Friday, December 13, 2024

Amaal | Teen Auratien Teen Kahaniyan

فون کی گھنٹی بجی تھی۔ نعمان نے کوئی توجہ نہیں دی مگر مسلسل بجنے پر اسے فائل سے اپنی توجہ ہٹا کر ریسیور اٹھانا ہی پڑا۔
’’ہیلو! انسپکٹر نعمان عادل۔‘‘ اس نے گمبھیر لہجے میں کہا۔
’’ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’آپ کون؟ میں آپ کو پہچانا نہیں۔‘‘ انسپکٹر نعمان سنجیدگی سے بولا۔
’’ہم ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں انسپکٹر نعمان عادل!‘‘ دوسری جانب سے کہا گیا۔ انداز معنی خیز تھا۔ ’’بہتر یہی ہے کہ کام کی بات کرلی جائے۔‘‘
اس طرح کے فون آنا نعمان کے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی، لہٰذا وہ فوراً ہی اپنی میز کی دراز کے قریب لگے ایک خفیہ بٹن کو دباتے ہوئے گہری متانت سے بولا۔ ’’کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’فون ٹریس کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔‘‘ بات کرنے والا اجنبی گھاگ لگتا تھا۔ اسے جیسے ہر بات کا اندازہ تھا۔
’’ایک لاکھ مہینہ ٹھیک رہے گا۔‘‘
’’کس بات کا؟‘‘
’’ہمارے راستے سے ہٹنے کا۔‘‘
’’کون ہو تم؟‘‘
’’فضول سوال!‘‘
’’کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’یہ سوال ٹھیک ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا دھندا چلتا رہے اور آپ کو ہر مہینے ایک لاکھ ملتا رہے۔‘‘
’’میں ہر غیر قانونی دھندے کے آگے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوں گا۔‘‘ انسپکٹر نعمان نے آہنی لہجے میں کہا۔
’’دو لاکھ…؟‘‘ بولنے والے نے ریٹ بڑھایا۔
’’پچاس لاکھ بھی نہیں۔‘‘
’’تم کیا سمجھتے ہو، تم اتنے بڑے دھندے کو بند کرا دو گے؟‘‘
’’آخری حد تک اپنی کوشش جاری رکھوں گا۔‘‘
’’تم سے پہلے بھی اس طرح کی کوششیں کی گئیں لیکن اس کا کیا نتیجہ ہوا، وہ آفر ٹھکراتے رہے اور ہمارے راستے سے ہٹتے گئے، کیا تم بھی ایسی ہی بے وقوفی کرو گے؟‘‘
’’کالے دھندے کو ختم کرنے کے لئے ایسے بے وقوف لوگ میری نظروں میں کیا مقام رکھتے ہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں، اگر میں بھی ان میں شامل ہوگیا تو خود کو یقینا خوش قسمت سمجھوں گا۔‘‘ انسپکٹر نعمان عادل کے اس جواب پر دوسری طرف سے فوراً رابطہ منقطع کردیا گیا۔ نعمان کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ عود کر آئی تھی۔
٭ … ٭ … ٭
دو روز بعد ایک اور فون آیا۔
’’ہم آپ کو تین لاکھ ماہانہ دے سکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو اپنی کارگزاری دکھانے کے لئے کبھی کوئی چھوٹی موٹی کھیپ پکڑواتے رہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا بلکہ ہم آپ سے اپنا تعاون برقرار رکھیں گے۔‘‘
’’ہم سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘
’’میں اس بزنس میں شامل کئی افراد کی نمائندگی کر رہا ہوں۔‘‘
’’اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ نعمان بکائو مال نہیں ہے۔‘‘
’’پانچ لاکھ ماہانہ؟‘‘
’’میرا جواب وہی ہے جو میں ابھی دے چکا ہوں۔‘‘
’’تمہیں شاید اندازہ نہیں کہ اس طرح تم کتنے خطرناک لوگوں کو اپنا دشمن بنا رہے ہو۔‘‘
’’تم مجھے دھمکی دے رہے ہو تو مجھے اس کی پروا نہیں۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں، میں ہر طرح کے خطروں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہوں۔‘‘
’’ہم چاہتے تھے کہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو جائے مگر تم نے ہمیں انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔ اب ہمہ وقت ہوشیار رہنا، کہیں بھی، کسی بھی وقت تمہارے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد لائن خاموش ہوگئی۔
ان دھمکیوں کے بعد انسپکٹر نعمان عادل پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے۔ ایک بار کار سے اس پر فائرنگ کی گئی، دوسری بار ایک ٹرک کے ذریعے اسے کچلنے کی کوشش ہوئی، تیسری بار اس کی جیپ پر دستی بم پھینکا گیا، لیکن وہ پھٹا نہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے قدرت اس کی حفاظت کر رہی ہو۔
ایک بار ایسا بھی ہوا کہ نعمان کو بدمعاشوں نے ایک سنسان مقام پر گھیر لیا، لیکن اس نے اپنی سرکاری جیپ کی آڑ میں ہو کر زبردست مقابلہ کیا کہ حملہ آور اپنے دو ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس فرار میں اس پولیس سائرن کی آواز کا بڑا دخل تھا جو نعمان نے ٹیپ ریکارڈر سے انہیں ڈرانے کے لئے سنائی تھی اور یہ آواز اس طرح ریکارڈ کی گئی تھی کہ جیسے وہ لمحہ بہ لمحہ قریب آتی جا رہی ہو۔
لگاتار کئی حملوں میں ناکام ہو کر اس کے دشمن اور خاص طور سے ایک غیرملکی ایجنٹ راجن سنگھ جو منشیات کو ملک کے نوجوان طبقے میں انتہائی کم قیمت پر تقسیم کر رہا تھا۔ ایسا منصوبہ بنانے لگے جو انتہائی تیر بہدف ثابت ہو۔
٭ … ٭ … ٭
وہ ایک دولت مند گھرانے کی خوبصورت، انتہائی ماڈرن اور آزاد خیال لڑکی تھی۔ اس کا نام شمائلہ تھا۔ اس کو ایسا بنانے میں خود اس کے خیالات کے ساتھ ان حالات کا بھی ہاتھ تھا جن کے درمیان رہ کر اس نے نوعمری سے جوانی تک کا فاصلہ طے کیا تھا۔ ماں باپ کا برسوں پہلے انتقال ہوچکا تھا۔ ایک بڑا بھائی تھا جہانزیب، لیکن اسے اپنی کاروباری مصروفیات سے اتنا وقت نہیں ملتا تھا کہ وہ بہن کی مناسب تربیت کرتا۔ شمائلہ نے مخلوط اسکول اور کالج میں تعلیم پائی۔ گھر کے بجائے اس کا قیام ہوسٹلوں میں رہا، جہاں اسے من مانی کرنے کی پوری آزادی تھی۔ اس کے دوستوں میں لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کی تعداد تھی۔ کالج کے آخری سال تک وہ کلبوں، سنیما گھروں اور پبلک تفریحی مقامات پر اپنے مرد دوستوں کے ساتھ آزادانہ گھومنے کی عادی ہوچکی تھی۔
انہی دوستوں میں سے کسی نے اسے چرس اور ہیروئن کا بھی عادی بنا دیا تھا۔ بھائی کی طرف سے اسے کئی ہزار روپے ماہانہ جیب خرچ ملتا تھا۔ وہ سب اس کی فضول خرچیوں اور نشے کی لت پوری کرنے کے کام آتا تھا۔ جیب خرچ ختم ہو جاتا تو وہ مختلف بہانوں سے بھائی سے مزید رقم منگوا لیا کرتی تھی۔
بی اے فائنل میں وہ کسی نہ کسی طرح پاس ہوگئی، جبکہ اس کی خواہش تھی کہ وہ فیل ہو جائے تاکہ اسے ایک سال مزید ہوسٹل میں قیام کرنے کا موقع ہاتھ آ جائے لیکن جب وہ پاس ہوگئی تو اسے مجبوراً ہوسٹل چھوڑ کر گھر آنا پڑا۔ جہانزیب کو جب شمائلہ کے روز و شب کی مصروفیات کا پتا چلا تو اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کی غفلت نے اس کی بہن کو کیسے غلط راستے پر ڈال دیا ہے۔
اس نے پھر سختی کرنا شروع کردی۔ شمائلہ کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی۔ اس کا جیب خرچ بند کردیا۔ اتنے برسوں تک آزادانہ زندگی گزارنے والی شمائلہ کو پابندیاں سخت ناپسند تھیں۔ گھر سے وہ کسی نہ کسی بہانے نکل آتی تھی، لیکن خالی جیب نشے کی طلب پوری کرنے سے قاصر تھی۔ اس طلب کو بجھانے کے لئے پہلے اس نے اپنی چیزیں فروخت کیں، پھر گھر میں چھوٹی موٹی چوریاں کیں۔ دوستوں سے قرض لینے لگی۔ جہانزیب کو بہن کی آزاد مزاجی کا علم تھا، مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ منشیات کی عادی ہوچکی ہے۔ اس نے جب مزید سختی کی تو شمائلہ گھر سے فرار ہوگئی۔
اس کے کئی چاہنے والے تھے لیکن ان میں ابھی تک کوئی جرائم پیشہ شخص شامل نہیں ہوا تھا۔ وہ اس کے حسن و جوانی کے دلدادہ تھے لیکن کوئی اسے مستقل ذمہ داری کی حیثیت سے قبول کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا۔ وہ سب اپنے گھر والوں اور بزرگوں سے ڈرتے تھے۔ تین چار دن میں ہی شمائلہ کی حالت خراب ہوگئی۔ ایک شام راجن نے اسے ایک ہیروئن فروش کی خوشامد کرتے دیکھ لیا۔ اس کی نظروں نے تاڑ لیا کہ یہ آزاد مزاج حسین لڑکی اس کے بہت کام آ سکتی ہے۔
’’تمہیں انجکشن چاہئے یا سگریٹ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’جو بھی مل جائے، چلے گا۔‘‘ شمائلہ نے ایک انگڑائی لی۔
’’تم جو چاہو مل جائے گا۔ میں تمہیں دو تین دن سے اِدھر اُدھر آوارہ گردی کرتے دیکھ رہا ہوں۔ اس طرح تم خود کو برباد کر رہی ہو۔‘‘
’’پھر مجھے کیا کرنا چاہئے؟‘‘
’’کسی بااعتماد اور مضبوط سہارے کی تلاش۔‘‘
’’وہ مجھے کہاں ملے گا؟‘‘
’’میں دے سکتا ہوں، مگر یاد رکھو کچھ لینے کے لئے کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔‘‘
’’میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں، بشرطیکہ ایک پرآسائش زندگی کے ساتھ میری طلب بھی پوری ہوتی رہے۔‘‘
’’میں تمہیں ایسی شاندار زندگی دے سکتا ہوں، جس کا تم نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔‘‘
’’تو پھر دیتے کیوں نہیں۔‘‘ وہ مسکرا کر بولی۔
’’تمہیں مجھ سے تحریری معاہدہ کرنا ہوگا۔ اس کے بعد جو کچھ میں کہوں گا تم اس کی پابندی کرو گی۔‘‘
’’میں ہر معاہدے کے لئے تیار ہوں۔ مگر صرف باتیں ہی بناتے رہو گے یا کوئی سگریٹ بھی دو گے؟‘‘
راجن نے اسے ایک سگریٹ دیا۔ پھر دو چار کش لگانے کے بعد جب شمائلہ کی حالت سنبھلی تو وہ اسے خفیہ ٹھکانے پر لے گیا۔ وہاں اس نے شمائلہ کو اپنے مخصوص مقاصد کے لئے ضروری تربیت دی۔ بالوں کی تراش خراش اور لباس کی وضع قطع سے اس کا حلیہ یکسر تبدیل کردیا۔
شمائلہ نے سب کچھ بڑی آسانی سے سیکھ لیا۔ اپنی طلب سے لے کر زندگی کی آسائشوں تک اسے سب کچھ حاصل تھا، پھر وہ راجن کے اشاروں پر کیوں نہ رقص کرتی۔
راجن نے شمائلہ سے اپنے مقصد کے پیش نظر بڑے مفید کام لئے۔ اسے جس قسم کی معلومات حاصل کرنا ہوتیں، اس کے مطابق وہ حکومت کے ایسے اعلیٰ افسروں اور عہدیداروں کو تاکتا، جن کے ذریعے اسے مطلوبہ معلومات مل سکتی تھیں۔ پھر وہ شمائلہ کو اس کے پیچھے لگا دیتا۔ وہ دو چار ملاقاتوں میں ہی اس افسر کے دل و دماغ پر اتنی حاوی ہو جاتی کہ وہ کسی سحر زدہ معمول کی طرح وہ سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا جس کی شمائلہ فرمائش کرتی۔
راجن جانتا تھا کہ نشے کی لت شمائلہ کو بہت جلد ناکارہ بنا دے گی۔ اس کی صحت تباہ ہوگی اور صحت کے ساتھ ہی اس کا حسن بھی برباد ہو جائے گا۔ مگر وہ اس قیمتی ہتھیار کو کئی برس تک استعمال میں لانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس نے دیکھا تھا کہ شمائلہ اپنے کام میں دلچسپی لینے لگی تھی۔ اسے دوسروں کو احمق بنا کر اپنا کام نکالنے میں مزہ آنے لگا تھا۔ ایسے بہترین ہتھیار کو بھلا راجن کیسے ضائع ہوتے دیکھ سکتا تھا۔
