکے ایک فلیٹ بھی دیا، البتہ سسرال کی طرف سے اس کو کچھ نہ ملابس شادی کی ایک انگوٹھی ہی پہنائی گئی۔ گلابو نے جب دولہا کی صورت دیکھی تو قدرت کے اس مذاق پر بہت روئی ۔ اس کے دولہا کا قد گلاب سے تین چار انچ چھوٹا ہی تھا۔ قد کے اس فرق کی وجہ سے وہ شوہر کے ساتھ کہیں بھی جانے سے کتراتی تھی۔ وقت پر لگا کر اڑتا گیا اور وہ تین بچوں کی ماں بن گئی۔ اس کے ساتھ ہی اسے ذہنی کرب سے نجات مل گئی کہ اب وہ آئینہ دیکھتی تو اسے اپنا عکس صاف نظر آتاتها. وہ سوچتی کہ میں خواہ مخواہ آئینہ دیکھنے سے ڈرتی تھی۔ میں تو اتنی خوش شکل ہوں کہ خوبصورت لوگوں میں شمار ہوسکتی ہوں۔ اب وہ بہت خوش رہنے لگی تھی کہ اس کا عکس اسے صاف نظر آتا تھا ۔ وہ اپنی صورت دیکھ سکتی تھی اور اپنی صورت کا تصور کرسکتی تھی۔ تیسرے بچے کی پیدائش پر اسے کانوں مین شور سا سنائی دینے لگا تھا۔ اب وہ بستر پر مرده بن کر لیتی رہتی اور ان آوازوں کو سنتی رہتی ، مگر باتوں کے معنی اس کی سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ خدا جانے یہ آوازیں کہاں سے آتی تھیں؟ اس کے دماغ کے اندر سے یا باہر کی دنیا سے؟ کچھ ہی دنوں کے بعد اس پر کچھ اور طرح کے عذاب شروع ہوگئے جیسے، وہ قبر میں لیتی ہے اور قبر اسے کھینچ رہی ہے۔ اس کی ہڈیاں چٹخ رہی ہیں۔ وه ان سختیوں کو برداشت نہ کر سکتی اور منہ سے جھاگ نکلنے لگتا ، پھر وہ بے ہوش ہوجاتی۔ آنکھیں چڑھ جاتیں ، ہاتھ پاؤں اکڑ جاتے اور وہ بے سدھ بوجاتی جب ہوش آتا تو جسم ٹوٹا ٹوٹا محسوس ہوتا اور وجود میں اتنی جان نہ رہتی کہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی بوسکی ان دنوں اس کا شوہر کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ اسے گلابو کی اس حالت کا کچھ علم نہ تھا، تبھی وہ اور گھبراتی جب اس کو آوازوں کا شور سنائی دیتا تو بے ہوش ہوجاتی۔ ایک دن اس نے مجھ سے اپنا خواب بیان کیا کہ اس نے خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا ہے ، جو کہہ رہے ہیں کہ تم نے نماز چھوڑ دی ہے اس لئے تم مردہ ہوگئی ہو۔ اب تم دوسری زندگی کا سامنا کرو گی اور دوسری زندگی کا سامنا کرنے سے پہلے قبر کا سامنا کرو گی۔ پاک صاف رہا کرو خواب دیکھنے کے بعد اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ خوف سے کانپ رہی تھی، تبھی اس نے وضو کیا جائے نماز بچھا کر نفل پڑھے اور اپنے الله سے عہد کیا کہ اب پابندی سے نماز پڑھے گی کیونکہ عالم صاحب بھی اسے یہی نصیحت کر کے گئے تھے۔ اس نے پھر سے نماز پڑھنا شروع کردی لیکن پابندی سے نہ پڑھ پائی۔ کبھی چار پڑھ لیں اور ایک چھوٹ گئی اور کبھی دویا تین غرض وہ کوشش کرتی مگر پوری نہ پڑھ سکتی اور پریشانی بھی کم نہ ہوئی یعنی کانوں میں شور اور بے ہوشی کے دورے جاری رہے ۔ ڈاکٹروں کو دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مرگی کے دورے نہیں ہیں۔ گھر والے تو اس کی حالت سے واقف ہوچکے تھے ۔ وہ اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ غسل خانے کی کنڈی اندر سے نہ لگانے دیتے پانچ سال یہی کیفیت ربی کبھی خواب دیکھتی کہ کوئی کہتا ہے توبہ کرو، توبہ وہ سوچتی، میں نے کون سا گناہ کیا ہے جو توبہ کروں، پھر بهى استغفار كرتى تهى تب یاد آتا کہ وہ بچپن میں قبرستان میں جاکر کھیلتی تھی ۔ وہاں اسے گھنے درختوں تلے لیٹنے اور چھوٹے چھوٹے پتھروں کو جمع کرکے کھیلنے میں بڑا مزہ آتا تھا کبھی وہ پتھروں سے قبروں کو بھی نشانہ لگا کر ان پر برساتی تھی ۔ اب کچھ دنوں سے اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ دوباره قبروں پر جائے اور اپنی پسندیدہ جگہوں پر بیٹھے۔ وہ خود کو روکتی تهی مگر قدم ادھر کو ہی کھنچتے تھے، جیسے کوئی طاقت اسے اس طرف کھینچتی ہو۔