اس نے شمائلہ کو سمجھایا کہ اگر وہ ہیروئن چھوڑ دے تو یہ اس کے حق میں بہترین ہوگا۔ دیر تک اس کا حسن، صحت اور جوانی برقرار رہے گی۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے وہ ایک پرآسائش زندگی گزار سکے گی۔ ان کے بغیر اس کا مستقبل ایک بار پھر مفلسی سے دوچار ہو جائے گا اور تب کوئی اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرے گا۔ بات شمائلہ کی سمجھ میں آ گئی اور وہ اپنے علاج کے لئے آمادہ ہوگئی۔
راجن نے اسے ایک معیاری اسپتال میں داخل کروا دیا اور علاج کے تمام اخراجات خود ادا کئے۔ شمائلہ نے بھی اپنی قوتِ ارادی سے کام لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تین ماہ کے علاج کے بعد اس نے مکمل طور پر ہیروئن کی لت سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ اس کا اثر اس کی عام صحت پر بھی اچھا پڑا اور وہ پہلے سے کہیں دلکش اور حسین نظر آنے لگی۔
شمائلہ صحت یاب ہو کر اسپتال سے باہر نکلی تو یہ وہ وقت تھا جب راجن انسپکٹر نعمان عادل کو اپنے راستے سے ہٹانے کی ہر کوشش میں مسلسل ناکام ہو رہا تھا۔ مجبوراً اس نے اپنے ترکش کے آخری تیر شمائلہ کو اس کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’انسپکٹر نعمان عادل نے میرا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے۔‘‘ اس نے شمائلہ سے کہا۔ ’’میرا باس مجھ سے اس قدر ناراض ہے کہ اس نے مجھے کھلے الفاظ میں الٹی میٹم دے دیا ہے کہ اگر ایک ماہ کے اندر میں نے اس کا کوئی تدارک نہیں کیا تو وہ مجھے شوٹ کردے گا۔ میں جس لائن میں کام کر رہا ہوں وہاں مسلسل ناکامی کی سزا موت ہے۔‘‘
’’پھر تم کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ شمائلہ نے پوچھا۔
’’میرے ذہن میں ایک پلان ہے۔ مگر اس میں کامیابی کا تمام تر دارومدار تم پر ہے۔‘‘
’’معاوضہ معقول ہو تو میں ہر کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
’’اگر تم اس مشن میں کامیاب ہوگئیں تو تمہارا انعام دس لاکھ سے کم نہیں ہوگا۔ چار لاکھ ایڈوانس اور باقی چھ لاکھ کامیابی کے بعد۔‘‘
’’مجھے کیا کرنا ہوگا؟‘‘ شمائلہ نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’تمہیں انسپکٹر نعمان عادل کو اپنے حسن کے سحر میں مبتلا کرنا ہوگا اور تم اس کام میں پہلے ہی کافی ماہر ہو۔‘‘
’’لیکن میں نے نعمان کے بارے میں جو کچھ سنا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ عام مردوں کے برخلاف بہت مضبوط کریکٹر کا آدمی ہے۔‘‘
’’تم اس کی پروا مت کرو۔ میں ایسے حالات پیدا کردوں گا کہ اس کی تمام ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہوں گی۔‘‘ راجن نے جواب دیا۔ ’’تمہیں اپنی ذہانت سے اس کی ہمدردی کو چاہت میں تبدیل کرنا ہوگا، خواہ اس کے لئے تمہیں اس سے شادی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔‘‘
’’تمہارا پلان کیا ہے؟ مجھے ذرا تفصیل سے بتائو۔‘‘ شمائلہ نے پوچھا۔
’’ایک دن کسی بھی پبلک پلیس پر جہاں نعمان موجود ہوگا تمہیں کچھ غنڈے اغوا کرنے کی کوشش کریں گے۔ تم مدد کے لئے چیخو گی تو نعمان لامحالہ تمہیں بچانے کی کوشش کرے گا اور تمہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ غنڈے میرے آدمی ہوں گے۔ اس لئے وہ تھوڑی سی مزاحمت کے بعد بھاگ کھڑے ہوں گے۔ مجھے اس کی پروا نہیں کہ وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یا نعمان ان میں سے کسی کو گرفتار کر لیتا ہے۔ غنڈوں کے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد ظاہر ہے کہ نعمان کی توجہ تم پر ہوگی اور تمہیں اس وقت اپنی بہترین اداکارانہ صلاحیت سے کام لینا ہوگا۔ تم اسے بتائو گی کہ تم بالکل تنہا اور بے سہارا ہو، ایک غریب خاندان سے تمہارا تعلق ہے تم تعلیم یافتہ بھی ہو۔ ایک بدمعاش تمہیں فلم کی ہیروئن بنانے کا لالچ دے کر گھر سے بھگا لایا جبکہ درحقیقت وہ تم سے جسم فروشی کرانا چاہتا تھا۔ مگر جب تمہیں اس کے گھنائونے ارادوں کا علم ہوا تو تم کسی طرح اس کے چنگل سے بھاگ نکلیں، ایک شریف آدمی نے تمہاری مدد کی، اس کے تعاون سے تمہیں ایک مناسب ملازمت مل گئی۔ تم نے اپنی رہائش کے لئے ایک بنگلے کا چھوٹا سا پورشن بھی کرائے پر حاصل کرلیا۔ تمہارا خیال تھا کہ اب تمہاری زندگی سکون سے گزر جائے گی لیکن جلد ہی اس بدمعاش نے رہائش گاہ کا پتا لگا لیا۔ اس کے بعد سے وہ تمہیں کئی مرتبہ دھمکی دے چکا ہے۔ اس کے ساتھی بنگلے کے آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں۔ وہ کئی مرتبہ تمہیں راستہ چلتے ہوئے اٹھا لے جانے کی کوشش بھی کر چکے ہیں، مگر کسی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکے، یہاں تک کہ آج انہوں نے تمہیں زبردستی کار میں ڈال کر لے جانے کی کوشش کی۔ ادھر جس بنگلے کے پورشن میں تم رہ رہی ہو اس کا مالک بھی اس صورت حال سے پریشان ہے، اس کی جوان بیٹیاں ہیں۔ وہ اپنے گھر کے اردگرد غنڈہ گردی گوارا نہیں کرسکتا ،اس لئے دبی زبان میں تم سے کہہ چکا ہے کہ تم پورشن خالی کردو اور تم اس صورت حال سے پریشان ہو کہ اب کہاں جائو گی یا کس طرح خود کو اس بدمعاش سے بچائو گی۔ جس شریف آدمی کی مدد سے تمہیں ملازمت اور یہ رہائش ملی تھی، وہ آج کل بیرون ملک گیا ہوا ہے نہ معلوم کب واپس آئے۔‘‘
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ نعمان جیسا ذہین آفیسر میری اس داستان پر یقین کر لے گا؟‘‘ شمائلہ نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں آخر تمہیں اس سے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ راجن نے جواب دیا۔ ’’زیادہ سے زیادہ تصدیق کرے گا تو تمہاری داستان کے تمام ضروری شواہد کا بندوبست کردیا جائے گا۔ ملازمت اور رہائش گاہ کا بھی۔ اس کے بعد تمام تر انحصار تمہاری متاثرکن اداکاری پر ہوگا۔ انسپکٹر نعمان عادل اپنی بوڑھی ماں اور دو چھوٹے بھائی بہن کے ساتھ سرکاری مکان میں رہتا ہے۔ یہ تمہارا کام ہے کہ تم اس کے دل میں اس طرح گھر کر لو کہ وہ تمہیں، خواہ عارضی طور پر ہی سہی اپنے گھر میں رہنے کی پیشکش کردے۔ اگر وہاں قدم رکھنے کا موقع مل گیا تو پھر اپنی خدمت سے اس کی ماں کو اپنی مٹھی میں کر لینا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ بار بار اپنے تنہا اور بے سہارا ہونے کا ذکر کر کے تم ماں بیٹے کے دل میں یہ خیال پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائو گی کہ وہ تمہیں ہمیشہ کے لئے اپنے گھر میں رکھ لیں اور ظاہر ہے کہ اس کا جائز اور سیدھا سادہ راستہ تمہاری اور نعمان کی شادی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔‘‘
’’کیا شادی کرنا ضروری ہے؟‘‘
’’ہاں! اس کے بغیر تم نعمان کے دل اور دماغ کے اندر نہیں جھانک سکو گی۔ ہمیں اس کی مصروفیات کا معلوم ہو جائے تو اسے ختم کرنا آسان ہوگا، کوئی اور وار کارگر نہ ہو تب بھی تم اسے زہر دے سکتی ہو۔ خود اس کام میں ہاتھ نہ ڈالنا چاہو تو کسی رات گھر کا دروازہ کھول کر میرے آدمیوں کو موقع دے سکتی ہو کہ وہ گھر میں داخل ہو کر اس کا کام تمام کردیں۔‘‘
’’یہ کافی طویل المیعاد منصوبہ لگتا ہے۔‘‘
’’اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ میرا اندازہ ہے تین چار ماہ لگیں گے لیکن تم نے اپنی اداکاری کے پورے جوہر دکھائے تو یہ کام ایک دو ماہ میں بھی ہوسکتا ہے۔‘‘
٭ … ٭ … ٭
راجن نے اتنی مربوط منصوبہ بندی کی تھی کہ سب کچھ کسی آٹومیٹک مشین جیسی درستگی کے ساتھ ہوتا چلا گیا۔ پھر شمائلہ نے بھی ایسی جذبات سے بھرپور اداکاری کی کہ دو ماہ گزرنے سے پہلے ہی اس کی شادی نعمان سے ہوگئی۔ اس شادی کو شمائلہ کی خواہش کے مطابق بہت سادہ رکھا گیا تھا۔ اس میں شمائلہ کی مصلحت یہ تھی کہ شادی کی دھوم دھام میں کہیں کسی ایسے فرد سے مڈبھیڑ نہ ہو جائے جس سے پہلے کبھی کسی اور حیثیت سے مل چکی ہو، جبکہ نعمان نے اس خیال سے سادگی کو منظور کرلیا تھا کہ جتنے کم لوگوں کو شمائلہ کے بارے میں علم ہوگا اتنا ہی اس کی آئندہ سلامتی کے لئے بہتر ہوگا۔ وہ بدمعاش جو ایک مدت سے اس کے پیچھے پڑے ہوئے تھے، ان کو یہ نا ہی معلوم ہو کہ اب شمائلہ کہاں ہے۔ یہ بات نہیں کہ وہ ڈرتا تھا بلکہ اپنی ذمہ داریوں میں شمائلہ کی حفاظت کی فکر شامل نہیں کرنا چاہتا تھا۔
راجن بہت خوش تھا کہ جو کچھ اس نے سوچا تھا، ٹھیک اسی طرح ہوتا چلا جا رہا تھا لیکن وہ اس انقلاب سے بے خبر تھا جو بہت چپکے چپکے شمائلہ کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لیتا چلا جا رہا تھا۔ اب تک اسے جن مردوں سے واسطہ پڑا تھا، وہ عورت کا محض ایک ہی روپ دیکھنے کے قائل تھے۔ راجن کے ساتھ کام کرنے سے پہلے اور اس کے بعد بھی شمائلہ کے اردگرد دولت مند نوجوان بھنوروں کی طرح منڈلاتے رہتے تھے۔ ان میں سے ایک دو ایسے بھی تھے جن سے خود شمائلہ کو بھی تھوڑی بہت دلچسپی تھی۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان اختر جسے کافی دن یہ خوش فہمی رہی کہ شمائلہ اس سے محبت کرتی ہے اور ایک دن اس سے شادی کرلے گی۔ مگر راجن نے اپنے غنڈوں سے اختر کی ٹھکائی کرا دی اور یوں اس سے پیچھا چھڑا لیا۔ نعمان ان سب سے مختلف تھا، جن کو ابھی تک شمائلہ اپنی انگلیوں پر نچاتی رہی تھی۔ اس کی نظروں میں ہوس کی جگہ احترام تھا۔ لب و لہجے میں بناوٹ کے بجائے خلوص تھا اور رویّے میں خودغرضی کی جگہ ہمدردی اور اپنائیت تھی۔ شادی ہونے تک اسے شمائلہ سے محبت ہوئی تھی یا نہیں، اس سے قطع نظر شمائلہ اس کی چاہت میں بری طرح گرفتار ہوچکی تھی۔
اپنے پلان کے آخری مرحلے پر عمل کرنے کے لئے راجن کا دبائو بڑھا تو شمائلہ شروع میں ٹالتی رہی، پھر آخرکار اس نے کہہ دیا۔ ’’راجن صاحب! اب اس خیال کو آپ ذہن سے نکال دیں۔‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘ راجن نے چونک کر پوچھا۔
’’نعمان اب میرے شوہر ہیں اور کوئی بیوی اپنے شوہر کو قتل کرنے کی سازش میں حصے دار نہیں بن سکتی۔‘‘
’’یہ… تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
’’جو کہہ رہی ہوں، ٹھیک کہہ رہی ہوں۔‘‘ شمائلہ نے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔ ’’اب میں آئندہ آپ کی کوئی خدمت انجام نہیں دے سکوں گی۔ میرا آپ سے جو بھی تعلق تھا، وہ آج سے ختم ہوتا ہے۔ آئندہ آپ مجھ سے ملنے یا رابطہ قائم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہئے لہٰذا آپ بھی مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔‘‘
’’جانتی ہو کہ ہماری آرگنائزیشن کو چھوڑنے یا اس سے بغاوت کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔‘‘ راجن نے غصے سے کہا۔
’’مجھے دھمکانے کی کوشش نہ کریں۔ میں آپ اور آپ کی سرگرمیوں کے بارے میں اتنا کچھ جانتی ہوں کہ میری زبان کھل گئی تو یہ زمین آپ پر تنگ ہو جائے گی۔ میں بات بڑھانا نہیں چاہتی لیکن آپ یا آپ کے جرائم پیشہ ساتھیوں نے مجھے یا نعمان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو میں آپ کا جینا حرام کردوں گی۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘ راجن غصے سے کھڑا ہوگیا۔ ’’میں تم سے نمٹ لوں گا۔‘‘
٭ … ٭ … ٭
ایک ماہ خیر و عافیت سے گزر گیا۔ ایک رات نعمان کو کچھ ضروری رپورٹوں کی تیاری کے سلسلے میں دیر تک دفتر میں رکنا پڑا۔ وہ بارہ بج کر دس منٹ پر دفتر سے نکلا۔ اوسط رفتار سے اپنی جیپ چلاتے ہوئے ساڑھے بارہ بجے گھر پہنچا۔ جیپ کو گیراج میں کھڑی کر کے ابھی وہ چند قدم آگے بڑھا تھا کہ اس نے یکے بعد دیگرے تین فائروں کی آواز سنی۔ آواز گھر کی بالائی منزل سے آئی تھی، جہاں اس کا بیڈروم واقع تھا۔ مکان کے دو زینے بالائی منزل تک جاتے تھے۔ ایک زینہ عمارت کے اندر تھا اور دوسرا لوہے کا چکردار زینہ جو گیراج سے دائیں جانب واقع تھا۔ نعمان بیرونی زینے کی طرف دوڑا۔ اسی وقت اس نے ایک آدمی کو جلدی جلدی زینے سے اترتے دیکھا۔ گھر کے اس حصے میں نیم تاریکی تھی۔ بھاگنے کی کوشش کرنے والے شخص کو نعمان نے پکڑ لیا۔ اس نے نعمان کی گرفت سے آزاد ہونے کی بھرپور کوشش کی۔
ایک لمحے کے لئے نعمان نے اس کا چہرہ دیکھا۔ اسی وقت نعمان کو اس کے سیدھے ہاتھ میں پستول نظر آگیا۔ اس نے پستول چھیننے کے لئے اس کی کلائی پکڑ کر پوری قوت سے موڑ دی۔ پستول نعمان کے ہاتھ میں آگیا۔
ایک دَم وہ آدمی ماہی بے آب کی طرح تڑپا اور نعمان کی گرفت سے آزاد ہوتے ہی گیٹ کی طرف بھاگا۔ اتنی دیر میں دو ملازم ایک مالی ایک خانساماں گولیوں کی آواز سن کر گھر کے پچھلے حصے میں واقع سرونٹ کوارٹرز سے بھاگتے ہوئے آئے اور نعمان کو دبوچ لیا، بھاگنے والا گیٹ سے باہر نکل کر غائب ہوچکا تھا۔
فائرنگ کی آوازیں پولیس کی ایک گشتی جیپ نے بھی سن لی تھیں۔ جو معمول کے رائونڈ پر اس طرف سے گزر رہی تھی۔ جیپ میں انسپکٹر خاور موجود تھا، جو نعمان کو جانتا تھا اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ دشمن نہ جانے کتنی بار اس کی جان لینے کی کوشش کر چکے ہیں، اس نے تیزی سے جیپ اس کے گھر کی جانب موڑ لی۔
جس وقت جیپ نعمان کے گیٹ کے سامنے آ کر رکی تو گھر سے فرار ہونے والا آدمی نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا۔ خاور پھرتی سے نیچے اترا اور گھر کے کھلے ہوئے گیٹ سے اندر داخل ہوگیا۔ اس کے پیچھے دو کانسٹیبل بھی تھے، تب تک مالی اور خانساماں نعمان کو پکڑے ہوئے تھے اور وہ چیخ رہا تھا۔
’’کیا کر رہے ہو کم بختو! چھوڑو مجھے۔ مجرم کبھی کا بھاگ چکا ہے۔‘‘ آواز پہچان کر ملازموں نے نعمان کو چھوڑ دیا۔ وہ اسے حیرت سے گھور رہے تھے۔ انسپکٹر خاور نے دیکھا کہ نعمان کے ہاتھ میں ایک پستول دبا ہوا ہے۔
’’کیا بات ہے نعمان صاحب!‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میرا خیال ہے میرے کسی دشمن نے میرے بیڈروم کو ہدف بنایا ہے۔‘‘ نعمان نے جواب دیا۔ ’’ہمیں پہلے شمائلہ کی خبر لینا چاہئے۔‘‘
نعمان اور انسپکٹر خاور بیرونی زینے سے اوپر پہنچے۔ بیڈ روم کا دروازہ چوپٹ کھلا ہوا تھا۔ بستر پر شمائلہ خون میں نہائی ہوئی بے حس و حرکت پڑی ہوئی تھی۔ نعمان نے آگے بڑھنا چاہا مگر خاور نے اسے روک دیا۔
’’ایک منٹ نعمان صاحب! کیا آپ کے ہاتھ میں آپ کا اپنا پستول ہے؟‘‘
’’جی نہیں، یہ میں نے بھاگنے والے حملہ آور سے چھینا ہے۔‘‘
’’مجھے دکھائیں گے؟‘‘ خاور نے ہاتھ بڑھا کرکہا۔
نعمان نے پستول اس کی طرف بڑھا دیا۔ جسے خاور نے بڑی احتیاط سے اپنے رومال سے پکڑ لیا۔ نال سونگھی، اس میں سے بارود کی بو آ رہی تھی۔
’’سونگھنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ نعمان بولا۔ ’’ظاہر ہے کہ حملہ آور نے اسی کو استعمال کیا ہے۔‘‘
خاور نے آگے بڑھ کر شمائلہ کودیکھا۔ وہ مر چکی تھی۔
’’ملازموں نے آپ کو کیوں پکڑ رکھا تھا؟‘‘ خاور نے نعمان کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔ اس کے لہجے میں تشکیک نمایاں تھی۔
’’اندھیرے کی وجہ سے وہ مجھے مجرم خیال کر رہے تھے۔‘‘ نعمان نے بتایا۔
’’کیا آپ اس وقت کہیں باہر سے آئے ہیں؟‘‘ خاور نے اس کے لباس کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’جی ہاں، مجھے کچھ ضروری رپورٹیں تیار کرنا تھیں۔ اسی لئے ابھی تک دفتر میں کام کر رہا تھا۔‘‘ نعمان نے جواب دیا۔ ’’جیپ گیراج میں چھوڑ کر گھر
میں جانے کے لئے قدم بڑھایا ہی تھا کہ گولیوں کی آواز سنائی دی۔ میں نے اندازہ کر لیا کہ وہ میرے بیڈروم کی جانب سے آئی ہیں۔ چنانچہ میں بیرونی زینے کی طرف بڑھا۔ اسی وقت حملہ آور زینے سے اتر کر بھاگتے ہوئے مجھ سے ٹکرا گیا۔ میں نے اسے پکڑ لیا۔ ایک لمحے کے لئے اس کی صورت دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ اسی وقت میں نے اس کا پستول چھین لیا، مگر افسوس کہ حملہ آور میری گرفت سے نکل کر بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔‘‘
’’کیا آپ کے خیال میں یہ حملہ آپ پر کیا گیا تھا، مگر عدم موجودگی کی وجہ سے آپ بچ گئے اور اس کی زد میں آپ کی بیگم آگئیں؟‘‘
’’ہاں بظاہر تو یہی لگتا ہے لیکن حقیقت کیا ہے، یہ تحقیقات کے بعد ہی معلوم ہوگا۔‘‘ نعمان نے جواب دیا۔
پھر انسپکٹر خاور کی تفتیش کے دوران ایسی کئی باتیں سامنے آئیں جو پولیس ہی نہیں خود نعمان کے لئے حیرت انگیز انکشاف کا درجہ رکھتی تھیں۔ مثلاً معلوم ہوا کہ شمائلہ وہ نہیں تھی جو اس نے نعمان اور گھر والوں کو بتایا تھا۔ وہ ہائی سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھنے والی اور مردوں سے بے باکانہ تعلقات رکھنے والی ایک ’’بٹر فلائی‘‘ یا زیادہ صحیح الفاظ میں ایک کال گرل تھی جو انتہائی شاندار زندگی گزار رہی تھی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ تین مختلف بینکوں میں اس کا بینک بیلنس تیس لاکھ سے بھی زیادہ تھا، یہ بھی ثابت ہوا کہ موت اسی پستول کی گولیوں سے واقع ہوئی تھی، جسے نعمان نے اپنے بیان کے مطابق بھاگنے والے مجرم سے چھینا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس پر نعمان کے ہاتھ کی انگلیوں کے علاوہ کسی اور کے نشانات نہیں پائے گئے۔ ادھر مالی اور باورچی دونوں اس بات پر اڑے ہوئے تھے کہ انہوں نے نعمان کو ہی بیرونی زینے سے اترتے دیکھا تھا اور اس کو مجرم خیال کرتے ہوئے پکڑا تھا۔ جب تک اس نے آواز نہیں نکالی وہ اسے اپنا مالک نہیں حملہ آور خیال کرتے رہے تھے۔
پولیس نے ہرچند اس مفرور شخص کو ڈھونڈنے کی کوشش کی، مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ دو گواہ ایسے بھی ملے جو تقریباً اسی وقت نعمان کے بنگلے سے گزر رہے تھے، انہوں نے پولیس کی جیپ تو آتے دیکھی تھی مگر بنگلے سے کسی آدمی کو نکل کر بھاگتے نہیں دیکھا تھا۔
انسپکٹر خاور نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں نعمان کو گرفتار کرلیا۔ اس کا خیال تھا کہ نعمان نے شمائلہ کی عشوہ طرازیوں اور اس کے حسن سے مسحور ہو کر اس سے شادی کر لی۔ اس سلسلے میں نعمان اور اس کے گھر والے جو داستان بیان کر رہے تھے وہ سچ تھی یا غلط اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ بالفرض وہ سچ بھی تھی تو قتل کا مقصد مزید واضح ہو جاتا تھا۔
نعمان سے شادی کے بعد بھی شمائلہ نے اپنی آزادانہ روش نہیں بدلی، ممکن ہے اس کے ایک سے زیادہ مردوں سے تعلقات ہوں جو نعمان کی غیرت کو جھنجھوڑ گئے اور وہ شمائلہ کی حقیقت معلوم ہونے کے بعد غصے میں پاگل ہوگیا اور شمائلہ کو قتل کردیا۔
شہادتوں سے کسی دوسرے آدمی کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا لیکن اگر کوئی اور بھی تھا تو یہ زیادہ امکان ہے کہ وہ شمائلہ کا کوئی عاشق ہو۔ نعمان دیر سے دفتر سے واپس آیا۔ اس نے اس آدمی اور اپنی بیوی کو شرمناک حالت میں دیکھا اور غصے میں پاگل ہو کر بیوی کا خون کردیا۔ غرض جس زاویے سے بھی دیکھا جائے یہی گمان غالب معلوم ہوتا تھا کہ نعمان کے علاوہ کوئی اور شمائلہ کا قاتل نہیں ہوسکتا۔ گرفتاری کے بعد نعمان کو سروس سے معطل کردیا گیا۔
مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ استغاثے کے پاس تمام تر واقعاتی شہادتیں تھیں۔ کوئی عینی گواہ نہیں تھا جس نے نعمان کو مقتولہ پر گولیاں چلاتے دیکھا ہو۔ پھر استغاثہ یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ نعمان کے پاس وہ پستول جس سے قتل کیا گیا تھا، کہاں سے آیا۔ نعمان کو سرکاری ریوالور ملا ہوا تھا مگر اتفاق سے وہ اس رات نعمان کے پاس نہیں بلکہ اس کے بیڈ روم میں رکھا ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ ریوالور رکھنے کا عادی نہیں تھا، صرف اسی وقت رکھتا تھا جب وہ کسی مہم پر نکلتا تھا۔
وکیل صفائی نے اپنے کیس کی بنیاد تین اہم نکات پر رکھی۔ اول یہ کہ نعمان شمائلہ کی سابقہ زندگی سے قطعاً ناواقف تھا۔ اس لئے اس کو شمائلہ کے خلاف کسی قسم کا کوئی غم و غصہ نہیں ہوسکتا تھا۔ دوسرے نعمان کو کئی مرتبہ جان سے مارنے کی کوشش کی جا چکی تھی، اس لئے یہ عین ممکن تھا کہ ان جرائم پیشہ افراد میں سے کسی نے، جنہیں نعمان کے ہاتھوں نقصانات پہنچے تھے، ایک بار پھر اسے اس کے بیڈ روم میں مارنے کی کوشش کی مگر حملہ آور کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس وقت نعمان اپنے بیڈ روم میں موجود نہیں ہے۔ اس نے بیڈ روم کی نیم تاریکی میں شمائلہ کو نعمان سمجھتے ہوئے اس پر گولیاں چلائیں اور بھاگ نکلا اور تیسرا اہم ترین ’’فیکٹر‘‘ وکیل صفائی نے اپنی مدلل بحث کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ نعمان کے لئے شمائلہ کو قتل کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ وہ بارہ بج کر دس منٹ پر اپنے آفس سے نکلا، جس کے گواہ موجود تھے۔ دفتر سے مکان کا فاصلہ تقریباً پچیس اور پندرہ منٹ کے درمیان طے کیا جاسکتا تھا۔ پولیس کی گشتی جیپ نے گولیوں کی آواز ٹھیک بارہ بج کر پینتیس منٹ پر سنی تھی۔ نعمان اپنے بیان کے مطابق ساڑھے بارہ بجے بنگلے پہنچا تھا۔ بنگلے پر کوئی چوکیدار متعین نہیں تھا۔ اس لئے اسے جیپ سے اترکر گیٹ کھولنے اور جیپ اندر لے جا کر گیراج میں کھڑی کرنے میں یقینا پانچ منٹ صرف ہوئے ہوں گے۔ اس لئے وہ بارہ بج کر پینتیس منٹ پر اپنے بیڈروم میں شمائلہ کو قتل کرنے کے لئے موجود نہیں ہوسکتا تھا۔ بالفرض اگر وہ تیزرفتاری سے جیپ چلاتے ہوئے بیس منٹ سے کم وقت میں بنگلے پہنچ گیا تھا تو اول تو اسے اتنی تیز رفتاری دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور اگر اس نے ایسا کیا تب بھی پولیس جیپ میں انسپکٹر خاور گولیوں کی آواز نہیں سن سکتا تھا۔ وکیل صفائی نے یہ بھی کہا کہ استغاثہ آلۂ قتل کو میرے مؤکل سے متعلق ثابت نہیں کرسکا، اس لئے میرے مؤکل کا یہ بیان سچا مانا جائے گا کہ اس نے حملہ آور سے چھینا تھا۔ ان تمام نکات کی موجودگی میں میرے مؤکل کے خلاف، بلا کسی ادنیٰ شک و شبہے کے، اپنی بیوی کو قتل کرنے کا جرم ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے میں عدالت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ میرے مؤکل کو باعزت بری کردے اور پولیس کو ہدایت کرے کہ وہ اس کیس کی نئے سرے سے تحقیقات کرکے اصل قاتل کو گرفتار کرنے کی کوشش کرے۔