اس بات کا ذکر اس نے ایک دن اپنے شوہر سے کیا۔ وہ بولا۔ عورتوں کا قبرستان میں جانا ٹھیک نہیں، لیکن تمہاری روح کو اگر اس طرح سے سکون ملتا ہے تو میں تم کو لے چلتا ہوں ۔ اس کا شوہر اسے موٹر سائیکل پر بٹھا کر اس قبرستان میں لے گیا، جہاں وہ کھیلا کرتی تھی وہاں کچھ بڑی قبریں تھیں اور کچھ چھوٹے بچوں کی تھیں۔ اس نے وہاں تلاوت کی اور فاتحہ پڑھی تو اسے کچھ سکون ملا جب تک اس کا جی چاہا، وہاں بیٹھی رہی شوہر نے اسے آواز دی اور نہ بلایا ۔ وہ کچھ دور اپنی موٹر سائیکل پر ہی بیٹھ کر انتظار کرتا رہا۔ جب گلابو کی روح سیر ہو گئی تو شوہر کے ساتھ گھر لوٹ آئی۔ اب اس نے کوشش کرکے نماز کی پابندی شروع کر دی تھی۔ سر کوبھی ڈھانپ کر رکهتی اور کھانا بھی بھوک سے دو لقمے کم کھاتی ۔ اب اسے آوازیں آنا بند ہوگئیں۔ وہ پاک صاف بھی رہتی تھی کہ بزرگ نے اس کی بھی ہدایت کی تھی۔ روز نہاتی اور صاف کپڑے پہنتی ۔ ان اقدامات سے اس کی نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی صحت پر بھی اچھا اثر پڑا۔ اس کی ماں بھی روز گڑ گڑا کر الله تعالیٰ سے بیٹی کی صحت کے لئے دعا کرتی تھی ۔ خدا نے ایک دکھی ماں کی دعائیں سن لی اور گلابو کے کانوں میں نامعلوم شور اور آوازیں آئی ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں۔ جب آوازیں آنا بند ہوگئیں تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اب صحت یاب ہو رہی ہے۔ یہ کوئی روحانی عمل تھا ، آسیب، سایہ یا کوئی نفسیاتی مسئلہ تھا، کوئی ذہنی بیماری تھی ، جو بھی تھا، اس پر آج تک پردہ پڑا ہوا ہے۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ گلاب جان اب پوری طرح صحت یاب ہوگئی تھی ۔ اس پر سے سختیاں تو ہٹ گئیں، مگر پھر وہ ایسے خواب دیکھنے لگی کہ کوئی واقعہ ہونے سے پہلے اسے اشارہ ہوجاتا، صبح اٹھ کر وہ خواب دل میں دہراتی۔ اگلے چند دنوں میں وہی واقعہ رونما ہو جاتا ، جو اس نے خواب میں دیکھا تھا۔ اب وہ اس بات سے بھی ڈرنے لگی کہ اسے اچھے خواب ہی آئیں ، بری خواب نہ آجائیں کہ جن کی تعبیر دکھ دینے والی ہو۔ اس نے کسی نیک بزرگ سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ اس دنیا کے علاوہ اور بھی عالم ہیں۔ اللہ کے یہ سب سربستہ راز ہیں۔ اس کے راز وہی جائے ، تم بس نیک عمل کئے جاؤ ہمیشہ پاک صاف رہو، سوچوں میں بھی اور نیت میں بھی۔ خدا تم سے راضی رہے گا، ان شاء الله .اس نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر کرم کیا۔ گھر میں برکت ہوئی اولاد نیک نکلی پھر جب کچھ عرصے بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا تو اس کا دهیان کلی طور پر الله کی طرف رہنے لگا۔ اس طرح اس کی سب پریشانیاں دور ہوگئیں، سوائے ایک کے، اب بھی اس کو جو خواب دکھائی دیتے ہیں اور وہ ان کی بری تعبیر سے خائف رہتی ہے۔ محلے کی عورتیں اس کے پاس آکر اپنے دکھ درد بیان کرتی ہیں ۔ وہ ان کی بات ہمدردی سے سنتی ہے اور دعا کرتی ہے کہ دعا کے سوا کچھ نہیں کرسکتی، مگر وہ پھر بھی اس کو ” الله والی “ ہی کہتی ہیں ۔ حالانکہ وہ کہتی ہے میں اللہ کی عام سی بندی ہوں، مگر عزت اسے ہر جگہ ملتی ہے کیونکہ اللہ جس کو چاہے ، عزت دیتا ہے اور جس کو چاہے ذلت دے ، یہ اسی کے اختیار میں ہے۔ گلابو جب ملتی ہے، یہی کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی بیماری کسی کو نہ دے ، جو میں نے جھیلی ہے۔ اس کا عذاب تو بس مجھے ہی پتا ہے ۔

Latest Posts

Related POSTS