عدالت نے وکیل صفائی کے مؤقف سے اتفاق کرتے ہوئے نعمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا۔
٭ … ٭ … ٭
نعمان عادل، اس واقعے سے سخت ذہنی کوفت اور جذباتی انتشار میں مبتلا ہوگیا تھا۔ اسے شمائلہ سے گہری ہمدردی اور یک گونہ انسیت تھی۔ اس کی داستان سننے اور اسے اپنے گھر پناہ دینے کے باوجود اس نے شمائلہ سے شادی کرنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا لیکن شمائلہ نے اپنی خدمت اور محبت سے اس کے بھائی بہن اور خاص طور سے اس کی ماں کے دل کو جیت لیا تھا۔ یہ شادی اس نے اپنی ماں کے اصرار اور اس خیال سے کی تھی کہ شاید اس طرح وہ شمائلہ کی محرومیوں کا ازالہ کرسکے گا۔
اب اس کی دُہری زندگی کا راز فاش ہونے کے باوجود وہ اس سے کوئی خاص بدگمان نہیں ہوا تھا۔ وہ خوش تھا کہ شمائلہ جیسی زندگی بھی گزار رہی تھی، اس نے خلوص دل سے اپنی اس زندگی کو ترک کر کے سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش کی تھی۔ اسے شمائلہ کے قتل سے جذباتی صدمہ پہنچا تھا۔ قتل کے الزام سے رہائی کے بعد اس کو ملازمت پر بحال کردیا گیا تھا لیکن وہ محسوس کر رہا تھا کہ اسے اپنی روزمرہ کی زندگی سے ہٹ کر کچھ دن سکون و آرام سے گزارنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اس نے دفتر سے دو ماہ کی چھٹی لی اور مری روانہ ہوگیا۔
مری میں اس نے ایک مکان کرائے پر لے لیا۔ وہ دن کا بیشتر وقت اِدھر اُدھر گھومنے میں گزارنے لگا۔ اس دوران اسے کئی مرتبہ کبھی پہاڑیوں، کبھی کسی ریسٹورنٹ اور کبھی بازار میں ایک جوڑے کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ لڑکی بہت حسین، معصوم اور بھولی بھالی معلوم ہوتی تھی، جبکہ نوجوان کے خد و خال اس کے انداز و اطوار اور حرکات و سکنات سے صاف نظر آتا تھا، جیسے وہ کوئی آوارہ اور عیاش قسم کا نوجوان ہے۔ لڑکی کے چہرے پر عموماً ایسا تاثر ہوتا تھا جیسے وہ بدرجہ مجبوری اس نوجوان کو برداشت کر رہی ہے۔ ایک دو بار نعمان اور اس لڑکی کی نگاہیں چار بھی ہوئی تھیں اور نعمان کو اس کی نظروں میں ایک ایسی خاموش اپیل محسوس ہوئی تھی جیسے وہ اپنے ساتھی نوجوان سے بچنے کے لئے اس کی مدد کی خواہشمند ہے۔
ایک دن شام سے کچھ پہلے نعمان مال روڈ پر ٹہل رہا تھا کہ اچانک وہ لڑکی کچھ گھبرائی ہوئی سی اس کے پاس آئی۔
’’خدا کے لئے میری مدد کریں۔‘‘ اس نے جلدی جلدی بولتے ہوئے کہا۔ ’’میرا نام سمیرا ہے۔ میرے بھائی کا ایک آوارہ دوست مجھے زبردستی اپنے ساتھ سنیما لے جانا چاہتا ہے۔ میں اس کی نیت جانتی ہوں، وہ پکچر دیکھنا نہیں بلکہ مجھے پریشان کرنا چاہتا ہے۔ آپ میری ایک عزیز سہیلی پروین کے بھائی بن جایئے اور موقع محل کی مناسبت سے میری ہاں میں ہاں ملاتے رہئے، باقی میں سنبھال لوں گی۔ آپ کا نام؟‘‘ مگر سمیرا کو اس سے زیادہ کچھ کہنے کا موقع نہیں مل سکا۔
نعمان نے دیکھا کہ وہ نوجوان تیز قدموں سے چلتا ہوا ان کے قریب آیا اور نعمان کو گھور کر دیکھتے ہوئے سمیرا سے مخاطب ہوا۔ ’’تم اچانک مجھ سے ہاتھ چھڑا کر ادھر کیوں چلی آئیں؟‘‘
’’ان سے ملو سہیل!‘‘ سمیرا نے سنبھلتے ہوئے کہا۔ ’’یہ میری بہت پیاری سہیلی پروین کے بھائی ہیں، مسٹر…‘‘
’’نعمان۔‘‘ نعمان نے جلدی سے بات پوری کردی۔ ’’مجھے نعمان کہتے ہیں، نعمان عادل۔‘‘
’’اور نعمان، یہ ہیں میرے بھائی کے بہت قریبی دوست مسٹر عزیر…‘‘ سمیرا نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’نعمان صاحب! آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اچانک آپ سے مل کر کتنی خوشی ہو رہی ہے۔ آپ لوگ جب سے لاہور گئے ہیں، پروین نے مجھے ایک خط بھی نہیں لکھا، حالانکہ میں اسے تین خط بھیج چکی ہوں۔ خیر… اسے چھوڑیئے، یہ بتائیں آپ اکیلے آئے ہیں یا پروین اور دوسرے گھر والے بھی ساتھ ہیں؟‘‘
’’سرِ دست تو میں اکیلا ہی آیا ہوں۔‘‘ نعمان نے جواب دیا۔ ’’اگلے ہفتے تک باقی سب لوگ بھی پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’اب یہ آپ مجھ سے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ سمیرا مسکرائی۔ ’’جیسے میں جانتی نہیں ہوں کہ آنٹی کی صحت دو تین سال سے خراب چل رہی ہے۔ ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق وہ ہر سال سیزن شروع ہوتے ہی سب سے پہلے آپ یا پروین کے ساتھ مری آ جاتی ہیں اور باقی لوگ بعد میں آتے ہیں، کیا آنٹی واقعی آپ کے ساتھ نہیں آئیں؟‘‘
’’آپ جیسی خطرناک حد تک ذہین لڑکی سے کچھ چھپانا بہت مشکل ہے۔‘‘ نعمان نے ایک شرمندہ سی مسکراہٹ سے کہا۔ ’’آپ کا خیال درست ہے، امی میرے ساتھ آئی ہیں۔‘‘
’’تب پھر میں ابھی آپ کے ساتھ ان سے ملنے چل رہی ہوں۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہی ہو!‘‘ عزیر جلدی سے بولا۔ ’’ہم لوگ تو پکچر دیکھنے جا رہے ہیں۔‘‘
’’آپ لوگ اپنا پروگرام خراب نہ کریں۔‘‘ نعمان نے کہا۔ ’’امی تو اب آ ہی گئی ہیں، ان سے پھر کبھی مل لیں۔‘‘
’’یہ بات ہے تو پھر آپ بھی ہمارے ساتھ پکچر دیکھنے چلیں۔‘‘
’’آپ کہہ رہی ہیں تو ضرور چلوں گا۔‘‘
عزیر کے چہرے پر ایک ناگوار تاثر ابھرا جسے اس نے بڑی مشکل سے چھپایا۔
’’رہنے دو۔‘‘ اس نے بیزاری سے کہا۔ ’’ابھی تم نعمان صاحب کی والدہ سے ملنا چاہتی ہو تو چلو وہیں چلیں۔‘‘
’’آپ وہاں جا کر بلاوجہ بور ہوں گے۔‘‘ سمیرا نے کہا۔ ’’میں نعمان صاحب کے ساتھ چلی جائوں گی۔ رہا پکچر کا سوال تو اب نعمان آگئے ہیں، جب بھی جائیں گے، انہیں ساتھ لے کر جائیں گے۔ آیئے چلیں۔‘‘ کہتے ہوئے سمیرا نے نعمان کا بازو پکڑا اور دوسری طرف گھوم گئی۔ نعمان کو بھی اس کے ساتھ قدم بڑھانے پڑے۔ عزیر بڑی غصیلی نظروں سے ان دونوں کو گھور رہا تھا۔
کچھ دور جا کر نعمان نے کہا۔ ’’آپ کیا سچ مچ میرے گھر جائیں گی؟‘‘
’’کیا حرج ہے، اگر آپ کا گھر دیکھ لیا جائے۔‘‘ سمیرا مسکرانے لگی۔ ’’ممکن ہے کبھی آئندہ مجھے آپ کی مدد کی ضرورت پڑ جائے۔‘‘
’’کیا آپ اتنی آسانی سے اجنبیوں پر اعتماد کرلیتی ہیں؟‘‘
’’آپ خود کو اجنبی تو نہیں کہہ سکتے۔ پچھلے ایک ہفتے میں، میں آپ کو کم از کم چار مرتبہ مختلف مقامات پر دیکھ چکی ہوں۔ یہ بات البتہ بڑی عجیب سی ہے کہ نامعلوم کیوں مجھے احساس ہوا کہ عزیر سے چھٹکارا حاصل کرنے میں آپ پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ آپ چاہیں تو اسے ہم عورتوں کی نسائی حس کہہ لیں۔‘‘
’’عزیر آپ کو اتنا ہی ناپسند ہے تو آپ اس کے ساتھ باہر کیوں نکلتی ہیں؟‘‘ نعمان نے پوچھا۔
’’بھائی جان کے خیال سے۔‘‘ سمیرا نے جواب دیا۔ ’’والدین کے انتقال کے بعد سے ایک طرح سے انہوں نے ہی میری پرورش کی ہے۔ میں ان کا بے حد احترام کرتی ہوں۔ اگرچہ اس بات پر مجھے حیرت ہے کہ عزیر جیسے لوگ ان کے دوستوں میں کیسے شامل ہیں، ستم بالائے ستم یہ ہے کہ عزیر مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور کسی نامعلوم وجہ سے بھائی جان مجھ پر زور دے رہے ہیں کہ میں یہ رشتہ قبول کرلوں۔ وہ ہم دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع دینے کے لئے ہی مری لائے ہیں لیکن مجھے عزیر پہلی ہی ملاقات میں اچھا نہیں لگا تھا۔ مگر میں بھائی جان کے خیال سے چلی آئی۔ یہ بھی سوچا کہ ممکن ہے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے میری طبیعت کا تکدّر دور ہو جائے، مگر عزیر کی حرکتیں ایسی ہیں کہ وہ روز بہ روز میری نظروں سے گرتا گیا۔ اب میں ہرگز اس کے ساتھ شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ بھائی جان نے اصرار کیا تو میں ان کی بھی مخالفت کروں گی۔‘‘
٭ … ٭ … ٭
اس اتفاقیہ ملاقات کے بعد نعمان اور سمیرا اکثر شاموں کو ایک دوسرے سے ملنے لگے۔ نعمان بھی جذباتی ٹوٹ پھوٹ سے گزر کر مری آیا تھا۔ سمیرا نے اپنی محبت سے اس کی اذیت کو تقریباً ختم کردیا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ شمائلہ سے اس کی شادی میں حقیقتاً ہمدردی، خلوص اور ایک بے سہارا لڑکی کو تحفظ دینے کا خیال زیادہ کارفرما تھا۔ والدہ کی خواہش کی تکمیل بھی پیش نظر تھی۔ اس میں اس کی اپنی پسند کو کوئی خاص مقام حاصل نہیں تھا جبکہ سمیرا سے ملنے کے بعد اسے زندگی میں پہلی مرتبہ یہ احساس ہو رہا تھا کہ وہ واقعی کسی سے محبت کرنے لگا ہے۔
لیکن ایک بات جس کا نعمان کو ادراک ہوا یہ تھی کہ جب سے وہ مری آیا تھا دو تین پراسرار آدمی باری باری شب و روز اس کی نگرانی کر رہے تھے۔ وہ جہاں بھی جاتا، ان میں سے کوئی نہ کوئی سائے کی طرح کبھی پیدل، کبھی بائیک اور کبھی کسی پرانی سی کار میں اس کے ساتھ لگا رہتا تھا اور یہ کام اتنی ہوشیاری سے انجام دیا جا رہا تھا کہ نعمان کیا، کبھی سمیرا کو بھی تعاقب کا شبہ تک نہ ہوسکا تھا۔
ایک شام سمیرا نعمان سے ملی تو وہ بہت پریشان اور افسردہ نظر آ رہی تھی۔ نعمان نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا۔ ’’بھائی جان نے میری مرضی کے خلاف عزیر سے میری شادی کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ اس مسئلے پر میری ان سے خاصی جھڑپ ہوچکی ہے مگر وہ اپنا فیصلہ بدلنے پر آمادہ نہیں ہیں۔‘‘
’’اگر تم کہو تو میں ان سے مل کر بات کروں؟‘‘ نعمان نے کہا۔ ’’کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے سامنے کوئی متبادل راستہ ہو تو وہ اپنے فیصلے پر زیادہ اچھی طرح غور کرسکتا ہے۔‘‘
’’کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ سمیرا نے افسردگی سے سر ہلایا۔ ’’میں ان سے آپ کا ذکر کر چکی ہوں کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور یہ کہ آپ ہر اعتبار سے عزیر سے بہتر ہیں مگر بھائی جان تو آپ کا نام سن کر سخت غصے میں آگئے۔‘‘
اس کی بات سن کر نعمان چونک کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
’ارے…! وہ کیوں میرا ذکر سن کر غصے میں آگئے؟‘‘ نعمان نے پوچھا۔
سمیرا ایک گہری سانس خارج کرکے بولی۔ ’’کہنے لگے محبت جوانی کی دیوانگی کا نام ہوتا ہے جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی۔ آج تم نعمان کو چاہتی ہو، کل تمہاری شادی عزیر سے ہوجائے گی تو تم اسے اس سے زیادہ پسند کرنے لگو گی۔ میں نے اصرار کیا کہ وہ کم ازکم آپ سے ایک بار مل لیں، پھر کوئی رائے قائم کریں مگر وہ ملاقات کرنے کی تجویز پر ایسے بھڑکے جیسے میں نے انہیں کسی جلاد سے ملنے کا مشورہ دے دیا ہے۔‘‘
’’پھر اب کیا ارادہ ہے…؟‘‘
’’بھائی جان اپنے فیصلے پر اڑ سکتے ہیں تو پھر میں بھی اڑ سکتی ہوں۔‘‘ سمیرا نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’میں تعلیم یافتہ، عاقل اور بالغ ہوں۔ اپنے قانونی اور مذہبی حقوق سے واقف ہوں، اپنا برابھلا سمجھ سکتی ہوں۔ میں ہرگز اس اوباش فطرت عزیر سے شادی نہیں کروں گی۔ یہ بتایئے کہ آپ میرا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں یا نہیں؟‘‘
’’اگر یہی تمہارا فیصلہ ہے تو میں بھی پیچھے قدم ہٹانے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ نعمان نے مستحکم لہجے میں جواب دیا۔ ’’مگر سوچ لو مجھ سے شادی کرکے کہیں تمہیں اپنے والد کی وراثت سے محروم نہ ہونا پڑ جائے؟‘‘
’’ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ڈیڈی نے اپنی وصیت کے ذریعے تمام جائداد اور بینک بیلنس ہم بھائی، بہن میں برابر برابر تقسیم کردیا ہے۔ میں نے عارضی طور پر اپنے حصے کی جائداد کی نگرانی اور دیکھ بھال بھائی جان کے سپرد کردی ہے اور اس کے لئے ایک مختار نامہ لکھ دیا ہے، مگر میں جب چاہوں اس مختار نامے کو منسوخ کرکے جائداد کا نظم اپنے یا کسی اور کے ہاتھ میں دے سکتی ہوں۔‘‘
’’پھر اب کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’بھائی جان کو شادی کی اتنی عجلت ہے کہ انہوں نے اس ماہ کی پچیس تاریخ مقرر کردی ہے۔ وہ شادی بھی یہیں مری میں خاموشی اور سادگی سے کرنا چاہتے ہیں۔ شاید انہیں اندیشہ ہے کہ کراچی میں شادی ہوئی تو خاندان میں بھی اس کی مخالفت کی جائے گی۔ پچیس تاریخ میں ابھی دس دن باقی ہیں، اس لئے میرا خیال ہے کہ ہمیں کل پرسوں ہی راولپنڈی جاکر عدالت سے رجوع کرلینا چاہئے تاکہ مجھے قانونی طور پر اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے۔ راولپنڈی میں میری کئی سہیلیاں ہیں، ان کے تعاون سے عقد کا انتظام بھی ہوسکتا ہے۔ ہم وہاں سے شادی کرکے ہی مری واپس آئیں گے۔ میں بھائی جان کو بتا دوں گی کہ میں نے شادی کرلی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‘‘
٭…٭…٭
سمیرا اور نعمان نے جو طے کیا تھا، ویسا ہی کیا۔ راولپنڈی سے واپسی پر نعمان، سمیرا کے ساتھ اس کے بھائی اختر سے ملنے جانا چاہتا تھا مگر سمیرا نے اسے سمجھایا کہ سردست ایسا کرنا مصلحت کے خلاف ہے۔ بھائی جان آپ کو میرے ساتھ دیکھ کر غصے میں آسکتے ہیں اس لئے آپ گھر جائیں، میں بھائی جان کو اطلاع دے کر زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے میں واپس پہنچ جائوں گی اور یہ دو گھنٹے بھی مجھے اپنی کچھ ضروری چیزیں پیک کرنے کے لئے چاہئیں، ورنہ بھائی جان سے بات کرنے کے لئے تو پانچ منٹ ہی کافی ہیں۔‘‘
٭…٭…٭
اختر نے خلاف توقع سمیرا کی بات بڑے صبروتحمل سے سنی۔ ’’تو آخر تم نے اپنی من مانی کر ہی لی!‘‘ وہ بولا۔ ’’خیر تمہاری مرضی، میں یہی دعا کرسکتا ہوں کہ تمہیں کبھی اپنے اس فیصلے پر پچھتانا نہ پڑے۔ مجھے شبہ ہے کہ نعمان نے تم سے دولت کی خاطر شادی کی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ اسے کبھی اتنا اختیار مت دینا کہ وہ تمہاری جائداد پر قابض ہوجائے۔ ایک بات اور …تم میری بہن ہو، جب چاہو، مجھ سے ملنے آسکتی ہو لیکن خبردار! کبھی نعمان کے ساتھ یہاں یا کراچی میرے گھر میں قدم مت رکھنا۔ میں اس شخص کی صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ اگر تم نے کبھی ایسا کیا تو مجھے ڈر ہے کہ ہم دونوں میں سے ایک کی جان ضرور جائے گی۔ بس مجھے اتنا ہی کہنا تھا، اب تم جاسکتی ہو۔‘‘
سمیرا کو حیرت ہوئی کہ آخر اس کا بھائی نعمان سے اتنی نفرت کیوں کرتا ہے اور کیا واقعی یہ نفرت تھی یا کوئی اور چیز کہ وہ، نعمان کی صورت تک دیکھنا نہیں چاہتا تھا مگر سمیرا کو اس بات کی بہت خوشی تھی کہ اپنی مرضی سے شادی کرنے پر اسے جس ہنگامہ آرائی کا خطرہ تھا، وہ پیش نہیں آیا۔ اس نے اپنی کچھ ضروری چیزیں اور کپڑے دو سوٹ کیسوں میں پیک کئے، گیراج میں کھڑی ہوئی کار نکالی، جس کی چابی اس کے پاس رہتی تھی اور روانہ ہوگئی۔ اس نے کار کے بارے میں اختر سے پوچھا اور نہ اختر نے اسے روکنے کی کوشش کی ۔
٭…٭…٭
ایک ہفتہ بغیر کسی پریشانی کے بہت خوش اسلوبی سے گزر گیا۔ ایک صبح ناشتے سے فارغ ہوکر دونوں نے آئوٹنگ کا پروگرام بنایا لیکن مری کی حدود سے باہر نکل کر معلوم ہوا کہ کار میں پیٹرول ختم ہوگیا ہے۔ نزدیک ترین پیٹرول پمپ بھی تقریباً ایک میل دور تھا۔ کار کو ایک میل تک دھکا دے کر لے جانا بہت مشکل تھا۔ نعمان نے تجویز پیش کی کہ وہ ڈکی سے گیلن کا ٹن نکال کر پیدل یا کسی سے لفٹ لے کر پیٹرول پمپ جائے اور پیٹرول لے آئے تب تک سمیرا کار میں بیٹھ کر انتظار کرے یا پھر آس پاس کے پہاڑی نظاروں سے لطف اندوز ہوتی رہے۔ مجبوراً ایسا ہی کیا گیا اور نعمان پیٹرول لینے چلا گیا۔ اتفاق سے اسے ایک کار میں لفٹ مل گئی، جس سے سمیرا کو یہ توقع ہوگئی کہ اسے پندرہ بیس منٹ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
وہ سڑک پر ایک جانب لگے چھوٹے ریلنگ کے سہارے کھڑی ہوکر نیچے دور جاتی ہوئی ڈھلان کا نظارہ کرنے لگی۔ سڑک سے دس پندرہ فٹ نیچے چھوٹے درختوں کا ایک جھنڈ تھا جس کے اردگرد گھاس اور پودوں میں بہت خوبصورت پھول لگے ہوئے تھے۔ سمیرا کو وہ پھول اتنے اچھے لگے کہ بظاہر مشکل معلوم ہونے کے باوجود وہ سوچنے لگی کہ کیا کسی طرح سڑک سے اتر کر ڈھلان پر چلتے ہوئے پھول توڑنا ممکن ہے یا نہیں؟
وہ ابھی جھکی ہوئی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ کسی نے اسے پشت کی جانب سے دھکا دیا۔ سمیرا کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور وہ ڈھلان پر تیزی سے لڑھکتی ہوئی نیچے کی جانب چلی۔ اگر وہ اسی طرح گرتی چلی جاتی تو موت یقینی تھی، مگر ابھی اس کی زندگی باقی تھی کہ وہ درختوں کے جھنڈ سے ٹکرا کر رک گئی۔
ہوش ٹھکانے آئے تو اس نے تیزی سے اوپر کی سمت دیکھا، مگر وہاں کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے اپنا جائزہ لیا۔ ایک دو جگہ خراشیں آنے کے علاوہ وہ بالکل خیریت سے تھی۔ سڑک تک کا فاصلہ بھی اتنا زیادہ نہیں تھا کہ کوئی اس کی آواز نہ سن سکے، چنانچہ اس نے مدد کے لئے چلاّنا شروع کردیا۔
ابھی اس نے دوسری آواز نکالی تھی کہ ریلنگ پر نعمان نمودار ہوا۔ اس نے جھک کر دیکھا اور سمیرا کو دیکھ کر اس کے چہرے پر حیرت کے تاثرات ابھرے۔
’’تم وہاں کیا کررہی ہو…؟‘‘ اس نے پکار کر کہا۔
’’پہلے مجھے یہاں سے اوپر پہنچائو پھر بتاتی ہوں۔‘‘
نعمان نے کار کی ڈکی میں پڑی رسی نکالی جو کافی لمبی تھی، بآسانی سمیرا تک پہنچ گئی۔ نعمان نے رسی کا دوسرا سرا ریلنگ میں باندھ دیا اور خود بھی نیچے اترگیا، پھر وہ سمیرا کو سہارا دیتے ہوئے اوپر لایا۔
سڑک پر پائوں رکھتے ہوئے سمیرا نے ایک گہری سانس لی اور پوچھا۔ ’’آپ پیٹرول لے کر کب آئے؟‘‘
’’مشکل سے پانچ منٹ ہوئے ہوں گے۔ واپسی میں بھی لفٹ مل گئی تھی۔ یہاں آکر دیکھا تو تم غائب تھیں، پھر تمہاری آواز کانوں میں آئی، بھاگ کر دیکھا تو تم وہاں موجود تھیں، مگر تمہیں نیچے اترنے کی کیا سوجھی تھی؟‘‘
’’میں وہاں خود نہیں گئی تھی،‘‘ سمیرا نے غور سے نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کسی نے مجھے دھکا دے کر کھائی میں گرانا چاہا تھا۔ یہ خدا کی قدرت تھی کہ میں ان درختوں سے ٹکرا کر رک گئی، ورنہ ہڈی پسلی کا پتا بھی نہیں چلتا۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ نعمان بری طرح چونک گیا۔ ’’تمہیں کوئی کیوں مارنا چاہے گا۔ ضرور تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
’’کیسی باتیں کررہے ہیں؟ کیا میں پاگل ہوں، میں نے صاف طور پر کسی کو دھکا دیتے ہوئے محسوس کیا تھا۔‘‘
’’پھر تو یہ انتہائی سنگین بات ہے، ہمیں اس کی پولیس میں رپورٹ کرنی چاہئے۔‘‘
’’کرنا تو چاہئے مگر میں کسی جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتی۔ جو ہونا تھا، ہوچکا، آئندہ احتیاط رکھوں گی۔‘‘ سمیرا نے کہا۔ ’’آیئے واپس چلیں، اب تفریح کا موڈ نہیں رہا۔‘‘
٭…٭…٭
اس واقعے کے تین چار دن بعد ایک سہ پہر نعمان اور سمیرا بازار میں ٹہلتے ہوئے ایک ریسٹورنٹ میں کافی پینے کے لئے رک گئے۔ نعمان نے ایک میز پر بیٹھتے ہوئے ویٹر کو کولڈ کافی لانے کا آرڈر دیا۔ ویٹر تھوڑی دیر میں کافی کے دو گلاس لے آیا۔ نعمان نے اپنا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ بھرا۔ سمیرا نے بھی اپنا گلاس اٹھایا۔ ابھی اس نے گلاس منہ سے لگایا ہی تھا کہ ایک جوڑا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے قریب سے گزرا۔ درمیان میں صرف اتنی جگہ تھی کہ ایک وقت میں ایک ہی فرد گزر سکتا تھا مگر وہ دونوں شاید ایک لمحے کے لئے بھی الگ ہونا نہیں چاہتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لڑکی سمیرا کے قریب سے گزرتے ہوئے اس سے ٹکرائی۔ گلاس سمیرا کے ہاتھ سے چھوٹ کر میز پر گرا۔ ساری کافی ٹیبل کلاتھ پر بہہ گئی۔
’’اوہ آئی ایم سوری!‘‘ گزرنے والی لڑکی نے سمیرا سے معذرت کی۔
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ سمیرا نے اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے کہا اور تب ہی اس کی نظر ٹیبل کلاتھ پر پڑی ہوئی دو گولیوں پر پڑی تھی۔ ان میں سے ایک پوری تھی جبکہ دوسری نصف کے قریب کافی میں گھل چکی تھی۔ سمیرا نے حیرت سے نعمان کی طرف دیکھا جو خود بھی ان گولیوں کو گھور رہا تھا۔
’’یہ کیا ہے…؟‘‘ سمیرا نے پوچھا۔
’’میں بھی یہی دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’کیا ایسی گولیاں آپ کے گلاس میں بھی ہیں؟‘‘
’’ابھی معلوم ہوجاتا ہے۔‘‘ نعمان نے کہا اور اٹھ کر ریسٹورنٹ کے واش بیسن میں گلاس خالی کردیا، مگر اس میں کوئی گولی نہیں تھی۔
’’نہیں! میرے گلاس میں کوئی گولی نہیں ہے۔‘‘ اس نے واپس آکر سمیرا کو بتایا۔
’’تب میرے ہی گلاس میں کیوں…؟‘‘
’’یہ بڑی مشکوک بات ہے۔‘‘ نعمان نے کہا۔ ’’میں ابھی منیجر سے بات کرتا ہوں۔‘‘
مگر منیجر اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکا کہ سمیرا کے گلاس میں وہ گولیاں کہاں سے آئیں۔ جس ویٹر نے کافی پیش کی تھی، اس سے بازپرس کی گئی۔ اس کا جواب تھا کہ اسے ریسٹورنٹ کے کچن سے جس طرح گلاس ملے، اس نے اسی طرح لا کر میز پر رکھ دیئے۔ باورچی بھی اس بارے میں کچھ نہیں بتا سکا۔ منیجر بات کو رفع دفع کرنا چاہتا تھا، مگر نعمان نے وہ ٹیبل کلاتھ مع گولیاں میز سے اٹھا لیا۔
’’میں ان گولیوں کا کسی لیبارٹری میں تجزیہ کرائوں گا۔‘‘ اس نے منیجر کو بتایا۔ ’’اور اگر کوئی خطرناک چیز ثابت ہوئی تو اس کی پولیس میں رپورٹ کروں گا۔‘‘
دوسرے دن لیبارٹری سے رپورٹ مل گئی۔ ان دونوں گولیوں میں سریع الاثر زہر شامل تھا۔ نعمان رپورٹ اور سمیرا کو ساتھ لے کر پولیس اسٹیشن پہنچا۔ ساری روداد بیان کی، ساتھ ہی اس واقعے کا بھی ذکر کردیا، جب کسی نے سمیرا کو کھائی میں دھکا دینا چاہا تھا۔
’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں، کوئی آپ کی بیوی کو مارنا چاہتا ہے؟‘‘ اسٹیشن انچارج انسپکٹر عارف نے سوال کیا۔
’’یہ تو صاف نظر آرہا ہے۔‘‘ نعمان نے کہا۔
’’مگر آپ کی بیوی کا ایسا دشمن کون ہوسکتا ہے؟‘‘
’’دو ہفتے قبل ہماری شادی ہوئی ہے انسپکٹر!‘‘ نعمان نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’میں سمیرا کی سابقہ زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہم نے یہ شادی ان کے بھائی کی مرضی کے خلاف کی ہے۔ وہ ان کی شادی اپنے ایک دوست عزیر سے کرنا چاہتے تھے اور میرا خیال ہے کہ عزیر کوئی اچھا آدمی نہیں ہے۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے اس نے انتقاماً سمیرا صاحبہ کو مارنے کی کوشش کی…؟‘‘
’’آپ میری جگہ ہوتے تو کیا آپ کے ذہن میں یہ شبہ پیدا نہ ہوتا؟ میں تو سمیرا کے بھائی کو بھی شبے سے پاک نہیں سمجھتا۔‘‘
’’نہیں! بھائی جان ایسا نہیں کرسکتے۔‘‘ سمیرا نے ایک دم کہا۔ ’’البتہ عزیر سے کچھ بعید نہیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘ انسپکٹر عارف نے کہا۔ ’’میں آپ کی رپورٹ درج کئے لیتا ہوں اور عزیر سے بھی پوچھ گچھ کروں گا۔‘‘
’’یہ صرف میرا ایک خیال ہے۔‘‘ نعمان نے کہا۔ ’’آپ صرف عزیر سے ہی پوچھ گچھ نہ کریں بلکہ اس معاملے کی پوری تحقیقات کریں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ آپ دو تین دن کے بعد تشریف لائیں، میں ابتدائی تحقیقات کے بعد آپ لوگوں کا بھی مفصل بیان لینا چاہوں گا۔‘‘ انسپکٹر عارف نے کہا۔
٭…٭…٭
تیسرے دن خود انسپکٹر عارف نے فون کرکے نعمان اور سمیرا کو پولیس اسٹیشن بلایا۔ پہلے دونوں واقعات کے بارے میں ان کا بیان لیا، پھر کچھ سوالات کئے۔
’’دیکھئے جہاں تک آپ کے شبے کا تعلق ہے۔‘‘ اس نے آخر کارکہا۔ ’’تو وہ درست نہیں ہے۔ میں نے تحقیقات کی ہے۔ عزیر آپ دونوں کی شادی کے دوسرے دن ہی مری سے واپس جا چکا ہے، اس لئے ظاہر ہے کہ وہ سمیرا کو دھکا دینے کے لئے موجود تھا اور نہ ان کے کافی کے گلاس میں زہریلی گولیاں ڈالنے کے لئے…!‘‘
’’تب پھر یہ اچانک کون سمیرا کا دشمن پیدا ہوگیا ہے؟‘‘ نعمان نے حیرت کا اظہار کیا۔
’’میں اختر صاحب سے بھی مل چکا ہوں۔‘‘ عارف نے بتایا۔ ’’اس بارے میں ان کا ایک نظریہ ہے۔‘‘
’’اچھا!‘‘ نعمان نے کہا۔ ’’وہ کیا کہتے ہیں؟‘‘
’’ان کا خیال ہے کہ یہ حرکت آپ کی بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ عارف نے غور سے نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ پیٹرول لے کر واپس آئے تو آپ نے دیکھا کہ سمیرا ریلنگ پر جھکی نیچے دیکھ رہی ہے۔ آپ یقینا انہیں دھکا دے سکتے تھے اور پھر یہ دیکھ کر کہ وہ کھائی میں گرنے سے بچ گئی ہیں، انہیں اوپر لانے کا ڈھونگ بھی رچا سکتے تھے، پھر ریسٹورنٹ میں! حقیقت یہ ہے کہ آپ سے زیادہ سمیرا کے گلاس میں زہریلی گولیاں ڈالنے کا موقع اور کسی کو حاصل نہ تھا۔‘‘
’’بہت خوب!‘‘ نعمان نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ’’اور میں اس لڑکی کو جس سے چند دن پہلے میں نے محبت کی شادی کی ہے اور اب بھی بے پناہ محبت کرتا ہوں، کیوں مارنا چاہوں گا؟‘‘
’’سمیرا صاحبہ کی دولت کے لئے…!‘‘ انسپکٹر عارف نے کہا اور پھر فوراً ہی آگے بولا۔ ’’یہ میرا نہیں اختر صاحب کا خیال ہے لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے اس کیس کی پوری تحقیقات کرنی پڑے گی۔‘‘
’’ضرور کیجئے۔‘‘ سمیرا بول اٹھی۔ ’’لیکن خود کو غیر جانبدار رکھ کر! مجھے بھائی کے خیال سے اتفاق نہیں ہے۔ نعمان مجھے کوئی نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ رہا میری دولت کا سوال تو میں نے بھائی جان کا مختار نامہ کسی کے کہنے سے نہیں اپنی مرضی سے ختم کیا ہے اور میرے اصرار کے باوجود نعمان نے مجھے اپنے حق میں مختار نامہ لکھنے کی اجازت نہیں دی۔‘‘
’’آپ برا نہ مانیں سمیرا صاحبہ! میں کھلے ذہن سے ہی تحقیقات کروں گا۔‘‘ عارف نے جلدی سے کہا۔
٭…٭…٭
سمیرا اور نعمان پولیس اسٹیشن سے باہر آرہے تھے کہ اچانک سیڑھیوں پر نعمان کا سامنا انسپکٹر خاور سے ہوگیا۔ انسپکٹر خاور بھی کچھ دن کی چھٹی لے کر گھومنے مری آیا ہوا تھا۔ ’’او ہیلو نعمان صاحب!‘‘ خاور نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ ’’آپ یہاں کیسے…؟‘‘
’’ایک ضروری کام کے سلسلے میں آیا تھا۔‘‘ نعمان نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔ وہ انسپکٹر خاور کو دیکھ کر کچھ پریشان ہوگیا تھا۔
’’یہ آپ کے ساتھ کون ہیں… تعارف نہیں کرائیں گے؟‘‘
’’یہ میری بیوی سمیرا ہیں۔‘‘ نعمان نے دانستہ مختصر تعارف کرایا۔
’’تو آپ نے دوسری شادی کرلی؟‘‘ خاور نے انکشاف کیا۔
’’دوسری شادی…؟‘‘ سمیرا چونکی۔
’’جی ہاں! کیا مسٹر نعمان نے آپ کو نہیں بتایا؟‘‘ خاور نے کہا۔ ’’مگر آپ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ ان کی پہلی بیگم موجود نہیں ہیں، ان کا انتقال ہوچکا ہے بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں کہ انہیں قتل کردیا گیا تھا۔‘‘
’’اوہ…!‘‘ بے اختیار سمیرا کی زبان سے نکلا۔ ’’کس نے قتل کیا تھا؟‘‘
’’پولیس کے خیال کے مطابق خود نعمان صاحب نے!‘‘ خاور اس صورتحال سے بہت لطف اندوز ہورہا تھا۔ ’’ان پر مقدمہ بھی چلا تھا لیکن عدالت نے ناکافی ثبوت کی وجہ سے انہیں شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا تھا۔ اس کیس کا انچارج میں ہی تھا۔ میں نے بعد میں پھر نئے سرے سے تحقیقات کی لیکن اگر نعمان صاحب کے علاوہ یہ حرکت کسی اور نے کی تھی تو میں اس کا پتا لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔‘‘
’’میرا خیال ہے انسپکٹر خاور کہ آپ کو جتنا ثواب کمانا تھا، کما چکے اس لئے اب ہمیں اجازت دیجئے۔‘‘ نعمان نے ناگواری سے کہا اور پھر سمیرا کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’آئو چلیں، ہمیں دیر ہورہی ہے۔‘‘
٭…٭…٭
سمیرا سارے راستے خاموش رہی۔ نعمان نے بھی کوئی بات نہیں کی لیکن گھر پہنچ کر اس نے وضاحت کرنا ضروری سمجھا۔
’’میں شرمندہ ہوں سمیرا کہ تم سے اپنی پہلی شادی کی بات چھپائی۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’مگر اس کی واحد وجہ یہی تھی کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے تمہیں اس بارے میں بتایا توکہیں تم مجھ سے شادی کرنے سے انکار نہ کردو۔‘‘
’’کیا وہ محبت کی شادی نہیں تھی؟‘‘ سمیرا نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں! مجھے شمائلہ ناپسند نہیں تھی، مگر یہ سچ ہے کہ میں نے اسے بے سہارا سمجھ کر اور اپنی والدہ کے اصرار پر شادی کی تھی۔‘‘
’’بے سہارا سمجھ کر! کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ بے سہارا نہیں تھی؟‘‘
’’بالکل نہیں! خدا جانے اس نے ہم سب سے اپنے بارے میں جھوٹ کیوں بولا، لیکن یہ بات اس کی موت کے بعد معلوم ہوئی کہ اس نے اپنے بے سہارا ہونے کے بارے میں جو کہانی سنائی تھی، وہ غلط تھی۔ وہ ایک انتہائی ماڈرن سوسائٹی گرل تھی۔ بڑے بڑے لوگوں سے اس کے تعلقات تھے۔‘‘
’’گویا وہ دولت مند تھی؟‘‘
’’ہاں! وہ دولت مند تھی۔‘‘ نعمان نے جواب دیا۔ ’’مگر یہ حقیقت بھی اس کے انتقال کے بعد معلوم ہوئی تھی۔‘‘
’’اس کے قتل کا الزام آپ پر کیوں آیا؟‘‘
’’اس لئے کہ پولیس کو کوئی اور قربانی کا بکرا نہیں مل سکا تھا۔ میں نے اس کے قاتل کو بھاگتے ہوئے پکڑ بھی لیا تھا، اس کی صورت بھی دیکھ لی تھی اور آج بھی وہ میرے سامنے آجائے تو میں اسے فوراً پہچان لوں گا لیکن پولیس کو میرے اس بیان پر یقین نہیں آیا۔ بہرحال عدالت میں میری بے گناہی ثابت ہوگئی اور مجھے بری کردیا گیا اور حقیقت بھی یہی ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے میں نے ہرگز اسے قتل نہیں کیا تھا۔‘‘
’’بے گناہ تھے تو پھر آپ کو مجھ سے یہ بات چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’میں ابھی بتاچکا ہوں کہ مجھے ڈر تھا کہ اس بات سے واقف ہوکر تم مجھ سے شادی نہیں کرو گی اور میں تم سے اس قدر محبت کرتا ہوں کہ اب تمہارے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔‘‘
’’کچھ بھی سہی، آپ نے مجھ سے یہ بات چھپا کر اچھا نہیں کیا۔‘‘ سمیرا افسردہ نظر آنے لگی۔ ’’اس سے میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے اور اب میرا دل مجھ سے یہ سوال کررہا ہے کہ کہیں میں نے آپ سے شادی کرکے غلطی تو نہیں کی؟‘‘
’’کاش! میں تمہیں اپنا دل کھول کر دکھا سکتا۔‘‘
’’میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں۔ سردست آپ مجھے تنہا چھوڑ دیں، ممکن ہے کچھ دیر سکون سے اس مسئلے پر غور کرکے میں اپنے آپ کو سنبھال لوں۔‘‘
٭…٭…٭
پولیس اسٹیشن میں انسپکٹر عارف اور انسپکٹر خاور بڑی اہم گفتگو میں مصروف تھے۔
’’تم نے بڑے دلچسپ انکشافات کئے ہیں۔‘‘ عارف نے کہا۔ ’’تو گویا یہ شخص نعمان ایک شادی پہلے بھی کرچکا ہے اور اس پر اپنی بیوی کو قتل کرنے کے الزام کا مقدمہ بھی چل چکا ہے۔ اس کی پہلی بیوی بھی دولت مند تھی تو ظاہر ہے کہ اس کے مرنے کے بعد وہ دولت نعمان کے قبضے میں آگئی ہوگی۔‘‘
’’میری معلومات تو یہی ہیں۔‘‘
’’اور… اب اس نے پہلی بیوی کے انتقال کے ایک ماہ کے اندر ہی دوسری شادی کرلی اور وہ بھی ایک دولت مند لڑکی سے!‘‘
’’جس پر تمہارے بقول دو قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔‘‘
’’اس سے تو یہی شبہ ہوتا ہے کہ پہلا قتل بھی اسی نے کیا تھا اور اب وہ دوسری کو بھی ٹھکانے لگانا چاہتا ہے۔‘‘
’’کیا تم اسے گرفتار نہیں کرسکتے؟‘‘ خاور نے پوچھا۔
’’نہیں! دونوں واقعات کا کوئی ایسا ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ میں اس پر ہاتھ ڈال سکوں۔‘‘
’’اگر یہ لڑکی بھی قتل ہوگئی تو مجھے اس کا بڑا افسوس ہوگا۔‘‘
’’اس کا علاج تو کیا جاسکتا ہے۔‘‘ عارف نے کہا۔ ’’میں سمیرا کی نگرانی اور حفاظت کے لئے کچھ خفیہ آدمی لگا دوں گا۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ یہ کام میں بہتر کرسکوں گا۔‘‘ خاور نے کہا۔ ’’میں یہاں آیا تو تفریح کے لئے تھا، مگر نعمان کے ہاتھوں میں دوبارہ ہتھکڑیاں ڈال کر مجھے زیادہ خوشی ہوگی۔‘‘
’’تب پھر ٹھیک ہے۔ تم اس کی نگرانی کرو۔ مجھ سے جب اور جس قسم کی مدد چاہئے، میں حاضر ہوں۔‘‘
’’سب سے پہلے مجھے یہ بتائو کہ یہ دونوں رہتے کہاں ہیں؟‘‘ خاور نے کہا۔ ’’سمیرا کے بھائی کے گھر کا پتا بھی نوٹ کرا دو اور اب تک تم نے جتنی تحقیقات کی ہے، اس کے بارے میں بھی بتا دو۔‘‘
٭…٭…٭
وہ رات نعمان کے لئے بڑی اضطراب انگیز تھی۔ شادی کے بعد سمیرا پہلی مرتبہ الگ سوئی تھی لیکن دوسری صبح طلوع ہوتے ہی پریشانی کے بادل بظاہر چھٹتے نظر آنے لگے۔ سمیرا نے صبح اٹھ کر حسبِ معمول ناشتہ تیار کیا، پھر ناشتے کی میز پر اس نے چائے کی پیالی نعمان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے آپ کی محبت پر اعتماد ہے۔ میری سمجھ میں آچکا ہے کہ جو کچھ ہوا، وہ ایک اتفاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم ان باتوں کو فراموش کردیں۔‘‘
’’خدا کا شکر ہے کہ تمہاری غلط فہمی دور ہوگئی۔‘‘ نعمان نے اطمینان کی سانس لی۔ ’’لیکن تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا، میں اسے محض اتفاق نہیں سمجھتا۔ ضرور کوئی تمہاری جان کا دشمن ہوگیا ہے، اس لئے تمہیں آئندہ پوری احتیاط سے کام لینا ہوگا۔‘‘
’’چھوڑیئے اس موضوع کو! آیئے کہیں گھومنے چلیں۔‘‘ سمیرا نے چائے کی پیالی خالی کرتے ہوئے کہا۔
ناشتے کے بعد وہ دونوں سیر وتفریح کے لئے نکل گئے۔ دوپہر کا کھانا انہوں نے ایک ہوٹل میں کھایا پھر سمیرا، نعمان کو اپنی دو تین سہیلیوں سے ملانے لے گئی۔ ایک سہیلی نے ان دونوں کو رات کے کھانے کے لئے روک لیا۔ اس طرح جب وہ گھر واپس آئے تو رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ دونوں کافی تھکے ہوئے تھے۔ لباس تبدیل کرکے سونے کے لئے لیٹ گئے۔ سمیرا کو فوراً نیند آگئی مگر نعمان جاگتا رہا۔ اسے دو تین دنوں سے شبہ سا ہونے لگا تھا کہ کوئی مستقل اس کے اور سمیرا کے تعاقب میں ہے۔ وہ اپنے ذہن میں شمائلہ سے لے کر سمیرا تک پیش آنے والے واقعات پر غور کررہا تھا۔ سوچتے سوچتے اس نے کروٹ بدلی۔ ڈبل بیڈ پر اس سے چند انچ کے فاصلے پر سمیرا گہری نیند سو رہی تھی۔ سوتے میں اس کا خوبصورت چہرہ مزید حسین لگ رہا تھا۔
اچانک نعمان بے اختیار چونک گیا۔ جلدی سے اٹھا، کچھ سوچا، سرہانے چھوٹی میز پر رکھا ہوا رومال اٹھایا، سمیرا کی طرف گھوما۔ اب اس کا ہاتھ آہستہ آہستہ سمیرا کے سینے اور گردن کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہاتھ گردن سے تھوڑے فاصلے پر تھا کہ سمیرا نے ایک دم آنکھیں کھول دیں۔ اسے ایسا معلوم ہوا جیسے نعمان اس کا گلا گھونٹنے والا ہو۔ وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ نعمان نے جلدی سے اس چادر کو جھٹکا دیا جو سمیرا نے اوڑھ رکھی تھی۔
’’یہ… یہ آپ کیا کررہے تھے؟‘‘ سمیرا نے خوف زدہ سے لہجے میں کہا۔
’’ایک چھپکلی کا بچہ تمہارے سینے پر رینگ رہا تھا۔ میں اسے بھگانے کی کوشش کررہا تھا۔‘‘ نعمان نے سادگی سے کہا۔
’’آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ آپ سوتے میں میرا گلا گھونٹ کر مجھے مارنا چاہتے تھے۔‘‘
’’کیسی باتیں کررہی ہو؟‘‘ نعمان نے حیرت سے کہا۔ ’’تمہارے ایک دَم اُٹھنے سے چھپکلی کا بچہ چادر پر گر پڑا اور میں نے چادر جھٹک کر اسے زمین پر گرا دیا۔ اس طرح وہ غائب نہ ہوگیا ہوتا تو میں تمہیں دکھا دیتا۔‘‘
’’اب میں تمہاری باتوں کے فریب میں نہیں آئوں گی۔‘‘ سمیرا پلنگ سے اتر آئی۔ ’’مجھے اب
تک یقین نہیں تھا مگر آنکھوں دیکھی حقیقت کو کوئی کیسے جھٹلا سکتا ہے۔ آپ نے شمائلہ سے دولت کے لئے شادی کی اور اسے قتل کردیا، پھر آپ نے دولت کی خاطر ہی مجھ سے شادی کی۔ آپ کی بدنیتی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے مجھ سے پہلی شادی کی بات چھپائی اور اب آپ مجھے مار کر میری دولت پر بھی قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے تین مرتبہ آپ کے حملوں سے میری جان بچائی مگر اب میں مزید کوئی خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ میں ابھی اور اسی وقت بھائی جان کے گھر واپس جارہی ہوں۔ بہتر ہوگا کہ آپ کل تک مجھے طلاق دے دیں، ورنہ میں عدالت میں آپ سے خلع حاصل کرنے کی درخواست دائر کردوں گی۔‘‘
نعمان نے ایک گہری سانس خارج کی۔ وہ بے حد افسردہ، مضمحل اور تھکا ہوا نظر آرہا تھا۔
’’بہتر ہے تم جو مناسب سمجھو کرو۔‘‘ وہ بولا۔ ’’ظاہر ہے کہ اپنی صفائی پیش کرنے کی میری ہر کوشش بیکار ثابت ہوگی لیکن میری درخواست ہے کہ تم اس وقت گھر سے باہر مت نکلو۔ کسی دوسرے کمرے میں جہاں خود کو محفوظ خیال کرو، جاکر سو جائو، صبح اپنے بھائی کے گھر چلی جانا۔‘‘
’’ہرگز نہیں! یہاں ہر لمحہ میں خود کو خطرے میں گھری محسوس کررہی ہوں۔‘‘ سمیرا نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ ’’اور… اب اس گھر میں ایک منٹ بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ سردست میں خالی ہاتھ جارہی ہوں، کل کسی کو بھیج کر اپنا سامان منگوا لوں گی۔‘‘
’’جب تم فیصلہ کر ہی چکی ہو تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ جو تمہارا جی چاہے کرو۔‘‘ نعمان نے مایوسی سے کہا۔
سمیرا اٹھی، لباس تبدیل کیا، گیراج سے اپنی کار نکالی اور روانہ ہوگئی۔ اسے جاتے ہوئے انسپکٹر خاور کے علاوہ کچھ ایسی آنکھوں نے بھی دیکھا جن کے وجود کا خود انسپکٹر خاور کو بھی علم نہیں تھا۔
٭…٭…٭
نعمان، سمیرا کے جانے کے بعد ایک کرسی پر بیٹھا مسلسل سگریٹ پھونک رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس صورتحال میں کیا کرے۔ اچانک فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ نعمان نے جلدی سے ریسیور اٹھا لیا۔
’’مسٹر نعمان عادل…؟‘‘ دوسری جانب سے کسی اجنبی کی آواز نے استفساریہ کہا۔
’’یس اٹ از!‘‘
’’آپ کی بیوی سمیرا کی زندگی خطرے میں ہے۔ اسے بچانا چاہتے ہیں تو فوراً اس کے بھائی کے گھر پر پہنچیں۔‘‘
’’تم کون ہو؟ اور تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سمیرا اس وقت اپنے بھائی کے گھر ہوگی؟‘‘
’’میرا کام آپ کو آگاہ کرنا تھا، سو کردیا۔ خداحافظ!‘‘ جواب ملا اور ریسیور خاموش ہوگیا۔
نعمان نے جلدی سے لباس تبدیل کیا، اپنا سروس ریوالور کوٹ کی جیب میں ڈالا، گھر کا دروازہ مقفل کرتے ہوئے باہر نکلا اور اختر کے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ انسپکٹر خاور اپنی جیپ میں اس کے پیچھے تھا۔
٭…٭…٭
سمیرا، اپنے بھائی اختر کے گھر پہنچی تو ملازم نے بتایا کہ صاحب گھر پر نہیں ہیں۔ کسی دعوت میں جانے کے لئے کہہ کر گئے تھے، ابھی تک واپس نہیں آئے۔ سمیرا نے کوئی خاص تردد نہیں کیا۔ نعمان کے گھر سے نکل کر وہ خود کو محفوظ خیال کررہی تھی۔ وہ سیدھی اپنے کمرے میں گئی اور دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ سمیرا بستر پر لیٹنے کا ارادہ کر ہی رہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ اسے شک ہوا کہ شاید فون نعمان کا ہوگا۔ اس وقت وہ اس سے کوئی بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اس نے ریسیور نہیں اٹھایا مگر جب گھنٹی لگاتار بجتی گئی تو اسے مجبوراً ہاتھ بڑھانا پڑا۔
’’ہیلو کون ہے…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں انسپکٹر عارف بات کررہا ہوں۔‘‘ دوسری طرف سے جواب ملا۔ ’’تم نے نعمان کے گھر سے نکل کر سخت غلطی کی ہے۔ تمہیں سوچنا چاہئے تھا کہ وہ اپنے گھر میں تمہارا خون نہیں کرسکتا، اس طرح الزم براہ راست اسی پر آتا اور اس بار وہ عدالت سے شبے کا فائدہ اٹھا کر بری نہیں ہوسکتا تھا اس لئے اس نے تمہیں خوف زدہ کرکے گھر سے بھگا دیا۔ میں دو دن سے مسلسل تمہاری نگرانی کررہا ہوں اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس نے تمہارے کمرے میں ایک ٹائم بم چھپا رکھا ہے۔ وہ جانتاتھا کہ اس کے گھر سے نکل کر تم اختر کے گھر جائو گی اور ظاہر ہے کہ تم اسی کمرے میں ٹھہرو گی۔ مجھے اس ٹائم بم کا وقت نہیں معلوم مگر وہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔‘‘
سمیرا بری طرح خوف زدہ ہوگئی۔
’’پھ… پھر! میں کیا کروں انسپکٹر!‘‘ اس نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’فوراً یہ گھر چھوڑ دو۔ بم پھٹے گا تو گھر کا کوئی گوشہ تمہارے لئے محفوظ نہیں ہوگا۔‘‘
’’لیکن یہاں سے نکل کر میں اتنی رات گئے کہاں جائوں۔‘‘
’’اختر کے گھر کی عقبی گلی میں فٹ پاتھ پر انتظار کرو، میں اپنے ایک نائب کو جیپ کے ساتھ بھیج رہا ہوں، وہ تمہیں پولیس اسٹیشن لے آئے گا۔ پھر تم چاہو تو رات یہاں گزار لینا۔ میں کسی ہوٹل میں تمہارے قیام کا بندوبست کردوں گا۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ انسپکٹر صاحب! آپ نے میری جان بچا لی۔ میں ابھی یہاں سے نکلتی ہوں۔ جیپ آنے میں اندازاً کتنی دیر لگے گی؟‘‘
’’زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ … اچھا خداحافظ!‘‘ اور ریسیور خاموش ہوگیا۔
٭…٭…٭
سمیرا اتنی خوف زدہ تھی کہ وہ یہ سوچے بغیر نکل آئی کہ اسے مکان کی عقبی گلی کے فٹ پاتھ پر انتظار کرنے کو کیوں کہا گیا۔ ابھی اسے فٹ پاتھ پر کھڑے تین چار منٹ ہی گزرے تھے کہ نیم تاریکی میں اچانک ایک سائے نے نکل کر پیچھے سے اس کی گردن دبوچ لی۔
انسپکٹر خاور، اختر کے مکان تک نعمان کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ نعمان نے گھر میں گھسنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس نے کچھ دیر دروازے کے سامنے رک کر مین روڈ کا جائزہ لیا اور پھر ایک سائیڈ اسٹریٹ میں داخل ہوکر مکان کے عقبی جانب چل دیا۔ انسپکٹر خاور اس سے دس قدم پیچھے تھا۔ وہ اگر پانچ منٹ پہلے پہنچا ہوتا تو اس وقت سمیرا کو گھر سے نکلتے دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتا، مگر سمیرا اس کے آنے سے قبل ہی پچھلی گلی میں پہنچ چکی تھی۔
گلی میں قدم رکھتے ہی انسپکٹر خاور نے ایک سائے کو کسی عورت پر جھپٹتے دیکھا، اسے حیرت ہوئی مگر وہ سمجھ گیا کہ یہ عورت سمیرا کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتی، لیکن وہ اس وقت عقبی گلی میں کھڑی کیا کررہی ہے، یہ بات خاور کی سمجھ میں نہیں آئی۔ اس سائے کے بارے میں اسے یقین تھا کہ وہ نعمان ہوگا لیکن دوسرے ہی لمحے جب اس نے ایک مکان کی آڑ سے نعمان کو نکل کر اس حملہ آور پر ٹوٹتے دیکھا تو وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے دیکھا کہ سمیرا بے ہوش ہوکر فٹ پاتھ پر گر پڑی ہے اور وہ سایہ اسے چھوڑ کر نعمان سے لپٹ گیا۔ خاور تیزی سے آگے بڑھا۔ اب سائے کے ہاتھ میں ریوالور نظر آرہا تھا۔ اس نے ریوالور کا دستہ نعمان کے سر پر مارا۔ نعمان ایک لمحے کے لئے لڑکھڑایا اور سایہ اس کی گرفت سے نکل کر دوسرا وار کرنا چاہتا تھا کہ خاور نے للکارا۔ ’’خبردار پولیس…!‘‘
پولیس کا لفظ سنتے ہی وہ سایہ خاور کی طرف گھوما۔ ایک پل کے لئے گلی میں لگے بجلی کے بلب کی روشنی اس کے چہرے پر پڑی تو خاور چونک گیا۔ وہ شخص راجن سنگھ تھا، جس کے بارے میں انسپکٹر خاور کو معلوم تھا کہ وہ اسمگلنگ اور دوسری مجرمانہ سرگرمیوں میں تو ملوث ہے ہی، ساتھ اس پر ملک دشمن ایجنٹ ہونے کا بھی شبہ تھا۔
راجن نے بھی انسپکٹر خاور کو دیکھ لیا اور فوراً ہی فائر کردیا۔ خاور فوراً جھک نہ جاتا تو گولی اس کی پیشانی میں دھنس جاتی۔ اس نے پھرتی سے اپنا ریوالور نکال لیا۔
’’خود کو پولیس کے حوالے کردو راجن سنگھ! میں تمہیں پہچان چکا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ جواب میں راجن نے ایک اور فائر کردیا اور پلٹ کر بھاگا۔ پولیس کو ابھی تک راجن کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا تھا۔ اس وقت اسے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا مطلب یہ تھا کہ راجن کو کوئی ہوشیار سے ہوشیار وکیل بھی نہیں بچا سکتا تھا۔ خاور یہ موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا تھا۔
’’رک جائو راجن…! ورنہ میں گولی چلا دوں گا۔‘‘ وہ چیخا مگر راجن بھاگتا رہا۔ خاور نے اس کی ٹانگوں کا نشانہ لیتے ہوئے ٹرائیگر دبا دیا۔ ایک بار نہیں دو بار اسی لمحے نامعلوم کس چیز سے راجن کو ٹھوکر لگی۔ وہ لڑکھڑا کر گرنے لگا اور گولیاں پیروں کے بجائے اس کی پشت میں پیوست ہوگئیں۔ وہ فٹ پاتھ پر منہ کے بل گر پڑا۔ خاور بھاگ کر اس کے پاس پہنچا۔ راجن آخری سانسیں لے رہا تھا۔
’’تم سمیرا کو کیوں مارنا چاہتے تھے؟‘‘ خاور نے اس کی حالت دیکھ کر جلدی سے پوچھا۔
اتنی دیر میں نعمان بھی ایک ہاتھ سے اپنا سر پکڑے ہوئے سمیرا کو دیکھ کر اطمینان کرنے کے بعد کہ وہ صرف بے ہوش ہے، قریب آچکا تھا۔
’’انسپکٹر نعمان نے… مجھے اور میری سرگرمیوں کو… ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔‘‘ راجن اٹکتی سانسوں کے درمیان بولا۔ ’’میں نے اسے کئی بار مارنے کی کوشش کی تھی مگر وہ ہر بار بچ نکلا… مجبور ہوکر … میں نے اپنی ساتھی کو… اس کے پیچھے لگا دیا۔ شمائلہ نے اسے ختم کرنے کے لئے اس سے شادی کرلی مگر خدا جانے کیسے نعمان کو شمائلہ کے ارادوں کا علم ہوگیا… اس نے شمائلہ کو قتل کردیا۔ پولیس نے اسے گرفتار کرلیا، مگر وہ شبے کا فائدہ اٹھا کر آزاد ہوگیا۔ تب سے میں اور میرے ساتھی اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ اس نے سمیرا سے شادی کرلی۔ میں نے سوچا کہ اگر میں سمیرا کو قتل کردوں تو اس بار نعمان دنیا کی کسی عدالت سے نہیں بچ سکے گا۔‘‘
’’تو سمیرا کو پہاڑی پر سے دھکا دینے والے تم تھے؟‘‘ انسپکٹر خاور نے پوچھا۔
’’ہاں…! میں نے ہی ریسٹورنٹ میں اس کی کافی کے گلاس میں اس وقت زہر کی گولیاں ڈال دیں جب کافی کی ٹرے کچن کے کائونٹر پر رکھی تھی اور ابھی ویٹر اسے اٹھانے نہیں آیا تھا۔ میں نے سوچا زہریلی کافی کوئی بھی پیئے، میرا مقصد بہرحال حاصل ہوجائے گا مگر خدا جانے کون سی طاقت ان کی حفاظت کررہی تھی کہ وہ دونوں بچ نکلے لیکن پولیس کو نعمان پر کچھ نہ کچھ شبہ ضرور ہوگیا۔ پھر میں نے… آج کی رات سمیرا کو نعمان کے گھر سے نکل کر اختر کے گھر جاتے دیکھا تو فون کرکے سمیرا کو بتایا کہ اس کے کمرے میں بم رکھا ہوا ہے۔ وہ گھبرا کر باہر نکل آئی۔ نعمان کو میں پہلے ہی فون کرچکا تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا انسپکٹر کہ تم بھی میری نگرانی کررہے ہو۔ میں نے سوچا تھا کہ میں سمیرا کو گلا گھونٹ کر مار دوں گا پھر نعمان آئے گا تو وہ سمیرا کو اسپتال لے جائے گا یا پھر گھر! مگر دونوں صورتوں میں پولیس اسے چھوڑنے والی نہیں تھی۔‘‘
’’آپ اسے کسی اسپتال لے جانے کا بندوبست کیوں نہیں کرتے؟‘‘ نعمان نے کہا۔ ’’ممکن ہے اس کی جان بچ جائے۔‘‘
’’سمیرا کیسی ہے؟‘‘ خاور نے پوچھا۔
’’وہ ٹھیک ہے صرف خوف سے بے ہوش ہوگئی ہے۔‘‘
’’تم اسے گھر لے جاکر کسی ڈاکٹر کو فون کرو، میں راجن کو اپنی جیپ میں اسپتال لے جانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
مگر اس وقت سمیرا کو بھی ہوش آگیا۔ وہ نعمان کو وہاں دیکھ کر ڈر گئی، مگر خاور نے اسے اصل حقیقت سے آگاہ کیا۔ ’’مجھے اور تمہیں شدید غلط فہمی ہوئی تھی مسز نعمان!‘‘ اس نے کہا۔ ’’تمہیں مارنے کی کوشش کرنے والا کوئی اور تھا۔‘‘ اور پھر اسے مختصر الفاظ میں راجن سنگھ کے اعتراف جرم کے بارے میں بتایا۔
سمیرا حیرت اور پچھتاوے کے ملے جلے جذبات تلے خاموش تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے اور کن الفاظ میں نعمان سے معافی مانگے۔ نعمان اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا۔ اس نے ہمدردی سے کہا کہ ’’سردست وہ گھر چل کر آرام کرے، باتیں پھر بھی ہوسکتی ہیں۔‘‘ لہٰذا وہ سمیرا کو سہارا دیتے ہوئے چل دیا۔
خاور اپنی جیپ لانے کے لئے ان کے ساتھ تھا۔ جیسے ہی وہ سائیڈ اسٹریٹ سے نکل کر مین روڈ پر آئے، انہوں نے ایک کار کو مکان کے سامنے رکتے دیکھا۔ سمیرا نے کار سے اختر کو اترتے دیکھا مگر نعمان کی آنکھیں اسے دیکھتے ہی حیرت سے پھیل گئیں۔ وہ سمیرا کا بازو چھوڑ کر اختر کی طرف لپکا۔
اختر نے اسے آتے دیکھا تو وہ پتھر کے کسی مجسمے کی طرح ساکت و جامد ہوگیا۔ نعمان نے اختر کو پکڑ لیا اور خاور کی طرف دیکھ کر چلاّیا۔ ’’انسپکٹر خاور…! یہی وہ آدمی ہے جسے میں نے اس رات جس رات شمائلہ قتل ہوئی تھی، اپنے بنگلے کے بیرونی زینے سے اتر کر بھاگتے ہوئے پکڑا تھا۔ میں نے اگرچہ ایک پل کے لئے اس کی صورت دیکھی تھی، مگر اس کے نقوش میرے ذہن میں ثبت ہوچکے تھے۔ میں اسے ہزاروں لوگوں میں پہچان سکتا ہوں۔ یہی شمائلہ کا قاتل ہے اور ریوالور بھی اسی کا تھا۔‘‘
اختر اچانک نعمان کو اپنے سامنے دیکھ کراس قدر سکتے میں آگیا کہ بھاگنے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی نہیں بھاگ سکا۔ پھر نعمان کے دھماکا خیز انکشاف نے اسے بالکل ہی بوکھلا دیا۔ جیسے ہی انسپکٹر خاور نے اس کی کلائی پر ہاتھ ڈالا، اس کا حوصلہ بالکل جواب دے گیا۔ جب خاور نے دھمکی آمیز لہجے میں اس سے بازپرس کی تو وہ بے اختیار اپنے جرم کا اقبال کر بیٹھا۔ معلوم ہوا کہ وہ شمائلہ سے شدید محبت کرتا تھا۔ جب تک شمائلہ اس کے بقول دوسرے لوگوں سے نفرت کرتی رہی، تب تک اسے توقع رہی کہ شاید کسی دن وہ اس کی سچی محبت کے سامنے پگھل جائے، مگر جب اس نے نعمان سے شادی کرلی تو اختر خود پر قابو نہ رکھ سکا اور شمائلہ کو ختم کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہنے لگا۔
واقعے کی رات کو اسے بنگلے میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔ وہ مسلسل نگرانی سے یہ جان چکا تھا کہ شمائلہ اور نعمان بالائی منزل کے بیڈ روم میں سوتے ہیں۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ نعمان گھر میں نہیں ہے، چنانچہ وہ بیرونی زینے سے سیدھا اوپر پہنچا۔ شمائلہ بستر پر سو رہی تھی۔ اختر نے گھر کے دروازے سے ہی نشانہ لیتے ہوئے تین فائر کئے اور پھر پلٹ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اگر اتفاق سے نعمان واپس نہ آگیا ہوتا تو وہ ضرور نکل بھاگتا، مگر نعمان نے اسے راستے میں پکڑ لیا اور نہ صرف اس سے ریوالور چھین لیا بلکہ اس کی صورت بھی دیکھ لی۔
خدا جانے کس طرح عزیر اس راز سے واقف ہوگیا۔ اس نے اختر کو بلیک میل کرکے سمیرا سے شادی کرنا چاہی۔ اختر مجبور تھا مگر سمیرا نے نعمان سے شادی کرلی اور عزیر ہاتھ ملتا رہ گیا۔ اختر، نعمان کے سامنے اس لئے نہیں آنا چاہتا تھا کہ وہ ڈرتا تھا کہ وہ اسے پہچان لے گا۔
اختر کے اعتراف جرم کے بعد خاور جیپ لے کر پچھلی گلی میں گیا مگر تب تک راجن ختم ہوچکا تھا۔ مجبوراً خاور نے انسپکٹر عارف کو فون کرکے صورتحال بتائی۔ کچھ ہی دیر میں عارف ایک ایمبولینس اور کچھ کانسٹیبل لے کر اختر کے بنگلے پر پہنچ گیا اور راجن کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئے بھیج دی۔ اختر کو گرفتار کرکے حوالات پہنچا دیا گیا، جبکہ انسپکٹر خاور نے چلنے سے پہلے نعمان سے معذرت کی کہ وہ اب تک اسے مجرم اور شمائلہ کا قاتل سمجھتا رہا۔ نعمان نے دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ اس کا کاندھا تھپکتے ہوئے فقط اتنا کہا۔ ’’کوئی بات نہیں، تم اپنا فرض نبھا رہے تھے، میرے ساتھ دشمنی نہیں…!‘‘
سمیرا اب تک گہری شرمندگی اور ندامت کے احساس سے بالکل خاموش تھی۔ اب جو نعمان نے پلٹ کر اسے مخاطب کیا تو وہ اپنا ضبط کھو بیٹھی۔
’’کہئے محترمہ!‘‘ نعمان نے کہا۔ ’’میرے ساتھ اپنے گھر چلیں گی یا بھائی کے گھر پناہ لیں گی؟‘‘
’’میں تو آپ سے معافی مانگنے کے قابل بھی نہیں ہوں۔‘‘ وہ رو پڑی تھی۔ ’’اس لئے آپ مجھے چھوڑ بھی دیں گے تب بھی کوئی گلہ نہیں ہوگا۔ فیصلہ مجھے نہیں آپ کو کرنا ہے۔‘‘
’’غلطی میری تھی، نہ تمہاری! یکایک حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے تھے۔‘‘ نعمان نے کہتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’میں تم سے محبت کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا… سچی محبت کا تقاضا یہی ہے کہ پچھلی تلخ باتوں کو بھول جائیں اور ایک نئی پراعتماد زندگی کی ابتدا کی جائے، بغیر کسی شک و شبے کے… چلیں میرے ساتھ!‘‘
سمیرا اپنے آنسو پونچھتی ہوئی اس کے ساتھ چل پڑی۔
(ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS